از: مولانامحمد تبریز عالم قاسمی‏،  استاذ دارالعلوم حیدرآباد

محسنِ انسانیت، سرکارِدوعالم جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سرزمین عرب میں ایسے جاہلی ماحول میں ہوئی کہ انسانیت پستی کی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور یہ حالت صرف عرب ہی کی نہیں تھی؛ بلکہ اکثر ممالک کی زبوں حالی قابلِ رحم تھی، ہر طرف سماجی ومعاشرتی بدنظمی اور معاشی واقتصادی بے چینی تھی، اخلاقی گراوٹ روز افزوں تھی، مزید برآں بت پرستی عروج پر تھی، قبائلی وخاندانی عصبیت بڑی سخت تھی اور شدید ترین نفرتوں، انتقامی جذبات، انتہا پسندانہ خیالات، لاقانونیت، سودخوری، شراب نوشی، خدافراموشی، عیش پرستی وعیاشی، مال وزر کی ہوس، سنگ دلی اور سفاکی وبے رحمی سے پورا عالم متاثر تھا؛ الغرض چہار سُو تاریکی ہی تاریکی تھی، مفکرِ اسلام مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی (۱۹۱۴-۱۹۹۹/) نے بڑا جامع نقشہ کھینچا ہے:

”خلاصہ یہ کہ اس ساتویں صدی مسیحی میں روئے زمین پر کوئی قوم ایسی نظر نہیں آتی تھی، جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہی جاسکے اور نہ ایسی کوئی سوسائٹی تھی جو شرافت اور اخلاق کی اعلیٰ قدروں کی حامل ہو، نہ ایسی کوئی حکومت تھی جس کی بنیاد عدل وانصاف اور رحم پر ہو اورنہ ایسی قیادت تھی جو علم وحکمت اپنے ساتھ رکھتی ہو اور نہ کوئی ایسا صحیح دین تھا جو انبیاء کرام کی طرف صحیح نسبت رکھتا ہو اور ان کی تعلیمات وخصوصیات کا حامل ہو، اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں کہیں کہیں عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں اگر کبھی کبھی کچھ روشنی نظر آجاتی تھی تو اس کی حیثیت ایسی ہی تھی، جیسے برسات کی اندھیری رات میں جگنو چمکتا ہے․․․․ اس عالم گیر تاریکی اور فساد کا نقشہ قرآن مجید نے جس طرح کھینچا ہے، اس سے زیادہ ممکن نہیں۔“

                ظَھَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِي النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ․ (الروم:۴۱)

ترجمہ: خرابی پھیل گئی ہے خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے نتیجے میں؛ تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھادے اور وہ باز آجائیں۔

                (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر،ص:۸۳)

سرزمین عرب کا انتخاب:

                مذکورہ بالا دور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، اگر تمام عالم کی رہبری کے واسطے ایک واحد مرکز قائم کرنے کے لیے، ہم کسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیں تو عرب ہی اس کے لیے موزوں ترین معلوم ہوگا؛ کیوں کہ اگر ہم عرب کو کرئہ ارض کے نقشہ پر دیکھیں تو اس کے محل وقوع سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اسے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے براعظموں کے وسط میں جگہ دی ہے؛ اس لیے ایسے ملک میں دنیا کے جملہ مذاہب کا پہنچ جانا اور سبھی کا بگڑجانا بخوبی سمجھا جاسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عرب کی آواز ان براعظموں میں بہت جلد پہنچ جانے کے اسباب وذرائع بخوبی موجود تھے؛ چناں چہ خالقِ کائنات نے غالباً اسی لیے حضور پُرنور علیہ السلام کو عرب میں پیدا فرمایا، اور ان کو بتدریج قوم اور ملک اور عالم کی رہبری کا کام سپرد فرمایا۔ سیرتِ رسول اور تاریخِ اسلام کا مطالعہ کرنے والا یہ نتیجہ بہ آسانی اخذ کرسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کام کس قدر مشکل تھا اور انھوں نے اس فرض کو کیسی خوش اسلوبی، صبر وثبات اور استقامت وتحمل سے ادا کیا، اور کس طرح پُرامن تہذیب وتمدن اور علم واخلاق کی روشنی چہارسُو پھیلائی اور مختلف رنگوں، امتیازوں اور تفاوتوں سے قطعِ نظر کرکے، کس طرح سب کو دینِ واحد کے رشتے سے متحد اور ہم خیال بنایا اور کس طرح قومیت کا تفرقہ، عرب وعجم کا فاصلہ اور اسود وابیض کا فرق مٹایا۔

اصلاحی مِشن کا بتدریج آغاز:

