از: ڈاکٹر ایم اجمل، ۱۵-گاندھی روڈ، دہرہ دون
آج کے دورِ منافقت میں اصول وقوانین کے بجائے طاقت و دھونس اور موقع پرستی کو جائز ناجائز اور حق وباطل کا معیار مان لیاگیا ہے اور یہی آج کے دور میں فتنہ وفساد کی اہم وجہ ہے۔ ”آزادی اظہار رائے“، ”اسلامی دہشت گردی“، ”بربریت“، ”خواتین کے حقوق کی پامالی“ چند ایسے بکثرت استعمال ہونے والے الفاظ ہیں، جن کے ذریعہ دوہرے پیمانے اپنا کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیاجارہا ہے، اور اس کام میں مسلمانوں کا نام نہاد روشن خیال درحقیقت ایمان فروش طبقہ دشمنانانِ انسانیت کا پورا ساتھ دے رہا ہے۔ ایک ہی طرح کے حادثات پر الگ الگ طرح سے لیبل لگاکر پروپیگنڈہ کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیاجاتا ہے، امریکہ میں گولی باری میں ۲۶ بچے مارے گئے، کوئی لیبل نہیں لگا۔ ایک ملالہ کو گولی ماری گئی ”اسلامی دہشت گردی“ ہوگئی۔ مالیگاؤں، مکہ مسجد، اجمیر درگاہ وغیرہ وغیرہ میں بھی بم پھٹے بے گناہ شہید ہوئے، خون بہا، عورتیں بیوہ ہوئیں، بچے یتیم ہوئے اس کو انجام دینے والے ہندو دہشت گرد تھے، ان سب کا تعلق حکومت ہند کے داخلہ سکریٹری کی رپورٹ کے مطابق آرایس ایس یا اس کی ذیلی تنظیموں سے جڑے ہوئے تھے، اس کے بعد بھی ”ہندو“ یا BJP کی دہشت گردی کہنے پر سارا ہندوستان کا فرقہ پرست اور لبرل طبقہ بلبلا اٹھا، جو میڈیا، دانشور، خود اڈوانی، توگڑیا وغیرہ وغیرہ دن رات ”اسلامی آتنک واد“ کا فلسفہ بگھارتے تھے Channel پر بیٹھنے والے دہلی پولیس کے سابق سربراہ ڈوڈوال، سابق سربراہ بی ایس ایف پرکاش سنگھ اور نہ جانے کون کون ماہرین دہشت گردی ہتھے سے اکھڑگئے کہ ہندو دہشت گردی کیوں کہا؛ جبکہ جو کچھ بھی ہندو دہشت گردوں نے کیا وہ دوہرا جرم ہے، ایک تو بے گناہوں کو شہید کیا، دوسرے سازشاً اپنی کرتوت بے گناہوں کے سرمنڈھنے کی ذلیل اور مجرمانہ حرکت بھی کی، ان کو ہندو دہشت گرد نہ کہو؛ جبکہ اِن کے گرو سنگھ پریوار کے سیاستداں کا یہ مقولہ میڈیا اور عوام میں قبولِ عام حاصل کرچکا ہے کہ ”ہرمسلمان دہشت گرد نہیں ہے؛ مگر ہر دہشت گرد ضرور مسلمان ہوتا ہے“۔ اس لیے مسلم یا ”اسلامی دہشت گردی“ کہا جاتا ہے؛ مگر ہندودہشت گردی کہنے پر آسمان سرپر اٹھالیاگیا اور وزیر کو کوئی بھی حمایتی نہیں ملا۔
مگر جیسے ہی دلآزار فلم میں مسلمانوں اور اسلام کی شناخت کو داغدار کرنے کی حرکت پر مسلمانوں کا ردِعمل سامنے آیا تو ”اظہار رائے کی آزادے“ خطرہ میں پڑگئی۔ وزیرداخلہ سے لے کر تمام ہندی، انگریزی اخبار اور بعض ایمان فروش اردو اخبار بھی مافی الضمیر کے اظہار کی آزادی اور ادب وتخلیقیت کی آزادی کے تحفظ کے علمبردار بن کر مسلمانوں پر دشمن کی طرح ٹوٹ پڑے۔ کل تک جو ہندو دہشت گردی کہنے پر (جوکہ ثبوتوں کے ذریعہ ثابت ہے) بھڑک گئے تھے اور آزادی اظہار رائے کے حق پر حملہ کررہے تھے، آج ایک دم سے حق اظہارِ رائے کے چمپئن بن گئے ہیں اور مسلمانوں کو صبر وحکمت کا پاٹھ پڑھا رہے ہیں۔ یہی روگِ منافقت دنیا بھر میں بدامنی کو جنم دے رہا ہے، جہاں طاقت ور کے مفادات یا مقامات یا شعائر کو ٹھیس پہنچے تو فوراً قومی سلامتی، نقضِ امن اورلاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بن جاتا ہے؛ مگر یہی ظالم طاقتیں دن رات کمزوروں کے شعائر، ان ے اعتقادات، مقاماتِ مقدسہ اور مذہبی شخصیات کی دانستہ اور منظم سازشیں کرتی رہتی ہیں، جب سے ہالی وڈنے Holly wood نے جنم لیا ہے تب سے اسلام، مسلمانوں کی نہایت غلط، مسخ شدہ صورت فلموں میں لگاتار پیش کی گئی ہے۔ ہر دوسری تیسری فلم میں خراب کردار کے عرب؛ کالے یا افغان مکمل شناخت کے ساتھ دکھائے جائیں گے۔ انھیں مذہبی اعمال خصوصاً نماز ادا کرتے ہوئے بار بار دکھایا جائے گا، جیساکہ کمل ہاسن نے دکھایا ہے۔ اس سے پہلے Gang of Warrey pur وغیرہ سیکڑوں فلموں میں دکھایا گیا ہے، کہ مجرم، بھائی یا دادا عربی رومال پہنتا ہے، نماز پڑھتا ہے، تسبیح پڑھتا ہے، مزار پر جاتا ہے، گھر میں خانہ کعبہ کا بڑا پورٹریٹ ہوتا ہے؛ مگر یہ سب شناختی علامات دیگر غیرمسلم مجرموں کے ساتھ عموماً نہیں چپکائی جاتیں۔ Holly wood کو مسلمانوں نے دنیا بھر میں چیلنج نہیں کیا، امریکہ میں چیلنج کرنہیں سکتے تھے، باقی مسلمان دہنی یا جسمانی غلامی میں مبتلا تھے ہی نتیجہ یہ ہے کہ آج پورے عالم میں عموماً اور یوروپ اورامریکہ میں خصوصاً مسلمانوں کی شناخت خونخوار، جاہل، مجرم ذہن کی بنادی گئی ہے؛ اگر ہالی وڈ کو اسی طرح چیلنج کیا جاتا اور بالی وڈ کو بھی جیسا آج کیا جارہا ہے تو یہ نوبت نہیں آتی، مسلمانوں نے دہائیوں تک نہ ہالی وڈ کی شیطانی صیہونی سازش کو چیلنج کیا نہ بالی وڈ کی مسلم دل آزاری کو چیلنج کیا جو کہ جمہوریت میں ان کا حق ہے تو نتیجہ سامنے ہے۔ جس طرح سے وشوروپم میں مسلمان کردار تلاوت اور نماز اداء کرتے کرتے جاکر بم پھوڑتے دکھایا گیا ہے کیا داؤد ابراہیم، حاجی مستان، شہاب الدین، مختار انصاری وغیرہ وغیرہ سب ایسے ہی عربی رومال، داڑھی، ٹوپی، تسبیح کا استعمال کرتے ہیں جیساکہ بالی وڈ دکھاتا ہے؟ تو پھر کرمنل اور مجرمانہ کرداروں کو مسلمان نام کے ساتھ اسلامی شناخت کو کیوں قصداً ہائی لائٹ کیا جاتا، آج بھی تمام میڈیا ”اسلامی دہشت گردی“ لفظ استعمال کرتا ہےTOI کا ۳۱/۱/۲۰۱۳/ کا آڈیٹوریل دیکھیں Islamist terrorist لفظ اداریہ میں استعمال کیا ہے؛ مگر اسی منافق ایڈیٹر کو ”ہندو دہشت گردی“ لفظ پر اعتراض تھا۔ دنیا میں کہیں بھی اسلام اور مسلمانوں کے علاوہ مذہب سے جوڑ کر دہشت گردی کی اصطلاح نہیں استعمال کی گئی، سری لنکا میں تمل ہندوؤں کی دہشت گردی یا آزادی کی لڑائی ۳۰ سال سے بھی زیادہ چلی دورجدید میں خودکش بمباری کے وہ موجد بھی ہیں؛ مگر ان کے نام کے ساتھ کبھی بھی ہندودہشت گرد نہیں لگا؟ اسپین کے بساک آزادی پسندوں نے لاکھوں اسپینی باشندوں کو نشانہ بنایا، آئرلینڈ میں عیسائی فرقہ نے دوسرے فرقہ کے ہزاروں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، سوڈان میں جنوبی سوڈان کے عیسائی علیحدگی پسندوں نے لاکھوں مسلمانوں عوام اور فوجیوں کو شہید کیا، امریکی افواج نے ویت نام میں لاکھوں بودھوں کو قتل کیا، ہندوستان میں ۶۵ سالوں میں ہزاروں لاکھوں مسلمان ہندوفرقہ پرست پولیس کے ذریعہ شہید کیے گئے؛ مگر ان سب کو کبھی ہندو، عیسائی، بودھ دہشت گرد نہیں کہاگیا، زیادہ سے زیادہ علیحدگی پسند یا جنگجو کہاگیا؛ مگر یہ ”اسلامی دہشت گرد“ کا اعزاز صرف امت محمدیہ کو دیاگیا۔ کیوں؟․․․ اگر تاریخ کے اوراق میں بے گناہوں کے قتل وخون اور انسانوں کو غلام بناکر نسل وفصل کی بربادی کا حساب کتاب بنالیا جائے تو پتہ لگ جائے گا کہ کس مذہب کے ماننے والوں کے کھاتہ میں کروڑوں کے حساب سے بے گناہ انسانوں کے قتل وخون کا ریکارڈ مندرج ہوگا۔ یوروپ کی آپس کی لڑائیاں، کروسیڈس، امپریلیزم کے نام پر کمزور قوموں کو غلام بنانے کا دھندہ اور نتیجتاً کروڑوں انسانوں کا قتلِ عام، بے روزگاری، ظلم واستیصال پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کا کروڑوں انسانی جانوں کا قتل اور ہیروشیما ناگاساکی، عراق پر ناجائز قبضہ اور ویتنام پر حملہ کس مذہب کے کھاتہ میں جانا چاہیے؟ بالی وڈ کی ایک بھی فلم ان موضوعات کے اصلی مجرموں کو صلیب، گرجا، مریم کے مجسّموں کے بیک گراؤنڈ کے ساتھ کیوں نہیں دکھاتی؟ بالی وڈ کی کتنی فلموں نے فرقہ وارانہ فسادات کے اصل مجرموں کو ان کی مذہبی شناخت کے ساتھ فلمایا ہے؟ ایک دوفلمیں ایسی بنی بھی تو انھیں دکھانے نہیں دیاگیا؟ آج سلمان رشدی کی چہیتی بن کر دیپا مہتہ پورے میڈیا کی ڈارلنگ بنی ہوئی ہیں، کل جب انھیں ہندی فلم Water(واٹر) فلمانے کے لیے وارانسی (بنارس) میں ہندوؤں نے مخالفت کی تو اس میڈیا نے اور بھارت سرکار یا یوپی سرکار نے اس کی مدد کیوں نہیں کی؟ مگرآج وہ رشدی کے ساتھ ہے تو میڈیا اور سرکار بھی اس کے ساتھ ہے؟
حقِ آزادی اظہار کا تازہ ترین نمونہ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے ایک کارٹون میں اسرائیلی وزیراعظم کو فلسطینیوں کے خون اور لاشوں کے ساتھ دیوار بناتے دکھایا تو قیامت ٹوٹ پڑی۔ برطانیہ کے ہی لبرل ڈیموکریٹ رکن پارلیمان ڈیوڈ وارڈ نے اپنے بلاگ میں یہودیوں کے فلسطینیوں پر مظالم کو نازی جرمنی کے یہودیوں پر ڈھائے گئے مظالم ہولوکاسٹ کے مشابہ قرار دیا۔ اس پر رکن پارلیمان کو ایک ہفتہ کے اندرمعافی مانگنی پڑی۔ (ہماراسماج، دہلی ۳۰/۱/۲۰۱۳/)
اگر بم دھماکہ، قتل خون جرم ہے تو سب کے لیے ہے یا صرف مسلمان کرے تو جرم ہے یہودی، ہندو، تمل، عیسائی اپنی آزادی کے لیے لڑے تو مجاہدِ آزادی اور مسلمان لڑے تو آتنگ وادی، مسلمانوں کی دلآزاری، توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن، خانہٴ کعبہ کی توہین جیسے ابوغریب اور گوانٹاناموبے اور وشوروپم وغیرہ میں کی گئی وہ حق اظہار آزادی ہے؛ مگر ”شیواجی“ فلم پر پابندی، واٹر کی شوٹنگ نہ ہونے دینا، ہولوکاسٹ پر سوال کھڑے کرنا، مشہور تاریخ داں D. Irvim کو آسٹریا کی عدالت سے ۳ سال کی سزا اور جرمانہ ہونا منافقت ہے یا حقِ اظہار رائے۔ جب ہر نظام اپنی حفاظت کے انتہائی اقدامات اٹھاکر خطرہ بننے والوں قصابوں سے نپٹ رہا ہے تو اسلام کویہی حق دفاع کیوں نہیں ملنا چاہیے؟
***
——————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 4 ، جلد: 97 ، جمادی الثانیہ 1434 ہجری مطابق اپریل 2013ء