از:مولانا محمد اسجد قاسمی ندوی
انبیاء، صحابہ، تابعین و اکابر کی زندگیاں مجسم صبر تھیں، ہر نوع کی آزمائشوں پر ان کا شیوہ صبرتھا، وہ فقر و احتیاج کی آزمائش ہو یا بھوک و پیاس کا عالم ہو، بیماری ہو یا اپنوں کے فراق کا صدمہ، اولاد کی موت کا حادثہ ہو یا شریک حیات کی وفات کا سانحہ، والدین کا فراق ہو یا بھائیوں اور بہنوں کا، ہر موڑ پر انکی تاریخ صبر و تحمل اور رضا بالقضا سے معمور ہے۔ ذیل میں اسکے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔
(۱) فقر و احتیاج کی مشقت
فقروافلاس بہت بڑی آزمائش ہے، اوراس میں لوگوں کو بیحد مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ اہل اسلام کے صبر اوررضا بالقضا کے امتحان کا ذریعہ ہے، اللہ نے اپنی حکمت بالغہ کے ذریعہ بعض بندوں کو مالدار بنایا ہے اور بعض کو محتاج و فقیر، قرآن میں اسی حقیقت کا ذکر آیا ہے ﴿واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق﴾ (النحل:۷۱) اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کررکھی ہے، آیت سے واضح ہوا کہ مال و دولت میں عدمِ مساوات فطری ہے اوراس میں مختلف درجات کا ہونا اللہ کی حکمت بالغہ اور مصالح انسانیہ کا مقتضی ہے، فرمایاگیا ﴿اللہ یبسط الرزق لمن یشاء من عبادہ ویقدر لہ﴾ (العنکبوت:۶۲) اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔
اب جو بندہ فقر و افلاس پر صبر کرتا ہے اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر قانع اور راضی رہتا ہے وہ امتحانِ صبر میں کامیاب اور جنت کی نعمتوں کا مستحق ٹھہرتا ہے، حدیث نبوی میں اسی کی صراحت ہے کہ ﴿یدخل فقراء المسلمین الجنة قبل الأغنیاء بنصف یوم وہو خمسمأة عام﴾ (ترمذی) فقراء مسلمین مالداروں سے آدھا دن یعنی پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے، مزید فرمایا ﴿اطّلعت فی الجنة فرأیت أکثر اہلہا الفقراء﴾ (بخاری ومسلم) میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو میں نے اہل جنت میں زیادہ تعداد فقراء کی پائی۔
صحابہ کو مخاطب کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ﴿ہل تدرون أول من یدخل الجنة من خلق اللّٰہ عزوجل؟﴾ کیاتم جانتے ہو کہ اللہ کی مخلوق میں سے جنت میں سب سے پہلے کون جائے گا؟ صحابہ نے کہا ﴿اللہ و رسولہ أعلم﴾ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا ﴿الفقراء المہاجرون الذین تسد بہم الثغور، وتتقی بہم المکارہ ویموت احدہم وحاجتہ فی صدرہ لا یستطیع لہا قضاءً﴾ (مسند احمد) جنت میں سب سے پہلے وہ فقراءِ مہاجرین جائیں گے جن کے ذریعے سرحدوں کی حفاظت ہوتی ہے، (دشمن کی طرف سے آنے والی) ناپسندیدہ چیزوں (حملوں) سے بچاؤ ہوتا ہے، اور ان میں جب کوئی مرتا ہے تو اپنی ضرورت سینے میں دبائے مرجاتا ہے، اس ضرورت کی تکمیل کی اس میں استطاعت نہیں ہوتی۔
