از: مولانا دبیراحمد قاسمی
اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو ایک معاشرتی اور سماجی مخلوق بنایا ہے، وہ سماج اور معاشرہ سے کٹ کر زندگی نہیں گزار سکتا۔
احتیاج ومجبوری اس کی فطرت کا خاصہ ہے؛ اس لیے وہ زندگی کے ہر موڑپر اپنے ابنائے جنس کی ضرورت محسوس کرتاہے؛ اس لیے ایک صالح انسانی معاشرے کی تشکیل کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ انسانوں کے باہمی تعلقات استواراور مستحکم ہوں۔
اسلامی تعلیمات کا اگر ہم جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام نے جس طرح انسانی رشتوں اورسماجی رابطوں کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔
اسلام نے انسانوں کے باہمی تعلقات اورسماجی رشتوں کی اہمیت پر اس قدر زوردیاہے کہ اسلام کا پورا فلسفہٴ اخلاق اسی ایک محور کے گرد گھومتا نظرآتاہے؛ چنانچہ اگر آپ اسلام کی اخلاقی تعلیمات پرایک نظر ڈالیں جس کی روح انسانوں کے ساتھ محبت وخیر خواہی ،عدل ومساوات اور انسانیت کا احترام ہے تو بخوبی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان تعلیمات کامقصد ایک ایسے صالح معاشرہ کی تشکیل ہے جس میں انسانوں کے درمیان کامل ربط واتحاد اور موافقت وہم آہنگی پائی جائے ۔ اخلاقِ حسنہ پر اگر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے توبآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کا مقصد انسانی رشتوں کا استحکام اور تحفظ ہے ۔اخلاقِ ذمیمہ مثلاًحسد، کینہ، تکبر ،غیبت وچغل خوری، قطع رحمی اور بدگمانی وغیرہ سے بھی اس لیے سختی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے کہ یہ چیزیں باہمی تعلقات اور آپسی رشتوں پر منفی اثر ڈالتی ہیں اور معاشرے میں فساد اور بگاڑ کاباعث ہوتی ہیں ۔
معاشرتی اور سماجی رشتوں کی اہمیت کے پیشِ نظر ہی رسولِ خدا …نے ارشاد فرمایا: المومن الذي یُخالِطُ الناسَ ویصبِرُ علی أذاہم خیرٌ مِنَ الموٴمنِ الذی لایُخالِطُ الناسَ ولایصبِرُ علی أذاہم ”وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرے اور ان کی طرف سے پیش آ نے والی تکالیف پرصبر کرے وہ اس مو من سے بہتر ہے جو خلوت نشینی اور دنیا سے بے تعلقی کی زندگی گذارے اور لوگوں کی تکالیف پرصبرنہ کرے“(رقم الحدیث ۳۸۳، الادب المفرد للبخاری ۴۰۳۰، ابن ماجہ ۴۸۷۵، مسند احمد)
حضرت علی کے اقوالِ حکمت میں ہمیں یہ قول بھی نظرآتاہے: ”أعجزُ الناسِ مَنْ عَجِزَعن اکتسابِ الْاخْوانِ وَأعجزُ منہ مَنْ ضَیَّعَ مَنْ ظَفِرَ بہ منہم“ نہایت کمزوراورعاجزہے وہ شخص جو کسی کواپنادوست نہ بناسکے اور اس سے بھی زیادہ عاجز وہ شخص ہے جو پرانے دوستوں سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے۔
انسانی طبیعت پرماحول کااثر
انسانی تعلقات اور سماجی رشتوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے گردوپیش اور ماحول سے جس قدر متا ثر ہوتاہے۔ اتنازیادہ وہ کسی چیز سے متاثر نہیں ہوتا۔ گرد وپیش کی فضا اور ماحول کااثر صرف انسان پر نہیں پڑتا؛بلکہ بعض اوقات عام حیوانات بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں ،عِلْمُ العُمران کے ماہر علامہ ابنِ خلدون کے بہ قول وہ جانور جوصحرا میں رہتے ہیں ان کی کھال میں خشونت وسختی نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے، ان کے بالمقابل انسانی آبادی میں رہنے والے جانوروں کی کھالیں نرم ہوتی ہیں،ان میں توحش ودرندگی بھی ویسی نہیں پائی جاتی جیسی صحرائی جانوروں میں ہوتی ہے ۔
