از: محمد فاروق، کراچی
اسلام کا نام لے کر اسلام کو ڈَسنا، اسے تحریفی نشتر لگانا، اس پر جرح وتنقیدکی مشق کرنااور محض مفروضات سے اُس کے قطعی مسائل کو پامال کرناہر دور کے ملاحدہ وزنادقہ کا طرئہ امتیاز رہا ہے۔ پہلی صدی کے خوارج ہوں یا مابعد کے باطنیہ، تیسری صدی کے اصحاب العدل والتوحید ہوں یا دورِ حاضر کے ”اربا ب فکر ونظر“، دوسری صدی کا ابن المقفع ہو یا چودھویں صدی کا اسلم جیراجپوری، اکبری دور کے ابوالفضل اور فیضی ہوں یا ہمارے دور کے جاوید غامدی، ماضی قریب کے ڈاکٹر فضل الرحمن اور عمر احمد عثمانی ہوں یا آج کا عمارخان ناصر،سب کا مشترک مقصد، مشترک نقطئہ نظر اور مشترک سرمایہ اسلام کی چاردیواری میں رخنہ اندازی کرنا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اسلام کی اصل روح پہلی صدی کے وسط یا تقریبا آخر میں دفن ہوکر رہ گئی۔ اور اب جو ”مدونِ اسلام“ تیرہ یا چودہ صدیوں سے مسلمانوں کے پاس موجود ہے، یہ وہ اسلام نہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیاتھا؛ بلکہ یہ اسلام ”مردہ کا ورثہ“ اور ”زندگی کی حرارت“ سے محروم جسد بے روح ہے۔ نعوذباللہ۔(۱)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے امت محمدیہ سے اجتماعی عذاب اُٹھا لیا ہے۔ یعنی اب اس امت پر کوئی ایسا عذاب نہیں آئے گا کہ جس سے پوری امت ہلاک وبرباد ہوجائے؛ لیکن اہل ایمان کے امتحان اور آزمائش کے لیے فتنے برابر پیدا ہوتے رہیں گے؛ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”کل شیٴ ینقص، إلا الشر، فإنہ یزاد فیہ․“ ہر چیز میں کمی ہوگی لیکن شر (وفتن) میں برابر اضافہ ہوتا رہے گا۔(۲)
”فتنہ“ عربی زبان کا لفظ ہے، جو متعدد معانی کے لیے قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ لیکن معروف معنی دنگا فساد ہی ہے۔ اور اسی معنی میں یہ لفظ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ روزمرہ کی گفتگو میں بھی ”فتنہ وفساد“ وغیرہ الفاظ ہم استعمال کرتے رہتے ہیں۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق امت محمدیہ مسلسل فتنوں کا شکار رہے گی۔
آج نقشہٴ عالم پر نگاہ دوڑائیے! حرمین شریفین سے لے کر تمام عرب ممالک، ایشیاء، یورپ، افریقہ اور امریکہ سبھی خطے شرور وفتن کی لپیٹ میں ہیں۔ آفات ومصائب کا ایک عالمی طوفان ہے جو بڑھتا چلا جارہا ہے، فتنوں پر فتنے اٹھ رہے ہیں، دینی وعلمی فتنے، ملکی وقومی فتنے، تہذیب وتمدن کے فتنے، آرائش وآشائش کے فتنے، سرمایہ داری کے فتنے، غربت وافلاس کے فتنے، اخلاقی وسیاسی فتنے، عقل پرستی کے فتنے، داخلی وخارجی فتنے حتیٰ کے نورانی اور روحانی فتنے۔ ایک تسلسل کے ساتھ تمام فتنے دنیا میں پھیلتے چلے جارہے ہیں، دنیا کا کوئی بھی خطہ شاید ایسا نہیں جو فتنوں سے بالکلیہ محفوظ اور مامون ہو۔