ایک حدیث میں آیا ہے ﴿ان حوضی ما بین عدن الی عمان أکوابہ عدد النجوم ماوٴہ أشد بیاضاً من الثلج وأحلیٰ من العسل، واکثر الناس ورودًا علیہ فقراء المہاجرین﴾ میرا حوض کوثر عدن سے لے کر عمان تک (کی مسافت کے بقدر لمباچوڑا) ہوگا، اس کے پیالے ستاروں کی طرح (بیشمار) ہوں گے، اس کا پانی برف سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شریں ہوگا، اور اس سے سب سے زیادہ سیراب و متمتع ہونے والے فقراء مہاجرین ہوں گے، صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﴿صِفْہم لنا﴾ ان فقراء کے اوصاف ہم سے بیان کیجئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿شعث الروٴوس، دُنس الثیاب، الذین لاینکحون المنعمات، ولا تُفتح لہم السُدد، الذین یعطون ما علیہم، ولا یعطون مالہم﴾ وہ پراگندہ بال، معمولی گندے لباس والے ہیں جو مالدار اور ناز و نعم میں پروردہ خواتین سے نکاح نہیں کرتے، اور جن کے لئے (فقر کی وجہ سے) دروازے نہیں کھولے جاتے، جو اپنے اوپر واجب حق ادا کرتے ہیں مگر ان کا حق انہیں نہیں دیا جاتا۔ (ترمذی و ابن ماجہ)
مزید فرمایاگیا ﴿ان فقراء المسلمین یُزفون کما یزف الحمام، فیقال لہم: قِفوا للحساب، فیقولون: واللہ ما ترکنا شیئًا نحاسب بہ، فیقول اللّٰہ عز وجل: صدق عبادی، فیدخلون الجنة قبل الناس بسبعین عامًا﴾ (طبرانی) فقراء مسلمین اس طرح تیز رفتاری سے آئیں گے جیسے کبوتر پر پھیلائے تیزی سے آتا ہے، ان سے کہا جائے گا: حساب کے لئے ٹھہرو، وہ کہیں گے بخدا ہم نے تو کچھ نہیں چھوڑا جس کاحساب دیں، اللہ فرمائے گا: میرے بندوں نے سچ کہا، چنانچہ وہ اور لوگوں سے ستر سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔
ارشاد نبوی ہے ﴿من قلّ مالہ، وکثر عیالہ، وحسنت صلاتہ، ولم یغتب المسلمین، جاء یوم القیامة وہو معی کہاتین﴾ (مسند ابویعلی) جس کا مال کم ہو، بچے زیادہ ہوں، نماز اچھی ہو اور وہ مسلمانوں کی غیبت نہ کرے وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ وہ میرے ساتھ ہوگا (میرے قریب ہوگا)۔
فقرو احتیاج کے موقعے پر صبر کی روش اپنانا بہت مشکل کام ہے اور بقول شاعر۔
آنچہ شیراں ر ا کند ر و بہ مز ا ج
احتیاج است احتیاج است احتیاج
جو چیز شیر (جیسے بہادر) کو گیدڑ (جیسا بزدل) بنادیتی ہے وہ فقرواحتیاج ہے، اس لئے فقر کی حالت میں جو بندہ صبر و ثبات کی راہ پر گامزن رہتا ہے وہی کامیاب و بامراد ہوتا ہے، انبیاء واولیاء، صدیقین و شہداء وصالحین سب کو اس امتحانِ فقر سے گذرنا پڑا، اور سب صابرانہ کامیاب گذرے۔
اہل اسلام کے لئے سب سے بڑا نمونہ اور مشعل راہ سید الاولین والآخرین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے، فقر وفاقہ کی آزمائش پر صبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز تھا، آپ نے آخری لمحہٴ زندگی تک فقر کا سامنا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ لگاتار دو ماہ گذر جاتے تھے اور آپ کے گھر میں چولھا گرم نہیں ہوتا تھا اور کھجور و پانی پر گذارہ ہوتا تھا۔ (بخاری ومسلم)
