بہ قلم : مولانا نور عالم خلیل امینی
چیف ایڈیٹر ”الداعی“ عربی و استاذ ادبِ عربی، دارالعلوم دیوبند
یک شنبہ: ۲۲/ذی قعدہ ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۹/ستمبر ۲۰۱۳ء کی صبح کو، کوئی ۱۰:30 بجے ہمارے ہاں ”مئو ناتھ بھنجن“ کے ہمارے مشفق اُستاذ حضرت مولانا نذیراحمد صاحب قاسمی زیدمجدہ کے صاحب زادے مولانا انظرکمال قاسمی اور اُن کے رفیقِ سفر چائے پر مدعو تھے، اُنھوں نے دسترخوان پر بیٹھتے ہوئے بتایا کہ آج شب میں (یعنی شنبہ – یک شنبہ: ۲۱-۲۲/ذی قعدہ مطابق ۲۸-۲۹/ستمبر کی درمیانی شب میں) کوئی ۱۱:30 بجے مولانا اعجاز احمد اعظمی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اچانک اُن کی طبیعت خراب ہوگئی تھی، مئو شہرکے ایک اسپتال میں اُنھیں داخل کیاگیا تھا؛ لیکن وقتِ آخر آچکا تھا، اِس لیے وہ جاں بر نہ ہوسکے۔ ویسے یہ تو معلوم تھا کہ اُن کے گردے خراب ہوگئے ہیں اور وہ ڈایالیسس پر رہتے ہیں؛ لیکن اچانک اُن کے انتقال کی خبر سے بہت صدمہ ہوا، دیرینہ دوست کی موت سے آدمی پر کیا کچھ گزرتی ہے، اُس کا کچھ اندازہ اِس خبرِ روح فرسا کو اچانک سن کے ہوا۔
مرحوم نسبتاً کم عمری ہی میں داغِ مفارقت دے گئے، اُن کی عمر سنہ ہاے ہجری کے اعتبار سے ۶۴ سال اور سنہ ہاے عیسوی کے لحاظ سے ۶۳ سال تھی؛ اِس لیے کہ اُن کی تاریخِ ولادت ۲۸/ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ مطابق ۵/فروری ۱۹۵۱ء ہے۔ وہ عرصے سے بیمار تھے؛ لیکن ہمت وحوصلے کے آدمی تھے؛ اِس لیے ہر حال میں محوِ عمل رہتے تھے۔ جمعہ ۱۴/ذی الحجہ ۱۴۲۴ھ مطابق ۸/جنوری ۲۰۰۴ء کو اُن پر فالج کا حملہ ہوا، اُس وقت سے ہی وہ جسمانی طور پر نڈھال ہوگئے تھے؛ لیکن روحانی طاقت اور فکر ونظر کی توانائی میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی وہ حسبِ سابق علم وعمل کے میدان میں سرگرم رہے؛ البتہ گذشتہ سال اُن کے گردے جب سے خراب ہوگئے تھے، اُنھیں ڈایالیسس کی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ راقم چہار شنبہ: ۲۶/صفر ۱۴۳۴ھ مطابق ۹/جنوری ۲۰۱۳ء تا یک شنبہ ۷/ربیع الاوّل ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۰/جنوری ۲۰۱۳ء شکر کے مرض کے علاج کے سلسلے میں ممبئی کے سفر پر تھا، وہاں معلوم ہوا کہ مرحوم مولانا اعجاز احمد اعظمی بھی کافی دنوں سے یہیں زیر علاج ہیں اور خون کی صفائی کے لیے اُنھیں بار بار معالج کے پاس جانا پڑتا ہے؛ اِس لیے احباب نے سرِدست یہیں اُن کے رکنے کا انتظام کیا ہوا ہے، اِس دوران انھوں نے درس وتدریس کاسلسلہ بھی مجبوراً موقوف کردیاتھا؛ لیکن گذشتہ رمضان ۱۴۳۴ھ سے قدرے اِفاقہ محسوس ہوا اور وہ دوبارہ درس وتدریس کے اپنے مشغلے میں جی جان سے لگ گئے؛ حتی کہ اپنی زندگی کے آخری دن شنبہ: ۲۱/ذی قعدہ مطابق ۲۸/ستمبر کو بھی اُنھوں نے سبق پڑھائے۔ مغرب کی نماز تک وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے، مغرب بعد اچانک اُنھیں کم زوری سی محسوس ہوئی، عشاء کے قریب اُنھیں دومرتبہ قے ہوئی، اِسی کے ساتھ اُن کا بلڈپریشر بہت لوہوگیا، بہ عجلت تمام اُنھیں مئو شہر لے جایا گیا، جہاں علاج کے دوران ہی اُنھوں نے جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ اللہ تعالیٰ بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے!
