از:مولانا ابرار احمداجراوی قاسمی
جے این یو، نئی دہلی
ذریعہٴ ابلاغ خواہ وہ اخبار ہو یا ریڈیو، ٹیلی ویژن ہویا انٹرنیٹ اس کی اہمیت اور اس کی اثر انگیزی ہردور میں مسلم رہی ہے۔ انسانی معاشرے کی بقا اور تعمیر وترقی کے لیے اِبلاغ و ترسیل اتنا ہی ضروری ہے، جتناکہ غذا اور پناہ گاہ۔انسانی نقطئہ نظر سے دیکھا جائے توترسیل دو طرفہ سماجی عمل ہے اور اس دور میں بھی جب منہ سے نکلی ہوئی آواز نے الفاظ اور منقش تحریر کاجامہ زیب تن نہیں کیا تھا اور انسان اشارے کنایے،حرکات وسکنات اور لمس و شعور کی مددسے اپنی ترسیل و ابلاغ کی ضروت کی تکمیل کیا کرتاتھا، ابلاغ اور ترسیل کے وسائل انسانی معاشرے میں اہمیت کے حامل تھے، اور آج کے برق رفتار عہدمیں تو اس کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔ ولبر شرم نے صحیح کہا ہے:”عوامی ذرائع ترسیل دنیا کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔“ یہی وجہ ہے کہ ترسیلی شعبے کے بعض ماہرین نے کسی مہذب انسانی معاشرے کی تعمیر وترقی میں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے ساتھ ذرائع ترسیل وابلاغ کو چوتھے ستون کی حیثیت دی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی کے ساتھ انسانی معاشرے کی ترقی مربوط ہے۔ اگر یہ ذارئع ترسیل نہ ہوتے، تو انسانی معاشرہ تہذیب وثقافت کے شائستہ تصور سے محروم رہتا اورجہالت و ناخواندگی کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہوتا۔
انسانی زندگی میں ابلاغ و ترسیل کو شہِ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔ اپنے خیالات و جذبات اور فکار و نظریات کے اظہار کے لیے اگر اس کو موقع نہ ملے تو وہ ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوکر مضطرب اور بے چین ہوجاتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف تمام ممالک کے دستور میں ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی اور فطری حق کی ضمانت دی گئی ہے؛ بلکہ اس حق کو سلب کرنے والے عوامل ومحرکات پر بھی قدعن لگانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ آج انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں آنے والے انقلابات نے دنیا کو چھوٹے سے گاوٴں میں تبدیل کر دیا ہے۔ آج آپ کے لیے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر جام جمشید کی طرح دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا مشاہدہ کر نا اور اس پر بر جستہ اپنی رائے دینا اوراس کو وسیع پیمانے پر پھیلانا ممکن ہے۔ انٹرنیٹ جیسے جامِ جہاں نما کے وجود میں آنے کے بعد تو ساری کائنات ایک چھوٹے سے بکس میں قید ہوگئی ہے اور آپ جب اور جس وقت چاہیں اس کے ذریعے کائنات کے طول و عرض کی سیر کرسکتے ہیں۔ آج ذرائع ابلاغ کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا ہے۔ ای میل، ٹویٹر، اسکائپ اور فیس بک کی وساطت سے اپنے خیالات کی ترسیل ممکن ہے۔اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ وغیرہ ذرائع ابلاع کے اہم ستون ہیں۔ میں انھیں عوامی ذرائع ابلاغ کے ارد گرد اپنی گفتگو مرکوز رکھوں گا۔
ابلاغ کے غیراسلامی تصورات
ذرائع ابلاغ کو آزادچھوڑدینے یا اس کو قانون وضابطے کا پابند بنانے کے تعلق سے، ماضی میں بہت سے نظریات وتصورات رائج تھے۔ انھی میں سے ایک مقتدرانہ نظریہ ابلاغ ہے،اس کے بانیوں میں مشہور فلسفی افلاطون کا نام سرِ فہرست آتا ہے۔ذرائع ابلاغ کو پابندِ سلاسل کرنے اور حکومت و ریاست کو مکمل با اختیار بنانے کے حوالے سے افلاطون کا یہ قول بڑا مشہور ہے کہ:”اگر ریاست میں اختیارات کو بہت سے افراد میں تقسیم کردیا جائے توریاست کا زوال شروع ہوجاتا ہے؛ اس لیے حاکم کو چاہیے کہ ریاست کے انتظام میں عوام کے عمل دخل کو محدود کردے۔“ (تاریخ صحافت ، افتخار کھوکھر، ص: ۱۸۸) اس نظریہٴ ابلاغ کی رو سے تمام اختیارات صرف اور صرف ریاست کو حاصل تھے، حکومتِ وقت ہی سارے سیاہ و سفید کی مالک ہوا کرتی تھی۔اِبلاغ و ترسیل کے تمام ذرائع پر حکومت اور بالا نشیں طبقوں کا مکمل کنٹرول تھا۔ اخبارات اور صحافی کے پیروں میں حکومت اور مقتدر طبقے نے پابندیوں کی زنجیر ڈالی ہوئی تھی، وہ کوئی ایسا مواد مشتہر نہیں کرسکتے تھے، جس میں حکومت اور فرماں روائے وقت یا حکومتی اہل کاروں کی پالیسیوں پر جرح و تنقید کی گئی ہو۔ پریس کو حکومت کی پالیسیوں میں مداخلت سے باز رکھنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ حکومت کی پالیسیوں اور منصوبوں کو رو بہ عمل لانے میں کسی عوامی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور عوام حکومت کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کی تکمیل میں خاموش رہیں۔