حضرت مفتی محمد سہول عثمانیؒ — صدر مفتی دارالعلوم دیوبند سوانحی خاکہ (۲/۲)

از:   مولانارفیق احمد بالاکوٹی    

جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی      

فقہی مسلک:

دوسری صدی ہجری میں دین حنیف کی تابعداری کی سب سے بڑی مثال ہونے کی بنا پر”ابوحنیفہ“ کہلانے والی ہستی کے ساتھ اتباع شریعت کے حنیفی منہج کے پیروکارہونے کی حیثیت سے حضرت مفتی محمدسہول عثمانی قدس سرہ اپنے تعارف میں حنفی کی نسبت بھی لگاتے تھے،علمائے دیوبندسے متعلق اہل بدعت کی افتراء پردازیوں سے جان خلاصی اورسلف بیزارغیرمقلدین کے بے جاتعصب سے طبعی وفطری بیزاری کی بنیادپرتکوینی امرکے تحت آپ کامسلکی مزاج اوردینی رُخ علمائے دیوبندکی طرف جومُڑا،اس کی بنا پر آپ ”حنیف“اورآپ کامزاج ورُخ ”حنفی“ شناخت کابہترین مظہرٹھہرا۔

حنفی مدارس میں تدریس:

چنانچہ آپ کی زندگی کے مشاغل میں فقہ حنفی اوراحادیث نبویہ کی تدریس نمایاں رہی،آپ نے فراغت کے فوراً بعد سے علوم دینیہ کی تدریس وتعلیم کامشغلہ اپنایااورسرزمین ہندکے مختلف نامورتعلیمی اداروں میں اعلیٰ تدریسی مناصب پر فائز رہے، ان اداروں میں” مدرسہ عین العلم شاہجہاں پور“سرفہرست ہے،جہاں فراغت کے پہلے ہی سال حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ نے حکماً آپ کوصدرالمدرسین کے عہدے پرمقررفرمایاتھا،تقریباً آٹھ ماہ وہاں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے،اسی دوران نوسالوں سے بچھڑے ہوئے محمدسہول کی تلاش میں آپ کے بھائی مولوی محمدرسول اچانک وہاں پہنچ گئے،اورواپس بھاگل پورلے گئے،شاہجہان پورمیں تدریس،بھائی کی ملاقات اوروطن روانگی کاتذکرہ حضرت کے الفاظ میں:

”جب کل درسیات سے فارغ ہوگیاتو حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ نے حکماً مدرسہ عین العلم واقع شاہجہان پورمیں صدرالمدرسین مقررکرکے بھیج دیا،چونکہ اس کے قبل میں نے کسی مدرسہ میں مدرسی نہیں کی؛اس لیے اول ہی مرتبہ صدرالمدرسی پرجانامجھ کوبہت گراں معلوم ہوتاتھااورمیں انکار کرتا تھا؛مگرحضرت ممدوح نے نہایت محبت سے مجھ کوفرمایاکہ” تم جاوٴتمہاری عزت و آبرو ہمارے ذمہ ہے“،الغرض میں وہاں گیااورنہایت حسن خوبی کے ساتھ کل کام اداہوتارہااس وقت سے اب تک بحمداللہ جہاں جہاں میں نے مدرسی کی نیک نام ہی رہا،اوربرابراب تک سلسلہ مدرسی کاقائم رہا، جب تک تقریباًآٹھ ماہ شاہ جہانپورمیں مدرسی کرچکاتوایک دن بلااطلاع شب کے وقت جناب بھائی مولوی محمدرسول صاحب مدظلہ یکایک ہمارے پاس پہنچے، تقریباً نوسال کے بعد بلا وہم وگمان ملاقات ہوئی تومیں نے ان کونہیں پہچانا،مگرتھوڑی دیرکے بعد پہچان لیا،اوردونوں بھائی لپٹ کر خوب دل کھول کرروئے، الغرض بھائی صاحب ممدوح مجھ کولے کربھاگلپورروانہ ہوئے، اورراستہ میں کانپورحضرت مولانا احمد حسن صاحب رحمہ اللہ اورحضرت مولانا نورمحمد صاحب رحمہ اللہ کی قدم بوسی کرتاہوااوران دونوں حضرات سے سند لیتا ہوابھاگلپورپہنچا“۔ (تعلیم الانساب ،ص:۱۶)

الغرض مدرسہ عین العلم شاہجہان پورسے علیحدگی کے بعداپنے وطن بھاگل پورپہنچے اپنے اعزا واقارب سے ملے،خاندان کے سرپرستوں نے شادی خانہ آبادی کی ترتیب بھی بنائی،ساتھ ساتھ اصل مشغلہٴ تدریس کے لیے آپ کی خدمات بھاگل پورکے ایک مدرسہ ،بنام مدرسہ اصلاح المومنین محلہ چمپانگر کا مقدر بنیں، پھر کچھ ہی عرصہ میں اپنے شیخ کی گرویدگی دوبارہ آپ کواپنی مادر علمی دارالعلوم دیوبندکی آغوش میں لے گئی اورتقریباً سات یاآٹھ برس(۱۳۲۴ھ تا ۱۳۳۱ھ) تک دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے،چنانچہ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں :

”الغرض مدرسہ عین العلم شاہجہان پور،مدرسہ اصلاح الموٴمنین چمپانگربھاگل پور مدرسہ دارالہدیٰ محلہ تانارپور بھاگل پورمیں چندسال مدرسی کرکے ۱۳۲۳ھ میں دارالعلوم دیوبندمیں مدرس عربی مقررہوا،تقریباً سات یاآٹھ برس تک نہایت خوش نامی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دارالعلوم دیوبندمیں(وقت)گزارا“۔ (تعلیم الانساب،ص:۱۷،۱۸)

دارالعلوم کے عرصہ تدریس عربی میں آپ کے تلامذہ میں شیخ الادب مولانااعزازعلی صاحب جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔ (تاریخ دارالعلوم دیوبند،ص:۶۸)

دارالعلوم دیوبندسے علیحدگی اوردیگرمدارس عالیہ میں درس وتدریس کی تفصیل درج فرماتے ہیں:

”دارالعلوم دیوبندکی مدرسی کے بعد مدرسہ عزیزیہ وقف اسٹیٹ بی بی صغریٰ مرحومہ،بہارضلع پٹنہ میں ایک سال مدرس اول رہ کر چندماہ کے لیے دیوبندبعہدہٴ مدرسی درس ہوا،وہاں سے مدرسہ عالیہ کلکتہ اوروہاں سے مدرسہ عالیہ سلہٹ میں مدرس ہوکرگیا،سلہٹ سے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ کاپرنسپل (مدیر)مقررہوکر۳۱/مارچ۲۰ء کومدرسہ کاکام اپنے علاقہ لیا،یہاں سولہ سال پرنسپل رہ کرایک سوسات روپیہ بارہ آنہ پنشن پاکرتقریباً دوسال پٹنہ میں محبی ومخلصی جناب حاجی مولوی سیدعبدالرحمن صاحب مرحوم کو مسلم شریف وغیرہ پرھاتارہا،مولوی صاحب موصوف پٹنہ کے بہت مشہوروکیل اوربڑے دیندارتھے،اس کے بعد دارالعلوم دیوبندکے مفتی اعظم کی جگہ پر مقرر ہوکر گیا، اورتقریباً دوسال وہاں رہ کرحسب طلب واصرارگورنمنٹ آسام مدرسہ عالیہ سلہٹ کاشیخ الحدیث مقررہوا،اورڈھائی سوروپیہ ماہوارگورنمنٹ آسام نے تنخواہ مقررکیا،یہاں تقریباً سات سال فقط حدیث کی تعلیم دیتارہا،پھراپنی ضعیفی اورکبرسنی کی وجہ سے ترک ملازمت کردیا۔اوراپنے وطن قصبہ پورینی ضلع بھاگل پورمیں مستقل قیام کیا،الحمدللہ کہ ۱۳۶۴ھ تک چھالیس سال مسلسل یوپی، بہار،بنگال ،آسام کے بڑے بڑے مدارس میں علوم عربیہ کے کل علوم وفنون کی بڑی بڑی کتابیں پڑھاتارہا۔“ (تعلیم الانساب،ص:۱۹)

حضرت گنگوہی سے تعلق:

انسانیت کے لیے رشد وہدایت کاساما ن دین اسلام ہے ،دین اسلام کی تعبیرِوسط کا نام فقہ حنفی اور فقہ حنفی پر معقولیت اور اعتدال کے ساتھ عمل کرنے کانام یوبندیت ہے اور دیوبندیت میں فقہی مدار و معیار کا نام رشید احمدگنگوہی ہے ۔

حضرت مفتی محمد سہول عثمانی صاحب قدس سرہ کو جس طرح حضرت شیخ الہند سے علم حدیث کا خاص کمال اور فکر حریت کا امتیازی جذبہ حاصل تھا ،اسی طرح اصلاح ، ارشاد ،استفادہ اورافتاء میں حضرت قدس سرہ کو فقیہ زمان قطب الارشاد مولانا رشید احمد گنگوہی نوراللہ مرقدہ‘ سے خاص توجہ اور رہنمائی رہبری حاصل تھی؛اس لیے وہ اپنے آپ کو فقہ حنفی کے مطابق افتاء میں فکر رشید ، طرز رشید اور تحقیق رشید کا پابند سمجھتے تھے اور اس منہج کوفقہی اساس سمجھتے تھے؛ اس لیے اپنے مسلکی و منہجی تعارف کے واسطے اپنے نام کے ساتھ ”الرشیدی“ بھی رقم فرماتے تھے، ” تذکرةالرشید“میں،ج: ۲ص : ۷۴ ،۱۴۱ ،۲۲۷، ۲۲۸ ،۳۰۲ ،۳۲۱ ، ۳۲۲ ، ۳۲۳ ، سے حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے ساتھ آپ کا تعلق ،استفادہ،استفاضہ کاتذکرہ خوب خوب ملتا ہے اور حضرت گنگوہی کے کئی احوال آپ کے زبانی یاتحریری حوالوں سے منقول ہیں ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے حضرت گنگوہی کے احوال بھی تحریر فرمائے ہیں ۔

