تحریک سید احمد شہیدؒ (ضرورت، نوعیت، وسعت)

از: ڈاکٹر رشیدالوحیدی قاسمی

دنیا کی تاریخ میں اور روئے زمین پر کسی جگہ کبھی کسی حکومت نے اپنی رعایا کے ساتھ یا انسانوں کے کسی فرد یا جماعت نے اپنے ہم جنسوں پر ایسا ظلم، ایسی بربریت، ایسی بدعہدی و بے ایمانی اور درندگی کا معاملہ نہ کیا ہوگا؛ جیسا تاجر کے بھیس میں ہندوستان میں آنے والے غنڈے، ذلیل، لالچی انگریزوں نے اپنے محسنوں (مغل حکمراں) اور اپنی رعایا (عام ہندوستانی باشندوں) یہاں کے امراء، تعلق داروں، زمین داروں، کاشت کاروں، ریاست کے حاکموں، عالموں اور تمام شرفائے وطن کے ساتھ روا رکھا۔

                تفصیل تو بڑی اندوہ ناک اور طویل ہے، مختصراً زندگی کے اہم شعبوں میں اس ناپاک قوم کی ناانصافی کا محض تذکرہ اور دو ایک مثالیں یہ واضح کرنے کو کافی ہوں گی کہ اِن بدبخت مغربی لٹیروں نے اپنے میزبانوں، جہانگیر سے لے کر بہادر شاہ ظفرتک کو، جنھوں نے انھیں مہمان سمجھ کر اپنے وطن میں آنے کی اجازت دی اور وقتاً فوقتاً اِن کی طلب پر مختلف قسم کی مراعات عطا کیں، اِن سب کو اور اس ملک کے قدیم شرفا کو کیسا ذلیل و رسوا کیا، مدراس ہائی کورٹ کا انگریز جج اس کا نقشہ اس طرح کھینچتا ہے:

”ہم نے ہندوستانیوں کی ذاتوں کو ذلیل کیا، اُن کے قانونِ وراثت کو منسوخ کیا، شادی بیاہ کے قاعدوں کو بدل دیا، عبادت خانوں کی جاگیریں ضبط کرلیں، سرکاری کاغذات میں انھیں کافر لکھا، امراء کی ریاستیں ضبط کرلیں، لوٹ کھسوٹ کر ملک کو تباہ کردیا، سب سے اونچے خاندانوں کو برباد کرکے انھیں آوارہ بنادیا۔“

                مغل بادشاہ پورے ملک میں باعزت مانے جاتے تھے، انگریز نے اُن کا کیا حال کیا؟ سخت توہین آمیز برتاؤ کیا،قلعے سے نکال دیا، اُن کے زنانہ محلات میں بے دھڑک گھس جاتے، عورتوں سے نازیبا سلوک کرتے، کم وبیش یہی توہین آمیز رویہ تمام والیانِ ریاست کے ساتھ کرنے لگے، اپنی ذلیل فطرت سے ہندوستانیوں کے اعلیٰ اخلاق برباد کردیے، نشے کی عادت ڈال کر پست ہمت، بدعقل بنادیا، تعلیم گاہیں، مدرسے، اوقاف بند کرکے قبضہ کرکے ہندوستانیوں کو جاہل نکمّا بنادیا، ہندوستان کو لوٹ کر غریب اورمفلس بنادیا، بطور تمہید اس نہایت مختصر پس منظر کو پیش کرنے کے بعد اصل موضوع سے متعلق سید احمد شہید کی تحریک کے (مندرجہ بالا) تینوں ذیلی عنوان میں سے، تحریک کی ضرورت، سامنے آتی ہے جس کی تفصیل یہ ہے۔

