از: مولانا عتیق الرحمن سنبھلی (لندن)
عشق ہے پیارے کھیل نہیں ہے
عشق ہے کارِ شیشہ و آہن
موٴمن آزاد نہیں، کہ جو جی میں آئے اس پر عمل پیرا ہوجائے، اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملہ میں اُسوئہ اورطرزِ عمل چھوڑا ہے۔ اہانت کے معاملے بھی پے بہ پے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آئے۔ مکی زندگی ہی میں نہیں، مدنی زندگی میں بھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کے اصحاب کے لیے بنیادی طور پر یہ ہدایتِ ربّانی رہنما رہی:
”تم ضرور آزمائے جاؤگے اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں، اور کتنی ہی دل آزار باتیں بھی تمھیں سننی پڑیں گی اہلِ کتاب اور مشرکین سے، اور اس کے مقابلہ میں اگر تم نے صبر اور تقوے کی روش سے کام لیا تو یہ یقینا عزم وہمت کی بات ہے“۔ (سورئہ آلِ عمران/۱۸۶)
امکان ہوتو بدلہ لینے اور سزا دینے کا جواز اس آیت سے بھی نکل رہا ہے؛ لیکن ترجیح اسی کو مل رہی ہے کہ نظر انداز کیا جائے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوئہ مبارکہ اسی کے مطابق رہا، اور یہ اس لیے کہ آپ کے لائے ہوئے دین کی مصلحت وہاں یہی تھی، اور اس مصلحت سے بڑھ کر کوئی چیز ظاہر ہے کہ آپ کو عزیز نہیں ہوسکتی تھی۔ اس معاملہ میں مصلحت بینی کی حد یہ ہے کہ سردارِ منافقین عبداللہ بن اُبیّ جس کی شرارتوں اور سازشوں سے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شاید ہی مدنی زندگی کے کسی دن میں چین رہا ہو؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ رہا کہ اس کی موت پر آپ نے قمیص مبارک اس کے کفن کے لیے دی، اس کے منھ میں اپنا لعابِ دہن برائے برکت ٹپکایا اور نمازِ جنازہ، جو دعائے مغفرت کے ہم معنی ہے، اس کے باوجود پڑھائی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد نازل ہوچکا تھا کہ ”ان منافقین کے لیے تم اے نبی مغفرت مانگو یا نہ مانگو، اگر تم ستر(۷۰) بار بھی ان کے لیے مغفرت مانگو تب بھی اللہ انھیں ہرگز نہ بخشے گا۔“ (التّوبہ۹/۸۰) حضرت عمر نے قرآن کی آیت یاد دلائی، تو فرمادیا کہ مجھے اللہ نے منع نہیں کیا ہے مجھ پر چھوڑدیا ہے کہ کروں یا نہ کروں۔ اور اگر مجھے یقین ہوتا کہ ستر دفعہ سے زیادہ میں مغفرت ہوجائے گی تب میں زیادہ بھی کرتا۔ (گویا جانتے تھے کہ مغفرت نہیں ہونی) یہ ہے اس ذاتِ گرامی کا اُسوئہ مبارکہ جس کے عشق کی بات یہاں گفتگو میں ہے۔ اس نے کئی بار واجب القتل ہونے کے کام کیے، بعض مرتبہ تو لوگوں کو یقین ہوگیا کہ قتل کا حکم صادر ہوگا؛ لیکن آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور ملتِ مسلمہ کی مصلحت اسی میں دیکھی کہ درگذر سے کام لیا جائے۔ کیا شان ہے اس پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی! اللّٰھُم صلِّ وسلِّمْ علٰی عبدِک ونبِیِّکَ صلوٰةً وّسلاماً دائمین متلازمَینِ الٰی یومِ الدین․
