از:محمد شاہ نواز عالم قاسمی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
مدارس اسلامیہ درس و تدریس کے مراکز ہی نہیں بلکہ ان کی حیثیت ایک تحریک کی ہے، برّصغیر میں اسلام کی نشاة ثانیہ کا سہرا اسی تحریک کے سرجاتا ہے۔ مسلمانوں میں دینی، فکری، سیاسی، سماجی بیداری کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ مدارس ہی ان امور کے لیے سرگرمِ عمل ہیں، تو شاید بے جا نہ ہوگا، مدارس عربیہ زندئہ جاوید حرکت و نمو سے لبریز ایک ایسا مستحکم ادارہ ہیں جو مولانا علی میاں ندوی کے الفاظ میں ”اُس کا ایک سرا نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہوا ہے ، دوسرا سرا اِس زندگی سے، وہ نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمہٴ حیوان سے پانی لیتا ہے اور زندگی کے اَن گنت کشت زاروں میں ڈالتا ہے، وہ اپنا کام چھوڑ دے تو زندگی کے کھیت سوکھ جائیں اور انسانیت مرجھانے لگے اور یہ واقعہ ہے کہ دیگر ممالک نے بروقت اسلام و مسلمانوں کی حفاظت کی تدبیر مدارس کی شکل میں نہ سوچی تو آج وہاں دہریت اور لادینیت کا دور دورہ ہے، دین اسلام کا نشان مٹ چکا ہے اور اب یہ پہچاننا مشکل ہوتا ہے کہ کبھی ان ممالک میں مسلمانوں نے صدیوں حکومت بھی کی تھی۔
مدارس عربیہ کا قیام اور پس منظر
قیام مدارس کے پس منظر کو اگر ہم سمجھ لیں تو ان کی خدمات اورمسلم معاشرہ پر ان کے اثرات کا سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ ۱۸۵۷/ کے بعد ہندستان میں مسلمانوں کا کوئی اسلامی تشخص برقرار رہنا تو کیا سرے سے ان کا وجود ہی خطرے میں پڑگیا تھا، مسلمانوں کے تشخص کو مٹانے اور اُن کے ذہنوں سے حکومت کی بوباس ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تدبیریں عمل میں آئیں، ایک طرف مسلمانوں کا وجود خطرے میں تھا تو دوسری طرف انھیں مرتد اور بددین بنانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جارہے تھے۔ داخلی اورخارجی دونوں طرح کی تحریکیں اس سلسلہ میں کام کررہی تھیں۔ یورپ سے عیسائی مشینریوں کی آمد، ملک میں مشن اسکولوں کا قیام، فتنہٴ آریہ سماج، شیعیت و قادیانیت، غیر اسلامی عقائد و اعمال، قبرپرستی، پیر پرستی وغیرہ جیسی برائیاں، علمائے حق کے خلاف رضاخانیت کی کفرسازیاں وغیرہ کئی داخلی خارجی فتنے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے میں مصروف کار تھے، سیاسی، سماجی اور معاشی انحطاط مسلمانوں کا مقدر بن چکا تھا، جائدادیں اور اوقاف سب ضبط کیے جاچکے تھے۔ غرض دین و دنیا ہر اعتبار سے مسلمان تہی داماں ہوتے جارہے تھے، ان ناگفتہ بہ حالات میں مدارس عربیہ کے قیام کا سلسلہ جاری ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سب سے پہلے خوانوادئہ ولی اللّٰہی کے علمی جانشین مولانا قاسم نانوتوی اور چند دیگر بزرگوں نے دیوبند میں ایک مدرسہ کا آغاز کیا جو آگے چل کر دارالعلوم کہلایا۔ دارالعلوم کا قیام درحقیقت تجدید دین کی اجتماعی تحریک کا نقطئہ آغاز تھا اور صلاح امت اور تجدید دین کے ایک مستحکم مرکز کا قیام تھا۔
تحریک دارالعلوم کا نصب العین