ضرورت

                اس ظلم وستم نے عام ہندوستانیوں کے قلوب میں حکومت کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکادی بالخصوص علماء کے طبقے میں آزادی کی تڑپ پیدا کردی، اس سے پہلے شاہ عبدالعزیز اور سید صاحب نے ملک کے والیانِ ریاست امراء و رؤساء کو خطوط کے ذریعے متوجہ کیا، بعض حاکم بادشاہ نوابین نے ہمت بھی کی؛ مگر پلاسی ۱۷۵۷/، بکسر ۱۷۶۴/، ٹیپوشہید ۱۷۹۹/، اودھ وغیرہ کی شکست کے بعد ظالم اور شیرہوگیا اور مظلوم مایوس ہوکر بیٹھ گیا۔ اور اب علماء کمرِ ہمت باندھ کر میدان میں کود پڑے، شاہ عبدالعزیزنے جب ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا، اس کے بعد ہی سارے مسلمان علماء اور ہندوستانی ملک کو آزاد کرانے اور جہاد کے لیے کفن بردوش نکل پڑے۔ تحریک کی ضرورت پر خود سید صاحب کے ایک مکتوب سے اور تحریک کے ایک مجاہد سپاہی مولانا سید حسین احمد مدنی کے بیان سے پوری روشنی پڑتی ہے۔ سید صاحب نے مہاراج دولت راؤ سندھیا کے وزیر راجہ ہندوراؤ کو اپنے مراسلے میں لکھا: ”جناب کو خوب معلوم ہے کہ پردیسی سمندرپار کے رہنے والے تاجر سلطنت کے مالک بن گئے، بڑے بڑے امیروں کی عزت انھوں نے خاک میں ملادی، حکومت وسیاست کے مردِ میدان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں؛ اس لیے مجبوراً (ہم) چند غریب و بے سروسامان کمرِ ہمت باندھ کر کھڑے ہوگئے۔“ تقریباً یہی مضمون گوالیار کے ایک مسلمان عہدیدار غلام حیدر خاں کو بھی لکھا۔ ان خطوط سے بخوبی واضح ہے کہ انگریزوں کے ظلم وستم سے جب کہ خلقِ خدا برباد ہورہی تھی اور بڑے بڑے اہل حکومت وریاست اُن کا مقابلہ کرنے کا خیال ترک کرکے بیٹھ گئے تھے اورمقابلے کے خیال ہی سے ان کے بدن میں رعشہ طاری ہوجاتا تھا، ایسے میں اِن علماء ومجاہدین کو سرسے کفن باندھ کر میدان میں آنا پڑا جس کی قیادت سید احمد شہید کررہے تھے، اسی طرح مولانا مدنی کے ایک بیان سے بھی اس کی ضرورت پر روشنی پڑتی ہے۔ حضرت مدنی کے بیان سے پہلے یہ حقیقت بیان کرنا مناسب ہوگا کہ اگر ملک میں سید احمد شہید ایسا مجاہد یہ انقلابی ہنگامہ برپانہ کرجاتا تو ایسی ناامیدی، کمزوری اور سُستی وکاہلی کی فضا بن گئی تھی یا بنادی گئی تھی کہ لوگ اس حالت پر راضی رہتے اور پھر نہ ہندوستان میں آزادی کی لڑائی شروع ہوتی نہ ۱۸۵۷/ کا ہنگامہ شروع ہوتا، نہ ملک غلامی سے نجات پاتا۔ یہ سید صاحب کے بے چین روح کی دین تھی جس سے حوصلہ پاکر غلامی کے جُوئے کو اتار پھینکا گیا؛ اس لیے یہ تحریک تغیّرِ حالات کے لیے نہایت ضروری تھی۔ مولانا مدنی فرماتے ہیں: ”یہ تحریکِ آزادی علماء ہند کے ہاتھوں انیسویں صدی کے ابتدائی حصّے سے شروع ہوئی اور اس کا سنگِ بنیاد رکھنے والے شاہ عبدالعزیز ان کے خاندان کے لوگ اور ان کے شاگرد و مریدین ہیں، اس تحریک میں فرقہ پروری، تنگ دلی بالکل نہ تھی“ مندرجہ بالا تشریح وبیان سے تحریک کی ضرورت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ اب ہمیں دیکھنا ہے اس کے اثرات ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کس قدر سرعت سے پھیل گئے۔

وسعت:

                واقعہ یہ ہے کہ ملک کے بڑے صوبوں، شہروں، قصبات اور گاؤں میں خفیہ سازشوں کا جال پھیلا ہوا تھا، ملک کے چپّے چپّے میں سید صاحب کے مرید، خلیفہ اور مبلّغ رضاکار تحریک کی دعوت اشاعت اور بغاوت پھیلانے میں مصروف تھے“ ایک انگریز کہتا ہے: ”دو خلیفہ (ولایت علی، عنایت علی) نے بنگال اور جنوبی ہند کا دورہ کیا اور چھوٹے مبلغین بے شمار تھے۔“ (ڈبلوڈبلو ہنٹر)

                ان دونوں جاں باز خلیفہ نے بنگال کے علاوہ بمبئی، حیدرآباد اور وسطِ ہند کے علاقے، جنوبی اور وسطی صوبوں مالوہ، بوکرہ، پٹنہ، ندیا، فریدپور، ڈھاکہ، میمن سنگھ، نواکھالی ان سارے علاقوں میں تحریک کی دعوت پہنچادی، تحریک کا ایک مرکز نیپال کے جنوبی علاقے کاٹھمنڈو میں تھا یہاں اس تحریک میں بھوانی پاٹھک اور دیوی چودھرانی شریک تھے، باریسات میں وہابی تحریک کے ٹیٹومیاں اور فرائضی تحریک کے دُودُو میاں نے پورے علاقے اور قرب وجوار میں سیّد صاحب کے رضاکار کی حیثیت سے انگریزوں کا ناطقہ بند کررکھا تھا، بعد میں ان کو پھانسی ہوئی، نظام سکندرجاہ کا بیٹا مبارزالدولہ حیدرآباد نظام خاندان سے بغاوت کرگیا، وہاں کے سیاسی حیالات نے اُسے انگریز دشمن بنادیا وہ سید صاحب کی تحریک میں شریک ہوگیا، افغانوں اور عربوں کو تحریک میں بھرتی کرکے گول کنڈہ قلعے کے فوجیوں میں بغاوت پھیلادی، کرنول کے مسلمانوں کا نام شریف مکہ کا خط ملا جس میں تمام مسلمانوں کو تحریک میں شامل ہونے کی تاکید کی گئی تھی۔ تحریک کے دو مبلغ قاضی آصف اور مولانا پیر محمد نے سندھ میں سازش کا جال پھیلایا، سرکاری کاغذات سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ شاہ دہلی اور اس کا ولی عہد بھی تحریک کے حامی تھے، کرنول کے کاغذات میں ہے کہ ایک سکھ، دھرم داس گرفتار ہوا، جو فقیر کے لباس میں جہاد کا اشتہار فوجوں میں تقسیم کررہا تھا، یہ وہی اشتہار تھا جو تحریک کے معاون مولوی لیاقت علی الہ آبادی نے چھپوائے تھے اور دہلی تک لے کر گئے تھے ۱۸۵۷/ میں ملک بھر میں فوجی بارکوں میں تحریک کے حامی خفیہ اشتہار تقسیم کرکے بغاوت پھیلارہے تھے، روہیل کھنڈ اور اودھ کے علاقے میں مولوی احمد اللہ بڑی با اثر شخصیت تھی، یہ مولوی صاحب مولوی سرفراز علی سے متاثر تھے اور سرفراز علی سید صاحب کی تحریک کے لیے سرگرم تھے، ملک بھر میں چپاتی، کنول کا پھول بغاوت کا ایک خفیہ پیغام تھا، جو نہایت تیزی کے ساتھ پورے ملک میں پھیل گیا، یہ کام مولانا احمد اللہ ہی نے شروع کیا تھا، اس تحریک کے اثر کا یہ عالم تھا کہ ایک انگریز ”میلین، لکھتا ہے: ”رانی جھانسی مولوی احمد اللہ سے رابطہ قائم کرچکی تھی“ جنرل بخت خاں جب دہلی کے ہنگامے کے وقت دارالحکومت پہونچے تو ان کے ساتھ نانا صاحب کے بھائی بالاصاحب بھی تھے اور اس جماعت کی رہنمائی تحریک کے سرگرم حامی مولوی سرفراز کررہے تھے، دیوبند کے علماء جن کا علمی رشتہ شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز سے تھا اور اسی خانوادے اور ان کے شاگردوں سے منسلک تھے، وہ اس تحریک سے علاحدہ کیسے رہ سکتے تھے، ان پر تو استخلاص وطن اور مسلک ولی اللہی کی نسبت سے دوہری ذمے داری تھی؛ چنانچہ شریک ہوئے اور اس شان سے کہ مظفرنگر، تھانہ بھون، شاملی، کیرانہ وغیرہ میں مجاہدین کی رہنمائی حضرت حاجی امداد اللہ کررہے تھے، حاجی صاحب اور ان کے مریدین مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم صاحب، پیرجی ضامن شہید وغیرہ نے تحریک میں روح پھونک دی، انگریزوں سے مقابلہ ہوا، شاملی کے میدان میں گھمسان کا رن پڑا، یہ سارے حضرات جنگ میں شریک تھے، شروع میں یہ انقلابی جماعت کامیاب رہی؛ مگر پیرضامن کی شہادت، انگریزوں کے جدید اسلحوں اور مزید فوجی کمک آجانے سے آخر شکست کھاگئے، سید صاحب کے بہادر مجاہدوں نے بہار، چھوٹا ناگپور، مدناپور، اڑیسہ، آسام، بردوان، اودھ، روہیل کھنڈ، گوا، مہاراشٹر، قنوج، بھوپال غرض شمال جنوب مشرق مغرب میں ایک آگ لگارکھی تھی، انگریز حیران تھے یہ کون پُراسرار لوگ ہیں جن کی ہمیں بھنک بھی نہیں ملتی۔ مبارزالدولہ، غلام رسول، نواب کرنول، مولوی ولایت علی، مولوی سلیم وغیرہ کی سازش کی ہمہ گیری اور ہوشیاری پر جو انھوں نے مدراس، بنگلور، کرنول اور بمبئی وغیرہ میں خفیہ طور پر پھیلارکھی تھی اور ان کے جنگی پلان نے حکومت کے افسروں کو متحیر کردیا تھا، اس جماعت نے راجہ مان سنگھ، راجہ ستارا، راجہ گیکواڑ، نواب باندہ، راجہ پٹیالہ، نواب بھوپال، والیان ریاست کو متحد کرکے ایک خاص وقت میں بغاوت کا پلان تیار کرلیا تھا کہ اسی مقررہ وقت میں انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کردیں۔

