حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آر․ ایس․ایس کو سیاست میں غیرمعمولی دلچسپی ہے۔ ہندوستان آئینی اعتبار سے کیساملک ہو؟اس کے دستوری ڈھانچہ کی شکل کیاہو؟ ملک کی سیاسی و اقتصادی پالیسی کس نوعیت کی ہو وغیرہ؟ سیاست کے تمام شعبوں کے بارے میں اس تنظیم کے اپنے مخصوص نظریات طے شدہ منصوبے اور متعینہ اصول ہیں جن کا اظہار اس کے سرسنگھ چالک اور دیگر اہم لوگ موقع بہ موقع کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر وہ سیاسی نہیں تو پھر سیاسی کسے کہا جائے گا؟
پھر یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ یہ تنظیم پورے طور پر فارشسٹ سیاسی نظریات سے متاثر جمہوریت کی بجائے آمریت کی حامی رہی ہے اور مضبوط تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اس کے رہنماؤں نے ہٹلر اور مسولینی کے قومی و سیاسی نظریات سے براہ راست استفادہ کیا ہے اور ان سے بیحد متاثر ہیں۔ اس کے بڑے بڑے لیڈروں نے اٹلی اور جرمنی جاکر فاشزم کی تعلیم و تربیت حاصل کی ہے؛ چناں چہ ہندوسماج کو فوجی تربیت دینے کی ضرورت و اہمیت کو انھوں نے اٹلی و جرمنی کے ماڈلوں کو دیکھنے کے بعد ہی محسوس کی، آج ملک میں اس کی شاکھاؤں کا جو جال پھیلا ہوا ہے، وہ درحقیقت اسی فاشسٹ ذہنیت کی آبیاری کرتے ہیں اور انہی شاکھاؤں کے ذریعہ ہندو فاشزم کے زہریلے جراثیم نئی نسل کے اندر سرایت کیے جاتے ہیں۔
نہرو میموریل میوزیم لائبریری دلی میں ایسے متعدد ریکارڈ محفوظ ہیں جن میں ہٹلر اور مسولینی سے ان کے تعلقات کے ثبوت ہیں۔ اس ریکارڈ کے مطابق سنگھ کے بانی ہیڈگیوار کے قریبی ساتھی، دوست اور مشہور ہندووادی بی․ ایس منجے ہندوستان کے اولیں لیڈر ہیں جن کا اٹلی وجرمنی کے ان فاشسٹ حکمرانوں سے رابطہ ہوا۔ فروری، مارچ ۱۹۳۱/ میں گول میز کانفرنس سے واپسی پر منجے نے اٹلی کا سفر کیا اور وہاں کے اہم فوجی اسکولوں اور تعلیمی اداروں کا بغور جائزہ لیا۔ اوراٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی سے بھی ملاقات کی۔ نیز اٹلی میں فاشزم کی تعلیم و تربیت کے لیے جو تنظیمیں اس وقت سرگرم عمل تھیں انھیں بھی قریب سے دیکھا؛ چناں چہ منجے اپنی ڈائری میں ان تنظیموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان میں بلللہ تنظیم کا ڈھانچہ اوراس کا نظریہ مجھے پسند آیا اور میں اس سے بیحد متاثر ہوا۔ (اس موقع پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ اٹلی کی فوجی تنظیم نو کے لیے مسولینی نے خود اس تنظیم کو تشکیل دیا تھا) آگے منجے لکھتے ہیں فاشزم کا نظریہ کس طرح لوگوں کو اتحاد کے بندھن میں باندھ سکتاہے اس کا پتہ اس تنظیم کے دیکھنے سے اچھی طرح لگ جاتاہے۔ ہندوستان، خاص کر ہندوبھارت کو بھی ایسی تنظیموں کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ہیڈگیوار کی قیادت میں ہماری تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ بھی اسی طرز پر بنی ہے۔ ڈاکٹر ہیڈگیوار کی اس تنظیم کی ترقی اور پورے مہاراشٹر اور اس سے باہر اس کی توسیع کے لیے میں تاحیات سرگرم عمل رہوں گا۔