مرحوم کا نام آتے ہی میرے ذہن میں ایک ذہین، تیز، پھرتیلے، محنتی اور شوخ وبے باک نوجوان طالب کی شبیہ گردش کرنے لگتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے تعلیمی سال ۱۳۸۸-۱۳۸۹ھ میں حضرت الاستاذ مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی (۱۳۴۹ھ/۱۹۳۰-۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ء) کے یہاں صفِ ثانوی میں وہ ہمارے ہم سبق تھے، جس میں عربی زبان کی تحریری وتقریری صلاحیت استوار کی جاتی تھی، اِس کے علاوہ وہ دگر اسباق میں ہمارے ہم سبق نہ تھے؛ کیوں کہ وہ اکثر کتابیں ہمارے درجے سے اوپر کی پڑھتے تھے۔ وہ عمر میں بھی اِسی اعتبار سے راقم سے تقریباً ۳ سال بڑے تھے۔ وہ مذکورہ تعلیمی سال میں ہی دارالعلوم آئے تھے اور راقم اُن سے ایک سال قبل سے زیر تعلیم تھا؛ لیکن اُنھوں نے محنتی اور ذہین طالب علم ہونے کی اپنی پہچان بنالی تھی۔ وہ اساتذہ کے سوالوں کا جواب بڑی جراَت سے و اعتماد سے دیتے تھے۔ اُسی سال چند ماہ بعد جو اسٹرائک طلبہ نے کی، اُس میں اُن کا نام بھی دگر اچھے باصلاحیت اور چنیدہ طلبہ کے ساتھ مُخْرَجْ کی فہرست میں آگیا تھا، گویا رسمی طور پر دارالعلوم سے فراغتِ تعلیمی اُن کے نصیبے میں نہ تھی؛ لیکن دارالعلوم ہی کے حسب ونسب کے ایک دوسرے مدرسہ ”مدرسہ حسینیہ“ محلہ ”چلہ“ امروہہ سے اُنھوں نے ۱۳۹۱ھ/۱۹۷۱ء میں فراغت پائی اور وہاں کے اساتذہ ومشایخ کے ہمیشہ محبوب ومقرب رہے۔ وہ رسمی طور پر قاسمی نہ تھے؛ لیکن اپنے کردار وعمل سے بہت سے رسمی قاسمیوں سے بھی بڑے ”قاسمی“ تھے۔ ان کی ساری علمی وعملی تگ وتاز کی تان قاسمیت ہی پر ٹوٹتی ہے، بلاشبہہ وہ علمائے دیوبند کے طویل وعظیم سلسلةُ الذہب ہی کی ایک کڑی تھے اور دارالعلوم دیوبند کے پیغام اور مسلک ومشرب کے ایک اچھے اور طاقت ور ترجمان بھی۔
مولانا اعجاز احمد اعظمی نے علم وعمل کی دنیا میں بڑی نیک نامی حاصل کی، ملک کے منتخب روزگار علما میں اُن کا بھی نام لیا جاتا تھا۔ علومِ شریعت میں مہارتِ تامہ کے ساتھ ساتھ تدریس وتالیف اور اِحسان وتربیت کی دنیا میں بھی وہ اپنی شناخت رکھتے تھے۔ اُنھوں نے تعلیم وتربیت اور تحریر وتالیف کے ساتھ ساتھ دینی ودعوتی اسفار سے بھری پُری زندگی گزاری اور اِن سارے میدانوں میں اپنا نقشِ دوام چھوڑ گئے۔ وہ ایک صاحبِ نسبت شیخ بھی تھے، اچھے اور بافیض مدرس بھی، مقبول ومحبوب مصنف اور اہلِ قلم بھی اور بابرکت مقرر وواعظ بھی۔ وہ خوب صورت، شستہ، بے ساختہ اور بہت رواں اردو زبان لکھتے تھے، جو لسانی خوبیوں سے بھی خاصی مالامال ہوتی تھی؛ اسی لیے اُن کی تحریریں بہت مقبول ہوئیں؛ کیوں کہ علمی مواد اور متعلقہ موضوعات پر بھرپور معلومات کے ساتھ ساتھ اُن کے یہاں زبان کی چاشنی اور ادبی تراوش بھی پائی جاتی تھی۔ اُن کے مستفیدین وتلامذہ اُن کے بہت گرویدہ ہوتے تھے؛ کیوں کہ اُن کے یہاں علم وعمل کی یک رنگی اور قول وفعل کا اتحاد تھا، ایسا عالم ہمیشہ محبوب ہوتا ہے جس کے یہاں علم وعمل میں اختلاف نہیں ہوتا۔ اُنھوں نے مرتب زندگی گزاری؛ اِس لیے اسفار ورحلات کے باوجود ڈھیر سارا علمی کام کرنے میں کام یاب رہے۔ اُنھوں نے چھوٹی بڑی ۳۳ کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جو نہ صرف اُن کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی؛ بل کہ اُن کے لیے ان شاء اللہ صدقہٴ جاریہ ثابت ہوں گی۔ اُنھوں نے یہ بہت اچھا کیا کہ اپنے قلم سے اپنی سوانح بھی لکھ دی اور ”حکایتِ ہستی“ کے نام سے وہ شائع بھی ہوگئی، لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور خوب پڑھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ علم کو (بہ شرطے کہ اُسے اچھا لکھنا بھی آتا ہو) اپنی زندگی کی کہانی خود ہی لکھ جانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ آنے والوں کے لیے باوثوق ماخذ بھی ہوتی ہے اور عہد وماحول کی سچی تصویر بھی۔ دوسروں کے ہاتھوں دوسروں کی باتیں اِتنی سچی پکی نہیں ہوسکتیں، جتنی کسی کی اپنی زبان سے اپنی باتیں، نیز گردوپیش کے حالات اور برتے ہوے معاصر انسانوں سے انسان جتنا خود واقف ہوتا ہے، کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
مرحوم نے تصنیف وتالیف کے علاوہ ۱۹۹۲ء سے مئوناتھ بھنجن کے مدرسہ ”مرقات العلوم“ سے شائع ہونے والے گراں قدر علمی مجلے ”المآثر“ کی شروع دن سے اپنی حیات تک ادارت کی۔ مذکورہ مدرسہ مایہٴ ناز محدث وعلّامہٴ اسماء الرجال حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی مئوی رحمة اللہ علیہ (۱۳۱۹ھ/۱۹۰۱/ – ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء) نے قائم فرمایا تھا۔ اُنھوں نے ضلع ”اعظم گڑھ“ کے گاؤں ”شیخوپور“ کے مدرسہ ”شیخ الاسلام“ سے بھی ایک مفیدِ عام وخاص رسالہ ”ضیاء الاسلام“ نکالا، جہاں انھوں نے سال ہا سال مدرسی اور انصرام وانتظام کے فرائض انجام دیے اور اُن کی تعلیم وتربیت کی ساحری کی وجہ سے یہ مدرسہ خوب خوب چمکا۔ ان کی تحریروں میں اُمتِ مسلمہ کے حالات و واقعات کے حوالے سے خاصا درد بھراہوتا تھا، اخلاص کی چاشنی اُس پر مستزاد ہوتی تھی؛ اِس لیے وہ دل ربا اور جاذبِ فکرونظر ہوتی تھیں۔
