از: مولانا محمد اللہ قاسمی
شعبہٴ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند
دارالعلوم میں غیر ملکی مہمانوں کی آمد
۲۰/نومبر ۲۰۱۷ء کو نئی دہلی میں جرمنی سفارت خانہ کے نائب سفیر جناب جیسپر ویک (Jasper Wieck) اور جرمن سفارت خانہ کی ہیڈ آف ایمبیسڈر آفس محترمہ انیٹ بیسلر (Annet Baessler) نے دارالعلوم کا دورہ کیا۔ مہمانوں نے حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مہتمم دارالعلوم سے ملاقات کی اور دارالعلوم کی تاریخ، تعلیمی سرگرمیوں وغیرہ سے متعلق امور پر تبادلہٴ خیالات کیا۔ انھوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کی شہرت و عظمت کے پیش نظر ہمارا بہت دنوں سے ارادہ تھاکہ ہم اس عظیم ادارہ کی زیارت کریں اور ذمہ داران و اساتذہ سے ملاقات کریں۔ انھوں نے کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم آج ادارہ کی زیارت سے سرفراز ہورہے ہیں۔
۲۳/ نومبر کو ملیشیا کے ایک چودہ رکنی وفد نے دارالعلوم کا دورہ کیا جس میں مشہور تجار، سینئر وکلا اور سی اے شامل تھے۔ اراکین وفد میں ملیشیا کے مشہور تاجر محمد یوسف بن محمد بن یونس، محمد فیروز، جمال الدین، نور افگن ، ایڈوکیٹ عرفان غنی اور سی اے مختار احمد کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ اراکین وفد نے دارالعلوم کیمپس، مسجد رشید ، کتب خانہ اور زیر تعمیر شیخ الہند لائبریری وغیرہ کا دورہ کیا اور دارالعلوم کے تئیں اپنی عقیدت و تعلق کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ہماری زندگی کے زریں لمحات ہیں ، دیوبند آکر جس طمانینت اور روحانیت کا احساس ہوا ہے وہ تاحیات یاد رہے گا۔ مہمانوں نے حضرت مہتمم صاحب ، حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی نائب مہتمم اور دارالعلوم کے اساتذہ وغیرہ سے ملاقات اور تبادلہٴ خیال بھی کیا۔
۷/ دسمبر کوشہر قم ( ایران) کے عالم دین و خطیب اور حج ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قم کے ڈائریکٹر سید مہدی علی زادہ موسوی نے دارالعلوم کا دورہ کیا اور حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی نائب مہتمم دارالعلوم سے ملاقات کی۔ مہمان مکرم نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان فکری اختلافات کے باوجود باہمی اتفاق و اتحاد کا ماحول پیدا ہو اور ایران و دارالعلوم دیوبند کے درمیان علمی و ثقافتی رشتے قائم ہوں۔ انھوں نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کی علمی خدمات کا اعتراف تمام دنیا کرتی ہے۔
حضرت شیخ الہند کے یوم ولادت پر ’ساجھی وراثت کارواں‘
حضرت شیخ الہند کے ۹۷/ویں یوم وفات (۳۰/نومبر ) پر تنظیم خدائی خدمت گار نے مشترکہ وراثت کی بقا و تحفظ کے لیے ’ساجھی وارثت کا کارواں ‘ کا آغاز کیا جو مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ سے شروع ہوکر یکم دسمبر کو دیوبند پہنچا۔ اس کاروان کی قیادت دہلی یونیورسٹی کے شعبہٴ ہندی کے پروفیسر پریم سنگھ کررہے تھے جب کہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد اس کارواں میں شریک تھے۔ اس کارواں نے دارالعلوم دیوبند آکر حضرت مہتمم صاحب سے ملاقات کی اور حضرت شیخ الہند کے مزار کی زیارت کی۔
حضرت مہتمم صاحب نے وفد سے ملاقات کے دوران فرمایا کہ حضرت شیخ الہند کی عظمت کی دنیا معترف ہے، وہ جہاد آزادی کے عظیم قائدین میں تھے، اگر ان جیسے مجاہدین آزادی نہ ہوتے تو یہ ملک کبھی آزاد نہ ہوتا۔ وہ تحریک ریشمی رومال کے پیشوا تھے، اسی تحریک کے تحت کابل (افغانستان) میں ہندوستان کی حکومت موٴقتہ قائم کی گئی اور اس میں راجہ مہندر پرتابِ کو صدر مقرر کیا گیا۔ حضرت شیخ الہند نے مالٹا قید سے واپسی کے بعد مہاتما گاندھی کو آگے بڑھایا اور ملک کی آزادی کے لیے بھرپور تعاون پیش کیا۔ یہ گنگاجمنی تہذیب کا کھلا پیغام تھا اور آج اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔ کارواں کے قائد پروفیسر پریم سنگھ نے کہا کہ ملک کی مشترکہ تہذیب کو اس وقت شدید خطرہ لاحق ہے، ملک کی گنگا جمنی تہذیب پر فسطائیت غالب آنا چاہتی ہے اور شیخ الہند جیسے مجاہدین آزادی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس لیے تنظیم خدائی خدمتگار نے شیخ الہند کے یوم وفات پر کارواں نکالنے کا فیصلہ کیا جو راج گھاٹ سے شروع ہوااور دیوبند میں شیخ الہند کے مزار پر اس کا اختتام ہوا۔ انھوں نے کہا کہ شیخ الہند نے ملک کی عوام کو انگریزوں کے خلاف متحد کیا اور ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔
بابری مسجد کے سلسلہ میں مذاکرات کی پیشکش اور دارالعلوم کا انکار
بابری مسجد کا معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں دائر ہے اور دسمبر میں ٹائٹل کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی ہے۔ اسی بیچ حکومت کے اشارہ پر شری شری روی شنکر مسلمانوں کے مختلف نمائندوں اور رہنماوٴں سے ملاقات کی کوشش کررہے ہیں۔ جمعیة علمائے ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا اس سلسلہ میں موقف یہ ہے کہ ماضی میں گفت و شنید کی متعدد کوششیں کی جاچکی ہیں اور وہ فرقہ پرست عناصر کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکی؛ اس لیے اس قضیہ کا واحد حل یہ ہے کہ اس معاملہ کو عدالت عظمی پر چھوڑ دیا جائے اور وہ شواہد و دلائل کی بنیاد پر بابری مسجد کی ملکیت کے سلسلہ میں جو فیصلہ کرے گی وہ ہمیں قابلِ قبول ہوگا۔ اس سلسلہ میں وزیر اعظم آفس کی طرف سے حضرت مہتمم صاحب سے بھی شری شری روی شنکر سے مذاکرات کی پیشکش کی گئی جسے حضرت مہتمم صاحب نے واضح الفاظ میں مسترد کردیا ۔ حضرت مہتمم صاحب نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند اس سلسلہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے موقف کی پوری تائید کرتا ہے۔
مرکزی حکومت کا تین طلاق پر مجوزہ بل شریعت میں کھلی مداخلت
مرکزی حکومت کی طرف سے ایک ساتھ تین طلاق دینے والوں کے خلاف سزا کا مجوزہ قانون شریعت اسلامیہ میں کھلی مداخلت ہے۔ ان خیالات کا اظہار حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی نے میڈیا میں اس مجوزہ بل کی خبروں کے آنے بعد کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ طلاق ثلاثہ پر اگر یہ مجوزہ بل پاس کیا جاتا ہے تو یہ ظالمانہ اور جابرانہ قانون ہوگا۔ یہ قانون دستور ہند کے تحت حاصل ہونے والی مذہبی آزادی کے منافی ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ تین طلاق شریعت میں ناپسندیدہ ہے، لیکن اگر کوئی تین طلاق دیتا ہے وہ شرعاً نافذ ہوگا، طلاق ایک مذہبی مسئلہ ہے اور حکومت کو بزعم طاقت اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر مجوزہ قانون میں یہ بات مان لی جائے کہ طلاق سرے سے نافذ نہیں ہوگی تو یہ سراسر غلط ہوگا۔ لہٰذا اگر حکومت علوم اسلامی کے ماہرین علمائے کرام اور بالخصوص مسلم پرسنل لا بورڈ سے مشورہ اور ان کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی قانونی مسودہ تیار کرتی ہے جس میں طلاق دینے والے کے خلاف سزا کا التزام کیا جاتا ہے تو اس قانون میں تضادات اور ابہام کے بے شمار امکانات موجود رہیں گے اور یہ قانون مسلمانوں پر تھوپا گیا ایک جبری قانون ہوگا۔
دارالعلوم میں امتحان ششماہی کا انعقاد
دارالعلوم میں حسب معمول ۱۹/ربیع الاول ۱۴۳۹ھ سے امتحان شش ماہی کا آغاز ہوا جس میں درجات عربیہ و تکمیلات اور حفظ و تجوید وغیرہ میں داخل طلبہ نے تقریری اور تحریری امتحان میں شرکت کی۔ تحریری امتحانات زیر تعمیر شیخ الہند لائبریری کے تہہ خانے میں منعقد ہوئے۔ امتحان شش ماہی میں شرکت کرنے والے طلبہ کی مجموعی تعداد ۴۴۲۲ رہی۔
حضرت مہتمم صاحب ، درجہٴ علیا کے اساتذہ اور دیگر مدرسین کی نگرانی میں امتحانات ۲۹/ ربیع الاول کو حسن و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے۔ سال رواں کے امتحان شش ماہی کے ناظم جناب مولانا خورشید احمد صاحب گیاوی اور ناظم طباعت جناب مولانا نسیم احمد صاحب بارہ بنکوی مقرر کیے گئے تھے۔
———————————————–
دارالعلوم ، شمارہ: 1، جلد:102، ربیع الثانی –جمادی الاول 1439ہجری مطابق جنوری 2018ء
* * *