جن حالات میں دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا ان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دارالعلوم کی تحریک کا نصب العین صرف تعلیم ہی کی حد تک محدود نہ تھا؛ بلکہ اس کے ضمن میں آزادی پسندی، غلامی شکنی، اسلامی اتحاد، وطنی اتحاد، قومی خود مختاری، حق خود ارادیت، معاشی استغناء، وسائل کی فراہمی، رابطہٴ عوام وغیرہ کے ملے جلے جذبات کار فرماتھے۔ اور دارالعلوم کی تاسیس ایک خاص مکتب فکر کی تاسیس تھی، جیسا کہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے اصول ہشتگانہ اور جاری کردہ نظام کار سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت نے ۱۸۵۷/ کے بعد بھانپ لیا تھا کہ اگر قوم میں ملک و سیاست کے ساتھ علم و اخلاق اور ذہن و فکر میں بھی خود ارادیت باقی نہ رہی تواس قوم کی بنیاد ہی منہدم ہوجائے گی۔ اور وہ کبھی بھی اجتماعی طور پر خود اختیار بن کر نہ ابھرسکے گی۔ اس لیے حضرت والا کے نزدیک قوم کی سیاسی مملوکی اور اجتماعی غلامی کے ازالہ کی واحد تدبیرہی یہی تھی اور واقعتہً یہی تھی کہ قوم کو علم و دین کے راستہ سے اجتماعیت کی لائنوں پر ڈال دیا جائے۔ اور یہ جب ہی ممکن تھا کہ تعلیم و تربیت کے نظام کو مدارس کی شکل میں اجتماعی اصولوں پر قائم کیا جائے؛ چنانچہ آپ نے پورے ملک میں قیام مدارس کی تحریک چلائی جس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد تھانہ بھون، مراد آباد، گلاؤٹھی، دربھنگہ وغیرہ میں مدارس قائم ہوگئے۔
اسلامی اتحاد کے اسی جذبے کے تحت آپ کے شاگردوں اور دیگر مدارس کے فارغین نے اسلام پر حملہ آور داخلی و خارجی فتنوں کا مقابلہ مناظراتی، مباحثاتی، تحریری اور جہادی انداز میں کیا جس سے کئی تحریکیں وجود میں آگئیں۔ جن کے اپنے ہمہ گیر اثرات ہیں، ہم ان میں سے کچھ اہم تحریکوں کا اجمالی خاکہ ہی ذکر کئے دیتے ہیں، جن سے موضوع کے سمجھنے میں آسانی ہوگی،اور مسلم معاشرہ پرمدارس عربیہ کے ہمہ گیر اثرات کا اندازہ ہوسکے گا۔
عقیدہٴ ختم نبوت
انیسویں صدی کے اخیر میں اسلام کے اس عظیم بنیادی عقیدے پر یلغار کی گئی اور انگریز کی خانہ ساز نبوت کے داعی یورپ اور بلاد افریقہ میں تبلیغی مشن کے حسین عنوان سے مسلمانوں کو ارتداد کی دعوت دینے لگے، دیوبنداور اسکے ہم مشرب مدارس کے فارغین علماء نے مسلمانوں کو اس ارتدادی فتنے سے خبردار کیا، اکابر دیوبند کے سرخیل شیخ امداد اللہ مہاجر مکی نے اپنے خلفاء حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور شیخ مہر علی شاہ گولڑوی کواسکی سرکوبی کی جانب متوجہ کیا، علامہ انور شاہ کشمیری، علامہ شبیراحمد عثمانی، مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوری، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا یوسف بنوری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری وغیرہ اساطینِ علما میدان میں نکلے اور اپنی گراں قدر علمی تصانیف، موٴثر تقاریر اور بے پناہ مناظروں سے انگریزی نبوت کے دجل و فریب کا اس طرح پردہ چاک کیا اور ہر محاذ پر ایسا تعاقب کیا کہ اسے اپنے مولد و منشاء میں محصور ہوجانا پڑا، جس سے مسلم معاشرہ ارتداد کی آلودگیوں سے محفوظ ہوگیا، اور ملک کے گوشے گوشے میں قادیانیت کی منافقت اور اسلام سوز حرکتیں بے نقاب ہوگئیں۔ علمائے دیوبند کے علمی و فکری مرکز ”دارالعلوم دیوبند“ کی زیر نگرانی حریم ختم نبوت کی پاسبانی کی یہ مبارک خدمت پوری توانائیوں کے ساتھ آج بھی جاری و ساری ہے۔
ناموس صحابہ کا دفاع