پس جب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوئہ حسنہ ہمارے سامنے ہے تو دشمنانِ انسانیت کی طرف سے جب بھی آپ کی اہانت کی کوئی صورت رونما ہو؛ جیسا کہ ادھر چند سال سے فرزندانِ مغرب نے اس ملعون عمل کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے، تو ہمارا غم وغصہ تو ایمان کی علامت ہے؛ لیکن ردِعمل میں ہمیں اسلام اور ملتِ اسلام کی مصلحت دیکھنی ہے، اگر ہم موٴمن اور واقعی ”عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم“ ہیں۔ نہیں تو ہم صرف اپنے نفس کو تسکین دینے والے ہوں گے، اور نامِ عشق کو رسوا کرنے والے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ایک نوجوان نے ڈنمارک میں حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے اپنی جان کو کھلے خطرہ میں ڈال کر وہاں کے ایک ملعون فلم ڈائرکٹر کا کام تمام کردیا؛ لیکن اس کا بھی کوئی اثر شیطان کے لشکر پر نہیں ہوا ہے، چہ جائے کہ ہمارے محض مظاہرے اور نعرے۔ آئے دن کسی مغربی ملک میں ایک ملعون اُٹھ رہا ہے اور اپنے پہلے والے سے بڑھ کر خباثت کی داد اپنے ہم وطنوں سے چاہ رہا ہے، تو کیا اپنے ردِعمل کی یہ بے اثری دیکھتے ہوئے بھی یہ بجا ہوگا کہ اپنے غم وغصہ کے اظہار کے لیے یہ بے اثر طریقے مسلسل آزماتے رہنے کو ہم تقاضائے عشقِ صلی اللہ علیہ وسلم رسول سمجھتے رہیں؟ یہ تو ملتِ اسلام کی بے بسی کا اظہار اور شیاطین کی ہمت افزائی ہے کہ وہ کچھ بھی کریں یہ چاردانگِ عالم میں پھیلی ہوئی امت اپنا سینہ پیٹ کر رہ جانے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔
آخر ہمیں کیوں کر اپنی اس شرمناک کمزوری کا رہ رہ کر اظہار کرنا پسند ہے؟ کہیں ہم اپنے اس احتجاجی عمل کو اس کے موٴثر ہونے نہ ہونے سے قطعِ نظر بجائے خود ایک کارِ ثواب تو نہیں سمجھ رہے ہیں؟ خدا نہ خواستہ اگر ایسا ہے، تو پھر ہم نے نہ حضور سیدالرُسل کے مرتبہ ومنزلت کو سمجھا اور نہ آپ کی غلامی میں پوشیدہ عزت کو جانا، ہم آپ کے نام پر بے بسی کا اظہار کرتے مظاہروں اور جلوسوں کو کارِ ثواب سمجھ رہے ہیں! افسوس، صد افسوس!
تو پھر ہم کیاکریں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے، راقم اپنی سمجھ کے مطابق جواب عرض کرتا ہے جو ایک تجربہ کا نتیجہ ہے، دوسرے حضرات بھی غور کریں۔ برطانیہ میں کم لوگ ہوں گے جنھیں رُشدی کی کتاب کے خلاف ”اسلامک ڈیفنس کونسل“ کی سرگرم جدوجہد یاد نہ ہو۔ راقم نے بھی اس کونسل کے کنوینر کی حیثیت سے اس سلسلہ میں اپنی استطاعت بھر حصہ لینے کو عزت وسعادت سمجھا۔ کونسل نے اپنی جدوجہد کے سلسلہ میں کتاب کے پبلیشر پینگوئن کے آفس کو نشانہ بناکر ایک عوامی مارچ بھی طے کیا تھا، ۲۸/جنوری ۱۹۸۹/ کا یہ مارچ، جس میں پورے ملک سے ۲۰-۲۵ ہزار فرزندانِ اسلام نے آپ سے آپ شرکت کی، اس کی شکل اپنے روایتی احتجاج کی بے ثمری کو یاد کرتے ہوئے نیز مغرب کی ایک نئی دنیا کا خیال کرکے اپنے برّصغیر کے روایتی مظاہروں سے بالکل مختلف تجویز کی گئی تھی۔ اس میں نعرہ زنی اور اظہارِ غیظ وغضب کے بجائے پلے کارڈز کے ذریعہ اپنی جذباتی تکلیف کا اظہار کرکے گویا برطانوی پبلک سے ہم نوائی کی اخلاقی اپیل تھی۔ خیال تھا کہ شاید کچھ شریف روحیں ہماری ہم نوائی کو سامنے آئیں اور کتاب کے ناشر اور حکومت پر کچھ دباؤ پڑسکے۔