اور انتہائی کرب ناک صورت حال یہ ہے کہ دشمنان اسلام کی سازشوں کے نتیجے میں عالم اسلام فتنوں کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔ اسلام کے نام پر فتنے، اسلامی عقائد اور اسلامی اعمال میں فتنوں کی ایک شورش برپا ہے۔ فریق مخالف کے خلاف کفر وضلال کی مشین گن تھامے ہر کوئی اسلام کا ٹھیکیدار نظر آتا ہے۔ یورپ سے درآمد شدہ دانشور مسلمانوں کے ایمان کو ختم یا کم از کم کمزور کرنے کے لیے آئے دن ”نئی تحقیق“ اور ”جدیدریسرچ“ کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ قلمی جولانیاں، زبان کی سلاست وروانی، چرب لسانی کے ذریعے اذہان وعقول کو متاثر کرکے احکام دین سے باغی کرنا ان کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔ اُن سے اور کچھ نہ بن پڑے تو اچھے بھلے مسلمان کو اس کے عقائد وافکار کے حوالے سے شک میں تو ڈال ہی دیتے ہیں۔ اور یہ سب اِس وجہ سے ہے کہ ہم مسلمانوں نے اپنے خالق سے بے پروائی اختیار کرلی ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں: ”ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا․“ جو ہماری یاد سے منہ موڑے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی۔ آج ہماری پستی وذلت کا بڑا سبب یہی ہے کہ ہم نے خالق کائنات سے روگردانی کر رکھی ہے۔
فتنوں کی اِس بھرمار میں سب سے خطرناک ایمان سوز فتنے ہیں؛ کیونکہ کسی بھی مسلمان کے لیے سب سے قیمتی چیز ایمان ہے، جب متاعِ ایمان ہی لٹ جائے تو دنیا وآخرت کی سب خیریں گویا چھن گئیں؛ چنانچہ احادیث میں فتنہٴ دجال کو بڑا فتنہ قرار دیا گیا؛ کیونکہ وہ ایمان کے لیے خطرناک ہوگا۔ انھیں ایمان سوز فتنوں میں سے ایک ”فتنہ الحاد“ ہے۔ جس کا معنی : راہِ راست سے ہٹ جانا، بے دینی اور مذہب بیزاری اختیار کرناہے۔ یعنی حق سے منحرف ہو کر اس میں بے بنیاد باتیں داخل کردینا۔ اور دینی احکام کے بارے میں غلط قسم کی تاویلیں کرنا۔ مختصریوں کہہ لیں کہ دین میں تحریف، رد و بدل یا دین کے نام پر دین سے دُوری کا نام اِلحاد ہے۔
اِس فتنہٴ الحاد سے اسلام اور اہل اسلام کا واسطہ کوئی نیا نہیں، جب سے اِسلام آیا تب سے اِسلام میں تحریف کرکے لوگوں کو اسلام سے دُور کرنے والے بھی موجود ہیں۔ اُسی زمانے سے ملحدین نے دینی احکام کو کھیل اور مذاق سمجھ کر تاویلاتِ باطلہ کا نشانہ بنائے رکھا۔ اور مسلمانوں کو اُن کے دین سے کاٹنے اور دُور کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ علمائے اسلام اپنی شرعی اور دینی ذمہ داری کی بدولت ان فتنوں کا تعاقب کرتے رہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق یہ سلسلہ دراز ہوتا رہا اور آج ہم ان فتنوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ماضی قریب میں سرسیداحمد خان، غلام احمد پرویز، غلام احمد قادیانی، ڈاکٹر فضل الرحمن، عمر احمد عثمانی ،ابوالاعلیٰ مودودی، عنایت اللہ مشرقی اور ان جیسے متجددین اِسی سلسلے کی کڑیاں گزری ہیں۔
دورِ حاضر میں بھی یہ فتنہ مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ سب سے پہلے میں جاوید غامدی صاحب اور ان کے فکری جانشین جناب عمارخان ناصر کا نام لینا چاہوں گا؛ کیونکہ یہ وہ شخصیات ہیں جنھوں نے دین کی ازسرنوتشکیل کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اور اللہ کے نازل کردہ دین میں سے صحابہٴ کرام سے لے کر آج تک کی چودہ صدیوں کے علماء، فقہاء، محدثین ومفسرین کے آراء کے برخلاف ”جو کچھ“ غامدی صاحب کے سمجھ آسکا، وہ انھوں نے اپنی کتاب ”میزان“ میں بیان کردیا ہے۔(۳)