گویا اس نظریہٴ ابلاغ نے انسانوں کو فکر و نظر اور اظہار رائے کی آزادی سے کلیتاً محروم کر دیا تھا۔ یہ نظریہ پندرہویں اور سولہویں صدی تک جاری رہا۔آج بھی بہت سے عربی اور غیر عربی ممالک میں یہ نظریہ دوسرے ناموں سے نافذ العمل ہے جس کے تحت حکومت کی مرضی اور منشاء کے خلاف کسی کو بھی حرفِ شکایت زبان پر لانے کی اجازت نہیں۔ لیکن؛ جب اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی حکومتوں کے نمائندوں نے ساری حدیں توڑ دیں اور پانی سر سے اونچا ہو گیا تو عرب کے جوشیلے جوانوں نے فطری آزادی کی لیلائے آرزو کو حاصل کرنے کے لیے حالیہ سالوں میں وہ جدو جہد کی ہے، جس سے عرب کی ماضی کی تاریخ ناآشنا ہے۔ مصراور لیبیا کے انقلابات نے اس سچائی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ انسانی آزادی کو سلب کرنے والی طاقتوں کے لیے اس روئے ارضی پر کوئی جگہ نہیں ہے۔
قید و بند سے عبارت اس نظریے کے ردِ عمل کے طور پر ایک دوسرے نظریہ نے جنم لیا، جو مادر پدر آزادی کا حامی تھا۔ یہ نظریہ آزادی پسندانہ نظریہ ابلاغ کے طور پر تاریخ میں جانا گیا؛چوں کہ اس عہد میں سائنسی دریافتوں نے انسان کو عقلیت کا سبق سکھایا تھا اوروہ ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ہی اس کو اپنی زندگی میں رو بہ عمل لاتاتھا؛ اس لیے انھوں نے ما قبل کے نظام حکومت میں عائدقید و بند سے آزادی کے لیے ایک ایسے نظریے کا سہارا لیا، جس میں فرد کو ساری آزادی میسر تھی۔آزادی پسندانہ نظریہ ابلاغ کو امریکی حکمرانوں نے خوب شہہ دی اور سب سے پہلے امریکی دستور میں یہ ترمیم کی گئی کہ کانگریس کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی، جس سے تحریرو تقریراور ذرائع ابلاغ کی آزادی پر حرف آتا ہو۔ کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے حکمراں طبقوں نے اس نظریہ کو اپنے ملکوں میں خوب پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ مقتدرانہ نظریہ ابلاع میں تمام اختیارات ریاست اور حکمراں طبقے کو حاصل تھے، اس کے بر عکس آزادی پسندانہ نظریہ ابلاغ میں ہر فرد کو یہ آزادی دی گئی تھی کہ وہ جو چاہے، جس طرح چاہے اور جس کے خلاف چاہے تقریر اور تحریر کے سہارے اس کا اظہار کر سکتا ہے۔مملکت یا حاکم وقت کو اس کے دست وبازو کو پکڑنے اوراس کو مہربہ لب کرنے کا حق نہ ہوگا۔
کمیونسٹ نظریہٴ ابلاغ بھی اشتراکیت کے عروج کے دنوں میں کافی موضوعِ بحث رہا۔ کمیونسٹ نظریہٴ ابلاغ میں اظہاررائے اور فکر و نظر کی آزادی کو حکومت کی پالیسیوں کی تشہیر تک محدود کردیا گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ اس بات کے پابند تھے کہ وہ عوام میں جاکر انھیں حکومت اور پارٹی کی پالیسیوں سے آگاہ کرائیں اور مملکت کے بنیادی نظریے یعنی کمیونزم کی تشہیر کریں اور اس نظریے کو اپنانے کے لیے عوام کی ذہن سازی کریں۔ مطلب یہ کہ کمیونسٹ نظریہٴ ابلاغ بھی کسی نہ کسی شکل میں مقتدرانہ نظریہٴ ابلاع کا ہی چربہ تھا۔ اس میں بھی عوام مجبور و مقہور اور مہر بہ لب تھے۔ یہ سارے نظریات افراط و تفریط کا شکار تھے، کسی مہذب سماج اور انسانی معاشرے میں نہ تو کسی فرد کو مکمل اظہار کی آزادی دی جاسکتی ہے کہ وہ شُترِ بے مہار بن جائے اور آزادی اظہار کے پردے میں دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنے۔ اور نہ ہی انسانوں کی فکر و نظر کی آزادی کوبے جاقانون و اصول کا سہارا لے کر اس طرح قید و بند کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے فطری اور پیدائشی حق کے لیے بھی آواز بلند نہ کرسکیں۔(تلخیص از:تاریخِ صحافت، ص:۱۸۷ تا ۲۰۰)
ذرائع ابلاغ کا اسلامی تصور
پریس اور میڈیا ہمارے ترقی یافتہ دور کی ایجاد کردہ اصطلاحیں ہیں۔پہلے اس قسم کی اصطلاحات سے انسانوں کے کان مانوس نہیں تھے؛ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام جو حیات سے لے کر ممات اور فرد کی خانگی زندگی سے لے کر معاشرتی اور سیاسی زندگی کے تمام مسائل کو محیط ہے، اس میں ذرائع ابلاغ یا پریس کے حوالے سے قرآن و حدیث میں احکامات اور ہدایات نہ دی گئی ہوں۔اسلام تو ایک مکمل نظامِ حیات کا نام ہے۔اسلام زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی رہ نمائی کے لیے قانون وضع کرتا ہے۔پریس یا میڈیا فکر و نظر کی آزادی کا ہی نام ہے، جس میں صحافی اور رپورٹر سامعین اور قارئین کو اپنی فکر و نظر سے کام لے کر ایسا سچا اور با مقصد مواد دیتا ہے، جس کو وہ صحیح اور معتبر تصور کرتا ہے۔ فکر و عمل کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کا باب پریس اور میڈیا کی آزادی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ ایک مثالی اسلامی ریاست میں عقیدے اور مذہب کی آزادی کے ساتھ فکر و نظر کی بھی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔
اسلام چوں کہ رہتی دنیا تک لیے ایک جامع دین بن کر آیا ہے؛ اس لیے اس میں میڈیا اور پریس کے حوالے سے بھی ضابطہ اور قانون موجود ہے،اسلام میں میڈیا کی کتنی اہمیت ہے اور ان ذرائع ابلاغ کو انسانی زندگی میں کتنا بڑا اور اہم مقام حاصل ہے، اس کا اندازہ کرنے کے لیے ہمیں ان آیتوں کا مطالعہ اور ان کے مفاہیم میں غور کرنا چاہیے جن سے اسلام کے داعیانہ پہلو پر روشنی پرتی ہے۔ اُدْعُ الیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ،(نحل:۱۲۵) وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّةٌ یَدْعُوْنَ الیٰ الْخَیْرِ (آل عمران، ۱۰۴)کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(آل عمران، ۱۱۰) وَذَکِّرْ فَانَّ الذِّکْریٰ تَنْفَعُ المُوٴمِنِیْنَ، (ذریات، ۵۵) بَلِّغُوْ عَنّی وَلَوْ آیةً اور نَضَّرَ اللہُ امْرَئًا سَمِعَ مَقَالَتِيْ الخ وغیرہ میں اسلام کے جس آفاقی پیغام کے ابلاغ وترسیل کا امت مسلمہ کو حکم دیا گیا ہے، کیا اس کی وسیع اور عالمی پیمانے پردعوت اور اشاعت، سائنس و ٹکنالوجی کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کے سہارے کے بغیر ممکن ہے۔
اسلامی نظریہٴ ابلاغ کسی انسانی فکر کا زائیدہ یا محض عقلی بنیادوں پر انسانوں کا تیار کردہ نہیں ہے ،وہ قرآ ن وحدیث سے ماخوذ و مستنبط ہے۔ انسان کی فطری آزادی سے لے کر ذرائعِ ابلاغ کی آزادی تک کا سارا نظام عمل انہی اسلامی احکامات و ہدایات پر مبنی ہے۔اسلامی نظریہٴ ابلاغ میں جہاں ذرائع ابلاغ کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے، وہاں اس کو بہت سی اخلاقی شرائط اورسماجی و معاشرتی قوانین کا پابند بھی بنایا گیا ہے؛تا کہ دیگراسلامی نظریہ کی طرح یہاں بھی توازن و اعتدال برقرار رہے۔اسلامی نظریہٴ ابلاغ میں نہ مقتدرانہ نظریہٴ ابلاغ کی طرح انسانوں کی آزادی کو مکمل طور پر سلب کیا گیا ہے اور نہ ہی آزای پسندانہ نظریہٴ ابلاغ کی طرح ایسی مادر پدر آزادی دی گئی ہے کہ فرد کی آزادی کے پردے میں دوسرے انسانوں کی آزادی پر انگشت نمائی کی جائے اور ان کی پرائیویٹ اور نجی زندگی میں بھی مداخلت کی جائے۔ اگر اظہار کی آزادی کی آڑ میں ذرائع ابلاغ کے اس سر کش گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا جائے، تو یہ ایمانیات کے ساتھ انسانوں کی اخلاقیات کو بھی پیروں تلے روند کر دکھ دے گا۔
اسلام میں اظہار کی آزادی محض ایک انسانی حق ہی نہیں؛ بلکہ یہ امتِ مسلمہ اور ذرائعِ ابلاغ کا ایک دینی اور اخلاقی فرض بھی ہے؛ اس لیے نہ کوئی فرد، نہ کوئی حکومت اور نہ ہی کوئی ادارہ انسانوں سے ان کی فطری آزادی کو سلب کرسکتا ہے، اور نہ اس کو چیلنج کرسکتا ہے؛ البتہ اتنی شرط ضرور عائد کی جائے گی کہ کوئی بھی ذریعہٴ ابلاغ کوئی ایسی خبر یا بات کی تشہیر نہ کرے، جس سے مفادِ عامہ کو زد پہنچے۔ جو اسلامی اقدار کے منافی ہو اور جس میں انسانیت اور انسانی سماج کی تعمیرکے بجائے تخریب کے عوامل پنہاں ہوں۔ اسلام میں ذرائع ابلاع کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے عوام الناس تک سچی اور صحیح خبر پہنچائی جائے۔ ذرائع ابلاغ سچ کے اظہار میں کسی لالچ یا مداہنت کا شکار نہ ہوں۔ ذرائعِ ابلاغ صرف ایسی معلومات کی اشاعت کریں، جن سے سامعین اور قارئین کے اندر نیکی اور تقویٰ کا عنصر پیدا ہو۔ وہ کسی ایسی خبر کی اشاعت سے باز رہیں، جس کا مقصد ان کی اخلاقیات پر حملہ کرنا ہو اور اس سے دوسروں کی دل آزاری یا دوسرے ادیان و ملل کی تحقیر ہو۔
ذرائع ابلاغ کے اساسی اصول واقدار
فکر ونظر کی آزادی:
اسلام نے فکر و نظر کی آزادی کے ساتھ ہمیشہ آزادیِ رائے کا احترام کیا ہے اور ہر کس و ناکس کو اپنی بات رکھنے کا فطری حق دیا ہے۔ عہدِ نبوی اور خلفائے راشدین کے عہد سے لے کر، عہدِ بنی امیہ اور بنی عباسیہ تک کی پوری اسلامی تاریخ اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے کس درجہ شدت کے ساتھ حریتِ رائے کے تصور کی پرورش کی ہے اور اس کو انسانی معاشرے کا لازمی جز بنانے کی سعی کی ہے۔اسلام نے صرف آزاد مردو خواتین ہی نہیں؛ بلکہ غلاموں کو بھی اس حق سے محروم نہیں رکھا ہے۔ ذرا غزوہٴ احد کا وہ واقعہ اپنے ذہنوں میں تازہ کیجیے جب جلیل القدر صحابہٴ کرام کی یہ رائے تھی کہ کفارِ مکہ سے جنگ کے لیے مدینے سے باہرنکلنا مناسب نہیں ہے اور یہیں رہ کر جنگ کی جائے؛ لیکن معقول اسباب کی بنیاد پرچند نوجوانوں کی یہ رائے تھی کہ جنگ کے لیے مدینے کی آبادی سے باہر نکلنا زیادہ مناسب ہے۔