از: مولانا محمدعظیم قاسمی فیض آبادی‏‏، استاذ المعہدالعلمی الاسلامی، دیوبند

                افراد انسانی کا اجتماعی ڈھانچہ معاشرہ کہلاتا ہے، اجتماعی زندگی کی درستگی وخوبی اور اس کے پرسکون وخوشگوار بنانے کے لیے کچھ کلیدی صفات کی ضرورت ہے، خصوصاً نوجوان نسل کو ان صفات سے متصف ہونا انتہائی ضروری ہے، اگر معاشرے میں ان صفات کا خیال نہ رکھاجائے تو اجتماعی زندگی پریشانی الجھن اور مصیبتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے، پھر معاشرے کا وہی حشر ہوتا ہے آج مغرب جس سے دوچار ہے اور ہمارے معاشرے میں بھی وہ ساری خامیاں آہستہ آہستہ داخل ہورہی ہیں۔

                چونکہ جوان جس طرح گھر خاندان کا ایک فرد ہے اور گھریلوں وخاندانی ماحول کے پرسکون بنانے کے لیے نوجوان کی ذمہ داریاں اس کے کچھ حقوق ہیں، اسی طرح گھر خاندان کے دائرے سے آگے نوجوان اپنے گرد وپیش معاشرے کا بھی ایک فرد ہے؛ بلکہ صحت مند اور اسلامی معاشرے کے تشکیلی عناصر کا جزو لا ینفک ہے اور معاشرے کی اصلاح اور اسلامی وخوشگوار معاشرے کی تشکیل کے لیے نوجوان کی ذمہ داری سب سے اہم ہے اس کے اسلامی کردار وگفتار، اخلاق اور اعمال حسنہ کے بغیر معاشرے کی اصلاح اور اسلامی معاشرے کا وجود ناکام وناتمام رہتا ہے۔

                نوجوانانِ ملت کے بے شمار واقعات ہیں کہ انھوں نے اپنے اسلامی کردار واعمال، اچھے اخلاق کے ذریعہ ایک مثالی معاشرہ قائم کیا، ایثار وہمدردی یعنی دوسروں کو اپنے اوپرترجیح دینا اور دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا اسلام کی معاشرتی تعلیم ہے، معاشرہ کے اجتماعی نظام کے استحکام اور بقا میں اس کا بڑا عمل دخل ہے۔

                امام واقدی علیہ الرحمہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مجھے بڑی مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، فاقوں تک نوبت پہنچ گئی، گھر سے اطلاع آئی کہ عید کی آمد آمد ہے اور گھر میں کچھ نہیں ہے، بڑے تو صبر کرلیں گے؛ لیکن بچے مفلسی کی عید کیسے گذاریں گے؟ یہ سن کر میں اپنے ایک تاجر دوست کے پاس قرض لینے گیا، وہ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گیا اور بارہ سو درہم کی سربمہر ایک تھیلی میرے ہاتھ پکڑا دی میں گھرابھی آیا ہی تھا کہ میرا ایک ہاشمی دوست آیا، اس کے گھر بھی افلاس وغربت نے ڈیرا ڈالا تھا، وہ قرض چاہتا تھا، میں نے گھر جاکر اہلیہ کو قصہ سنایا، کہنے لگی کتنی رقم دینے کا ارادہ ہے، میں نے کہا تھیلی کی آدھی رقم تاکہ دونوں کا کام چل جائے، اہلیہ نے کہا بڑی عجیب بات ہے کہ آپ کو ایک عام آدمی نے بارہ سو درہم دئیے اور آپ اسکو ایک عام آدمی کے عطیہ کا نصف دے رہے ہیں، آپ اسے پوری تھیلی دے دیں، لہٰذا میں نے پوری تھیلی اس کے حوالے کردی وہ تھیلی لے کر گھر گیا تو میرا تاجر دوست اس ہاشمی کے پاس گیا، کہا عید کی آمد آمد ہے گھر میں کچھ نہیں ہے کچھ رقم قرض چاہیے، ہاشمی نے وہی پوری تھیلی تاجر دوست کے حوالے کردی، تاجر کو اپنی ہی دی ہوئی تھیلی دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ وہ تاجر دوست تھیلی ہاشمی کے پاس چھوڑ کر میرے پاس آیا، میں نے اس کو پورا واقعہ سنایا، دراصل تاجر دوست کے پاس بھی اس تھیلی کے علاوہ کچھ نہیں تھا، اس نے سارا مجھے دے دیا تھا اور خود قرض لینے ہاشمی کے پاس چلا، ہاشمی نے جب وہ تھیلی حوالے کرنا چاہی تو راز کھل گیا۔

