از: مولانا یرید احمد نعمانی
یَا أَیُّھَا النَّاسُ کُلُواْ مِمَّا فِیْ الأَرْضِ حَلاَلاً طَیِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) إِنَّمَا یَأْمُرُکُمْ بِالسُّوء ِ وَالْفَحْشَاء وَأَن تَقُولُواْ عَلَی اللہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ(۱۶۹) …(سورة البقرة)
ترجمہ: ”اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ اورشیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو کہ وہ تمہارے لیے ایک کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تم کو یہ حکم دے گا کہ تم بدی اور بے حیائی کے کام کرو اور اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔ “(آسان ترجمہٴ قرآن)
تشریح وتوضیح
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ پہلی آیت مبارکہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :”اہل عرب بت پرستی کرتے تھے اور بتوں کے نام پر سانڈ بھی چھوڑتے تھے اور ان جانوروں سے نفع اٹھا نا حرام سمجھتے تھے۔ یہ بھی ایک طرح کا شرک ہے؛ کیوں کہ تحلیل وتحریم کا منصب اللہ کے سوا کسی کو بھی نہیں۔ اس بارے میں کسی کی بات ماننی گویا اس کو اللہ کا شریک بنانا ہے؛ اس لیے اس سے پہلی آیات(۱۶۵-۱۶۷) میں شرک کی خرابی بیان فرما کر اب تحریم حلال سے ممانعت کی جاتی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ زمین میں پیدا ہوتاہے ،اس میں سے کھاؤ بشرطیکہ وہ شرعاً حلال اور طیب ہو،نہ تو فی نفسہ حرام ہو، جیسے مردار اور خنزیز اور مااھل بہ لغیر اللہ ( جن جانوروں پر اللہ کے سوا کسی اورکانام پکارا جائے اوراس کی قربت مقصودان جانوروں کے ذبح سے ہو) اور نہ کسی امر عارضی سے اس میں حرمت آگئی ہو۔ جیسے غصب، چوری، رشوت، سود کا مال کہ ان سب سے اجتناب ضروری ہے۔ اور شیطان کی پیروی ہرگز نہ کرو کہ جس کو چاہا حرام کرلیا جیسے بتوں کے نام کے سانڈ وغیرہ اور جس کو چاہا حلال کرلیا جیسے مااھل بہ لغیر اللہ وغیرہ۔“ (تفسیر عثمانی:ص ۳۱)
”وان تقولوا علی اللہ مالا تعلمون“ کے ذیل میں حضرت فرماتے ہیں :” یعنی مسئلے اور احکام شرعیہ اپنی طرف سے (نہ ) بنالو۔ جیسا کہ بہت سے مواقع میں دیکھا جاتاہے کہ مسائل جزئیہ سے گزر کر امور اعتقادیہ تک نصوص شرعیہ کو چھوڑ کر، اپنی طرف سے احکام تراشے جاتے ہیں اور نصوص قطعیہ اور اقوال سلف کی تحریف اورتغلیط کرتے ہیں۔“(حوالہ بالا)
آیات ․․․․ حدیث نبوی کے آئینے میں
اس مقام پر علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ عیاض بن حمار کے حوالے سے ایک حدیث قدسی نقل کرتے ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :” میں نے اپنے بندوں کو جو مال دیاہے، وہ ان کے لیے حلال ہے۔(اسی حدیث میں آگے فرمایا گیا) میں نے اپنے بندوں کو دین حنیف(کفروشرک سے بیزار اوراسلام کی طرف مائل دین) پر پیدا کیا۔ بعد میں شیاطین ان کے پاس آئے اور اُن کو ان کے دین سے متعلق گمراہ کرکے رکھ دیااور جو چیزیں میں نے اپنے بندوں کے لیے حلال کررکھی تھیں ،وہ ان پر حرام کردیں۔“(ابن کثیر:۱/۲۶۷)
