تعلیم وتربیت کے مخلص نگہبان ،اسلاف کی پاکیزہ روایتوں کے امین حضرت مولانا ریاست علی بجنوریؒ

از: جناب محمد رحیم الدین انصاری

ناظم دارالعلوم حیدرآباد

مجھے حکم ہوا ہے کہ حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری کے بارے میں کچھ لکھوں،مجھ بے بساط سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ میں اس سلسلے میں موضوع سے پوری طرح انصاف کرسکوں گا، جو کچھ بھی میرا قلم لکھے اس خصوص میں یہی کہوں گا کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

میرا بچپن حیدرآباد کے پرانے شہر میں گذرا ہے اور میری ابتدائی تعلیم بھی پرانے شہر کے سرکاری مدارس میں ہوئی ہے؛ اس لیے میں ایسی زبان نہیں لکھ سکتا جس میں چشمِ شریں کا زیروبم ہو یا شبنم کا رقصِ نم، اس میں آپ کو نہ تتلی کا رقص ناز نظر آئے گا، نہ غزالہ کا حسنِ رم، نہ الفاظ میں موتی کی آب ملے گی نہ بیان میں گل کی مہک، مجھے اپنی بے بضاعتی اور ہیچ مدانی کا پوری طرح احساس ہے۔

اب جب کہ قرعہٴ فال میرے نام پر ہو تو اس کا فرض چکانا ہی پڑے گا، اور مجھے اتنا تو بتانا ہی پڑے گا کہ حضرت مولانا ریاست علی بجنوری علیہ الرحمہ کون تھے، کیا تھے، کیسے تھے اور کیا کیے؟

آپ ایک سچے معلم ومدرس تھے، خود ان کی شخصیت ان کے اسلوب درس کی طرح مختلف پھولوں کے عطر کا مجموعہ، اہل دل کے دلوں کی تپش، شبوں گداز، شعروادب کے قلم کا ساز، اہل فکروعمل کا ذوقِ جستجو اور مجاہدین کی روح عمل یہ سب کچھ ان کی ذات میں اس طرح جمع ہوگیا کہ ان کی شخصیت سب سے منفرد اور سب سے ممتاز ہوگئی تھی، اس میں جامعیت بھی تھی اور اعتدال بھی، جمال بھی تھا اور کمال بھی۔

مثل  خو ر شید  سحر  فکر  کی   تا  با  نی   میں

شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق

مبدأ فیاض نے ممدوح مکرم کو بیشمار کمالات وخوبیوں سے نوازا تھا، وہ جہاں ایک متبحر صاحبِ نظر عالم، دیدہ ورفقیہ، عظیم محدث ومفسر، صاحبِ طرز ادیب، بے مثال معلم ومدرس اوربلند پایہ شاعر تھے، وہیں عملی دنیا میں زہدوتقویٰ ، انابت إلی اللہ، تواضع وانکساری، حلم وبردباری، بے نفسی وخداترسی، رحمدلی وہمدردی جیسی عظیم ملکوتی صفات ان کی ذات میں اس طرح پیوست تھی جیسے گلوں میں خوشبو،آفتاب میں روشنی ، بندگانِ خدا سے ا لفت ومحبت، ہمدردی وکرم گستری ، آں محترم کی طبیعت اور دونوں جہانوں میں ان کی کامیابی کی سرخروئی کی فکروتڑپ، بے تابی وبے قراری فطرت بن گئی تھی۔

مولانا کی شخصیت ہشت پہل ہیرا تھی انھوں نے بہت سی خصوصیات اور کمالات کو اپنے اندر جمع کر لیا تھا، حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مولانا ہمیشہ سرشار رہتے، کھانے پینے میں، لباس اور وضع قطع میں سنتوں کا خیال فرماتے، میں نے کبھی انھیں کسی کی غیبت کرتے ہوئے نہیں سنا، اور نہ اپنے سامنے کسی کی غیبت کرنے دیتے ، وعدہ خلافی کا تو خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، مولانا کی شاعری پر عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر لگی ہوئی تھی۔

کوئی عالم، مصنف، اہل قلم، داعی، فقیہ، محدث،قائد دینی، مصلح اجتماعی، خواہ کتنا ہی قد نکالے محض علم واطلاع کے بل بوتے پر اور صرف ذہانت وذکاوت، عقل وعبقریت ، دور نگاہی ورشن خیالی کے سہارے اپنے کام میں برکت کا نور، مقبولیت کی سحر کاری وقدر افزائی اور پسندیدگی کی جاذبیت پیدا نہیں کرسکتا، اگر اس کے کام کا خمیر خون جگر، نور تقویٰ، تب وتاب اخلاص، بیتابیِ عشق رسول، سرشاریٴ محبت الٰہی،لذت سحر خیزی، ذوق عبادت اور شوق ریاضت سے نہ اٹھا ہو، یہی وہ چیز ہے جو کسی عمل کو صاحبِ عمل کے لیے اور خلقِ خدا کے لیے ذریعہٴ فائدہ رسانی اور باعث حیات جاودانی بنادیتی ہے۔

واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے

اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پُر اسرار

مذکورة الصدر صفات کی حامل وہ ذات گرامی کون ہے،جی ہاں، وہ مجسم عبادت وریاضت، زہد واستغناء اور خوف ِآخرت اور خشیت الٰہی کا پیکر، صلاح وتقوے کا ماہتاب، اسلاف کی پاکیزہ روایتوں کا ا مین،جادہٴ عشق وفا کا بے باک پاسبان، سرمایہ تعلیم وتربیت کا مخلص نگہبان اور ہمہ گیر شخصیت حضرت مولانا ریاست علی بجنوری کی ذات گرامی تھی۔

متعدد بار راقم الحروف کو مولانا محترم کی مجلسوں میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ہے ، راقم الحروف کی دعوت پر مولانا مرحوم دارالعلوم حیدرآباد کے جلسہٴ ختم بخاری شریف وتکمیل حفظ قرآن مجیدمیں بھی تشریف لا چکے ہیں۔

مولانا کی نجی محفلیں ہوں یا پندونصائح کی محفلیں جب زبانِ حق بیان کھلتی تو وہ علمی جواہر پارے بکھیرتے کہ آنکھیں خیرہ اور دل ششدررہ جاتے، اہل شعور کہہ اٹھتے۔#

علومِ  د ین  پر  ا للہ  ا کبر  اتنی قدرت ہے

زباں میں کوثر وتسنیم کی شامل حلاوت ہے

جس طرح ذہانت وفراست اور تعلیم وتعلم میں مولانا کی ایک انفرادی شان تھی اسی طرح شعروشاعری میں اپنا خاص مقام رکھتے تھے؛ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کا ترانہ اس کی اعلیٰ ترین مثال ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ کے پاس آنے والا ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زیادہ محبت کرتے ہیں، یہی حال حضرت مولانا کا تھا آنے والے سے مسکرا کر ملتے تھے، اس کی تواضع فرماتے تھے، مولانا محترم کی پوری زندگی ورع وتقویٰ، عزم واستقلال اور زہدو استغناء سے عبارت تھی،دنیا اور متاعِ دنیا کی طرف کبھی آپ کی نگاہ نہیں ا ٹھی، مال ودولت، جاہ ومرتبہ کی ذرا بھی محبت آپ کے دل میں نہیں تھی۔

رفقاء اور ہم عصروں کا اکرام

انسان کی عظمت وبزرگی اور اس کے قد کی بلندی کا راز یہ ہے کہ جس طرح وہ اپنے بزرگوں کے تقدس اور ادب واحترام کے پاس ولحاظ کو سعادت اور خوش بختی تصور کرتا ہے، اسی طرح اپنے چھوٹوں پر شفقت ومحبت، رحم دلی ومہربانی کی فرحت بخش چادر ڈال کر ان کی تعمیر وترقی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے، جناب موصوف کی تمام مجلسوں میں انسانیت کی یہ صفت نمایاں طور پر محسوس ہوتی تھی، وہ اپنے ہم جنسوں اور رفقاء سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے، عام آدمی کے ساتھ بھی آپ کا رویہ انتہائی کریمانہ ہوتا تھا،اس کے کیف آگیں لمحات پر ا ظہارِ مسرت کے ساتھ نا مساعد حالات پر دل گرفتہ اور بے قرار ہوجاتے تھے،اور بلا امتیاز تمام انسانوں کے تابناک مستقبل کے لیے ہمیشہ فکر مندر اور بے تاب نظرآتے تھے۔ مہمان نوازی میں پورے دارالعلوم دیوبند میں اُن کا کوئی مثیل نہیں تھا، اُن کی مہمان نوازی کو دیکھ کر عربوں کی مہمان نوازی کی یادتازہ ہوجاتی تھی، افراد چاہے کتنے ہی ہوں وہ تواضع میں فرق آنے نہیں دیتے، حتی کہ مقروض ہوکر بھی مہمان نوازی کا حق ادا فرماتے تھے، مہمان نوازی کی اسی اعلیٰ وصف کی وجہ شاید اللہ تعالیٰ نے انھیں خادم الحرمین الشریفین کا مہمانِ خصوصی بنا کر اپنے دربار میں بلایا اور مولانا علیہ الرحمہ حج مبرور سے بہرہ ور ہوئے۔