منصبِ افتاء :

حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی طبیعت پرحضرت گنگوہی قدس سرہ‘ کی فقاہت کا عکس و نقش بھانپتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے ارباب حل وعقدنے آپ کو دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کے لیے منتخب و مقرر کردیا تھا ، آپ نے چوتھے صدر مفتی کی حیثیت سے دارلعلوم دیوبند میں۱۳۵۵ ھ تا ۱۳۵۷ھ فتویٰ نویسی کی خدمت انجام دی،اس دوران تقریباً ۱۵۱۸۵ فتاویٰ جاری ہوئے،حضرت قاری طیب صاحب رحمہ اللہ تاریخ دارالعلوم دیوبند میں تحریر فرماتے ہیں :

” ۱۳۵۵ ھ میں حضرت مولانامحمدسہول عثمانی  مفتی مقرر فرمائے گئے ،آپ ۱۳۵۷ھ تک مفتی رہے آپ کے دور میں ۱۵۱۸۵ فتاویٰ دارلعلوم سے روانہ کیے گئے ۔“ ( تاریخ دارالعلوم دیوبند ، ص: ۱۰۰ ۔ مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند از سید محبوب رضوی ۲/ ۲۵۶، ط: میر محمد )

دارالافتاء ِدارلعلوم دیوبند کے صدر مفتی کے عہدے پر تقرر آپ کے فقہی مقام کی سب سے بڑی سند ہے ،اس دوران جو فتاویٰ آپ کے قلم ِحق رقم سے صادر ہوئے وہ بلاشبہ سند کا درجہ رکھتے ہیں ، آپ کے فتاویٰ کامکمل ریکارڈتو دارالافتاء ِ دیوبند میں یقینا موجود ہوگا،آپ کے خاندان کے ذرائع سے چند سیکڑہ فتاویٰ ہمیں دستیاب ہوئے ہیں،جن کی تفصیل اور ان فتاویٰ پر طالب علمانہ تبصرہ بھی اس مجموعہ کے ساتھ تحریر کردیا گیا ہے ، یہ مجموعہ منفرد تحقیقی فتاویٰ پر مشتمل ہے،آپ کے قیمتی اور مثالی فتاویٰ میں سے ایک لاجواب تحقیقی فتویٰ۔ ”القول الصحیح فی مکائد المسیح“ کے نام سے اپنے موضوع پر سند و ثقاہت کی اعلیٰ مثال ہے ،اس فتویٰ میں آپ نے دجال الہند مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی کی واہیات کو ایسے ٹھوس دلائل و براہین سے کفر ثابت فرمایا ہے کہ یہ فتویٰ قادیانیوں کے بارے میں اپنے پیشرو فتاویٰ کے لیے مہر و تصدیق اور اپنے معاصرین کے لیے اعتماد وکفایت اور بعد میں آنے والوں کے لیے حتمی وقطعی فیصلہ کا درجہ رکھتا ہے ،اس فتویٰ کے آخری الفاظ مرزائی جماعت کے نام کی تعیین کے بارے میں یوں رقم ہیں :

”مرزا غلام احمد قادیانی چونکہ قصبہ قادیان ضلع گورداسپور کا باشندہ تھا؛ اس لیے اس کے معتقدین کو قادیانی کہا جاتا ہے ،وہ لوگ اپنی جماعت کو احمدیہ جماعت کہتے ہیں؛ مگر اہل ِاسلام مرزائی و قادیانی کہتے ہیں ،اگر اہل سنت والجماعت فرقہ غلامیہ کہیں تو مناسب ہوگا ، اگر ان لوگوں کو جماعت شیطانیہ ابلیسیہ کہا جائے تو شرعا درست ہے “۔                                  محمد المدعو بالسہول

                                                                                                                                                     مدرس دارالعلوم دیوبند

                                                                                                                                                     ۲۱/ صفر ۱۳۳۱ھ روز سہ شنبہ

اس فتویٰ پر آپ کے شیخ ، شیخ العالم والہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ، حضرت تھانوی ، حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ اور دیگر اساطین علم کی تصدیق و تائید ثبت ہے ، یہ فتویٰ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے شائع کردہ ”فتاویٰ ختم نبوت “ کی جلد دوم صفحہ نمبر ۳۲۹ میں شامل ہے ۔

