از: مولانا محمد اسرارالحق قاسمی

اسلام میں اجتماعیت پر بڑا زور دیا گیا ہے،اس سلسلے میں قرآن کریم کی واضح آیات بھی موجود ہیں اور روشن احادیث بھی،اسی طرح مسلمانوں کے درمیان اجتماعیت قائم کرنے کے لیے عملی نظام بھی موجود ہے۔قرآن میں باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اِنَّمَا الموٴمِنُونَ اِخوَة“ (تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔)

اللہ رب العزت اجتماعیت کی مدد فرماتے ہیں۔ ”یَدُ اللہِ عَلَی الجماعَةِ“ ۔اسلام میں بہت سی عبادتوں کو ایک ساتھ ادا کرنے کا حکم کیا گیا ہے؛ تاکہ مسلمانوں کے درمیان اجتماعیت واخوت قائم رہے۔اس پر سوال ہوتا ہے کہ اسلام میں اجتماعیت پر اس قدر زور کیوں دیا گیاہے؟ کیوں مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے؟ دراصل اتحاد واجتماعیت کسی بھی قوم کی بقا کے لیے ضروری ہے ۔قومیں باہم جس قدر متحد اور مجتمع ہوتی ہیں، اُسی قدر وہ بااثر اور ناقابلِ تسخیر خیال کی جاتی ہیں۔اس کے برعکس جو اقوام وملل باہم اختلافات کی شکار ہوجاتی ہیں، ان کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے، ان کے لیے اپنی شناخت وتشخص کو بچاپانا مشکل ہوجاتاہے۔کوئی قوم افراد کے اعتبار سے خواہ چھوٹی ہو؛ لیکن اگر وہ متحد ہے تو اس کے مستقبل کے تابناک ہونے کے امکانات روشن رہتے ہیں ۔ مسلمانوں کی تاریخ میں اس کی روشن مثالیں موجود ہیں۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی تعداد بڑی قلیل تھی؛ لیکن وہ باہم متحد تھے، تو اس چھوٹی سی تعداد نے بڑے بڑے معرکوں کو سرکیا۔تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ خلفائے راشدین کے دورمیں اسلام دنیا کے دور دراز کے علاقوں وملکوں میں پہنچ گیا، مختلف ممالک ایک کے بعد ایک مسلمانوں کے زیرِ نگیں آتے چلے گئے اوردنیا کی بڑی بڑی قومیں مسلمانوں کے سامنے بکھر کررہ گئیں؛ لیکن جب مسلمانوں میں اخوت وبھائی چارگی نہ رہی، وہ باہم لڑنے لگے ، اپنے اپنے مفادات کے لیے اپنے ہی بھائیوں پر حملہ آور ہونے لگے تو دنیا سے مسلمانوں کا دبدبہ ختم ہوگیا اور چھوٹی چھوٹی قومیں بھی انھیں لقمہٴ ترسمجھنے لگیں۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس پچاس سے زیادہ ممالک ومملکتیں ہیں۔دنیا میں ان کی تعداد سواارب سے بھی زائد ہے، مسلمانوں کے متعدد ممالک میں پٹرول ، ڈیزل ، تیل وگیس کے ذخائر موجود ہیں اور ان کے پاس پُرتعیش زندگی گزارنے کے لیے وافر مقدار میں وسائل وذرائع ہیں؛ مگر اس کے باوجود دنیا کے منظرنامے پر ان کا کوئی اثر ورسوح نہیں ہے، نہ صرف دنیا کی بڑی قومیں؛ بلکہ چھوٹی چھوٹی قومیں بھی ان کا محاصرہ کرنے پر کمر بستہ نظرآتی ہیں اور اُن پر عرصہٴ حیات تنگ کرنے کی کوششیں کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے آئے دن اسلام پر بے ہودہ الزامات لگائے جاتے ہیں اور کبھی قرآن کو تو کبھی پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے؛ تاکہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچے ، وہ مشتعل ہوں اورپھر ان کو جانی ومالی نقصان سے دوچا رکیاجائے مسلمانوں کی یہ دُرگت اس لیے ہوئی کہ وہ باہم متحد نہیں ہیں ، چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بنٹ گئے ہیں۔ کہیں برادریوں کے نام پر ان کے درمیان فاصلے قائم ہیں،کہیں مسلک کے نام پر ان کے مابین دوریاں پائی جاتی ہیں اور کہیں علاقائیت کے نام پر باہم دست وگریباں ہیں۔اس فرقہ بندی نے مسلمانوں کے شیرازے کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔

     یہ زمانہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا ہے۔ ہر قوم دنیا پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے، اسی لیے آگے بڑھنے اور دوسری قوموں کو پیچھے چھوڑنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کیے جارہے ہیں، وہ قومیں جو صدیوں سے منتشر چلی آرہی تھیں، وہ اب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنی طاقت میں اضافہ کررہی ہیں؛ مگر مسلمان ہنوز منتشر ہیں۔ علامہ اقبال نے اس کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے:

یوں تو سیدبھی ہو ، مرزا بھی ہوافغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ،دین بھی ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

صدیوں سے مسلمانوں کے درمیان جاری اختلافات کے خطرناک نتائج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جب تک مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد و اجتماعیت قائم نہیں کریں گے ، رُسوائی اور پسماندگی کی بیڑیاں ان کے پیروں میں پڑی رہیں گی؛حالانکہ برسہابرس سے جاری مسلمانوں کے درمیان قائم اختلافات کا ختم ہونا بہ ظاہر آسان نظرنہیں آتا اور اس سلسلے میں کی جانے والی تدبیروں کے کارگر ہونے کے مضبوط امکانات بھی دکھائی نہیں دیتے ؛ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلمان اپنے آپ کو اسلام کا پابند بنالیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ، نیز اسلامی نظام کو اپنے درمیان اخلاص وجذبات کے ساتھ قائم کریں تو مضبوط اتحاد اور یگانگت ان کے مابین آسانی کے ساتھ قائم ہوجائے گی۔

اسلام میں عبادات پر خاص توجہ دی گئی ہے۔اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے چار کا تعلق براہِ راست عبادت سے ہے۔قرآن میں انسان کی پیدائش کا مقصد بھی عبادتِ الٰہی بیان کیا گیا ہے۔فرمایا گیا: وَمَاخلقتُ الجنَّ وَالانسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن۔اگر مسلمان خلوصِ نیت کے ساتھ عبادت کریں اور عبادت کے تقاضوں ومطالبوں کو پورا کریں تو ان کے درمیان اجتماعیت قائم ہوجائے گی۔مثال کے طورپر پانچ وقت کی نمازیں مسلمانوں پر فرض کی گئی ہیں؛ لیکن ان نمازوں کو اجتماعیت کے ساتھ ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔دن رات میں پانچ بار ایک ہی وقت میں مسجد میں جمع ہونا ، پھر ایک ہی ساتھ کاندھے سے کاندھا ملانا،ایک ہی ساتھ رکوع وسجود کرنا ، اٹھنااور بیٹھنا آپسی بھائی چارے کے لیے بڑا موٴثر ہے۔محلہ کی سطح پر اتحاد کے قیام کے بعد اس کے دائرے کو مزید اس طرح پھیلایاگیا ہے کہ ہفتے میں ایک بار جمعہ کی نماز فرض کی گئی ہے اور اس نمازکو شہر کی جامع مسجد میں اداکرنا زیادہ بہترقراردیا گیا ۔ شہر کی جامع مسجد کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے؛ تاکہ پورے شہر کے لوگ کم از کم ہفتے میں ایک بار جامع مسجد میں جمع ہوجایاکریں اور ایک ساتھ بار گاہِ الٰہی میں سربہ سجود ہوجایاکریں، یقینا یہ عمل بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے قیام کے لیے بڑا موٴثر ہے۔سال میں دو مرتبہ عیدین کے مواقع پر دوگانہ نماز کی ادائیگی کے لیے عیدگاہ کا انتخاب اس لیے بھی بہترین ہے کہ وہاں نہ صرف ایک قصبے یا شہر کے لوگ جمع ہوں؛ بلکہ قرب وجوار کی بستیوں وگاؤوں کے مسلمان بھی اکٹھے ہوں، ایک ساتھ اللہ سامنے کھڑے ہوں، آپس میں کاندھے سے کاندھا ملائیں ۔اس موقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد بھی پیش کریں اور ایک دوسرے کے احوال سے بھی واقف ہوں۔