ناموس صحابہ کے دفاع میں مدارس عربیہ نے نہایت وقیع اور گراں قدر خدمات انجام دی ہیں؛ چنانچہ اکابر دیوبند میں حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے ہدیہٴ شیعیہ، اجوبہ اربعین وغیرہ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے ہدایہ الشیعیہ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے مطرقة الکرامة اور ہدایات الرشید جیسی بلند پایہ کتابیں تحریر کیں،اور اس بات میں محدثین دہلی کی فکری و علمی موقف کی پوری نمائندگی کی گئی جو حضرت شاہ ولی اللہ کی ازالة الخفاء، قرة العینین، اور شاہ عبدالعزیز کی کتاب تحفہٴ اثنا عشریہ سے ظاہر ہے، پھر امام اہل سنت والجماعت مولانا عبدالشکور لکھنوی دفاع صحابہ کی اس عظیم خدمت میں پوری عمر مصروف رہے اور اس اہم موضوع کے ہر ہر گوشہ سے متعلق اس قدر معلومات فراہم کردیں کہ شاید اس پر مزید اضافہ دشوار ہو، نیز حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے مقام صحابہ پر کامیاب مضامین لکھے اور جب وقت کی سیاسی آندھیوں نے قافلہٴ اسلام کی صف اوّل پر یلغار کی تو حضرت مدنی نے صحابہ کے معیار حق ہونے پر وہ مباحث تحریر فرمائے جو عصر حاضر کے لیے سرمایہٴ فخر ہیں۔ ان بزرگوں کے علاوہ مولانا ولایت حسین بہاری، مولانا محمد شفیع سکھروی، علامہ دوست محمد قریشی، قاضی مظہر حسین، مولانا محمد منظور نعمانی وغیرہ نے اس محاذ پر گراں قدر خدمات انجام دیں۔
ردِّ بدعت و شرکت
ایک گروہ جو زبانی عشق رسول کا دعویدار ہے اور اپنے سوا تمام طبقات اسلام کو قابل گردن زدنی اور دنیا کے ہر کافر و مشرک سے بدتر سمجھتا ہے؛ لیکن عملاً اس کا حال یہ ہے کہ شریعت کے روشن چہرہ کو مسخ کرکے دین میں نت نئے اضافے کرتا رہتا ہے اور من گھڑت افکار کو شریعت قرار دیتا ہے، جبکہ صحابہٴ کرام سے لے کر آج تک علمائے حقانی نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو سب سے زیادہ رد بدعت پر مرکوز رکھا کہ اسی سے شرک کی راہ نکلتی ہے، جانشینانِ محدث دہلوی نے اس سلسلہ میں بہت کام کیا اور دینی مدارس کو منصوبہ بند طریقہ سے جاری کرنے کو وقت کی اہم ضرورت سمجھا؛ کیونکہ مسلمانوں میں عقیدے کی جو خرابیاں پیدا ہوئیں اور دوسری قوموں سے متاثر ہوکر، مسلم معاشرہ میں جو بہت سی بدعقیدگیاں گھس آئی تھیں اس کی بنیادی وجہ مسلم عوام میں تعلیم کی کمی، دینی معلومات کا فقدان اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت تھی۔
پھر انہی مدارس کے فضلا رد بدعت پر معرکة الآراء تقریریں کرتے، اور تمام خرافات کی تردید قرآن و حدیث کی روشنی میں کرتے تھے، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ نے شرک و بدعت کی رد میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں اور ماضی قریب میں مولانا منظور نعمانی ، مولانا سرفراز خاں صفدر وغیرہ نے بھی اس محاذ پر نہایت کامیاب خدمات انجام دیں اور معاشرہ کو شرک و بدعت سے پاک کیا، آج بدعت کی تردید میں ہزاروں سے زائد کتابیں موجود ہیں اور ہر مسئلے پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
فتنہٴ ارتداد اور تحفظ اسلام
برصغیر میں ۱۸۵۷/ کے سیاسی انقلاب کے بعد محدثین دہلی کے پیروکار اکابر دیوبند نے اپنی علمی و دینی بصیرت سے اس حقیقت کا پورا ادراک کرلیا کہ سماجی و اقتصادی تبدیلیاں جب اقتدار کے زیر سایہ پروان چڑھتی ہیں تو دینی و روحانی قدروں کی زمین بھی ہل جاتی ہے۔ اس باب میں عثمانی ترکوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تاریخ کے اس انتہائی خطرناک موڑ پر اکابر دیوبند کے سامنے وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ اسلامی تہذیب کو مغربیت کے اس سیلاب سے محفوظ رکھا جائے اور مسلمانوں کے دین و مذہب کا تحفظ کرکے انھیں ارتداد سے بچایا جائے، اس مقصد کے لیے انھوں نے پوری بیدار مغزی وژرف نگاہی سے ہر اس محاذ کو متعین کیا جہاں سے مسلمانوں پر فکری و عملی یلغار ہوسکتی تھی اور پھر اپنی بساط کی حد تک حکمت و تدبیر کے ساتھ ہر محاذ پر دفاعی خدمات انجام دیں۔