افتاء کے میدان سے وابستگی کے دوران کئی کبار اہل علم نے آپ سے فتاویٰ کی تمرین کی، جن میں دارالعلوم کے سابق مہتمم مولانا مرغوب الرحمن نوراللہ مرقدہ‘ کا نام گرامی بھی شامل ہے، حضرت مفتی عثمانی صاحب رحمہ اللہ دارالعلوم کی تدریس وافتاء سے علیحدہ ہونے کے بعد ، مدرسہ عزیزیہ بہارشریف ، مدرسہ عالیہ کلکتہ، مدرسہ عالیہ سلہٹ صدر مدرس اور شیخ الحدیث کی حیثیت سے اور مدرسہ عالیہ شمس الہدیٰ میں بحیثیت پرنسپل ۴۶ برس تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ فتویٰ نویسی کا مشغلہ بھی بدستور قائم رہا ،اس دوران جو قیمتی ،فقہی تحقیقات اور وقیع علمی فتاویٰ کے کچھ نمونے ہمیں دستیاب ہوئے،وہ آپ کے مرتب کردہ مسودہ” محمود الفتاویٰ المعروف بالفتاویٰ السہولیة“ میں موجود ہیں، جو الحمدللہ اب اہل علم کے استفادے کے لیے منظر عام پر آرہے ہیں ۔

آپ کے ایک عقیدت کیش بزرگ عزیز نے آپ کے شیخ ،حضرت گنگوہی کے بارے میں منظوم تاثرات لکھے ہیں، اس کے آپ بھی مصداق ہیں ، چار بند آپ کے فقہی مقام کی صحیح ترجمانی کررہے ہیں۔#

ہیں یہ بے شبہ عالم باعمل                                یہ کہنا میرا ہے نہیں بے عمل

کہ اس مانند ان کے کہیں                                میری رائے میں کوئی ہر گز نہیں

اس اقلیم میں جو ہے ہندوستان                        ہیں اڈورڈ ہفتم جہاں حکمراں

فقیہوں کے سردار و پیشوا                               مجدد کے ہونے میں ہے شبہ کیا

(ارمغانِ سخی ، مولوی فقیر حسن ۱۳۲۱ھ)

خود حضرت عثمانی کے بارے میں ارمغان میں ہے :

وہ زاہد ہیں عالم باعمل                                      بہت لوگ کم ہیں ایسے آج کل

نہیں درس کی ان سے چھوٹی کتاب                 حقیقت میں ہیں فاضل لاجواب

مسائل کو تحقیق سے حل کیا                            کمال اس میں ان کو بہت کچھ ہوا

یہ ارث ہے ان کو خاندان کا ملا                      یقینا رہے گا جس میں فاضل صدا

نہیں ایسا کوئی بھی دیکھا گیا                              جو بے علم اس خاندان میں رہا

اثر ہوتا ہے خاندان کا ضرور                            پدر کا پہنچتا ہے ورثہ ضرور

تصوف میں چشتی:

حضرت مفتی محمد سہول عثمانی رحمة اللہ علیہ نے جس طرح ظاہری علوم و فنون کے اعلیٰ مدارج کے لیے اپنے زمانے کے ائمہ فن کا انتخاب فرمایا تھا، اسی طرح روحانی وباطنی علوم کے حاصل کرنے کے لیے بھی ایسی ہستیوں کے دامن سے وابستہ ہوئے جن کی روحانی پرواز ہر وقت تجلیات ربانیہ کے سایہ میں رہتی تھی اور امام ربانی ان کا لقب تھا تذکرة الرشید میں خود حضرت مفتی صاحب رحمةاللہ علیہ کی روایت سے منقول ہے :

” مولوی محمد سہول صاحب صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت ( مولانا رشید احمد گنگوہی ) کے وصال کے بعد مجھے سید طاہر صاحب رئیس مولانگر ضلع مونگیر سے ملنے کا تفاق ہوا، حضرت امام ربانی قدس سرہ‘ کاتذکرہ کیا گیا، سید صاحب چشم نم ہوئے اور قسم کھا کر فرمایا کے ایک دن میں اپنے مرشد حضرت مولانا فضل رحمن رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضرتھا بزرگوں کاتذکرہ ہورہا تھا کہ ایک شخص نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ‘ کی حالت دریافت کی،مجھے خوب یاد ہے حضرت مولانا نے یہ الفاظ فرمائے کہ ” مولانا رشید صاحب کاکیا حال پوچھتے ہو؟ وہ تو دریا پی گئے اور ڈکار تک نہ لیا ! “حضرت کی زبان مبارک سے جس وقت میں نے یہ ارشاد سنا، اسی وقت سے میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب سے واقف ہوں اور بڑا بزرگ سمجھتا ہوں ۔“

