از:مولانا مفتی عمرفاروق لوہاروی
شیخ الحدیث دارالعلوم، لندن
یہ بحث ”حَدَّثَ“ میں نہیں، ”قال“ میں کرنی ہے
$ ”صحیح بخاری“ میں ہے:
حَدَّثَنِیْ محمدُ بنُ عَبدِ الرّحیم قال: حَدَّثَنَا حفصُ بنُ عُمَرَ أبُو عُمَرَ الْحَوضِیُّ قال: حَدَّثَنا حَمّادُ بنُ زیدٍ قال: حَدّثنا أَیّوبُ والحَجّاجُ الصَّوَّافُ قال: حَدَّثَنِی أبُو رجاءٍ مولیٰ أَبِی قِلَابةَ․․․ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب قصة عکل وعوینة، ص:۶۰۲، ج:۲، قدیمی: کراچی)
”امام بخاری رحمة اللہ علیہ محمد بن عبدالرحیم سے، وہ حفص بن عمر ابوعمر الحوضی سے، وہ حماد بن زید سے، وہ ایوب اور حجاج صوّاف سے، وہ ابوقِلابہ کے آزاد کردہ غلام ابورجاء سے روایت کرتے ہیں کہ ابو رجاء مولیٰ ابی قِلابہ نے مجھ سے بیان کیا․․․․“
علامہ عینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ معتمد نسخوں میں ”حَدَّثَنِیْ“ بصیغہٴ مفرد واقع ہوا ہے، حالاں کہ ماقبل میں دوراویوں کا ذکر ہے، قیاس کا تقاضہ یہ تھا کہ تثنیہ کی ضمیر کے ساتھ ”حَدَّثَانِیْ“ کہاجاتا۔
قولہ: حدثنی أبو رجاء کذا وقع فی النسخ المعتمدة حَدَّثَنِیْ بالإفراد مع أن المذکور قبلہ اثنان، و کان القیاس أن یقال: حَدَّثَنِیْ بضمیر التثنیة․ (عمدة القاری، ص:۲۳۲، ج:۱۷، دارإحیاء التراث العربی: بیروت)
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ اس میں اصل ”حَدَّثَانِیْ“ بصیغہٴ تثنیہ ہے۔
․․․․ (حَدثنا أیوب) السختیانی (والحجاج) بن أبی عثمان میسرة البصری (الصواف قال حدثنی) بالإفراد (أبو رجاء) سلیمان (مولی أبی قلابة) عبد اللہ بن زید وکان الأصل حدثانی بالتثنیة․ (إرشاد الساری، ص:۲۱۲، ج:۹، العلمیة: بیروت)
بندہ کہتا ہے:
ان حضرات کو یہاں وہم ہوا ہے، ماقبل میں دو رُواة: ایوب اور الحجاج الصَّوّاف کا ذکر یقینا ہوا ہے، اب اگر ان دونوں راویوں کے ذکر کے بعد ”قَالَ“ لفظوں میں موجود ہے، تو اس کے متعلق ضرور کہا جائے گا کہ اس میں جو ضمیر ہوگی، وہ دو راویوں کی طرف لوٹے گی؛ لہٰذا اس میں قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ تثنیہ کی ضمیر کے ساتھ ”قَالَا“ ہونا چاہیے؛ لیکن جہاں تک لفظ ”حَدَّثَ“ کا تعلق ہے، تو اس کا فاعل تو آگے ”أبو رجاءٍ مولٰی أبی قلابة“ مذکور ہے؛ اس لیے اس میں اصل وقیاس کا تقاضا ”حَدَّثَ“ بصیغہٴ مفرد ہی ہے۔ ”حَدَّثَ“ کو تثنیہ کی ضمیر کے ساتھ ”حَدَّثا“ کہنا اصول وقیاس کے خلاف ہوگا۔
الغرض تثنیہ کا صیغہ لانے کی بحث ”حَدَّثَ“ میں نہیں، ”قَال“ میں کرنی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
بہ وقت غزوئہ اُحُد سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کی عمر میں واقع وہم
$ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
․․․․․ الصحیح أنّ مولدہ (أی مولد سھل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ) قبل الھجرة بخمس سنین، فیکون فی أُحُد ابن عشرة أو إحدی عشرة․ (فتح الباری، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، ص:۵۳۹، ج:۷، دارالریان: القاھرة)
”․․․․ صحیح یہ ہے کہ ان (سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ) کی پیدائش ہجرت سے پانچ سال قبل ہے، تو آپ رضی اللہ عنہ عزوئہ اُحُد کے موقع پر دس یا گیارہ سال کے ہوں گے۔“
بندہ کہتا ہے:
یہ وہم ہے؛ کیوں کہ غزوہٴ اُحُد سن ۳ ہجری میں پیش آیا اور سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صحیح قول کے مطابق ہجرت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے، تو غزوئہ اُحُد کے موقع پر دس یا گیارہ سال کے نہیں ہوں گے؛ بل کہ کم وبیش آٹھ سال کے ہوں گے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
