از: مولانا محمد مجیب الرحمن دیودرگی
استاذِ دارالعلوم حیدرآباد
نام ونسب
نام:عبداللہ ، والد کا نام: ابن مبارک تھا، ان کے والد دراصل ترکی النسل تھے ،۱۱۸ھ میں ان کی پیدائش ہوئی ،اور۱۸۱ھ میں وفات ہوئی، کل عمر ۶۳ سال ہوئی ،مرو میں ان کا قیام کافی بڑے گھر میں تھا۔(البدایہ والنہایہ۱۰/۱۹۱)
توصیفی کلمات
کسی بھی شخصیت کا تعارف اوراس کی اہمیت کا اندازہ قائم کرنے میں اس کے ہم عصروں کے تأثرات کا بڑا دخل ہوتا ہے ، منصف مزاج ہم عصر یا تو شخصیت کے سلسلے میں تعریف و توصیف کرتے ہیں ،یا نقد وجرح کرتے ہیں، سفیان ابن عیینہ مشہور محدث ہیں، انہوں نے ابن مبارک کی کچھ یوں تعریف کی :میں نے ابن مبارک کے حالا ت پر غور کیا ،اور صحابہٴ کرام کے حالات پر غور کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ابن مبارک میں آپ… کی صحبت ومعیت کے علاوہ تمام فضائل موجو د ہیں، صحابہٴ کرام آپ… کی صحبت کی برکت سے اعلیٰ وبلند ہیں۔(البدایہ والنہایہ۱۰/۱۹۱) اسماعیل ابن عیاش فرماتے ہیں:روئے زمین پر ان جیسا کوئی نہیں ، ہر نیکی کو میں نے ابن مبارک میں پایا جو اللہ تعالیٰ نے ان میں ودیعت کر رکھی تھی ، وہ اپنے ساتھیوں کی ضیافت فرماتے؛ حالاں کہ وہ خود روزے سے ہوتے ۔(ایضاً)عطاء بن مسلم نے عبید سے پوچھا کہ کیا تم نے ابن مبارک کو دیکھا ہے ؟تو جواب دیا کہ ہاں دیکھا ہے ، نہ ان جیسا میں نے کسی کو دیکھا اورنہ ہی ان جیسا کوئی ہو سکتا ہے ، مشہور صوفی وبزرگ فضیل بن عیاض ابن مبارک کی تعریف میں یوں گویا ہیں:ان جیسا کوئی ان کا نائب نہ ہوسکا، عبدالرحمن ابن مہدی جو مشہور رُواةِ حدیث میں سے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میں نے ابن مبارک جیسا اس امت کا خیر خواہ نہیں دیکھا ، مشہور موٴرخ ، مفسر قرآن ابن کثیر الدمشقی نے ان اوصاف کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا:ایک جانب ابن ِ مبارک علمِ فقہ کے ماہر ہیں ، تو دوسری جانب علم کے بحرِ بے کراں ہیں،اور ساتھ ہی امت کے لیے بے پناہ مال کو لٹانے والے سخی ہیں، اوراس سے بڑ ھ کر شجاعت وبہادری میں بے مثال مظاہر ہ کرنے والے مجاہد بھی ہیں، ان میں خیر کی کئی خصلتیں جمع کر دی گئیں تھیں۔(البدایہ والنہایہ۱۰/۱۹۱)ابنِ مبارک کی طرز ِزندگی دیکھ کر سفیان ابنِ عیینہ کہتے تھے کہ میری زندگی کا کم از کم ایک سال ابنِ مبارک کی طرح گزر جائے؛ حالانکہ تین دن بھی ایسے نہیں گزرسکتے ۔(ایضاً)
شجاعت و بہادری
ان کے ذاتی اوصاف میں سے یہ اہم ترین خوبی تھی کہ موت سے بے خوف وخطر ہوکر شوقِ شہادت میں میدانِ جہاد کی طرف رواں دواں ہوتے،اوربنفس ِنفیس جہاد میں شریک ہوتے،اور نہایت ہی بہادری کا مظاہر ہ فرماتے ،عموماً علم کی دولت ہاتھ آجانے کے بعد انسان کسل مندی اور سستی کا مظاہرہ کرتا ہے ، اوراگر مال بھی آجائے تو اپنے آپ کو بقیہ تمام چیزوں سے ماوراء شمار کرتا ہے ؛لیکن ابن مبارک کی یہ امتیازی خوبی تھی کہ مال ودولت کے ڈھیر لگے ہوئے ہونے اورعلم جیسی عظیم ترین نعمت ہاتھ آنے کے