کسب حلال اور رزق طیب کی بے شمار برکات ہیں۔ جب لقمہ حلال انسان کے پیٹ میں جاتاہے توا س سے خیر کے امور صادر ہوتے ہیں،بھلائیاں پھیلتی ہیں،وہ نیکیوں کی اشاعت کا سبب بنتاہے۔ اس کے برعکس حرام غذا انسانی جسم کو معطل کردیتی ہے۔نور ایمانی بجھ جاتاہے،دل کی دنیا ویران وبنجر ہوجاتی ہے۔شیطان اس کے قلب پر قابض ہوجاتاہے۔ پھرایسا شخص معاشرے کے لیے موذی جانور بن جاتاہے۔ جس منہ کو حرام کی لت لگی ہو، اس سے بھلا امور خیر کیسے اور کیوں کر انجام پاسکتے ہیں۔ حلال وحرام کایہ کھلا فرق اس حد تک اثر انداز ہوتاہے کہ طیب وپاکیزہ کمائی کھانے والا عند اللہ مقبول ومستجاب بن جاتاہے؛ جب کہ حرام وخبیث کو جزو بدن بنانے والا ،اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود ومطرودٹھہرتاہے۔ اسی بات کوکئی احادیث مبارکہ میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیاہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ آیت (یا ایھا الناس کلوا الخ) اللہ کے حبیب علیہ السلام کے روبرو تلاوت کی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اورفرمایا :”یا رسول اللہ! میرے لیے اللہ تعالیٰ سے مستجاب الدعوات بننے کی دعا فرمادیں۔“آپ علیہ السلام نے فرمایا :” اے سعد!اپنا کھانا پاکیزہ اورحلال رکھو۔ تم مستجاب الدعوات بن جاؤ گے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں محمد کی جان ہے! حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتاہے تو چالیس دن تک ( اس کی عبادات) قبول نہیں کی جاتیں۔ جس بندے کی نشو ونما حرام اور سود کے مال سے ہوئی ہو ،جہنم کی آگ اس کے زیادہ لائق ہے۔“(ابن کثیر:۱/۲۶۷)
ایک دوسری حدیث مبارکہ میں، جو حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال حرام کی قباحت وشناعت کو اس انداز میں ذکر فرمایا:”بے شک اللہ تعالی پاک ہیں اور پاکیزہ مال ہی قبول فرماتے ہیں۔ اور اللہ رب العالمین ( اپنے) مومن بندوں کو بھی اسی چیز کا حکم دیتے ہیں ،جس کا حکم اپنے پیغمبروں کو دیا۔ پھر آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا( اے رسولو! پاکیزہ اورحلال چیزیں کھاؤ اورنیک عمل کرو)․․․․ یا ایھا الذین امنوا کلوا من الطیبات ما رزقنکم (اے اہل ایمان! جو رزق ہم نے تمہیں دیاہے ، اس میں سے پاکیزہ اشیاء کھاؤ)
اس کے بعد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے آدمی کا تذکرہ فرمایا جو لمبے سفر میں پراگندہ حال اورغبار آلود (ہوتا)ہے۔اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعامانگتے ہوئے کہہ رہاہو”اے میرے رب! اے میرے رب!“جب کہ (حقیقت حال یہ ہو کہ ) اس کا کھانا، پینااوراوڑھنا (سب) حرام ہے۔اورحرام کی غذا اسے مل رہی ہوسو اس حالت میں اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں؟“( مشکوٰة:۲۴۱)