گردو پیش کاماحول جیساہوتا ہے انسان کی طبیعت پر عموماویسے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں، چنانچہ معاشرے میں اگر صلاح وخیر کاعنصر غالب ہو تو انسان میں صلاح وتقویٰ کے آثار نمایاں ہوں گے اور اگر معاشرہ اخلاقی اور عملی بگاڑ کاشکار ہوتو وہ فسق وفجور اور گناہ ومعصیت کا خوگرہوگا ۔
رسولِ خدا…کے اس ارشادِ گرامی میں اسی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے: ”کلُّ مولودٍ یُوْلَدُ علی الفطرةِ، فأبَوَاہُ یُہَوِّدانِہ أویُنَصِّرَانِہ أویُمَجِّسَانِہ کما فی البھیمة تُنْتِجُ البھیمةَ ھل تَری فیہا جَدْعَاءَ“(رقم الحدیث۱۳۳۰صحیح البخاری ۴۸۰۹)
ہربچہ فطرتِ اسلام پر پیداہوتا ہے پھراس کے والدین اس کو یہودی ،نصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہے، جیسے جانور کا بچہ صحیح سالم پیداہوتاہے ،کیاتم دیکھتے ہو کہ ان میں کوئی ایسا بچہ بھی پیداہوتاہے جس کے اعضاء ناتمام ہوں ۔
ظاہر کااثر باطن پر
انسان اپنے ماحول اور گردو پیش کے حالات سے کس درجہ متاثر ہوتاہے اس کو ایک اور مثال سے یوں سمجھیے کہ بعض اوقات انسان کے ظاہری اعمال کاثر اس کے باطن پر بہت گہراہوتاہے؛چنانچہ اگر اس کاظاہر پاک اور صاف ستھرا ہوتو کوئی عجب نہیں ہے کہ اس کی ظاہری نظافت وپاکیزگی اس کے باطن کے غبارکو بھی دھل دے ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نظافت وپاکیزگی کو ایمان کانصف قراردیا ہے ۔
دوسری قوموں سے تشبہ اختیار کرنے سے سختی سے روکاگیااور ان کے رسم و رواج ،تمدن ا ورکلچر کے بہ جائے اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب کو ایک مسلمان کی زندگی کادستورالعمل قراردیاگیا ۔
آپ … کا ارشاد ہے: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَمِنْہُمْ (ابوداؤد)
بعض اعمال ظاہری جذبہ اور ظاہری کیفیت کے ساتھ انجام دیے جاتے ہیں؛ لیکن اجروثواب کے اعتبار سے ان کادرجہ خداتعالی کے یہاں ان اعمال کاساہوتاہے جواخلاص سے کیے جاتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: ”فَانْ لَمْ تَبْکُوْ فَتَبَاکُوا“ اگر دعا میں رونانہ آئے تورونے کی سی صورت اختیار کرلو۔
غزوئہ حنین سے واپسی کے موقع پر آپ …نے ایک مقام پر نماز کے لیے پڑاؤ ڈالا حضرت بلال نے اذان کہی تومشرکین کے کچھ بچے جووہاں کھیل کود میں مصروف تھے اذان کامذاق اڑانے لگے ،ان بچوں میں حضرت ابومحذورہ بھی تھے آپ …نے ان کو اپنے قریب بلایا اور دوبارہ اذان کے کلمات کہلوائے ابومحذورہ کی عمر اس وقت سولہ برس تھی ان کلمات کامفہوم وہ خوب سمجھتے تھے یہ ان کے مشرکانہ عقیدے سے متصادم تھا؛ اس لیے انھوں نے جھجکتے ہوئے شہادت کے الفاظ کہے؛ مگراِسے ان الفاظ کی تاثیر کہیے یااعجازِ مسیحائی کہ اس کا اثر ان کی روح میں اتر تاچلاگیا ۔
ماحول کی اثر انگیزی حکومت کے قوانین سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے؛ چنانچہ حدود وتعزیرات کے ذریعے اس طرح جرائم پر قابونہیں پایاجاسکتا جس طرح اچھی تربیت انسان کو جرائم سے باز رکھ سکتی ہے۔ تعزیرات اور سزائیں گناہوں کا خوف تو دل میں پیدا کرسکتی ہیں؛ لیکن گناہوں کی نفرت دل میں نہیں بٹھاسکتیں؛ اس لیے اسلام نے معاشرہ کی اصلاح پر بہت زور دیاہے ،جب تک ایک اچھاماحول پیدا نہ ہوجائے کوئی صالح معاشرتی انقلاب رونمانہیں ہوسکتا ۔رسول اللہ …نے بچوں کے والدین کو حکم فرمایاکہ: ”مُرُوْا أولادکم بالصلاةِ وَہُمْ أبناءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ أبناءُ عَشْرٍ“ (رواہ احمد ۲/۱۸۰وابوداؤد۱/۱۳۳)