اسی طرح غزوہٴ خندق کے موقع پر مدینے سے باہر خندق کھودنے کا فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی عمل نہیں تھا، بلکہ صحابہٴ کرام اور حضرت سلمان فارسی کے باہمی مشورے سے خندق کھودی تھی۔ حضرت ابو بکر اور حصرت عمر جنگی قیدیوں کے قتل اور انھیں فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے بارے میں مختلف الرائے تھے۔اسلام میں فکر و نظر کی آزادی کی ہی دین ہے کہ ایک عام آدمی بھی اپنے خلیفہ کا دست و بازو پکر سکتا ہے۔اور جب ایک قبطی نے حضرت عمر بن عاص اور ان کے بیٹے کی شکایت دربارِ عمری میں پیش کی تھی تو حصرت عمر نے نہ صرف یہ کہ اس غلام کو فوری انصاف دلایا تھا؛ بلکہ انھیں سخت ڈانٹ بھی لگائی تھی۔ اور اس وقت کے حضرت عمر کے ارشادت پر مبنی یہ مفہوم تو ہر کسی کے ذہنوں میں ہوگا کہ ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہونے والے بچے کو کسی کو غلام بنانے کا حق نہیں۔حضرت عمر کے الفاظ تھے: مَتیٰ اسْتَعْبَدْتُمْ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْھُمْ أمَّھَاتُھُمْ أحَرَارًا۔ اسی قسم کا واقعہ خلیفہٴ رابع حضرت علی سے بھی منقول ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا:”أیُّھَا النَّاسُ أنَّ آدمَ لَمْ یَلِدْ عَبْدًا وَلاَ أمَةً وَ أنَّ النَّاسَ کُلُّھُمْ أحْرَارًا“ لوگو!آدم کی کوکھ سے غلام یا باندی نے جنم نہیں لیا، سبھی لوگ آزاد ہیں۔ (نہج السعادة، ج:۱)
اسلام میں قیاس کو چوتھا فقہی اصول قرار دیا گیاہے، فقہاء اور ائمہ کے درمیان مسائل میں اختلافِ اظہار رائے کی آزادی کی ایسی مثال ہے، جس سے دوسرے مذاہب و ادیان تہی دست ہیں۔ فقہ میں جہاں چار بڑے مسالک کے ماننے والے ، دنیا کے مختلف گوشوں میں کہیں کم تو کہیں زیادہ موجود ہیں، وہیں فقہِ اوزاعی، فقہِ داوٴد ظاہری اور فقہِ جعفری و غیرہ بھی روئے زمین پر موجود ہیں، جن کی تقلید کرنے والوں کو نہ توکم تر سمجھاجاتا ہے اور نہ ہی اقلیت اور اکثریت کی مذموم بنیاد پر ان سے تعرض کیاجاتا ہے۔ فقہ میں تو ہُمْ رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَاٌل کا اصول چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی استاد کے مختلف شاگردوں نے دلائل کی بنیاد پر اپنے استاد کے نظریے سے اختلاف کیا ہے؛ بلکہ حدیث کے مطابق کسی غیر منصوص مسئلے میں غور و فکر کرنے والے ہر مجتہدکو اجر سے نوازا جاتا ہے، اگر چہ اس کا اجتہاد غلط ہی کیوں نہ ہو۔ معلوم ہواکہ اسلام آزادیِ فکر و نظر کا امین اور نقیب ہے۔ اس میں ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے؛ بشر طیکہ اس کی رائے نصِ صریح سے متصادم نہ ہو۔
ذیل کی سطروں میں ”مشتے نمونہ از خروارے“ کے طور پر ہم یہاں ان چندآزادیوں سے بحث کر رہے ہیں، جو اسلام نے فکر و نظر اور اظہار رائے کی آزادی کے تحت ذرائعِ ابلاغ کو عنایت کی ہیں۔
حکومتِ وقت سے سوال اور باز پرس کرنے کا حق:
اسلامی نظریہٴ ابلاغ کے مطابق صحافی اور اخبار نویس کو ملک کی سب سے بڑی اتھارٹی سے بھی سوال کرنے کا حق ہے۔ ایک صحابی نے حصرت عمر سے بھری مجلس میں یہ سوال کیا تھا کہ ہر صحابی کو تو مال غنیمت سے ایک چادر ملی ہے، آپ کے بدن پر یہ دو چادر کیسی ہے؟ تو حضرت عمر نے خلیفہ ہونے کے باوجود اس پر ناگواری کا اظہار نہیں کیا تھا اور انتہائی سنجیدگی سے یہ جواب دیا تھا کہ ایک چادر تو میرے حصے کی ہے اور دوسری چادر میرے بیٹے کے حصے کی ہے۔ اس سے بڑی آزادی کیا کسی جُمہوری ملک میں بھی کسی فرد یا ادارے کو میسر ہے۔ یہ صرف اسلام کا امتیاز ہے اور بس۔اسلام نے ہمیشہ شورائی نظامِ فکر و عمل کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی ہے ، جُمہوری نظام میں جہاں ریاست اور ملک کے ہر کس و ناکس کو حکمرانوں کے انتخاب کا قانونی حق حاصل ہوتا ہے، وہیں شورائی نظام میں یہ تعداد کم ہوجاتی ہے۔ شورائی نظام میں ہر فرد کی شرکت ضروری نہیں، بلکہ صرف اہل الرائے لوگ انتخاب کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ شورائی نظام کے مفقود ہونے کی وجہ سے ہی بہت سے عرب ممالک میں فکر و نظر کی آزادی حاصل نہیں ہے۔ عوام حکومتِ وقت کے خلاف لب کشائی کی جرأت کرنے سے محروم ہیں۔ فکر و نظر کی آزادی کو سلب کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بہت سے ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود دوسرے ممالک کے دست نگر اور محتاج بنے ہوئے ہیں اور وہاں کی فکری اور تخلیقی صلاحیتیں دوسرے ملکوں کے کام آرہی ہیں۔ ان ممالک میں کسی ایسی چیز کی اشاعت کا حق فرد کو حاصل نہیں ہے، جس سے حکومت کی پیشانی پر بل آتا ہو۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور اپنے افکار و نظریات سے عوام کو روشناس کرانے کے لیے امریکہ اور یورپ کے ممالک کا رخ کرتے ہیں، جہاں ان کے خیالات و نظریات کا فراخ دلی سے استقبال کیا جاتا ہے۔علمی تحقیق اور فکری پرورش کے لیے آزادیِ اظہار کی سہولت ناگزیر ہے۔ ہم چند صدیاں پہلے اگر دنیا کے نقشے پر چھائے ہوئے تھے اور نئی نئی تحقیقات سے دنیا کو روشناس کرارہے تھے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہمارے یہاں اختلاف اور اظہار مافی الضمیر کی آزادی ہر کس وناکس کو میسر تھی۔