عہد نبوت کا بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں مصیبت زدہ ہوں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے کھانا منگواتے ہیں مگر تمام ازواج مطہرات کے ہاں سے جواب آتا ہے کہ پانی کے سوا کچھ نہیں ہے، پھر آپ صحابہ کو متوجہ کرتے ہیں، حضرت ابوطلحہ انصاری اس مہمان کو لے جاتے ہیں اور بچوں کے لئے تیار کھانا بچوں کو بہلاسلاکر اپنے مہمان کو کھلاتے اور ایثار کا ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔ ایک اسلامی موٴرخ نے اس واقعہ کا نقشہ اپنے ساحرانہ اسلوب میں اس طرح کھینچا ہے۔ ”مغرب کی نماز ہوچکی ہے، کچھ نمازی رخصت ہوگئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مسجد میں تشریف فرما ہیں کہ ایک شخص بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوتا ہے، پراگندہ مُو، خستہ حال، چہرے پر زندگی کی سختیوں کے نقوش، عرض کرتا ہے یا رسول اللہ میں مفلس اور مصیبت زدہ ہوں وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہے مگر شاید زبان ساتھ نہیں دیتی، مسجد میں پھیلی ہوئی خاموشی گمبھیر ہوجاتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم چند لمحے اس کے سراپا کا جائزہ لیتے ہیں، پھر ایک شخص سے فرماتے ہیں: ”ہمارے ہاں جاؤں اور اس مہمان کے لئے کھانا لے آؤ“۔ وہ خالی ہاتھ واپس آجاتا ہے اور زوجہٴ محترمہ کا پیغام دیتا ہے: ”اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا، میرے پاس اس وقت پانی کے سوا کچھ نہیں۔“ مسافر پیغام سن کر دم بخود رہ جاتا ہے، وہ جس بابرکت ہستی کے پاس اپنے افلاس کا رونا لے کر آتا ہے خود ان کے گھر کا یہ حال ہے! حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیغام سن کر دوسری زوجہٴ مطرہ کے پاس بھیجتے ہیں، مگر وہاں سے بھی یہی جواب ملتا ہے، ایک ایک کرکے سب ازواجِ مطہرات سے پوچھواتے ہیں، لیکن سب کاجواب یہی ہے: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہمارے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں۔
نووارد کی حالت دیدنی ہے وہ افلاس اور فاقہ کشی سے بھاگ کر اس پاک ہستی کے دامن میں پناہ لینے آیا تھا جو تنگ دستوں اور محتاجوں کا ملجا و ماویٰ ہے، تاج دارِ دوعالم ہے، جس کے اشارے پر دنیا بھر کے خزانے قدموں پر ڈھیر ہوسکتے ہیں، ایسی عظیم اور مقدس ہستی کے ہاں بھی بس اللہ کا نام ہے! اسے اپنے گھر کا خیال آجاتا ہے، وہاں اتنی احتیاج تو نہ تھی، جب اس نے گھر چھوڑا تھا اس وقت بھی اس کے ہاں تین دن کی خوراک موجود تھی، پھر ایک بکری بھی اس کے پاس تھی جس کا دودھ زیادہ نہ سہی، بچے کے لیے تو کافی ہورہتا تھا، وہ تو اس خیال سے حاضرہوا تھا کہ حضور کے آگے دامن احتیاج پھیلائے گا، وہ جن کا جودوکرم ہواسے بھی زیادہ بے پایاں ہے انکے فیضِ کرم سے کٹھن زندگی آسان ہوجائے گی، لیکن یہاں تو عالم ہی اور ہے، اسے اپنے وجود پر شرم آنے لگتی ہے اور ندامت کے قطروں سے اس کی پیشانی بھیگ جاتی ہے، اچانک اسے آقائے دوسرا کی آواز سنائی دیتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں: ”آج کی رات اس شخص کی میزبانی کون کرے گا؟“ ابوطلحہ انصاری اٹھ کر عرض کرتے ہیں: ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا گھر حاضر ہے“ پھر اس شخص کو ساتھ لے کر گھر آتے ہیں بیوی امّ سلیم سے پوچھتے ہیں ”کھانے کو کچھ ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مہمان ساتھ آئے ہیں“ نیک بخت کہتی ہیں ”میرے پاس تو بچوں کے کھانے کے سوا کچھ بھی نہیں“ ابو طلحہ کہتے ہیں ”بچوں کو سلادو اور کھانا دسترخوان پر چن کر چراغ گل کردو ہم مہمان کے ساتھ بیٹھے یونہی دکھاوے کو منھ چلاتے رہیں گے اور وہ پیٹ بھرکر کھالے گا۔“(۱)