دیکھا جائے تو آج اکثروبیشتر زبانوں پہ یہ شکوہ رہتاہے کہ ”اتنی دعائیں مانگتے ہیں پھر بھی ہماری حالت تبدیل نہیں ہوتی“؛حالاں کہ تھوڑے تدبر وتفکر سے کام لیا جائے تو ہمیں اپنے معاشرہ اورماحول میں کسب حلال کی فکروسوچ ہی مفقود نظر آتی ہے الاّ ماشاء اللّٰہ۔عمومی فضا یہ بن چکی ہے کہ خواہشات کو ضروریات کا درجہ دے دیا گیاہے؛ جب کہ انسانی خواہش تو بحربے کنار کی مانند ہے۔ دنیا میں ہر آرزو اورتمنا پوری ہوجائے یہ ناممکن ہے۔ مستزاد یہ کہ ان لامحدود تمناؤں کو پورا کرنے کے لیے ہمارے درمیان ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ایک ہی خاندان میں شوہر کی خواہشیں الگ ہیں بیوی کی الگ ۔اولاد کسی اور چیز کے حصول کی امیدیں لگائی بیٹھی ہے تو ماں باپ کسی دوسری فکر میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں،مال جمع کیا جارہاہے۔ اوراس میں یہ نہیں دیکھا جاتاکہ ذریعہٴ آمدنی حلال ہے یا حرام، جائز ہے یا ناجائز، طیب ہے یاخبیث، حدودِ شرع کے اندرہے یا باہر۔یہ بالکل وہی صورت حال ہے ،جسے ہمارے پیارے نبی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو برس قبل بیان فرمایا تھا۔آپ علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے: ”لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا ،جس میں انسان اس بات کی طرف دھیان نہیں دے گا کہ وہ جو مال حاصل کررہاہے؛ حلال ہے یا حرام ۔“(مشکوٰة:۲۴۱)
جب انسان اکل حلال کو نظر انداز کردیتاہے۔صبروقناعت ،زہدوایثار اورجفاکشی کی جگہ حرص وہوس اور عیش کوشی کو اپنامطمح نظر بنالیتاہے تو اللہ رب کریم کی طرف سے نازل ہونے والی برکت ختم ہوجاتی ہے۔ جس کے بعد کثرت بھی قلت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسے شخص کو قارون کاخزانہ بھی مل جائے تو وہ اسے کم تر جانتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب اپنے ناپاک مال میں سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتاہے تووہ اس سے قبول نہیں کیا جاتا۔اس کے علاوہ یہ حرام بینک بیلنس جب تک اس کی ملکیت میں پڑا رہتاہے ،اس کے لیے دوزخ کی راہ ہموار کرتارہتاہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث مبارکہ میں اس حوالے سے یوں ارشاد فرمایا:”بندہ مال حرام کما کر( جب ) اس میں سے اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کرتاہے تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جاتا۔اسی طرح ( جب وہ مال حرام اپنی ذات پر خرچ کرتاہے تو)اس میں اس کے لیے برکت پیدا نہیں کی جاتی۔اور (اگر) اس مال حرام کو ( ذخیرہ کی نیت سے) اپنے پاس محفوظ رکھتاہے تو وہ اس کے لیے جہنم کا زادِراہ بن جاتاہے۔یادرکھو!اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں؛ بلکہ اچھائی سے برائی کو مٹاتے ہیں؛کیوں کہ خبیث چیز خبیث کو نہیں ختم کرسکتی۔“(مشکوٰة:۲۴۲)
حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری نور اللہ مرقدہ مذکورہ حدیث مبارکہ کے آخری جملے کی تشریح میں لکھتے ہیں :” حرام مال سے صدقہ اورانفاق گناہ ہے اور یہ اُس گناہ کو نہیں مٹاسکتا جو کسب حرام سے حاصل ہواہے۔“(حاشیہ مشکوٰة:۲۴۲)
نکات ومعارف
۱…”السوء والفحشاء“
