از: مولانا عبداللطیف قاسمی‏، استاذ جامعہ غیث الہدیٰ بنگلور

                دنیا کی تمام متمدن ومہذب قوموں میں ملاقات کے وقت پیار ومحبت، جذبہٴ اکرام وخیراندیشی کا اظہار کرنے اورمخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج ہے، ہمارے ملک میں ہمارے برادران وطن ملاقات کے وقت ”نمستے“ کہتے ہیں، اس نام نہاد ترقی یافتہ زمانہ میں Good Night/ Good Morning اور بعض روشن خیال حضرات ”صبح بخیر“ ”شب بخیر“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، حضرت عمران بن حصین کا بیان ہے کہ قبل از اسلام عرب کی عادت تھی، کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو ”حَیَّاکَ اللہُ“ (اللہ تم کو زندہ رکھے) ”أنْعَمَ اللہُ بِکَ عَیْنًا“ (اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ کو ٹھنڈا کرے) ”أَنْعِمْ صَبَاحًا“ (تمہاری صبح خوش گوار ہو) وغیرہ الفاظ استعمال کیا کرتے تھے، جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی، یعنی اس کے بجائے ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ کی تعلیم دی گئی، جس کے معنی ہیں ”تم ہر تکلیف اور رنج ومصیبت سے سلامت رہو“ ابن العربی نے احکام القرآن میں فرمایا: لفظ ”سلام“ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے اور ”السلام علیکم“ کے معنی ہیں ”اللہ رقیب علیکم“ اللہ تمہارا محافظ ہے (مستفاد ازمعارف القرآن ۲/۵۰۱)

سلام کی جامعیت ومعنویت:

                سلام نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے کہ یہ کلمہ پیار ومحبت اوراکرام کے اظہار کے لیے بہترین لفظ ہے اوراس کی کئی معنوی خصوصیات ہیں:

(۱)          سلام اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے ہے۔ (بخاری ۲/۹۲۰ کتاب الاستیذان)

(۲)         اس کلمہ میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں؛ بلکہ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ تمام آفات اور آلام سے محفوظ رکھیں۔

(۳)         عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی دعا نہیں؛ بلکہ حیاتِ طیبہ کی دعاء ہے۔

(۴)         سلام کرنے والا اپنی زبانِ حال سے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال اور آبرو کا میں محافظ ہوں۔

(۵)         تذکیرہے، یعنی اس لفظ کے ذریعہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو اس کے ارادہ ومشیت کے بغیر نفع، ونقصان پہنچانہیں سکتے۔

(۶)          یہ کلمہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت، مرحمت اور پیار ومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لیے اکرام وتعظیم کا لفظ بھی۔

(۷)         قرآن مجید میں یہ کلمہ انبیاء ورسل علیہم السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال ہوا ہے اوراس میں عنایت اور محبت کا رس بھرا ہوا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے، سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍ فِي الْعَالَمِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ، سَلاَمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَھَارُوْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی الْمُرْسَلِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی عِبَادہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی․

(۸)         رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی اسی طرح سلام عرض کیا جاتاہے۔

(۹)          تمام ایمان والوں کو نماز میں بھی اس لفظ سے نبی علیہ الصلوٰة والسلام پر دُرود بھیجنے کی تلقین کی گئی ہے۔

(۱۰)        آخرت میں موٴمنین کے جنت میں داخلہ کے وقت کہا جائے گا ”أُدخلُوھا بسلامٍ، سلامٌ عَلَیکُمْ بما صَبَرْتُم، فَنِعْمَ عُقبی الدارِ“ (مستفاد از معارف القرآن ۲/۵۰۱، معارف الحدیث۶/۱۴۹)

سلام کی اہمیت وفضیلت:

                سلام، اسلام کا شعار، سلام جنتیوں کا سلام، اللہ سے قریب کرنے والا، محبتوں کو پیداکرنے والا، نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کو مٹانے والا ہے، باہمی تعلق واعتماد کا وسیلہ اور فریقین کے لیے موجبِ طمانیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باہم سلام کارواج دینے اور عام کرنے کی بڑی تاکید فرمائی کہ اسلامی دنیا کی فضاء اس کی لہروں سے معمور رہے اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اوراس کے فضائل وبرکات اور اجر وثواب کو بیان فرمایا ہے۔