نوعیت

                اس تحریک کی بنیادی نوعیت یہ تھی کہ یہ نہ حکومت وبادشاہت کی طمع میں لڑی گئی، نہ اس میں فرقہ واریت کا کوئی حصہ تھا، یہ تو اللہ کے چند بے سہارا مگر ایمان ویقین سے اُن کے قلوب منور تھے، اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں کو ظلم وستم سے نجات دے کر عدل وانصاف دلانے کے لیے اپنے جان کی بازی لگارہے تھے، اُن کے ذہنوں میں ہندومسلمان اقلیت اکثریت ایک بے معنی چیز تھی؛ چنانچہ جب ہندوستان میں مصائب کا ذکر کرتے ہیں تو ہندومسلمان دونوں کے لیے کرتے ہیں، جب انگریزوں کی غلامی سے گلوخلاصی کی دعوت دیتے ہیں تو اس میں ہندومسلمان دونوں کا فائدہ دیکھتے ہیں، جب امراء ریاست، زمین دار، کاشت کار عوام خواص ، فوج ، سرکاری ملازمین کو خفیہ پیغام یا بغاوت کے لیے اشتہار چھپواتے ہیں تو ہندومسلمان دونوں کو مخاطب کرتے ہیں اورانگریز کے تسلط کے نتیجے میں دونوں کے نقصان کا ذکر کرتے ہیں، تحریک کی اس نوعیت کے ثبوت میں حوالے تو بے شمار ہیں، ہم اختصار کے مدّنظر چند ہی کا ذکر کریں گے۔

