از: مولوی نایاب حسن قاسمی‏، شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند

                انیسویں صدی کے نصفِ آخر اور بیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان کے سیاسی، علمی، تہذیبی وفکری منظرنامے پر جن قدآور شخصیات نے اپنے فکرونظر، جہدِ مسلسل اور اخلاق وکردار کے تابناک نقوش مرتسم کیے اورہم عصر ہندوستان سے اپنی گونا گوں خوبیوں، امتیازات اور خصوصیات کا لوہا منوایا، ان میں ایک انتہائی باعظمت نام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کا بھی ہے، جنھیں ان کے قدردانوں نے بہ جا طور پر ”شیخ الاسلام“ اور ”شیخ العرب والعجم“ جیسے وقیع القاب سے نوازا، کہ اسلامی علوم میں ان کی گہرائی وگیرائی، بہ طورِ خاص علومِ حدیث میں ان کی متخصصانہ شان اور اس حوالے سے عرب وعجم کے وسیع تر دائرے میں ان کی خدمت وشہرت، ملکی وعالمی سیاست وتاریخ کے مدوجزر سے ان کی بصیرت مندانہ واقفیت، اسرار ورموزِ دینی کے معاملے میں ان کی تہ رسی ودروں بینی، ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں ان کی بے پناہ قربانیاں اوراس راہ میں ان کی ضرب المثل جاں فروشی، بے خوفی اور جرأت وبے باکی، کسرِ نفسی، خلوصِ کامل اور ایثار جیسے نبوی صفات میں ان کی یکتائی و انفرادیت اسی کی متقاضی تھیں۔

                بلاشبہ حضرت شیخ الاسلام نہ صرف اپنی اُس عظیم الشان درس گاہ کے علمی فیضانات کے حسین پرتوتھے، جو اپنے قیام سے لے کر آج تک عالمِ اسلام میں دینی علوم کی ترویج واشاعت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ممتاز شناخت رکھتی ہے؛ بلکہ وہ اس تحریکِ جہدوجہاد کے بھی جاں سپار رکن تھے، جو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کی اولاد واحفاد سے شروع ہوئی اور سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی، حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور بلند فکر مردم ساز، عبقری شاین کے مالک شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی کے راستے ان تک پہنچی تھی، وہ اپنے وقت میں عظیم الشان عالمِ دین اور محرمِ اسرارِ نبوت بھی تھے، بے باک اور سربہ کف مجاہد بھی، تصوف وسلوک کے امام بھی اوراخلاق واقدارِ اسلامی کے عظیم ترین قدردان اور ان کا پیکرِ محسوس بھی۔

                ان کی زندگی کا بیشتر حصہ یا تو ہندوستان کی آزادی کی تحریک کی سرگرمیوں میں گزرا یا دارالعلوم دیوبند کی مسندِتدریس سے تشنگانِ علومِ نبوت کو سیراب کرنے میں یا پھر اپنے منتسبین ومعتقدین کی روحانی واخلاقی تربیت میں؛ یہی وجہ ہے کہ بے پناہ صلاحیتوں کے باوصف ان کی تصنیفی خدمات بہت کم ہیں، ان کے قلم کو خاطر خواہ جولانیوں کا موقع ہی کب میسر آیا؟ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے قلم سے جو بھی تحریریں معرضِ وجود میں آئیں، وہ نہ صرف علمی وتاریخی نکتہ طرازیوں کا اعلیٰ نمونہ ہیں؛ بلکہ وہ ادبی ولسانی خوبیوں کے حسین شہ پارے بھی ہیں۔

                مولانا کے رشحاتِ قلم میں خود نوشت سوانح ”نقشِ حیات“ کے علاوہ ”اسیرِ مالٹا“، ”متحدہ قومیت اوراسلام“، ”مکتوباتِ شیخ الاسلام“، ”مودودی دستور وعقائد کی حقیقت“، ”ایمان وعمل“ اور ”سلاسلِ طیبہ“ ہیں؛ جب کہ جمعیت علمائے ہند کے مختلف اجلاس میں پیش کیے گئے صدارتی خطبات کا مجموعہ ”خطباتِ صدارت“۔

(۱)       نقشِ حیات

                یہ کتاب پہلی دفعہ ۱۹۵۳/ (۱۳۷۲ھ) میں دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی، پھر اسے یکجا کردیاگیا اور اب یہ ایک ہی جلد میں دستیاب ہے، اس وقت سے لے کر اب تک اس کے بے شمار ایڈیشن ہندوپاک کے مختلف مکتبوں سے چھپ چکے ہیں، یہ کتاب اپنے آپ میں غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے، یہ صرف مولانا کی سوانح ہی نہیں؛ بلکہ اس وقت کی عالمی سیاست میں برپا ہونے والے ہیجانات کا علمی، منطقی وتاریخی تجزیہ بھی ہے، اس کو لکھنے کی وجہ آپ کے شاگردوں اورنیازمندوں کا غیرمعمولی اصرار ہے، جو چاہتے تھے کہ خود آپ کے قلم سے آپ کے حالاتِ زندگی مرتب ہوکر آجائیں؛ تاکہ بعد والوں تک آپ کی زندگی کا صحیح ترین نقشہ پہنچ جائے اور وہ ان حالات سے بھی بہ خوبی واقف ہوجائیں، جن سے آپ، آپ کے استاذِ گرامی (حضرت شیخ الہند) اور بیسویں صدی کے مسلمان گزرے اور ان کے سامنے ان قربانیوں کی سچی جھلکیاں بھی آجائیں، جو اسلامیانِ ہند نے آزادیِ وطن کی خاطر پیش کیں اور کسی بھی قسم کی بزدلی، کم ہمتی کو آڑے نہ آنے دیا، مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اس کتاب کے ”تعارف اور وجہِ تالیف“ کے تحت لکھتے ہیں:

                ”۱۹۴۲/ میں جب آپ نینی تال جیل میں قید وبند کی زندگی بسر کررہے تھے، تو بعض خدام اور بے تکلف احباب نے آپ سے سوانحِ حیات قلم بند کرنے کی درخواست کی؛ تاکہ اس طرح اکابرِ امتِ مرحومہ کے اس اسوہ کا بھی اتباعِ کامل ہوجائے، جس کو امامِ اعظم ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل اور دوسرے مقدس اساطین نے اپنے اخلاف کے لیے یادگار چھوڑا ہے، اوّل اوّل آپ نے انکار کیا؛ لیکن جب عرض وگزارش نے اصرارِ پیہم کی شکل اختیار کرلی، تب مجبور ہوکر قلم اٹھایا اور اپنی زندگی سے متعلق چند صفحات لکھ دیے؛ مگر جنبشِ قلم جب اس موڑ پر پہنچی، جہاں سے وہ اپنے مقدس استاذ شیخ الطریقت حضرت مولانا محمودحسن قدس اللہ سرہ العزیز کا رفیق بن کر میدانِ سیاست میں گام زن ہوے تھے، تو اس کے سامنے سب سے اہم اور وقیع مسئلہ یہ پیش آیا کہ آخر شیخ الہند اور ان کے رفقائے کار نے یورپین اقوام خصوصاً انگریزی اقتدار کی مخالفت میں سیاست کی پُرشور اور ہنگامہ آرا زندگی کیوں اختیار کی؟․․․ چناں چہ حضرت مصنف کے سامنے یہ سوال سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ آیا، یہ پوری جلد، جو آپ کے سامنے ہے، اس کا بیش تر حصہ اسی سوال کا مدلل جواب ہے، دوسری جلد میں قطب العالم، شیخ الہند مولانا محمودحسن صاحب کی سیاسی تحریک کے وہ گوشے، جو اب تک پردئہ خفا میں تھے اور رولٹ کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ بھی جن کو بے نقاب نہیں کرسکی تھی، ان کی نقاب کشائی کی گئی ہے“۔(۱)

                اور خود صاحبِ سوانح رقم طراز ہیں:

                ”عرصہٴ دراز سے احباب مجھ سے میری سوانح عمری کی مختلف باتیں دریافت فرماتے رہتے تھے، حسبِ موقع جواب دیتا رہتا تھا، بعض احباب نے مختلف اخباروں اور رسائل میں ان کو شائع بھی کردیا؛ مگر افراط وتفریط اور زیادتی وکمی سے وہ مضامین خالی نہیں رہے اور بعض چیزیں غلط بھی شائع ہوئیں، جن کے تذکرے پر اصرار کیاگیا کہ صحیح واقعات قلم بند کردیے جائیں؛ بالآخر ۱۹۴۲/ میں نظربندی کی نوبت آئی اورجب کہ میں نینی تال جیل، الٰہ آباد میں تھا، تو اس کی پرزور تحریک ہوئی اور کہا گیا کہ اس وقت تو تجھ کو بہت سی مصروفیات سے نجات حاصل ہے، اس کو غنیمت جان کر اس مہم کو پورا کردینا چاہیے؛ کیوں کہ اس میں علاوہ تاریخی واقعات کے تذکرے کے آنے والے لوگوں کے لیے ہدایت اور مشعلیتِ راہ بھی ہے اور نعماے الٰہیہ کی تحدیث کی عمدہ صورت بھی“۔(۲)