ام سلیم ایسا ہی کرتی ہیں، اندھیرے میں مہمان یہی سمجھتا ہے کہ میزبان بھی اس کے ساتھ کھانا کھارہے ہیں، مہمان کو کھانا کھلاکر سارا گھر فاقے سے پڑا رہتا ہے، صبح ہوتی ہے توابوطلحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، حضور انہیں دیکھ کر تبسم فرماتے ہیں اور کہتے ہیں تم دونوں میاں بیوی رات مہمان کے ساتھ جس سلوک سے پیش آئے، اللہ تعالیٰ اس سے بہت خوش ہوا ہے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم آیت تلاوت فرماتے ہیں جواس موقع پر نازل ہوئی ﴿ویوٴثرون علی أنفسہم ولو کان بہم خصاصة﴾ اور وہ اپنی ذات پر دوسروں کوترجیح دیتے ہیں، خواہ خود محتاج کیوں نہ ہوں (الحشر:۹) اس طرح ابوطلحہ اور ان کے گھر والوں کے ایثار کی داستان رہتی دنیا تک کلام الٰہی میں ثبت ہوجاتی ہے۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی حد سے زیادہ زاہدانہ اور فقیرانہ زندگی تھی۔
حضرت عمر فاروق کے بارے میں آتا ہے کہ ایک دن خدمت نبوی میں حاضر ہوئے تو آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ایک چٹائی پر آپ لیٹے ہوئے ہیں اور اس کے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے درمیان کوئی بستر نہیں ہے، اور چٹائی کی بُناوٹ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر گہرے نشانات ڈال دئیے ہیں، اور سرہانے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال کوٹ کے بھری ہوئی ہے، یہ حالت دیکھ کر حضرت عمر کی آنکھیں بھر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب پوچھا، حضرت عمر نے جواب دیا ﴿یا نبی اللہ ! ومالی لا أبکی، وہذا الحصیر قد اثر فی جنبک، وذلک قیصر وکسریٰ فی الثمار والأنہار، وأنت نبی اللہ وصفوتہ﴾ اے اللہ کے رسول! میں کیوں نہ روؤں، یہ چٹائی آپ کے پہلوئے مبارک پر گہرے نشان ڈال رہی ہے، اُدھر قیصرو کسریٰ دنیا کے ناز و نعم میں ہیں، آپ تو اللہ کے نبی اور برگزیدہ ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ﴿اولئک قوم عجلت لہم طیباتہم فی الحیاة الدنیا، أما ترضی أن تکون لہم الدنیا ولنا الآخرة﴾ یہ سب تو وہ لوگ ہیں جن کو ان کی لذتیں اسی دنیا میں دے دی گئی ہیں، (اور آخرت میں ان کا کچھ نہیں ہے) کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان کیلئے دنیا کا عیش ہواور ہمارے لئے آخرت کا عیش۔(۲)
ایک بار ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ﴿واللہ انی لأحبک﴾ خدا کی قسم مجھے آپ سے گہری محبت ہے اور یہی بات تین بار دہرائی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿ان کنت تحبنی فأعد للفقر تجفافًا فان الفقر أسرع الی من یحبنی من السیل الی منتہاہ﴾ اگر مجھ سے سچی محبت ہے تو فقر وفاقہ سے دوچار ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ، مجھ سے محبت کرنے والے کی طرف فقر سیلاب کی رفتار سے زیادہ تیزی سے آتا ہے۔ (ترمذی)
