از: مفتی جعفر حسین قاسمی
مہتمم سعودیہ نسوان چامراج نگر کرناٹک
اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے جس میں رواں دواں متحرک اورتغیر پذیر ز ندگی کے تمام شعبوں اور گوشوں کے لیے بدرجہٴ اتم رہبری ورہنمائی موجود ہے،اور اسلام ایک ایسا دستورِ حیات ہے جس میں ولادت سے وفات تک کے تمام پیش آمدہ مسائل کا حل موجود ہے،لہٰذا ہم فرزندانِ اسلام کو کسی بے بنیاد مذہب اورگمراہ دین سے یاکسی باطل قدیم وجدید تہذیب وکلچر سے کچھ سیکھنے اور لینے کی بالکل ضرورت نہیں ہے،کتاب وسنت ہی ہمارے لیے کافی وشافی ہیں ۔
لیکن افسوس وصدافسوس کہ آ ج امت کا ایک بڑا طبقہ اغیار(کفار ومشرکین اور یہود ونصاری) کے طور وطریق کاشوقین وشیدائی ہے؛ بلکہ ان کو اپنافخر محسوس کرتا ہے،من جملہ ان کے ”یوم ولادت “ منانا، عیسوی سال کی آمد پر ”نیا سال مبارک “کہنا، اور اس کے پیغامات ترسیل کرنا، ” اپریل فول“ منانااوریوم عاشقاں منانا وغیرہ۔
یہ سب رسومات غیر اسلامی ہیں،اورنیزعقل ودانش کی ترازوں میں بھی یہ باوزن نہیں ہیں۔مناسب ہوگا کہ عقل کی کسوٹی پر ان کا تھوڑاساحقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے ۔
رسوم کاجائزہ
(۱) ”یوم ولادت “ کوئی خوشی کی تقریب سجانے کا موقع نہیں ہے؛ بلکہ فکر کرنے کا مقام ہے کہ محدود زندگی کا ایک سال کم ہوگیا۔
(۲)عیسوی سال کی آمد پر ”نیا سال مبارک “کہنا؛ بلکہ اسے شب عید کی طرح منانا، ازروئے عقل وفہم درست نہیں کہ اس سے دنیا کی عمرکاایک سال کم ہوجاتاہے،اور دنیا قیامت کے قریب ہوجاتی ہے،اور سال نوکیا؛ بلکہ سمجھا جائے تو ہر لمحہ نیا ہے ،پھر سال نو منانے کا کیا مطلب؟ آج کل تو اس میں حد درجہ غلو کیا جارہا ہے، رات کے بارہ بجنے کا رقص وشراب ، ناچ وگانے اور ہیجان انگیز موسیقی سے انتظارکیا جاتاہے،اور بارہ بجنے پر آتش بازی کی جاتی ہے،اور غبارے پھوڑے جاتے ہیں، وغیرہ۔
(۳)اپریل فول یہ تو جھوٹ،دھوکہ ،فریب اوراذیت وایذارسانی کاپلندہ ہے، تعجب ہے ان لوگوں کی عقل پر جو اسے تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
(۴)یوم عاشقاں ا س میں بے حجابی ،بے غیرتی ا وربے حیائی سے نوجوان لڑکے اور لڑکی کا ملنا،اوسرخ گلاب کا تحفہ وہدیہ پیش کرناہوتاہے،کیا یہ دعوتِ زنا نہیں ہے ؟
ان رسوما ت میں خلق کی افادیت اور منفعت کابھی کوئی پہلو نہیں ہے۔
دورنگی چھوڑدے
اور اللہ تعالی نے اس چیزکوبھی نا پسند فرمایا کہ کوئی دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوتے ہوئے بھی یہودیت کی بعض چیزوں پرعمل کرے،جیسا کہ کتب تفاسیر میں ہے ، حضرت عبداللہ بن سلام (جو قبول اسلام سے قبل یہودیوں کے زبردست عالم تھے) اورآپ کے بعض (یہودی)ساتھی اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی یوم السبت(ہفتہ کے دن) کی تعظیم کرتے تھے،اور اونٹ کے گوشت اور اس کے دودھ کو مکروہ گردانتے تھے،انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یَارَسُوْلَ اللہِ اِنَّ التَّوْرَاةَ کِتَابُ اللہِ، فَدَعْنَا فَلْنَقُمْ بِھَا فِیْ صَلَاتِنَا بِاللَّیْلِ، یا رسول اللہ! ہمیں اجازت دیں کہ ہم (احکامات اسلام کے ساتھ ساتھ)قیام لیل (تہجد)میں تورات کی تلاوت کریں کہ وہ بھی تو کتاب اللہ ہے۔ اس پر قرآن پاک کی اِس آیت کا نزول ہوا۔
یٰاَایُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّةً وَلَاتَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ، اِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِیْن․(البقرہ:۲۰۸)
ترجمہ: اے ایمان والو!اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاوٴ،اورشیطان کے نقش قدم ہر نہ چلو،یقین جانو وہ تمہارا کھلادشمن ہے۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں مکمل وسراپا داخل ہوجاوٴ،تمہارے لیے احکامات اسلام ہی کافی وشافی ہیں، اب تمہیں کسی اور شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے،سابق مذہب کی بعض باتوں پر عمل کا خیال شیطانی کارستانی ہے؛اس لیے یہ خیال دل سے نکال دو،اور سابق مذہب کی بعض باتوں پر عمل کرنے سے ان کی مشابہت ہوجائے گی جو مذموم ہے۔ (البغوی:۱/۲۴۰)
خضاب میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت
(۱)یہود ونصاری بالوں میں خضاب نہیں لگاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت میں خضاب کاحکم دیا،جیساکہ کتب احادیث میں ہے،حضرت ابوہریرہ راوی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اِنَّ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَی لَایَصْبَغُوْنَ فَخَالِفُوْھُمْ(۱) بیشک یہود ونصاری خضاب نہیں لگاتے ہیں، لہٰذا تم ان کی مخالفت کیا کرو، یعنی خضا ب لگایا کرو، کسی بھی رنگ کے خضاب کا استعمال سیاہ رنگ کے علاوہ درست ہے کہ سیاہ رنگ کی ممانعت دیگر احادیث میں آئی ہے۔
طریقہ سلام میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت
(۲) یہود انگلیوں کے اشارہ سے اور نصاریٰ ہتھیلیوں کے اشارہ سے سلام کرتے تھے، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کاحکم دیا،جیساکہ کتبِ احادیث میں ہے،حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص راوی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لَاتَشَبَّھُوْا بِالْیَھُوْدِ وَلَا بِالنَّصَارَی، فَاِنَّ تَسْلِیْمَ الْیَھُوْدِ الِاشَارَةُ بِاْلَاصَابِعِ، وَتَسْلِیْمَ النَّصَارَی اِلاشَارَةُ بِالْاَکُفِّ․(۲)
ترجمہ: یہود کی مشابہت نہ کرو اور نہ نصاری کی مشابہت کرو، یہود کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاری کا سلام ہتھیلی کا اشارہ ہے۔
یعنی زبان سے کلمات سلام اداکیے بغیر صرف انگلیوں سے اور ہتھیلی سے اشارہ کرنا،یہود ونصاریٰ کے سلام کا طریقہ ہے ، ہاں اگر کوئی دو رفاصلے پر ہوتوزبان سے کلمات سلام ادا کرتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کردے تو کوئی مضایقہ نہیں ہے۔
سحری سے امتیاز
(۳) اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) کے روزوں میں سحری نہیں تھی،اور ہمیں سحری کا حکم ہے اور ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے اور ہمارے روزوں میں فرق وامتیاز سحری ہے۔ جیساکہ کتب احادیث میں ہے،حضرت عمر وبن العاص راوی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
فَصْلُ مَابَیْنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ اَھْلِ الْکِتَابِ اَکْلَةُ السِّحْرِ․(۳)
ہمارے روزوں اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق سحری کھانا ہے ، یعنی شریعت نے ہمارے روزں کو بھی ان سے ممتاز وجداگانہ رکھا ہے ۔