                کتاب کے شروع میں آپ نے اپنے خاندان کے حالات بیان کیے ہیں، جن میں آپ کے خاندان اور سلسلہٴ نسب کا بھی مفصل اور سیرحاصل تذکرہ ہے، پھر اپنی ابتدائی تعلیم کے واقعات، اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں حصولِ تعلیم کی تفصیلات اور اساتذہ کا ذکرِ خیر ہے، اس ذیل میں آپ نے ان تمام شخصیات کا ذکر کیا ہے، جنھوں نے کسی نہ کسی عوان سے آپ کو متاثر کیا ۔

                مولانا نے اس کتاب میں اپنے فن کی خاص رعایت کی ہے، اپنے تعلق سے لکھتے وقت ان نکات واحوال کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا ہے، جو قاری کی نگاہ میں غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں، سوانح نگاری اور بالخصوص خود نوشت سوانح نگاری ادب کی انتہائی نازک صنف مانی جاتی ہے، خود نوشت سوانح نگارکا فریضہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ماڈل بناکر پیش نہ کرے، کہ اس کی تحریر خودستائی وخودنمائی کا مرقع بن کر رہ جائے؛ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ بیتے ہوئے حادثات و واقعات کو بغیر کسی تحفظ کے جوں کا توں بیان کرے؛ تاکہ اس کی شخصیت کا واقعی سراپا قاری کے سامنے کھل کر سامنے آجائے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے، تو نہ صرف یہ کہ اس فن کی روح کے مجروح ہونے کا خطرہ ہے؛ بلکہ اس قسم کی سوانحِ حیات کسی اعتنا کے قابل نہیں سمجھی جاتی، مولانا کو اس حقیقت کا کامل ادراک تھا؛ اس لیے آپ کے قلم کی روش پوری طرح فن کی مقتضیات کو پورا کرتی ہے، آپ کہیں بھی یہ ایہام نہ ہونے دیتے کہ سوانح نگار اپنے وقت کا ایک زبردست عالم، محدث، مرشد اور مجاہد ہے؛ بلکہ آپ اپنے کو ایک عام آدمی کی طرح پیش کرتے ہیں، جس کی زندگی کا آغاز ایسے ہی ہوا، جیسے کہ دیگر لوگوں کی زندگی کی شروعات ہوتی ہے، اس کا اندازہ آپ کے بچپن کے اس واقعے سے بہ خوبی ہوتا ہے، لکھتے ہیں:

                ”مجھ کو ہوش وحواس جب آئے، تو میں نے اپنے آپ کو ٹانڈہ میں پایا، بانگرمئو (جہاں آپ کی پیدایش ہوئی تھی) بالکل یاد نہیں، والدین مرحومین کو اولاد کی تعلیم وتربیت کا غیرمعمولی اور بہت زیادہ خیال تھا اوراس کے لیے والد مرحوم بہت زیادہ سختی کرتے تھے؛ اس لیے مجھ کو کھیلنے کا موقع آزادی کے ساتھ صرف چار برس کی عمر تک ملا ہے، جب اس عمر کو پہنچا، تو گھر میں والدہ مرحومہ کے پاس قاعدہ بغدادی، اس کے بعد سیپارہ پڑھنا پڑتا تھا، صبح ساڑھے نوبجے تک تو یہ قید اور پڑھائی گھر میں ہوتی تھی اور ساڑھے نوبجے کھانا کھاکر والدمرحوم کے ساتھ اسکول جانا پڑتا تھا، اسکول الٰہ داد پور سے تقریباً ایک میل یا اس سے کچھ زائد دوری پر ہے، اسکول کی تعلیم میں بھی مدرسین اس زمانے میں خوب مارپیٹ کرتے تھے“۔(۳)

                اس اقتباس سے حضرت کے گھرکے علمی ماحول اور والدین کی اولاد کی بہترین علمی واخلاقی تربیت سے غیرمعمولی دل چسپی کا احساس ہوتا ہے، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ شخصیت کی تعمیرو تشکیل میں ماحول اور وراثت دونوں اثر انداز ہوتے ہیں؛ اس لیے اپنی سوانح اس انداز سے پیش کی کہ قاری کو معلوم ہوجائے کہ سوانح نگار کس حد تک وراثت کا مِنَّتْ کَشْ ہے اور اس کی نشوونما میں کس حد تک ماحول اور گردوپیش کی کارفرمائی ہے، یہ ذہن میں رہے کہ ماحول اور وراثت دونوں ایک حد تک ہم آہنگ بھی ہیں اور بہت حد تک ان میں ایک دوسرے سے بے گانگی بھی ہے، سوانح نگاروں کا ایک حلقہ وراثت کی زیادتی تاثیر پر زور دیتا ہے، جب کہ دوسرا حلقہ ماحول کو شخصیت کی تعمیر میں زیادہ اثر انداز مانتا ہے، اگرچہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ وراثت اور ماحول دونوں تعمیر وتشکیلِ شخصیت کے جوہری عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں؛ لیکن ان دونوں کے ساتھ خود شخصیت کے اندر بھی ایک خاص عنصر ہوتا ہے، جو خالص مذاقی یا انفرادی نوعیت کا اور جس کے بغیرکسی بھی ذات کی تعمیر نقطئہ کمال کو نہیں پہنچ سکتی، یہی وہ مقام ہے جس سے اگر صاحبِ سوانح صحیح طور سے عہدہ برآ نہ ہوسکے، تو وہ اپنے راستے سے بھٹک جاتا ہے اور پھر اس کا قلم مختلف وادیوں میں قلابازیاں کھاتا اور اس کی تحریریں افراط وتفریط کی تنگنائیوں میں الجھ کر رہ جاتی ہیں، مولانا نے اس مقام پر بھی فنی نزاکتوں کو مکمل طور پر محسوس کیا اور کہیں بھی اس فن کو مجروح نہیں ہونے دیا ہے اور اپنے مخصوص اندازِ بیان میں اس منزل کو اس خوبی سے سرکیا ہے کہ وہ پڑھنے والے کی دلچسپیوں کا باعث بن گئی ہیں۔

                شروع میں یہ عرض کیاگیاکہ ”نقشِ حیات“ صرف مولانا کے احوالِ زندگی کی دستاویز ہی نہیں؛ بلکہ یہ اس دور کی سیاسیات ومعاشرت کی مشاہداتی، تجرباتی ومطالعاتی تاریخ بھی ہے؛ اس لیے جب ہم اس کتاب کے اس حصے کا مطالعہ کرتے ہیں، جس میں انھوں نے حضرت شیخ الہند کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا تذکرہ کیا ہے، تو ہمارے سامنے اس وقت کے سیاسی اتار چڑھاؤ کا مکمل نقشہ سامنے آجاتا ہے اور ان پر آپ کی گہری نظر کا بھی مکمل احساس ہوتا ہے۔

                سوانح نگار اگر چاہے، تو کسی معمولی سے واقعے کو پھیلاکر اسے ایک مکمل کتابی شکل میں پیش کرسکتا ہے؛ لیکن یہ وصف کوئی پسندیدہ نہیں کہا جاسکتا، ضرورت سے زیادہ تحریر کے پھیلاؤ سے پڑھنے والا اُکتاجاتا ہے اور پھر اس کے لیے اس کتاب کو از ابتدا تا انتہا پڑھ ڈالنا بہت ہی دشوار ہوتا ہے اور اگر اسے ختم کربھی لیا جائے، تو قاری کے پلے کچھ بھی نہیں پڑتا اور اس کا دماغ جوں کا توں خالی رہ جاتا ہے؛ لیکن ”نقشِ حیات“ میں یہ نقص کہیں بھی نہیں پایا جاتا، اس کے مطالعے سے قاری کے احساس وشعور میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ صاحبِ سوانح نے بڑے بڑے اور اپنے پہلو میں تاریخ کی تہ بہ تہ پرتیں رکھنے والے واقعات کو بھی انتہائی اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس احتیاط کے ساتھ کہ کہیں بھی کتاب کے مرکزی خیال سے انحراف کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا، کتاب کے بعض حصوں میں ایسے تاریخی واقعات بھی آگئے ہیں، جو اپنے دامن میں دراز نفسی لیے ہوئے ہیں؛ مگر ان کو اس خوش سلیقگی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ وہ طوالت بھی ان کے قلم کی ایک خوبی اور بیان پر ان کی مہارت کی واضح دلیل بن گئی ہے۔

