محمد سلمان بجنوری

            ماہ نامہ دارالعلوم کی جلد نمبر ۱۰۲کا پہلاشمارہ پیش خدمت ہے، اب سے ایک سال قبل، جب دسمبر ۲۰۱۶÷ میں اس کوتاہ قلم کے ہاتھ سے پہلا اداریہ وجود میں آیا تھا، دارالعلوم دیوبند کی قلمی وصحافتی خدمات یا دارالعلوم سے شائع ہونے والے رسائل ومجلات کی مختصرتاریخ پیش کرتے ہوئے تحریر وصحافت کے مقاصد پر بھی مختصر روشنی ڈالی گئی تھی، اب ایک بار پھر یہ داعیہ ہے کہ اسی انداز پر ذرامختلف اور وسیع تناظر میں چند گذارشات پیش کردی جائیں۔

اگرچہ حال ہی میں ملک وبیرون ملک پیش آنے والے بہت سے واقعات اس کے متقاضی ہیں کہ ان پر کچھ نہ کچھ لکھاجائے، بالخصوص طلاق ثلاثہ کے عنوان سے ہمارے ملک میں جو ایک کثیرالمقاصد، طویل مدتی نظریاتی وسیاسی جنگ چھیڑی گئی ہے اور اس کے ذریعہ ملت اسلامیہ ہندیہ کو شدید مخمصے میں مبتلا کیاگیا ہے، وہ بلاشبہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے، اس کے لیے متعلقہ ادارے اور شخصیات فکرمند بھی ہیں اور سرگرم بھی اوراس کے باوجود ان جیسے مسائل میں مزید دوراندیشی، تدبر اور جاں کاہی سے کام کرنے کی ضرورت باقی ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ ’’اوروں کی عیاری‘‘ کو سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والی تمام شخصیات، پورے اخلاص اور سوز دروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔

            عرض یہ کرنا تھا کہ یہ اور ان جیسے بہت سے مسائل کا تقاضا ہے کہ ان پر اظہارِ خیال کیا جائے اور غیروں کی سازشوں کو طشت از بام کیا جائے؛ لیکن بات یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کو ملکی یا عالمی سطح پر درپیش تمام مسائل ومشکلات میں تثلیث کے فرزندوں اور اُن کے موکلوں یا نمائندوں کی سازشوں اور کارستانیوں سے واقفیت اور اُن کے تمام تر اعتراف کے باوجود ہمارا خیال یہی ہے کہ اس میں بنیادی کردار اپنوں کی کوتاہی یا مسلموں کی مسلم آزاری کا ہے اور حالات کو سدھارنے کا عمل، اپنی اور اپنوں کی اصلاح سے ہی شروع ہوگا، اس پر پوری توجہ کیے بغیر حالات کو سدھارنے کا تصور اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کے مرادف ہوگا۔ اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کی سنجیدہ کوشش کے بعد ہی دوسروں کی سازشوں کو ناکام بنانے کا منصوبہ عمل میںآسکتا ہے اور کامیاب ہوسکتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مضبوط چھت موسلادھار بارش کا بھی مقابلہ کرلیتی ہے؛ جب کہ کمزور چھپر، ہلکی سی بارش میں بھی ٹپکنے لگتا ہے۔

            یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اپنی کمزوریوں کو دور کرنے اور اپنے حالات کی اصلاح کا یہ عمل کسی نہ کسی درجے میں آج بھی جاری ہے اوراس خیرامت کا کوئی دن اس کے بغیر گذر بھی نہیں سکتا؛ لیکن اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی مریض کو بہت سارے امراض لاحق ہوں اور وہ اپنا مکمل ٹیسٹ کراکر صحیح علاج کرنے کے بجائے حسب موقع، بغیر کسی نظام کے، کبھی کسی مرض کی دوا استعمال کرلے اور کبھی کسی کی۔ یا جس مرض کا معالج اسے دستیاب ہوجائے اس سے وقتی علاج کراتا رہے۔ ظاہر ہے ایسے مریض کی شفاء یابی، مشکل ہوتی ہے۔ بالکل یہی حال اس امت کا ہے، جس کے علماء ومشائخ یا دانشوران وقائدین کی تمام تر کوششیں بس کسی طرح اس کی گاڑی کو چلارہی ہیں؛ لیکن اس کو مطلوبہ رفتار پر لاکر منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے اور زیادہ منصوبہ بندی کے ساتھ عمل پیہم کی ضرورت ہے، اس لیے کہ۔؎

یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

            اس مقصد کے لیے ایک ہمہ گیر تربیتی اور دعوتی عمل وجود میں آنا ضروری ہے، جس پر تفصیلی گفتگو تو اس مختصر تحریر میں ناممکن ہے؛ البتہ نہایت اختصار کے ساتھ اس کو تین نکات میں سمیٹا جاسکتا ہے۔

            ۱-         تعلیمی میدان کی جدوجہد

            ۲-        کردارسازی اور تربیت پر محنت

            ۳-        تحریری خدمات

            گویا دوسرے الفاظ میں ہماری خاص محنت ان تینوں میدانوں میں بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ فوری طور پر ضروری ہے۔

            جہاں تک تعلیمی میدان کی بات ہے تو اس میں سب سے اہم دو باتیں ہیں: (۱) تمام مسلم بچوں کو تعلیم گاہ تک لے آنا، (۲) ہر قسم کے تعلیمی اداروں کا معیارِ تعلیم بہتربنانا اور ان دونوں کے ساتھ ؛ بلکہ ان سے بڑھ کر ضروری بات یہ ہے کہ ہر مسلمان بچے کو دینی تعلیمات سے روشناس کرانے کا بھرپور اہتمام کیا جائے۔ اس سلسلے میں ہمیں بہت سے دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ آج بھی تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا تناسب، شرم ناک حد تک کم ہے اور جو تعلیمی ادارے چل رہے ہیں خواہ وہ ہمارے اپنے اسکول ہوں یا دینی مدارس وہ اپنے معیار تعلیم وتربیت کے اعتبار سے عام طور پر قابل فخر کیا قابل قبول بھی نہیں ہیں (اس سے بہت کم اداروں کا استثناء کیاجاسکتا ہے) اور مسلم بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کا معاملہ تو اور زیادہ کمزوری کا شکار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان سب امورپر توجہ کرتے ہوئے موجودہ تعلیمی اداروں کے معیار کوبہتر بنانے کے ساتھ ضرورت کے مقامات پر مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں کے قیام کی منصوبہ بندی کی جائے۔

            دوسرا میدان تمام مسلمانوں کی ذہنی وفکری تربیت اور کردارسازی کا ہے، اس میں پورے اخلاص وللہیت اور جاںکاہی سے محنت کی ضرورت ہے، اس لیے کہ ہمیں دنیا میں پیچھے کرنے اورہمارے لیے بے شمار مسائل پیداکرنے میں سب سے بڑا دخل ہماری عملی اور اخلاقی خرابیوں کا ہے۔ ہماری انفرادی خامیاں، اجتماعی ناکامیوں کی بنیاد بنتی ہیں اور ہم اس قدر غافل رہتے ہیں کہ اپنے زیاں کا احساس بھی نہیں ہوتا، اس مقصد کے لیے جو مشائخ ومصلحین سرگرم عمل ہیں وہ مبارک باد کے مستحق ہیں؛ لیکن ضرورت ہے کہ اس کام کی صلاحیت رکھنے والے تمام ہی لوگ اس میدان میں جدوجہد تیز کریں اور امت مسلمہ کو اخلاق وکردار کے اُس مقام پر لانے کیلیے کوشاں ہوجائیں، جس کے بغیر امت کی ترقی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