”مولانا نور محمد صاحب رحمةاللہ علیہ تو یوں فرمایا کرتے تھے ! میں مفہوم ِ ولی کا قائل ہوں، مگر مصداق ابھی تک نہیں پایا زمانہ ماضیہ میں ولی کے مصداق بکثرت پائے جاتے تھے ،مگر فی زماننا بجزء حضرت مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ‘ کے ولی کا کوئی فرد نہیں گزرا ،مولانا رحمةاللہ علیہ کا یہ قول غلبہ حال تھا یا کوئی بہت اونچا مضمون ذہن میں جما ہوا تھا جس کو ولی میں دیکھنا چاہتے تھے، یا ممکن ہے کہ جو بات حضرت امام ربانی قدس سرہ‘ میں دیکھی وہ دوسر ی جگہ نہ پانے کے سبب انتفاء فرمایا، ورنہ عالم خالی نہیں ہر زمانہ اور ہر جگہ حق تعالیٰ نے اپنے مقبولین کو پھیلا رکھا ہے یہ اور بات ہے کہ مناصب جدا جدا اور مراتب علیحدہ علیحدہ ہیں ۔“ (تذکرة الرشید ۲/ ۳۲۱)

یہی امام ربانی جن کے مرتبہ اور مقام کی نشاندہی وقت کے اہل اللہ اور اصحاب کشف بزرگوں نے فرما رکھی تھی، حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی رحمةاللہ علیہ نے حضرت امام ربانی کے متعلق ایک اتہام کے بارے میں سوال کیاگیا تو آپ نے جو جواب دیا وہ حضرت امام ربانی کے روحانی مقام کا عکاس اور آپ کی تحریرمیں تصویب ِالٰہی کا غماز ہے ، تذکرة الرشید میں ہے :

”جس زمانے میں مسئلہ امکانِ کذب پر آپ کے مخالفین نے شور مچایا اور تکفیر کا فتویٰ شائع کیا ، سائیں توکل شاہ صاحب انبالوی کی مجلس میں کسی مولوی نے حضرت امام ربانی قدس سرہ‘کا ذکر کیا اور کہا کہ امکانِ کذب باری کے قائل ہیں، یہ سن کر سائیں توکل شاہ نے گردن جھکالی اور تھوڑی دیر مراقب رہ کر منہ اوپر اٹھا کر اپنی پنجابی زبان میں یہ الفاظ فرمائے”لوگو! تم کیا کہتے ہو میں مولانا رشید احمدصاحب کا قلم عرش کے پرے چلتا دیکھتا ہوں “۔ (تذکرة الرشید ۲/ ۳۲۲)

تذکرہ کے اسی صفحہ پر مدینہ منورہ کے ایک ولایتی (کابلی) بزرگ کی روایت منقول ہے کہ یکتائے عصر بزرگ آپ کی صحبت و بیعت کو متلاشیانِ کمال کی آخری امنگ قرار دیا کرتے تھے :

”وہ(ولایتی بزرگ) فرمانے لگے میں مدت تک بغداد ،بصرہ ، عراق وشام اور دیگر بلاد اسلامیہ میں سیاحت کرتا اور اہل اللہ کا متلاشی رہا ہوں، پھرتا پھراتا جب شہرحلب میں پہنچاتو ایک شیخ کامل یکتائے عصر ، متبع سنت ،علامہ زمن مولانا حسام الدین قادری نقشبندی کی زیارت نصیب ہوئی اور میں ان سے بیعت ہوگیا ،ڈھائی سال انھوں نے مجھ کو اپنی خدمت میں رکھا اور مجاہدے کرائے اس سال یوں ارشاد فرمایاہے کہ تم ہندوستان جاؤاور حضرت مولانارشیداحمد صاحب محدث کے ہاتھ پر سلسلسلہ چشتیہ صابریہ میں بیعت ہوکر آوٴ ، اگر مولانا قیام کو فرمائیں تو وہاں ٹھہر جانا اور فیوض حاصل کرنا؛ مگر جانے میں عجلت کرو کہ حضرت کا وصال جلد ہونے والا ہے “۔ (تذکرة الرشید ۲/ ۳۲۲)

ان روایات سے حضرت امامِ ربانی کے رتبہ مشیخت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔حضرت گنگوہی کے مقام ومرتبہ کی مزیدمعرفت کے لیے ”الاعلام بمن فی تاریخ الہندمن الأعلام“ (ملاحظہ ہو،القرن الرابع،بحرف الراء)۔