عجلت افطار کے ذریعہ یہود ونصاریٰ کی مخالفت
(۴) اہل کتاب افطار میں تاخیر کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ یہ اہل کتاب(یہود ونصاریٰ) کا طریقہ ہے۔
لَایَزَالُ الدِّیْنُ ظَاھِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ، لِاَنَّ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَی یُوَٴخِّرُوْنَ(۴)
دین ہمیشہ غالب رہے گا؛ جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کریں گے،بیشک یہود ونصاریٰ افطار میں تاخیر کرتے ہیں۔
یہ یہودیت کاشیوہ ہے
(۵)ابتدا ء میں باجماعت نماز کے لیے مسلمانوں کو جمع کرنے کا کوئی خاص طریقہ مقررنہ تھا، مسلمان ازخود وقت کااندازہ کر کے جمع ہوجاتے تھے ،پھرآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا کَیْفَ یُجْمَعُ النَّاسُ لِلصَّلاَةِ؟کہ لوگوں کو نماز کے لیے کیسے جمع کیا جائے؟کسی نے مشورہ دیا کہ ناقوس بجا یا جائے،آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورہ کو رد کرتے ہو ئے فرمایا ، ھُوَ مِنْ اَمْرِ النَّصَارَی کہ یہ نصاری کاطریقہ ہے،اور کسی نے یہ رائے پیش کی کہ”بوق“ نرسنگھا پھونکا جائے، اسے بھی رد کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریا، ھُوَ مِنْ اَمْرِ الْیَھُوْدِ کہ یہ یہود کا طرز ہے،اور کسی نے کہا کہ آ گ جلائی جا ئے، مجوس کا طریقہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی رد کردیا۔ پھرجب عبد اللہ بن زید نے( اور دیگر بعض صحابہ نے) اذان والا خواب دیکھا،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسنایاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کو سچا اور منجانب اللہ قرار دیا اوراس کے مطابق اذان کوجاری فرمایا۔(۵)
صوم عاشوراء میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت
(۶)اور جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہواکہ یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم یہ روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ تو انھوں نے جواب دیا،یہ ہمار ا بہترین اور مبارک دن ہے ، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کوفرعون کے ظلم سے بچایا اور فرعون اور اس کی قوم کو اسی دن بحرِقلزم میں غرقاب کیا تھا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نَحْنُ اَحَقُّ بِمُوْسٰی مِنْکُمْ ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں ۔
اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے عاشورا ء کے روزہ کا وجوبی یاتاکیدی حکم دیا ۔پھر جب اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کی عیاری ومکاری اور ان کی اسلامی عداوت ظاہر ہوگئی تو صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، اِنَّہُ یَوْمٌ یُعَظِّمُہُ الْیَھُوْدُ،یارسول اللہ! یہ وہ دن ہے کہ جس کی تعظیم و تکریم یہود (بھی) کرتے ہیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فَاِذَا کَانَ الَعَامُ الْمُقْبِلْ اِنْشَاء اللہُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِع․(۶)