غامدی صاحب نے تشکیل جدید میں پہلا حملہ قرآن پاک پر کیا کہ قرآن سمجھنے کے لیے صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے ”عربی دانی“۔ قرآن سمجھنے کے لیے نہ کسی تفسیرکی پابندی ضروری ہے نہ تشریحات سلف کی پیروی۔(۴) اور ”سنت“ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ: ”سنت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے افعال وعادات نہیں؛ بلکہ ”دین ابراہیمی کی روایت“ ہے، جسے آپ … نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ۔ نیز سنت کو سمجھنے کے لیے دین ابراہیمی کے حاملین (یہود ونصاری) کے عمل وتواتر کو دیکھا جائے گا۔ (امت محمدیہ کے تواتر عملی کو نہیں۔)“(۵) اور تیسرا اُصول یہ وضع کیا کہ ”حلت وحرمت اور جواز وعدم جواز کے لیے مدار شریعت نہیں، ”فطرت“ اور عقل انسانی ہے۔“(۶) اِن اُصولِ ثلاثہ سے دین کا کوئی جز بچتا نظر آئے، مثلا حدود وتعزیرات اور اِقدامی جہاد وغیرہ تو اُس کے بندوبست کے لیے ”قانونِ اتمام حجت“ نامی اصطلاح معرضِ وجود میں لائی گئی۔
لیجیے! قرآن مجید کی تمام تر تفاسیر سے بھی آزادی ملی، سنت کے نام پر ”ملاں لوگ“ جو قیود لگاتے ہیں اُن سے بھی جان چھوٹی اور ”شریعت“ کے گورکھ دھندے سے بھی خلاصی ہوئی۔ اَب غامدی صاحب ہیں اور قرآن کی آیات۔ اپنی ”عربی دانی“ کی بنیاد پر جس آیت کی جو چاہیں تشریح کریں۔ غامدی صاحب ہیں اور ”دین ابراہیمی کی روایات“۔ لہٰذا سنتوں کی تعداد سمٹ کر ۲۷/ رہ گئی۔ غامدی صاحب ہیں اور ان کی ”فطرت سلیمہ“۔لہٰذا اپنی فطرت سے سوال کرکے، جسے چاہیں حلال قرار دیں اور جسے چاہیں حرام۔ رہی سہی کسر ”قانون اتمام حجت“ پوری کر دے گا۔ رہے نام ملتِ غامدیہ کا۔۔!!
اِسی اُصول کے پیش نظر اُنہوں نے حیات عیسیٰ، ظہورِ مہدی، حجیت حدیث، ڈاڑھی کی سنیت، حجیت ِاجماع، رجم کی حد، قرآن کریم کی مختلف قراآت،تصوف، مسلم وغیر مسلم اور مرد وعورت کی گواہی میں فرق، زکوة کے معین نصاب اور نبی کریم کی افعال واعمال کی سنیت کا انکار کردیا کہ ”قرآن اِن سے خاموش ہے۔“ اور موسیقی، تصویر، بیمہ وغیرہ کو اس لیے جائز قرار دیدیاکہ ”قرآن اِن سے منع نہیں کرتا۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکڑوں سنتوں کا اِنکار اِس بنا پر کردیا کہ ”دین ابراہیمی کی روایت نہیں۔“ اور کھانے کی چیزوں میں چار چیزوں کے سوا سب کی حرمت ِشرعی کاانکار کردیا کہ ”وہ فطرت پر موقوف ہیں۔“(۷) اوراِقدامی جہاد، مرتد کی شرعی سزا اور مسئلہ تکفیر کو ”قانونِ اتمام حجت“ میں نمٹا دیا۔
عمارخان صاحب اکثر مسائل میں تو غامدی صاحب کے بالکل قدم بہ قدم ہیں؛ چنانچہ تفسیر بالرائے، انکارِ اِجماع، انکارِ سزائے ارتدادو رجم، اقدامی جہاد کے انکاراور تصوف واہل تصوف کے استہزاء میں بعینہ غامدی اصغر ہیں۔ اور بعض مسائل جن میں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر میں نے غامدی صاحب سے اتفاق کیا تو امت کی اجماعی رائے کی روشنی میں دائرہ اسلام سے خارج قرار پاوٴں گا تو اُن میں اِنکار کی بجائے تشکیک اور نفس مسئلہ کی اصل حیثیت کو مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ چنانچہ ڈاڑھی کی شرعی حیثیت، حیات عیسیٰ اور مسئلہ تکفیروغیرہ مسائل میں وہ اِسی راہ پر گامزن ہیں۔(۸)
