از: مولانا محمد شفیع قاسمی بھٹکلی ناظم ادارہ رضیة الابرار بھٹکل
ماہ رمضان المبارک میں تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلماورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاکبھی تہائی رات،کبھی آدھی رات اورکبھی پوری رات تراویح پڑھناکتب حدیث میں مذکورہے۔
حدیث(۱)عن نعیم بن زیادقال:سمعت النعمان بن بشیرص علی منبر حمص یقول: قمنامع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فی شھررمضان لیلة ثلاث وعشرین إلی ثلث اللیل، ثم قمنا معہ لیلة خمس وعشرین إلی نصف اللیل، ثم قمنا معہ لیلة سبع وعشرین حتی ظننا أن لن ندرک الفلاح․ ﴿صحیح ابن خزیمة،ابواب قیام شھررمضان،ومستدرک حاکم، باب قیام اللیل فی رمضان، وقال حاکم ھذا حدیث صحیح علی شرط البخاری وقال الذھبی حدیث حسن﴾
ترجمہ: حضرت نعیم بن زیاد فرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت نعمان بن بشیرص کو منبر حمص پرکھڑے ہو کر فرماتے ہوئے سنا کہ ہم لوگوں نے (صحابہٴ کرام ث)رمضان المبارک کی تیئیسویں رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک تہائی رات تک تراویح پڑھی ،پھر پچیسویں رات کو آدھی رات تک تراویح پڑھی ، پھرستائیس ویں رات کو اتنی رات تک تراویح پڑھی کہ ہمیں سحری کا وقت ختم ہونے کا اندیشہ ہوگیا۔
حدیث(۲)حدثنا عبد الواحد بن زیاد، حدثنا الحسن بن عبید اللہ، حدثنا إبراھیم، عن الأسود، عن عائشة قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یجتھد فی رمضان مالا یجتھد فی غیرہ۔(رواہ عفان بن مسلم ، وإسنادہ صحیح )
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں جتنامجاہدہ(عبادت) کرتے تھے،اتناغیررمضان میں نہیں کرتے تھے۔
حدیث(۳) عن عائشة زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم أنھا قالت: کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم إذا دخل رمضان شدَّ مئزرہ، ثم لم یاتِ فراشہ حتی ینسلخ․ (صحیح ابن خزیمة ۲۲۱۶، قال المناوی: إسنادہ حسن،التیسربشرح الجامع الصغیر۲/۴۸۶)
ترجمہ: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی شریک حیات حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمر کس لیتے تھے اور رمضان ختم ہو نے تک اپنے بستر پر نہیں آتے تھے ۔
حدیث(۴) عن ابن شھاب أخبرنی عروة أن عائشة رضی الله عنھا أخبرتہ أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم خرج لیلةً من جوف اللیل فصلی فی المسجد، وصلی رجال بصلاتہ، فأصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع أکثرمنھم، فصلی فصلوا معہ، فأصبح الناس فتحدثوا فکثر أھل المسجد من اللیلة الثالثة، فخرج رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فصلی بصلاتہ، فلما کانت اللیلة الرابعة عجز المسجد عن أھلہ حتیٰ خرج لصلاة الصبح، فلما قضیٰ الفجر أقبل علی الناس فتشھد ثم قال: أمابعد فإنہ لم یخف علی مکانکم․ ولٰکنی خشیت أن تفرض علیکم فتعجزوا عنھا․ فتوفی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم والأمرعلی ذٰلک․﴿صحیح بخاری،باب فضل من قام رمضان﴾