                ”نقشِ حیات“ میں کہیں بھی کسی قسم کی پیچیدگی، اٹکاؤ اور الجھاؤ نہیں ہے، مولانا اپنی عملی زندگی میں خواہ شخصی ہو یا معاشرتی، جس طرح اجلے کیریکٹر اور شفاف وواضح کردار کے انسان تھے، ان کی زندگی کا ہرگوشہ ہر زاویے سے کھلی کتاب کی مانند تھا، جسے ہر شخص بہ آسانی محسوس کرسکتا تھا، اسی طرح ان کی تحریریں بھی اپنے مظاہر اور معنویت کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں، انھوں نے جس مسئلے پر بھی قلم اٹھایا ہے، پوری باریک بینی، ژرف نگاہی کے ساتھ اٹھایا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ان کے عمل وکردار کی طرح ان کی نگارشات میں بھی بھرپور سادگی اور وضاحت ہے، محشراعظمی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے:

                ”نقش حیات میں کسی جگہ الجھاؤ نہیں ملتا، مولانا نے عملی زندگی میں جس طرح ایک واضح، صاف اور متعین راہ اختیار کی تھی، ان کی تحریروں میں بھی وہی بات ملتی ہے، شروع سے آخر تک ایک ہی رنگ اور ایک ہی شان نظر آتی ہے اور کہیں بھی کوئی ایسا موڑ نہیں ملتا، جہاں قلم نے اپنے حدود سے تجاوز کیا ہو اور ادائیگیِ مطلب کے لیے جن الفاظ کی ضرورت محسوس کی گئی ہے، وہی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، مولانا جو کچھ لکھنا چاہتے تھے اور جس مقصد کے لیے انھوں نے قلم کو جنبش دی، قاری اسے بہ خوبی سمجھ لیتا ہے، نہ کہیں کوئی گوشہ تشنہٴ تکمیل ہے، نہ کہیں شک کی کوئی گنجایش موجود ہے“۔(۴)

                ”نقشِ حیات“ مولانا کی ایسی تصنیف ہے، جس میں ان کا اسلوبِ نگارش ایک خاص انداز میں جلوہ گر ہے، جو بہت ہی سنجیدہ اور جامع ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایک طرح کی پاکیزگی کا حساس ہوتا ہے، ذاتی تفصیلات وجزئیات عام طور پر ایسی ہوتی ہیں، جن سے بعض اوقات قاری اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے؛ اس لیے اپنی باتوں کو پیش کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، اگر بات اختصار طلب ہے، تو اس کو طول دینے سے گریز کرنا چاہیے اور اگر وہ تفصیل چاہتی ہے تو اسے پھیلاکر لکھنا چاہیے، مولانا کے زورِ قلم کا یہ اعجاز ہے کہ وہ خالص ذاتی معاملات کی جزئیات میں قاری کو زیادہ دیر نہیں الجھاتے؛ بلکہ ”نقش حیات“ میں پیش کیاگیا ان کی زندگی کا ایک ایک واقعہ کسی نہ کسی خاص پس منظر کا حوالہ ہے، مثلاً جہاں پر انھوں نے اپنی زندگی پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے، وہ حصہ ان کی زندگی کے ائینے میں ہندوستان بھر کی سیاسی واجتماعی حالات کی عکاسی کرنے والا ہے، انھیں اس بات پر کمال حاصل ہے کہ وہ اپنے مطلب کو اس واضح انداز میں سمجھادیتے ہیں کہ قاری کے ذہن ودماغ میں یقین کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اوراس کے احساس ووجدان میں تحریک کی شمع روشن ہونے لگتی ہے۔

                ”نقش حیات“ کا ایک اوراہم گوشہ یہ ہے کہ مولانا نے اس میں پیش کیے گئے ہر واقعے کو دلائل، شواہد اور مستند اعداد وشمار سے مبرہن کیا ہے؛ چناں چہ جہاں آپ نے انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ اور ان کے ہاتھوں ہندوستان کی تجارت ومعیشت ومعاشرت کی تاراجی کو بیان کیاہے، تو اسے مدلل کرنے کے لیے خود انگریز موٴرخین کی تصانیف سے حوالے پیش کیے ہیں، اس حصے کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس قلب ودماغ پر چھاجاتاہے کہ صاحب کتاب کو تاریخ اور اس کے مآخذ سے حیرت ناک حد تک آگاہی ہے، مولانا جہاں مذہبی اور علمی معاملات میں جابہ جا قرآنی آیات اور حدیثی استدلالات کا مضبوط سہارا پکڑتے ہیں اور ان کے ارشادات کی روشنی میں اپنے موقف اور نظریے کی قوت و وقعت پر برہان قائم کرتے ہیں، وہیں تاریخی واقعات کے تذکرے اور تجزیے کے وقت اس فن کی امہاتِ کتب کے حوالے سے اپنا نقطئہ نظر پیش کرتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری کسی بھی اعتبار سے شک وشبہ میں مبتلا نہ ہو؛ بلکہ اس کا ذہن یقین کی سروربخشیوں سے سرشار ہوجائے، بہ قول محشر اعظمی:

                ”نقش حیات میں زیادہ تر انگریزی تصنیفات اور تحریروں کا حوالہ دیاگیا ہے، جن لوگوں نے ہندوستان پر ظلم کیا، اس کی دولت لوٹی اور پھر اپنے احسانات بھی جتائے اور ہر طرح اپنے عیب وجرم کو چھپانے کی کوشش کی، مولانا نے خود انہی کی تحریروں سے انھیں بے نقاب کردیا اور ان کی پوری قلعی کھول کر رکھ دی اور یہ ثابت کردیا کہ انگریز ظالم تھے، انھوں نے ہندوستان کا خون چوسنے میں اپنی خوں خواری کا پورا ثبوت دیا“۔(۵)

                خلاصہ یہ ہے کہ نقش حیات اپنے وقت کے ایک عظیم عالم ومحدث، تحریک آزادی کے کفن بردوش مجاہد اور شب زندہ دار زاہد کی سیرحاصل داستانِ حیات بھی ہے، جو انتہائی سادگی کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور ساتھ ہی بیسویں صدی کے ہندوستان کے سیاسی ومعاشرتی نشیب وفراز کی سچی اورحقیقت نما تصویر بھی۔

(۲)      اسیرِ مالٹا

                یہ آپ کی اس وقت کی تصنیف ہے، جب آپ کا قلم جوان تھا، اس کے شروع کے صفحات میں حضرت شیخ الہند کے امتیازی اوصاف وشمائل کو بہت ہی دل آویز اسلوب، انتہائی پرکشش طرز اور ایسے شیریں وسحر انگیز الفاظ میں بیان کیاہے کہ قاری ان میں جذب ہوکر رہ جاتا ہے، مثلاً شروع کے یہ چند جملے:

                ”اس نے بحرِامدادی سے فیوضات حاصل کیے؛ مگر ڈکارنہ لی، اس نے قاسمی نہریں پی ڈالیں؛ مگر ہضم کرگیا، اس نے رشیدی گھٹاؤں اور دھواں دھار بادلوں کو چوس لیا؛مگر کبھی بے اختیار نہ ہوا، دعویٰ نہ کیا، شطحیات نہ سنائیں، استقامت سے نہ ہٹا، شریعت کو نہ چھوڑا، عشق میں گھل کر لکڑی ہوگیا؛ مگر دم نہ مارا․․․“۔(۶)

                چند صفحات تک تو یہی سحرانگیز اسلوب ہے؛ مگر کتاب کے بقیہ حصے میں تحریر کا یہ رنگ نہیں ہے، اس کتاب میں مولانانے حضرت شیخ الہند کی تحریکِ آزادی کے نقطئہ آغاز سے لے کر مکہ معظمہ کے سفر، وہاں تک پہنچنے اور پہنچنے کے بعد کی روداد، شریفِ مکہ کی آپ کے تئیں بدگمانی، پر مکے میں محبوسی، وہاں سے مصر (جیزہ) کو روانگی اور مصر کی ایک ماہ کی اِسارت کے بعد ۱۵/فروری ۱۹۱۷/ (۲۳/ربیع الثانی ۱۳۳۵ھ) کو مالٹا کی روانگی، سفر کے احوال، مالٹا کی مدتِ محبوسیت میں شب وروز کی سرگرمیوں، حضرت شیخ الہند کے سلسلہٴ تدریس وترجمہ قرآنِ پاک کے معمولات، حضرت کے دیگر رفقا مولانا حکیم نصرت حسین، مولانا عزیرگل، مولانا وحیداحمد اور حضرت مدنی کے شبانہ روز کے اشتغالات، مولانا حکیم نصرت حسین کے سانحہٴ ارتحال کی روداد، پھر تین سال کی اسارت کے بعد رہائی اور وہاں سے دیوبند تک آمد کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، تتمہ کے تحت کرنل اشرف بیگ، جو حکومت ترکی کے سربرآوردہ لوگوں میں سے تھے اور ان کی اپنی ایک علیحدہ فوج تھی، جو خلافت عثمانیہ کے لیے کام کرتی تھی، صنعاے یمن کے امام یحییٰ نے گورنر انور پاشا کو خط لکھاتھا کہ تم اشرف بیگ کو اپنی فوج کے ساتھ بھیج دو، میں اپنی اوران کی فوج کے ساتھ مل کر شریف حسین (جس نے خلافت عثمانیہ سے بغاوت کی اور پورے حجاز میں ترکی حکومت کے خلاف احتجاج کا طوفان برپا کرکے وہاں سے اس کا خاتمہ کروادیا) پر چڑھائی کروں؛ تاکہ اس سے اس کی اسلام دشمنی وانگریز وفاداری کا بدلہ لیا جائے؛ چناں چہ انور پاشا نے کرنل اشرف کو بھیج دیا؛ لیکن مدینے میں ہی انھیں اور ان کی فوج کو شریف حسین کے گرگوں نے دھرلیا، دونوں کے درمیان زبردست معرکہ آرائی ہوئی؛ بالآخرکرنل اشرف کی فوج پسپا ہوگئی اور انھیں گرفتار کرکے اسی جماعت کے ساتھ، جس میں حضرت شیخ الہند اور آپ کے رفقا تھے، مالٹا بھیج دیاگیا، مولانا مدنی نے ان کا، ان کے خاندان کا اورمالٹا کے قیام کے دوران ان کے شریفانہ اخلاق ومعاملات اور حضرت شیخ الہند کے تئیں ان کے غیرمعمولی جذبہٴ احترام وتکریم کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے، کتاب کے اخیر میں تقریباً سات صفحات میں حضرت شیخ الاسلام کا بھی اجمالی تذکرہ شامل ہے، تذکرہ نویس محمد مبین خطیب ہیں۔