 حضرت مفتی محمد سہول عثمانی قدس سرہ‘ علمی مراتب کی طرح روحانی منازل میں رتبہٴ کمال کی طلب صادق رکھتے تھے ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں امام ربانی حضرت گنگوہی قدس سرہ‘جیسا شیخ عطا فرمایا،جو ”والّذین جاھدو فینا لنھدینھم سبلنا “ کابہترین مصداق ومظہر ہے،ارباب سلوک خوب آگاہی رکھتے ہیں کہ شیخ کے انتخاب میں تأمل چاہیے بیعت کے لیے قلبی میلان چاہیے اور استفادہ کے لیے بے حجابی بے تکلفی بھی ضروری ہے ،حضرت مفتی محمد سہول عثمانی رحمة اللہ علیہ کو اپنے شیخ حضرت امام ربانی سے کیسی بے تکلف مناسبت تھی اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے :

”مولوی محمد سہول ایک بار کسی مسئلہ پر حجت کرنے لگے ،اعتراض پہ اعتراض اور شبہ پر شبہ، جب تقریر طویل ہوئی تو ( حضرت گنگوہی )نے فرمایا تمہا را نام سہول کس نے رکھا ہے؟ تم میں سہولت بالکل بھی نہیں تمہارا نام ہونا چاہیے سئول ، کہ سوال بہت کرتے ہو “۔ (تذکرة الرشید ۲/۷۴)

چنانچہ امام ربانی قطب زمانی حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی قدس سرہ العزیز کے یہ بے تکلف مرید بے حجابا بے محابا استفادہ کرکے آپ کی روحانی نسبت چشتیہ صابریہ کے حامل ہوئے، نیز چشتی کی معزز نسبت بھی آپ کی نسبتوں میں اضافہ کا ذریعہ بنی اور آپ ”چشتی“ بھی کہلائے۔ ذٰلک فضل الله یوٴتیہ من یشاء․

مگر یہ حقیقت ،زیادہ تر اخفاء کے دبیز پردوں میں چھپی رہی،حضرت مفتی صاحب کی شخصیت کے مختلف گوشوں سے بدیر بعد از تلاش بسیار آگاہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اکابر دیوبند کی روایات کے عین مطابق خود نمائی سے حد تک دور تھے، بل کہ اخفا کا غلبہ حد درجے کا تھا۔ اور یہی تصوف کی حقیقی روح بھی ہے کہ انسان فنائیت کے سبق پڑھ کر ہی واصل بالباقی ہوتا ہے۔ اس کا ایک مظہر آئندہ اقتباس بھی ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت گنگوہی اور حضرت شیخ الہند سے مجاز صحبت و بیعت و خلافت ہونے کے باوجود ہمیشہ اخفا کے پردوں میں چھپا رہنا آپ کو پسند تھا؛ چنانچہ تصوف کے موضوع پر آپ کے تحریر کردہ کتابچہ ”حقیقة الوصول المعروف بہ روح التصوف “ کے ضمیمے میں آپ کے صاحبزادہ گرامی حضرت مولانا محمود احمد لکھتے ہیں:

”حضرت کا مشغلہ زیادہ تر درس و تدریس اور فتوی نویسی کا تھا، کتب بینی آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا، بعض اوقات وقت کے مناسب خدام کے تقاضے پر آپ جلسے میں شرکت فرما کر وعظ ونصیحت فرمایا کرتے۔ آپ حضرت گنگوہی سے بیعت تھے، شوال ۱۳۲۳ھ میں جب حضرت گنگوہی نے مولانا سہول عثمانی کو رخصت فرمایا تو اپنا ملبوس پیراہن اور ایک عمامہ آپ کو عطا فرما کر آپ کو نعمت خلافت سے نوازا اور یہ فرمایا کہ جب کوئی اللہ کا نام لینا چاہے تو اس کو بتا دینا۔ خود حضرت گنگوہی نے بھی آپ کی بستی کے اطراف میں اپنے بعض مرید کو تحریر فرمایا کہ وہاں تم سے قریب ہی مولانامحمد سہول صاحب ہیں، ان سے تم مل کر جو دریافت کرنا ہو دریافت کر لیا کرو۔

بایں ہمہ حضرت مولانا محمد سہول صاحب نے اس کو اس قدر مخفی رکھا کہ جب تذکرة الرشید دیوبند میں لکھا جارہا تھا، اس وقت حضرت والد مولانا محمد سہول دیوبند میں مدرس تھے، مگر آپ نے اپنا نام مجازین میں ظاہر نہیں فرمایا۔اور اپنے کو اپنے محبوب استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی کی خدمت میں بغرض اصلاح پیش کیا اور ریاضت تفصیلی سے اپنے کو مزین فرمایا، آخر کار وہاں سے بھی نعمت خلافت سے مشرف ہوئے، جب آپ کا نام حیات شیخ الہند میں حضرت مولانا اصغر حسین صاحب دیوبندی نے شائع فرمایا تو لوگوں کو معلوم ہوا، مگر حضرت گنگوہی قدس سرہ العزیز سے خلافت کا واقعہ تو شاید ہی کسی کو معلوم ہو۔