                اسلامی سلام کی سنت حضرت آدم علیہ السلام سے چلی آرہی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ارشاد فرمایا: اے آدم! فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ اور ان کو سلام کرو، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام گئے اور فرشتوں کی ایک جماعت سے السلام علیکم فرمایا، فرشتوں نے جواب میں عرض کیا وعلیکم السلام ورحمة اللہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم یہ سلام تمہاری اور تمہاری اولاد کا تحیہ ہے۔ (بخاری کتاب الاستیذان ۲/۲۱۹)

                صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

                تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے؛ جب تک کہ مومن نہ بن جاؤ اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا؛ جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کے لیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو سلام کرو۔(مسلم کتاب الایمان۱/۵۴)

                حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

                لوگو! خداوند رحمن کی عبادت کرو اور بندگانِ خدا کو کھانا کھلاؤ (محتاج اور مسکین بندوں کو بطور صدقہ کے اور دوستوں عزیزوں اور اللہ کے نیک بندوں کو بطور ہدیہ، اخلاص اورمحبت کے کھانا کھلایا جائے، جو لوگوں کو جوڑنے اور باہم محبت والفت پیداکرنے کا بہترین وسیلہ ہے) اور سلام کو پھیلاؤ تو تم پوری سلامتی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤگے (ترمذی، باب الاستیذان ۲/۹۸، ابوداؤد، ابواب السلام ۲/۷۰۶)

                ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس سے فرمایا:

                اے بیٹے جب تم اپنے گھروالوں کے پاس جاؤ تو سلام کیاکرو، یہ سلام تمہارے لیے اور تمہارے گھر والوں کے لیے برکت کا سبب ہوگا۔(ترمذی ۲/۹۹)

                حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

                کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے بندوں کو کھانا کھلانا اور جانا پہچانا اورانجان ہر ایک کو سلام کرنا، سب سے افضل عمل ہے (بخاری۲/۹۲۱)۔

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو مسلم معاشرہ میں عام کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے، پھر کچھ دیر بعد دیوار، درخت یا پتھر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر دوبارہ سلام کرے، یعنی جتنی بار ملاقات ہواتنی بار سلام کرتا رہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۷)

                حضرت جابر فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا حضرات صحابہ کرام پر غیرمعمولی اثر ہوا اور ان حضرات نے سلام کو اپنی عملی زندگی کا ایک جزء لا ینفک بنالیا، اس کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگاسکتے ہیں، حضرت طفیل بن ابی بن کعب فرماتے ہیں: حضرت ابن عمر مجھے لے کر اکثر بازار جایا کرتے تھے، بازار میں تاجر، خریدار، مسکین، گری پڑی چیز اٹھانے والا، غرض ہر کسی کو جس سے ملاقات ہوتی سلام کرتے، ایک دن میں نے عرض کیا، حضرت بازار میں آپ نہ خریدو فروخت کرتے ہیں، نہ بازار میں آپ کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں، لہٰذا بازار جانے کے بجائے، آپ یہاں تشریف رکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کریں ہم سنیں گے، تو حضرت ابن عمر نے فرمایا: اے بطین (پیٹ والے) ہم بازار صرف مسلمانوں کو سلام کرنے کے لیے جاتے ہیں (کہ بازار میں لوگ ضروریات کی وجہ سے زیادہ رہتے ہیں اور ہم زیادہ مسلمانوں سے ملاقات کریں گے، انھیں سلام کریں گے اور زیادہ ثواب حاصل کریں گے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)

سلام کا اجر وثواب:

                سلام کرنا سنت ہے اورجواب دینا واجب ہے، واجب کا ثواب سنت سے زیادہ ہوتاہے، لیکن سلام کرنے کی سنت کا ثواب جواب دینے کے واجب سے زیادہ ہے۔ (مرقاة المفاتیح ۸/۴۲۱ باب السلام)

                جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے، اگربغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دے تو گنہگار ہوگا؛ البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے، ایک یہ کہ جن الفاظ میں سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے، دوسرے یہ کہ بعینہ انھیں الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔ (معارف القرآن ۲/۵۰۴)

                حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور السلام علیکم کہا، آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا، اور وہ شخص بیٹھ گئے، آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: دس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک دوسرے آدمی حاضر حدمت ہوئے اور السلام علیکم ورحمة اللہ کہا، آپ علیہ السلام نے جواب دیا اور وہ آدمی بیٹھ گئے اور آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بیس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک تیسرے شخص حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشاد فرمایا: تیس نیکیاں۔ (ترمذی ۲/۹۸، ابوداؤد۲/۷۰۶)

                اس روایت سے معلوم ہوا کہ مکمل سلام کرنے کے بعد تیس اور ہر ایک کلمہ پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔

سلام کے آداب:

                (۱)          سلام کرنے میں پہل کرے؛ اس لیے کہ سلام میں پہل کرنے سے عاجزی وتواضع پیداہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو بندوں سے تواضع نہایت محبوب ہے۔

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرنے والا ہو۔ (ترمذی ۲/۹۹، ابوداؤد۲/۷۰۶)

                ایک دوسری روایت میں ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا کبرونخوت سے بری ہوتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)

                (۲)         سلام کرنے والا اور سلام کا جواب دینے والا ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ صیغہٴ جمع استعمال کریں، اگرچہ مخاطب اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔ (الاذکار النوویة:۱۹۴)

                (۳)         سلام اتنی بلند آواز سے کرے کہ سلام کیے جانے والے کو بآسانی آواز پہنچ جائے ورنہ جواب کا مستحق نہ ہوگا، نیز جواب دینے والا بھی اسی طرح بلند آواز سے جواب دے ورنہ جواب ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔ (الاذکار النوویة:۱۹۵)

                (۴)         جب کوئی سلام کرے تو بہتر طریقہ پر جواب دینا، کم از کم ویسے ہی الفاظ سے جواب دینا۔

                اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جب تمہیں سلام کیاجائے تو تم سلام سے بہتر الفاظ سے جواب دو، یا اسی کے مثل جواب دو۔ (النساء:۸۶)

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اس آیت کی تشریح اس طرح فرمائی کہ ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ”السلام علیک یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم“ آپ نے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا کہ ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ“ پھر ایک صاحب آئے انھوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة  اللہ “ آپ نے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ“ پھر ایک اور صاحب آئے انھوں نے اپنے سلام ہی میں تینوں کلمے بڑھا کر کہا ”السلام علیک یا رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة اللہ  وبرکاتہ“ آپ نے جواب میں صرف ایک کلمہ ”وعلیک“ ارشاد فرمایا: ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان، پہلے جو حضرات آئے آپ نے ان کے جواب میں دعاء کے کئی کلمات ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپ نے ”وعلیک“ پر اکتفاء فرمایا، آپ نے فرمایا کہ تم نے ہمارے لیے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیے، اس لیے ہم نے تمہارے سلام کا جواب قرآنی تعلیم کے مطابق جواب بالمثل دینے پر اکتفاء کرلیا، اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیاہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۳)

                (۵)         عزیز، دوست، چھوٹے، بڑے، جانے پہچانے اور انجانے سب کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)

                (۶)          چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)

                (۷)         سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔(بخاری۲/۹۲۱)

                (۸)         پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)

                (۹)          چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)

                (۱۰)        اپنے محارم کو سلام کرے۔ (ترمذی۲/۹۹)

                (۱۱)         جب گھر یا مسجد میں داخل ہو، وہاں اس کے علاوہ کوئی نہ ہوتو ان الفاظ سے سلام کرے، السلامُ علینا وعلی عبادِ اللہ الصالحین(ہندیہ۵/۳۲۶)

                (۱۲)        اگر کوئی غائب شخص سلام پہنچائے تو اس طرح جواب دے، وعلیک وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ (ترمذی۲/۹۹)

                (۱۳)       اگر ایک شخص ایک جماعت کو سلام کرے تو جماعت میں سے ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے، تمام حاضرین کا جواب دینا افضل ہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۸)

