(۱)

نام کتاب     :           امام ابوحنیفہ سوانح وافکار

موٴلف        :           جناب مفتی امانت علی قاسمی، استاذِ حدیث دارالعلوم حیدرآباد

صفحات        :           ۲۷۰،    قیمت:     ۲۷۰      روپے

ناشر            :           ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی

ملنے کا پتہ      :           جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد، شیورام پلی

تعارف نگار   :           مولانااشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند

====================

            ہمارا ایمان اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے، کتاب وسنت میں جو باتیں ہیں ہم ان کی پیروی کرتے ہیں، کوئی مسئلہ اگر قرآن وسنت میں صراحتاً مذکور ہے ہم اس کومانتے ہیں، عمل کرتے ہیں، اگر ان دونوں میں اشارةً، دلالةً اور اقتضاءً بھی موجود نہ ہوں تو آثارِ صحابہ وتابعین میں تلاشتے ہیں، پھر اجماعِ امت میں اُن کا حل تلاشتے ہیں، تلاشنے کا ذریعہ قیاس کے اصول ہیں، حضراتِ فقہائے کرام نے انھیں اصول کو پیش نظر رکھ کرہمیشہ مسئلے کا حل تلاشا ہے، قیامت تک یہی نہج چلتا رہے گا، نئے نئے پیش آمدہ مسائل کو انھیں اصول سے حل کیا جکاتا رہے گا۔ شریعت کے استنباطی اصول کو فقہائے کرام نے منضبط فرمادیا ہے، ان کے سرخیل حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ ہیں، امام صاحب اور ان کے تلامذہ نے نصوص سے اصول وضوابط نکال کرامت کے سامنے رکھ دیے ہیں، عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اوراخلاق ان سب سے متعلق ساری جزئیات کا استقصاء اہلِ مذہب فقہاے کرام کے یہاں ملتا ہے، یہی وجہ ہے ہم ان کی بتائی ہوئی باتوں کو مانتے ہیں اسی کا نام تقلید ہے، یہ کام منضبط طور پر عہد صحابہ وتابعین میں نہ ہو سکا تھا؛ اس لیے ہم بعد میں آنے والے مکاتبِ فکر کی پیروی کرتے ہیں، ان میں امامِ اعظم کا مقام سب سے بلند وبالا ہے، آپ نے بائیس صحابہٴ کرام سے ملاقاتیں کی ہیں، چھ سے روایتیں کی ہیں، جن کو ”وُحدانیات“ کہا جاتا ہے، بارہ تابعین سے روایتیں منقول ہیں ان کو ”ثنائیات“ کہا جاتا ہے۔ ثلاثیات کی تعداد بھی بہت ہے، بخاری شریف کی بائیس ثلاثیات میں سے بیس کے رواةاحناف ہیں، امام اعظم کے اساتذہ کی تعداد چالیس ہزار بتائی جاتی ہے، کوفہ اور بصرہ کے سارے شیوخ سے علمِ حدیث حاصل کیا اور حرمین شریفین میں سات سال مستقل طور پر رہے، وہاں کے شیوخِ کبار سے علم حدیث میں درک حاصل کیا پھر آپ نے شریعت کے اصول وفروع کو مستنبط کرنا شروع فرمایا، عمومی تلامذہ کی تو تعداد بے شمار ہے، خاص ماہرینِ فن تلامذہ کو لے کر آپ نے معانی شریعت میں غوروخوض شروع فرمایا اُن کی تعداد میں متعدد اقوال ہیں بعض نے دس، بعض نے تیس، بعض نے چھتیس اور بعض نے چالیس بتائی ہے۔