قرآن میں آپ کو حکم دیاگیا ﴿واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم بالغداة والعشی یریدون وجہہ، ولا تعد عیناک عنہم ترید زینة الحیاة الدنیا﴾ (الکہف:۲۸) آپ اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کیجئے جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اور دنیوی زندگی کی رونق کے لئے ان سے نگاہیں نہ پھیرئیے۔
اس حکم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق فقراء صحابہ سے بہت افزوں ہوگیا تھا، آپ ان سے خنداں ملتے اور سلام میں پہل کرتے اور فرماتے ﴿الحمد للہ الذی جعل فی أمتی من أمرنی ربی أن أبد أہم بالسلام﴾ تمام تعریف اللہ کی ہے جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا کئے جن کے بارے میں مجھے حکم دیا کہ میں اُن سے سلام میں پہل کروں، اور ان فقراء سے فرمایا ﴿ابشروا یا صعالیک المہاجرین بالنور التام یوم القیامة، تدخلون الجنة قبل أغنیاء الناس بنصف یوم، وذلک خمس مأة عام﴾ (ابوداؤد) اے فقراء مہاجرین! قیامت کے دن مکمل روشنی کی بشارت قبول کرو، تم مالداروں سے آدھے دن یعنی پانچ سو سال پہلے جنت میں جاؤگے، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ حضرت صدیق اکبر کی فقراء صحابہ سے کچھ تلخ کلامی ہوگئی ہے اس پر آپ نے فرمایا کہ اے ابوبکر ﴿لعلک أغضبتہم، لئن کنت أغضبتہم لقد أغضبت ربک﴾ شاید تم نے ان کو ناراض کردیا ہے، اگر تم نے ان کو ناراض کردیا ہے تو تم نے اپنے رب کو ناراض کردیا ہے، یہ سن کر حضرت ابوبکر اُن کے پاس آئے اور معذرت کی۔
روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں وفات پائی کہ آپ کی زرہ ۳۰/ صاع جو کے بدلے ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی (بخاری) آپ کی دعاؤں میں یہ دعا بہت مشہور ہے ﴿اللّٰہم أحینی مسکینا وأمتنی مسکینًا واحشرنی فی زمرة المساکین﴾ (ترمذی) اے اللہ مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں دنیا سے اٹھا، اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔
ان روایات سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقیرانہ زندگی گذاری اور فقر میں صبر کا عملی نمونہ قائم فرمادیا، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوذر غفاری کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکلے اور فرمایا ﴿یا أبا ذر أعلمت أن بین یدی الساعة عقبة کوٴودًا لا یصعدہا الا المخففون﴾ اے ابوذر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ قیامت میں ایک گھاٹی بڑی دشوار گذار ہوگی جس پر وہی چڑھ سکیں گے جو ہلکے ہوں گے، ایک آدمی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! میں ہلکا ہوں یابھاری؟ آپ نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ایک دن کی خوراک ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کل کی خوراک ہے؟ اس نے کہا ہاں! پھر آپ نے کہا پرسوں کی ہے؟ اس نے کہا نہیں، اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس تین دن کا کھانا ہوتا تب تم بھاری ہوتے، اور وہ گھاٹی عبور نہ کرپاتے۔ (طبرانی) حضرت ابوذر ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم مال کی کثرت کو مالداری سمجھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں، اس پر آپ نے فرمایا: ﴿انما الغنی غنیٰ القلب والفقر فقر القلب﴾ اصل مالداری دل کی مالداری ہے اور اصل فقر دل کا فقر ہے۔ (نسائی)
