سابق قادیانی، شیخ راحیل احمد جرمنی کا دوسرا کھلا خط: قادیانی خلیفہ کے نام
[شیخ راحیل احمد (جرمنی) تقریباً پچاس سال تک قادیانی رہے۔ اس درمیان موصوف نے قادیانیت کی تبلیغ کے لئے متعدد اہم عہدوں پر کام کیا لیکن بالآخر جب موصوف پر واضح ہوگیا کہ قادیانیت ایک باطل تحریک اور دین اسلام کے نام پر پھیلائی جانے والی گمراہی کا نام ہے، تو بصدق دل گذشتہ سال قادیانیت سے تائب ہوگئے اور باضابطہ دین اسلام قبول کرلیا۔ شیخ راحیل کے تائب ہونے سے قادیانیت کے ایوان میں کس طرح زلزلہ بپا ہے اورموصوف نے کن کن حقائق کا انکشاف کیا اس کا نمونہ آپ ذیل کی تحریر میں ملاحظہ فرمائیں جو قادیانیوں کے موجودہ خلیفہ کے نام ہے۔
ہم مشکور ہیں جناب عبدالرحمن یعقوب باوا صاحب امیر ختم نبوت اکیڈمی لندن کے کہ موصوف نے شیخ راحیل سے رابطہ کرکے یہ سارا مواد کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کو فراہم کیا۔ قارئین کے استفادہ کے لیے من و عن شیخ راحیل کا مکتوب پیش ہے۔
اس سے قبل اس کی پہلی قسط ”حیات عیسیٰ علیہ السلام کی تحقیق مرزا قادیانی کی تحریروں سے“ پیش کی جاچکی ہے۔
شاہ عالم گورکھپوری، نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دارالعلوم دیوبند]
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نُصَلِّی علی رسُولِہِ الکریم
مرزا مسرور کے نام دوسرا کھلا خط
منجانب بنام
شیخ راحیل احمد جرمنی جناب مرزا مسرور احمد صاحب
سابق احمدی، سکنہ ربوہ (حال مقیم) جرمنی واحباب جماعت احمدیہ
السلام
خاکسار آپ میں سے بہت سوں کی طرح احمدی ماں باپ کے گھر میں پیدا ہوا، ربوہ میں پلا بڑھا، اور آپ ہی کی طرح کچھ عرصہ قبل تک اندھے یقین اور جماعت کے بزرجمہروں کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر مرزا غلام احمد صاحب کو مہدی موعود، مسیح موعود اور نبی خیال کرتا تھا، مگر اچانک ایک واقعہ نے مجھے توجہ دلائی اور میں نے مرزا غلام احمد صاحب کی کتب اور سیرت کا مطالعہ غیر جانبدار ہوکر کیا تو مرزا صاحب کے دعویٰ جات صرف اور صرف تضادات کا شاہکار نظر آئے۔ مرزا غلام احمد صاحب نے خود لکھا ہے کہ ”جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، ر․خ، ج:۲۱، ص:۲۷۵) اور انہی تضادات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جناب مرزا صاحب کے دعویٰ جات نہ صرف بے بنیاد ہیں بلکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور ان کے مقام نبوت پر حملہ ہیں۔ چونکہ میری عمرکا ایک بڑا حصہ آپ لوگوں میں گزرا ہے اس لئے قدرتی طور پر میں آپ کیلئے ایک للّہی لگاؤ محسوس کرتا ہوں اور اسی وجہ سے یہ چند سطور آپ کی خدمت میں پیش ہیں، میری آپ سے درخواست ہے کہ انہیں پڑھئے اور ایک بار غور ضرور کیجئے۔ جناب مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ براہین احمدیہ میں ہی خدا نے ان کا نام نبی اور رسول رکھا ہے، فرماتے ہیں: ”کہ خدا تعالیٰ کی وہ جو پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے، ایسے الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں ․․․․․ اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں (دیکھو صفحہ ۴۹۸ براہین احمدیہ) اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کرکے پکاراگیا ہے“۔ (ایک غلطی کا ازالہ، ر۔خ، ج:۱۸/۲۰۶) آئیے قرآن کریم، احادیث اور مرزا صاحب کی اپنی تحریروں سے جائزہ لیں کہ مرزا صاحب کا مقام کیا ہے؟ اور وہ اپنی تحریروں کے آئینے میں کیا ہیں؟