یہ بات اہل نظر سے مخفی نہیں ہے کہ آر․ ایس․ ایس اور مسولینی کی بلللہ تنظیم کے طریق کار میں کافی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ بلللہ تنظیم میں ۱۶ سے ۱۸ سال کے لڑکے لڑکیاں شامل کی جاتی ہیں۔ ان کی ہفتہ وار میٹنگیں ہوتی ہیں جہاں وہ لوگ جسمانی ورزشیں اور نیم فوجی مشقیں کرتے ہیں۔ آر․ ایس․ ایس کی شاکھاؤں میں بھی یہی سب کچھ ہوتا ہے۔
منجے اپنی ڈائری میں یہ بھی انکشاف کرتے ہیں کہ
۱۹/مارچ ۱۹۳۰/ کو سہ پہر ۳ بجے میں مسولینی سے ملنے گیا۔ دروازہ تک آکر انھوں نے میرا پرتپاک استقبال کیا۔ دورانِ گفتگو انھوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں نے ان کی یونین سٹی دیکھی، میں نے بتایا کہ میں ان کی قائم کردہ بلللہ تنظیم سے کافی متاثر ہوا ہوں، اور میں مانتا ہوں کہ اٹلی کو ایسی تنظیموں کی ضرورت ہے اور ہمارے ملک ہندوستان کو بھی۔ میں نے انھیں مقاصد کے تحت اپنے ملک میں بھی ایسی تنظیمیں قائم کی ہیں۔
ہندوستان واپس آکر منجے نے اپنے دوست ہیڈگیوار کو کافی متاثرکیا جس کے نتیجے میں آر․ ایس․ایس نے اپنے پلیٹ فارم سے منجے کو فاشسٹ نظریات کی اشاعت و تبلیغ کی کھلی چھوٹ دے دی چناں چہ اسی سلسلہ میں ۳۱/جنوری ۱۹۳۴/ کو ”فاشزم اور مسولینی“ کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس کی صدارت خود ہیڈگیوار نے کی تھی اور منجے نے اس میں افتتاحی تقریر کی تھی۔
اس کانفرنس کے چند ماہ بعد ۳۱/مارچ ۱۹۳۴/ کو منجے، ہیڈگیوار اور لالو گوکھلے کی ایک خفیہ میٹنگ ہوئی، جس میں گوکھلے نے یہ سوال اٹھایا کہ ہندوؤں کو کس تدبیر سے منظم کیاجاسکتاہے؟ اس کے جواب میں منجے نے کہا کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں اس اتحاد کی بنیادیں پائی جاتی ہیں لیکن انھیں بروئے کارلانے کے لیے ضروری ہے کہ قدیم زمانے کے ”شیواجی“ یاجدید دور کے مسولینی یا ہٹلرجیسے کسی ہندو ڈکٹیٹر کے ہاتھوں میں ہندوستان کی باگ ڈور ہو۔ ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک منصوبہ ترتیب دے کر اس کی تشہیر و تبلیغ کے لیے سرگرم عمل ہوجانا چاہیے۔ اسی منصوبہ کے مطابق منجے اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے ۱۹۳۴/ میں مسولینی کے فکری وعملی طرز پر بھونسلا ملٹری اسکول قائم کیاگیا اور دی سینٹرل ہندوملٹری ایجوکیشن سوسائٹی کی تشکیل کے لیے فضا ہموار کرنے کاکام شروع کردیاگیا۔
آر․ ایس․ایس کے بانی ہیڈگیوار ۱۹۲۶/ سے ۱۹۳۱/ تک جس ہندو مہاسبھا کے سکریٹری رہے ۱۹۳۷/ سے ۱۹۴۲/ تک ”ساورکر“ اس کے صدر رہے۔ جواٹلی کے مسولینی کے مقابلہ میں جرمنی کے ہٹلر سے زیادہ متاثر تھے، انھیں کے زمانہ میں مہاسبھا کی مسلم مخالفت کھل کر سامنے آئی اور یہ بات واضح ہوگئی کہ ان فاشسٹ تنظیموں کے نظریہ کے مطابق وطنِ عزیزکے مبینہ دشمن کون ہیں؟
۱۴/اکتوبر ۱۹۳۸/ کو مالیگاؤں میں تقریر کرتے ہوئے ساورکر نے ہٹلر کی یہود دشمن پالیسی کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ”ملک کی تعمیر اس کے اکثریتی فرقہ کو لے کر ہوتی ہے نہ کہ اقلیتی فرقہ کو لے کر؛اس لیے جرمنی میں یہودیوں کا کیا کام؟ اچھا ہوا کہ اقلیت ہونے کی بنا پر انھیں ملک بدر کردیا گیا۔“ اس کے تقریباً دو ماہ بعد ۱۱/دسمبر ۱۹۳۸/ کو ایک موقع پر انھوں نے کہا: ”جرمنی میں جرمن لوگوں کی تحریک قومی تحریک ہے؛ جب کہ یہودیوں کی تحریک فرقہ پرستی پر مبنی ہے۔“