                ایثار وہمدردی کے اس انوکھے واقعہ کی اطلاع جب وزیر یحییٰ بن خالد کے پاس پہنچی تو وہ دس ہزار دینار لے کر آئے، کہنے لگے ان میں دو ہزار آپ کے، دوہزار آپ کے ہاشمی دوست کے، دوہزار تاجر دوست کے اور چار ہزار آپ کی اہلیہ کے ہیں؛ کیوں کہ وہ تو سب سے زیادہ قابل قدر اور لائق اعزاز ہے۔

                اسی طرح حضرت ربیع بن خیثم مشہور تابعی ہیں، ان کے زہد وتقویٰ اور دنیا سے بے رغبتی کے یادگار واقعات تاریخ کی کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔

                ایک مرتبہ ان پرفالج کا حملہ ہوا،صاحب فراش ہوگئے،انسان بیمار ہوتو خواہشات کا نخلِ آرزو ہرا ہوجاتا ہے، انھیں مرغی کے گوشت کھانے کی خواہش ہوئی، چالیس دن تک اس کا اظہار نہیں کیا،اس کے بعد بیوی سے کہا، انھوں نے مرغی کا گوشت بناکر آپ کے سامنے پیش کیا، ابھی آپ نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دروازے سے فقیر نے خیرات کی صدا لگائی، آپنے اپنا ہاتھ کھینچا اور اہلیہ سے فرمایا یہ فقیر کو دے آؤ، اہلیہ نے کہا میں فقیر کو اس سے بہتر چیز دے آتی ہوں، آپ نے پوچھا وہ کیا ہے، کہنے لگیں اس کی قیمت فرمایا بہت اچھا قیمت لے آؤ، وہ قیمت لے کر آئیں تو آپ نے فرمایا یہ کھانا اور قیمت دونوں اس فقیر سائل کو دے آؤ۔

                اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نوجوان نسل کو اچھے اخلاق وکردار کا خوگر بنانا چاہتی ہے، صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم! انسان کو جو کچھ عطا ہوا ہے، اس میں سب سے بہتر کیاہے؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا اچھے اخلاق!

                حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان والوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں، جو اخلاق کے اعتبار سے زیادہ اچھے ہیں، بلاشبہ اخلاق کا مقام بہت بلند مقام ہے اور انسان کی سعادت ونیک بختی، فلاح وکامرانی کے معراج میں اخلاق کابڑا اہم اور خاص دخل ہے، کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے۔