            جناب مولانا مفتی امانت علی قاسمی استاذِ حدیث وافتاء دارالعلوم حیدرآباد کی کتاب میں حضرت امامِ اعظم کی زندگی کے اسی طرح کے حساس پہلو پر بحث کی گئی ہے؛ بلکہ پوری سوانح نہایت ہی سلیقے سے ترتیب دی گئی ہے، کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں سوانحی خاکہ، معاشی زندگی، سلوک واحسان، فراست ودانائی اور سیاسی افکار ہیں، دوسرے باب میں حدیث وفقہ کی خدمات، تیسرے باب میں اُن اقوال کو ذکر کیا ہے جو اکابر محدثین نے حضرت امام کے بارے میں رقم فرمائے ہیں، اسی میں حضرت عبداللہ بن مبارک کا تعارف ہے اور امام صاحب کے بارے میں اُن کے اقوال مذکور ہیں، اسی میں اہلِ حدیث حضرات کے اعتراضات کا منصفانہ جائزہ بھی لیاگیا ہے۔ بہرکیف! کتاب بہت عمدہ ہے، علماء اور طلبہ کے مطالعے کے لائق ہے، اللہ کرے یہ کتاب بھی موصوف کی دوسری تصنیف (تحفة العبقری شرح سنن ترمذی اور دراسة ردالمحتار) کی طرح قبولیت حاصل کرے۔ وماذلک علی اللّٰہ بعزیز!

(۲)

نام کتاب             :       ازالةُ الشکوک

تصنیف               :       حضرت علامہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی

بانی مدرسہ صولتیہ، مکہ مکرمہ

تحقیق و تسہیل       :       حضرت مولانا مفتی عتیق احمد قاسمی بستوی مدظلہ

استاذ حدیث وفقہ دارالعلوم ندوة العلماء، لکھنوٴ

نئی اشاعت          :       رجب المرجب ۱۴۳۶ھ مئی ۲۰۱۵/

ضخامت              :       ۲۰۴۸ صفحات (چار جلدیں)

قیمت                 :        ۱۲۰۰     روپے

ناشر                   :       مکتبہ معہد الشرعیہ لکھنوٴ 9839776083

بہ قلم                 :       مولانااشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند

====================

            اٹھارہویں صدی کے شروع سے ہی ہندوستان پر انگریزوں نے قبضے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا تھا، مغلیہ سلطنت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جارہی تھی اور دھیرے دھیرے اسلامی حکومت کا دائرہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جارہا تھا، سیاسی تسلط کے ساتھ انگریزوں نے عیسائی تسلط کا بگل بھی بجارکھا تھا، تربیت یافتہ پادریوں کی آمد تیز ہورہی تھی، جگہ جگہ جلسے ہوتے اور ان میں اسلام پر اعتراضات کیے جاتے تھے اور مسلمانوں کو مناظرے کا چیلنج دیا جاتا تھا،اعتراض کا جواب ملنے کے باوجود اسی اعتراض کو دوسری جگہ جاکر دہرایاجاتا تھا۔ زبانی اعتراضات کے ساتھ ساتھ تحریری شکل میں بھی اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی ہورہی تھی، عوام کے ساتھ مغلیہ حکومت کے فرماں رواؤں کے پاس لکھ کر اعتراضات بھیجے جاتے تھے، ”ازالة الشکوک“ انھیں اعتراضات کے جواب پر مشتمل ہے، ۱۸۵۲/ میں دہلی اور آگرہ وغیرہ میں تیئس (۲۳) سوالوں پر مشتمل ایک اشتہار تقسیم کیا جارہا تھا حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمة اللہ علیہ نے ان کے جواب کا ارادہ کیا؛ لیکن ابھی لکھ نہ سکے تھے کہ معلوم ہوا کہ ان سوالوں میں مزید چھ سوالوں کا اضافہ کرکے انگریزوں نے دہلی کے لال قلعہ میں بھی بھیج دیا ہے، بہادر شاہ ظفر کے فرزند مرزا محمد فخرالدین جو اس وقت ولی عہد تھے ان سے انگریزوں نے ان سوالوں کے جواب طلب کیے، بعض سوالات معجزات اور بعض قرآن کریم سے متعلق تھے، ان کے علاوہ اسلام کے دوسرے عقائد ومسائل سے متعلق تھے، حضرت مولانا نے ولی عہد مرزا محمد فخرالدین کے حکم ومشورے سے ان سب کے جواب نہایت تفصیل سے تحریر فرمائے، جواب مفصل ومدلل ہے، مصنف نے عیسائیوں کی امہات الکتب کے حوالے درج فرمائے ہیں، عقل ونقل دونوں طرح کے دلائل ذکر فرمائے ہیں اور اقدامی حملہ بھی کیا ہے، مصنف نے جس تفصیلی دلائل سے جواب دیا ہے، ایسا جواب ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ آج سے ڈیڑھ پونے دو سو سال کا پہلے کا زمانہ جب کتابوں کی فراوانی اور سہولت آج کی طرح ہرگز نہیں تھی، اتنی ساری کتابیں اور وہ بھی غیرمذہب کی حضرت نے کس طرح جمع فرمائیں، حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کی خدمات ردعیسائیت اور دفاع اسلام میں علی الاطلاق علمائے ہند میں سب سے زیادہ ہیں، آج تک ردعیسائیت میں ان کی تصانیف سے اہم تصنیف بازار میں نہیں آئی۔ مولانا کیرانوی کی تصانیف کے مطالعے سے پہلے راقم حروف ردِعیسائیت میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی خدمات کو سرفہرست سمجھتا تھا؛ مگر اندازہ ہوا کہ حضرت نانوتوی کی خدمات اس گوشے سے دوسرے نمبر پر ہے، مولانا کیرانوی کی خدمات کو تقدمِ زمانی اور تقدمِ کیفی وکمی سب حاصل ہیں۔ حضرت نانوتوی کی تقریر وتصنیف میں دلائل نہایت گہرے اور فلسفیانہ ہیں؛ ان میں بعض نہایت دقیق اور عوام کی گرفت سے بالا ہیں۔