ان بیانات کی روشنی میں ہندوستانی اقلیتوں کے سلسلہ میں ان کے نظریہ کو بہ خوبی سمجھا جاسکتاہے۔
ہندوقوم پرستوں کے فاشسٹ نظریہ کی وضاحت نہرو میموریل میں محفوظ منجے کے اس خط سے بھی ہوتی ہے جو انھوں نے ”کھاپڑے“ کو لکھا تھا۔اس میں منجے بڑی صراحت سے لکھتے ہیں:
”مسلمان شرارت پسند ہوگئے ہیں، کانگریس ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان کے آگے سرِتسلیم خم کیے ہوئے ہے؛ اس لیے ہمیں گاندھی اور مسلمان دونوں سے لڑنا ہوگا، اس کے لیے آر․ ایس․ ایس کااستعمال آسان اور مفیدہوسکتا ہے، چرخے کامقابلہ آخر کار رائفل سے ہی کرنا ہوگا۔“
یہ تاریخی شواہد صاف بتارہے ہیں کہ آر․ ایس․ ایس اور ہندومہاسبھا جیسی تنظیمیں خالص سیاسی پارٹیاں ہیں اوریہ تنظیمیں ہٹلر اور مسولینی جیسے ڈکٹیٹروں کو جنھیں پوری دنیا نے مسترد کردیاہے اپنا آئیڈیل مانتی ہیں اور تشدد وجارحیت کے ذریعہ ہندوستانی اقلیتوں کو پامال اور مادر وطن سے انھیں باہر نکال پھینکنا ان کا بنیادی مقصد ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ کل کی ”جن سنگھ“ اورآج کی ”بھارتیہ جنتا پارٹی“ بھی دراصل آر․یس․ ایس ہی کاسیاسی حصہ ہے۔ ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہے کہ بی، جے ، پی کے بانی ڈاکٹر شیاما پرشاد مکھرجی نے جب نہرو کابینہ سے مستعفی ہوکر ایک قوم پرست پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے اس وقت کے آر․ایس․ ایس کے سرسنگھ چالک گوروجی ہی سے کارکن مانگے تھے؛ چناں چہ انھیں سویم سیوکوں کو لے کر مکھرجی نے باضابطہ طورپر بھارتیہ جن سنگھ کی تشکیل کی جس کے وہ خود صدر بنے اور پنڈت دین دیال اپادھیائے جنرل سکریٹری مقرر ہوئے۔ بعد میں کشمیر آندولن کے دوران گرفتار ڈاکٹر مکھرجی کی جیل میں موت واقع ہوگئی تو ایسالگتا تھا کہ یہ نوازائیدہ پارٹی دم توڑ دے گی تو اس وقت آر․ ایس․ ایس کے سویم سیوکوں ہی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس پارٹی کو زندہ رکھنے اوراسے بڑھانے کی بھرپور کوشش کریں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی اپنی یہ ابتدائی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس کا جنم آر․ ایس․ ایس ہی کے توسط سے ہوا ہے۔ علاوہ ازیں خود آر․ایس․ایس بھی اسے اپنی ہی پارٹی مانتی ہے۔ چنانچہ آر․ ایس․ ایس کے اشاعتی ادارہ سروچی پرکاشن سے شائع کتاب ”آر․ ایس․ ایس: ایک تعارف“ میں جن ۳۰ تنظیموں کو یکساں نظریاتی تنظیم بتایا گیا ہے ان میں ایک نام بھارتیہ جنتا پارٹی کا بھی ہے۔
اب اس عہد نو میں ”ہندی اور ہندوستانی“ کے بجائے ملک کا ہرفرد ”ہندو“ ہے کا فلسفہ اور ”جے ہند“ کی جگہ ”رام رام“ کہنے کی نئی روایت ایجاد کرنے پر زور اور ملک کی اقلیتوں کو ایک خاص تہذیب میں ضم کردینے کی کوشش وغیرہ فسطائی حرکتیں صاف بتارہی ہیں کہ ہمارا جمہوری وسیکولر ملک کدھر جارہا ہے؟
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے، اے ہندوستان والو!
——————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد:100 ، جمادی الاولی1437 ہجری مطابق مارچ 2016ء