(۳)      مکتوباتِ شیخ الاسلام

                یہ چار جلدوں پر مشتمل آپ کے خطوط کا مجموعہ ہے، جسے آپ کے معتقد ومعتمد خصوصی مولانا نجم الدین اصلاحی نے مرتب کیا ہے، یہ مکتوبات متنوع معلومات کا گنج شائگاں ہیں اور ان سے آپ کی بلند وبالا شخصیت بھی نکھرکر سامنے آتی ہے، یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی کی ذات اسلامی فضائل اور دینی اوصاف وکمالات کی جامعیت کے لحاظ سے اپنے دور میں ایک بے مثال شخصیت کی حیثیت رکھتی تھی، آپ اسلامی وعربی علوم وفنون، سلوک ومعرفت اور تصوف وسلوک کے ایک ناپیدا کنار سمندر تھے، قدرت نے آپ کے اندر علم وعمل کی جملہ خوبیاں جمع کردی تھیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کے مکتوبات میں ان کی جھلکیاں بھرپور انداز میں پائی جاتی ہیں، یہ خطوط وہ ہیں جو آپ نے مختلف اوقات میں اپنے مریدین، معتقدین، دوستوں، عزیزوں، رشتے داروں اور شاگردوں کو لکھے ہیں، ان خطوط کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے: ایک حصہ تو ان خطوط کا ہے، جن میں علمی، دینی یا معاشرتی سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں، آپ کے دوست، اعزہ اور نیاز مند اکثر کسی نہ کسی مسئلے میں آپ کی رہ نمائی کے خواہاں ہوتے اور آپ کو خط لکھا کرتے تھے، آپ ان کے خطوط کو اولاً انتہائی توجہ سے پڑھتے اور پھر حسبِ حال انھیں ان کے سوالات کے جوابات لکھ کر بھیج دیا کرتے تھے، آپ کے زیادہ تر خطوط ایسے ہی ہیں اور یہ بات بلاکسی شبہے کے کہی جاسکتی ہے کہ وہ آپ کی علمیت اور وسعت نظری کا اعلیٰ نمونہ ہیں، ان خطوط کو دیکھ کر کوئی بھی انسان آپ کی معلومات کی کثرت اور علم وفضل کی بے کرانی کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، ان میں تفسیرو حدیث، فقہ وفتاویٰ، علم کلام وعقائد، سلوک ومعرفت، تاریخ وسیر اور اقتصادیات واخلاقیات کے ٹھوس حقائق پر سیر حاصل اور بصیرت افروز گفتگو کی گی ہے اور کمال تو یہ ہے کہ اکثر وبیشتر خطوط دورانِ سفر یا ایامِ اسیری میں انتہائی عجلت میں اور قلم برداشتہ لکھے گئے ہیں؛ مگر اس کے باوصف وہ مستقل مضمون اور علمی وتحقیقی شہ پارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

                جب ہم مولانا مدنی کے مکتوبات کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ذہانت بھی آزاد کے ہم قدم ہے، کسی بھی مسئلے پر لکھتے وقت آپ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا ہے، مشائخ اور اولیاے کرام کے ملفوظات کو انہی کے الفاظ میں بیان کیاہے، جہاں کہیں کتابوں کے حوالے آئے ہیں، وہاں ان کی عبارتیں انہی کے الفاظ میں نقل کی ہیں اور بعض اوقات ان کے صفحے تک نوٹ کرتے چلے گئے ہیں، اسی طرح اشعار کے استعمال میں بھی مولانا مدنی نہ صرف مولانا آزاد کے شریک ہیں؛ بلکہ یک گونہ ان پر فوقیت بھی رکھتے ہیں، مولانا مدنی کے خطوط میں فارسی کے ساتھ اردو کے بہترین اشعار اور غزل کے اشعار بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں اور صرف اسی قدر نہیں؛ بلکہ ہندی کے بھی نرم ونازک اور رسیلے اشعار خاصی تعداد میں ان کے خطوط میں موجود ہیں۔

                مجموعہٴ مکتوبات کے کچھ خطوط ایسے بھی ہیں، جو بالکل ذاتی اور نجی نوعیت کے ہیں، ان میں جہاں اس وقت کے سیاسی مسائل پر گفتگو کی گئی ہے اور مولانا نے اپنے سیاسی نظریات کی وضاحت کی ہے، ہوسکتا ہے ہر پڑھنے والا اس سے متفق نہ ہو، کہ یہ ممکن بھی نہیں؛ مگر پھر بھی ان کی اس اہمیت سے مجالِ انکار نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے زمانے کے ”شیخ الاسلام“ کے افکارِ سیاسی کے بلاواسطہ ترجمان ہیں اور تاریخی دستاویز بھی۔

                یہ بات طے شدہ ہے کہ خطوط کسی بھی شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں،جس میں اس کا اصلی چہرہ نظر آتا ہے، کوئی بھی آدمی کسی کی خوبیوں اور خرابیوں سے صحیح واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہو، تو وہ اس کے خطوط کا مطالعہ کرنے کے بعد کسی بھی فیصلہ کن پوزیشن تک پہنچ سکتا ہے؛ کیوں کہ یہ وہ تحریر ہے، جو بغیر کسی بناوٹ اور سجاوٹ کے لکھی جاتی ہے؛ کیوں کہ خطوط نہ تواظہارِ علم کا ذریعہ ہوتے ہیں اور ناہی اپنی ذات کو بلند آہنگ طریقے سے پیش کرنے کا وسیلہ؛ بلکہ یہ بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملات کے تئیں خطوط نگار کی بے ساختہ راے کا اظہار ہوتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ خطوط کے آئینے میں کوئی بھی شخصیت اپنے اصلی خط وخال سمیت منعکس ہوجاتی ہے، اس لحاظ سے بھی اگر ”مکتوباتِ شیخ الاسلام“ کا مطالعہ کیا جائے، تو پڑھنے والا مکتوب نگار کی مقناطیسی شخصیت کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور وہ بے ساختہ طور پر خود کو ان سے قریب ہوتا ہوا، ان کی جانب کھنچتا ہوا اور ان سے متاثر ہوتا ہوا پائے گا۔

                جہاں تک ان خطوط کی زبان کا تعلق ہے، تو وہ عموماً انتہائی سادہ، رواں، سلیس، شگفتہ اور ہرنوع کی پیچیدگی سے مبرَّا ہے؛ البتہ جہاں آپ نے کسی خاص علمی وباطنی مسئلے کی وضاحت کی ہے، وہاں قدرے خشکی پائی جاتی ہے، جس کے بغیر کوئی چارئہ کار بھی نہیں؛ کیوں کہ وہ مکتوب جس میں خالص علمی، اخلاقی اور باطنی مباحث ہوں، انھیں مکمل طور پر ادبی آہنگ میں نہیں ڈھالا جاسکتا، کہ اس سے مکتوب نگار کے مقصودِ اصلی کے فوت ہوجانے کا دھڑکا پیدا ہوجائے گا اور اصل بات، جو وہ مکتوب الیہ تک پہنچانا چاہتا ہے، الفاظ کی رنگینیوں میں کھوجائے گی، محشر#اعظمی نے غالب# کے خطوط اور مولانا آزاد# کے غبارِخاطر سے مکتوباتِ شیخ الاسلام کا موازنہ کرتے ہوئے عمدہ تبصرہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