لائقِ ذکر ہے کہ اُنھوں نے تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے وطن میں ۱۶ ماہ اقامت گزیں رہ کر قرآنِ پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اُس کے بعد وہ بہ حیثیت امام وخطیب شہر ”میسور“ گئے، جہاں گو اُن کا قیام چند مہینے ہی رہا؛ لیکن اُن کی خوش اخلاقی وخوش گفتاری کی وجہ سے وہاں اُن کا اچھا حلقہ بن گیا۔ اس کے بعد اُنھوں نے کئی مدرسوں میں کم وبیش ۴۲ سالوں تک تعلیم وتربیت کی خدمت انجام دی۔ اُن کے لب ولہجے اور شخصیت میں کشش تھی، جس کی وجہ بالیقین یہ بات تھی کہ وہ اپنے علم پر عمل کرتے تھے اور اپنی رفتار وگفتار کو سیرتِ نبوی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے، وہ عام علما کی طرح علم کو محض ایک پیشے کے طور پر نہیں برتتے تھے؛ اِس لیے اُن کی زندگی عالمِ باعمل کی زندگی تھی۔
دارالعلوم دیوبند کی طالب علمانہ زندگی کے بعد اُن سے جو جدائی ہوئی تو صرف ایک بار اُن سے دارالعلوم کے مہمان خانے میں اُس وقت ملاقات ہوئی جب راقم کو دارالعلوم میں استاذ اور ”الداعی“ کے مدیر کی حیثیت سے آئے ہوے کوئی ایک یا سوا سال ہوا تھا۔ دارالعلوم میں راقم کی تقرری شوال ۱۴۰۲ھ/ اگست ۱۹۸۲ء میں ہوئی تھی۔ وہ کئی روز یہاں رہے اور اپنے اساتذہ واحباب سے ملے، اعظمی طلبہ نے اُن کے اِعزاز میں اپنی انجمن کا جلسہ بھی کیا۔ اُس کے بعد وہ دارالعلوم آئے ضرور ہوں گے؛ لیکن راقم کی اُن سے اِس ایک دفعہ کے بعد کبھی ملاقات نہ ہوسکی؛ البتہ اُن کی علمی سرگرمیوں، تعلیمی وتربیتی بخششوں اور دعوتی وتالیفی فیضان کا آوازہ ہمیشہ میرے کانوں پڑتا رہا۔ اُن کے تلامذہ اور اُن کے مستفیدین کے ذریعے اُن کے کاموں کی دھوم مچتی رہی اور ہم لوگوں کے ذہنوں میں وہ ہمیشہ مستحضر رہے۔ جس سے یہ یقین جمارہا کہ وہ باتوفیق وبابرکت ہیں اور اُن کے فکر وعمل کی کمان چڑھی ہوئی ہے۔ نسبتاً کم عمری میں اُنھیں رختِ سفر باندھ لینا تھا؛ اِس لیے اللہ نے ایسا لگتا ہے کہ اُنھیں اِلقا کیا کہ وہ اپنے حصے کا کام بہ عجلت انجام دے لیں۔ ظاہر ہے کہ ہر انسان اپنے حصے کا مقدر کام انجام دیے بغیر اِس دنیا سے نہیں جاپاتا۔ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک سے جو کام لینا ہوتا ہے، وہ اس کی زندگی کے مطول یا مختصر دورانیے میں اُس سے ضرور لے لیتا ہے۔
مدرسہ حسینیہ چِلَّہْ امروہہ سے فراغت کے بعد چند ماہ اُنھوں نے اُسی مدرسے میں چند کتابیں اساتذہ کے حکم سے پڑھائیں۔ اُس کے بعد، جیساکہ عرض کیاگیا، ایک سال سے زیادہ عرصہ مکان پر قیام کے دوران حفظِ قرآنِ پاک کی سعادت سے بہرہ ور ہوے، پھر اساتذہ کی ہدایت کے بہ موجب شہر میسور میں چند ماہ اِمامت وخطابت کا فریضہ انجام دیا، اس کے بعد جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس میں ایک سال مدرس رہے، پھر مدرسہ دینیہ غازی پور میں دو میقاتوں میں ۸ سال تدریسی خدمت انجام دی، چار سال مدرسہ وصیت العلوم الہ آباد میں مدرسی کی اور چار سال ہی مدرسہ ”ریاض العلوم“ گورینی جو نپور میں تعلیم وتربیت پر مامور رہے۔ اُن کی تدریس کا سنہرا دور وہ ہے جو اُنھوں نے ۲۴ سالہ طویل دورانیے میں مدرسہ شیخ الاسلام موضع ”شیخوپور“ ضلع اعظم گڑھ میں گزارا اور اُن کی تعلیم وتربیت کی فیض بخشی کی جہ سے نہ صرف اُن کے نام اورکام کا غلغلہ بلند ہوا؛ بل کہ مدرسے کا شہرہ بھی ملک میں دور دور تک پہنچا اور طلبہ کا رجوعِ عام ہوا؛ لیکن بدقسمتی سے اُن کی وفات سے چند ماہ قبل ایسے حالات رونما ہوگئے کہ اُنھیں اس مدرسے سے اپنا دیرینہ وبافیض رشتہ ختم کرلینا پڑا اور وہ ضلع ”مئو“ کے گاؤں ”چھپرہ“ کے اپنے قائم کردہ مدرسہ ”سراج العلوم“ منتقل ہوگئے۔ رمضان ۱۴۳۴ھ = جولائی ۲۰۱۳ء سے وہ یہاں سرگرم ہوے ہی تھے کہ اُن کا وقتِ آخر آگیا اور وہ وہاں چلے گئے جہاں ہر ایک کو جانا ہے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
مختصر سوانحی خاکہ
* نام: اعجاز احمد بن قاضی محمد شعیب کوثر اعظمی
* تاریخ پیدایش: ۲۸/ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ مطابق ۵/فروری ۱۹۵۱ء
* جائے پیدایش: موضع ”بھیرہ، ولید پور“ ضلع اعظم گڑھ، یوپی
* تعلیم: ابتدائی تعلیم اپنے وطن ”بھیرہ ولید پور“ کے مدرسہ رحیمیہ میں حاصل کی، پھر ”بھیرہ“ کے ہی مولانا عبدالستار اور اُن کے صاحب زادے مولانا عزیزالرحمن سے فارسی اور عربی اوّل تک کی تعلیم حاصل کی۔ اُس کے بعد جامعہ عربیہ اِحیاء العلوم مبارک پور اعظم گڑھ میں درجہٴ دوم عربی میں داخل ہوے، جہاں درجہٴ پنجم عربی تک تعلیم حاصل کی، یہاں ۱۳۸۵ھ سے ۱۳۸۸ھ تک قیام رہا۔ شوال ۱۳۸۸ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوے؛ لیکن چند ماہ بعد طلبہ کے ایک ہنگامے کی وجہ سے اُنھیں یہاں سے جانا پڑا۔ وہ مدرسہ حسینیہ امروہہ میں داخل ہوگئے، وہاں سے ۱۳۹۱ھ/۱۹۷۱ء میں فارغ ہوے۔
* عملی زندگی: عملی زندگی کا آغاز شہر ”میسور“ کی ایک مسجد میں امامت وخطابت سے کیا، جس کے بعد ۴۲ سالہ مدت انھوں نے تدریس وتالیف وتربیت اور وعظ وارشاد میں گزارا۔
* بیعت وارشاد: وہ سب سے پہلے مئو کی جامع مسجد کے امام وخطیب مولانا حکیم منیرالدین سے بیعت ہوے، اصلاحی تعلق، مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادی کے جانشیں مولانا قاری مبین احمد سے رہا، پھر سندھ کے ایک بزرگ مولانا حماد اللہ ہالیچوی کے خلیفہ مولانا عبدالواحد مدظلہ (تلمیذ حضرت شیخ الاسلام مولانا سیّدحسین احمد مدنی) کے خلیفہ ومجاز ہوے۔
* اولاد: مولانا نے اپنے پیچھے سات لڑکے اور تین لڑکیاں چھوڑی ہیں۔ لڑکوں کے نام اِس طرح ہیں:
حافظ محمد عارف، حافظ محمد عادل، مولوی محمد عامر، مولوی محمد عابد، مولوی محمد راشد، مولوی محمد عرفات، محمد احمد۔
* مطبوعہ تالیفات:
۱- تسہیل الجلالین شرح اردو جلالین شریف (جلد اوّل) (سورئہ بقرہ تا سورئہ نساء مکمل سوا پانچ پارے)
۲- حدیثِ دوستاں (دینی واصلاحی اور علمی وادبی مکاتیب کا مجموعہ)