قرآن کریم میں واضح طورپر لکھا ہے: ”نہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) تم میں سے کسی مرد کے باپ تھے نہ ہیں (نہ ہوں گے) لیکن اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النّبیین ہیں اور اللہ ہر ایک چیز سے خوب آگاہ ہے۔ الاحزاب:۴۱ (یہ ترجمہ تفسیر صغیر سے لیاگیا ہے جو جماعت احمدیہ نے شائع کیا ہے)۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے بڑی وضاحت اور مثال دے کر بتادیا کہ جس طرح حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مرد کے باپ نہیں، اسی طرح وہ نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔ تو آئیے دیکھیں کہ حدیث ان معنوں کی تصدیق کرتی ہے یا نہیں۔ اس سلسلے میں تین مختلف ادوار کی احادیث پیش خدمت ہیں:
(۱) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اور دوسرے انبیاء کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اسے بہت عمدہ اور آراستہ و پیراستہ بنایا، مگر ایک زاوئیے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی، لوگ اس گھر کے ارد گرد گھومتے اوراسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے اور کہتے کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ لگادی گئی“؟ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا (قصر نبوت کی) یہ اینٹ میں ہوں، میں نے اس خالی جگہ کو پر کردیا، قصر نبوت مجھ سے ہی مکمل ہوا اور میرے ساتھ ہی انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔ (بخاری، مسند احمد، نسائی، ترمذی، ابن عساکر) اس کا مطلب ہے وہ ایک اینٹ جو رکھ دی گئی اس میں اب کوئی اینٹ نہ لگے گی اور نہ نکلے گی۔
(۲) حجة الوداع کے اہم ترین موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”لوگو! حقیقت یہ ہے کہ نہ تو میرے بعد کوئی نبی ہوگا اور نہ تمہارے بعد کوئی امت! تو تم اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں پڑھتے رہو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے اموال کی زکوة بخوشی ادا کرو اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرو، تم اپنے مالک وآقا کی جنت میں داخل ہوسکو گے۔ (کنزل اعمال، علی حامش، مسند احمد صفحہ ۲۹۱) اب آپ دیکھیں کہ یہ حدیث انتہائی وضاحت سے بتارہی ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا نہ ہونے پر ایمان پہلی شرط ہے اور اس کے بعد دوسری باتوں پر یعنی پنج ارکان اسلام پر ایمان ضروری ہے۔ یہ اعلان اس وقت کے مسلمانوں کے سب سے بڑے اجتماع میں کیا تھا۔
(۳) اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرض وفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ایسا دکھائی دیتا تھا کہ حضور ہمیں الوداعی خطاب فرمارہے ہیں، آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ”میں اُمی نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں جب تک میں تم میں موجود ہوں، میری بات سنو اور اطاعت کرو اور مجھے دنیا سے لے جایا جائے تو کتاب اللہ کو تھام لو، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو۔ (رواہ احمد) یعنی وقت وصال کے وقت بھی یہی تاکید تھی کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں۔
اوپر دئیے گئے حوالوں سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔ لیکن کیا اوپر دئیے گئے حوالوں کی کوئی تاویل ہوسکتی ہے؟ قبل اس کے ہم ختم نبوت کے موضوع پر مرزا صاحب کے ارشادات پیش کریں مرزا غلام احمد صاحب کے اپنے بارے میں اور ان کی کتاب براہین احمدیہ کے بارے میں اور مجدد کے متعلق کچھ ان کے اپنے ارشادات بیان کردیں، کیونکہ یہ ارشادات آپ کو ممکن ہے کہ میرا مافی الضمیر سمجھنے میں مدد کریں۔