باوجودوہ میدانِ جنگ سے اپنے آپ کو مستغنی نہیں سمجھتے ، ایک جنگ کا واقعہ لکھا ہے کہ دشمنوں کی صفیں تیار ہو گئیں ، ادھر مسلمان بھی تیا ر ہوگئے ، ایک کافر جوان آگے بڑھا ، اس نے آواز دی آوٴمقابلہ کے لیے ، مسلمانوں کی صف سے ایک جوان اپنے منھ پر کپڑا باندھ کر نکل پڑا ، اوراس کا کام تمام کردیا، ایسے ہی پھر دو کافر نکلے ، جن کا موٴمن شخص نے کا م تمام کردیا، اس کے بعد وہ موٴمن شخص مسلمانوں کے لشکر میں آکر منھ کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ عبداللہ ابن مبارک ہیں۔(صفة الصفوة۲/۳۲۹)یہ ابن مبارک کی بہادری ہی تھی کہ وہ ہمیشہ جہاد کے لیے کمر بستہ رہتے ، اوراس کا اہتمام بھی فرماتے۔
سخاوت
جیسے حاتم طائی کی سخاوت مشہور ہوگئی تھی ، اسی طرح طبقہٴ علماء میں ابن مبارک کی سخاوت لوگوں کے مابین نہایت مشہور ہے، ابن مبارک کی سخاوت کے بے شمار قصے ہیں ، ورنہ بے شمار سخاوت کی ایسی مثالیں ہیں کہ جن کی خبرعام نہ ہوئی ، کئی مقروضین ایسے ہیں کہ جن کے قرضوں کوابن مبارک نے ادا کردیا،اورمقروضین کو اس بات کا بھی پابند بنادیاکہ و ہ کسی سے اس راز کو فاش نہ کرے۔(صفة الصفوة۲/۳۲۸)بلکہ ابن مبارک خود اپنے سلسلہ میں کہتے ہیں: میری تجارت کی غرض ہی علماء وصوفیاء اورمشائخین کی امداد کرناہے ، ایک دفعہ فضیل بن عیاض جو خود مشہور بزرگ ہیں ،ان سے کہنے لگے اگر تم اور تمہارے ساتھی نہ ہوتے تو میں کبھی تجارت نہ کرتا۔(صفة الصفوة۲/۳۲۶)یہی وجہ تھی کہ ابن مبارک اپنی ذات پر مال بہت کم خرچ کیا کرتے،اور ساتھیوں پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی کوشش کرتے ، اسماعیل ابن عیاش نے فرمایاتھا کہ ابن مبارک عجیب وغریب آدمی ہیں ،جو ساتھیوں کی تو ضیافت فرماتے ہیں اورخود روزہ رکھتے ہیں۔ (البدایہ ۱۰/۱۹۲)فقراء پر ہر سال ایک لاکھ درہم خرچ کرتے ، نیز عابد ین وزاہدین پر رأس المال کا نفع خرچ کرتے ۔(ایضاً)حج کازمانہ آتا تو ابن مبارک کے ساتھ حج کے لیے مرو کے لوگ جاتے ،ابن مبارک کہتے کہ تم سب اپنا مال جمع کرو، سب لوگ اپنا اپنا خرچ ابن مبارک کے پاس جمع کردیتے ، اس خرچ کو لے کر ابن مبارک صندوق میں ناموں کے ساتھ محفوظ رکھتے ، اورحج کے لیے چلے جاتے ، مدینہ میں ،مکہ میں حاجیوں کی عمدہ کھانے سے ضیافت فرماتے، ان حاجیوں کے اہل وعیال کے لیے اشیاء خریدواتے ، پھر واپس مرو پہونچتے تو ان سب حاجیوں کی دعوت کرتے ، اس کے بعد ان کی رقم ان حاجیوں کو واپس کردیتے۔(البدایہ ۱۰/۱۹۲)ایک دفعہ حج کے لیے نکلے تو راستہ میں ایک پرندہ مرگیا،آپ نے اسے کوڑے دان میں ڈال دینے کا حکم دیا، اس کے بعد ساتھی آگے نکلے ، ابن مبارک وہیں ٹھہرے ہوئے رہے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ کوڑے دان پر ایک لڑکی آئی ، اور اس مردہ پرندہ کو اٹھاکر اپنے گھر لے گئی ، عبداللہ بن مبارک اس کے پیچھے گئے ، اس کے احوال دریافت کیے ، تو لڑکی نے اپنی بدحالی کا تذکرہ کیا اورکہا کہ چند دنوں سے تو ایسی حالت ہوگئی کہ ہمارے لیے مردار حلال بھی ہوگیا ہے ، ہمارے والد کے پاس جو کچھ ما ل تھا ، لوگو ں نے ظلم کرکے ان سے مال چھین لیا ،اورانھیں قتل بھی کردیا ، ان حالات کے سننے کے بعد ابن مبارک نے خازن کو بلوایا اوراس سے پوچھا کہ نفقہ وخرچ کتناہے ؟