ترجمہ: اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور ترکِ نماز پر ان کو مارو جب وہ دس برس کے ہوجائیں۔
تاکہ ابتدا سے انھیں اچھااور بہتر ماحول ملے اور آگے چل کر ان کی شخصیت کی تعمیر صحیح خطوط پر ہوسکے ۔
نیک بیوی کا انتخاب
ازدواجی زندگی کی رفاقت سب سے طویل ہوتی ہے اور اسی نسبت سے وہ انسان کے اخلاق وکردار پر سب سے زیادہ اثر اندازہوتی ہے۔
اس لیے شوہروں کو یہ حکم دیا گیاکہ وہ اپنے لیے ایسی شریکِ حیات کا انتخاب کریں جس میں دین واخلاق کا جوہر ہو۔
فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ (سنن ابن ماجہ)
ترجمہ: تو دیندار بیوی کو حاصل کر تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔
ابن ماجہ ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے:
عورتوں سے (محض)ان کی خوبصورتی کی وجہ سے شادی مت کروہوسکتا ہے کہ ان کی خوبصورتی ان کو ہلاکت میں ڈال دے اور نہ ان سے ان کے مال کی وجہ سے شادی کرو ان کے اموال ان کو سرکش بنا دیں گے؛ البتہ ان سے دین داری کی بنیاد پر شادی کرواور یقینا کان میں سوراخ والی کالی باندی جو دیندار ہو بہتر ہے۔
زندگی کے طویل اور اکتا دینے والے سفر میں بہت سے نشیب وفراز آتے ہیں،یہ صرف پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا سفر بھی ہے، اس کٹھن سفر میں جس طرح ایک نیک خاتون مرد کے شانہ بشانہ چل سکتی ہے کسی بے دین اور مغرب زہ عورت سے ہرگز اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
علامہ سندی نے ابن ماجہ کی اس حدیث پر جوحاشیہ قلمبند کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی مثال قرآن کی یہ آیت ہے: اور بیشک مسلمان لونڈی (آزاد)مشرک عورت سے بہترہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے“۔
نیک عورت نہ صرف یہ کہ شوہر کے حقوق ٹھیک طور پر ادا کرے گی؛ بلکہ اس کے بچوں کی اصلاح اور تربیت کا فرض بھی بخوبی انجام دے گی،اس کی وجہ سے گھر میں خوش گوار اور دینی ماحول پیدا ہوگا۔
مردوں کی طرح عورتوں کے اولیاء کو بھی حکم دیا گیاکہ وہ ان کے لیے ان مردوں کا انتخاب کریں جن کادین اور اخلاق پسندیدہ ہو۔
جب تمہیں ایسے لوگ پیغام نکاح دیں جن کا دین اور اخلاق عمدہ ہو تو ایسے لوگوں سے اپنی عورتوں کا نکا ح کردو اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ اور فساد ہوگا۔(ترمذی ۱۰۷۴)
نیک صحبت کی اہمیت
قرآن وسنت میں بار بارتاکید کے ساتھ صالحین کی صحبت اختیار کرنے ،مجالس ِخیر میں بیٹھنے اور بری صحبت سے گریز کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
یا أیہاالذین آمنوا اتقواللّٰہ وکونوامع الصادقین (توبہ۱۱۹)اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی صحبت اختیار کرو ۔
ایک موقع پرآپ …نے ارشاد فرمایا کہ ”لَاتُصَاحِبْ الَّا موٴمنًا وَلاَیأکُلُ طَعَامَکَ الّا تَقِیٌّ“(ابوداؤد) تم مو من کے علاوہ کسی کواپنادوست نہ بناؤ اور تمہاراکھاناصرف متقی لوگ کھائیں ۔