آیت مبارکہ میں آنے والے ان دونوں لفظوں میں لغوی اعتبار سے کیا فرق ہے؟اس کے بارے میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی قدس سرہ فرماتے ہیں:”سوء“ وہ چیز جس کو دیکھ کر عقلمند شریف آدمی کو دکھ ہو۔” فحشاء“بے حیائی کا کام۔بعض حضرات نے فرمایا کہ اس جگہ ”سوء“سے مراد مطلق معصیت اور ”فحشاء“ سے مراد گناہ کبیرہ ہے۔“(معارف القرآن: ۱/۴۱۱)
۲…اِنَّمَا یأمرُکُمْ
شیطان کے امر اور حکم کرنے سے مراد دل میں وسوسہ ڈالناہے۔جیسا حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم کے بیٹے کے قلب میں ایک شیطانی الہام واثر ہوتاہے اوردوسرا فرشتہ کی طرف سے۔شیطانی وسوسہ کا اثر یہ ہوتاہے کہ برے کام کرنے کے فوائد اورمصالح سامنے آتے ہیں اورحق کو جھٹلانے کی راہیں کھلتی ہیں اورالہام فرشتہ کا اثر یہ ہوتا ہے کہ خیر اورنیکی پر انعام وفلاح کا وعدہ اورحق کی تصدیق پر قلب مطمئن ہوتاہے۔ (معارف القرآن:۱/۴۱۱)
۳…خُطُوَاتِ الشیطان
حضرت قتادہ اورسدی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی ہر نافرمانی ”خطوات الشیطان“ ہے۔حضرت عکرمہ فرماتے ہیں:”اس سے مراد شیطانی وساوس ہیں“ابومجلز فرماتے ہیں :” اس سے مقصود گناہ کی نذرہے۔“حضرت شعبی فرماتے ہیں :”ایک آدمی نے یہ نذرمانی کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے گا۔حضرت مسروق نے اسے ایک مینڈھا ذبح کرنے کا فتوی دیااور فرمایا کہ یہ خطوات الشیطان میں سے ہے۔“( ابن کثیر :۱/۲۶۷)
۴…انَّہ لَکُمْ عدوٌ مبین
یہاں ایک چھوٹا سا اشکا ل یہ ہے کہ زیر بحث آیت مبارکہ میں شیطان کو انسان کا کھلا دشمن کہا گیاہے؛ لیکن دوسرے مقام پر فرمایا گیا:”والذین کفروا أولیاوٴھم الطاغوت“ یعنی شیاطین کافروں کے دوست ہیں۔ان دونوں باتوں میں بہ ظاہر تعارض ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے تفسیر مدارک کے مصنف رقم طراز ہیں:”شیطان حقیقت میں تو انسان کا دشمن ہی ہے؛ لیکن ظاہراً دوست ہے۔ظاہری طور پر وہ انسانوں کو اپنی دوستی دکھاتاہے اور ان کے لیے بدی کے اعمال کو مزین وآراستہ کرتاہے،مگر حقیقت میں اس طرح وہ ان کی تباہی وبربادی کا سامان کررہاہوتاہے۔“(مدارک:۱/۹۷)
حاصل کلام
یہ ہے کہ حلت وحرمت انسانی ذہن کی اختراع نہیں؛ بلکہ یہ خالصتاًوحی پر مبنی ہے۔شریعت مطہرہ جس امر کو حلال بتائے وہ طیب وطاہراور جسے حرام قرار دے وہ ممنوع وناجائز ہے۔ جو کوئی شریعت کے معاملے میں عقل پرستی سے کام لے گا وہ شیطان کے راستے پر ہے۔حیات مستعار میں کسب معاش اور شکم پری کے لیے پاکیزہ کمائی کے اسباب ڈھونڈنے اوراختیار کرنے چاہئیں۔ حرام خواہ چھوٹاہویا بڑا اس سے پرہیز کرناچاہیے؛کیوں کہ صرف اور صرف طیب غذا سے معاشرہ سدھار کی طرف جاتاہے،دعائیں قبول ہوتی ہیں،برکات نصیب ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں حرام کے لقمہ سے محفوظ اورحلال کی قدرومنزلت نصیب فرمائیں۔آمین
***
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 – 8 ، جلد: 97 ، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی – اگست 2013ء