خازن نے جواب دیا کہ ایک ہزاردینار، ابن مبارک نے فرمایا : ہمارے مرو تک پہونچنے کے لیے بیس(۲۰) دینار کافی ہیں ، یہ رکھ لو، اوربقیہ رقم اس عورت کو دے دو،خازن نے اسی طرح کیا،اس کے بعد ابن مبارک نے فرمایا : اس سال ہمارے لیے حج کرنے سے زیادہ افضل یہ تعاون کرنا ہے ۔(البدایہ والنہایہ۱۰/۱۹۱)
غور کیجیے !ابن مبارک جیسے جیدعالم ِدین وفقیہ وامامِ وقت نے حج جیسی عظیم عبادت کے بجائے غریب کی امداد کو اہمیت دی، اورمحتاج ومضطر کا تعاون فرمادیا، اورحج کا ارادہ ملتوی فرمادیا، نیز یہ بھی فرمایاکہ ایسے موقع پر جب کہ ہمارے ارد گرد ہمارے پڑوس میں محتاجوں کے گروہ رہتے ہوں، تو ہمیں نفلی حج کے لیے کوشش کرنے کے بجائے ان محتاجوں کی امداد پر توجہ دینا ، ان فقراء کی خبر گیری کرنا ، ان کی ضروریات پوراکرنا زیادہ افضل ہے ، اس واقعہ میں ان مالداروں کے لیے انتہائی عبرت ہے کہ جو لاکھوں روپے نفلی حج وعمروں میں لگانے میں مصروف ہیں ، اوراپنے محتاج پڑوسیوں کی خبرگیری نہیں کرتے ، اپنے غریب رشتہ داروں پرکچھ خرچ نہیں کرتے ، اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ نفلی حج وعمرہ کے بجائے غریبوں کی امداد کرنا زیادہ افضل ہے ، پڑوس میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو سودی قرضوں میں مبتلا ہیں ، کتنے ہی رشتہ دار اور محتاج ایسے ہیں جو ہسپتالوں کے چکر کاٹ رہے ہیں، کئی مریض تو ایسے ہیں جنہیں دوائی کے لیے رقم دستیاب نہیں ہے ، کئی بے بس مریض تو اس حال تک پہنچ گئے ہیں کہ غربت کی وجہ سے امراض کا علاج کرانے سے عاجز ہیں اور موت ہی کے انتظار میں بسرِ مرگ پر پڑے ہوئے ہیں، ویسے میں یہ مالدار ایک سے زائد نفلی حج وعمرہ میں ایک کثیر تعداد میں مال صرف کر رہے ہیں، کیا ان سے روز ِ قیامت باز پرس نہیں ہوگی ؟ کیا انھیں ابنِ مبارک کا یہ طرزِ عمل غرباء کی امداد پر آمادہ نہیں کرتا؟
ابنِ مبارک کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ حضرت حسن فرماتے ہیں:میں خراسان سے بغداد تک آپ کے ساتھ رہا ، کبھی میں نے آپ کو تنہا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔(صفة الصفوة۲/۳۲۴)
حدیث شریف کا اشتغال
مالداری کے باوجود علم کی جانب جھکاوٴ، علم سے لگاوٴ، اہل ِ علم کی قدردانی علم کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا بہت کم ہی لو گوں کے نصیبے میں آتا ہے ، انھیں بانصیب افراد میں ایک ابنِ مبارک ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم ِ حدیث جیسی مبارک شئی سے تعلق و وارفتگی نصیب فرمائی، ابنِ مبارک گھر میں زیادہ رہتے تھے ، لوگوں نے پوچھا کہ کیا تمہیں گھر میں وحشت نہیں ہوتی؟ جواباً کہنے لگے کہ مجھے وحشت کیسے ہوگی کہ میں آپ… کے اقوال کے ساتھ رہا کرتا ہوں۔(صفة الصفوة۲/۳۲۴)ابنِ مبارک کی حالت بیان کرتے ہوئے نعیم ابنِ حماد کہتے ہیں کہ ابنِ مبارک جب کتاب الرقاق پڑھتے تو نہایت آبدیدہ ہوجاتے ، کوئی ان سے اس دوران سوال کرنے یا ان کے قریب جانے کی ہمت نہیں کرتا ۔(صفة الصفوة۲/۳۲۵)