آپ ہمیشہ اپنے کو مخفی رکھتے اور بیعت کرنے سے اجتناب فرمایا کرتے، عوام میں تو جو طالب صادق معلوم ہوتا تو اس کو درخواست پر سلسلے میں داخل فرما لیا کرتے، مرید کرنے سے قبل پڑھے لکھے لوگوں کو استخارہ کراتے اور خاص کر علما اور امرا کو تو مرید اس وقت تک نہ فرماتے جب تک کہ خوب اچھی طرح مطمئن نہ ہوجائیں، بعض اوقات یہ بھی ارشاد فرماتے کہ دیکھو خوب اچھی طرح سوچ لو، ایسا نہ ہو کہ پھر بعد میں تم کو پچھتانا پڑے، چنانچہ بعض کو صرف یہ کہہ کر واپس فرمادیتے کہ تم کو مجھ سے مناسبت نہیں ہے، کہیں اور جگہ جاوٴ، کسی کو تھانہ بھون اور کسی کو حضرت مدنی کی خدمت میں جانے کا مشورہ دیتے۔

اسی طرح خلافت بھی آپ ہر کسی کو عطا نہیں فرماتے، جو حضرات بہت محنت کش ہوتے اور قوت یادداشت میں ملکہ راسخہ پیدا ہو جاتا اور نسبت باطن پیدا ہو جانے کے بعد، آپ غور وفکر فرماتے، حتی کہ جب بشارت غیبی پاتے تو پھر آپ منصب عطا فرماتے، آپ کے نزدیک اس منصب خلافت کے لیے عالم ہونا ضروری تھا۔

ایک موقعہ پر حضرت والا نے ایک صاحب کے استفسار پر بندے کے سامنے فرمایا کہ ہمارے تمام خلفا الہامی ہیں، پھر آپ تحریری خلافت نامہ عطا فرمانے کے ساتھ نصیحت بھی فرمایا کرتے، چنانچہ ایک صاحب کے خلافت نامہ میں جو تحریر فرمایا وہ یہ تھا:

”تم کو میں نے بارہا کہا ہے کہ اجازت یافتہ اگر دوسری چیزوں میں مشغول رہتا ہے تو اس کی صلاحیت جاتی رہتی ہے، اپنے معمولات میں برابر مشغول رہو اور اتباع سنت اور اجتناب عن البدعة والمعصیة میں پختگی حاصل کرو،نیا مولوی، نیا وکیل، نیا ڈاکٹرپریکٹس نہیں کرے گا تو وہ فقط نام کا مولوی، وکیل اور ڈاکٹر رہ جائے گا، کام کا نہیں ہوگا۔ تعلیم الدین کے آخر میں جو وصایا لکھے ہیں، اس کو ہمیشہ دیکھا کرو اور اس پر عمل کرو۔“

وہ خوش قسمت افراد جن کو حضرت والا نے خلافت کی نعمت عظمی سے سرفراز فرمایا، ان کے نام نامی یہ ہیں:

۱- مولانا الحاج حافظ دیانت احمد صاحب موضع ڈہر پور پوسٹ پورینی ضلع بھاگلپور(بہار)

۲- مولانا الحاج قاری محمد ابراہیم صاحب احمد آبادی مقیم حال قاضی داڑہ چکلہ مسجد منگرول ضلع جونہ گڑھ۔

۳-مولانا الحاج قاری سید احمد صاحب موضع پڑیا پوسٹ نیمی ضلع مونگیر بہار (تاریخ اجازت ۳ شعبان ۱۳۵۸ھ)

۴- الحاج مولوی سید شاہ نجم الدین صاحب محلہ دریا پور بانکی پور پٹنہ، بہار۔

۵- مولانا سید شاہ جمیل الحق صاحب مرحوم موضع سید پور ضلع سلہٹ مشرقی پاکستان (تاریخ اجازت یکم رمضان المبارک ۱۳۵۳ھ)

۶- مولانا سید قاضی عبد الروٴوف صاحب مرحوم ضلع سید پور سلہٹ (مشرقی پاکستان)

۷- مولانا سید محمد احمد صاحب مرحوم سید پور ضلع سلہٹ (مشرقی پاکستان)

۸- مولاناقاری سید حبیب الرحمن صاحب موضع سید پور ضلع سلہٹ (مشرقی پاکستان) (تاریخ اجازت ۲۴ شوال ۱۳۶۲ھ)

۹-مولانا عبد الوہاب صاحب مرحوم موضع سید پور ضلع سلہٹ (مشرقی پاکستان)

۱۰- مولانا عبد الحسیب صاحب موضع پانچگرام سبدر پور ضلع کچھار ، آسام

۱۱- مولانا الحاج سید تفضل حسین صاحب گورنمنٹ مدرسہ، سلہٹ (مشرقی پاکستان، تاریخ اجازت ۱۰ رمضان المبارک ۱۳۶۳ھ)