آریہ سماج
غیرمنقسم ہندوستان کی غالب اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے جن کے آباء واجداد کسی زمانہ میں ہندو تھے، انگریزوں کے سیاسی اقتدار پر تسلط جمانے کے لیے یہاں کے ہندوؤں کو اکسایا کہ یہ مسلمان جو کسی زمانہ میں تمہاری ہی قوم کا ایک حصہ تھا اپنی عددی قوت بڑھانے کے لیے انھیں دوبارہ ہندوبنانے کی کوشش کرو؛ چنانچہ انگریزوں کی خفیہ سرپرستی میں آریہ سماج کے ذریعہ مسلمانوں کو مرتد کرنے کی تحریک پوری قوت سے شروع ہوگئی، اسلام کے خلاف اس فکری محاذ پر حالات سے ادنیٰ مرعوبیت کے بغیر علماء کرام نے اسلام کا کامیاب دفاع کیا، تقریر و تحریر، بحث و مناظرہ، اور علمی و دینی اثر و نفوذ سے اس ارتدادی تحریک کو آگے بڑھنے سے روک دیا، بالخصوص دیوبند کے سرخیل اور قائد و رہنما حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے اس سلسلے میں نہایت اہم اور موٴثر خدمات انجام دیں، برّصغیر کی مذہبی و سماجی تاریخ کا ایک معمولی طالب علم بھی حضرت موصوف کی ان خدمات جلیلہ سے پوری طرح واقف ہے، تقسیم ہند کے قیامت خیز حالات میں جبکہ برّصغیر کا اکثر حصہ خون کے درمیان میں ڈوب گیا تھا، اس ہولناک دور میں بھی شدھی سنگٹھن کے نام سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کی ایمان سوز تحریک برپا کی گئی اس موقع پر بھی علماء مدارس وقت کے خونی منظر سے بے پرواہ ہوکر میدان میں کود پڑے اور خدائے رب العزت کی مدد و نصرت سے ارتداد کے اس سیلاب سے مسلمانوں کو بحفاظت لے گئے۔
عیسائیت کی تبلیغی مہم
ہندوستان پر انگریزی تسلط کے بعد عیسائی مشنریاں برصغیر میں اس زعم سے داخل ہوئیں کہ وہ ایک فاتح قوم ہیں، مفتوح قومیں فاتح قوم کی تہذیب کو آسانی سے قبول کرلیتی ہیں، انھوں نے پوری کوشش کی کہ مسلمانوں کے دل و دماغ سے اسلام کے تہذیبی نقوش مٹادیں یا کم از کم انھیں ہلکا کردیں؛ تاکہ بعد میں انھیں اپنے اندر ضم کیا جاسکے اوراگر وہ عیسائی نہ بن سکیں تو اتنا تو ہوکہ وہ مسلمان ہی نہ رہ جائیں،اس محاذ پر اکابر دیوبند نے عیسائی مشنری اور مسیحی مبلغین سے پوری علمی قوت سے ٹکرلی اور نہ صرف علم و استدلال سے ان کے تمام حملوں کو پسپا کردیا؛ بلکہ تہذیب اور ان کی مذہبی ماخذ پر کھلی تنقید کی، اس سلسلے میں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی خدمات سے علمی دنیا اچھی طرح واقف ہے۔
ایک مرتبہ اس اسکیم کے تحت پورے ملک میں انگریزی اسکولوں کا جال بچھادیاگیا، اوراس کی آڑ میں مسلم بچوں کے ذہن و دماغ کو مسیحی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جانے لگی، مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور اسلامی علوم و فنون کے ختم کردینے کی سازش رچی جانے لگی، اس محاذ پر علماء نے پوری ذمہ داری کا ثبوت دیا اور ہندوستان کے چپے چپے میں عربی درس گاہوں کے ذریعہ دین کے چراغ روشن کردئیے، اوراس کا بھرپور اہتمام کیا کہ برصغیر میں اسلام اپنی اصل شکل و صورت کے ساتھ نمایاں رہے، اس سلسلے میں حجة الاسلام مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، شیخ الہند، مولانا خلیل احمد اور آزادی کے بعد حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے کامیاب جدوجہد کی، بس کہا جاسکتا ہے کہ اگر آج برصغیرمیں اسلام کا وجود ہے تو اس کی بقاء دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ ہی کی دین ہے، یہ وہ چند فرقے اور فتنے ہیں جو مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں نمایاں رہے ہیں، اور دیگر فرقوں کو ہم نے دانستہ طور پر نظر انداز کردیا ہے کہ یہ مقالہ اس کا متحمل نہیں۔ مسلم معاشرہ پر عربی مدارس کے اثرات ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے، اگر ہم صرف ان مدارس کے فضلاء کی تحریکوں کا سرسری جائزہ بھی لیں تو ایک مستقل کتاب درکار ہے، چوں کہ مثبت اور منفی دونوں پہلو سے ان مدارس کے اثرات مسلم معاشرہ پر مرتب ہوئے ہیں اس لیے ان فرقوں کا اجمالی تذکرہ ناگزیر ہوا تاکہ اثرات کے سمجھنے میں آسانی ہو، اب تک ہم نے ان مدارس کے دفاعی پہلو کو ذکر کیا ہے۔
اقدامی پہلو کے کئی انواع ہیں: مثلاً دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت، تصنیف و تالیف، پرچے و لٹریچر کا اجراء، دینی تعلیم کا فروغ، سلوک و طریقت کی ترویج، ان کے علاوہ معاشی، سیاسی ، سماجی تحریکوں کی بنیاد ڈالی گئی جو اپنا ہمہ گیر اثر رکھتی ہیں اورمسلم معاشرہ آج بھی ان سے فیضیاب ہورہا ہے، ان تحریکوں اور ان کے اراکین کا کوئی تفصیلی خاکہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔ جبکہ یہ تاریخ کا ایک زبردست خلا ہے، اس لیے بعض انواع کو ہم اجمالاً ہی ذکر کریں گے۔ دارالعلوم کی سوسالہ خدمات تحریک پر کتابیں موجود ہیں، چوں کہ بیشتر مدارس دارالعلوم دیوبند کی ہی غیر رسمی شاخیں ہیں اور اسی کی تحریک کو آگے بڑھانے میں معاون و مددگار ہیں اس لیے ہم ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی سوسالہ خدمات اور اس تحریک کے اثرات و ثمرات کاہی سرسری جائزہ لینے پراکتفا کریں گے، اسی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرکز کے زیر اثر کتنے چھوٹے بڑے مدارس جوآج برصغیر کے چپے چپے میں قائم ہیں اورہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلباء نکال رہے ہیں؛ کیا کچھ کررہے ہوں گے، نیز ہم دارالعلوم کے کارناموں میں صرف دینی خدمات انجام دینے والے فارغین ہی کا تذکرہ کریں گے ؛ کیونکہ دینی و سیاسی انداز سے حصہ لینے والے طلبہ کے اعداد و شمارہمارے سامنے نہیں ہیں۔
فضلائے دارالعلوم کی کارکردگی
ذیل میں تاریخ دارالعلوم سے فضلائے دارالعلوم کی کارکردگی کے جو اعدادو شمار پیش کئے جارہے ہیں، وہ خاص توجہ کے مستحق ہیں، ان سے مدارس کے خدمات کا جائزہ لینا آسان ہوگا۔
۱۲۸۳ھ سے ۱۳۸۲ھ تک سو سال کے عرصہ میں دارالعلوم دیوبند نے
۵۳۶ مشائخ طریقت
۵۸۸۸ مدرسین
۱۱۶۴ مصنّفین
۷۸۴ مفتیان کرام
۱۵۴۰ مناظرین
۶۸۴ ماہرین صحافت
۴۲۸۸ خطبا و دعاة پیدا کئے۔
یہ تو صرف دارالعلوم / دیوبند کے اعداد وشمار ہیں، ہم نے بطورنمونہ ان کو ذکر کیا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب صرف دارالعلوم کا فیضان علم یہ ہے تو دیگر مدارس عربیہ، ندوہ مظاہر علوم، جامعہ رحمانی مونگیر وغیرہ جیسے سیکڑوں اداروں کے فیضانات واثرات کا کیا عالم ہوگا، جن کے فضلاء کی کارکردگی کی کوئی تفصیل ہمارے سامنے نہیں ہے۔
دعوت و تبلیغ
مدارس عربیہ کے فضلاء میں آغاز سے ہی دعوتی و تبلیغی جذبہ پوری قوت کے ساتھ موجود رہا ہے، ان کے اکثر فضلاء اپنے علاقوں میں اصلاحی تقریریں کرتے ہیں اور عوام کو دین کی باتیں بتاتے اور راہِ ہدایت کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ ان حضرات نے ہندوستان کے گوشے گوشے میں عوام مسلمین کو اسلام کے احکام اس کے اوامر و نواہی سے آگاہ کیا، ان کے دلوں میں شریعت پر چلنے اور سیرت نبوی کو اپنی زندگی میں اپنانے کا جذبہ ابھارا اور آج بھی وہ مساجد کے منبروں اور چھوٹے بڑے دعوتی جلسوں سے خطاب کرتے اور رونق اسٹیج نظر آتے ہیں۔
بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہندوستان میں دعوت و تبلیغ کے کام نے جماعتی ہیئت اختیار کرلی اور تبلیغی جماعت کے نام سے شہرت یاب ہوئی، ہندوستان میں اس تنظیم تبلیغی مشن سے جو عظیم فائدے مسلمانوں کو ہوئے وہ ہر شخص کے مشاہدے میں ہیں۔ مسلمانان ہند کی دینی زندگی میں ایمان ویقین اور پابندیٴ شریعت کا جذبہ پیدا کرنے میں اس تبلیغی تحریک نے جو روشن کارنامے انجام دئیے ہیں، وہ آنکھوں دیکھی حقیقت ہیں، اس تحریک کو بروئے کار لانے اور فروغ دینے کا سہرا جس عظیم المرتبت شخصیت کے سر جاتا ہے وہ اسلامی ہند کے محسن اعظم اور عظیم داعیٴ اسلام حضرت مولانا محمد الیاس ہیں جو مدرسہ کے فارغ التحصیل اور حضرت مولانا محمودحسن شیخ الہند کے خصوصی شاگردوں میں تھے، حضرت شیخ الہند کی ہدایت پر انھوں نے تبلیغی جماعت کی بنیاد ڈالی ، جو آج دعوت کا پرچم تمام عالم میں لہرارہی ہے۔ اس طرح تبلیغی جماعت بھی مدارس عربیہ ہی کا فیض ہے، تبلیغی جماعت کے اصول و ضوابط اور افادیت جاننے کے لیے ملاحظہ ہو مولانا علی میاں ندوی کی وقیع کتاب ”مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت“۔
سلوک و طریقت
ان مدارس نے اصلاح نفس کے اس طریقہ کو بھی فروغ دیا جسے ہم ”سلوک و طریقت“ کہتے ہیں، اور جو اصل دین کی روح ”احسان“ سے عبارت ہے، مسلم معاشرہ کی اصلاح میں اس طریقہ کو خاص اہمیت حاصل ہے، یہ وہ فضلائے مدارس تھے جن کے ہاتھوں پر ہزاروں آدمیوں نے بیعت کرکے اپنی زندگی کو شریعت کا پابند بنالیا، شیخ الہند محمود حسن، شیخ الاسلام حسین احمد مدنی، مولانا احمدعلی، مولانا عبدالقادر رائے پوری، اور سب سے زیادہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ سے دنیا فیضیاب ہوئی۔ آپ کے یہاں برصغیر کے اہل علم کا رجوع بہت زیادہ تھا، آپ نے بڑے بڑے خلفاء بھی چھوڑے جنھوں نے اصلاح باطن کے دائرے کو بہت زیادہ پھیلایا، ابھی حضرت تھانوی کے صرف ایک خلیفہٴ اجل حضرت مولانا ابرارالحق مدظلہ العالی ہندوستان میں حیات ہیں، جن کی شخصیت مسلمانان ہند کے لیے تزکیہٴ قلوب اور تربیت باطنی کا سرچشمہ بنی ہوئی ہے۔ غرض اس راہ سے بھی مدارس نے عظیم الشان دینی فیوض پہنچائے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
عصری مزاج کے مطابق دینی لٹریچر کی اشاعت
علمائے کرام نے جدید نسل کو دین سے قریب کرنے کے لیے ہمیشہ اس کے ذہن و مزاج کا خیال رکھا جس کی وجہ سے دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں الحاد و دہریت اور دین سے بے گانگی کو زیادہ پروان چڑھنے کا موقع نہیں مل سکا، علامہ ڈاکٹر خالد محمود صرف دارالعلوم کے فارغین کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”عقلیت پسند ذہن کواسنادی اسلام کے قریب کرنے کے لیے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کی العقل والنقل، خوارقِ عادات اور مسئلہ تقدیر جیسی تحریرات عصری تقاضوں کے پیش نظر نہایت مفید ہیں، حضرت مولانا حبیب الرحمان عثمانی کی اشاعت اسلام، مولانا مناظر حسن گیلانی کی ”سالامی معاشیات“، مولانا حفظ الرحمن کی ”اسلام کا اقتصادی نظام“، ”اخلاق“ اور ”فلسفہٴ اخلاق“ ، ”قصص القرآن (۴جلدیں) مفتی شفیع صاحب دیوبندی کی ”آلات جدیدہ اور اسلام“ اور اسی طرح حضرت مولانا قاری طیب صاحب اورحضرت مولانا منظور