از: مولانا عمران پٹیل فلاحی‏، استاذجامعہ قاسمیہ عربیہ، بھروچ

                قابلِ قدر وقابلِ رشک طلبہٴ کرام!

                آپ تمام حضرات مجھ بے روح ڈھانچہ کو بہت قریب سے جانتے ہیں؛ بلکہ کچھ بعید نہیں کہ عین اس وقت بھی میرے بارگراں سے آپ کی سفید قبابوجھل ہورہی ہوگی؛ یقینا مجھ جیسے ”برائیوں کے پلندے“ اور ”بدنام زمانہ“ کی کیا مجال کہ آپ جیسے نیک منش، سفید پوش ودستار بند علم وفضل سے آراستہ تقوی وپرہیزگاری سے پیراستہ بزرگوں کے سامنے کچھ لب کشائی کرسکوں! اور ویسے بھی مجھے اپنے دلداروں اور عاشق زاروں کی خدمت گذاری سے فرصت کہاں؟ لیکن بڑی مشکل سے ہمت جٹاکر موقع نکال کر اپنی اخلاقی جرأت کا ثبوت دیتے ہوئے ”وشھد شاھد من اھلھا“ اور ”وشھدوا علی انفسھم“ کا نمونہ بنتے ہوئے کچھ کھری کھری اور دوٹوک باتیں آپ ”طالبانِ علومِ نبوت“ کی خیرخواہی ومحبت میں آپ کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں امید ہے کہ دل کے کانوں سن کر عبرت حاصل کریں گے۔

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف        آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے

                حضرات! میری شخصیت کے کچھ مثبت پہلو یقینا ایسے ہیں جن کی افادیت سے کسی کو شاید ہی اختلاف ہو! مثلاً میں مشرق ومغرب کے فاصلوں کو چشمِ زدن میں سمیٹ لیتاہوں، میری برقی لہریں ہوا کے دوش پر سوار رہ کر حیاتِ انسانی کو ہمہ وقت متحرک وفعال رکھتی ہیں، میں آڑے وقت میں لوگوں کے کام نکالتا ہوں؛ مگر بایں ہمہ میں اپنے چھوٹے سے وجود میں سینکڑوں برائیوں کا ایک طوفان بلاخیز لیے پھرتا ہوں؛ جس کی زد میں آکر بے شمار لوگ ہلاکت وبربادی کی نذر ہوچکے ہیں اور ان پر ”خسر الدنیا والآخرة“ کی مہر لگی چاہتی ہے، ان ہی ہلاکت خیزیوں کے باعث مجھے خواہی نہ خواہی یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ میں ”واثمھما اکبر من نفعھما“ کا صد فی صد مصداق ہوں؛ تو لیجیے! آپ کی قیمتی وقت ضائع کیے بغیر مشتے از خروارے کے طور پر اپنی چند فتنہ سامانیاں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں؛ میری حقیقت سے نقاب کشائی کے لیے یہی بہت کافی ہیں۔

                ﴿۱﴾ میں اپنے اندر عریانیت وبے حیائی کے وہ مناظر رکھتاہوں جن سے بے شمار شریف کہے جانے والے لوگوں کی قبائے حیا تار تار ہوکر رہ گئی ہے۔

                ﴿۲﴾ بہت سے وہ لوگ جو اپنے خدا سے راز ونیاز کی باتیں کرنے کے لیے خلوتیں تلاش کرتے تھے وہ میرے دام تزویر میں ایسے پھنسے کہ اب وہ میری ہی معیت ورفاقت کی شراب سے اپنے کام ودہن کی لذت کا سامان کرنے لگے ہیں، اور شیطان ان پر قہقہے لگارہا ہے۔

                ﴿۳﴾ بہ ظاہر میں خاکی پتلے کا غلام اور انسانی انگلیوں کا تابع ہوں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کے قلب ودماغ پر میری حکومت وبالادستی کا ڈنکا بجنے لگا ہے، میری اداؤں کا جادو اِن کے جسم وجان پر چھائے جارہا ہے، جس سے مسحور ہوکر لاکھوں انسان اپنے مقصد وہدف سے غافل ہوچکے ہیں اور میرے عشق میں ڈوب کر افکارِ پریشاں اور احوالِ پراگندہ کو اپنی تقدیر بناچکے ہیں۔

                ﴿۴﴾ جس طرح ملک ہندوستان ”اکّال الامم“ کہلاتا ہے، اِسی طرح آپ مجھے ”اکّال الاوقات“ کہہ سکتے ہیں، اِس لیے کہ اب تک میں نوعِ انسانی کے بیش بہا اوقات کا اتنا بڑا حصہ ضائع کرچکا ہوں، جس کے شمار سے مشینیں عاجز ہیں، اگر وہی لمحے تعمیری ومفید کاموں میں صرف کیے جاتے تو دینی ودنیوی ترقی کی ان گنت منزلیں سر کی جاسکتی تھیں۔

                ﴿۵﴾ میرا ایک اہم مشن مسلمانوں کی جیبوں سے اِسلامی تشخص کی حامل اشیاء کا بوجھ ہلکاکرنا ہے؛ چنانچہ جس جیب میں میرا آشیانہ ہوتا ہے وہاں سے تسبیح ومسواک اور ٹوپی جیسی گراں قدر چیزیں رخصت ہوجاتی ہیں، یہی نہیں؛ بلکہ بہت ساری جیبوں سے روپیوں کا بوجھ بھی کم کردیتا ہوں؛ چنانچہ آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ میری برکت سے آپ کے اولیاء کی حلال وپاکیزہ کمائی ”ریچارج“ اور ”انٹرنیٹ پیک“ کے سانچوں میں ڈھل کر بڑی آسانی سے فضاءِ آسمانی میں بکھر جاتی ہے۔