                رانی جھانسی، نانا راؤ، تانتیا ٹوپے، راجہ جگدیش پور، کنور سنگھ، لالہ رام جی کاذکر تو مولانا مدنی نے کیاہے، مولانا حسین احمد مدنی جو ولی اللہی فکر کے ترجمان ہیں، عام علماء کا نظریہٴ حکومت بتاتے ہیں، ظاہر ہے یہی سیداحمد شہید کی بھی ترجمانی ہے اور ان کی برپا کی ہوئی تحریک کی بنیاد اور نوعیت اسی نظریے پر قائم ہے، آپ فرماتے ہیں: ”علماء نے حکومت کو ہمیشہ جمہوریت کے اصول پر چلنے کی تلقین کی، وہ حکومت کو خدا کی مخلوقات جس میں ہر مذہب وملت کے لوگ شامل ہوں ان کی خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔“ اس اقتباس سے ظاہر ہے، جیساکہ حضرت مدنی نے آگے چل کر صاف صاف تحریر فرمایا ہے: ”سید صاحب کا مقصد ہندوستان کے ہندومسلمان کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط واقتدار سے نجات دلانا تھا۔“ اسی لیے سید صاحب نے تحریک کے آغاز اور شباب کے دور میں برابر مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کو دعوت دی، بڑے بڑے والیانِ ریاست جن میں اکثر ہندو تھے (جن کا ذکر پیچھے آچکا ہے) اُن سے تحریک کی مدد کے ضمن میں صاف صاف فرماتے رہے ”آپ اپنی مسند حکومت پر قائم رہیں“ یعنی سید صاحب کی کوششوں کو اپنی ریاست کی مضبوطی کا باعث سمجھیں، گویا اس تحریک میں ہندومسلم اتحاد باہمی اعتماد، انگریزوں کو نکالنے کے لیے مشترکہ کوشش یہ تحریک کی اصل نوعیت تھی؛ چنانچہ ملک کے دور دراز علاقوں، اندور، گوالیار، بھوپال سے جب فوجیں دہلی کی طرف کوچ کرتی ہیں؛ تاکہ بادشاہ کی مدد کرسکیں تو تحریک کے مجاہدین ان کے ہمراہ آتے ہیں، یہ وہی مجاہدین ہیں جو فوجوں میں بغاوت کا جذبہ پیدا کرتے رہے، تحریک کے شروع میں اپنے توپ خانے کا افسر بھی سید صاحب نے ایک ہندو توپچی راجہ رام راجپوت کو مقرر کیا، اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آئندہ ہندو کو آپ حکومت میں شریک رکھنا چاہتے تھے، تحریک کی خفیہ میٹنگ میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو کو بھی شریک کیا جاتا تھا، یکم مئی ۱۸۵۷/ کو شاہ جہاں پور میں ایک خفیہ میٹنگ ہوئی، جس میں رپورٹ دی گئی کہ ہماری تحریک پورے ملک میں پھیل رہی ہے، اس میں مسلمانوں کے ساتھ دولت رائے، ستیل سنگھ، کالکا پرشاد، گھنشیام سنگھ بھی شریک تھے۔ ”تحریک ۱۸۵۷/ کو ملک گیر پیمانے پر منظم کرنے میں علماء نے اہم ترین رول ادا کیا، خصوصاً مولوی احمداللہ اور وہ سارے علماء جو ولی اللہی تحریک (تحریک سیداحمد شہید) سے وابستہ تھے“ (خورشید مصطفی رضوی تاریخ آزادی نمبر ۱۸۵۷/) واقعہ یہ ہے جیسا مولانا حسین احمد مدنی نے فرمایا اب تک بادشاہ اور ریاست کے حکمراں اپنی حکومت بچانے کے لیے انگیز کا مقابلہ کررہے تھے۔“