”انشا ء اللہ اگر میں آئند ہ سال زندہ رہا تو(دسویں کے ساتھ) نویں کا بھی روزہ رکھوں گا“، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم عاشورا ء میں ان سے یگانگت اور یکسانیت کی روش بدل دی؛مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر نے وفانہ کی اورآ پ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال ماہ محرم کے آنے سے پہلے ہی ۱۲/ ربیع الاول ۱۱ھ کو ملا ء اعلیٰ سے جاملے، اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنِ۔
یہود ونصاریٰ کی مخالفت میں ہفتہ اور اتوار کو روزہ
(۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخالفتِ اہل کتاب میں شنبہ اور یکشنبہ(یعنی ہفتہ اور اتوار) کا روزہ رکھا کرتے تھے؛ جیسا کہ کتب احادیث میں ہے، حضرت ام سلمی فرماتی ہیں:
کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَصُوْمُ یَوْمَ السَّبْتِ وَ یَوْمَ الْاَحَدِ اَکْثَرَ مِمَّا یَصُوْمُ مِنَ اْلاَیَّامِ، وَیَقُوْلُ: اِنَّھُمَا عِیْدَا الْمُشْرِکِیْنَ، فَاَنَا اُحِبُّ اَنْ اُخَالِفَھُمْ․(۷)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنوں میں اکثر شنبہ اور یکشنبہ کو روزہ رکھا کرتے ،اور فرماتے کہ یہ دونوں دن مشرکوں کے عید کے ہیں،مجھے پسند ہے کہ میں ان کی مخالفت کروں۔ یعنی شنبہ یہود کی عید کادن اور یکشنبہ نصاری کی عید کادن ہے اور ظاہر ہے کہ عید کے دن وہ کسی بھی حال میں روزہ نہ رکھیں گے، اور ان دنوں میں روزہ رکھنے سے مخالفتِ اہل کتاب ظاہر ہوتی ہے،اور اسی کا اظہارمطلوب و مقصودہے۔
نصاریٰ کی مخالفت میں صوم وصال کی ممانعت
(۸) حضرت لیلیٰ فرماتی ہیں: اَرَدتُّ اَنْ اَصُوْمَ یَوْمَیْنِ مُوَاصَلَةً کہ میں نے ارادہ کیا کہ (بغیر سحری کے)مسلسل دو دن روزہ رکھوں، میرے شوہر بشیر نے مجھے منع کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے : یَفْعَلُ ذَالِکَ النَّصَارَی،(۸)کہ نصاریٰ اس طرح کرتے ہیں،یعنی وہ بغیر سحری کے مسلسل روزے رکھتے ہیں؛اس لیے ہمیں یہ عمل نہیں کرناہے۔
یہود ونصاریٰ کے برخلاف اسلام میں عورت اچھوت نہیں ہے
(۹)اہل کتاب عورت کوحالتِ حیض میں بالکل اچھوت سمجھتے تھے، قربت ومجامعت سے اجتناب واحترازکے ساتھ ساتھ، نہ کھاتے پیتے نہ اٹھتے بیٹھتے اورنہ بات چیت کرتے؛بلکہ اسے خود سے بالکل الگ کردیتے تھے،اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِصْنَعُوْا کُلَّ شَیْءٍ اِلَّا النِّکَاحْ،ہم بستری ومجامعت تو ممنوع ہے، اس کے علاوہ تناول طعام، نشست و برخواست،گفتار وتکلم؛ بلکہ ساتھ لیٹنے کی بھی اجازت ہے، یعنی اہل کتاب کی طرح ہمیں مبالغہ آمیزرویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے،اس طرح اس معاملہ میں بھی ان سے ہماری جداگانہ شناخت رکھی گئی۔
اور جب اہل کتاب کو اس جدا گانہ طرز کی اوران کی محالفت کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے کہا، مَا یُرِیْدُ ھٰذَ الرَّجُلُ اَنْ یَّدَعَنَا مِنْ اَمْرِنَا شَےْئاً اِلاَّ خَالَفْنَا فِیْہِ،(۹)لگتاہے کہ اس آدمی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہمارے ہر امر کی مخالفت کا ارادہ کرلیا ہے۔
قبرستان میں مخالفت