اخلاق کی دولت سے بھرا ہے میرا دامن

گو پاس میرے درہم ودینار نہیں ہیں

                اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نوجوان نسل کواخلاقِ حسنہ کا درس دیتی ہیں، بزرگوں کا ادب واحترام، چھوٹوں پر شفقت، علماء کی قدر ومنزلت، محتاجوں اور بے کسوں کی دادرسی ہم عمروں کے ساتھ محبت والفت اور جذبہٴ ایثار وہمدردی کا سبق دیتی ہے، معلم اخلاق محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلم یُوقِّرْ کَبِیْرَنَا لَیسَ مِنَّا“ (جو شخص چھوٹوں کے ساتھ رحم اور بڑوں کی توقیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں) بہ ظاہر یہ ایک مختصرسی حدیث ہے؛ لیکن اپنے اندر ایسی وسعت وگہرائی رکھتی ہے کہ اگر ساری کائنات اس حدیث پر عمل کرلے تو دنیا کے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں، ظاہر ہے کہ اگر ہر شخص اپنے چھوٹوں سے پیارو محبت، شفقت ورحم کا معاملہ اور نرمی کا برتاؤ کرے اور ہر چھوٹا اپنے بڑوں کی عزت واحترام کو ملحوظ رکھے، ان کی تعظیم وتکریم کرے تو جذبہٴ ایثار وہمدردی پروان چڑھے گا اور اس طرح معاشرہ الفت ومحبت کا گہوارہ بن جائے گا۔

                اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے جذبہٴ ایثار اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینے کی ایسی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں، جس کی نظیر کسی دوسری قوم ومذہب میں نہیں ملتی۔

                حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری کے گھر رات کو مہمان آگیا، ان کے پاس صرف اتنا کھانا تھا کہ یہ خود اور ان کے بچے کھاسکیں، انھوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ بچوں کو کسی طرح سلادو اور گھر کا چراغ گل کردو پھر مہمان کے سامنے کھانا رکھ کر برابر بیٹھ جاؤ کہ مہمان سمجھے کہ ہم بھی کھارہے ہیں؛ مگر ہم نہ کھائیں؛ تاکہ مہمان پیٹ بھر کھاسکے۔ (ترمذی)

                حضرت قشیری نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیاکہ صحابہٴ کرام میں سے ایک بزرگ کو کسی شخص نے ایک بکری کا سربہ طور ہدیہ پیش کیا، اس بزرگ نے خیال کیا کہ ہمارا فلاں بھائی اور اس کے اہل وعیال ہم سے زیادہ ضرورت مند ہیں، یہ سر ان کے پاس بھیج دیا، یہ سر جب دوسرے بزرگ کے پاس پہنچا تو اسی طرح انھوں نے تیسرے کے پاس اور تیسرے نے چوتھے کے پاس بھیج دیا، حتیٰ کہ سات گھروں میں پھرنے کے بعد یہ سر پہلے بزرگ کے پاس واپس آگیا۔

                ایک مرتبہ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے چار سو دینار ایک تھیلی میں رکھ کر غلام کے سپرد کیا کہ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ کہ ہدیہ ہے قبول کرکے اپنی ضرورت میں صرف کرلیں اور غلام کو ہدایت کردی کہ ہدیہ دینے کے بعد کچھ دیر گھر ٹھہرجانا اور دیکھنا کہ ابوعبیدہ اس رقم کو کیا کرتے ہیں، غلام نے حسب ہدایت یہ تھیلی حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کردی اور ذرا ٹھہرگیا،ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے تھیلی لے کر کہا کہ اللہ ان کو یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا صلہ دے اور ان پر رحمت فرمائے اوراسی وقت اپنی کنیز کو کہا کہ لو یہ سات فلاں کو پانچ فلاں شخص کو دے آؤ، حتیٰ کہ پورے چار سو دینار اسی وقت تقسیم کردیے، غلام نے واپس آکر واقعہ بیان کردیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی طرح چار سو دینار کی ایک دوسری تھیلی تیار کی ہوئی غلام کو دے کر ہدایت کی کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو دے آؤ اور وہاں بھی دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں، یہ غلام لے گیا، انھوں نے تھیلی لے کر حضرت عمررضی اللہ عنہ کے حق میں دعا دی ”رَحِمَہُ اللہ وَ وَصَلَہ“ (اللہ ان پر رحمت فرمائے اوران کو صلہ دے) یہ بھی تھیلی لے کر فوراً تقسیم کرنے کے لیے بیٹھ گئے اوراس کے بہت سے حصے کرکے مختلف گھروں میں بھیجتے رہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی بیوی یہ سب ماجرا دیکھ رہی تھیں، آخر میں بولیں کہ ہم بھی تو بخدا مسکین ہی ہیں، ہمیں کچھ ملنا چاہیے، اس وقت تھیلی میں صرف دو دینار رہ گئے تھے، وہ ان کو دے دیے غلام یہ دیکھنے کے بعد لوٹا اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ سب بھائی بھائی ہیں۔