                ”مکتوبات کا کون سا اسلوب پسندیدہ ہے اور کون نہیں، یہ تو اپنے اپنے ذوق کی باتیں ہیں، کسی نے غالب# کے خطوط کو ان کی سادگی، بے تکلفی اور ظرافت کی وجہ سے پسند کیا، کسی نے مولانا آزاد# کی غبارِخاطر اس وجہ سے پڑھی کہ اس میں ایک خاص قسم کی چاشنی ہے، الفاظ کی سجاوٹ ہے، جملوں کی خوب صورت ترکیب ہے اور خیالات کی رنگینی کے ساتھ معمولات کا دریا موج زن ہے اور مکتوباتِ شیخ الاسلام کو اس وجہ سے پسند کیا جاسکتا ہے کہ اس میں خالص علمی وروحانی باتیں ہیں، ایسے خطوط جن میں صرف زبان وبیان کی خوبی ہو اور ان میں کوئی بنیادی خوبی نہ ہو، ان کے مطالعے سے قاری کو ایک لذت تو مل سکتی ہے؛ لیکن اس کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا، ہمارے اس نقطئہ نظر پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ معلومات حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں، پھر خطوط و مکاتیب میں اس کا کیا سوال؟ تو یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے اور ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے؛ لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم دوسروں کے مکتوب کیوں پڑھتے ہیں؟ اورکسی کے مکتوب پڑھتے وقت ہمارے دل میں کیا خیال پیدا ہوتا ہے؟ وقت اور دماغ صرف کرنے کے بعد ہمیں کیا ملتا ہے؟ دوسروں کے مکتوب ہم اس لیے پڑھتے ہیں کہ ان سے ہمیں کسی قسم کا فائدہ حاصل ہو، جو تحریر ہمارا وقت اور دماغ لے کر بھی ہمیں کچھ نہ دے سکے، تو اسے پرھنے کا کیا حاصل؟ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خطوط ومکاتیب الفاظ و تراکیب کا حسین مجموعہ تو ہوں، ساتھ ہی ان میں افادیت بھی ہونا چاہیے، مکتوباتِ شیخ الاسلام میں بیش تر مکتوبات ایسے ہیں، جو تعلیم وہدایت کے آئینہ دار ہیں اور کسی نہ کسی کے استبصار پر لکھے گئے ہیں، وہ خطوط، جن میں علمی، اخلاقی، فقہی اور باطنی مباحث ہوں، انھیں اس سے زیادہ رنگ نہیں دیا جاسکتا“۔(۷)

                ان مکتوبات سے منتخب کرکے دودگر مجموعے بھی مرتب کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک ”معارف وحقائق“ ہے، جسے حضرت مدنی کے داماد اور مدرسہ شاہی مرادآباد کے سابق مہتمم مولانا رشیدالدین حمیدی نے مرتب کیا ہے، اس میں تصوف وسلوک، فقہ، علمی حقائق، عملیات، اذکار وادعیہ، تعبیر الروٴیا، تاریخ، سیاسیات اور دیگر متفرق موضوعات سے متعلق منتخب تحریروں کو یک جا کیا گیا ہے اور دوسرا ”فتاویٰ شیخ الاسلام“ ہے اوراس میں خالص فقہی تحریروں کو جمع کیاگیا ہے، اس کے جامع ومرتب حضرت مدنی کے نواسے اور ممتاز عالم دین وصاحبِ قلم مفتی محمد سلمان منصور پوری مدظلہ العالی ہیں۔

(۴)      متحدہ قومیت اور اسلام

                ۸/جنوری ۱۹۳۸/ کی شب میں صدر بازار دہلی کے ایک جلسے میں مولانا مدنی نے تقریر فرمائی، جس کا بڑا حصہ ۹/جنوری کے روزنامہ ”تیج“ اور ”انصاری“ دہلی میں شائع ہوا، اس جلسے میں روزنامہ ”الامان“ (اس کے مدیر مولانا مظہرالدین شیرکوٹی فاضل دیوبند تھے، جو پکے مسلم لیگی تھے) کا رپورٹر بھی موجود تھا، اس نے اپنے حساب سے اس تقریر کی رپورٹنگ کی اوراس کے بعداسے ”الامان“ میں شائع کردیاگیا، پھر اس سے ”زمیندار“ اور ”انقلاب“ لاہورنے بھی نقل کیا اور یہ جملہ مولانا سے منسوب کردیا کہ انھوں نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ چوں کہ اس زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں، مذہب سے نہیں؛ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قومیت کی بنیاد وطن کو بنائیں۔

                اُدھر علامہ اقبال، جو اپنے وقت کے بے مثال اسلامی شاعر اور مفکر تھے اور وہ بھی ایک عرصے تک قومی نظریے کی حمایت میں لکھتے، بولتے اور اس کی ہم نوائی کرتے رہے تھے، ان کی مشہور نظم ”ہمالیہ“ اور ”ترانہٴ ہندی“ اسی دور کی یادگار ہیں؛ مگر جب انھوں نے یورپ کا دورہ کیا اور وہاں کی تہذیب، طریقہٴ زندگی، سیاسی نظریات وافکار کا مشاہدہ کرنے کے بعد وہاں سے واپس ہوئے، تو ان کا سیاسی نقطئہ خیال بدل چکا تھا، انھوں نے واپسی کے بعد قومی راہ نماؤں کو خطوط لکھے، اخبارات میں اپنے مضامین شائع کروائے اور مسلمانوں کو دوقومی نظریے پر ابھارنا شروع کردیا اور چوں کہ اس وقت مسلم لیگ کا اساسی نظریہ یہی تھا؛ اس لیے علامہ اقبال اسی کی حمایت وموافقت میں جٹ گئے، انھوں نے سب سے پہلے ۱۹۳۰/ کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں خطبہٴ صدارت پیش کرتے ہوئے شمال مغربی ہندوستان کی علیحدگی کی تجویز پیش کی اوراسے وطن کی معاشرتی مشکلات اور ہندومسلم منافرتوں کا حل بتلایا، اس کے بعد ان کے افکار کی ساری توانائی اور تخیلات کی تمام تر بلند پروازیاں اسی خیال کو تقویت پہنچانے اور قوم پرست علما اور لیڈران پر پھبتیاں کسنے میں صرف ہوئیں۔

                ”الامان“ کے واسطے سے نقل شدہ خبر جب علامہ موصوف کو پہنچی، جو ان کے نظریے کے سخت خلاف تھی، تو انھوں نے مولانا حسین احمدمدنی پر سخت تنقید کی :

عجم ہنوز نہ داند رموزِ دیں ورنہ

زدیوبند حسین احمد ای چہ بوالعجبی ست؟

سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن ست

چہ بے خبر زمقامِ محمدِ عربی ست

بہ مصطفی بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی ست

                علامہ اقبال کے یہ اشعار روزنامہ ”احسان“ میں شائع ہوئے، اس کے بعد پورے ملک میں ہنگامہ، بے چینی اور خلش کا ماحول پیدا ہوگیا، جہاں علامہ اقبال کے حامیین مولانا مدنی کے خلاف زبان درازی وقلم درازی پر اتر آئے، وہیں خود حضرت کے متوسلین کی طرف سے بھی جوابِ آں غزل کے طور پر تحریروں اور بیانات کا اک سلسلہٴ دراز شروع ہوگیا، جو کسی آن تھمنے کا نام نہ لیتا تھا، مولانا کی طرف سے وضاحتی بیان بھی شائع ہوا، جس میںآ پ نے اپنی جانب منسوب کیے گئے جملے کی تردید کی تھی، اسی کے بعداعظم گڑھ کے مشہور شاعر اقبال سہیل نے بھی علامہ اقبال کے خلاف انہی کی بحر میں ایک لمبی اور تیز وتند نظم کہی تھی:

کسے کہ خردہ گرفت بر حسین احمد

زبانِ او عجمی وکلام در عربی ست

کہ گفت برسرِ منبر کہ ملت از وطن است

دروغ گوئی وایراد، ایں چہ بوالعجبی ست

درست گفت محدث کہ قوم از وطن ست

کہ مستفاد زفرمودئہ خدا ونبی ست

زبانِ طعن کشودی وایں نہ دانستی

کہ فرقِ ملت وقوم از لطائفِ ادبی ست

تفاوتے ست فراواں میانِ ملت وقوم

یکے زکیش ودگر کشوری ست یا نسبی ست

خداے گفت بہ قرآں ”لکل قوم ہاد“

مگر بہ نکتہ کجا پے بَرد کسے کہ غبی ست

بہ قومِ خویش خطابِ پیمبراں بہ نگر

پُر از حکایتِ ”یاقوم“ مصحفِ عربی ست

رموزِ حکمتِ ایماں زفلسفی جستن

تلاشِ لذتِ عرفاں زبادئہ عنبی ست

بہ دیوبند درآ گر نجات می طلبی

کہ دیوِ نفس سلحشورو دانشِ تو صبی ست

بہ گیر راہِ حسین احمد گر خدا خواہی

کہ نائب ست نبی را وہم ز آلِ نبی ست

                خوش قسمتی سے ایک دردمند اور باشعور وذی فہم مسلمان (جو عالمِ دین بھی تھے اور ادیب وصحافی بھی) جنھوں نے مصلحتاً اپنا نام طالوت (اصل نام عبدالرشید نسیم) رکھ لیا تھا، حقیقت حال دریافت کرنے کے لیے حضرت مدنی کی خدمت میں ایک خط لکھا، جس کا حضرت مدنی نے جواب دیا اور اپنی تقریر کا مدعا بہ وضاحت بیان کیا، پھر انھوں نے ان کے خط کا اقتباس علامہ اقبال کی خدمت میں ارسال کیا، جس کو دیکھنے کے بعد علامہ موصوف نے اپنا تبصرہ واپس لے لیا اور فرمایا کہ: ”میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا․․․ مولانا کی حمیت دینی کے احترام میں میں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں“۔(۸)