اطاعت رسول کے جذبہٴ بے پناہ کے نتیجے میں صحابہٴ کرام نے فقر وفاقہ کی زاہدانہ زندگی کو ترجیح دیا، صحابہ کی تاریخ میں اس کے بے شمار نمونے موجود ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
حضرت علی ایک بار اپنی تلوار لے کر بازار آئے اور فرمایا کہ مجھ سے یہ تلوار کون خریدے گا؟ اگر میرے پاس چار درہم ہوتے جس سے میں تہہ بند خرید سکتا تو میں یہ تلوار فروخت نہ کرتا۔(۳)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام آئے، حضرت علی نے حضرت فاطمہ کو بھیجا کہ جاؤ ایک غلام مانگ لاؤ، تاکہ وہ گھر کاکام کردیاکرے اور تمہیں اتنی مشقت نہ اٹھانی پڑے، حضرت فاطمہ خدمت نبوی میں آئیں مگر شرم و حیاء سے کچھ کہہ نہ سکیں، واپس چلی گئیں، پھر حضرت علی کے ہمراہ آئیں، حضرت علی نے بتایا کہ چکی پیستے پیستے فاطمہ کے ہاتھوں میں نشان پڑگئے ہیں، آپ ایک خادم عنایت کردیں تو بہتر ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں غلام تم کو نہیں دے سکتا، میں انہیں فروخت کرکے ان کی قیمت اہل صفہ پر خرچ کروں گا، یہ سن کر حضرت علی و فاطمہ واپس چلے آئے، تھوڑی دیر بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کے مکان پر آئے، حضرت علی و فاطمہ دونوں لیٹے ہوئے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ﴿ألا أخبر کما بخیر ما سألتمانی﴾ کیا میں تم کو اس چیز سے بہتر نہ بتاؤں جو تم نے مجھ سے مانگی تھی، دونوں نے عرض کیا کیوں نہیں ضرور بتائیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ چند کلمات ہیں جو مجھے جبریل نے سکھائے ہیں، ہر نماز کے بعد دس بار سبحان اللّٰہ، دس بار الحمد للّٰہ، اور دس بار اللّٰہ اکبر کہہ لیا کرو، اور بستر پر لیٹتے وقت ۳۳/ بار سبحان اللّٰہ، ۳۳/ بار الحمد للّٰہ، اور ۳۴/ بار اللّٰہ اکبر کہہ لیا کرو، حضرت علی کا بیان ہے ﴿فواللّٰہ ما ترکتہن منذ علمنیہن﴾ خدا کی قسم جب سے حضور نے مجھے یہ کلمات سکھائے آج تک میں نے انہیں نہ چھوڑا، پوچھا گیا کہ ”کیاجنگ صفین کی رات بھی نہیں چھوڑا“ فرمایا کہ ”نہیں اس رات بھی نہیں چھوڑا“۔(۴)
حضرت ابوذر غفاری کے پاس ایک آدمی آیا، اور ان کے گھر کا جائزہ لینے لگا، پھر بولا: اے ابوذر! میں آپ کے گھر میں کوئی سامان نہیں دیکھ رہا ہوں، حضرت ابوذر بولے کہ ہمارا اصل گھر دوسرا ہے (جنت) جہاں ہم سارا اچھا سامان (عمل صالح) بھیج رہے ہیں، وہ شخص بولا کہ جب تک یہاں ہیں کچھ سامان یہاں بھی ہونا چاہئے، حضرت ابوذر نے فرمایا کہ اس گھر کا مالک (اللہ) ہم کو یہاں رہنے نہیں دے گا (موت دے گا) اس لئے یہاں کچھ سامان رکھنا بے سود ہے۔(۵)