                (۱۴)       اگر سلام کرنے والی ایک جماعت ہوتو صرف ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے؛ البتہ تمام کا سلام کرنا افضل ہے۔ (الاذکار النوویة:۱۹۶)

                (۱۵)        اگر مسلم اور غیرمسلم کا مخلوط مجمع ہوتو مسلمان کی نیت سے سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)

                (۱۶)        جب کسی کی ملاقات سے فارغ ہوکر رخصت ہونے لگے تو سلام وداع کرے، یہ بھی سنت ہے۔ (ترمذی۲/۱۰۰)

                (۱۷)       جب کسی کے پاس کوئی تحریر لکھے تو السلام علیکم سے کلام کا آغاز کرے۔ (بخاری۲/۹۲۶)

                (۱۸)       اگر مسلمان دو ہو یا بہرا ہوتو ہاتھ سے اشارہ بھی کرے اور زبان سے لفظ سلام بھی کہے، صرف اشارہ پر اکتفاء نہ کرے۔ (الاذکارالنوویة:۱۹۶)

                (۱۹)        سلام یا جوابِ سلام میں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ پر مزید کلمات کا اضافہ کرنا خلافِ سنت ہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۴)

                (۲۰)       اگر کسی غیرمسلم کے پاس خط لکھے تو ”السلام علی من اتبع الہدی“ تحریر کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)

کن لوگوں کو سلام کرنا مکروہ ہے؟

                (۱) بے ایمان کو سلام کرنا مکروہ تحریمی ے، اگر وہ ابتداءً سلام کرے تو ”علیک“ پر اکتفاء کرے۔ (مرقات۸/۴۲۰)

                (۲) زندیق کو سلام کرنا (شامی۲/۳۷۷، مفسدات الصلوٰة)

                (۳) جو شخص برسرعام گناہ اور فسق میں مبتلا ہو اس شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے۔(بخاری۲/۹۲۵)

                (۴) جوان اجنبی عورتوں اور اجنبی مردوں کو سلام کرنا مکروہ ہے،اگر اجنبی نہایت بوڑھا یا بوڑھی ہوتو سلام کرنا جائز ہے۔ (ہندیہ۵/۳۲۶)

                (۵) بدعتی کو سلام کرنا۔ (مرقات ۸/۴۲۰)

                نوٹ: بے ایمان کو کسی ضرورت کی وجہ سے سلام کرنا یعنی معاشرتی الفاظ استعمال کرنا مثلاً صبح بخیر، آداب وغیرہ جائزہے، مذہبی الفاظ ”نمستے“ کہنا جائز نہیں۔ (الاذکار النوویة:۲۰۲، فتاویٰ رحیمیہ ۶/۲۵۶)

                مندرجہ ذیل مواقع میں سلام نہ کرے:

                (۱)          نمازپڑھنے والے (۲) تلاوت کرنے والے (۳) دینی باتوں (حدیث، فقہ وغیرہ) کے بیان کرنے والے (۴) ذکر کرنے والے (۵) اذان دینے والے (۶) اقامت کہنے والے (۷) جمعہ اور عیدین وغیرہ خطبات دینے والوں کو دینی امور میں مصروف ہونے کی وجہ سے سلام کرنا مکروہ ہے۔

                (۸)         اذان، اقامت اور خطبات کے دوران سلام کرنا مکروہ ہے، اگر کوئی ان مواقع میں سلام کرے تو جواب کا مستحق نہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)

                (۹)          کھانے والے کو سلام کرنا۔

                (۱۰)        قضاء حاجت میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔

                (۱۱)          جماع میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔

                (۱۲)        جس آدمی کا ستر کھلا ہوا ہو اس کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے؛ اس لیے کہ موجودہ صورت حال میں جواب دینے کی حالت میں نہیں ہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)

                مندرجہ بالا صورتوں میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں؛ البتہ بعض صورتوں میں عمل موقوف کرکے جواب دے سکتا ہے، بعض صورتوں میں جواب کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔

***

——————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4 ‏، جلد: 97 ‏، جمادی الثانیہ 1434 ہجری مطابق اپریل 2013ء

Related Posts