أبو بکرة میں بکرة کو باء موحدہ مضموم کے ساتھ ضبط کرنا وہم ہے
$ حضرت مولانا حکیم ابوالبرکات عبدالرؤف صاحب قادری داناپوری رحمة اللہ علیہ (۱۸۷۴-۱۹۴۸/) ”اصح السیر“ میں غزوئہ طائف کے بیان میں تحریر فرماتے ہیں:
”اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے اعلان کیا کہ کوئی غلام اگر قلعہ سے نکل کر میرے پاس چلا آئے، تو وہ آزاد ہے؛ چناں چہ قلعہ سے بیس غلام کے قریب نکل کر لشکرِ اسلام میں آگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کردیا اور مختلف صحابہ کے سپرد کیاکہ اُن کے خرچ کا خیال رکھیں اور اُن کی خبرداری کریں۔ اُن میں ایک شخص وقت بکرہ (حاشیہ میں خود حضرت مولانا داناپوری رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا: بُکرہ بائے موحدہ مضموم: صبح کا وقت) یعنی صبح بڑے سویرے آئے تھے؛ اس لیے وہ أبوبُکرہ مشہور ہوگئے۔ یہ اخیار اور مشاہیر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، ان کا نام نُفَیع بضم نون وفتح فا ہے۔“ (أصح السیر، ص:۲۹۰، دارالکتاب: دیوبند)
بندہ کہتا ہے:
أبوبکرة میں بکرة کو باء موحدہ مضموم کے ساتھ ضبط کرنا وہم ہے۔ درحقیقت بکرة باء موحدہ مفتوح کے ساتھ ہے، جو چرخی کے معنی میں ہے۔ حضرت أبو بکرة نُفیْع بن مسروح رضی اللّٰہ عنہ غزوئہ طائف کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہونے والے اعلان پر طائف کے قلعہ سے چرخی کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لشکر اسلام کی طرف آئے تھے؛ اس لیے وہ أبوبَکرة یعنی چرخی والے سے مشہور ہوگئے۔ حافظ ابن ماکولا (۴۲۲- قیل ۴۸۷ھ) ”الإکمال فی رفع الارتیاب عن الموٴتلف والمختلف فی الأسماء والکنی والأنساب“ میں فرماتے ہیں:
أما بکرة وفتح الباء فھو أبو بکرة صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اسمہ نُفَیْع․ (الإکمال، ص:۳۴۹، ج:۱، العلمیة: بیروت)
علامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ (۶۷۳-۷۴۸ھ) ”العِبَر فی خَبر مَن غَبَر“ میں فرماتے ہیں:
تدلّی من الطائف ببکرة، فأتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم مُسلمًا․ (العبر فی خبر من غبر، ص:۴۱، ج:۱، العلمیة: بیروت) واللہ تعالیٰ أعلم
سعد بن معاذ نہیں؛ بل کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما
$ ”صحیح بخاری“ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قال ناسٌ مِنَ الأنصارِ – حِیْن أفاءَ اللہُ علٰی رسولِہٖ صلی اللہ علیہ وسلم مَا أفاءَ مِنْ أموالِ ھَوَازِنَ، فَطَفِقَ النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُعْطِیْ رِجالاً المائةَ مِنَ الإبِلِ فَقَالُوْا: یَغْفِرُ اللہُ لِرَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُعْطِیْ قریشًا ویَتْرُکُنا، وسُیُوْفُنا تَقْطُرُ مِنْ دِمائِھم، قال أنسٌ: فَحُدِّثَ رسولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِمَقَالَتِھِمْ․․․ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة الطائف، ص:۶۲۰، ج:۲، قدیمی: کراچی)
”جس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوازن کے اموال بطورِ غنیمت دیے، جو دیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کو سو سو اونٹ دینے لگے، تو کچھ انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مغفرت فرمائے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہم کو چھوڑ رہے ہیں، یعنی ہم کو نہیں دیتے؛ حالاں کہ ہماری تلواروں سے ان کے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان انصار کی بات کی اطلاع دی گئی․․․․“
