از: مولانا ندیم احمد انصاری ایم اے      

مہتمم مدرسہ نور محمدی، ممبئی              

لفظی اعتبارسے ہر اس دن کو عید کہتے ہیں جس میں کسی بڑے آدمی یا کسی بڑے واقعہ کی یاد منائی جائے۔ بعض نے کہا کہ عید کو عید؛ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے۔ (المنجد: ۶۹۰، معجم الوسیط:۶۳۵) ”عید“ کو عید کہنا ایک طرح کی نیک فالی اور اس تمنّا کا اظہار ہے کہ یہ روزِ مسرّت بار بار آئے۔(قاموس الفقہ:۴/۴۱۹)

ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح تاریخ

تمام موٴرخین اور اصحابِ سیر کا اس پر تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادتِ با سعادت پیر کے دن ہوئی؛البتہ تاریخ میں شدید اختلاف ہے۔۲،۸،۹،۱۰،اور ۱۲ تاریخیں بیان کی گئی ہیں اور وفات کے سلسلے میں ۲/ربیع الاول کو جب کہ ولادت کے سلسلے میں ۱۲/ربیع الاول کو ترجیح دی گئی۔

یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

یومِ ولادت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا جنم دن ،جسے تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا؛اس لیے کہ اس مبارک دن میں رحمةللعالمین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے۔اگرچہ شریعت نے سالانہ آقا کے یومِ ولادت کو”منانے“ کا حکم نہیں دیا نہ اسے عید ہی قرار دیا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے؛لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن آیا تھا ،وہ نہایت ہی متبرک اور پیارا دن تھا۔آج جو لوگ اس دن کو ”عید“ کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ اصلاً رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کرتے ہیں،اس لیے کہ خود ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے :

اللہ تعالیٰ نے دیگر قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے عید کے دو دن مقرّر کیے ہیں: (۱)عید الفطر اور (۲) عید الاضحی۔یہ ارشاد اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا جب کہ آپ نے اہلِ مدینہ کو دوسرے دنوں میں زمانہٴ جاہلیت کے طرز پر عید و خوشی مناتے دیکھا۔(ابوداود: ۱۳۳۴، نسائی: ۱۵۵۷) اس سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کے لیے سالانہ صرف دو دنوں کو عید کے طورپر مقرر فرمایا،ان کے علاوہ بعض روایتوں میں جمعہ کے دن کو بھی عید کہا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کے متعلق عید کا لفظ وارد نہیں ہوا۔اب اگر کوئی اس پر زیادتی کرکے اپنی طرف سے مزید ایک دن بڑھاتا اور اس میں عید جیسی خوشیاں مناتا ہے،تو وہ گویا رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ارشادِ عالی پر عدم رضامندی کا اظہار کرتا ہے،اور جو اسے دین کا حصہ سمجھتا ہے،وہ اپنی طرف سے نیا دین تراشتا ہے اور یہ دونوں ہی طریقہٴ عمل نہایت خطرناک ہیں۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ابتداء

فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی فرماتے ہیں:

یہ مروجہ مجلسِ میلاد قرآن ِکریم سے ثابت ہے نہ حدیث شریف سے،نہ خلفاءِ راشدین و دیگر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے نہ تابعین و ائمہ مجتہدین؛امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی،امام احمد وغیرہ سے ،نہ محدثین ؛امام بخاری،امام مسلم،امام ابو داود،امام ترمذی،امام نسائی اور امام ا بن ماجہ وغیرہ سے اورنہ اولیاءِ کاملین؛ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری،خواجہ بہاء الدین نقشبندی اور شیخ عارف شہاب الدین سہروردی وغیرہ سے۔چھ صدیاں اس امت پر اس طرح گزر گئیں کہ اس مجلس کاکہیں وجود نہیں تھا۔سب سے پہلے بادشاہ اربل نے شاہانہ انتظام سے اس کو منعقد کیا اور اس پر بہت مال خرچ کیا،پھر اس کی حرص و اتباع میں وزراء وامراء نے اپنے اپنے انتظام سے مجالس منعقد کیں،اس کی تفصیل ”تاریخ ابن خلکان “ میں موجود ہے۔

اسی وقت سے علماءِ حق نے اس کی تردید بھی لکھی ہے؛چنانچہ ”کتاب المدخل“میں علامہ ابن الحجاج نے بتیس صفحات میں اس کے قبائح و مفاسد دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں لکھے ہیں۔ ۷۳۷ھ میں اس کی تصنیف سے فراغت حاصل ہوئی،پھر جہاں یہ مجلس پہنچتی گئی ،وہاں کے علماء تردید فرماتے رہے؛چنانچہ عربی،فارسی اور اردو صلی اللہ علیہ وسلم ہر زبان میں اس کی تردید موجود ہے اور آج تک تردید کی جا رہی ہے۔(فتاوی محمودیہ جدید:۳/۲۱۴-۲۱۳بتغیر)