                ﴿۶﴾ آپ میری زہرناکی کا اندازہ اِس سے لگاسکتے ہیں کہ اب تک ہزاروں مرد وعورت کے درمیان ان گنت ناجائز بے حجابانہ تعلقات قائم کرنے میں میرا کردار کلیدی رہا ہے، کتنی ہی باحیاء دوشیزائیں میرے توسّط سے بے حیائی میں مبتلا ہوکر اپنے دامنِ عصمت کو داغ دار کربیٹھی ہیں، اُن کے اولیاء کے لیے رسوائی کے مارے گھر سے باہر قدم نکالنا دوبھر ہوچکا ہے، بے شمار شادی شدہ خواتین میرے ذریعہ غیروں کی آشنائی کا شکار ہوئی ہیں، اُن کے ہنستے کھیلتے خاندان اجڑ گئے، کتنے ہی شوہر محض میرے وجود کی نحوست سے اپنی رفیقہٴ حیات سے بدگمان بنے ہوئے ہیں۔

                ﴿۷﴾ اور سنیے! میری اسکرین پر فحش فلموں اور عریاں تصویروں کے مزے لے کر بہتیرے بچے قبل از وقت غیرفطری طورپر بلوغ کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں، جب کہ لاتعداد نوجوان شہوانی خیالات سے بے قابو ہوکر ایسی حرام کاریوں میں مبتلا ہیں کہ بس، ․․․ خدا کی پناہ! اب اُن کے کھاتے میں کبیرہ گناہوں اور بہہ جانے والی جوانی پر لاحاصل حسرتوں کے سوا کچھ نہیں بچا، شیطان اتراتا پھررہا ہے کہ اُس نے نوجوانِ مسلم کو جو کبھی سیف وسنان کا دھنی ہوا کرتا تھا طاؤس ورباب کا رسیا بناکر چھوڑا ہے۔

                ﴿۸﴾ اور ہاں! میرا حلقہٴ اثر اِس حد تک وسیع ہوچکا ہے کہ مسجدیں، خانقاہیں، دینی مراکز اور موٴقر جلسے بھی میرے زیر اثرآچکے ہیں، میں نے نمازیوں کا خشوع غارت کردیا، خلوت گزیں صوفیوں کی خلوتوں پر ڈاکے ڈالے، ذاکرین کے ذکر میں رخنے ڈال کر اُسے بے حقیقت بنایا، طلبہ سے توجہ وانہماک چھین کر اُنھیں علم کی لازوال دولت سے محروم ہونے پر مجبور کردیا، پروقار دینی مجلسوں کی سنجیدگی ومتانت کو اپنے دل کش ترانوں سے منتشر کردیا۔

                سفینہٴ امت کے ملاّحو! آپ ہی بتائیے کہ کیا زندگی کا کوئی شعبہ بھی بچا ہے جسے میں نے اپنی فن کاریوں سے فساد اور بگاڑ کی آماجگاہ نہ بنایا ہو؟ عزیز طلبہ! مذکورہ تلخ حقائق خود میری زبانی سننے کے بعد بھی کیا آپ جیسے غیرت مند لوگوں کی رگِ حمیت حرکت میں نہیں آرہی ہے؟

                میرے پیارو! آخر کوئی تو وجہ ہے کہ بہت ساری عصری تعلیم گاہوں نے، جن کا منتہاءِ مقصود دنیا اور مادّہ ومعدہ کے سواکچھ نہیں۔ میری تخریب کاریوں سے عاجز آکر مجھے اپنے اِحاطوں سے باہر ڈھکیلنے پر اتفاق کرلیاہے، عصری تعلیم میں مشغول بے شمار دور اندیش اور سود وزیاں سے باخبر طلبہ مجھے اپنا دشمن جان کر دور ہی سے سلام کرنے لگے ہیں؛ تاکہ اُن کی تعلیم کا حرج نہ ہو؛ لیکن ہائے افسوس! پیارے بھائیوں! میرا کلیجہ منھ کو آتا ہے، جب میں یہ روح فرسا منظر دیکھتا ہوں کہ آپ جیسے سفید پوش طلبہ علمِ دین کے حصول سے غافل وبے زار ہوکر مجھے اپنے ہاتھوں کی زینت بنائے ہوئے ہیں، اور میرے وجود میں گم ہوکر اپنے خوابوں کی دنیا تلاش کرتے ہیں، اِس وقت میرا دل کڑھتا ہے، میری بے کلی بے چینی کی کوئی انتہاء نہیں رہتی، اور بے ساختہ یہ دعاء زبان پر آجاتی ہے کہ بارِ الٰہی! مجھے اِس ہونہار طالب علم ﴿جسے دنیا مہمانانِ رسول کے مقدس نام سے جانتی ہے﴾ کی ہلاکت وبربادی کا ذریعہ نہ بنا، خدایا! اگر یہ ضائع ہوگیا تو تیرے حبیب کی امت کے رِستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے والا کون رہ جائے گا؟

                مجھے اُمید ہی نہیں؛ بلکہ یقین ہے کہ آپ جیسے مہمانانِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخلصانہ آمین سے یہ دعاء ضرور قبول ہوگی۔

***

——————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4 ‏، جلد: 97 ‏، جمادی الثانیہ 1434 ہجری مطابق اپریل 2013ء

Related Posts