براہین احمدیہ: مرزا صاحب نے سب سے پہلی کتاب براہین احمدیہ لکھی، براہین احمدیہ کی پہلی چار جلدیں ۱۸۸۴/ میں شائع ہوئیں، اور پانچویں جلد ۲۳ سال کے بعد شائع ہوئی اور اس کتاب کے بارے میں ان کے یہ دعویٰ جات ہیں ( دعوے تو بہت ہیں صرف چند کا ذکر کررہا ہوں)
(۱) ”اس عاجز نے ایک کتاب ․․․․ ایسی تالیف کی ہے جس کے مطالعہ کے بعد طالب حق سے بجز قبولیت اسلام اور کچھ نہ بن پڑے۔“ (اشتہار اپریل ۱۸۷۹/، تبلیغ رسالت حصہ اول صفحہ۸)۔ (۲) ”اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں․․․․ اگراس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے۔“ (بحوالہ اشتہار نمبر ۱۱، مجموعہ اشتہارات جلد ۱، ص: ۲۳ تا ۳۵) (۳) ”اس پراگندہ وقت میں وہی مناظرہ کی کتاب روحانی جمعیت بخش سکتی ہے کہ جو بذریعہ تحقیق عمیق کے اصل ماہیت کے باریک دقیقہ کی تہہ کو کھولتی ہو۔“ (بحوالہ اشتہار نمبر۱۶، مجموعہ اشتہارات، ج:۱، ص: ۴۳) (۴) سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہراً و باطناً حضرت رب العالمین ہے۔“ (اشتہار نمبر۱۸، مجموعہ اشتہارات، ج:۱، ص: ۵۶)
مجدد کی تعریف میں مرزا صاحب فرماتے ہیں: جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ انہیں تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں ․․․․ اور خدا تعالیٰ کے الہام کی تجلی انکے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کے وقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور ان کی گفتار و کردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ کلی مصفا کئے گئے اور تمام و کمال کھینچے گئے۔ (فتح اسلام حاشیہ، روحانی خزائن، ج:۳، ص: ۷)
اپنی ذات کے بارے میں معصوم عن الخطا ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(۱)”اللہ تعالیٰ مجھے غلطی پر ایک لمحہ بھی باقی نہیں رہنے دیتا۔ اور مجھے ہر ایک غلط بات سے محفوظ رکھتا ہے۔“ (نورالحق حصہ دوم، ر۔خ، ج:۸، ص:۲۷۲) (۲) ”میں نے جو کچھ کہا وہ سب کچھ خدا کے امر سے کہا ہے اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا“ (مواہب الرحمن، ر۔خ، ج:۱۹، ص: ۲۲۱)
اب دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب آیت خاتم النّبیین کی کیا تفسیر کرتے ہیں، مرزاصاحب اپنی کتاب ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں:
(۱) ”یعنی محمد تمہارے مردوں میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ہے، مگر وہ رسول اللہ ہے اور ختم کرنے والا ہے نبیوں کا۔ دوسری جگہ ”سورہ الاحزاب کی آیت ۴۱ (مندرجہ بالا) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (۲) کیا تو نہیں جانتا کہ فضل اور رحم کرنے والے رب نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بغیر کسی استثناء کے خاتم الانبیاء رکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لانبی بعدی سے طالبوں کے لئے بیان واضح سے اس کی تفسیر کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے ظہور کو جائز قرار دیں تو ہم وحی نبوت کے دروازہ کے بند ہونے کے بعد اس کا کھلنا جائز قرار دیں گے جو بالبداہت باطل ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں پر مخفی نہیں اور ہمارے رسول کے بعد کوئی نبی کیسے آسکتا ہے جبکہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوگئی ہے اور اللہ نے آپ کے ذریعہ نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا“ (حمامة البشریٰ، ر۔خ، ج:۷، ص: ۲۰۰ و ۲۰۱) (۳) ”قرآن کریم بعد خاتم النّبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا، خواہ وہ نیارسول ہو یا پرانا ہو۔“ (ازالہ اوہام، ر۔خ، ج:۳، ص:۵۱۱) (۴) حسب تصریح قرآن کریم، رسول اسی کو کہتے ہیں جس نے احکام و عقائد دین جبرائیل کے ذریعہ حاصل کئے ہوں لیکن وحی نبوت پر تو تیرہ سو برس سے مہر لگ گئی ہے، کیا یہ مہر اس وقت ٹوٹ جائے گی؟ (ازالہ اوہام، ر۔خ، ج:۳، ص: ۳۸۷)
ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ مجدد ہیں اور قرآن کو خدا نے سکھایا ہے اور ہر قسم کے دلائل سے، تحقیق سے اثبات صداقت اسلام پیش کرنے کے دعوے دار ہیں اور کوئی لفظ خدا کی مرضی کے بغیر نہیں نکالتے، اور تجدید دین کیلئے خدا ان کو ایک لمحہ بھی غلطی پر نہیں رہنے دیتا، اس حیثیت میں وہ ختم نبوت کا انہی معنوں میں اقرار کررہے ہیں جن معنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ اور ائمہ دین و مسلمان تیرہ صدیوں سے ایمان رکھتے تھے۔ اور اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے قسم کے معنی کو کفر قرار دے رہے ہیں، مرزا صاحب کے بیٹے خلیفہ ثانی بھی ہمارے اس یقین کی تصدیق کرتے ہیں، فرماتے ہیں ”الغرض حقیقة الوحی کے حوالہ نے واضح کردیا کہ نبوت اور حیات مسیح کے متعلق آپ کا (مرزا غلام احمد صاحب۔ ناقل) عقیدہ پہلے عام مسلمانوں کی طرح تھا مگر پھر دونوں میں تبدیلی فرمائی“ (بحوالہ الفضل، ۶/ستمبر۱۹۴۱/، خطبہ جمعہ کالم۳)۔
اب ہوتا کیا ہے کہ کچھ علمائے حق نے خدا کی دی ہوئی فراست سے اندازہ لگالیا کہ ان صاحب کا ارادہ نبی بننے کا ہے اور انھوں نے جب اعتراض اٹھائے تو مرزا صاحب کے جوابات ملاحظہ ہوں۔ ”ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں۔“ (اشتہار، مجموعہ اشتہارات، ج:۲، ص: ۲۹۷ و ۲۹۸) اس طرح وقتی طور پر مخالفت کو کم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، لیکن علمائے حق کے خدشات صحیح نکلتے ہیں کہ ان صاحب (یعنی مرزا غلام احمد صاحب) کا مالیخولیا ومراق جیسے جیسے ترقی کرے گا، اسی طرح ان کے دعویٰ جات بھی بڑھیں گے۔ مرزا صاحب کو مراق تھا یا نہیں؟ میرے خیال میں یہ حوالہ کافی ہے! ”ڈاکٹر میر محمداسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹریا ہے۔ بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے۔ (سیرت المہدی حصہ دوئم، ص: ۵۵، از مرزا بشیر احمد ایم اے) اور مراق کیا چیز ہے یہ حوالہ میرے خیال میں کافی رہے گا: ”ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس کو ہسٹریا، مالیخولیا، مرگی کا مرض تھا تواس کے دعویٰ کی تردید کے لئے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی، کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیتی ہے۔“ (مضمون ڈاکٹر شاہنواز صاحب قادیانی، مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز، قادیان، ص:۶ و۷، بابت ماہ اگست ۱۹۲۶/، بحوالہ قادیانی مذہب صفحہ ۱۴۵) اب دیکھئے کہ مرزا صاحب کس طرح اپنے دعووں میں آگے بڑھتے بڑھتے نہ صرف رسول کریم کے مقام تک پہنچتے ہیں (نعوذ باللہ) بلکہ ان کو پرے ہٹانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ (۱) ”میرا نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ نبی بھی ہوجائے ․․․․ اور ان نشانوں کا نام معجزہ رکھنا نہیں چاہتا بلکہ ہمارے مذہب کی رو سے ان نشانوں کا نام کرامت ہے جو اللہ و رسول کی پیروی سے دئیے جاتے ہیں“۔ (جنگ مقدس، ر۔خ، ج:۶، ص: ۱۵۶) (۲) ”یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعویٰ میں نبی کا نام سن کر دھوکا کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانے میں براہ رست نبیوں کو ملی ہے، لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں۔