            ”ازالة الشکوک“ کی پہلی جلد سب سے پہلے حضرت کے شاگر رشید مولانا عبدالوہاب ویلوری نے چھپوائی، دوسری جلد مولانا دیلوری کے صاحب زادے مولانا ضیاء الدین محمد نے چھپوائی، اس کی طباعت پر بھی سوسال سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا، اس عرصے میں زمانے کی قدر بدل گئی، زبان وبیان کا اسلوب بدل گیا اور ساری رسمِ کہن پامال ہوگئیں؛ اس لیے ضرورت تھی کہ کتاب کی کتابت وطباعت عصرِ حاضر کے ذوق کے مطاق کی جائیں، فارسی اور عربی عبارتوں کا ترجمہ کیا جائے، عناوین بڑھائے جائیں، متروک الفاظ کا متبادل شامل کیا جائے۔ ماشاء اللہ حضرت اقدس مولانا عتیق احمد قاسمی بستوی استاذِ حدیث وفقہ دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ نے کتاب کو عصرِ حاضر کے قابلِ قبول طرز پر اپنی تحقیق وتعلیق کے ساتھ پیش کیا اور اپنی بیش قیمت تحریر بھی اس کے شروع میں شامل کی جو تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلے یہ کتاب دو جلدوں میں تھی مولانا بستوی زیدمجدہ نے اسے چار جلدوں میں شائع فرمایا ہے، انتیس سوالوں میں سے پہلی جلد میں صرف ایک سوال کا جواب ہے، دوسری میں گیارہ، تیسری میں چار اور چوتھی میں تیرہ سوالوں کے جواب شامل ہیں، موصوف عصر حاضر کے ممتاز علماء اور اصحابِ افتاء میں شمار ہوتے ہیں، دارالعلوم دیوبند کے اس فرزندِ جلیل کو تحقیق و تصنیف کا نہایت اعلیٰ ذوق نصیب ہوا ہے؛ اس لیے کتاب کتابت، طباعت، ٹائیٹل، تحقیق وتعلیق اور کاغذ وغیرہ کے معیار کے لحاظ سے نہایت ہی عمدہ ہے۔

            امید ہے کہ کتاب کا یہ ایڈیشن قارئین کی بارگاہ میں شرفِ قبول حاصل کرے گا۔ وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ: 1،  جلد:102‏، ربیع الثانی –جمادی الاول 1439ہجری مطابق جنوری 2018ء

#         #         #

Related Posts