از: مولانامحمد اللہ خلیلی قاسمی
کوآرڈنیٹر دارالافتاء ویب سائٹ، دارالعلوم دیوبند
معاشرتی و اجتماعی زندگی کے بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، بلکہ معاشرت کی پہلی اینٹ اخلاقِ حسنہ ہی ہیں۔ حسن اخلاق کے بغیر انسان نہ صرف یہ کہ انسان نہیں رہتا؛ بلکہ درندگی و بہیمیت پر اتر آتا ہے۔ انسانیت کا زیور حسنِ اخلاق ہے؛ لیکن چھٹی صدی عیسوی میں دنیا اخلاقی اعتبار سے کنگال اور دیوالیہ ہوچکی تھی۔ انسانیت و شرافت کی بنیادیں ہل چکی تھیں۔ تہذیب و اخلاق کے ستون اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے۔ تہذیب و تمدن کے گہواروں میں خود سری، بے راہ روی اور خلاقی پستی کا دور دورہ تھا۔ روم و ایران اخلاق باختگی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جارہے تھے۔ شراب عربوں کی گھٹی میں پڑی تھی، جو جاہلی معاشرے میں بڑائی اور خوبی کی بات تھی۔ سودی لین دین، کمزوروں کا استحصال اور اس سلسلے میں بے رحمی و سخت گیری عام تھی۔ بے شرمی وبے حیائی، رہزنی و قزاقی معمولی بات تصور کی جاتی تھی۔ جنگ جوئی اور سفّاکی بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا تھا۔ بے جا انتقام اور تعصب کا شمار قومی خصوصیتوں میں ہوتا تھا۔ ایسے اخلاق سوز اور غیر انسانی ماحول میں اسلام نے جو عمدہ اخلاقی نظام پیش کیا وہ انسانی طبائع کے لیے اکسیر ثابت ہوا اور ان کی وجہ سے تہذیب و ثقافت سے بے بہرہ قوم عرب میں ایسے اخلاقی نمونے پیدا ہوئے جن کی نظیر انسانی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔
اسلام کا اخلاقی نظام
یوں تو ہر ملک و ملت اور عہد و زمانے میں معاشرہ و ماحول پر برا اثر ڈالنے والی عادات و اطوار کو پسندیدہ نگاہوں سے نہیں دیکھا گیا ہے؛ بلکہ مذہب اور سماج میں اس کو جرم اور ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ چوری و ڈاکہ، قتل و خوں ریزی، غیبت و بد گوئی ، کینہ و حسد ، تکبر، حق تلفی وغیرہ افعال و عادات ہر مذہب وسماج میں مذموم ہیں؛ جب کہ وقار و سنجیدگی، خوش کلامی و نرمی، عدل و تواضع، امانت و دیانت وغیرہ ہر معاشرے میں اچھے اخلاق شمار کیے جاتے ہیں؛ لیکن اسلام کے اخلاقی نظام اور دیگر اخلاقی قدروں میں کئی اعتبار سے بہت فرق پایاجاتا ہے۔ اسلام کے علاوہ دیگر نظاموں میں اچھے اور برے اخلاق کا معیار عقل سلیم، پاکیزہ شعور اور تجربہ ہے؛ جب کہ اسلام میں ان سب سے بڑھ کر ایک متعین اٹھاریٹی ہے اور وہ ہے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اٹھاریٹی۔ اچھا اخلاق وہی ہے جسے اللہ و رسول نے اچھا اخلاق قرار دیا ہو اور اسی طرح برے اخلاق وہ ہیں جسے اللہ و رسول برا کہیں۔ اسلام میں اچھے اور برے اخلاق کا مسئلہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے، وہ کسی انسانی عقل یا تجربہ کا محتاج نہیں۔ اسلام نے کسی طرز عمل کو اچھا یا برا اس لیے نہیں کہا کہ اسے لوگ ایسا ہی کہتے اور سمجھتے چلے آئے ہیں؛ بلکہ خود اسے اپنے اصولوں کی بنیاد پر اچھا یا برا کہا ہے۔ اسلامی اخلاقیات چوں کہ مستقل بنیاد وں پر قائم ہیں؛ اس لیے وہ ناقابلِ تغیر اور مستقل ہیں۔