یہ ہے اسلام کاتصورِ محبت ودوستی ،دوستوں کے عقائد واعمال اور افکار ونظریات انسان پربہت گہرا اثر ڈالتے ہیں؛اس لیے دوست کے انتخاب سے پہلے بہت غور وفکر کی ضرورت ہے ۔
آپ …نے ارشاد فرمایا: ”المرءُ عَلی دِینِ خَلِیْلِہ فَلْیَنْظُرْ أَحَدُکُمْ مَنْ یُخَالِلُ“ (مسند احمد، ترمذی)انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتاہے؛ اس لیے تم میں سے ہر شخص کودیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہاہے ۔
جس طرح اہلِ صدق واہلِ تقویٰ کی صحبت انسان کی زندگی پر مثبت اثر ڈالتی ہے، اسی طرح برے لوگوں کی صحبت وہم نشینی کے منفی اثرات بھی زندگی پر پڑتے ہیں،رسول …نے ایک دل نشیں مثال کے ذریعہ اس کی وضاحت فرمائی۔آپ نے فرمایا کہ برے ہم نشیں اور اچھے ساتھی کی مثال عطار اور لوہار کی سی ہے ۔اچھا ساتھی عطر فروش کی طرح ہے کہ یا تو وہ تمہیں عطر تحفت دیگا یا تم اس سے عطر خرید کروگے یا کم ازکم تم اس کے پاس اس کی پاکیزہ خوشبو سے لطف اندوز ہوگے۔برا ساتھی بھٹی میں دھونکنے والے کی طرح ہے جو یاتو تمہارے بدن اور کپڑے کو جلا دے گایا تم اس کی بدبو پاوگے۔
ابن عباس فرماتے ہیں: ”لَاتُجَالِسْ أھلَ الأہواءِ فَانَّ مُجَالَسَتَہُمْ مُمَرِّضَةٌ لِلقلبِ“ بروں کی صحبت میں نہ بیٹھو ؛اس لیے کہ ان کی صحبت دل اور روح کو بیمار کردیتی ہے ۔
بروں کی صحبت دین وایمان کو تباہ کردیتی ہے اور انسان کو راہِ حق سے منحرف کردیتی ہے ،بروں کودوست رکھنے والا قیامت میں پشیمان اور شرمندہ ہوگا ،وہ کہے گا کہ اے کاش میں نے فلاں شخص کو اپنادوست نہ بنایاہوتا، اس نے مجھے حق حاصل ہونے کے بعد راہِ حق سے پھیر دیا ۔
وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَی یَدَیْہِ یَقُولُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلاً یَا وَیْلَتَی لَیْتَنِی لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیلاً لَقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَائنِی (الفرقان:۲۷-۲۹)
ترجمہ: اور جس دن ناعاقبت اندیش ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کھائے گااور کہے گاکہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا۔اے کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا،اس نے مجھ کو کتاب نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا۔
صحبتِ صالح کے ثمرات
اس کے برخلاف نیکوں کی صحبت بگڑے ہووں کو سنوار دیتی ہے ،ان کی نگاہ کا فیض مِسِ خام کو کُندن بنادیتا ہے۔قتل وغارت گری کے خوگر اورانسانیت کے دشمن جب ان کی صحبت میں بیٹھتے ہیں تو امن کے سفیر اور حق کے پرستار بن کر نکلتے ہیں۔
نبی…کے فیضِ تربیت نے حضراتِ صحابہ کو آسمانِ ہدایت کا درخشندہ ستارابنادیا ۔یہ آپ کی صحبت کافیض تھا کہ ذرے آفتاب وماہتاب بن گئے،جو گم کردہ راہ تھے وہ اوروں کے ہادی بن گئے۔
مدرسہٴ نبوت کے خوشہ چینوں سے جنھوں نے اکتسابِ فیض کیا،انھیں تابعی ہونے کاشرف حاصل ہوا ،انھوں نے نبوت سے قریب کازمانہ پایاتھا؛ اس لیے وہ اخلاص وللہیت ،دیانت وتقوی اور انابت الیٰ اللہ میں صحابہ کی ہوبہو تصویر تھے ۔
حضراتِ تابعین کی نگاہِ لطف ومحبت نے تبع ِ تابعین کو اخلاق واخلاص کاگوہرِ نایاب بنادیا ۔
یہ سب کرشمے تھے اہلِ سعادت کی صحبت وہم نشینی کے۔
جمال ہم نشیں درمن اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