            جہاں تک تحریری خدمات کا معاملہ ہے وہ بنیادی طور پر دعوت دین اور دفاع دین کا میدان ہے اور اس میدان میں کام کی کس قدر ضرورت ہے اس کا اندازہ شاید ہم میں سے اکثر لوگوں کو نہیں ہے۔ اس کا صحیح اندازہ؛ بلکہ ہلکا سا احساس کرنے کے لیے دو باتوں پر غور فرمائیں:

            (۱)  دین سے لوگوں کی ناواقفیت: واقعہ یہ ہے کہ آج غیرمسلم تو کیا خود مسلمان بھی دین اور اس کی تعلیمات سے اس درجہ ناواقف ہیں کہ اس کا تصور مشکل ہے۔ مسلمانوں کی ناواقفیت نے تو ان کو دین پر اعتماد ویقین کی دولت سے محروم کیا ہے او روہ اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول وقائد ماننے کے سلسلے میں اطمینان ورضاء کی اس کیفیت سے بے بہرہ ہیں جس کے بغیر ایمان کا ذائقہ چکھنا ممکن نہیں ہوتا ، اور غیرمسلموں کی ناواقفیت اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ وہ دین اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں موٹی موٹی باتیں بھی نہیں جانتے جس کی وجہ سے وہ  الناس أعداء لما جہلوا  کا مصداق بنے ہوئے ہیں، اسی لیے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ہر غلط بات پر وہ یقین کرلیتے ہیں اور ہر منفی پروپیگنڈہ کا شکارہوکر اسلام سے مزید دور ہوجاتے ہیں۔

            (۲) اسلام مخالف مہم: یہ دوسرا پہلو ہے، جس کی تفصیلات بہت بھیانک ہیں، دنیا میں آج اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کے لیے قدیم طریقوں کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ کا جس منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال ہورہا ہے اس نے ایک سیلاب یاطوفان کی شکل اختیار کرلی ہے جس سے واقفیت ایک فکرمند مسلمان کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہے۔

            ان دونوں پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ہمیں تحریری خدمت کے میدان میں پوری تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ اترنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے فضلاء کی تربیت کا نظام بنایا جائے، ان کو موضوعات دے کر کام کرایا جائے اوران کے کام کی اشاعت کا انتظام کیا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ ہوگا کہ ہمارا تحریری کام، موجودہ سائنسی دور کے مادیت زدہ انسان کی نفسیات کو سامنے رکھ کر ہونا چاہیے، ہمیں جو کچھ پیش کرنا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ہمارا دین اور اس کی تفصیلات سب طے شدہ ہیں، ضرورت صرف یہ ہے کہ ان کو عصری ضرورت کے مطابق، عصری نفسیات کی رعایت کے ساتھ عصری اسلوب میں پیش کیاجائے۔

            یہ کام ہمارے برصغیر کے اداروں میں بنیادی طور پر اردو میں ہوگا؛ لیکن انگریزی، عربی، ہندی اور دیگر عالمی یا علاقائی زبانوں میں اس کے ترجمہ کا انتظام کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے اس کے لیے افراد کی تیاری یا تیار افراد سے رابطہ، پہلا قدم ہوگا، پھر آگے کام ہوگا۔

            یہاں اپنے فضلائے مدارس کو اس امر پر بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ جب تک منصوبہ بندی کے یہ خاکے عملی شکل اختیار کریں اس وقت تک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھنا ہے؛ بلکہ اپنی اپنی صلاحیتوں کو ان مقاصد کے لیے مسلسل استعمال کرتے رہنا ہے کہ ہماری انفرادی کوششیں بھی، ان مقاصد کے لیے کچھ کم ضروری اور مفید نہیں ہیں۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ: 1،  جلد:102‏، ربیع الثانی –جمادی الاول 1439ہجری مطابق جنوری 2018ء

٭        ٭        ٭

Related Posts