اسلام کا اخلاقی نظام مختلف دائروں میں تقسیم ہے اور اس کی ابتداء انسان کی انفرادی زندگی سے ہوتی ہے۔ معاشرہ کے ایک فرد کے بہ طور ایک انسان کی اخلاقی ذمہ داری کیا ہے، اسے اسلام نے اپنی جامع اخلاقی تعلیمات میں سمیٹ دیا ہے۔ جھوٹ و بہتان طرازی، کبر و نخوت، ظلم و ستم، بدسلوکی و بے رحمی، فریب و دھوکہ دہی، شراب نوشی و جوا بازی ، زناکاری و بے حیائی، جنگ و جدال وغیرہ امور کو برا ئی قرار دیا گیا؛ جب کہ اس کے بالمقابل عمدہ اخلاق کی ہمت افزائی کی گئی۔ انفرادی دائرہ کے بعد گھریلو سطح پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک و خدمت گزاری کی تعلیم دی گئی۔ بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کے ساتھ احسان و صلہ رحمی ، بیوی بچوں کے ساتھ محبت وشفقت کی تعلیم دی گئی۔ پھر گھریلو سطح سے اٹھ کر معاشرتی سطح پر پڑوسیوں ساتھ اچھا برتاؤ اور لوگوں کے ساتھ انسانی سلوک اور احترام کا درس دیا گیا۔ تمام مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی اور تمام انسانوں کے ساتھ ہر حال میں عدل و انصاف، رواداری اور مساوات کا برتاؤ۔ اسلام کے نظامِ اخلاق کا حاصل یہ ہے کہ انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر مرحلہ میں اعلی کردار کو اپنایا جائے۔اسلام نے باہمی معاملات کو مطلب پرستی اور خود غرضی نہیں؛ بلکہ ہمدردی و خیر خواہی کے جذبہ سے انجام دینے کی تعلیم دی۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی روح ہمدردی و خیر خواہی، عدل و انصاف اور مساوات و احترامِ نفس ہے۔ اسلام کی خصوصیت یہ ہے اس نے یہ اعلی اخلاقی اصول وضع کیے اور معاشرے میں اسے صد فی صد لاگو کرکے دکھا بھی دیا۔اس سلسلے میں اسلام کی آواز اتنی موٴثر تھی کہ محض قرآن کے اس اعلان سے کہ شراب گندگی اور شیطانی عمل ہے (سورة المائدة ، ۹۰) مدینہ میں گلیوں میں شراب بہنے لگی؛ حالاں کہ نشہ چھڑانا اور وہ بھی شراب کا کتنا مشکل ہے۔ آج ساری دنیا اس بارے میں پریشان ہے کہ قوم سے نشے کی لت کیسے ختم کی جائے، مگر اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ قرآن نے اسے جڑ سے ختم کردیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کی پوری زندگی اسلام کے اسی انقلاب آفریں اخلاقی نظام کا آئینہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی ترین اخلاق
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخ انسانی کے سب سے اعلی اخلاقی معیار قائم کیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق گوئی اور سچائی کا یہ عالم تھا کہ کفار مکہ کے سردار ابو سفیان کو ہرقل کے دربار میں اس کے اس سوال پر کہ کیا تم نے کبھی محمد سے کچھ جھوٹ سنا ہے، یہ گواہی دینی پڑی کہ نہیں۔ (صحیح بخاری، باب بدء الوحی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و دیانت کا یہ حال کہ پورا مکہ آپ کا دشمن ، آپ کی دعوت سے ان کو انکار؛ لیکن امانتوں کے لیے اگر کوئی محفوظ جگہ تھی جو اسی نبی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کا مکان۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر و تحمل کی انتہا یہ تھی کہ طائف کی خوں چکاں شام اور آپ کا لہو لہان جسم، ایسا دن جس کے بارے میں آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ وہ میری زندگی کا سخت ترین دن تھا، اس دن جب پہاڑوں کا فرشتہ اللہ کے حکم سے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو ٹکرادوں اور یہ گستاخ قوم پس جائے، اس وقت رحمة للعالمین کا جواب تھا کہ نہیں، میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ وہ ان کی نسل میں ایسے لوگ پیدا فرمائیں گے جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔(صحیح بخاری، باب ذکر الملائکہ) اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عفو و درگذر اور تواضع و شفقت کا ثبوت دیا ، کیا اس کی نظیر کسی تاریخ میں ملنی ممکن ہے؟
غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اعلی ترین اخلاق و اوصاف کا ایسا نمونہ ہے کہ اس سے بہتر نمونہ پیش نہیں کیا جاسکتا اور ایسا جامع اخلاقی دستور العمل کہ اس سے بہتر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ اخلاق کا فیضان تھا کہ آپ کی دعوت نہایت تیزی کے ساتھ عربوں میں پھیلتی چلی گئی۔ آپ اپنے بلند انسانی کردار سے دشمن کے دل کو فتح کر لیتے اور اس کی روح کو اسیر کرلیتے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ ایک مہم کے دوران صحابہ نے یمامہ کے سردار ثُمامہ ابن اُثال کو زندہ پکڑ لیا اور خدمتِ اقدس میں پیش کیا۔ آپ نے ان کا حال پوچھا تو انھوں نے کہا: اگر آپ چاہیں تو قتل کردیں، اگر آپ معاف کردیں تو آپ کا احسان مند ہوں گا اور اگر مال کی خواہش ہے تو وہ بھی پیش کردوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بالآخر رہا کردیا؛ جب کہ دشمنوں کے سردار کو رہا کرنے کا تصور بڑا ہی عجیب تھا؛ مگر ہوتا کیا ہے کہ وہی شخص جس کو آپ قید سے نکال رہے ہیں، وہ بخوشی آپ کی غلامی میں آرہا ہے؛ چناں چہ ثمامہ ایک قریبی باغ میں جاکر غسل کرنے کے بعد دوبارہ واپس آتے ہیں اور اپنے اسلام کا اعلان کرتے ہیں۔(مسلم ، حدیث ۳۳۱۰) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ایسے بے شمار واقعات سے بھری ہوئی ہے۔
صحابہٴ کرام، اخلاق و انسانیت کے مکمل پیکر
اسلام کی معجزاتی تاثیر نے ہی اخلاق و اقدار سے بیگانہ عرب قوم کو تہذیب اور اعلی اخلاق کا آئیڈیل بنادیا۔ درس گاہِ قرآنی کے اولین فضلاء یعنی صحابہٴ کرام دین و اخلاق اور سیاست و قوت کے مکمل پیکر تھے۔ ان میں انسانیت کی اپنے تمام گوشوں، شعبوں اور محاسن کے ساتھ نمود تھی۔ ان کی اعلی روحانی تربیت، بے مثال اعتدال، غیر معمولی جامعیت اور وسیع عقل کی بنا پر ان کے لیے ممکن ہوا کہ وہ انسانی گروہ کی بہتر طور پر اخلاقی اور روحانی قیادت کرسکیں۔ ان کے اعلی اخلاقی نمونے معیار کا کام دیتے تھے اور ان کی اخلاقی تعلیمات عام زندگی اور نظامِ حکومت کے لیے میزان کا درجہ رکھتی تھیں۔ ان میں فرد وجماعت کا تعلق حیرت انگیز طور پر روادارانہ اور برادرانہ تھا۔ وہ ایک معیاری دور تھا، جس میں عدل و انصاف، صدق و سادگی، خلوص ووفا اور محبت و الفت کی خوشگوار ہوائیں چلتی تھیں۔ اس سے زیادہ ترقی یافتہ دور کا انسان خواب نہیں دیکھ سکتا اور اس سے زیادہ مبارک و پر بہار زمانہ فرض نہیں کیا جاسکتا۔
مدینہ کی ابتدائی زندگی میں مہاجرین و انصار صحابہ کے درمیان قائم ہونے والی ’موٴاخاة ‘ (بھائی چارہ) اخلاق و ایثار کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بھائی چارہ کے ذریعہ ایک ایسے معاشرہ کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد میں اخلاق و محبت، ایثار و ہمدردی اور مساوات کا خمیر شامل تھا۔ اس صالح معاشرہ کی ٹکسال سے حضراتِ صحابہ کی وہ جماعت تیار ہوئی جو رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کے لیے اعلی ترین اخلاقی نمونے چھوڑ گئی۔ نمونہ کے طور پر حضراتِ صحابہ کے کچھ واقعات درج کیے جاتے ہیں۔
حلم اور تواضع اخلاق کا اعلی درجہ ہے؛ جب کہ حق گوئی اخلاقی جرأت کا تقاضہ۔ حضرت عمر کے اس واقعہ میں دونوں چیزیں اعلی درجہ کی پائی جاتی ہیں۔حضرت عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں جب کہ آپ کی حکومت ملکِ عرب سے نکل شام و مصر اور عراق و ایران تک پھیل چکی تھی، بھرے مجمع میں فرماتے ہیں: اگر مجھ میں کوئی غلطی دیکھو گے تو کیا کرو گے؟ مجمع میں سے ایک شخص کھڑا ہوا ور کہا: بخدا اگر تمہارے اندر کوئی کجی پائیں گے تو تلوار سے اس کو درست کردیں گے۔ حضرت عمر فاروق نے اس شخص کے اس جملہ پر ارشاد فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگوں ہیں جو عمر کی کجی کو تلوار سے درست کردیں گے۔