اِن افکار کا یقینی نتیجہ مذہب بیزاری، دینی تشکیک وتذبذب، تمام امت اسلامیہ کی تجہیل اور تحمیق اور قدیم علماء امت اور حاملین دین کو ناقابل اعتماد مجرم قرار دینا اور اسلام کی پوری تاریخ تاریک در تاریک دِکھلانا ہے۔ غامدی صاحب کے وضع کردہ فہم دین کے اُصولوں کے نتیجے میں کیا کچھ ہمارے ہاتھ سے جاتا ہے؟ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم کی تفسیر وتشریح میں جو کچھ صاحبِ قرآن نے فرمایا وہ ناقابل اعتبار ٹھہرا کہ ”قرآن سمجھنے کا مدار فقط ”عربی دانی“ ہے۔“ اقوالِ صحابہ وتابعین، تشریحاتِ مفسرین اور فقہاء کرام کے قرآن سے اخذ کردہ مسائل واحکام سب بیک جنبش قلم ناقابل التفات ٹھہرے۔ سنت رسول اور آثار صحابہ کی پابندی بھی غیر لازم ہوئی کہ ”سنت تو دین ابراہیمی کی روایت ہے۔“ اور اجماع کو تو غامدی صاحب نے صاف لفظوں میں ”بدعت“ اور عمارخان نے ”علمی افسانہ“ لکھ دیا۔ یوں پوری امت مبتدع وافسانوی کردار کی حامل ٹھہری۔ تصوف کو جناب نے ”عالمگیر ضلالت“ قرار دے کر تمام صوفیاء ملت کو ”گمراہی“ کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ یہودونصاریٰ کے لیے نبی کریم پر ایمان کو غیر ضروری قرار دے کر کلمہ اسلام کی اہمیت ختم کرڈالی۔ الغرض کلمہٴ اسلام سے لے کر دین کے معمولی حکم تک سب کو غامدی صاحب نے مردود، ناقابل التفات، یا مشکوک کردیا۔ اور چودہ صدیوں کا اجماعی تعامل اور جمہور اہل علم کا موقف غیر معتبر ٹھہرا۔ اَب دین کو سمجھنے کا واحد ذریعہ عقلِ غامدی اور فطرتِ عمار ہے۔ ۔!! اَعَاذَنَا اللہُ مِنْہُ․
طرفہ تماشا یہ ہے کہ اِس ”تحریف دین“ کا نام ”تحقیقِ اسلام“ اور ”اِلحاد فی الدین“ کا نام ”اظہارِ حقیقت“ رکھا جاتا ہے۔ غامدی وعمار صاحبان کے علاوہ دیگر ملحدینِ زمانہ میں زیدحامد، فرحت ہاشمی اور ان جیسے دسیوں پروفیسرز، بیسیوں ڈاکٹرز اور نام نہاد دانشوران شامل ہیں۔ جنھوں نے مختلف ٹی وی چینلز، پرنٹڈ والیکٹرانک میڈیا اور مختلف لیکچرز وانٹرویوز میں آئے دینی احکام کی من پسند تشریحات وتوضیحات کرکے قوم کو گمراہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ان سے ہٹ کر اسکولوں کالجوں میں رائج انگریزی کلچر، یہود وہنودکی تہذیب وتمدن بھی اِلحاد پھیلانے میں پیش پیش ہے، اسی کو دیکھ کر علامہ اقبال نے کہا تھا۔
ہم تو سمجھے تھے کہ لائے گی فراخی تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
ابتدا ہی سے بچوں کے گلے میں ٹائی لٹکا کر ان کو عیسائی تہذیب سے مانوس اور اسلامی تہذیب سے بے گانا کیا جاتا ہے، بود وباش، رہن سہن، شکل وصورت، لباس وغیرہ سب کچھ عیسائیوں کے طرز پر ہے، مخلوط تعلیم ہم نے شروع کررکھی ہے، بے حیائی اور فحاشی کے حلقے ہمارے گھروں میں لگے ہوئے ہیں، قومی ودینی غیرت کا جنازہ ہم نے نکال رکھا ہے، ہندوٴں کے تہوار ہم نے اپنا رکھے ہیں، اقبال کہتا ہے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
تم مسلماں ہو جن کو دیکھ کر شرمائیں یہود؟