نعمانی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی مختلف کتابیں ہیں، یہ وہ صحیح دینی لٹریچر ہیں، جو جدید نسلوں کو ملے ہیں“ یہ تو صرف دارالعلوم کا اجمالی خاکہ ہے، ورنہ دیگر مدارس، ندوہ، مظاہر وغیرہ کے فضلاء نے کیاکچھ نہ کارنامہ انجام دیا ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔ ماضی قریب میں مولاناعلی میاں ندوی ہی کی شخصیت کو لے لیجئے ان کی سیکڑوں کتابیں اور مضامین صرف مسلمانوں کو دین و مذہب سکھانے کے لیے ہیں، آج مدارس سے کئی سو کی تعداد میں ماہنامے، اور جریدے شائع ہورہے ہیں، جو ایمان و یقین اور پابندی شریعت کے داعی و محرک ہیں۔ بعض پرچے دیگر ممالک میں بھی اصلاح مسلمین کا کام کرتے ہیں۔
مدارس عربیہ کے سیاسی اثرات
مدارس عربیہ نے سیاسی اعتبار سے بھی معاشرہ پر اپنا اثر ڈالا ہے، ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کو صحیح راہ دکھانے والے یہی فارغین مدارس تھے، انیسویں صدی کے اختتام سے پہلے ہی دارالعلوم میں ”ثمرة التربیت“ کا قیام عمل میں آیا، جو دراصل طلبہ اجتماعی فکر اور سیاسی ذوق کی تربیت کا پہلا قدم تھا، اس کا دوسرا مرحلہ ”جمعیة الانصار“ کی تنظیم تھی، بعض اسباب کی بنا پر اس کا مرکز دارالعلوم سے باہر لے جانا پڑا، اب جمعیة الانصار نے ”نظارة المعارف القرآنیہ“ کی شکل اختیار کرلی، پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد ”تحریک خلافت“ منظم ہوئی، ”خلافت کمیٹی“ کا قیام عمل میں آیا، اور ”جمعیة علمائے ہند“ کی بنیاد پڑی، طبقہٴ علماء کو اجتماعی و سیاسی زبان ملی، ان کا الگ اورمستقل سیاسی پلیٹ فارم آراستہ ہوا، جو اسلام کے صحیح اصول و ضوابط کے مطابق مسلمانوں کی رہنمائی کرتا رہا، اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس جو ہندوستان میں سب سے زیادہ طاقتور جماعت مانی جاتی تھی بغیر جمعیة کی اجازت کے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے پر قادر نہیں تھی۔ ۱۹۴۷/ کے پر آشوب دور میں مسلمانوں کی جان ومال عزت و آبرو کاکوئی محافظ تھا تو وہ اسی جماعت کے کارکن حضرات تھے، جن میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ مساجد، مدارس، خانقاہیں، اوقاف اور جائدادیں اگر آج کچھ محفوظ ہیں تو اسی جماعت کی مرہون منت ہیں۔
اسی سلسلے کی دوسری جماعت ”مسلم پرسنل لا بورڈ“ کے نام سے آج موجود ہے، جس میں مسلمان کہلانے والے تقریباً سبھی جماعت اور گروہ کے لوگ شریک ہیں، مسلمانوں کو انصاف دلانے اور ان کے حقوق کی بات چیت کرنے میں یہ پیش پیش رہی ہے، اتحاد بین المسلمین کی یہ واحد نمائندہ جماعت ہے اور تیسری جماعت ”ملی کونسل“ کے نام سے سیاسی و ملی خدمت کے میدان میں سرگرم عمل ہے۔ ایک چوتھی جماعت، ”مجلس احرار اسلام“ کے نام سے خدمت میں مصروف عمل ہے اس کا حلقہ بھی بڑا وسیع رہا ہے،اس جماعت کا سب سے بڑا کارنامہ قادیانیوں کے خلاف محاذ آرائی ہے، جس میں انہیں بڑی کامیابی حاصل ہوئی، اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد قادیانیت کے حقائق سے واقف ہوئی۔
زبان اُردو مسلمانوں کا تشخص