ترجمہ: ابن شہاب(امام زہری)روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے عروہ نے کہاکہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بتایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باردیررات گھرسے نکلے اورمسجد میں تراویح پڑھی، اورآپ کے ساتھ کچھ اورلوگوں نے بھی تراویح پڑھی،جب صبح ہوئی تو لوگوں نے اس کے متعلق گفتگوشروع کی اوربہت سے لوگ جمع ہوگئے،دوسرے روزجب آپ نے تراویح پڑھی توسب نے آپ کے ساتھ تراویح پڑھی،پھرصبح ہوئی اوراس کاچرچا ہوا،تیسری رات نمازیوں کی تعدادبہت بڑھ گئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اورتراویح پڑھی اورسب نے آپ کے ساتھ تراویح آداکی، جب چوتھی رات آئی تونمازیوں کی کثرت سے مسجدمیں جگہ نہ رہی،یہاں تک کہ فجرکی نمازکے لیے آپ باہرتشریف لائے اورنماز پڑھنے کے بعدلوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایاکہ تم لوگوں کی موجودگی مجھ سے پوشیدہ نہ تھی؛لیکن مجھے خدشہ ہواکہ یہ نماز(تراویح)تم پرفرض کردی جائے پھرتم اس سے عاجزہوجاوٴ، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور صورت حال یہی رہی۔
بیس رکعات پرعملِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وعملِ صحابہ رضی اللہ عنہم
حدیث(۵)حدثنا یزید بن ھارون، قال: أخبرنا إبراھیم بن عثمان، عن الحکم، عن مقسم، عن ابن عباس: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر۔(مصنف ابن أبی شیبة ۷۷۷۴، إسنادہ حسن)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے مہینے میں بیس(۲۰)رکعات تراویح اوروترپڑھا کر تے تھے ۔
اس حدیث کی سندکوبعض محدثین نے ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے ضعیف لکھاہے؛ اس لیے کہ حضرت ابراہیم بن عثمان کو چھوڑکرسب راوی بخاری کے ہیں اورابراہیم بن عثمان کے بارے میں امام بخاری نے فرمایا ہے:
قال البخاری: سکتواعنہ اورمعروفسلفی عالم شیخ ناصرالدین البانی نے ابراھیم بن عثمان عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس کے اسی طرق کو صحیح وضعیف ابن ماجہ ۱۴۹۵ میں صحیح لکھاہے۔نیز بیس رکعات کی تائید میں دوسری احادیث اورعمل صحابہ بھی موجودہے؛ اس لیے یہ روایت حسن لغیرہ کے درجہ سے کم نہیں ہوگی۔
حدیث(۶) حدثنا أبوالفضل عبید اللہ بن عبد الرحمٰن الزھری، حدثنا محمد بن ھارون، (وفی روایة حدثنا محمد) بن حمید الرازی، حدثنا إبراھیم بن المختار، عن عبد الرحمٰن بن عطاء، عن (عبد الملک بن جابر) بن عتیک، عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم خرج لیلة فی رمضان فصلی بالناس أربعة وعشرین رکعة۔(مخطوطات لأبی طاہر الأصبہانی۲۲۳، إسنادہ حسن)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی ایک رات باہرتشریف لاکرچوبیس(۲۴) رکعات نمازپڑھائی۔
حدیث (۷)حدثنا شجاع بن مخلد، قال: حدثنا ھشیم، قال منصور، أنبا الحسن قال: کانوا یصلون عشرین رکعة، فإذا کانت العشر الأواخر زاد ترویحة شفعین۔ (فضائل رمضان لابن أبی الدنیا۵۳،وإسنادہ صحیح علی شرط مسلم)
ترجمہ: حضرت حسن بصری(تابعی،متوفی ۱۱۰ھ)فرماتے ہیں کہ صحابہ وتابعین رمضان المبارک میں بیس(۲۰)رکعات تراویح پڑھتے تھے، اور آخیری عشرہ میں ایک ترویحہ یعنی چار (۴) رکعات کا اضافہ فرماتے،یعنی جملہ چوبیس (۲۴)رکعات پڑھتے۔
حدیث(۸) أخبرنا ابن أبی ذئب، عن یزید بن خصیفة، عن السائب بن یزید ص قال: کانوا یقومون علی عھد عمر فی شھر رمضان بعشرین رکعة، وکانوا لیقرؤن بالمئین من القرآن۔(مسند ابن الجعد ۲۸۲۵، إسنادہ صحیح علی شرط الشیخین)
ترجمہ: حضرت سائب بن یزیدص فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب ص کے دورخلافت میں رمضان المبارک کے مہینہ میں صحابہ وتابعین بیس(۲۰)رکعات تراویح پڑھتے تھے، اوروہ سوسوآیتیں پڑھاکرتے تھے۔