گویا لادینیت، الحاد، سیکولرازم، لامذہبیت اور دین سے دُوری کی جتنی ممکنہ صورتیں ہیں، کفار نے وہ سب اختیار کر رکھی ہیں، اپنے ایجنٹ اسلامی ممالک میں بھیج کر ہمارے میڈیا پر اُن کو ”اسلامی سکالرز“ باور کرایا ہے؛ حالانکہ اُن کا مقصد اورواحد مقصد مسلمان قوم کو خدا، نبی اور قرآن سے کاٹنا اور دُور کرنا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ والوں، نبی کے وارثوں اور قرآن کے حاملین سے قوم کو بدظن کریں۔ سو اِس کوشش میں دِن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ: یہ اسکالرز ”ناموس رسالت“ کے قانون کے غلط استعمال کا تو بہت واویلا مچاتے ہیں؛ لیکن بیسیوں دیگر قوانین کے غلط استعمال پر ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ شرعی حدود کے نفاذ پر تو چیخ اٹھتے ہیں؛ لیکن ماوائے عدالت قتل اور دیگر انسانیت سوز مظالم پر ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں فتنوں سے حفاظت اور پناہ کی دعا مانگتے تھے، وہیں یہ دعا بھی مانگتے تھے کہ یااللہ! جب تو کسی قوم کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے فتنہ میں ڈالے بغیر اٹھالینا۔ گویافتنوں سے حفاظت کے دوطریقے ہیں:
۱- اللہ تبارک وتعالیٰ فتنے کے زمانہ سے پہلے اٹھالے۔
۲- فتنوں کے زمانے میں ہونے کے باوجود اللہ کریم اپنی رحمت سے فتنوں سے محفوظ فرمادے۔ ہم لوگ فتنوں کے زمانے میں موجود ہیں؛ اس لیے پہلی صورت تو ممکن نہیں؛ البتہ دوسری صورت ممکن ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور وہ اپنی رحمت کاملہ سے ہمیں فتنوں سے محفوظ فرمالے۔
خارجی وداخلی فتنوں، آپس کے خلفشار اور باہمی تنازعات سے حفاظت کے لیے ہمیں جواقدامات کرنے چاہئیں وہ یہ ہیں:
۱- اکابر پر مضبوط اعتماد۔
۲- علماء، فقہاء اور اہلِ دین سے حسنِ ظن۔
۳-کسی صاحبِ نسبت سے گہرا تعلق۔
۴-رجوع الی اللہ کا اہتمام۔
۵- اہل خیر وصلاح سے مشورہ۔
۶- اعتدال پسندی۔
۷- بلاتحقیق بات قبول کرنے یا پھیلانے سے احتراز۔
۸-اکرام واحترام مسلم۔
۹- باہمی اختلاف وانتشار یا اس کے اسباب سے کلی پرہیز۔
علماء ومصلحین کے لیے ایمان وتقویٰ، اخلاص وعمل، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، امت کی اصلاح کے لیے تڑپ، گروہ بندی اور افتراق سے پرہیز ․․․․ اورعلمی فتنوں کی سرکوبی کے لیے ٹھوس علمِ دین، جدید علمِ کلام، جدید سائنس، معلوماتِ عامہ، حسنِ تحریر، شگفتہ بیانی، سنجیدہ متوازن دماغ، پیہم کوشش اور صالح وموٴثر لٹریچر کا حصول نہایت ضروری ہے۔ واللہ الموفق
$ $ $
حواشی وحوالہ جات:
(۱) فکرونظرج:۲،ش:۳،ص:۱۵۳۔بحوالہ تجددپسندوں :۸۔
(۲) مسنداحمد،بحوالہ دورِ حاضر کے فتنے اور ان کا ۔
(۳)میزان،ص:۱۱،طبع۲۰۱۴ء۔
(۴) میزان:۲۵،ط:۲۰۱۴ء۔
(۵)میزان،ص:۱۴ ․․․․ ص:۴۷،ط:۲۰۱۴ء۔
(۶)میزان، ص:۱۴ ․․․․ ص:۵۹، ط:۲۰۱۴ء۔
(۷)حیات عیسیٰ،میزان ،ص:۱۷۸ ، ظہورِ مہدی،میزان،ص:۱۷۸ ، اقدامی جہاد، اشراق، اپریل ۲۰۱۱ء، ص:۲، حجیت حدیث: میزان، ص:۱۵،ڈاڑھی، مقامات، ص:۱۳۸ ، اجماع، اشراق، اکتوبر ۲۰۱۱ء، ص:۲، مرتد کی شرعی سزا،اشراق،اگست ۲۰۰۸ء، ص:۶۴، رجم کی حد،برہان،ص:۳۵، قرآت قرآن، اشراق، اکتوبر ۲۰۰۹ء، ص:۶۱، مردوعورت کی گواہی، برہان، ص: ۲۵ تا ۳۴ ، زکوٰة کا نصاب،اشراق،جون۲۰۰۸ء،ص:۶۴، موسیقی و تصویر، اشراق،فروری ۲۰۰۸ء، ص۶۹، بیمہ، اشراق، جون ۲۰۱۰ء، ص:۲۔
(۸) الشریعہ اشاعت خاص، جون ۲۰۱۱ء۔
————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 99 ، صفر1437 ہجری مطابق دسمبر 2015ء