(۱۰)ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنازہ کے ساتھ چلتے تو جب تک میت کو قبر میں نہ رکھاجاتا بیٹھتے نہ تھے،اس پر ایک یہودی عالم نے کہا: ھٰکَذَا نَصْنَعُ یَا مُحَمَّدْ،اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہم بھی اسی طرح کرتے ہیں،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے، اورفرمایا: خَالِفُوھُم،(۱۰)کہ ان کی مخالفت کرو!یعنی یہودکہ وہ جنازہ کے ساتھ بیٹھتے ہی نہیں ہیں، ان کی مخالفت اس طرح کرو کہ جب تک جنازہ گردنوں سے نیچے نہ رکھا جائے، نہ بیٹھو،پھر جب جنازہ گردنوں سے نیچے رکھ دیا جائے تو بیٹھ سکتے ہو۔
کتب احادیث میں موجود متعدد مثالوں میں سے میں نے آ پ کے سامنے دس مثالوں کو رکھا ہے،جن سے روزروشن کی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل کتاب (یہود ونصاری) کا اور ہمارا راستہ الگ الگ ہے،ان کی اور ہماری شناخت جدا جدا ہے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادات ہو یامعاشرت ہر جگہ ہمیں ان کی راہ و روش سے بچنے اوران کی مشابہت سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، مَنْ َتشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ(۱۱) جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا تو وہ انھیں میں سے شمارہوگا۔
کتنی سخت بات ہے ، کتنی بڑی وعید ہے اور کس قدر اظہارِ ناراضگی ہے، العیاذ باللہ! اگر کوئی مومن ومسلمان کفار یایہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار کرے گا، عبادات میں ہو یا معاشرت میں، عادات و اطوار میں ہو یا ظاہری ہیئت وانداز میں ہو،ان کے مخصوص اعمال اور رسوم ورواج کو اپنائے گا تواس کا شمار بھی انھیں میں ہوگا۔
اور ایک روایت میں ہے، لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا، یعنی جو غیروں کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
ایک طرف یہ شرعی ہدایات ہیں، جن میں اغیا ر کی مشابہت اور مماثلت پر سخت زجر وتوبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ کی گئی ہے،اور دوسری طرف ہمارے سامنے امت کا ایک بڑا طبقہ ہے جو بے باکی کے ساتھ اغیار کے طوروطریق کو فخریہ اپنا رہا ہے،اوراس پر نازاں بھی ہے۔
افسوس کہ احساس زیاں جاتا رہا
للہ اپنا جأیزہ لیں،اوراپنا محاسبہ کریں،ہمیں تو کامل دین وشریعت سے نوازاگیاہے، ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بطور نمونہ واسوہ دی گئی ہے،اور ہمیں سنتوں کے خزانے دیے گئے ہیں ، پھر بھی آج ہمارے گھرانوں میں اغیار کے اطوار کافروغ کیوں ہے؟ ہمارے نوجوانوں کا لباس اوران کے بال اُن جیسے کیوں ہیں؟شادی بیاہ اُن جیسے کیوں ہیں؟اورزندگی میں طرز وانداز اُن جیسے کیوں ہیں؟اورآج کیوں فرزندان اسلام ان کے رنگ ڈھنگ میں رنگنے اور انکی مشابہت اختیار کرنے کے لیے بیتاب ومشتاق ہیں؟
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں محض اپنے فضل واحسان سے اغیار کے فتنہ سے محفوظ رکھے،آمین!
$ $ $
حواشی:
(۱) البخاری (۵۵۵۹)
(۲)الترمذی (۲۶۹۵)
(۳)مسلم (۱۰۹۶)
(۴)سنن ابو داود ( ۲۰۶۳)
(۵)ملاحظہ ہو سنن ابوداود(۴۹۸)
(۶)مسلم (۱۱۳۴)
(۷)المسند (۲۶۷۹۳)
(۸)المسند (۱۱۵۲)
(۹)مسلم :(۳۰۲)
(۱۰) الترمذی (۱۰۲۰)
(۱۱)سنن ابوداود (۴۰۳۳)
————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد: 99 ، جمادی الاولی 1436 ہجری مطابق مارچ 2015ء