آخرت کا خوف
مال کے ساتھ پہلے تو علم ہی کا اجتماع بہت کم ہوتا ہے ؛مگر جب یہ دونوں جمع ہوجائیں اور ان میں عمل بھی جمع ہوجائے تو نورٌ علیٰ نور کا مصداق ہو جاتا ہے ؛ لیکن ایسا حسین امتزاج ناپید نہیں تو کمیاب ضرور ہے ؛لیکن ابنِ مبارک کی ذات ہی خود مبارک تھی جن میں اللہ تعالیٰ نے یہ تمام تر خوبیاں بیک وقت جمع فرمائی تھیں، عملی زندگی میں وہ انتہائی فعال اور متحرک تھے اور ہر وقت انھیں اپنی آخرت کی فکر دامن گیررہتی؛ چنانچہ ایک دفعہ مکة المکر مہ میں ابنِ مبارک کو زمزم سے لبریزپیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے قبلہ رخ ہو کر یہ حدیث مبارک بیان فرمائی : ”مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہٗ “ (ترجمہ:آپ… نے فرمایا:زمز م کا پانی جس نیت سے پیا جاتا ہے، اس کے لیے کافی ہوتا ہے ) اس کے بعد ابنِ مبارک نے فرمایا : یہ پانی میں قیامت کی پیاس بجھانے کے لیے پیتا ہوں ، اس کے بعد آپ نے نوش فرمایا ۔(ایضاً )
عبادت و قبولیتِ دعا
ابنِ مبارک پر اللہ کا خاص کرم یہ بھی تھا کہ انھیں عبادت وغیرہ کا بھی خاص شوق عنایت فرمایا تھا ، اسی بناء پر راتوں میں ابنِ مبارک کا عجیب و غریب حال ہوا کرتا کہ راتوں میں اتنا زیادہ روتے کہ ان کی داڑھی تر ہو جاتی، حاسدین یہ دیکھ کر کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی بنا پر انھیں ہم پر فضیلت دی ہے۔ (صفة۲/۳۳۰) ابو وہب کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مستجاب الدعوات بھی بنایا تھا ، ایک مرتبہ ایک اندھے شخص پر سے ابنِ مبارک کا گزر ہوا تو اس ا ندھے نے ابنِ مبارک سے سوال کیا کہ آپ میرے لیے دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ میری بینائی لو ٹادے ،ابنِ مبارک نے دعا کردی ، اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی بینائی لوٹادی، ابو وہب کہتے ہیں کہ میں نے خود اس کو دیکھتے ہوئے دیکھا ہے ۔(ایضاً۲/۳۲۹)
حقیقی بادشاہت
حکمراں وہ لوگ نہیں جو جبراً عوا م پر مسلط ہوجائیں اور اپنا حکم نافذ کرنے لگیں؛ بلکہ حکمراں حقیقی معنی میں وہ ہے جنہیں قوم حقیقی معنیٰ میں دل وجان سے چاہنے لگے ، ان کی ہر ہر اداپر مر مٹنے لگے ، ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب ہو ، ان کی اتباع کو اپنے لیے کامیابی کا زینہ سمجھے ، بادشاہوں کے مقابلے بزرگوں کی جو حکومت ہو تی ہے، وہ اس طرح کہ عوام کے دلوں پر وہ راج کرتے ہیں؛ چنانچہ ایک دفعہ ابنِ مبارک رقہ آئے ، لوگ جوتے چپل چھوڑ کر ان کے پیچھے جانے لگے اور غباربہت زیادہ اڑنے لگا ، خلیفہ ہارون رشید کی باندی محل کی کھڑکی سے یہ سب نظارہ کر رہی تھی ، اس باندی نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے جواب دیا : یہ خراسان کے عالمِ دین ہیں ، جو رقہ آئے ہوئے ہیں، لوگ انھیں دیکھنے او رسننے کے لیے جمع ہورہے ہیں، اس باندی نے یہ سن کر کہا کہ ہارون رشید حقیقت میں بادشاہ نہیں ہیں؛بلکہ حقیقتاً بادشاہ تو یہ ہیں؛کیوں کہ ان کے جمع کرنے کے لیے کوئی پولیس و مددگا ر کی کوئی ضرورت نہیں۔ (البدایہ والنہایہ ۱۰/۱۱۵)