(ضمیمہ ”حقیقة الوصول المعروف بہ روح التصوف“ موٴلفہ حضرت مفتی محمد سہول صاحب از مولانا محموداحمدعثمانی بن حضرت مفتی محمد سہول عثمانی ص: ۴۰ تا ۴۲ طبع اشرفیہ کتب خانہ سلہٹ)

حضرت مفتی عثمانی رحمة اللہ علیہ کی حضرت گنگوہی سے استرشادی نسبت اوراستفاضی تعلق کے کمال کی ترجمانی مولوی فقیرحسن مرحوم نے اپنے منظوم کلام میں یوں پیش فرمائی : ۔#

کمال مریدی سے فائز ہوئے                                           نہ اس فخرسے بھی خالی رہے

ہوئی جن سے حاصل ہے بیعت انھیں                           جہاں میں وہ مشہور و معروف ہیں

شہہ کشور و زہد وتقویٰ ہیں وہ                                            ہیں سب چشمہٴ علم دریا ہیں وہ

ادب وتعظیم سے اے قلم                              بس اب کردے اس مثنوی میں رقم

تو اس گرامی عالی جناب                                   کہ درگاہ حق میں وہ ہے مستجاب

وہ شاہ رشید احمد باصفا                                                        سر اولیاء سرور اتقیاء

جہالت کی ظلمت کے مہر منیر                                         غریق ضلالت کے وہ دستگیر

وطن آپ کا حق نے جس کو کیا                                        مقدس ہے قصبہ وہ گنگوہ کا

وفات ، تدفین:

موٴرخہ ۲۷/رجب۱۳۶۷ھ بمطابق ۱۹۴۸ء آپ کی روح مبارک اعلیٰ علیین کی جانب محوِپرواز ہوئی اور پورینی کے خاندانی قبرستان میں آپ کی تدفین ہوئی ۔

فنوّر الله مرقدہ‘ و برّدالله مضجعہ‘ ووسّع مدخلہ وجعل قبرہ روضةً من ریاض الجنة․

$$$

مصادر مراجع

(۱)  تعلیم الانساب(خود نوشت) مولانامفتی محمدسہول عثمانی رحمہ اللہ (مخطوطہ)

(۲) سفر نامہ اسیر مالٹا، شیخ العرب والعجم مولاناسیدحسین احمدمدنی رحمہ اللہ، دارالاشاعت کراچی۔

(۳) تاریخ دارالعلوم دیوبند، حضرت مولاناقاری طیب صاحب رحمة اللہ علیہ، دارالاشاعت کراچی۔

(۴) مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند، مولاناسید محبوب رضوی، میرمحمدکتب خانہ آرام باغ کراچی۔

(۵) دارالعلوم دیوبند نمبر، ماہنامہ الرشید ساہیوال، جامعہ رشیدیہ ساہیوال۔

(۶) علماء ہند کا شاندار ماضی، مولاناسید محمد میاں، مکتبہ رشیدیہ اردوبازارکراچی۔

(۷) فتاوی ٰ دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن عثمانیِ مرتبہ مفتی ظفیر الدین، دارلاشاعت کراچی۔

(۸) مشاہیرعلماء ، ڈاکٹر فیوض الرحمن، فرنٹیئرپبلشنگ کمپنی اردوبازارلاہور۔

(۹) تذکرة الرشید (حیات حضرت گنگوہی )، مولانامحمدعاشق الٰہی میرٹھی، ادارہ اسلامیات کراچی لاہور۔

(۱۰)بیس بڑے مسلمان، مولانارشیداحمدارشد، مکتبہ رشیدیہ ساہیوال۔

(۱۱)فتاویٰ ختم نبوت، مرتبہ: مولانا سعیدا حمد جلال پوری، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی۔

(۱۲)دارالعلوم دیوبند ،احیاء اسلام کی عظیم تحریک، مولانا اسیراوردی، مکتبہ خلیل اردوبازارلاہور ۔

(۱۳)الطبقات الکبریٰ، محمدبن سعد ابوعبداللہ البصری، داربیروت ودارصادر بیروت لبنان ۔

(۱۴)سیراعلام النبلاء للذھبیشمس الدین ابوعبداللہ محمدبن احمدالذہبی، تحقیق شیخ شعیب ارناوٴوط، موٴسسة الرسالة بیروت ۱۴۰۵ھ ۔

(۱۵)الاعلام بمن فی تاریخ الہندمن الأعلام المعروف ب نزھة الخواطر، مولاناعبدالحی الحسنی، دارابن حزم بیروت،۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء۔

(۱۶)موٴلفین فتاویٰ عالمگیری، مولانامجیب اللہ ندوی، دیال سنگھ لائبریری لاہور۔

——————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد:100 ‏، ذی الحجہ 1437 ہجری مطابق ستمبر 2016ء

Related Posts