ظلم اور نا انصافی کے خلاف احتجاج کی آزادی:
اسلام نے فرد کے ساتھ ادارے اور ذرائعِ ابلاغ کو جتنی آزادیاں دی ہیں، ان میں ایک اہم حق احتجاج کا حق بھی ہے۔ ذرائعِ ابلاغ کو جہاں کہیں بھی ظلم اور نا انصافی ملے، اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے اور مظلوموں کی حمایت میں انسانی غیرت اور حمیت کا ثبوت دینا چا ہیے۔ قرآن کریم کی آیت ہے : لاَ یُحِبُّ اللہُ الْجَھْرَ بِالسُّوءِ الاَّ مَنْ ظُلِمْ(نساء، ۴۸)۔حدیث شریف ہے۔ مَنْ رَایٰ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بَیَدِہ، فَانْ لَمْ یَسْتَطِعْ، فَبِلِسَانِہ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہ وَذَلِکَ أضْعَفُ الْایْمَانِ ۔اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے: أفْضَلُ الْجِہَادِ کَلِمَةُ حقٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ۔(ترمذی کتاب الفتن، حدین نمبر: ۲۱۷۴)
مناظرے اور باہمی تنقید کی آزادی:
آج کل کے اخبارات اور نیوز چینلز کا یہ خاص وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ چند ماہرین کو بلا کر کسی خاص موضوع پرمباحثے اور مناظرے کراتے ہیں، اس مباحثے میں موضوعات کی تحدید نہیں ہوتی، اس کا موضوع سیاسی بھی ہوتا ہے اور سماجی بھی، مذہبی بھی ہوتا ہے اور تعلیمی بھی۔ اس قسم کے مباحثوں میں ایک فریق دوسرے فریقِ مخالف کو شکست دینے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے فریقِ مخالف پر جرح و تنقید سے بھی کام لیتا ہے۔ اسلام نے اس قسم کے مباحثے اور مکالمے کی آزادی دی ہے، بشرطیکہ اس میں کسی قسم کے خلافِ شرع امر کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔ اور تنقید و جرح تعمیری ہو، تخریبی نہ ہو۔بات وزن دار ہو، دلائل سے مزین ہو، اس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ وَلاَ تُجَادِلُوْا أھْلَ الْکِتَابِ الاَّ بِالَّتِيْ ھِيَ أحْسَنُ(عنکبوت:۴۶)آیت میں اگر چہ خطاب یہود سے ہے؛ لیکن اس کے عموم پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے۔
شہادت کی آزادی:
ذرائع ابلاغ کی وساطت سے منظرِ عام پر آنے والی خبروں کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ مقامی انتظامیہ سے لے کر ریاستی اور مرکزی حکومت بھی حرکت میں آجاتی ہے اور اس کی بنیاد پر کارروائی کرنے کو تیار ہو جاتی ہے ۔ روزانہ ایسے کتنے معاملات ہماری نظروں سے گزرتے ہیں، جن میں حکومت میڈیا میں شائع ہونے والی خبر وں کی وجہ سے مجرمین کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتی ہے اور اگر کسی بے قصور شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور میڈیا والے اس کی بے گناہی پر کوئی خبر یا مضمون چھاپ دیتے ہیں، توحکومت اس بات پر مجبور ہوتی ہے کہ وہ اس شخص کو بری کردے۔ شہادت اور گواہی کی اس اہمیت اور تاثیر کو مد نظر رکھتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو کسی کی حمایت یا کسی مجرم کی مخالفت میں گواہی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام نے شہادت کو چھپانے والے کو سخت وعید اور دھمکی دی ہے(بقرہ، ۲۸۳)۔
اقرباء اور رشتے داروں کے خلاف گواہی دینے کی آزادی بھی ذرائع ابلاغ کو حاصل ہے، جس کا اظہار کرنا صروری ہے۔ چاہے وہ اس کے اقربا اور رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ شرعیت اسلامیہ کا حدود و تعزیر پر مبنی نظامِ عدل و انصاف کی روشنی کاایک مینارہ ہے، جس میں اشراف و ارذ ال، بادشاہ و رعایا اور امیر و غریب سب برابر ہیں۔ اس نظام میں ہر حق دار ، خواہ وہ ظالم ہو یامظلوم، کے حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس نظام میں نہ کسی پر ظلم و زیادتی ہوگی، نہ استحقاق سے زیادہ اس کو سزا دی جائے گی۔ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ وہ کسی مفسدے سے عوام کو باخبر کرنے اور کسی جرم اور بد عنوانی کا پردہ فاش کرنے میں مداہنت اور مصالحت سے کام نہ لیں؛کیوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے: اے ایمان والو! انصاف قائم کرنے والے بنو، اللہ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمھارے اپنے خلاف پڑتی ہو، یاوالدین اور قریبی رشتے داروں کے خلاف۔وہ شخص(جس کے خلاف گواہی دینے کا حکم دیا جارہا ہے) چاہے امیر ہو یا غریب، اللہ دونوں قسم کے لوگوں کا (تم سے)زیادہ خیر خواہ ہے، لہذا ایسی نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلنا جو تمھیں انصاف کرنے سے روکتی ہو(نساء:۱۳۵)