                چوں کہ بنوہاشم اور قریش، عرب بالخصوص مکہ کے بڑے اور بااثر لوگوں میں سے تھے اور حضور علیہ السلام بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے؛ اس لیے آپ نے اپنے اصلاحی مِشن کا آغاز سب سے پہلے اپنے خاندان والوں سے کیا؛ تاکہ دوسروں پر اس کا مثبت اثر پڑے، یہ الگ بات ہے کہ قریش اس صدائے حق سے حیران ہوگئے اورجاہلی عادات وخیالات کے خلاف، آواز سُن کر برافروختہ ہوگئے؛ لیکن آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی، مخالفت کے طوفان اٹھے، فتنہ کی آندھیاں آئیں اور چلی گئیں اور آپ اپنی جگہ پہاڑ کی طرح جمے رہے، کچھ دنوں کے بعد خاندان کے دائرے سے آگے بڑھ کر مکہ اور اس کے گرد وپیش کے قبائل کو بھی پیغامِ حق سنانے لگے؛ تاکہ وہ اپنی تشنہ روحوں کو آبِ حیات سے سیراب کرسکیں؛ چناں چہ آپ نے اپنی صدائے حق طائف، حنین اور یثرب تک پہنچایا اور پھر وہ وقت آیا کہ آپ کی بعثت کو عام قرار دیاگیا اور آپ نے اپنے پیغامِ امن کو پوری انسانیت کے لیے عام کردیا، عرب وعجم اور اسود واحمر سب کے سامنے ایسا ضابطہٴ اخلاق، مکمل دستور العمل اور شاندار نظامِ حیات رکھا، جو تنگ ذہنی اور تنگ نظری سے نہ صرف یہ کہ پاک تھا؛ بلکہ دیگر اقوام کے لیے آئیڈیل اور قابلِ تقلید تھا اورجس میں ہر فرد کا خیال رکھا گیا اور جس میں دوست ہی نہیں دشمن کے لیے بھی وہ خلوص تھا جو پورے عالمِ انسانیت کو یکجہتی کے رشتے کی لڑی میں پروتا ہے اور محکوموں، مجبوروں، بے سہاروں اور بے کسوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کی گارنٹی دیتا ہے اور نوعِ انسانی کے سارے افراد کو ایک خاندان میں تبدیل کرتا ہے اور سب سے اہم اور بڑی بات؛ بلکہ بہت بڑی بات یہ ہوئی کہ پیغمبرِ اسلام نے کائنات کی، صرف صحیح راستے کی جانب رہ نمائی نہیں کی؛ بلکہ اس پر چل کر دکھایا اور خود کو ان تعلیمات کا عملی نمونہ بناکر ایک ایسا عظیم انسانی انقلاب برپا کیا؛ جس کا تصور اس قلیل عرصہ میں ناممکن ہی نہیں؛ محال معلوم ہوتا ہے۔

                آپ کی بعثت کا مقصد تلاوتِ کتاب، تزکیہٴ نفوس، تعلیم حکمت اورتعلیم کتاب تھا: یعنی شرک وبدعت کے دلدل سے نکال کر، توحیدِ خالص کی دعوت، جنت کی بشارت اور عذابِ آخرت کی وعید کو پہنچانا تھا، آپ کا کام نیکی کی ترغیب اور بدی سے منع کرنا تھا، پاک وصاف اشیاء کو حلال اور گندی وناپاک چیزوں کو حرام قرار دینا تھا، الفت واخوت اور مواسات ومساوات کا درس دینا آپ کا نصب العین تھا، بکھری ہوئی جاں بہ لب انسانیت کو ایک لڑی میں پرونا آپ کا خاص مِشن تھا؛ چناں چہ اس محسنِ انسانیت نے عظمتِ کردار، بلندیِ اخلاق اور پاکیزگیِ عمل کا جو نمونہ پیش کیا، اس نے اہل عرب ہی نہیں؛ بلکہ تمام عالم انسانیت کے قلوب واذہان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور روحوں کو تڑپادیا؛ بلکہ گرمادیا؛ یہ ناقابالِ انکار حقیقت ہے کہ تاریخ عالم میں، دوسرا ایسا کوئی مصلح کامل نہیں ملتا جس نے اپنے کردار وعمل سے خود کو ”رحمةٌ لِّلْعالمین“ ثابت کیا ہو، اور یہی سبب ہے کہ آپ کی عظمت اور آپ کے تقدس کا اعتراف مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک ہر مذہب ومسلک اور مکتبِ فکر کے دانشوروں اور مورخوں نے کیا ہے۔

دعوت کا اثر:

                سابقہ تحریر سے معلوم ہوچکا ہے کہ حضور علیہ السلام عرب میں مبعوث ہوئے؛ اس لیے فطری طریقِ کار کے پیشِ نظر اول قوم عرب ہی آپ کی مخاطب قرار پائی اور آپ کی دعوت کا اثر سب سے پہلے انھیں پر ظاہر ہوا، اور آہستہ آہستہ ان کی زندگی میں انقلاب آنا شروع ہوا اور وہ آپ کے سایہٴ رحمت میں بتدریج آنے لگے، اور کچھ دنوں کے مخلصانہ ومشفقانہ اور دردمندانہ محنت کے بعد ”خیرِامت“ ہونے کی راہ ہموار ہونے لگی اور پھر جاں نثارانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی جماعت تیار ہوئی کہ جن سے بہتر یا افضل کوئی جماعت اس روئے زمین پر دیکھنے میں نہیں آئی؛ جس نے اپنے رہبر کامل کی حیات کے ایک ایک لمحہ کو حرزِجاں بنایا اور اس پر مَرمٹنے کو قابلِ فخر اور سعادتِ دارین سمجھا اور وہ قابل قدر سرمایہ آج اس امت کے پاس متصل اور مسلسل سند کے ساتھ موجود ہے اور یہ خصوصیت صرف اسی مصلح امت کے حصے میں آئی، جسے محسنِ انسانیت، سرورِکونین، فخرِدوجہاں، ہادیِ عالم، رحمةٌ للعالمین، فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ، یتیموں کا والی اور غلاموں کا مولیٰ بنایاگیا تھا، اور سرکش طبیعتوں کا یہ زبردست انقلاب؛ بلکہ تاریخ کا عظیم ترین انقلاب اسی رسولِ برحق اور عظیم داعی کے دست مبارک پر انجام پایا، جو تاریخ انسانی کا ایک مُحَیِّرُالعقول واقعہ ہے:

دُرفشانی نے تیری، قطروں کو دریا کردیا

دل کو روشن کردیا، آنکھوں کو بینا کردیا

خود نہ تھے خود راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی، جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا

کسی اِک ادا کی تو بات کیا؟

                انسانی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جسے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اور اپنی مثبت فکر سے متاثر نہ کیا ہو، آپ نے اوس وخزرج کے درمیان برسہا برس سے جاری جنگ کو ختم کراکر قتل کے ایک زبردست سلسلہ کو روک دیا، آپ نے جنگ کے جس ضابطہٴ اخلاق کی وضع کی اور اس پر عمل کیا، دنیا اس کی نظیر پیش نہ کرسکی اور نہ کرسکتی ہے؛ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ دورانِ جنگ بوڑھوں، عورتوں اور بچوں پرنہ صرف یہ کہ وار نہ کیا جائے؛ بلکہ ان کا مکمل تحفظ کیا جائے، دشمن کی صفوں میں موجود ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کو قتل نہ کرنے کا حکم دے کر آپ نے دنیا پر علم وہنر کی عظمت واہمیت کو اجاگر کیا، دشمن کے کھیتوں اور درختوں کو نہ جلانے اور تالاب وکنوؤں میں زہر نہ ملانے کا حکم اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آپ کسی بھی بے قصور شخص کی ہلاکت کے خلاف تھے، آج کی نام نہاد مہذب اقوام کے لیے آپ کا مذکورہ حکم ایک آئینہ ہے جس میں وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتی ہیں؛ کہ جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر، نہتوں اور بے قصو روں پر میزائل اور بم برسانے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتیں، آپ علیہ السلام نے برائی کی مدافعت، بھلائی سے کرنے کی جو تعلیم دی اس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ آپ واقعی محسنِ انسانیت تھے، آپ ایک بہترین نظامِ حکومت کے بانی ہیں، عمدہ ترین تہذیب وثقافت کے مُوٴسس ہیں، عدل وانصاف کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی نظامِ معیشت کے قائم کرنے والے ہیں، آپ نے سیاسی، اقتصادی، معاشی، اخلاقی اور معاشرتی مسائل کا ایک متوازن اور معتدل حل پیش کیا، آپ نے حسن تدبُّر و تدبیر، اور حسنِ انتظام و انصرام کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ بڑے سے بڑے مدبر ومنتظم حیران وششدر ہوئے بنا نہ رہ سکے، آپ نے انفرادی زندگی کے بجائے، اجتماعی زندگی پر زور دیا، انتشار وخلفشار کے بدلے، اتحاد واتفاق کو اسلام کا نصب العین بنایا، امامت وقیادت کی بنیاد تقویٰ وقابلیت پر رکھی، آپ نے سماجی بھلائی اور رفاہِ عامہ کے کاموں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا؛ بلکہ بسا اوقات اس کی قیادت بھی کی، حجراسود کی تنصیب، حلف الفُضول اور مُواخات کا عمل اس کی واضح مثال ہیں، آپ نے زید بن حارثہ جو غلام تھے، کی اپنے بیٹے کی طرح پرورش کی، غلام ویتیم کے ساتھ ایسے برتاؤ کی مثال دنیا نے کیوں کر دیکھا ہوگا؟ آپ نے عورتوں کو ان کے تمام حقوق کے ساتھ، عظمت واحترام کے اوجِ ثریا پر پہنچایا، بڑوں چھوٹوں کے فرقِ مراتب کی حد بندی کی الغرض کسی بھی شعبہ ہائے حیات کو تشنہ نہیں چھوڑا:

کسی اک ادا کی تو بات کیا                              *            حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہ

وہ خدا کا جس نے پتہ دیا                               *                 صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہ

گفتار وکردار میں یکسانیت کا فلسفہ:

                آپ نے اپنی زندگی کے قلیل عرصہ میں، جس طرح مردہ قلوب میں روح ڈال دی، نفرت وعداوت کی جگہ،الفت ومحبت کو قائم کیا، ظلمت وجہالت کے فاسد مادے کو نکال باہر کیا، عرب کے بدووں کے قلوب واذہان میں نورِ صداقت اور ضیائے علم کو سمودیا اور جس طرح ان کی کایا پلٹ دی یہ آپ کا عظیم الشان معجزہ ہے؛ جس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں، بہ قول سید سلیمان ندوی: ”آدم سے عیسیٰ تک اور شام سے ہندوستان تک انسان کی مصلحانہ زندگی پر ایک نظر ڈالو، کیا عملی ہدایتوں اور کامل مثالوں کا کوئی نمونہ کہیں نظر آتا ہے؟“ حضور علیہ السلام کی تبدیلیِ قلوب کی تحریک اس لیے کارگر اور زود اثر ثابت ہوئی کہ آپ نے جو کہا، اُسے پہلے خود کیا اور یہی اسلام کی شوکتِ روزافزوں کا بڑا سبب بنا، آج اقوام متحدہ سمیت حقوقِ انسانی کے تحفظ کی پاس داری کے لیے بے شمار تنظیمیں اور کمیشن قائم ہیں؛ لیکن نتیجہ اور کارکردگی دنیا کے سامنے ہے، کسی بھی تحریک اور مشن کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب بانیِ تحریک کے اقوال وافعال میں تضاد نہ ہو، اس کے کردار وگفتار میں یکسانیت ہو، تاریخ پڑھیں معلوم ہوگا کہ جملہ اخلاقِ حمیدہ، ہمدردانہ جذبات، قانعانہ قابلیت اور زاہدانہ سیرت کی جھلک بدرجہٴ اتم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں موجود تھیں، اور یہی وہ پوائنٹ ہے جو اصلاحی تحریکوں کی کامیابی کا ضامن ہے، اور حضور علیہ السلام کی حیاتِ مقدسہ کے حوالے سے یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جو آج تک سبھی اقوام کے لیے حیرت وحیرانی کا موجب بنی ہوئی ہے، اس مرکزی نقطہ کو مدِّنظر رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو یہ بات خوب سمجھ میں آتی ہے کہ بسااوقات اصلاحی جلسے جلوس، اصلاحی تحریکیں، اصلاحی اکیڈمیاں اوراصلاحی انجمنیں، کیوں ناکام اور غیرموثر ہوجاتی ہیں؛ کہ ان تحریکوں کے سربراہان حضرات کی زندگی عمل کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نہیں ہوتی، ان کے ظاہر وباطن میں تباین ہوتا ہے، اقوال وافعال میں تضاد ہوتا ہے اور ان کے کردار وگفتار میں اختلاف ہوتا ہے، اصلاحی کاموں کی نتیجہ خیزی اور کامیابی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کردار وگفتار میں یکسانیت کے فلسفے کو پیشِ نظر رکھنا ناگزیر ہے اور یہی اصل پوائنٹ ہے۔

                ربیع الاوّل کا مہینہ ہر سال آتا ہے، اور اس مہینے کے ساتھ قدرتی طور سے کچھ ایسی اسلامی یادیں وابستہ ہیں جو ہمارے ایمان کا حصہ ہیں، اسی ماہ میں عالم گیر انقلاب کے بانی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور اسی ماہ میں وفات پائی، آپ کی ولادت ووفات کو یاد کرنا اور یاد رکھنا یقینا ہمارے ایمان ویقین کا جز ہے؛ لیکن نبیِ اکرم اور رحمة للعالمین کی روشن تعلیمات کو فراموش کرکے، مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنا اسلام کے ساتھ بددیانتی ہے؛ ضروری ہے کہ پہلے ہم اپنی زندگی میں اسوئہ حسنہ کی جھلکیاں پیدا کریں؛ ورنہ کوئی فائدہ نہیں۔

***

——————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الاول 1434 ہجری مطابق جنوری 2013ء

Related Posts