حضرت عمر فاروق اپنے عہد خلافت میں شام تشریف لے جاتے ہیں، شہر حمص کے دورے پر پہنچتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ یہاں سب سے زیادہ محتاج کون ہے؟ اس کا نام لکھا جائے، تمام حاضرین جواب دیتے ہیں، سعید بن عام بن جذیم، حضرت عمر پوچھتے ہیں کہ کون سعید؟ لوگ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے گورنر، حضرت عمر کو بڑا تعجب ہوتا ہے، پوچھتے ہیں کہ ان کی تنخواہ کیاہوتی ہے؟ جواب ملتا ہے کہ سب فقراء میں تقسیم کردیتے ہیں، کچھ باقی نہیں رکھتے، حضرت عمر کی آنکھوں سے اشک جاری ہوجاتے ہیں، وہ حضرت سعید کی خدمت میں ایک ہزار دینار بھجواتے ہیں، قاصد جاتا ہے اور کہتاہے کہ امیرالموٴمنین نے آپ کی ضروریات کیلئے یہ ہدیہ بھیجا ہے، حضرت سعید زور سے انا للّٰہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہیں، ان کی بیوی اندر سے باہر آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ کیا بات ہے؟ کیا امیرالموٴمنین کا انتقال ہوگیا؟ حضرت سعید کہتے ہیں نہیں: اس سے بڑی مصیبت آئی ہے، اہلیہ پوچھتی ہیں: کیا کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ جواب ملتا ہے : نہیں اس سے بڑا حادثہ ہوا ہے، اہلیہ پوچھتی ہیں کہ کچھ تو بتائیے کیا بات ہے؟ حضرت سعید فرماتے ہیں ﴿الدنیا: أتتنی الفتنة، دخلت علیّ﴾ دنیا کا فتنہ میرے پاس آگیا ہے، پھر وہ سب دینار مستحقین پر صرف کردیتے ہیں۔(۶)
حضرت عمر بن عبدالعزیز اپنے زمانہٴ خلافت میں جمعہ کی نماز میں کچھ تاخیر سے آئے، حاضرین کو اس سے ناگواری ہوئی، آپ نے فرمایا کہ میرے پاس بس ایک قمیص ہے، اسے دُھل دیا تھا، اس کے سوکھنے میں دیر ہوگئی۔
حضرت سفیان ثوری ایک بار حضرت رابعہ عدویہ سے ملاقات کے لئے گئے، حضرت رابعہ بدحالی اور فقر کا شکار تھیں، حضرت سفیان نے انہیں اپنے کسی مالدار پڑوسی سے مدد طلبی کے لئے کہا، اس پر حضرت رابعہ نے جواب دیا ﴿یا سفیان وما تریٰ من سوء حالی؟﴾ اے سفیان! تم میری بدحالی کیا دیکھتے ہو؟ ﴿ألست علی الاسلام﴾ کیا تم اسلام پر یقین نہیں رکھتے؟ ﴿فہو العز الذی لا ذلّ معہ، والغنیٰ الذی لا فقر معہ، والأنس الذی لاوحشة معہ﴾ اسلام سراپا عزت ہے، اس کے ساتھ ذلت نہیں، وہ غنی ہے جس کے ساتھ فقر نہیں، وہ انس ہے جس کے ساتھ وحشت نہیں، ﴿واللّٰہ انی لأستحی أن اسأل الدنیا من یملکہا فکیف أسألہا من لا یملکہا؟﴾ بخدا میں تو اس اللہ سے دنیامانگنے سے شرماتی ہوں جو دنیا کا مالک ہے، تو میں کیسے اس سے دنیا مانگ سکتی ہوں جو دنیا کا مالک نہیں ہے، یہ سن کر حضرت سفیان ثوری بول اٹھے کہ ﴿ما سمعت مثل ہذا الکلام﴾ میں نے اس جیسا (عمدہ و موٴثر) کلام نہیں سنا۔(۷)
امام دارالہجرة امام مالک بن انس کو طلب علم کی راہ میں اپنے گھر کی شہتیریں تک فروخت کرنی پڑیں، اتنی مشقتوں کے بعد ان کو علم ملا، پھر جب وہ مسند مشیخت حدیث پر متمکن ہوئے تو دنیا ان پر ٹوٹ پڑی، وہ فرمایا کرتے تھے ﴿لاینال ہذا الأمر حتی یذاق فیہ طعم الفقر﴾ دین کا علم اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے ساتھ فقر کاذائقہ نہ چکھا جائے۔(۸)
حواشی:
(۱) اسلامی زندگی کی کہکشاں /۶۰-۶۳، از آباد شاہ پوری۔ (۲) بخاری و مسلم و مسند احمد۔ (۳) حیاة الصحابہ: ۲/۳۱۰۔
(۴) الاصابة : ۴/۳۷۹ ۔ (۵) مختصر منہاج القاصدین : ابن قدامہ المقدسی / ۳۶۸۔ (۶) کتاب الزہد للامام احمد : ۱۸۵۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد: 89 ، ربیع الاول ، ربیع الثانی1426ہجری مطابق مئی 2005ء