“ (حقیقة الوحی حاشیہ ر۔خ، ج:۲۲، ص: ۱۵۴) (۳) ”یہ سچ ہے کہ وہ الہام جو خدا نے اس بندے پر نازل فرمایا اس میں اس بندہ کی نسبت نبی اور رسول اور مرسل کے لفظ بکثرت موجود ہیں سو یہ حقیقی معنوں پر محمول نہیں ․․․․ مگر مجازی معنوں کی رو سے خدا کا اختیار ہے کہ کسی ملہم کو نبی کے لفظ سے یا رسول کے لفظ سے یاد کرے“ (سراج منبر، ر۔خ، ج:۱۲، ص:۵) اب جب ہر طرف سے شور اٹھا تو کیا وضاحت پیش کی جارہی ہے۔ (۴) ”نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدائے تعالیٰ کے حکم سے کیاگیا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے۔“ (ازالہ اوہام، ر۔خ، ج:۳، ص:۳۲۰) (۵) محدث جو مرسلین میں سے امتی بھی ہوتاہے اور ناقص طور پر نبی بھی ․․․․ وہ اگرچہ کامل طور پر امتی ہے مگر ایک وجہ سے نبی بھی ہوتا ہے اور محدث کے لئے ضرور ہے کہ وہ کسی نبی کا مثیل ہو اور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی نام پاوے جو اس نبی کا نام ہے۔“ (ازالہ اوہام، ر۔خ، ج:۳، ص: ۴۰۷) (۶) ”یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے لئے محدث ہوکر آیا ہے ․․․․․ اور بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہوکر آتا ہے اور انبیاء کی طرح اس پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں بآواز بلند ظاہر کرے اوراس سے انکار کرنے والا ایک حد تک مستوجب سزا ٹھہرتا ہے۔“ (توضیح مرام، ر۔خ، ج:۳، ص:۶۰) (۷) مسیح موعود جو آنے والا ہے، اس کی علامت یہ لکھی ہے کہ وہ نبی اللہ ہوگا، یعنی خدا تعالیٰ سے وحی پانے والا۔ لیکن اس جگہ نبوت تامہ کاملہ مراد نہیں ․․․․ سو یہ نعمت خاص طور پر اس عاجز کو دی گئی ہے۔“ (ازالہ اوہام، ر۔خ، ج:۳، ص: ۴۷۸) اب ہوتا کیا ہے ان بے سروپا دعووں کی وجہ سے مخالفت بے انتہا بڑھ جاتی ہے، اس کو وقتی طور پرٹھنڈا کرنے کیلئے، ۲/اکتوبر ۱۸۹۱/ کو ایک عاجز مسافر کا اشتہار کے نام سے ایک اشتہار شائع کرتے ہیں۔ (۸) ”میں نہ نبوت کا مدعی ہوں۔ اور نہ معجزات اور ملائک اور لیلة القدر وغیرہ سے منکر بلکہ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہلسنّت والجماعت کا عقیدہ ہے، ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اورحدیث کی رُو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔“ (مجموعہ اشتہارات، ج:۱، ص: ۲۳۰) اس کے بعد ۳/فروری ۱۸۹۲/ کو علمائے کرام سے بحث کے دوران گواہان کے دستخطوں سے تحریری راضی نامہ کرتے ہیں، اس میں لکھتے ہیں (۹) ”تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ ”فتح اسلام“ و ”توضیح المرام“ و ”ازالہ اوہام“ میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے، یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کئے گئے ہیں۔ ورنہ حاشا و کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں ․․․․ سو دوسرا پیرایہ، یہ ہے کہ بجائے لفظ نبی کے محدث کالفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اوراس کو یعنی لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال فرمالیں۔“ (مجموعہ اشتہارات، ج:۱، ص: ۳۱۲و ۳۱۳) اسی طرح کبھی اقرار، کبھی انکار، کبھی تاویلات کے ذریعہ قدم آگے بڑھاتے بڑھاتے آخر اس دعوے پر آپہنچے کہ (۱۰) ”سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔“ (رافع البلا، ر۔خ، ج:۱۸، ص: ۲۳۱) (۱۱) ”تو بھی ایک رسول ہے جیسا کہ فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا گیا تھا“ ملفوظات، ج:۸، ص: ۴۲۴) لیکن مرزا غلام احمد صاحب کی نبی و رسول بننے کے بعد بھی تشفی نہیں ہوتی بلکہ اب اپنے تاج نبوت پر مزید میناکاری کرتے ہوئے صاحب الشریعت بن جاتے ہیں۔ (۱۲) شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی روسے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں، کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔“ (اربعین۴، ر۔خ، ج:۱۷، ص: ۴۳۵) لیکن ابھی بھی ان کا مالیخولیا مرزا صاحب کو چین نہیں لینے دیتا، کہ ابھی جہاں اور بھی ہیں کہ مصداق اب مزید آگے بڑھنے کیلئے کس ہوشیاری سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے مقام سے ہٹاکر خود بیٹھنے کی تیاری ہے۔ (۱۳) ”اب اسم محمد کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں، یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں۔ کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہوچکا۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔ اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہوکر میں ہوں۔“ (اربعین ۴، ر۔خ، ج:۱۷، ص: ۴۴۵ و ۴۴۶) اب ہوتا کیا ہے کہ بندہ سوچتا ہے کہ شاید بزعم خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو لے ہی چکے ہیں، نعوذ باللہ۔ اب تو مرزا صاحب یہاں رک جائیں گے، مگر وہ مالیخولیا اور مراق ہی کیا جو رکنے دے۔ اب رسول کریم سے اپنا مقام کیسے بڑھایا جاتا ہے؟ فرماتے ہیں (۱۴) ”آسمان سے بہت سے تخت اترے پر میرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔“ (تذکرہ صفحہ ۶۳۸) لیکن کیا یہاں بھی قیام کرتے ہیں یا نہیں؟ نہیں جناب ابھی ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، فرماتے ہیں۔ (۱۵) ”اسمع ولدی، اے میرے بیٹے سن“ (البشریٰ جلد اول صفحہ ۴۹) لیکن وہ اولوالعزمی ہی کیا ہوئی جو کہیں چین لینے دے، اسی طرح بغیر پلٹ کر دیکھے منازل طے کرتے فرماتے ہیں۔ (۱۶) میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں ․․․․ سو میں نے پہلے توآسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا۔ (کتاب البریہ، ر۔خ، ج:۱۳، ص: ۱۰۳ تا ۱۰۵) افسوس اس سے آگے منزلیں ناپید ہوگئیں ورنہ تفنن طبع کو اور بھی کچھ ملتا۔ جب اب آپ دیکھیں اور غور کریں کہ ایک شخص جو مجدد، ملہم اور معمور ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے قسم کھاتا ہے اور مدعی نبوت پر لعنت بھیجتا ہے، شیطانی الہامات کی زد میں آکر نہ صرف نبوت بلکہ خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی بلکہ کئی نسلوں کی عاقبت خراب کرتا ہے، میرے ان سوالوں پر ٹھنڈے دل سے غور کریں:- (۱) کیا اللہ سے الہام پانے والے کے کلام میں تضاد ہوتا ہے؟ (۲) کیا ایک مدد روح القدس سے مصفا ہونے اور معصوم عن الخطاء ہونے کے بعد اسی طرح پینترے بدلتا ہے جس طرح مرزا صاحب نے بدلے ہیں؟ (۳) کیا مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت نہیں ہوتا کہ مرزا غلام احمد صاحب نے اسلامی عقائد کو رگیدتے ہوئے ایک ایسی نبوت کا اعلان کیا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں؟ (۴) کیا اس طرح وہ تیس جھوٹے مدعی نبوت پیدا ہونگے والی حدیث کی زد میں نہیں آگئے؟ (۵) کیا آپ مرزا صاحب کی نبوت پر ایمان لاکر، دین اسلام، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تو نہیں چل رہے؟