حدیث(۹) عن أبی العالیة عن أبی بن کعب ص: أن عمر بن الخطاب ص أمرأبَیًّا أن یصلی بالناس فی رمضان، فقال: إن الناس یصومون النھار ولا یحسنون أن یقرأوا، فلو قرأت القرآن علیہم باللیل، فقال: یاأمیرالموٴمنین! ھذا شیٴ لم یکن، فقال: قد علمتُ ولکنہ أحسن، فصلی بھم عشرین رکعة․ (المختارة لضیاء المقدسی۱۱۶۱،وإسنادہ حسن)
ترجمہ: حضرت ابوالعالیہ (تابعی) حضرت ابی بن کعب ص سے روایت کرتے ہیں کہ امیر الموٴمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب صنے حضرت ابی ابن کعب ص کو رمضان المبارک میں تراویح پڑھا نے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں؛ مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے ) تراویح نہیں پڑھ سکتے ،اس لیے تم ان لو گوں کو رات میں تراویح پڑھا وٴ ،حضرت ابی بن کعب صنے فرمایا کہ یا امیر الموٴمنین ! یہ ایسی چیز کا حکم ہے جس پر ابھی تک عمل نہیں ہے (یعنی با جماعت تراویح) حضرت عمر ص نے ارشاد فرمایا :مجھے معلوم ہے،لیکن یہ بہتر ہے، تو انھوں نے بیس رکعات تراویح پڑھا ئی ۔
حدیث(۱۰)عن مالک، عن یزید بن رومان أنہ قال: کان الناس یقومون فی زمان عمربن الخطاب فی رمضان بثلاث وعشرین رکعة۔ (موطا امام مالک ۲۵۲، إسنادہ مرسل صحیح)
ترجمہ: حضرت امام مالک حضرت یزیدبن رومان سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ وتابعین حضرت عمربن خطاب ص کے دور خلافت میں تیئس رکعات (بیس رکعات تراویح اورتین رکعات وتر) پڑھاکرتے تھے۔
ان احادیث کی بناپر امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمدابن حنبل، سفیان ثوری، عبداللہ ابن مبارک، داؤدظاہری و جمہور علماء امت بیس(۲۰) رکعات تراویح کو سنت کہتے ہیں۔اس کے برخلاف غیرمقلد/اہل حدیث/سلفی حضرات بیس (۲۰)رکعات تراویح کا انکار کرتے ہوئے آٹھ (۸)رکعات کوسنت سمجھتے ہیں،اور درج ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں:
(۱) عن أبی سلمة بن عبد الرحمن بن عوف أنہ سأل عائشة رضی اللہ عنھا: کیف کا نت صلاة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان؟ فقالت: ماکان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان، ولا فی غیرہ، علی إحدیٰ عشرة رکعة․ یصلی أربعاً، فلا تسأل عن حسنھن وطولھن، ثم یصلی أربعاً، فلا تسأل عن حسنھن وطولھن، ثم یصلی ثلاثاً․ فقالت عا ئشة : فقلت یا رسول الله! أتنام قبل أن تو تر؟ فقال: یاعائشة إن عینیَّ تنامان، ولا ینام قلبی․ ﴿موطأ امام مالک، باب صلاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الوتر، وصحیح بخاری، باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فی رمضان وغیرہ، وصحیح مسلم، باب صلاة اللیل﴾
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں کس طرح نمازپڑھتے تھے؟ حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ(۱۱) رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ پہلے چار رکعت پڑھتے ،مت پو چھوکہ وہ کتنی طویل اور کتنی عمدہ ہوتیں ،پھر چار رکعت پڑھتے ، مت پوچھو کہ وہ کتنی طویل اور کتنی عمدہ ہوتیں ، پھر تین رکعات ادا فرماتے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں جب میں عرض کرتی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ و ترپڑھنے سے پہلے سو گئے تھے ؟ توآپ ا ارشاد فرما تے:اے عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا ۔ (یعنی میرے سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے سونے کے بعد وتر کے لیے جدید وضو کی ضرورت نہیں)