عالمی سطح پر مسلمانوں کے درمیان اتحاد واجتماعیت قائم کرنے کے لیے باری تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے ایک بڑے اور بین الاقوامی اجتماع کا موقع حج کی شکل میں عنایت فرمایا ۔صاحبِ استطاعت افراد کو حکم دیاگیا کہ وہ اپنے اپنے ملکوں وخطوں سے سفر کریں، بیت اللہ میں جمع ہوں جو امن وسلامتی کا مرکزہے؛چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حج کے ایام میں ہر خطے اور ہر ملک کے مسلمان بیت اللہ شریف میں مجتمع ہوتے ہیں اور مخصوص دنوں میں طواف کرتے ہیں، ارکانِ حج اداکرتے ہیں، منیٰ میں جاتے ہیں، کوہِ صفا اور مروا پر دوڑ لگاتے ہیں۔اسی اثنا میں انھیں ایک دوسرے کے ساتھ گفت وشنید اور باہم متعارف ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔ان کے لیے اس بات کا موقع ہوتاہے کہ وہ اپنے علاقوں کے حالات و واقعات ایک دوسرے کو بتاسکیں،ایک دوسرے کے مشورے حاصل کرسکیں۔ ساتھ ہی اس عظیم اجتماع سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان اللہ کے دربار میں برابر ہیں۔وہاں نہ کوئی چھوٹا ہے ، نہ بڑا؛سب کوایک ہی جیسے اعمال کرنے ہیں سب کو لَبَّیک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک کی صدائیں بلند کرنی ہیں،سب کو احرام باندھنا ہے۔#

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز

نہ کوئی بندہ رہا ، نہ کوئی بندہ نواز

حج اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمان پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کے آگے اپنے آپ کو جھکادیں اور پورے طورپر اللہ کی اطاعت کریں۔حج اس بات کا بھی تقاضہ کرتا ہے کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو کمتر یا حقیر نہ سمجھے۔کوئی یہ خیال نہ کرے کہ وہ بڑا ہے یا امیر ہے، عہدیدار ہے یا شہرت یافتہ ہے اور دوسرا چھوٹا ہے یا غریب ہے یا عام آدمی ہے۔جب انسان اپنے ذہن کو پاک صاف کرلے گا اور اپنی بڑا ئی کے خیال کو قلب سے نکال پھینکے گاتو مسلمان ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے۔اتحاد واجتماعیت کا جو ثبوت حجاجِ کرام حج کے موقع پر دیتے ہیں، وہی ثبوت اگر وہ اپنے اپنے علاقوں میں جاکر دیں تو مثبت اثرات ظاہر ہوں گے،اسی طرح جوباتیں وہ دورانِ حج سیکھتے ہیں ،اگر اپنے اپنے خطوں و سوسائٹیوں میں جاکر دوسرے مسلمانوں کو بھی سکھائیں تو حج کی افادیت کا دائرہ پوری دنیا کے مسلمانوں پر پھیل جائے گا۔ افسوس! مسلمان حج کے ماحول کو اپنے وطن واپس لوٹ کر قائم نہیں رکھ پاتے اور اس پیغام کو عام نہیں کر پاتے جو انھیں دورانِ حج حاصل ہوتاہے۔ حج کرنے والے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ حج کرنے کے بعد حاجی ایسا ہوجاتا ہے جیسے وہ اپنی ماں کے پیٹ سے ابھی پیدا ہوا ہے، یعنی اس کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور وہ پاک صاف مسلمان بن جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خدا کا جو بندہ اس مقام پر فائز ہوجائے، اس کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ عوام الناس کے درمیان ایک پکا سچا مسلمان ہونے کا ثبوت بھی دے؛ تاکہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی اس کی شخصیت مفید و موٴثر ثابت ہو، مسلمانوں کی اکثر سوسائٹیوں میں ان لوگوں کی اچھی خاصی تعداد پائی جاتی ہے جو حج کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔اگر تمام حجاج کرام لوگوں کے سامنے اسلام کی باتیں کریں گے اور جو تربیت انھوں نے حج کے دوران حاصل کی ہے، اُسے لوگوں میں تقسیم کریں گے تو سماج اورافراد کی اصلاح کا موثر سامان فراہم ہوجائے گا۔اسی طرح اگر وہ اپنے اپنے علاقے کے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیں گے اور اسے اپنا مشن بنائیں گے تو اس کے مثبت اور بہتر نتائج سامنے آئیں گے ۔کاش !حجاجِ کرام حج کے اس پیغام کو سمجھیں ، اسے عام کرنے پر کمر بستہ ہوں اور اپنی کوششوں کو وقت کی ضرورت کے مطابق مسلمانوں کے درمیان اتحاد واجتماعیت قائم کرکے انھیں بحیثیت ایک امت وملت تقویت پہنچانے کا کام کریں۔