                سیداحمد نے اسے جس طرح پورے ملک میں پھیلادیا ہر ہندوستانی کے دل میں انگریز دشمنی کا جذبہ پیدا کردیا اس چیز نے آزادی ہند کی تحریک کو عاومی بنادیا تھا، کہنا چاہیے ۱۸۵۷/ کا معرکہٴ کارزار سید صاحب کی سازش فوجوں میں بغاوت کا طویل اور خفیہ نظم، انگریز کے خلاف ہر ہندوستانی کے دل میں نفرت، سرکاری ملازمین میں تحریک کی اشاعت، فوجی بارکوں میں باغیانہ اشتہارات کا پہنچانا اس قسم کی سازشوں کا نتیجہ تھا، ایک باغی کی گفتگو سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ۱۸۵۶/ کے آخری دنوں میں ایک انگریز نے تحریک کے حامی پیرعلی سے دھمکی بھرے انداز میں کچھ سوال کیا تو ان کا جواب تھا: ”بس کچھ دنوں کی بات ہے ، اب کہ ہم تم پر کامیاب ہوجائیں گے“۔ ظاہر ہے ان عوامی احساسات میں ملک کے بلا اختلاف مذہب ہرہندوستانی ایک تھے اور متحد تھے۔

ہولناک سزاؤں پر ایک نظر

                ۱۸۵۷/ میں اور اس کے بعد جب پوری دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو دہلی میں قتلِ عام شروع ہوگیا، ایک انگریز کا بیان ہے: ”۳ ہزار لوگوں کو پھانسی دی گئی، جن میں ۲۹ شاہی خاندان کے تھے، کل ۲۷ ہزار مسلمان قتل کیے گئے، زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سِلواکر پکتے ہوئے تیل کے کڑھاؤ میں ڈلوادیا جاتا، شاہجہانی جامع مسجد کے حجروں میں گھوڑے باندھے جاتے لید اور پیشاب سے ساری مسجد میں بدبو پھیلتی، وضو کے حوض میں لید ڈالی جاتی، فتح پوری سے لال قلعے تک درختوں پر علماء کی لاشیں جھولتی رہتیں، توپ کے منہ پر مجاہدین کو باندھ کر فائر کردیا جاتا فضامیں اُن کے جسموں کے چیتھڑے بکھرجاتے، دہلی سے بنگال تک جگہ جگہ علماء کی لاشیں بکھری یا درختوں پر لٹکی رہتی تھیں۔

                مراد آباد کے انقلابی رہنما نواب مجید الدین عرف مجومیاں کو پیر میں گولی ماری گئی پھر ان کو زندہ ہی چونے کی بھٹی میں ڈال کر پانی ڈال دیا، چونا پکنے لگا تھوڑی دیر بعد نکالا تو وہ سِسک رہے تھے ابھی جان باقی تھی تب ہاتھی کے پاؤں سے باندھ کر سارے شہر میں گھسیٹا گیا اور آخر میں لاش شہر کے ایک طرف ڈال دی گئی۔

                مولانا فضلِ حق دہلی کے ہنگامے سے تو بچ گئے؛ مگر دشمنوں نے مخبری کردی ۱۸۵۹/ میں گرفتار ہوگئے، کالے پانی کی سزا ہوئی، وہیں انتقال ہوا۔