بہت جی لگتا تھا صحبت میں ان کی

وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے

بلند پایہ محقق و مصنف

اردو زبان وادب کے حوالے سے موصوف ان مسلم محققین کے زمرے میں شامل ہیں جن کی تحریر فصاحت وبلاغت، لطافت وجاذبیت ،دلکشی ورعنائی کے لحاظ سے امتیازی شناخت رکھتی ہے، آپ کا صاف ستھرا اعلیٰ ادبی ذوق، فکر کی گہرائی، تخیل کی بلند پروازی، قلب کا سوزِ دروں وہ عطیہٴ الٰہی ہے جو ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتا، آپ نے خداداد لیاقت وصلاحیت ،مطالعہ کی وسعت ،علم کی گہرائی وگیرائی کے ساتھ ساتھ خیال کی ندرت وانفرادیت، جملوں کی فصاحت، الفاظ کی بلاغت،جاں نواز متنوع پیرایہٴ بیان ،اسلوب کی طرح داری،طرزِ ادا کی جادو بیانی، خوبصورت تشبیہات اور عمدہ استعارات سے مرقع تحریروں کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ تحریر وتقریر کے میدان میں زبان وقلم کے اصول وضوابط اور اس کے اسرار ورموز کے مولانا علیہ الرحمہ شناور تھے؛ چنانچہ ان کی موٴلفہ کتاب ”ایضاح البخاری“ اس کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ اکرام نے سوال کیا کہ سب سے اچھا آدمی کون ہے؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ طَالَ عُمُرْہ وَحَسُنَ عَمَلُہ (جس کی عمر لمبی ہو اور اعمال نیک ہو) حضرت مولانا ریاست علی بجنوری علیہ الرحمہ کو اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزیں عطا فرمائی تھیں، مولانا کے اعمال وافعال خلوص وللہیت کے آئینہ دار تھے، انھوں نے اپنی پوری زندگی ایک مردِ مومن کی طرح اور قلندرانہ طریقہ سے گزاری ،نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ، نہ عہدے کی طمع نہ دولت کی خواہش اورنہ شہرت کی آرزو ، انھوں نے اپنے دامن کو حرصِ دنیا سے آلودہ ہونے نہیں دیا، وہ ہمیشہ حق پسند، حق شناس ، حق گو، حق نوشت اور حق سرشت رہے؛ اس لیے وہ ہمیشہ جری اور بے باک بھی تھے، کوئی چیز ان کو حق بات کہنے سے نہیں روک سکتی تھی، وہ لومتِ لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے، وہ جس بات کو صحیح سمجھتے اسی کے طرف دار اور علمبردار ہوا کرتے تھے، مولانا علیہ الرحمہ کے اوصافِ حمیدہ بہت ہیں،ان کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہمیشہ تعصب اور تنگ نظری سے بلند تھے، اعتدال اور میانہ روی ان کے مزاج اور سرشت میں داخل تھی، نہ کسی مسلک سے تعصب نہ کسی ادارے، نہ کسی تنظیم وجماعت کے لیے تنگ دلی اور نہ اس کے خلاف کینہ پروری، یہ وہ صفت ہے جو نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے، ہمارے معاشرے میں اعتدال پسندی اور میانہ روی کی صفت تقریبا عنقا ہے، حال یہ ہے کہ جو شخص جس ادارے، جس مسلک اور جس تنظیم سے خود کو وابستہ کرلیتا ہے وہی اس کے لیے کامل حق اور صداقت کا معیار بن جاتا ہے، دوسرے ادارے یا تنظیم کی تعریف کرنے اور اس کا اعتراف کرنے کے لیے اس کا ظرف وسیع نہیں ہوتا ہے۔