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعند ابن إسحٰق من حدیث أبی سعید أن الذی أخبرہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ․ (إرشاد الساری، ص:۳۱۱، ج:۹، العلمیة: بیروت)
”ابن اسحاق کی حضرت ابوسعید (خدری) رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ (ان انصار کی بات کی) اطلاع دی، وہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں۔“
بندہ کہتاہے:
یہاں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا ذکر اشکال سے خالی نہیں؛ کیوں کہ آپ بنوقریظہ کے متعلق اپنا فیصلہ سنانے کے بعد عزوئہ احزاب میں لگنے والے تیر کے زخم کی وجہ سے مشہور قول پر ۵ھ میں وفات پاچکے تھے، جیساکہ ”الإستیعاب“ ص:۱۶۸، ج:۲ اور ”الإصابة“ ص:۳۷، ج:۲ وغیرہ میں ہے اور حدیث بالا میں مذکور قصہ ۸ھ کا ہے؛ لہٰذا اس موقع پر سعد بن معاذ کا ذکر علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کی سبقتِ قلم ہے یا سہوِ کاتب ہے، سعد بن معاذ کی بجائے سعد بن عُبادہ ہونا چاہیے، جیساکہ ”فتح الباری“ ص:۶۴۷،ج:۷ اور ”عمدة القاری“ ص:۳۰۹، ج:۱۷ میں ابن اسحق کی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہی کی حدیث کے حوالے سے مذکور ہے۔ دارالکتب العلمیة: بیروت کی مطبوعہ ”السیرة النبویة“ لابن إسحاق میں ہے:
قال ابن إسحاق: وحدثنی عاصم بن عمر بن قتادة، عن محمود بن لبید، عن أبی سعید الخدری، قال: لما أعطی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما أعطی من تلک العطایا فی قریش وفی قبائل العرب، ولم یکن فی الأنصار منھا شیء، وجد ھذا الحی من الأنصار فی أنفسھم، حتی کثرت منھم القالة، حتی قال قائلھم: لقد لقی واللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قومہ، فدخل علیہ سعد بن عبادة، فقال: یا رسول اللہ، إن ھذا الحی من الأنصار قد وجدوا علیک فی أنفسھم․ (السیرة النبویة لابن إسحاق، ص:۵۸۷، ج:۲، دارالکتب العلمیة: بیروت) واللہ تعالیٰ أعلم․
”ابوداؤد“ کنیت کے مصداق ہشام بن عبدالملک نہیں؛ بل کہ سلیمان بن داؤد ہیں
$ ”صحیح بخاری“ میں ہے:
وقال وکیع والنضر وأبوداوٴد عن شعبة عن سعید عن أبیہ عن جدہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم․ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب بعث أبی موسی ومعاذ إلی الیمن قبل حجة الوداع، ص:۶۲۳، ج:۲، قدیمی: کراچی)
مذکورہ رُواة میں ”أبوداؤد“ کنیت کا مصداق علامہ عینی، علامہ قسطلانی اور شیخ الاسلام زکریا الانصاری رحمہم اللہ نے ”ہشام بن عبدالملک“ کو قرار دیا ہے۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و وصل تعلیق أبی داوٴد ھشام بن عبدالملک الطیالسی فی مسندہ المروی من طریق یونس بن حبیب عنہ․ (عمدة القاری، ص:۴، ج:۱۸، دارإحیاء التراث العربی: بیروت)
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(وأبوداوٴد) ہشام بن عبدالملک․ (إرشاد الساری، ص:۳۲۳، ج:۹، العلمیة: بیروت)
ہمارے دیار کی مطبوعہ ”صحیح بخاری“ کے نسخوں کے حاشیے میں قسطلانی کے حوالے سے یہی منقول ہے؛ البتہ قدیمی کتب خانہ کراچی کے نسخے میں کتابت کی غلطی سے ”ہشام بن عبد الملک“ کی بجائے ”ہشام وعبد الملک“ ہوگیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: حاشیہ: ۲، ص:۶۲۳، ج:۲)
شیخ الاسلام زکریا الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(وأبوداوٴد) ہو ہشام بن عبدالملک․ (منحة الباری، ص:۴۳۲، ج:۷، الرشد: الریاض)
بندہ کہتا ہے:
یہ علامہ عینی، علامہ قسطلانی اور شیخ الاسلام زکریا الانصاری رحمہم اللہ کا وہم ہے کہ انھوں نے ”ابوداود“ کنیت کا مصداق ”ہشام بن عبدالملک“ کو قرار دیا؛ کیوں کہ ہشام بن عبدالملک طیالسی کی کنیت ”ابوداؤد“ نہیں؛ بل کہ ”ابوالولید“ ہے۔ درحقیقت ”ابوداؤد“ کنیت کے مصداق ”سلیمان بن داؤدطیالسی“ ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ”تہذیب التہذیب“ میں فرماتے ہیں:
ھشام بن عبدالملک الباھلی مولاھم، أبوالولید الطیالسی البصری الحافظ الإمام الحجة․ (تھذیب التھذیب، ص:۵۴، ج:۹، دارالفکر: بیروت)
أبو الولید الطیالسی، اسمہ: ھشام بن عبد الملک الباھلی البصری․ (تھذیب التھذیب، ص:۳۰۴، ج:۱۰، دارالفکر: بیروت)
سلیمان بن داوٴد بن الجارود، أبو داوٴد الطیالسی البصری الحافظ․ (تھذیب التھذیب، ص:۴۶۹، ج:۳، دارالفکر: بیروت)
أبوداوٴد الطیالسی، اسمہ: سلیمان بن داوٴد․ (تھذیب التھذیب، ص:۹۹، ج:۱۰، دارالفکر: بیروت)
علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے اپنی شرح ”کواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری“ المعروف بہ ”شرح الکرمانی“ میں ”ابوداؤد“ کنیت کا مصداق سلیمان (بن داؤد) طیالسی ہی کو قرار دیا ہے، ”شرح الکرمانی“ میں ہے:
و﴿أبوداوٴد﴾ ھو سلیمان الطیالسی․ (شرح الکرمانی، ص:۱۷۰، ج:۱۶، دارإحیاء التراث العربی: بیروت)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ”فتح الباری“ میں ”ابوداؤد“ کے نام سے تعرض ہی نہیں کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباری، ص:۶۶۱، ج:۷، دارالریان: القاہرة․)
یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ نہیں، نیز ایک اور وہم
$ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۳ھ) ”فتح الباری“ میں ”باب حجة الوداع“ کے ذیل میں فرماتے ہیں:
وعند الترمذی من حدیث جابر ”حَجَّ قَبْلَ أنْ یُھاجِرَ ثَلاثَ حِجَجٍ“ وعَنِ ابنِ عباسٍ مِثلُہ أخْرَجَہُ ابنُ ماجَةْ والحاکمُ․ (فتح الباری، کتاب المغازی، باب حجة الوداع، ص:۷۰۷، ج:۷، دارالریان: القاہرة)
”امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے: حجَّ قَبْلَ أنْ یُھَاجِرَ ثلاثَ جِجَجٍ․ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے تین حج کیے“ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح حدیث مروی ہے، جس کی تخریج ابن ماجہ اور حاکم رحمہما اللہ نے فرمائی ہے۔“
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا کلام بعینہ ان کے حوالے کے بغیر بلا تعقب ”الکنز المتواری فی معادن لامع الدراری وصحیح البخاری، ص:۵۱۰، ج:۱۵، مکتبة الحرمین: دوبئی میں منقول ہے۔
بندہ کہتا ہے:
حافظ الدنیا: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو یہاں وہم ہوگیا اور حدیث جابر عند الترمذی مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ نقل فرمادی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مانند قرار دی، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے قبل تین حج ادا فرمائے؛ حالاں کہ ان دونوں حضرات کی حدیث میں ہجرت سے قبل دو اور ہجرت کے بعد ایک، اس طرح تین حج کی دائیگی کا ذکر ہے، ہجرت سے قبل تین حج کی ادائیگی کا ذکر نہیں؛ چناں چہ ”جامع ترمذی“ میں ہے:
عَنْ جابرِ بنِ عبدِ اللہِ: أنّ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم حَجَّ ثَلَاثَ حِجَجٍ: حَجَّتَیْنِ قَبْلَ أنْ یُھاجِرَ و حَجَّةً بَعْدَ مَا ھَاجَرَ․ (الکتب الستة، جامع الترمذی، أبواب الحج، باب ما جاء: کم حجّ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ حدیث: ۸۱۵، ص:۱۷۲۸، دارالسلام: الریاض)
”حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حج ادا فرمائے، دو حج ہجرت سے قبل اور ایک حج ہجرت کے بعد۔“
”سنن ابن ماجہ“ میں ہے:
حَدَّثَنَا القاسمُ بنُ محمدِ بنِ عَبّادٍ المُھَلَّبِیُّ: حَدَّثَنا عبدُ اللہِ بنُ داوٴد: حدثنا سفیانُ، قال: حَجَّ رسولُ اللہ ﷺ ثَلاثَ حَجّاتٍ: حَجَّتَیْنِ قبلَ أن یُھاجِرَ، وحَجَّةً بعدَ ما ھاجر مِنَ المدینةِ․․․․
قِیل لہ: مَنْ ذَکَرَہُ؟ قال: جعفرٌ عَنْ ابیہ، عن جابر․ وابنُ أبی لیلیٰ عَن الْحَکَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابنِ عباسٍ․ (الکتب الستة، سنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب حجّة رسول اللہ ﷺ، حدیث: ۳۰۷۶، ص:۲۶۶۴، دارالسلام: الرّیاض)
سفیان ثوری رحمة اللہ علیہ دو طریق – جعفر عن أبیہ عن جابر اور ابن أبی لیلیٰ عن الحکم عن مِقْسم عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہم – سے روایت کرتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حج کیے، دو حج قبل ازہجرت اور ایک حج ہجرت کے بعد مدینہ منورہ سے ادا فرمایا۔“
نیز ایک اور وہم یہاں یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تخریج کو ابن ماجہ کی طرح حاکم کی طرف بھی منسوب کیا ہے، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے تو حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ذکر کیا ہے، جس کے الفاظ ماقبل میں نقل کیے گئے؛ لیکن امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل نہیں کیا ہے؛ بل کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے؛ چناں چہ ”المستدرک علی الصحیحین“ میں ہے:
عَنْ جعفرِ بنِ محمدٍ عَنْ أبیہ عَنْ جابرٍ رضی اللہ عنہ قال: حَجَّ النبیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَجَّتینِ قبلَ أن یھاجرَ یعنی و حَجَّ بعدَ مَا ھاجرَ حَجَّةً قَرنَ معھا عمرةً․ (المستدرک، کتاب المناسک، کم حجّ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ص:۴۷۰، ج:۱، دارالمعرفة: بیروت)
”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے قبل دو حج کیے، ان کی مراد یہ ہے کہ ہجرت کے بعد (بھی) ایک حج کیا، آپ نے اس حج کے ساتھ عمرہ کو ملایا۔“
علامہ زرقانی رحمة اللہ علیہ (وفات: ۱۱۲۲ھ) نے بحوالہ ابن ماجہ اور حاکم حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہجرت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین حج کی ادائیگی کا ذکر کیا ہے:
وقال ابن عباس: حَجَّ ﷺ قبلَ أن یھاجر ثلاث حجج․ أخرجہ ابن ماجہ والحاکم․ (شرح المواھب اللدنیة، ص:۱۰۵، ۱۰۶، ج:۳، دارالمعرفة: بیروت)
یہ وہم ہے؛ اس لیے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہجرت سے قبل تین حج کا نہیں؛ بل کہ دو حج کا ذکر ہے۔ نیز حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کی تخریج امام ابن ماجہ رحمة اللہ علیہ نے تو کی ہے؛ لیکن امام حاکم رحمة اللہ علیہ نے نہیں کی، جیساکہ ماقبل میں گزرا۔
علامہ محمد تاودی مالکی رحمة اللہ علیہ (۱۱۱۱-۱۲۰۹ھ) نے ترمذی کے حوالے سے حجة الوداع سے قبل تین حج کی ادائیگی کا ذکر کیا ہے، اس طرح حافظ ابن حجر عسقلانی کے کلام میں واقع پہلا وہم علامہ تاودی کے کلام میں درآیا ہے۔ وفی الترمذی ”أنہ صلی اللہ علیہ وسلم حجَّ قبل ذلک ثلاث حجج“ (حاشیة التاودی علی صحیح البخاری، ص:۲۷۲، ج:۴، العلمیة: بیروت)
(باقی آئندہ)
——————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد:100 ، جمادی الاولی1437 ہجری مطابق مارچ 2016ء