                علامہ اقبال کا یہ اعتراف نامہ ”احسان“ کے علاوہ ۵/مارچ ۱۹۳۸/ کو روزنامہ ”مدینہ“ بجنور میں بھی شائع ہوا تھا، خیر! علامہ اقبال نے تو اپنی بات واپس لے لی؛ مگر ان کا وہ قطعہ ”ارمغانِ حجاز“ کے ترتیب کاروں نے نہ معلوم کن مصلحتوں کے تحت چھاپ دیا اور اب تک یہ سلسلہٴ زبوں جاری ہے؛ حالاں کہ علامہ کے بعض دوستوں اورماہرین اقبالیات کی یہ راے تھی کہ اگر وہ ان کی زندگی میں چھپتی، تو یہ اشعار اس میں شامل نہ کیے جاتے، خواجہ عبدالوحید لکھتے ہیں:

                ”ارمغانِ حجاز“ اگر حضرت علامہ کی زندگی میں چھپتی، تو یہ نظم اس میں شامل نہ ہوتی“۔(۹)

                ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے بھی ”سرگزشت اقبال“ میں تحریرکیا ہے:

                ”اگر وہ ”ارمغانِ حجاز“ کی ترتیب اپنی زندگی میں کرتے، تو شاید وہ تین اشعار درج نہ کرتے، جن میں مولانا حسین احمد مدنی پر چوٹ کی گئی تھی“۔(۱۰)

                ماہرِ اقبالیات وشارحِ کلیاتِ اقبال پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:

                ”حقیقتِ حال سے واقف ہونے کے بعد علامہ نے اپنا اعتراض واپس لے لیا تھا اور وہ اشعار محض اس وجہ سے ”ارمغانِ حجاز“ میں راہ پاگئے کہ اس اعتراف کے محض تین ہفتوں کے بعد علامہ وفات پاگئے اور انھیں یہ ہدایت دینے کا موقع نہ مل سکا کہ ان اشعار کو ”ارمغانِ حجاز“ میں شامل نہ کیاجائے، اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ ”ارمغانِ حجاز“ میں اس نظم کے ساتھ یہ صراحت کردی جائے کہ حقیقتِ حال سے آگاہ ہوجانے کے بعد علامہ مرحوم نے ان اشعار کو کالعدم قرار دے دیا تھا، تو بہت اچھا ہو؛ کیوں کہ اس تصریح کی بہ دولت قارئین حضرتِ اقدس کے خلاف سوءِ ظن سے محفوظ ہوجائیں گے“۔(۱۱)

                مولانا حکیم فضل الرحمن سواتی نے بھی حافظ شیراز اور مسٹرمحمدعلی جناح کے تعلق سے علامہ موصوف کے ایرادات سے رجوع کی تفصیلات تحریر کرتے ہوئے یہی بات لکھی ہے۔(۱۲)

برسرِ مطلب:

                حضرت مدنی کا رسالہ ”متحدہ قومیت اور اسلام“ اسی پس منظر میں تحریر کیاگیا ہے، حضرت نے اس بحث کے خاتمے کے بعد ارادہ کیا کہ اپنے نظریے کو واضح اور مدلل طور پر علامہ موصوف کے سامنے پیش کردیں؛ تاکہ ان کے دل سے شبہات واشکالات کا کانٹا بھی نکل جائے اور انھیں اپنے ان تسامحات کا بھی ادراک ہوجائے، جو ان سے قوم اورملت کی تشریح کے دوران سرزد ہوئے، کہ ناگاہ علامہ کے سانحہٴ ارتحال کا حادثہٴ جاں کاہ رونما ہوگیااور آپ کے عزم وارادے پر اوس پڑگیا، آپ نے رسالے کے آغاز میں لکھا ہے:

                ”بالآخر جب کہ میں قومیت کی لفظی بحث کے اختتام پر پہنچ کر مقصد اصلی سے نقاب اٹھانا چاہتا تھا، ناگاہ جناب ڈاکٹر صاحب مرحوم ومغفور کے وصال کی خبر شائع ہوگئی، اس ناساز اور دل گداز خبر نے خرمنِ خیالات وعزائم افکار پر صاعقہ کا کام کیا، طبیعت بالکل بجھ گئی اور عزائم فسخ ہوگئے، تحریر شدہ اوراق کو طاقِ نسیاں کے سپرد کردینا ہی انسب معلوم ہوا“۔(۱۳)

                مگر جن لوگوں نے اس بحث کو دیکھا اور سنا تھا، انھیں اس سے غیرمعمولی دلچسپی تھی اور وہ یہ چاہتے تھے کہ حضرت مدنی کی مفصل تحریر سامنے آئے؛ تاکہ صورتِ مسئلہ بے غبار ہوکر اطمینانِ قلب کا باعث ہو؛ اس وجہ سے آپ نے اس تعلق سے اپنی لکھی ہوئی تحریروں کو یک جا کرکے چھاپنے کی اجازت دے دی۔

                یہ کتاب متعلقہ مسئلے پر انتہائی مدلل اور محقق ہے، آپ نے پہلے تو قوم، ملت اور امت پر امہاتِ کتب لغت کی روشنی میں پُرمغز گفتگو کی ہے اور ان کے ادبی لطائف کو آشکار کیا ہے، اس کے بعد نبی پاک کے طرزِ عمل سے متحدہ قومیت کے تصور کو ثابت کیا ہے، اس سلسلے میں آپ نے اس معاہدے کو بنیادِ تحریر بنایا ہے، جو آپ نے مدینہ پہنچنے کے بعد وہاں کے قبائل یہود سے کیے تھے، آپ نے اس کی چند دفعات کا ذکر کیا ہے، جن میں صراحت ہے کہ ہرمذہب کا ماننے والا مذہبی امور میں تو اپنے اپنے مذہب کا ہی پابند ہوگا؛ مگر ملکی، سیاسی اور جنگی امور میں سب ایک اور متحد ہوں گے اور ایک دوسرے کے حلیف، اس سلسلے میں آپ نے جمعیة علماے ہند کے اجلاس منعقدہ پشاور دسمبر ۱۹۲۷/ میں پیش کردہ حضرت علامہ شاہ کشمیری کے خطبہ صدارت سے بھی استدلال کیا ہے، جس میں انھوں نے بھی میثاقِ مدینہ کو متحدہ قومیت کی اساس قرار دیا تھا، اسی طرح گول میز کانفرنس نومبر ۱۹۳۰/ میں کی گئی رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کی اس معرکہ آرا تقریر کا بھی حوالہ دیا ہے، جس میں انھوں نے کہاتھاکہ مذہب کے معاملے میں میں اوّل، دوم اور آخر مسلمان ہوں اور سواے مسلمان کے کچھ بھی نہیں اور جن امور کا تعلق ہندوستان سے، اس کی آزادی سے اور اس کی فلاح وبہبود سے ہے، تو ان میں میں اوّل ہندوستانی ہوں، دوم ہندوستانی ہوں اور آخر ہندوستانی ہوں اور ہندوستانی کے سوا کچھ نہیں، اسی طرح سرسید مرحوم کی مختلف تحریریں بھی استشہاداً پیش کی ہیں، آپ نے انگریز مفکرین کی تحریروں کی روشنی میں یہ واضح کیاہے کہ متحدہ قومیت کے نظریے سے اختلاف اور دوقومی نظریے کی بانگ بلند کرنا، یہ انگریزی تدبیر اور چال بازی کا نتیجہ تھا۔

                یہ رسالہ گو ایک خاص پس منظر میں لکھا گیاتھا؛ مگر آج دو قومی نظریوں اور اسلامیت کی بنیاد پر حاصل کیاگیا خطہٴ زمین تمام تر غیراسلامی اعمال کی آماج گاہ بن چکا ہے اور وہاں بسنے والی اسلامی نسل کا لمحہ لمحہ ہلاکتوں، بربادیوں اور بیش از بیش خطرات کے مایا جال میں گھرا ہوا ہے ۔