اقوال
بزرگوں کے اقوال میں اللہ تعالیٰ نے عجیب وغریب تاثیر رکھی ہے ، بعض بعض دفعہ بزرگوں کا ایک ایک جملہ وہ اثر دکھلاجاتا ہے ، جو اوروں کی کئی تقاریر اور کئی مضامین اثر نہیں دکھلا سکتے ، بعض دفعہ بزرگوں کے ایک ہی جملہ میں سامعین کی زندگی ہی تبدیل ہو جاتی ہے ، ابنِ مبارک کے بھی بے شمار اقوال ایسے ہیں، ایک شخص کو آپ نے نصیحت فرمائی : اپنی قدر پہچانو۔(صفة الصفوة۲/۳۲۹)
ابنِ مبارک فرماتے ہیں : ہم نے علم دنیا کے لیے سیکھا ؛لیکن علم ہی نے ہمیں دنیا چھوڑنا سکھایا۔(صفة الصفوة۲/۳۳۰)
ایک دفعہ ابنِ مبارک نے فرمایا:تم اور تمہارے ساتھی نہ ہوتے تو میں کبھی تجارت نہ کرتا۔ (صفة الصفوة۲/۳۲۶)
ایک دفعہ آپ نے فرمایا :دنیا والے دنیا کی بہترین چیز کھانے سے قبل دنیا چھوڑ کر چلے گئے ، سامعین نے سوال کیا : وہ بہترین چیز کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : اللہ کی معرفت۔ابنِ مبارک فرمایا کرتے :شبہ کا ایک درہم لوٹادینا، لاکھوں درہم صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے ، ایک دفعہ فرمایا: جس شخص میں جہل کی کوئی ایک صفت بھی ہو وہ جاہل ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو اسی بنیاد پر نصیحت کی ہے ، آپ سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ آدمی کون لوگ ہیں؟تو آپ نے جواب دیا :علماء،بادشاہ کون ہیں؟تو جواب دیا : زاہد لوگ بادشاہ ہیں، پھر فرمایا : بیکا ر لو گ وہ ہیں جو دین بیچ کر کھایا کرتے ہیں۔(صفة الصفوة۲/۳۲۶)
الغرض اللہ تعالیٰ نے ابنِ مبارک کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا ، مال ودولت کے ساتھ جود وسخا جیسی اہم نعمت بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو وافر مقدار میں عطا کی تھی، جس کا آپ موقع بموقع استعمال فرمایا کرتے تھے ، نیز اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم وعمل جیسی اہم نعمت سے بھی سرفراز فرمایاتھا ، جس کا آپ نے بخوبی لحاظ کیااور اس کی اشاعت میں بھر پور حصہ لیا ، آپ کا زہد وتقویٰ انتہائی مثالی تھا ، جس پر علماء وصلحا ء․․․․رشک کیا کرتے تھے ، حضرت سفیان ابنِ عیینہ جیسے عالم ِ دین کہتے ہیں کہ میں خود ابنِ مبارک جیسی زندگی گزارنا چاہتا ہوں؛ مگر مجھ سے نہیں ہو سکتا، لہذا آپ کی زندگی میں انسانی طبقات کے لیے بے شمار نمونہ،عبرتیں اور اسباق موجود ہیں، جن سے استفادہ کر کے زندگی گزارنا چاہئے، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین!
——————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 8-9، جلد: 98 ، شوال، ذی قعدہ 1435 ہجری مطابق اگست، ستمبر 2014ء