بریلوی عالم کا اعتراف

بریلوی حضرات کے ایک عالم قاضی فضل احمد صاحب لکھتے ہیں:”یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اس مخصوص شکل سے یہ عملِ خیر و برکت و نعمت ۶۰۴ھ سے جاری ہے“۔(مروجہ محفلِ میلاد:۵۲ ملخصاً)

عیدِ میلاد کا حکم

اس سے بعض لوگ اس غلط بات کی طرف چلے جاتے ہیں، گویا کہ ہم ذکر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کو منع کرتے ہیں۔ نعوذ باللہ ! ثم نعوذ باللہ! نفسِ ذکر میلاد فخرعالم علیہ السلام کو کوئی منع نہیں کرتا؛بلکہ ذکرِ ولادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل ذکر دیگر سیر و حالات کے مندوب ہے۔(البراہین القاطعةعلی ظلام انوار الساطعة:۱۴)لیکن اس زمانہ میں مجالسِ میلاد بہت سے منکرات وممنوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ممنوع ہے۔(فتاویٰ محمودیہ:۳/۱۸۱جدید محقق)بالفاظِ دگرمیلاد ِ مروجہ وقیام مروج جو امور ِ محدثہ ، ممنوعہ کو مشتمل ہے ، ناجائز اور بدعت ہے۔(عزیز الفتاویٰ:۱۲۲،زکریا بکڈپو ، دیوبند)

یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  یقینا باعث ِ خوشی اور اظہارِ مسرت کا سبب ہے؛لیکن اس تاریخ میں ہر سال اگر یہ دن ”منانے“ کا ہوتا، تو اس کے متعلق احکامات و ہدایات شریعتِ مطہرہ میں کثرت سے وارد ہوتیں۔یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ یہ دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام کے سامنے بھی تھا ،تو جب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام نے اس خوشی کا اظہار مروجہ طریقہ پر نہیں کیااور” عید ِمیلاد“نہیں منایا،تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت میں اظہارِ خوشی کا یہ طریقہ درست نہیں،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہٴ کرام  اس پر عمل کرکے اس کا جواز ضرور بتلاتے۔یہی ایک دلیل مروجہ میلاد کے غیر درست ہونے کے لیے کافی ہے۔

 ارشادِ ربّانی ہے:﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾۔(سورة المائدة:۳)آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل و مکمل کر دیا(اب اس میں کسی طرح کمی بیشی کی گنجائش نہ رہی)اور تم پر اپنا انعام مکمل کر دیااور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا۔

نیز ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے ،جو دین میں سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔(بخاری:۲۶۹۷،مسلم:۶۷۱۸)

ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

تم میری سنّت کو لازم پکڑو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو،اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو؛کیوں کہ دین میں پیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(ابو داود: ۴۶۰۷، ترمذی: ۲۶۷۸، ابن ماجہ:۴۲)

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بس یہی حق امت پر ہے کہ سارے سال میں صرف ایک دن اور وہ بھی صرف تماشہ کے طور پر ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک جھوٹے سچے رسالوں سے پڑھ دیا اور پھر سال بھر کے لیے فارغ ہو کر آئندہ بارہ وفات اور عیدِمیلاد کے منتظر ہوکر بیٹھ گئے۔افسوس !مسلمانوں کا فرض تو یہ ہے کہ کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ مبارک سے خالی نہ جائے؛البتہ یہ ضروری نہیں کہ فقط ولادت کا ہی ذکر ہو؛بلکہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا،کبھی آپ کے روزے کا،کبھی جہاد کا،اور کبھی آپ کے اخلاق و اعمال کا،جو کہ سب سے زیادہ اہم ہیں۔کبھی ولادتِ با سعادت کا بھی ہو کہ یہ بھی باعثِ خیر و برکت ہے۔(جواہر الفقہ:۴/۹۱،امداد المفتیین:۱۶۳)

محبت کی علامت بھی یہی ہے کہ محبوب کی ہر بات کا ذکر ہو،ولادتِ شریفہ کا بھی،سخاوت اور عبادت کا بھی۔اس میں کسی مہینہ اور تاریخ اور مقام کی کوئی تخصیص نہیں؛بلکہ دوسرے وظیفوں کی طرح روزمرہ اس کا وظیفہ ہونا چاہیے۔یہ نہیں کہ سال بھر میں مقررہ تاریخ پر یومِ میلاد منا لیا جائے اور اس کے بعد کچھ نہیں؛حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک تو غذا ہے،ہر وقت ہونا چاہیے،اس میں وقت کی تخصیص کی کیا ضرورت؟(الفضائل والاحکام :۱۱۱،امداد الفتاویٰ:۱/۱۸۷)