                غور کیجیے کہ ان نفوسِ قدسیہ کے اندر فقر وفاقہ اور اپنی ضرورت واحتیاج کے باوجود اپنے دینی بھائی کی ضرورت وحاجت کو مقدم رکھنے اوراپنی بیوی بچوں کو بھوکا سلادینے کی یہ صفات محمودہ صرف اور صرف نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و تربیت سے آئی۔

                اسی طرح کا واقعہ حضرت حذیفہ عدوی رضی اللہ عنہ کا ہے، فرماتے ہیں کہ میں جنگ یرموک میں اپنے چچازاد بھائی کی تلاش شہداء کی لاشوں میں کرنے کے لیے نکلا اور کچھ پانی ساتھ لیا کہ اگر ان میں کچھ جان ہوئی تو پانی پلادوں گا، ان کے پاس پہنچا تو کچھ رمق زندگی کی باقی تھی، میں نے کہا کہ کیاآپ کو پانی پلادوں، اشارے سے کہا کہ ”ہاں“ مگر فوراً ہی قریب سے ایک دوسرے شہید کی آواز ”آہ آہ“ کی آئی تو میرے بھائی نے کہا کہ یہ پانی ان کو دے دو، میں ان کے پاس پہنچا اورپانی دینا چاہا تو تیسرے آدمی کی آواز ان کے کان میں پڑی، اس نے بھی اس تیسرے کو دینے کے لیے کہہ دیا، اسی طرح یکے بعد یگرے سات شہیدوں کے ساتھ یہی واقعہ پیش آیا۔ جب ساتویں شہید کے پاس پہنچا تو وہ دم توڑچکے تھے، یہاں سے اپنے بھائی کے پاس پہنچا تو وہ بھی ختم ہوچکے تھے۔

                اندازہ کیجیے کہ اگر پیاس کی شدت، گرمی ودھوپ کی تپش، زخموں سے چور اور پھر حالت بھی نزاع کی ایسے نازک موقع پر دوسروں کا خیال محض نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت آپ کے عملی نمونہ اور قوت ایمان کا ہی کرشمہ ہوسکتا ہے، اخلاق واقدار کی بلندی کے اسی اعجاز کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیاہے ”وَیُوٴْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِہ خَصَاصَة“ (اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں،اگرچہ خود تنگدست ہوں)

                دینی اخوت، اسلامی ہمدردی و غمخواری، للہیت، الفت ومحبت دوسروں کی خبرگیری و خیرخواہی اور بے غرضانہ تعاون یہ وہ اخلاق و اقدار ہیں، جن کے ذریعہ آپس میں دل ایک دوسرے سے ملے رہتے ہیں، آپسی تعاون وہمدردی کا جذبہ پائیدار و بیدار ہوتا ہے۔ معاشرتی زندگی کے حوالے ان اخلاق واقدار سے متصف ہوئے بغیر ”نسلِ نو“ ماحول ومعاشرہ میں اسلامی کردار کی ذمہ داری سے عہدہ برا نہیں ہوسکتی، نئی نسل کی اولین ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اسلام کی تعلیم اخلاقیات سے آراستہ وپیراستہ ہوکر معاشرہ میں خود اس کاعملی نمونہ پیش کرے۔

جنھیں حقیر سمجھ کر بجھا دیاتم نے

وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی

***

—————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ‏، جلد: 96 ‏، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء

Related Posts