صحبتے بااولیاء
لیکن یہ تو ان زمانوں کاذکر ہے جن کے خیر اور تمام زمانوں سے بہتر ہونے کی خبر خود رسول للہ … نے دی ہے ،ظاہر ہے کہ قیامت تک کے زمانوں تک ان کاامتداد نہیں ہوسکتا تھا۔
چنانچہ حضرات صحابہ وتابعین اور اتباع تابعین کے بعد انسانوں کی اخلاقی وعملی تربیت اور روحانی اصلاح کا کام بزرگان دین اور روحانی پیشواوں نے انجام دیا۔انھوں نے انسانوں کو محبت وانسانیت اور خداترسی کا درس دیا،گم کردہ راہوں کو منزل سے آشنا کیا۔وہ دلوں کے چاک کو سینے اور بکھرے انسانوں کو ایک رشتہ میں پرونے کا کام کرتے رہے۔ان کے وجود سے یہ دنیاکبھی خالی نہیں رہی۔ان کی سیرت کا اعجاز اور ان کے اخلاق کی پاکیزگی ہمیشہ غفلت شعار انسانوں کے لیے مہمیز کا کام کرتی رہی۔
ان کی صحبت وہم نشینی کے بغیر نیکیوں کی طرف دل کارجحان و میلان نہیں ہوسکتا اور نہ گناہوں کی نفرت دل میں پیداہوسکتی ہے؛ اس لیے قرآنِ مجید نے اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے کہا: ”یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِینَ“ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ایسے لوگوں کی معیت وصحبت اختیار کرو جو اپنے اقوال وافعال اور ایمان میں سچے ہیں ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے: ”وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ“ اے نبی اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جمائے رکھیے جوشب وروز خداکی طاعت وعبادت میں مصروف رہتے ہیں ،جو فقط خداکی خوشنودی چاہتے ہیں اور اس کی مرضی پر رضامند رہتے ہیں۔
مولاناروم نے صالحین کی صحبت کے اثرات کو اس طرح بیان فرمایاہے :
یک زمانہ صحبتے با اولیاء
بہتر از صدسالہ طاعتِ بے ریا
ہرکہ خواہی ہم نشینی باخدا
او نشینید صحبتے با اولیاء
اولیاء کرام کی صحبت میں گذارے ہوئے لمحات سوسالہ بے ریا عبادت سے بھی بڑھ کر ہیں ۔جو اللہ تعالی کی قربت کی تمنااور آرزورکھتاہے اسے چاہیے کہ صالحین کی صحبت اختیار کرے ۔
بعض عارفین کاقول ہے: ”کونوا مع اللّٰہ فان لم تقدروا فکونو مع من یکون مع اللّٰہ“
ترجمہ:اللہ کی معیت اختیار کرواگراس کی قدرت نہ ہو تو اہل اللہ کی صحبت اختیار کرو۔
فتنوں کے دورمیں
موجودہ دور فتنوں کی طغیانی کاہے ،ذرائع ابلاغ کی وسعت،سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقیات، بے حیائیوں کے فروغ اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ پھیلائے جانے والے فحش لٹریچر نے اخلاقی طور پر معاشرے کو تباہی کے دہانے پر کھڑاکردیا ہے،ایسے وقت میں اس کی اشد ضرورت ہے کہ اخلاقی اور روحانی قدروں کو فروغ دیا جائے۔اخلاقی انحطاط کا سدباب کیا جائے، بری صحبت اوربرے ماحول سے خود بھی بچاجائے اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کی جائے۔ معاشرے کے فساد اور بگاڑ کو دورکرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔
اس کے بغیر نہ معاشرہ کی اصلاح کا کام شرمندئہ تکمیل ہوسکے گا اور نہ ہم ایک ایسی نسل تیار کرسکیں گے جو عہدِ حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکے اور علمی اور عملی میدانوں میں کوئی نمایاں اور قابلِ ذکر خدمت انجام دے سکے۔
——————————————–
دارالعلوم ، شمارہ: 1، جلد:102، ربیع الثانی –جمادی الاول 1439ہجری مطابق جنوری 2018ء
# # #