(۵)      مودودی دستور اور عقائد کی حقیقت

                یہ کتاب دراصل ایک مکتوب ہے، جو آپ نے دارالعلوم دیوبند کے ایک ایسے فاضل کو لکھا تھا، جو جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے تھے اور ان کا گمان یہ تھا کہ جمہورِ امت اور جماعت اسلامی کا اختلاف محض فروعی ہے، اصولی نہیں ہے، اس مکتوب کو مکتبہٴ دارالعلوم نے خوبصورت کتابت کے ساتھ شائع کیاہے، اس کے شروع میں حکیمُ الاسلام مولانا قاری محمد طیب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا بصیرت افروز اور فصیح وبلیغ مقدمہ ہے، جس میں آپ نے مشہور حدیث شریف ”لَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلٰی ثَلٰثٍ وَّسَبْعِیْنَ فِرْقَةً الخ“ کی روشنی میں صحابہ کے معیارِ حق ہونے پر انتہائی وقیع گفتگو کی ہے، آپ نے قرآن وحدیث کے استشہادات کی روشنی میں صحابہٴ کرام کی عدالت، معیاریت اور بالاتر از تنقید ہونے کو ثابت کیا ہے، اس کے بعد ۴۴ صفحے میں حضرت مدنی کی تحریر ہے، جس میں آپ نے انتہائی سلجھے ہوئے اور سنجیدہ اسلوب میں جماعتِ اسلامی کے دستور کی دفعہ نمبر۶: ”رسولِ خدا کے سوا کسی انسان کو معیارِ حق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں نہ مبتلاہو، ہر ایک کو خدا کے بنائے ہوئے اس معیارِ کامل پر جانچے اور پرکھے اورجو اس معیار کے لحاظ سے جس درجے میں ہو، اس کو اسی درجے میں رکھے“ کا علمی، منطقی وتحقیقی تجزیہ کرتے ہوئے اس کو ماننے کی صورت میں اس پر مرتب ہونے والے خطرناک عواقب ونتائج پر سیر حاصل بحث کی ہے، آپ نے اعاظمِ رجالِ حدیث اور امام ابوزرعہ رازی، حافظ ابن عبدالبر، حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ ابن ہمام اورملا علی قاری کے حوالے سے صحابہٴ کرام کے تئیں اہلِ السنہ والجماعہ کے متفق علیہ ومعتبر عقیدے کو واضح کیا ہے اور اس ذیل میں آپ نے مولانا مودودی صاحب کی ان فکری لغزیدہ پائیوں کی طرف بھی اشارے کیے ہیں، جو ان سے ان کی مشہور کتاب ”تفہیمات“ میں سرزد ہوئی ہیں، اس کے بعد قرآنِ کریم کی ایسی نوآیتوں کو بہ طورِ استشہاد پیش کیاہے، جن میں صراحتاً تمام صحابہٴ کرام کی تعدیل، توثیق اور ان کے فضائلِ عالیہ کا ذکر ہے، پھر بارہ ایسی صریح حدیثیں بیان کی ہیں، جن میں آپ نے انفراداً یا اجتماعاً صحابہٴ کرام کی ستایش کی ہے، اپنے بعد انھیں واجب الاتباع بتلایا ہے اور ان نقوشِ پا کو مشعلِ راہ بنانے کی تلقین کی ہے․․․ بلاشبہ یہ کتاب صحابہ کے حوالے سے مبنی برحق عقیدہ رکھنے والوں کے اطمینانِ قلب کا ذریعہ اور انصاف پسند نفوس کی آنکھیں کھول دینے کا وسیلہ ہے۔

(۶)       ایمان وعمل مع اعتراضات وجوابات

                یہ اصل میں بیس صفحات کا ایک رسالہ تھا، جس میں حضرت مدنی نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں کی روشنی میں یہ ثابت کیا تھا کہ وہ فرض عبادات کے تارک اور گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو قطعاً مسلمان نہیں سمجھتے اور اسے خارج از ایمان گردانتے ہیں، پھر آپ نے جمہورِ امت اور ائمہ سلف کے اقوال وتحریرات کی روشنی میں مولانا مودودی کی تحریروں کا جائزہ لے کر ان کی متشددانہ قلم رانیوں سے مسلمانوں کو باخبر کیا تھا، کسی صاحب نے وہ تحریر مولانا مودودی تک پہنچادی اور انھوں نے اپنے رسالہ ”ترجمان القرآن“ کے مارچ ۱۹۵۳/ کے شمارے میں مولانا مدنی پر یہ الزامات لگائے کہ انھوں نے میری تحریروں کے سیاق وسباق پر غور وتأمل اور انصاف پسندانہ نظر ڈالے بغیر میرے بارے میں وہ راے ظاہر کی ہے، جو انھیں نہیں کرنی چاہیے تھی، وہ تحریر آپ کی نظر سے گزری، تو آپ نے پھر مولانا مودودی کی تحریروں کا محاسبہ کرتے ہوئے خالص علمی وتحقیقی پیرایے میں اس عقیدے کو مبرہن ومدلل فرمایا کہ مرتکبِ کبیرہ اور تارکِ فرائض شرعیہ ایمان سے خارج نہیں ہے اور یہی تمام اہل السنہ والجماعہ کا عقیدہ ہے، جب کہ مولانا مودودی کی تحریریں مرکتبِ کبیرہ اور تارکِ فرائض کو ایمان سے خارج کرتی ہیں، جیساکہ خوارج اور معتزلہ وغیرہ کا عقیدہ ہے․․․ یہ رسالہ اس کے باوجود کہ ایک عظیم الشان اختلافی موضوع پر لکھا گیا ہے (اور اسی وجہ سے اس میں جابہ جا قرآن وحدیث اور کبارِ مفسرین ومحدثین کے اقوال سے استدلال کیاگیا ہے) مولانا کا اسلوب انتہائی سنجیدہ، ناصحانہ اور بے پناہ کشش رکھنے والا ہے۔

(۷)      مکتوبِ ہدایت

                یہ بھی مکتبہٴ دارالعلوم سے شائع شدہ ہے، یہ تحریک جماعت اسلامی کے کسی بڑے عالم کو لکھا گیا ایک جوابی خط ہے، اس میں آپ نے مولانا مودودی کی تمام تر تحریروں کی روشنی میں ان کے فکری انحرافات، جمہورِ امت سے ان کے سوءِ ظن، کج رو فرقِ اسلامیہ سے ان کے خیالات کے قرب، اسلام کے معتمد علیہ لٹریچر کے ایک بڑے حصے سے ان کی بدگمانی اور قرنِ اول سے لے کر بعد تک کے بہت سے محسنین امت پر ان کیچھینٹا کشی کی نشان دہی کی ہے، اس میں دو دگر فتاویٰ بھی شامل ہیں، جن میں یہی باتیں مزید تفصیل کے ساتھ لکھی گئی ہیں، ایک مفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری کا فتویٰ بہ عنوان ”آئینہٴ تحریک مودودیت“ اور دوسرا مولانا مفتی سعیداحمد صاحب (مفتی مظاہر علوم، سہارن پور) بہ عنوان ”کشف حقیقت“ ہے، ان دونوں میں مولانا مودودی کی تحریروں کے اقتباسات کی روشنی میں ان کی تحریک کی کج ادائی کو واضح کیاگیاہے، اس مسئلہٴ متعلقہ پر ایک مختصر فتویٰ مفتیِ اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی کا بھی ہے۔