اطاعت و فرماں برداری اور خلوص و بے نفسی کی عظیم ترین مثال حضرت خالد بن ولید کے واقعہ میں ملتی ہے ۔ آپ بے حد بہادر اور غیر معمولی فوجی قابلیت والے شخص تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے حضرت ابوبکر کی خلافت تک مسلسل اسلامی فوج کے کمانڈر رہے؛ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے سلسلے میں کچھ شکایتیں تھیں؛ اس لیے اپنے زمانہٴ خلافت میں حضرت خالد کو سرداری سے معزول کرکے ایک معمولی سپاہی کی حیثیت دے دی۔ اس وقت وہ شام کے علاقہ میں فتوحات کے شاندار کارنامے دکھا رہے تھے۔ عین یرموک کی لڑائی میں جسے تقریباً حضرت خالد اپنی سربراہی میں سر کرچکے تھے، اسی وقت خلیفہٴ وقت نے انھیں معزول کرکے حضرت ابوعبیدة بن الجراح کو لشکر اسلامی کا سردار بنا دیا۔ فتح یرموک کے بعد فوجیوں کی ایک تعداد آپ کے پاس جمع ہوئی اور اس حکم کی مخالفت کی بات کی؛ لیکن انھوں نے ایسے ہر مشورہ کو ماننے سے قطعی انکار کردیا اور حضرت ابوعبیدہ کی ماتحتی میں ایک معمولی فوجی کی حیثیت سے لڑنے کو ترجیح دی اور ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: انِّيْ لاَ أُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ عُمَرَ وَلٰکِنْ فِيْ سَبِیْلِ رَبِّ عُمَرَ (میں عمر کی راہ میں جنگ نہیں لڑتا؛ بلکہ عمر کے رب کی راہ میں لڑتا ہوں)۔
اموی حکومت کے بانی حضرت معاویہ اور رومی حکومت کے درمیان ایک میعادی معاہدہ تھا۔ حضرت معاویہ اپنی فوج لے کر دشمنوں کی سرحد سے قریب اس نیت سے پہنچ گئے کہ معاہدہ کی مدت پوری ہوتے ہی ان پر اچانک حملہ بول دیں گے۔ اس صورت میں اچانک حملہ کے مقابلہ میں دشمن تیار نہ ہوگا اور یقینی طور پر شکست کھا جائے گا۔ ابھی حضرت معاویہ سرحد پر پہنچے ہی تھے کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار ظاہر ہوا اور زور زور سے کہنے لگا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، وفاءٌ لا غَدَرَ (اللہ اکبر ، وعدہ کی پاس داری کرو، اسے توڑو نہیں)۔ لوگوں نے دیکھا کہ یہ صحابی رسول حضرت عمرو بن عنبسہ تھے۔ حضرت معاویہ نے انھیں اپنے خیمہ میں بلایا اور مطلب پوچھا، تو انھوں نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کی کہ جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو وہ اس کی کوئی گرہ باندھے اور نہ کوئی کھولے؛ یہاں تک کہ مدت پوری ہوجائے۔ حضرت معاویہ اس حدیث کو سن کر اپنے اقدام سے باز آگئے اور اپنی فوجوں کو واپسی کا حکم دے دیا۔ (تفسیر ابن کثیر )
احد کی لڑائی میں عین اس وقت جب کہ قتل و خون کا معرکہ گرم تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لی اور فرمایا کون اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لے گا۔ حضرت ابو دجانہ سامنے آئے اور پوچھا : یا رسول اللہ! اس تلوار کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس سے دشمنوں کو مارو یہاں تک کہ اس کو ٹیڑھا کردو۔ حضرت ابو دجانہ نے کہا کہ میں اس کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تلوار عنایت فرمادی۔ حضرت ابو دجانہ اس تلوار کو لے کر اکڑ تے ہوئے میدان میں کود پڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی چال خدا کو پسند نہیں سوائے ایسے موقعوں کے۔ پھر کیا تھا وہ انتہائی بہادری کے ساتھ لڑنے لگے، جو بھی ان کے سامنے آتا، وہ ان کی تلوار کا نشانہ بن جاتا۔ اسی درمیان اچانک کیا ہوتا ہے کہ ان کی نظر ایک شخص پر پڑتی ہے جو لوگوں کو جنگ پر ابھار رہا تھا۔ وہ اس کی طرف لپکے اور اپنی تلوار اس کے سر پر اٹھا لی، اتنے میں وہ چیخا یَا وَیْلَاہ۔ تو حضرت ابودجانہ کو محسوس ہوا کہ یہ کوئی عورت (ہند بن عتبہ زوجہ ابو سفیان ) ہے۔ یہ ذہن میںآ تے ہی انھوں نے تلوار ہٹا لی۔ جذبات پر قابو پانے اور انتہائی جذباتی حالات میں بھی نفسانی فیصلہ نہ کرنے کی یہ عمدہ ترین مثال ہے۔ (سیرت ابن ہشام ، ۶۸:۲)
دنیا سے بیزاری اور آخرت سے محبت صحابہٴ کرام میں اس قدر پیوست تھی کہ وہ دنیا کے مال و اسباب کو اللہ کے راستے میں بے خطر لٹا دیا کرتے تھے اور یہ پورا پورا اثاثہ اللہ کے راستے میں دینا ان کے نزدیک معمولی چیز تھی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں ارشاد ہوا ہے کہ جو شخص اللہ کو قرضِ حسن دے گا، اللہ تعالی اس کے اجر کو بڑھادیں گے۔ حضرت ابو دحداح انصاری نے عرض کیا : کیا اللہ واقعی ہم سے قرض چاہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! اپنا ہاتھ لایئے ۔ آپ نے ہاتھ دیا، تو انھوں نے عرض کیا: میں اپنے باغ کو اللہ کو قرض دیا۔ ان کے باغ میں چھ سو کھجور کے درخت تھے۔ پھر اپنے باغ میں آئے اور اپنی بیوی کو بتایا کہ میں نے اللہ کو اپنا باغ قرض دے دیا ہے۔ ان کی بیوی نے کہا کہ آپ کی تجارت سود مند رہی؛ چناں چہ انھوں نے اپنا سامان وہاں سے خالی کردیا۔ (تفسیر ابن کثیر)
جنگ یرموک میں حضرات صحابہ کا جذبہٴ ایثار و ہمدردی بھی ایک مشہور واقعہ ہے جس میں میدان جنگ میں جان بلب ایک صحابی کو پانی پیش کیا جاتا ہے، اتنے میں انھیں قریب سے کراہنے کی آواز آتی ہے، وہ انھیں پانی پیش کرنے کو کہتے ہیں۔ پانی پلانے والا ان کے پاس پہنچتا ہے کہ انھیں بھی کسی کے کراہنے کی آواز آتی ہے وہ بھی پہلے انھیں پانی پلانے کو کہتے ہیں۔ جب پانی پلانے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تب تک ان کی سانس بند ہوچکی ہوتی ہے اور جب لوٹ کر پچھلے صحابہ کے پاس پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بھی روح قبض ہوگئی۔
حضراتِ صحابہ کی زندگی ایسے واقعات سے لبریز ہے ، جس میں ہمیں نہایت اعلی درجہ کے اخلاقی نمونے ملیں گے۔ اسلام نے اخلاقی تعلیمات کا ایسا جامع نظامِ عمل مرتب کیا اور صحابہ نے اس کو اپنی زندگی میں اس طرح نافذ کیا کہ جس نے انسانی معاشرے میں اخلاقی قدروں میں انقلاب برپا کردیا۔ اسلام کی یہی اخلاقی تعلیمات بعد کے زمانے میں بھی اسلام کی اشاعت میں زبردست طورپر موٴثر ہوئیں۔ کتنے ہی ممالک اور علاقے ایسے ہیں جہاں کسی مسلم فوج کشی کی کوئی تاریخ نہیں؛ مگر پورا کا پورا علاقہ اسلام کے نام لیواوٴں سے بھرا ہوا ہے۔ آج دنیا میں سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک انڈونیشیا اور ملیشیا میں اسلام کے نام لیواوٴں کا وجود ،نیز یورپ، امریکہ و آسٹریلیا وغیرہ میں اسلام کی روز بروز ترقی در اصل اسلام کی انقلابی اخلاقی تعلیمات کا ہی کرشمہ ہے ۔ اسلام کے نظامِ اخلاق کے بدولت کتنے دلوں کی کایا پلٹی اور کتنے ہی علاقوں میں اسلام کا بول بالا ہوا؛ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں جو چند ظاہری اسباب ہیں، ان میں اسلام کا نظامِ اخلاق ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔
———————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9 ، جلد: 99 ، ذی قعدہ 1436 ہجری مطابق ستمبر 2015ء