                دیوبند کے اکابر مجاہدین تحریک کے سچے وارث حاجی امداداللہ ، مولانا رشید احمدگنگوہی، مولانا قاسم صاحب بغاوت کے الزام میں ماخوذ ہوئے، حاجی صاحب تو ہزار مصائب اٹھاتے ہوئے صاف بچ کر مکے پہنچ گئے، وہیں جنتُ المعلیٰ میں رحمتِ حق کے سایے میں آسوئہ خواب ہیں، مولانا قاسم صاحب انگریزوں کو جُل دے کر صحرا، جنگل، آبادی چھپتے رہے، نہایت پریشانی اٹھائی؛ مگر محفوظ رہے، مولانا گنگوہی گرفتار ہوئے مظفرنگر جیل میں رہے، پھانسی کا حکم ہوا؛ مگر غیبی مدد آئی اور آپ پھانسی اور جیل دونوں سے بچ کر آزاد ہوگئے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن صاحب کے بارے میں اُن کے نائب ان کے علوم کے وارث مولانا حسین احمد مدنی نے ان کی وفات کے بعد اُن پر توڑے گئے ستم کا ایسا راز منکشف کیا کہ سن کر لبوں سے آہ نکل گئی، ضعف، کمزوری، بیماری، ناتوانی میں ملک سے لاکھوں میل دور اک جزیرہ، مالٹا میں ۳ سال قید وبند کی صعوبت کا تو دنیا کو علم ہے، یہ تو تاریخ آزادیِ ہند کا ایک باب ہے (ملک کے دشمن، انگریزوں کے نمک خوار آج تک غلام، تاریخ سے اِن روشن ابواب کو کھرچ نہیں سکتے، لاکھ اپنی کم ظرفی اور تعصب کا ثبوت دیں) قید مالٹا کے علاوہ اِس نئے ظلم کو سنیے جسے لکھتے ہوئے بھی قلم کانپ رہا ہے: ”جب شیخ الہند کا جنازہ دیوبند لایا گیا اور غسل کے وقت کپڑا ہٹایاگیا تو لوگ روپڑے، جسم میں ہڈیوں کے سوا کچھ نہ تھا اور جگہ جگہ سے جسم کی کھال جلی ہوئی تھی یہ خبر مولانا حسین احمد صاحب کو ملی تو وہ بھی روپڑے، اور فرمایا شیخ الہند نے مجھے تاکید کی تھی کہ یہ راز فاش نہ کرنا، بات یہ تھی کہ مالٹا کے تہہ خانے میں انگریز افسر لوہے کی سلاخ کمر پر مارتا تھا، کہتا تھا محمودالحسن انگریز کے حق میں فتویٰ دو، مولانا کو جب ہوش آتا تو فرماتے: ”میں حضرت بلال کا وارث ہوں جسم پگھل سکتا ہے، میں انگریز کے حق میں فتویٰ نہیں دے سکتا“ (رسالہ جنگ آزادی کے کچھ واقعات، انصار احمد قاسمی، محمد شمیم ہاشمی، کریلی الہ آباد) ایک انگریز ٹامسن کا بیان ہے: ”دلّی کے چاندنی چوک سے پیشاور تک درختوں پر علماء کی گردنیں، جسم لٹکے ہوئے ملتے تھے۔“ اِسی مورخ نے لکھا ہے: ”روزانہ اسّی (۸۰) علماء پھانسی پر لٹکائے جاتے تھے“۔ ٹامسن کا یہ دردناک بیان بھی سنیے: ”میں دلّی کے ایک خیمے میں بیٹھا تھا، مجھے گوشت کے جلنے کی بو آئی، میں نے خیمے کے پیچھے جاکر دیکھا تو کیا دیکھتا ہو آگ کے انگاروں پر تیس چالیس علماء کو ننگاکرکے ڈالا جارہا ہے پھر دوسرے ۴۰ لائے گئے اُنھیں ننگاکیاگیا۔ ایک انگریز نے کہا، اگر تم انقلاب ۱۸۵۷/ میں شرکت سے انکار کردو تو تمھیں چھوڑ دیا جائے گا۔“ ٹامسن قسم کھاکر کہتا ہے: ”سارے علماء جل کر مرتے گئے؛ مگر کسی ایک نے بھی انگریز کے سامنے گردن نہیں جھکائی“ (ایضاً) انگریزوں کا یہ جَورو استبداد جیل، سُولی، پھانسی، قید وبند، کالا پانی، جائیداد مکانوں کا لوٹنا، جلانا، ضبط کرنا سب جاری تھا؛ مگر اُن کے جذبہٴ حُرّیت اور قدموں کو کبھی لغزش نہ آئی، حقیقت حال تو خدا ہی کے علم میں ہے؛ مگر مورّخین کے اندازے کے مطابق ۲۰ لاکھ بہادر جاں بازوں کو مختلف وحشت ناک طریقوں سے موت کے گھاٹ اُتاراگیا۔ آج ملک کے نام نہاد سُورما اور وفادار ہم سے وفاداری کا ثبوت مانگتے ہیں۔

بہ آں گروہ کہ از ساغرِ و فامست اند

سلامِ ما برسانید ، ہر کجا ہست اند

٭٭٭

——————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الاول 1434 ہجری مطابق جنوری 2013ء

Related Posts