ہمارے اس طرزِ احتجاج کی تحسین تو بیشک ہوئی، (خاص کر اس لیے کہ دو ہفتے پہلے انگلینڈ کے ایک شہر میں اس کے بالکل برعکس کتاب سوزی کی صورت میں احتجاج کا آتشیں واقعہ ہوچکا تھا) لیکن جو مقصود تھا وہ حاصل نہیں ہوا۔ بات وہیں کی وہیں رہی اور پھر دو ہفتہ بعد آیت اللہ خمینی صاحب نے جو مصنف اور ناشرین کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تو وہی حکومت جو انسانیت اور تہذیب واخلاق کے ناتے ہماری اخلاقی اپیل سے کوئی اثر لینے کو تیار نہ ہوئی وہ رشدی کے تحفظ میں ایسی سرگرم ہوئی جیسے اس ملعون تصنیف میں وہ اس کا ایجنٹ ہو۔ اس تجربہ کے بعد سے ذہن بن گیا کہ یہ مغربی دنیا بالکل الگ ذہن و مزاج کی حامل ہے، اسے تو ہم بس کبھی طاقت نصیب ہوتب ہی اپنے احساسات کا احساس کراسکتے ہیں؛ چنانچہ اس ایک واقعہ کے بعد اب امریکہ، اسامہ اور طالبان کے قضیے سے تو اس شرارت کی لائن ہی لگ گئی ہے اور ہر شرارت پہلی والی کو پیچھے چھوڑے جارہی ہے؛ چنانچہ یہ تازہ فلم والی خباثت، جیساکہ لوگ بتاتے ہیں، خباثت کی ساری حدوں کو پار کرگئی ہے اور کہیں کی بھی حکومت ہماری شکایت اور آہ وفغاں پر نوٹس لینے کو تیار نہیں ہے۔ مسلم حکومتوں کے اتحاد (او․ آئی․ سی) کی جانب سے ۱۹۹۹/ سے اقوامِ متحدہ میں کوشش ہورہی ہے کہ ”آزادیِ اظہار“ کے اس ننگ انسانیت مغربی کلچر کو کچھ حدود وقیود کا پابند کیا جائے؛ لیکن مغربی حکومتیں کسی طرح اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے رہی ہیں (اس المیہ کا بڑا تفصیلی بیان ۲۵/ستمبر کے ”دی نیوز“ میں سابق پاکستانی سفیر محترمہ ملیحہ لودھی کے قلم سے نکلا ہوا موجود ہے)
یہ بالکل ایک صاف پاگل پن کیا مغرب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین سے نفرت پیدا کرنے کے لائحہٴ عمل کے طور پر اختیار کیاگیا ہے؟ جی نہیں، اس کام کے لیے پاگل پن کی ضرورت نہیں تھی نہ وہ مفید ہے۔ یہ ”پاگل پن“ اگر کوئی مقصد رکھتا ہے اوریقینا رکھتا ہے، تو وہ عالمِ اسلام میں نشأة ِ ثانیہ کے اٹھتے ہوئے آثار سے خوف زدہ ہوکر اس کا راستہ روکنا ہے۔ اس کا آغاز امریکہ نے 11/9 کے حوالہ سے ”دہشت پسندی کے خلاف جنگ“ (War on Terrorism) کا نام دے کر کیا، جسے بارہواں سال چل رہا ہے اور جس کے ذریعہ وہ تمام قوتیں جنگی اسلحہ سے تباہ کردینے کی مہم جاری ہے، جنھیں امریکہ اس نشأتی لہر کا بازوئے شمشیرزن سمجھ رہا ہے، پھر اس آغاز کے چند سال بعد یہ اشتعال انگیز فلموں اور کارٹونوں کا سلسلہ اسی مہم کا دوسرا پارٹ ہے جس نے مسلم دنیا میں اشتعال انگیزی کا ایک مستقل سلسلہ قائم کردیا ہے۔ ایک حرکت پر بات ٹھنڈی پڑتی ہے تو دوسری برآمدجس کے نتیجہ میں ہمارے یہاں وہ تک ہورہا ہے جو جمعةُ المبارک ۲۰/ستمبر کو پاکستان کے شہروں میں بصد رنج وقلق دیکھا گیا۔ یعنی ایک طرف اپنے ہاتھوں سے ملک کو ملینوں بلینوں کا نقصان، دوسری طرف اپنی پولیس کے ہاتھوں اپنی ہی بیسیوں لاشیں گرنا، اور پھر حکومت اور عوام کے درمیان جو دوری وبے اعتمادی ہمارے یہاں یونہی عام ہے، اس میں مزید تناؤ کا اضافہ۔ ایسے حالات میں نشأةِ ثانیہ کا کہاں گذر؟ مزید ایک نتیجہ اس اشتعال انگیزی کا یہ ہے کہ نوجوانوں میں مغرب، بالخصوص امریکہ، کے خلاف جو کچھ بھی ممکن ہوکرگزرنے کا جذبہ بالکل قدرتی طور سے پیدا ہوتا ہے، اور امریکہ کی نظر میں گویا نئے ”دہشت گرد“ پیدا ہوتے ہیں جن کا تعاقب اس کی ذمہ داری ہے۔
کیا اس صورتِ حال کا تقاضا یہ نہیں کہ ہم شدید جذباتی اذیت کے باوجود مغرب کی ان اشتعال انگیزیوں کا نوٹس لینا اسی طرح بند کردیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی اُسوئہ مبارکہ میں ہم دیکھتے ہیں؟ جب ہم ان شیاطین کا کچھ کر نہ سکیں تو کیا اسلام اور ملت کے نقطئہ نظر سے یہ بات زیادہ آبرومندانہ نہیں ہے کہ سورئہ آلِ عمران کی اوپر گزری آیت (”اور ضرور تمہاری آزمائش اپنے مالوں اور جانوں میں ہونی ہے اور ضرور ایسا ہوگا کہ تم کو اہلِ کتاب اور مشرکین سے بڑی اذیتیں پہنچیں۔ اور اس کا مقابلہ تم نے اگر صبر اور تقوے کی روش سے کیا تو یقینا یہ عزم وہمت کی بات ہوگی۔“) پر عمل کیا جائے؟ اور غور کیجیے تو یہ قرآنی ہدایت دراصل ایسے ہی حالات کے لیے ہے جن سے ہم گزررہے ہیں۔ یہی واحد صورت ان حالات میں ہے کہ اس شیطانی سلسلہ کا تار ٹوٹے، مغربی حکومتوں سے اس بات کی توقع کہ وہ آپ کے درد کو سمجھیں، بدقماشوں کو لگام دینے کے لیے کسی عالمی قانون کی منظوری پر راضی ہوں، جس کے لیے او․ آئی․ سی کی طرف سے کوششیں ہیں، اس توقع کی کیا گنجائش اس صورتِ حال میں ہے کہ یہ حکومتیں تو پاکستان کے قانونِ تحفظِ حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں، جو لوگ آپ کے اپنے ملکوں میں بھی آپ کے حُرُمات ومقدّسات کی بے حرمتی کی آزادی کے لیے بضد ہیں کیا ان سے یہ توقع بجا ہے کہ وہ اپنے یہاں تحفظ نافذ کریں گے؟
اس دن کے لیے انتظار اس دن کا کیجیے جب ہم آپ اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات پر ڈھال کر اسلام کا گزرا ہوا دور واپس دیکھنے کے لائق ہوجائیں اور وہ دور عشقِ رسول کے جھنڈے اُٹھانے اور احتجاج کرنے سے نہیں، اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات کے آگے بصد شوق سرجھکانے سے آئے گا، جو بلاشبہ اس وقت ہمارا حال نہیں ہے۔ اِلاّ یہ کہ ہم جانتے نہ ہوں یا اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہوں۔ اوراگر اس بات کی شرح درکار ہوتو ایک پیرِدانا کی حکایت سن لیجیے:
گذشتہ صدی کے ہمارے نامور علماء میں سے مولانا سید مناظراحسن گیلانی (م-۱۹۷۵ء) جن کو علم کے ساتھ اللہ نے عشقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت سے بھی خوب خوب نوازا تھا، دارالعلوم دیوبند میں اپنی طالب علمی کے احوال لکھتے ہوئے اپنے استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن (م-۱۹۲۰/) کے درس کا ایک واقعہ سناتے ہیں: ”بخاری شریف کا سبق ہورہا تھا، مشہور حدیث گذری کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک موٴمن نہیں ہوسکتا، جب تک اس کے مال، بال بچے اور سارے انسانوں سے زیادہ، میں اس کے لیے محبوب نہ ہوجاؤں۔ فقیر نے عرض کیا کہ ”بحمداللہ عام مسلمان بھی سرکارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین کو توایک حد تک مسلمان برداشت کرلیتا ہے؛ لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہلکی سی سبکی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کردیتی ہے کہ ہوش حواس کھوبیٹھتے ہیں، آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے ہیں۔“ یہ سن کر حضرت نے فرمایا: ہوتا بے شک یہی ہے جو تم نے کہا؛ لیکن کیوں ہوتا ہے؟ تہہ تک تمہاری نظر نہیں پہونچی، محبت کا اقتضا یہ ہے کہ محبوب کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے؛ لیکن عام مسلمانوں کو جو برتاؤ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیِ مبارک کے ساتھ ہے وہ بھی ہمارے تمہارے سامنے ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کیا چاہا تھا اور ہم کیا کررہے ہیں، اس سے کون ناواقف ہے، پھر سبکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے اس کی وجہ محبت تو نہیں ہوسکتی۔“
خاکسار نے عرض کیاکہ تو آپ ہی فرمائیں، اس کی صحیح وجہ کیا ہے؟ نفسیاتِ انسانی کے اس مبصرِ حاذق نے فرمایا کہ ”سوچوگے تو درحقیقت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سبکی میں اپنی سبکی کا غیرشعوری احساس پوشیدہ ہوتا ہے، مسلمانوں کی خودی اور انا مجروح ہوتی ہے، ہم جسے اپنا پیغمبر اور رسول… مانتے ہیں تم اس کی اہانت نہیں کرسکتے۔ چوٹ درحقیقت اپنی اسی ”انانیت“ پر پڑتی ہے؛ لیکن مغالطہ ہوتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے ان کوانتقام پر آمادہ کیا ہے، نفس کا یہ دھوکہ ہے، محبوب کی مرضی کی جسے پرواہ نہ ہو، اذان ہورہی ہے اور لایعنی اور لاحاصل گپوں سے بھی جو اپنے آپ کو جدا کرکے موٴذن کی پکار پر نہیں دوڑتا، اسے انصاف سے کام لینا چاہیے کہ محبت کا دعویٰ اس کے منھ پہ کس حد تک پھبتا ہے۔“ (احاطہٴ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن، ص۱۵۳-۱۵۴)
اللّٰھُمَّ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ المستقیمَ صِراطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّالین․ اٰمین
***
——————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1 ، جلد: 97 ، ربیع الاول 1434 ہجری مطابق جنوری 2013ء