اس پوری تفصیل سے واضح ہو گیا کہ محفلِ میلاد میں کوئی تاریخ معین اور ضروری نہ سمجھی جائے، شیرینی کو ضروری نہ سمجھا جائے، ضرورت سے زیادہ روشنی نہ کی جائے، غلط روایات نہ پڑھی جائیں،نظم پڑھنے والے بے ریش نہ ہوں،اور گانے کی طرح نہ پڑھیں،اسی طرح دوسری بدعات سے خالی ہو، تو مضائقہ نہیں۔(امداد الفتاویٰ:۵/۲۴۹ ، و نظام الفتاویٰ ، حصہ دوم : ۱/۱۶۵، اعتقاد پبلشنگ ہاوٴس ، دیوبند)

غرض یہ کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک جب کہ ان رسوم و بدعات سے خالی ہو تو ثواب اور افضل ہے،اوراگر مروجہ طریقہ پررسوم وبدعات سے بھرا ہو تو نیکی برباد گناہ لازم ہے۔جیسے کوئی بیت الخلاء میں جاکر قرآن ِکریم کی تلاوت کرنے لگے۔(جامع الفتاویٰ:۲/۵۵۲ ، ربانی بک ڈپو ، دہلی ، فتاوی عثمانی:۱/۱۱۹، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

المختصر !ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی خوشی اور غمی ،ہر حالت میں شریعت کی اتباع کرنا واجب و ضروری ہے اور شریعت میں امرِ مندوب پر اصرار کرنا اور واجب کی طرح اس کا التزام کرنا اتباعِ شیطان ہے۔(عزیزالفتاویٰ:۱۴۲ بتغیر)

’ اہل ِ حدیث ‘ علماء کا موقف

جناب مولانا مفتی ابو محمد عبد الستار صاحب فرماتے ہیں:

ہےئت ِمروجہ کے ساتھ مجلس ِ میلاد کا انعقاد ازروئے کتاب و سنت قطعاً حرام اور بدعت؛ بلکہ داخل فی الشرک ہے؛کیوں کہ اس کا ثبوت نہ تو خود رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے،نہ کسی صحابی  سے،نہ کسی تابعی  سے۔غرض قرونِ ثلاثہ میں اس کا وجود بالکل مفقود ہے،نہ ازمنہٴ ائمہ اربعہ میں اس کا پتہ لگتا ہے؛بلکہ ساتویں صدی میں یہ بدعت بجانب خود ایجاد کی گئی ہے۔(فتاویٰ ستاریہ:۱/۶۴)

جناب مولانا ثناء اللہ امرتسری فرماتے ہیں:

ہم مجلسِ میلاد کو کارِ ثواب نہیں جانتے؛اس لیے کہ زمانہٴ رسالت و خلافت میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔آگے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:مولود کی مجلس ایک مذہبی کام ہے،جس پر ثواب کی امید ہوتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ کسی کام پر ثواب کا بتلانا شرع شریف کا کام ہے؛اس لیے کسی کام پر ثواب کی امید رکھنا،جس پر شرع شریف نے ثواب نہ بتلایا ہو،اس کام کو بدعت بنا دیتا ہے۔مولود کی مجلس بھی اسی قسم سے ہے؛کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کیا؛اس لیے ثواب سمجھ کر تو یقیناًبدعت ہے،رہا محض محبت کی صورت، یہ بھی بدعت ہے؛کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرنا بھی ایک مذہبی حکم ہے،جس پر ثواب کی امید ہے۔پس جس طریق سے شرع شریف نے محبت سکھائی ہے،اس طریق سے ہوگی تو سنّت،ورنہ بدعت۔(فتاویٰ ثنائیہ: ۱/۱۱۹)

مفتیِ اعظم مکہ مکرمہ کا فتویٰ

شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن بازفرماتے ہیں:

مسلمانو کے لیے ۱۲/ربیع الاول کی رات یا کسی اور رات میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی محفل منعقد کرنا جائز نہیں ہے؛بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ کسی اور کی ولادت کی محفل منعقد کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ میلاد کی محفلوں کا تعلق ان بدعات سے ہے،جو دین میں نئی پیدا کر لی گئی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی حیات ِ پاک میں کبھی اپنی محفلِ میلاد کا انعقاد نہیں فرمایا تھا؛حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  دین کے تمام احکام کو بلا کم وکاست ،من وعن پہنچانے والے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مسائلِ شریعت کو بیان فرمانے والے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے محفلِ میلاد نہ خود منائی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔یہی وجہ ہے کہ خلفاءِ راشدین ،حضراتِ صحابہٴ کرام اور تابعین میں سے کسی نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا تھا،الخ۔(مقالات وفتاویٰ:۴۰۶اردو)

اللّٰھم ارنا الحق حقا ًوارزقنا اتباعہ، وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ․

————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1، جلد: 99 ‏، ربیع الاول1436 ہجری مطابق جنوری 2015ء

Related Posts