(۸)      الشہابُ الثاقب علی المسترق الکاذب

                اس کتاب میں حضرت مدنی نے مسلک بریلویت کے بانی مولانا احمد رضا خاں کی ان تلبیسات کا جائزہ لیا ہے، جو انھوں نے سرکردہ علمائے دیوبند کے خلاف پھیلائیں اور ہندی مسلمانوں کو ان سے بیزار کرنا چاہا تھا، اس کا اجمال یہ ہے کہ ۱۳۲۴ھ (۱۹۰۶/) میں انھوں نے ان علمائے دیوبند کی طرف خالص کفریہ عقائد منسوب کرکے ایک تحریر تیار کی اوراس کی روشنی میں حرمین شریفین کے علماء و فقہاء سے فتاویٰ حاصل کرنے کی غرض سے انھوں نے حجاز کا سفر کیا، وہاں کے اکثر علماء نے تو نہ صرف اس کی تصدیق کرنے سے صاف انکار کردیا؛ بلکہ ان کے فسادِ نیت اور کج فہمی وعلمی نارسائی پر ان کی خوب خبر بھی لی؛ مگر بعض سادہ لوح علماء نے ان کی تصدیق بھی کردی؛ چناں چہ واپسی کے بعد خان صاحب نے دورسالے ”تمہیدِ شیطانی“ اور ”حسامُ الحرمین“ کے نام سے شائع کیے اورپورے ہندوستان میں یہ ڈھنڈورا پیٹنے لگے کہ علمائے حرمین نے ان دیوبندی علماء کی تکفیر کی ہے اور ان کے عقائد سے براء ت کا اظہار کیا ہے، یہ محض اتفاق تھا کہ فراغت کے بعد سے حضرت مدنی اپنے اہل وعیال کے ساتھ مدینہ منورہ ہی میں قیام پذیر تھے اور انھیں معلوم بھی ہوگیاتھا کہ مولانا احمد رضا خاں یہاں آئے تھے اور ان کا مقصد کیاتھا؛ چناں چہ جب وہ ہندوستان پہنچے اور دیکھاکہ خان صاحب کیا گل کھلارہے ہیں، تو ان کے دجل وفریب کی قلعی کھولنے اور علمائے دیوبند پر لگائے گئے ان کے بے سروپا الزامات کی ترید کے لیے آپ نے رسالہ لکھا، اس رسالے کے دوباب ہیں: پہلے باب میں علمائے حرمین سے فتویٰ لینے میں خان صاحب کے مکر وفریب کی تفصیلات دی گئی ہیں، جب کہ دوسرا باب نو فصلوں پر مشتمل ہے، جن میں علمائے دیوبند پر لگائے گئے الزامات وافتراء ات پر گفتگو کی گئی ہے، پہلی فصل حضرت نانوتوی پر لگائے گئے اتہامات کے تفصیلی تذکرے کو محیط ہے، دوسری فصل میں عقیدئہ ختم نبوت پر کلام کیاگیا ہے، تیسری فصل میں حضرت گنگوہی پر لگائے گئے الزامات کا بیان ہے، چوتھی فصل میں مسئلہٴ امکان وامتناع کی تنقیح کی گئی ہے، پانچویں فصل میں مولانا خلیل احمد سہارن پوری پر خان صاحب کی تہمتوں کا بیان ہے، چھپٹی فصل میں مولانا سہارن پوری کی تصنیف ”براہینِ قاطعہ“ کی متعلقہ عبارت کے صحیح مفہوم کی نشان دہی ہے، ساتویں فصل میں مولانا سہارن پوری پر لگائی گئی دوسری تہمت کا تذکرہ ہے، آٹھویں فصل میں حضرت تھانوی کے تعلق سے خان صاحب کی یاوہ گوئیوں کا محاسبہ ہے اور آخری فصل میں حضرت تھانوی کی تصنیف ”حفظ الایمان“ کی اس عبارت کی توضیح ہے، جس کو بنیاد بناکر خان صاحب نے ان کے خلاف زبان و قلم کا بے محابا استعمال کیا تھا، پوری کتاب انتہائی محقق ہے اور اس کا لفظ لفظ حضرت مدنی کے بے پناہ علم اور سعت نگاہی کی منھ بولتی تصویر ہے۔

(۹)       سلاسلِ طیبہ

                علمائے دیوبند شروع ہی سے نہ صرف علم وفضل کے اعتبار سے مقامِ ممتاز کے حامل رہے ہیں؛ بلکہ وہ تصوف وسلوک کے بھی امام رہے ہیں، بانیانِ دارالعلوم سے لے کر اس کے فضلاء میں سے بیشتر نے اپنے اپنے وقت میں اس میدان میں بھی اپنی خاص شناخت بنائی اور جاہلانہ طریقت اور رسمی ولایت کا پرچار کرنے کی بہ جاے اس طریقت وولایت کی نمایندگی کی ہے،جس کا سرا نبی پاک … تک پہنچتا ہے، حضرت مدنی بھی اپنے وقت کے باکمال صوفی اور ولی کامل تھے، آپ کے مریدوں کی تعداد لاکھوں میں تھی، آپ کو بیعت وخلافت حضرت گنگوہی سے حاصل تھی، ”سلاسلِ طیبہ“ میں آپ نے صوفیاء کے چاروں طریقوں (قادری، چشتی، سہروردی، نقشبندی) کے اوراد واَشغال اور ان کے منظوم شجروں کو طالبین وسالکین کی آسانی و رہ نمائی کے لیے یک جا کردیا ہے۔

(۱۰)        حضرت مدنی کا ایک انتہائی تحقیقی مقالہ انگریزوں کی آمد سے پہلے اور ان کی آمد کے بعد ہندوستان کی تعلیمی حالت پر ہے، اس میں محقق ومستند اعداد وشمار کی روشنی میں یہ ثابت کیاگیا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے اور مغلیہ دورِ حکومت میں ہندوستان کی تعلیمی حالت انتہائی بہتر؛ بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے باعثِ رشک تھی، یہاں تعلیم گاہوں کی کثرت، حصولِ علم کے دیگر وسائل و ذرائع کی بہتات اور علم وعلماء کا دور دورہ تھا، خواہ دینی ومذہبی علوم ہوں یا عصری وپیشہ وروانہ علوم ہر ایک میں یہاں کے باشندے یکہ تاز ہوا کرتے تھے؛ لیکن جب انگریزوں کے ناپاک قدم اس ملک پر پڑے، تو جہاں انھوں نے سیاسی ومعاشی اعتبار سے اس کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی شیطانی تدبیریں کیں، وہیں یہاں کے باشندوں کو فکری وعلمی طور پر اپاہج بنادینے میں بھی اس عیار ومکار قوم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، ہوسکتا تھا کہ یہ بات بہت سے ”اسکالروں“ اور ”دانش وروں“ کو اوپری معلوم ہو؛ اس لیے آپ نے اپنی بات کو خود انگریزی مصنّفین کی تحریروں سے مدلل کیا ہے اور ان کے بیانات کی روشنی میں یہ بتایا ہے کہ انگریزی سامراج نے کس طرح اس ملک کا علمی وفکری استحصال کرنے کی سازشیں رچیں؛ تاکہ ہندی قوم ذہنی وفکری اعتبار سے مفلوج ہوجائے اور ذلت واستعباد کی زندگی پر راضی ہوکر حصولِ آزادی کے شعور سے بیزار ہوجائے، یہ مقالہ حضرت مدنی نے ۱۹۴۳/میں تحریر کیا تھا، جب کہ جدوجہد آزادی پورے شباب پر تھی، اسی زمانے میں اسے ایک رسالے کی شکل میں مجلس قاسم المعارف دیوبند نے چھاپا تھا، پھر یہ نایاب ہوگیا تھا، اتفاق سے اس کا ایک نسخہ کہیں سے معروف عربی واردو ادیب وصحافی مولانا نورعالم خلیل امینی مدظلہ العالی کو ہاتھ لگ گیا، انھوں نے اس کی غیرمعمولی اہمیت ووقعت کو محسوس کیا اور اس کو عربی کے قالب میں ڈھال کر اولاً دارالعلوم دیوبند کے عربی مجلہ ماہ نامہ ”الداعی“ میں قسط وار شائع کیا، پھر ان کی تحریک و ترغیب پر شیخ الہند اکیڈمی نے اسے ”الحالة التعلیمیة في الہند قبلَ الاستعمار الانجلیزي وفیما بعدہ“ کے نام سے بہترین کتابت وطباعت کے ساتھ چھاپا ہے اور یہ مکتبہ دارالعلوم دیوبند میں دست یاب ہے۔

                حضرت مدنی کے مختلف بکھرے ہوئے مقالات اور چند ایک تقریروں کا بھی مولانا امینی مدظلہ العالی نے ”بحوث في الدعوة والفکر الاسلامي“ کے نام سے عربی ترجمہ کیاہے اور وہ بھی اکیڈمی سے طبع شدہ ہے۔

حواشی:

(۱)           ص:۴-۵، مطبوعہ: مکتبہ دینیہ، دیوبند۔

(۲)           ص:۷۔

(۳)          ص:۴۲۔

(۴)          روزنامہ الجمعیة، ”شیخ الاسلام نمبر“ ص:۱۷۲۔

(۵)          ایضاً، ص:۱۷۳۔

(۶)           ص:۸، مطبوعہ: مکتبہ الفضل، دیوبند۔

(۷)          روزنامہ الجمعیة، شیخ الاسلام نمبر، ص:۱۷۴۔

(۸)          پروفیسر یوسف سلیم چشتی، اقبال اورمولانا سیدحسین احمد مدنی، الجمعیة، شیخ الاسلام نمبر، ص:۳۸۳۔

(۹)           الجمعیة، شیخ الاسلام نمبر، بہ حوالہ: اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۹/، ص:۶۷۔

(۱۰)         ص:۴۷۵۔

(۱۱)          پروفیسر یوسف سلیم چشتی، اقبال اور مولانا حسین احمد مدنی، مشمولہ: الجمعیة، شیخ الاسلام نمبر، ص:۳۸۳۔

(۱۲)         ڈاکٹر اقبال کی چند تنقیدات وترجیعات، مشمولہ: الجمعیة، شیخ الاسلام نمبر، ص:۳۸۵-۳۹۰۔

(۱۳)         ص:۶، مطبوعہ: مجلس قاسم المعارف، دیوبند۔

***

—————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الثانی 1434 ہجری مطابق فروری 2013ء

Related Posts