جرائم کا پردہ فاش کرنے کی آزادی:
اسٹنگ آپریشن میڈیا والوں کا آج کا محبوب مشغلہ ہے۔ کسی کی شبیہ مسخ کرنا ہو تو وہ اسٹنگ آپریشن کا سہارا لیتے ہیں۔ اسلام نے کسی کی نجی زندگی میں تو مداخلت سے منع کیا ہے؛ لیکن اگر کسی شخص کے حرکت و عمل سے مفادِ عامہ پر ضرب پڑتی ہو تو ایسے جرم کا پردہ فاش کیا جاسکتا ہے۔ بنگارو لکشمن کی رِشوت سِتانی کا معاملہ ہو یا پارلیمنٹ میں ووٹ فار کیش کا معاملہ یا نیرا راڈیا والا کیس؛ ان سارے مقامات پر میڈیا کے جرأت مند رپورٹرس نے ان کے چہرے سے نقاب اتار کر ملک اور قوم کی عظیم خدمت انجام دی ہے۔ قرآن کریم میں کسی کی ٹوہ میں لگنے سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن اگر کسی مشتبہ شخص کے بارے میں معتبر ذرائع سے معلوم ہوجائے کہ وہ کوئی خطرناک کام کرنے جارہا ہے، تو اس کے جرم کو طشت ازبام کرنا صروری ہوجاتا ہے۔ گھروں میں جاسوسی کے آلات نصب کرنے، کسی شخص کے ٹیلی فون کال ٹیپ کرنے وغیرہ اس قسم کی جتنی صورتیں ہوسکتی ہیں، ان پر اسی حکم کا اطلاق ہوگا۔
اگر آثار وقرائن سے کسی ممنوع اور مخالف شریعت امر کا علم ہوجائے، تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک# یہ کہ اس کی تلافی بالکل ممکن نہ ہو۔ جیسے یہ کہ کوئی اجنبی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت میں ہے، یا کوئی شخص کسی آدمی کے قتل کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ تو ایسی صورت میں ایک صحافی اور رپورٹر تحقیق اور تجسس کرسکتا ہے۔ دوسری# صورت یہ ہے کہ یہ جرم اس سے کمتر درجے کا ہو۔ اور اس کا جرم متعدی نہ ہو۔
حمایت و مخالفت کا اسلامی اصول: ِ
ذرائع ابلاغ پروپیگنڈہ اور تشہیر کا مضبوط وسیلہ ہیں۔ عوام ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹ اور تجزیوں کی بنیاد پر بہت سے فیصلے کر لیتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ عوام کی ذہن سازی میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔حمایت و مخالفت کی مختلف شکلیں اس وقت دیکھنے کو ملتی ہیں، جب ملک میں اسمبلی یا لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہوتے ہیں۔ اس وقت اشتہارات مضامین اور خبروں اور تبصروں کی وساطت سے اپنے پسندیدہ امیدوار کی حمایت اور فریقِ ثانی کی مخالفت کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے حمایت ومخالفت کا بھی اصول متعین کردیا ہے۔ کسی سے محبت بھی ہو تو اللہ کے لیے اور کسی سے بغض و عداوت بھی ہو تو اللہ کے لیے۔ حمایت و مخالفت کو سفارش کے لفظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ کسی کی سفارش اسی بنیاد پر کی جائے کہ وہ شخص واقعی اس عہدے یا مرتبے کا مستحق ہو۔
لیکن ذرائع ابلاغ کو ان امور میں سفارش سے باز رہنا چاہے جن کا تعلق حدودوقصاص سے ہے۔حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ قریشیوں کے ہاں ایک مخزومی عورت کا معاملہ پیش آیا، اس نے چوری کی تھی۔ قریشیوں نے کہا کہ اس کے بارے میں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون بات کرے گا۔؟(یعنی ہاتھ نہ کاٹنے کی سفارش کون کرے گا؟)لوگوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی جرأت کون کرے گا؛ البتہ اسامہ بن زید بات کرسکتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے ہیں۔ چناں چہ حضرت اسامہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کررہے ہو؟ پھر کھڑے ہوئے اور خطبہ دے کر فرمایا: تم سے پہلے کی امتیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ ان لوگوں میں جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو وہ اس چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی ان میں کا کمزور چوری کرتا تو وہ ا س پر حد قائم کرتے تھے۔ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی، تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا۔(بخاری، کتاب الحدود، حدیث نمبر:۶۷۸۹)
فریقِ مخالف کے لیے کوئی ایسانازیبا لفظ استعمال نہ کیا جائے کہ وہ اس کے جواب اور ردِ عمل کے طور پر ایسا جواب دے، جس سے آپ کی توہین یا تضحیک ہوتی ہو۔ قرآن کریم میں ہے: وَلاَ تَسُبُّو الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ عَدُوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ(انعام، ۱۰۹)