میرے احمدی دوستو! آخر آپ کو کس چیز کی مجبوری ہے جو ایک نبوت کے اگر جھوٹے نہیں تو کم از کم غلطی خوردہ شخص کے پیچھے لگ کر اس دنیامیں اپنی برادریوں، رشتہ داروں سے کٹ گئے ہو، بجائے خدا کی رضا کے عہدیداروں اور ایک خاندان کی رضا اور خواہش کو ماننے پر مجبور ہو۔ اس خاندان نے خدا کے نام پر تم سے تمہارا ایمان، خاندان، اولاد، عزت و آبرو، وقت، مال، جائداد، غرضیکہ ہر چیز پر قبضہ کرکے تمہیں مزارعوں کی حیثیت دے دی ہے۔ جس خاندان کی حالت بقول مرزا غلام احمد صاحب کے ایک کمتر درجے کے زمینداروں جیسی ہوگئی تھی اور جس کی جائداد پر قرضہ تھا، آج وہ خاندان تمہارے چندوں کی بنیاد پر ارب پتی بن گیا ہے، لیکن تمہارے پاس کیا ہے؟ سب سے بڑھ کر نہ صرف اپنی عاقبت گنوائی بلکہ اپنا نام دشمنان رسول میں لکھوالیا۔ خدا کے لئے مرزا غلام احمد کی کتابیں غور سے پڑھو اور جماعت کے پروپیگنڈہ سے آزاد ہوکر پڑھو تو تمہیں سوائے تعلیوں کے اور ہر پیشینگوئی کی تاویلوں کے اور گالیوں کے کچھ نہیں ملے گا، یا پھر مسیح کی خوشامد دجال کے دربار میں نظر آئے گی! سیرت مہدی مصنفہ مرزا بشیر احمد ابن مرزا غلام احمد صاحب کو پڑھو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بیعت لیتے وقت بھی کسی عورت کے ہاتھ چھوجانے سے بھی سختی سے پرہیز فرماتے تھے اور یہ (نعوذ باللہ) بزعم خود محمد ثانی پوری پوری رات ناکتخدا لڑکیوں سے اور نامحرم عورتوں سے جسم دبواتا تھا اور خدمت کراتا تھا۔ رسول کریم حسن صفائی کا نمونہ تھے اور یہ صاحب سلوٹوں بھرے کپڑے و پگڑی، واسکٹ کے بٹن کوٹ کے کاج میں، کوٹ کے بٹن کو قمیص کے کاجوں میں اور قمیص کے بٹن کہیں اور اٹکے ہوئے، واسکٹ اور کوٹ پر تیل کے داغ، اور جرابیں اس طرح پہنی ہوئی کہ ایڑی اوپر اور پنجہ آگے سے لٹکا ہوا، جوتے کا بایا پاؤں دائیں میں اور دایاں پاؤں بائیں میں، ایڑی بٹھائی ہوئی اور جب چلے تو ٹھپ ٹھپ کی آواز آئے، وٹوانی کی مٹی کے ڈھیلے اور گڑ کی ڈلیاں ایک ہی جیب میں۔ (مزید تفصیل کیلئے سیرت مہدی مصنفہ مرزا بشیر احمد جلد اول، دیکھئے) اپنے ایمان سے کہو کہ کیا نبی کا حلیہ ایسا ہی ہوتا ہے؟ ایسا تو ایک نارمل انسان کا بھی حلیہ نہیں ہوتا! اس حلیہ اور جھوٹی قسموں کے بل پر یہ دعویٰ کہ سب رسول میرے کرتے میں ہیں! سوچو کس کے پیچھے لگے ہوئے ہو۔ یہ ایک نیا مذہب ہے جو اسلام پر ڈاکہ مار کر اسلام کے لباس میں پیش کیا جارہا ہے۔ اپنے ایمان سے کہو کہ جتنی بیعتوں کے دعوے ہر سال تمہارے خلیفہ صاحب کرتے ہیں اس کا ہزارواں حصہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا؟ ہر احمدی یہی سوچ رہا ہے کہ ہمارے شہر میں نہیں لیکن دوسرے شہر میں بڑی بیعتیں ہوئی ہیں ہمارے ملک میں تو نہیں مگر دوسرے ملک میں ہوئی ہیں، جہاں تک تم سے ممکن ہے جائزہ تو لو، اپنے شہر میں دیکھو، دوسرے شہروں و ملکوں میں اپنے سنجیدہ رشتہ داروں سے پوچھو تو ہر کوئی دوسرے شہر کی بات کرے گا، اور یہی کہے گا ”نہیں یا تمہاری طرف اور دوسرے شہروں میں بڑا کام ہورہا ہے لیکن ہمارے شہر میں لوگ سست ہیں۔“ حیران نہ ہوں! جس جماعت کی بنیاد جھوٹے الہامات، جھوٹی قسموں، جھوٹی پیشینگوئیں اور مال و زر کی خواہش پر رکھی گئی ہو اس میں ایسے ہی کاغذی کام، پروپیگنڈہ کیلئے ہوتے ہیں! یک طرفہ پروپیگنڈے سے جان چھڑاؤ اور اپنی اوراپنے خاندانوں کی عاقبت خراب ہونے سے بچاؤ!
میں اپنی اپیل اس بات پر ختم کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے بھی حق کو پہچاننے اور سمجھنے کی توفیق دے اور جعلی مدعیان نبوت سے بچائے اور آپ کا اور میرا خاتمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خالص اور اصلی دین پر ہو نہ کہ انگریزوں کے پٹھو کے دین پر یا کسی اور، راہ گم کردہ کی پیروی میں! آمین ثم آمین۔
آپ کا مخلص
راحیل احمد (سابق احمدی)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد: 89 ، ربیع الاول ، ربیع الثانی1426ہجری مطابق مئی 2005ء