صبروشکیبائی کا مظہر

     مولانا علیہ الرحمہ کی ممتاز صفات میں ایک اہم صفت گردشِ لیل ونہار کے صبر آزما وحوصلہ شکن مراحل میں صبروشیکبائی اور حلم وبردباری تھی؛ چنانچہ اہلیہ محترمہ کے انتقال کے بعد راقم الحروف نے بھی ان سے ملاقات کی ، مولانا مرحوم نے اس وقت بھی انتہائی صبر وضبط کا مظاہرہ فرمایا،اس کے علاوہ زندگی کے اس سفر میں کیسی کیسی خاردار وادیاں آئیں،مخالفین کی جانب سے طنزوتعریض کی چٹانیں سدِراہ بنیں، ناگہانی امراض کے مختلف جانکاہ طوفان سامنے آئے؛ مگر صبرورضا کے اس مسافر کے پائے ثبات میں کسی مقام پر بھی لغزش پیدا نہیں ہوئی، اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں یہ حقیر راقم مکمل اعتماد اور وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ سنگین سے سنگین ترخونچکاں حالات میں جب انسان مایوسیوں کی خوفناک تاریکیوں میں ڈوب کر حواس کھو بیٹھتا ہے، موصوف ان جاں گسل لمحات میں بھی جس طرح صبروضبط اور تحمل وبردباری سے کام لیتے تھے، تقدیر پر کامل ایمان کے نتیجے میں جس طرح حوادثات سے راضی بہ رضا رہتے تھے،یہ انھیں کا حصہ تھا، عام آدمی سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ آپ کی ذات کے نہاں خانے میں رنج والم کے کس قدر جگر خراش طوفان چھپے ہوئے ہیں۔ متعدد مرتبہ میں نے دیکھا کہ بار بار مخالفین کے ضرر رساں اور اذیت رساں اعمال وکردار سامنے آئے؛ مگر اس حلم وبردباری اور صبرورضا کے پیکرِ جمیل نے نہ صرف یہ کہ خموشی اختیار کرکے اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا؛بلکہ خلوت وجلوت کی کسی محفل میں بھی حرفِ شکوہ زبان پر آنے نہیں دیا کہ خالق کے علاوہ مخلوق کے سامنے رازہائے دل شکستہ کے انکشافات کو و ہ کسی بھی حالت میں سود مند نہیں سمجھتے تھے اور یہی وہ وصف تھا جو آپ کو دیگر اہلِ علم وعمل سے ممتاز کرتا ہے۔

مولانا علیہ الرحمہ کا ایک اور وصف جو بہت کم کسی میں پایا جاتا ہے وہ مولانا مرحوم کا استغناء ہے، حضرت سہیل بن سعدی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے جو مجھے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اور لوگوں کی نظروں میں بھی محبوب بنادے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ازْھَدْ فِي الدُّنْیا یُحِبُّکَ اللہُ وَازْھَدْ فِیْمَا أَیْدِي النَّاسِ یُحِبُّوْکَ“ (دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنائے گا اور لوگوں کے مال ودولت سے نظریں پھیر لو تو لوگوں کے نزدیک بھی محبت اور قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاوٴ گے۔ ابن ماجہ: ۳۰۲) واقعہ یہ ہے کہ زہد واستغنا ء سے متصف ہوئے بغیر لوگوں کے قلوب متوجہ ہوہی نہیں پاتے، جہاں ذرا سالالچ کا شبہ ہوا دینی ودنیوی منصب کی عزت داغدار ہوجاتی ہے اور جب طبیعت میں استغناء ہوتا ہے تو یہی دنیا جس کے لیے در در کی ٹھوکریں کھائی جاتی ہیں، انسان کے قدموں میں آکر گرتی ہیں۔#

خدا کے نیک بندوں کو فقیری میں حکومت میں

ز ر ہ  کو ئی  ا گر  محفو ظ  ر کھتی  ہے تو  ا ستغناء

مولانا مرحوم کے انتقال کی خبر سن کر ایسا محسوس ہوا کہ شاخِ گل سے پھول ٹوٹ کر گر گیا، کوئی مرغ خوش نوا شاخ پر بیٹھا چہچہایا اور اڑ گیا، ایک مردِ صالح رخصت ہوا، انھوں نے بڑی جاں فشانی اور سرگرمی اور خلوص کے ساتھ تادمِ آخر دارالعلوم دیوبند اور اس کے طلبہ کی خدمت کی تھی، دارالعلوم دیوبند کی تاریخ نامکمل کہلائے گی جس میں حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوری علیہ الرحمہ کی خدمات کا تذکرہ نہ ہو، یہ ان کی خدمات ہی کا فیض ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے فضلاء نہ صرف ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں؛ بلکہ سارے عالم میں پھیلے ہوئے ہیں، افسوس وہ شخصیت اورپردرد آواز جو نصف صدی تک دارالعلوم دیوبند کی چہاردیواری میں بلند ہوتی رہی ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔

زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر        $         خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

مثل  ا یو ا نِ سحر مرقد فروزاں ہو تیرا        $             نو ر  سے  معمور  یا  خاکی شبستاں ہو تیرا

     ربِ کریم تو اپنے اس محبوب بندے کو بے پایاں رحمتوں اور نوازشات سے سرفراز فرما، جنت الفردوس میں انبیاء، شہداء وصالحین کی معیت عطا فرما، اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی ہم لوگوں کو توفیقِ ارزانی نصیب فرما! آمین۔

—————————————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8-9، جلد:101 ‏،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء

Related Posts