اردو کو فروغ دینے میں ان مدارس کی جدوجہد سب سے زیادہ رہی ہے؛ کیونکہ ان کی اپنی منتخب شدہ زبان اردو ہے، آج دنیا کے اکثر ممالک میں اردو بولنے اور جاننے والے موجود ہیں، زبان اور تہذیب و تمدن کی وحدت کیا اہمیت رکھتی ہے اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اپنی جماعت کے نمائندہ کہلاتے ہیں۔ زبان کی وحدت، تہذیب و ثقافت کی وحدت کو ضامن ہوتی ہے، دنیا میں زبان اور تہذیب و کلچر قوم کا سب سے بڑا طرئہ امتیاز سمجھی جاتی ہے،اور بین الاقوامی اعتبار سے اسے ایک حیثیت حاصل ہے، اس سے بندر بانٹ کے بجائے وحدت کا تصور ہوتا ہے، آج ہندوپاک میں اردو زبان مسلمانوں کا تشخص و امتیاز سمجھی جاتی ہے اور ہر مسلمان کو چاہے کسی صوبہ سے تعلق رکھتا ہو ایک گونہ لگاؤ ضرور ہے، یہ وحدت کا تصور آخر کس نے دیا، یہی مدارس کے طلبہ تھے جنھوں نے پورے مسلم معاشرہ کو ایک قالب میں ڈھالنے کی لازوال کوشش کی، جس سے غیراسلامی طور و طریق کا نکل جانا ایک لازمی نتیجہ ہے۔
ذریعہٴ معاش اور مدارس
۱۸۵۷/ کے بعد جب مسلمانوں کی جائدادیں ضبط کرلی گئیں اور ان کی معاشی حالت ابتر ہونے لگی اس وقت مدارس عربیہ نے تعلیم کے ساتھ ذریعہٴ معاش پر بھی توجہ دی اور شعبہٴ خوش خطی، شعبہٴ خیاطی وغیرہ جیسے شعبے قائم کرکے باضابطہ طلبہ کو ان فنون میں مہارت پیدا کرائی گئی اوراس طرح وہ یہاں سے فارغ ہوکر اگر وہ درس و تدریس کے قابل نہ ہوئے تو ان فنون کو ذریعہٴ معاش بنالیا۔ ادھر چند سالوں سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ، مدارس کا جزء لاینفک بنے ہوئے ہیں۔ یہ بھی اسی مقصد کے تحت وجود میں آئے، دینی و عصری طرز کے مدارس کے علاوہ تقریباً اکثر مدارس عربیہ وقت کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس شعبہ کو کھول رہے ہیں، جن میں باقاعدہ طلبہ کا داخلہ ہوتا ہے، اور مستقبل میں یہ یہاں سے ایک اچھا ذریعہٴ معاش لے کر جاتے ہیں۔
خاتمہٴ کلام
الغرض دین و دنیا کا وہ کونسا پہلو ہے جس میں مدارس نے امت کی رہنمائی نہیں کی، اوپر مختلف حیثیتوں سے موضوع کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی، مسلم معاشرہ پر عربی مدارس کے اثرات کا اندازہ مسلمانوں میں دینی، تعلیمی، تبلیغی، معاشی اور سیاسی بیداری سے لگایا جاسکتا ہے، آج مسلم معاشرہ میں اگراسلام کی کچھ خوباقی ہے، اسلام کی صحیح تعلیم اور دین و شریعت پر چلنے کا جذبہ مسلمانوں میں پایا جاتا ہے تو یہ مدارس عربیہ کا ہی فیض ہے۔ خصوصاً دارالعلوم دیوبند اور اس سے ملحق دیگر مدارس کے معاشرہ پر گہرے اثرات کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ آج برصغیر میں مسلمانوں کے دینی و سیاسی وجود کا حامل یہیں کے فارغین کو بتایا جاتا ہے۔
$$$
مآخذ و مراجع
(۱) پاجاسراغ زندگی: مصنفہ مولانا ابوالحسن علی ندوی۔
(۲) دارالعلوم دیوبند احیائے اسلام کی عظیم تحریک: از اسیر ادروی۔
(۳) تاریخ دارالعلوم دیوبند: از سید محبوب رضوی۔
(۴) ماہنامہ الرشید: دارالعلوم دیوبند نمبر پاکستان۔
(۵) ماہنامہ الجمعیة: خدمات دارالعلوم دیوبند نمبر پاکستان
(۶) ہمارے دینی مدارس: از مولانا ولی رحمانی صاحب مدظلہ مونگیری۔
(۷) تحریک ختم نبوت: موٴلفہ شورش کاشمیری۔
(۸) ماہنامہ الجمعیة: دارالعلوم دیوبند نمبر، انڈیا
(۹) مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت: از مولانا ابوالحسن علی ندوی
(۱۰) مطالعہٴ بریلویت: از ڈاکٹر خالد محمود صاحب۔
(۱۱) مقالہ بعنوان ہندوستان کے دینی و علمی فضاء پر دارالعلوم دیوبند کے اثرات: از مولانا جاوید اشرف صاحب مدھے پوری
(۱۲) علمائے دیوبند کا دینی و مسلکی مزاج: از قاری محمد طیب صاحب
(۱۳) ذاتی ڈائری: از مولانا عبید اللہ سندھی۔
(۱۴) متفرقات: از مولانا سید ازہر شاہ قیصر۔
(۱۵) جائزہ مدارس عربیہ: از حافظ نذیر احمد صاحب پاکستان۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ6، جلد: 89 ، ربیع الثانی ، جمادی الاول1426ہجری مطابق جون 2005ء