با اثر افراد کے خلاف اظہارِ رائے کی آزادی:
آج کے جتنے ذرائع ابلاغ ہیں، ان پر چند با اثر افراد یا سیاست دانوں کا کنٹرول ہے۔ آج کل کے اخبارات کارپوریٹ گھرانے نکالتے ہیں، نیوز چینلز پر بھی انھی کا مالکانہ کنٹرول ہے۔ جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے سمجھوتہ کرکے ان کی تشہیر اور حمایت میں فضا سازگار کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ااور مشہور صحافی سنتوش بھارتی کی مانیں، توآج کا میڈیا بکا ہوا ہے۔ اس نے اپنی بولی لگادی ہے۔آج کا میڈیا صرف اسی خبر کو مشتہر کرتا ہے، جس سے اس کے مخالف کی شبیہ شکنی اوراس کی شبیہ سازی ہوتی ہو۔ موجودہ عہد کے صحافی اور رپورٹر ان مشتبہ خبروں کو منظرِ عام پر لانے سے گھبراتے ہیں، جو با اثر افراد سے تعلق رکھتی ہیں؛ جب کہ اسلامی نقطئہ نظر یہ ہے کہ اس قسم کی خبروں کی اشاعت جس سے مفادِ عامہ و ابستہ ہواور اس سے کسی پر ذاتی تنقید اور کیچڑ اچھالنا مقصود نہ ہو، کو کسی ملامت اور خوف کی پروا کیے بغیر مشتہر کیا جائے۔ وہ اس خبر کی اشاعت میں اس شخص، ادارے، تنظیم، حکومت کے اثرو رسوخ، جنگی ساز و سامان، طاقت و قوت اور فوجی طاقت کو خاطر میں نہ لائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ألاَ لاَ یَمْنَعَنَّ رَجُلاً ھَیْبَةُ النَّاسِ أنْ یَقُوْلَ بِحَقٍ اذَا عَلِمَہ:خبر دار!جو تم کسی شخص کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حق کے اظہار میں تردد سے کام لو۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر)
با مقصد تفریح کی آزادی:
اسلام نے حیا سوز اور انسانی معاشرے پر بُرا اثر مرتب کرنے والے تفریحی پروگرام کی اجازت تو نہیں دی ہے، جیسا کہ آج کل کے تجارتی چینل کا یہ ذہن بن گیا ہے کہ وہ تفریح کے نام پر ہر قسم کے ما ورائے اخلاق پروگرام پیش کرتے رہتے ہیں اور اس کو تفریح اور ذہنی تسکین کا ذریعہ قرار دیتے نہیں تھکتے۔لافٹر انڈیا ، ڈانس انڈیا ڈانس ،بگ باس اور مختلف ریئلٹی شوز پر جس قسم کے بے سروپا پروگرام کے ذریعے ذہنی آسودگی کا دعوی کیاجاتا ہے، وہ ہمارے معاشرے اور بچوں پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔اور معصوم ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں۔ذہنی آسودگی کے لیے اسلام نے تفریحی پروگرام اور مزاحیہ لٹریچر بھی شائع کرنے کی اجازت دی ہے۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام سے مزاح فرمایا ہے۔ جو مزاح نگاری اور فکاہیہ چینلز کے لیے اسوہٴ حسنہ کا درجہ رکھتے ہیں؛ لیکن یہاں بھی وہی شرط ہے کہ یہ تفریح کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنے۔ جیساکہ آج کل کے ریئلٹی شوز کا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ تفریح کے نام پر ہمارے ذہنوں میں برائی اور بد اخلاقی کا زہر گھول رہے ہیں۔ راجو شری واستو، سنیل پال اور احسان قریشی جیسے انٹر ٹینر تفریح کے نام پر دوسروں کی پگڑی اچھالنے کا جرم کرتے ہیں اور اس کو تفریح کے نام پر جواز کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ اسلام میں اسی تفریحی پروگرام کی اجازت ہے، جو طنز و تضحیک اور توہین پر منتج نہ ہو۔ اے ایمان والو! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ(جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑارہی ہیں)خود ان سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں۔ (حجرات: ۱۱)
ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ (مسلم: کتاب البر والصلة، حدیث نمبر، ۲۵۶۴)
مذاق اور تمسخر سے دشمنی سر ابھارتی ہے، اس سے لوگوں میں اختلاف اورتنازع کو ہوا ملتی ہے۔ ٹکراوٴ اور تصادم کی آگ بھڑک اٹھتی ہے؛ اسی لیے علامہ عبد الرحمن سعدی نے لکھا ہے:تمسخر انھی لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے، جن کا دل بُرے اخلاق و آداب کی آماجگاہ اور ساری مذموم خصلتوں کا مرکز ہوتا ہے۔ (تفسیر سعدی، ج:۷، ص:۱۳۵)
ایسے تمسخر کی ممانعت کے سلسلے میں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج واضح اور ٹھوس تھا، جس کا نتیجہ لوگوں کی توہین و تضحیک کی شکل میں بر آمد ہوتا ہو۔ ہم یہاں صرف دو مثالیں بیان کرنا چاہیں گے۔
پہلی مثال حضرت ابو ذر غفاری کی ہے، وہ روایت ہے کہ میں نے ایک آدمی سے گالم گلوچ کی اور اس کی ماں کو گالی دے ڈالی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: ابو ذر! کیاتم نے اس کی ماں کو گالی دی، بلا شبہ تم ایسے آدمی ہو، جس میں جاہلیت کی عادت ہے۔(بخاری، کتاب الایمان، حدیث نمبر:۳۰)