حج بیت اللہ کے موقع پر مسلمانوں کے درمیان عالمی اتحاد بھی ممکن ہے؛ اس لیے کہ ساری دنیا کے مسلمان وہاں جمع ہوتے ہیں، پھر ہر مسلمان بیت اللہ کا احترام بھی کرتا ہے ۔وہاں اگر وسیع پیمانہ پراتحاد واجتماعیت کی بات کی جائے تو موثر ثابت ہوگی۔اس وقت عالمی اتحاد کی ضرورت بھی ہے؛ کیونکہ مسلم ممالک کے مابین جس طرح کا اتحاد ہونا چاہیے ، وہ نظرنہیں آتا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ تنظیمیں اس طرح کی موجود ہیں جن سے بہ ظاہر یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلم ملکوں میں اتحاد ہے ؛ لیکن جب اس اتحاد کی عملی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو یہ ممالک اپنی اپنی رائے کے ساتھ الگ تھلگ نظرآتے ہیں۔ اگر کسی مسلم ملک میں حالات خراب ہیں تو یہ اس کا تعاون بھی کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ ایسے ہی کسی ملک میں مسلمانوں کو ستایا اور دبایا جاتا ہے اور ا ن کے ساتھ ظلم وناانصافی ہوتی ہے تب بھی وہ ہونٹوں سلے رہتے ہیں؛ حالاں کہ بحیثیت مسلم سارے مسلمانوں اور مسلم ملکوں کو دوسرے مقامات کے مسلمانوں کی بھی فکر ہونی چاہیے۔اتحاد اور باہمی روابط نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے مالدار ممالک ان مسلم ملکوں کا تعاون بھی نہیں کرپاتے ، جہاں غربت پائی جاتی ہے اور جہاں کے لوگ بڑی مفلوک الحالی میں زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں؛ جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ ایسے غریب ممالک اور مسلمانوں کی مالی امداد کی جانی چاہیے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وسیع پیمانہ پر مسلمانوں کے مابین اتحاد واتفاق کی کوئی کوشش موثر ثابت نہ ہوئی تو آنے والے وقت میں مسلمان اور پیچھے ہوجائیں گے اور طرح طرح کے مسائل میں مزید گھرجائیں گے۔حج بیت اللہ کے پیغام سے تمام عالم کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں ۔

————————————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8-9، جلد:101 ‏،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء

Related Posts