۳- کھوئے ہوؤں کی جستجو (مختلف شخصیات پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ)
۴- حیاتِ مصلح الامت (حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب اعظمی، الٰہ آبادی (۱۳۱۲ھ/ ۱۸۹۵ء – ۱۳۸۷ھ/ ۱۹۶۷ء) کی مفصل سوانح)
۵- مدارسِ اسلامیہ، مشورے اور گزارشیں (جدید اضافہ شدہ ایڈیشن، مدارس سے متعلق مضامین کا مجموعہ)
۶- بطوافِ کعبہ رفتم․․․․․ (سفر نامہٴ حج) حرمین شریفین (مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے سفر کی روداد)
۷- تہجد گزار بندے (تہجد کی اہمیت وفضیلت اور تہجد گزار بندوں کا تفصیلی تذکرہ)
۸- ذکرِ جامی (ترجمانِ مصلح الامت مولانا عبدالرحمن جامی کے حالاتِ زندگی)
۹- حضرت چاند شاہ صاحب اور اُن کا خانوادئہ تصوف (حضرت چاند شاہ صاحب ٹانڈوی اور اُن کے خلفا کے حالات)
۱۰- تذکرہ شیخ ہالیچوی (سندھ کے معروف شیخ طریقت و عالم حضرت مولانا حماد اللہ صاحب ہالیچوی کا مفصل تذکرہ)
۱۱- مودودی صاحب اپنے افکار ونظریات کے آئینے میں۔ مولانا بنوری (۱۳۲۶ھ/ ۱۹۰۸ء – ۱۳۹۷ھ/ ۱۹۷۷ء) کی عربی کتاب ”الأستاذ المودودي“ کا ترجمہ
۱۲- حکایتِ ہستی حصہ اوّل (خود نوشت سوانح، ابتداے حیات سے اختتامِ طالبِ علمی تک)
۱۳- کثرتِ عبادت، عزیمت یا بدعت؟
۱۴- قتلِ ناحق، قرآن وحدیث کی روشنی میں
۱۵- تعویذات وعملیات کی حقیقت وشرعی حیثیت
۱۶- شبِ براء ت کی شرعی حیثیت
۱۷- اخلاق العلماء، علما کے لیے خاص چیز
۱۸- دین داری کے دو دشمن (حرصِ مال وحبِّ جاہ)
۱۹- فتنوں کی طغیانی (ٹی وی پر ایک فکر انگیز تحریر)
۲۰- اہلِ حق اور اہلِ باطل کی شناخت
۲۱- مالی معاملات کی کم زوریاں اور اُن کی اِصلاح
۲۲- منصبِ تدریس اور حضراتِ مدرسین
۲۳- حج وعمرہ کے بعض مسائل میں غلو اور اُس کی اِصلاح
۲۴- برکاتِ زمزم (آبِ زمزم کی فضیلت واہمیّت کا بیان)
۲۵- تصوف ایک تعارف
۲۶- خواب کی شرعی حیثیت
۲۷- تکبر اور اُس کا انجام
۲۹- تسہیل المیبذی (شرح میبذی)
۳۰- حدیثِ دردِ دل (ماہ نامہ ”ضیاء الاسلام“ میں لکھے ہوے اِداریوں کا مجموعہ)
۳۱- مسئلہ اِیصالِ ثواب! ایک ذہنی طغیانی کا احتساب
۳۲- المَدُّالتعظیمي لاسم الجلالة
۳۳- اذکارِ سلسلہٴ قادریہ
(اِس مضمون کی بنیادی معلومات مولانا اِعجاز احمد مرحوم کے شاگردِ رشید مولانا ضیاء الحق خیرآبادی کی تحریر ”حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ، مختصر سوانحی خاکہ“ سے لی گئی ہیں)
اردو تحریر: ۱۰/بجے صبح دو شنبہ: ۲۲/ذی الحجہ ۱۴۳۴ھ = ۲۸/اکتوبر ۲۰۱۳ء
عربی تحریر: ۴/بجے بہ وقت عصر، دوشنبہ: ۸/ذی الحجہ ۱۴۳۴ھ =
۱۴/اکتوبر۲۰۱۳ء برائے ”الداعی“ شمارہ ۱-۲، جلد نمبر ۳۸،
بابت ماہِ محرم و صفر ۱۴۳۵ھ مطابق نومبر ودسمبر ۲۰۱۳ء
————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ، جلد: 97 ، صفر 1435 ہجری مطابق دسمبر 2013ء