دوسری مثال حضرت عائشہ کی ہے وہ فرماتی ہیں:میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت صفیہ کا فلا ں فلاں عیب یعنی صفیہ کا پست قد ہونا کافی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! تم نے ایسی بات زبان سے نکالی ہے کہ اگروہ دریامیں گھول دی جائے تو وہ دریا پر غالب آجائے۔ حضرت عائشہ نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی نقل اتاری، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نہیں چاہتا کہ کسی انسان کی نقل اتاروں اگرچہ مجھے اتنا اتنا روپیہ ملے۔(ابو داوٴد، کتاب الادب، حدیث نمبر:۴۸۷۵)
خلاصہ یہ کہ ذرائع ابلاغ کی مثال چھری کی ہے کہ اس کے ذریعے پھل بھی توڑاجاسکتا ہے اور کسی کی گردن بھی۔ وہ محتسب کا کردار ادا کرکے کسی کی جان اور عزت و آبرو بھی بچا سکتا ہے اور کسی رہزن کا بھیس بدل کر کسی کی جان اور عزت و آبرو سے کھیل بھی سکتا ہے۔ وہ ظلم وستم اور جبر و تشدد کی حمایت اور بے حیائی اور بد اخلاقی کا پرچار بھی کرسکتا ہے اور اصلاح و تبلیغ کے میدان میں مصلح و مبلغ کا رول بھی ادا کرسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ ذرائعِ ابلاغ فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے حسن و قبح اور جواز و عدم جواز کا دار و مدار اس کے استعمال اور نیت ومقصد پر موقوف ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جہاں ذرائع ابلاغ کو اسلامی قانون اور ضوابط کی روشنی میں ملنے والے حقوق دیے جائیں، وہیں ان پر ایک محتسب اور نگراں بھی مقرر کردیا دیاجائے۔ تا کہ میڈیا ہر قسم کی بے راہ روی اور انحراف سے دور رہ کر معاشرے کی تعمیر اور ترقی کے لیے کام کر سکے۔ میڈیا میں در آنے والی برائیوں اور بے راہ روی کی وجہ سے ہی پریس ایسو سی ایشن کو گائڈ لائن جاری کرنی پڑتی ہے۔اور پریس کونسل کے چیئرمین کو میڈیا کے اہل کاروں کو کھری کھوٹی سنانی پرتی ہے؛ اس لیے یہ ضروری ہے کہ میڈیا ہر قدم پر بین الاقوامی ضابطہٴ اخلاق کی پابندی کرتے ہوئے حقائق کی ایسی ترجمانی کرے کہ اس کے ذریعے ایک صحت مند ،بد عنوانی اور ہر قسم کی برائی سے پاک معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں رہ نمائی مل سکے۔وہ خبروں کو نشر کرتے وقت فلاحِ عامہ اور انسانی عظمت و شرافت کا خیال رکھے۔ تعلیمی معلوماتی اور تفریحی مواد کی اشاعت کے وقت حزم و احتیاط کا دامن تھامے رکھے۔ مملکت اور ریاست کے حقوق اور اس کی عزت و توقیر کے تعلق سے اپنی ذمے داری کا ثبوت دے، جنسی جرائم اور بے حیائی پر مبنی پروگرام کی اشاعت سے اجتناب کرے، تا کہ میڈیا کا صاف ستھرا چہرہ عوام کے سامنے آئے اور اس کی معتبریت پر حرف نہ آئے۔ متنازعہ امور کی رپورٹنگ کرتے وقت اس بات کا خاص طور پر دھیان رکھا جائے کہ اس سے کسی خاص فریق کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ جیسا کہ دہشت گردی سے متعلق واقعات میں عموما ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ ذرائعِ ابلاغ اس واقعے پر ایسے سطحی تبصرے اور تجزیے نشر کرتے ہیں، جن سے ایک مخصوص طبقے کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بو آتی ہے۔
نیوز چینل اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ نیم عریاں رقاصاوٴں اور فلمی اداکاروں کے ذریعے، ماورائے اخلاق پروگرام نشر کرکے فحاشی اور عریانیت کو فروغ نہیں دیں گے، چاہے ان کا TRP نیچے کیوں نہ آجائے اورانھیں اس کی بھاری سے بھاری قیمت ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔اور اخلاقیات کو کبھی بھی اقتصادیات کے تابع نہیں بنائیں گے، انھیں خطوط پر عمل کرکے ذرائع ابلاغ کی آزادی کا صحیح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اور اسلامی شریعت کی رو سے ملنے والی صحافتی آزادی کا بھرپور استعمال کیاجاسکتا ہے۔ اور اسی میں ذرائع ابلاغ کی دائمی عزت و عظمت اور آبرو کا راز مضمر ہے۔
***
نوٹ: اس مقالے کی تیاری میں قرآن وحدیث کے علاوہ درج ذیل ارود کتابوں سے جزوی مدد لی گئی ہے:
(۱)اسلام کا قانونِ صحافت، ڈاکٹر لیاقت علی خاں نیازی، بک ٹاک، ٹمپل روڈ لاہور، ۱۹۹۵ء
(۲)تاریخِ صحافت، افتخار کھوکھر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوٴس، دہلی، ۲۰۰۹ء
(۳) اسلامی صحافت، عبد السلام زینی، مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی، ۱۹۹۰ء
(۴) مغربی میڈیا اور اس کے اثرات، نذرا لحفیظ ندوی، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنوٴ، ۲۰۰۱ء
(۵) میڈیا:اردو اور جدید رجحانات، سہیل انجم، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوٴس، دہلی ۲۰۱۰ء۔
***
—————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 6 ، جلد: 97 ، شعبان 1434 ہجری مطابق جون 2013ء