(۲) عن جابر بن عبد الله رضی الله عنھما قال: صلی بنا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات والوتر، فلما کان من القابلة اجتمعنا فی المسجد و رجونا أن یخرج الینا، فلم نزل فی المسجد، حتیٰ أصبحنا فدخلنا علی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، فقلنا لہ یارسول الله صلی اللہ علیہ وسلم! رجونا أن تخرج إلینا فتصل بنا، فقال: کرہت أن یکتب علیکم الوتر․﴿ابن خزیمة، وصلاة الوتر لمحمد بن نصر المروزی﴾
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں ہم لوگوں کو آٹھ رکعات اور وتر پڑھا ئی ،چنانچہ اگلی رات ہم مسجد میں جمع ہوگئے اور آپ کے آنے کی امید میں رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لا ئے ،جب صبح ہوئی تو ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کل رات ہم مسجد میں جمع ہو کر اس امید میں رہے کہ آپ ہمیں نماز پڑھا ئیں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مجھے نا پسند ہو کہ کہیں وتر تم پر فرض کر دی جا ئے ۔
اس روایت میں عیسیٰ بن جا ریہ متفرد ہیں جو محدثین کے نزدیک ضعیف اور مجروح ہیں۔
(۳) عن مالک، عن محمد بن یوسف، عن السائب بن یزید، أنہ قال: أمر عمر بن الخطاب أبی بن کعب وتمیم الداری أن یقوما للناس بإحدی عشرة رکعة، قال: وقد کان القاریٴ یقرا بالمئین، حتی کنا نعتمد علی العصی من طول القیام، وما کنا ننصرف إلا فی فروع الفجر․﴿موٴطا امام مالک،باب ما جاء فی قیا م رمضان﴾
ترجمہ: امام مالک محمد بن یوسف سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہما نے فرمایا :حضرت عمر بن خطاب صنے ابی بن کعب ص اور تمیم داری صکو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیا رہ رکعات پڑھا ئیں۔راوی فرماتے ہیں کہ امام کئی سو آیتیں پڑھا کرتے تھے اور ہم لوگ طول قیام کی وجہ سے لا ٹھیوں پر ٹیک لگایا کر تے تھے اورہم لوگ سحری کے وقت گھر جا یا کر تے تھے ۔
(۱)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہماکی اس حدیث سے تراویح مرادلینا صحیح نہیں ہے،اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہارمضان وغیررمضان کا ذکر کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ رمضان کی مخصوص نماز (تراویح) نہیں ہوئی،اوراتنام قبل ان توتر؟ کہتی ہیں۔یعنی اس نماز کو وتر کہتی ہیں، اور اس روایت سے تہجداور وترکی بھی گیارہ ہی رکعات ثابت نہیں ہوتی ہے؛اس لیے کہ دوسری روایات میں حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہاسات،نو،تیرہ،سترہ رکعات کاذکرکرتی ہیں۔
(۲) حضرت جابرص کی حدیث سے تراویح مرادلیناصحیح معلوم نہیں ہوتا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرہت أن یکتب علیکم الوتر کے الفاظ ارشاد فرمائے،یعنی مجھے وترکے فرض ہونے کا خوف ہوا (اس لیے اس کے لیے باہر نہیں نکلا)۔اوراس حدیث سے آٹھ (۸)رکعات تراویح مراد لینابھی صحیح نہیں ہے،اس لیے کہ حضرت جابرص کی حدیث اوپرگذرچکی ہے،جس میں چوبیس (۲۴)رکعات پڑھنے کا ذکرہے۔نیز دوسری روایات میں بیس (۲۰)رکعات پڑھنے کا ذکر موجودہے۔
(۳)امام مالک کی روایت سے بھی گیارہ(۱۱) رکعات تراویح مرادلیناصحیح نہیں ہے،اس لیے کہ امام مالک سے بیس(۲۰) رکعات کی روایت بھی منقول ہے،جس کا تذکرہ علامہ ابن حجرعسقلانی نے فتح الباری میں کیاہے۔اورامام مالک نے اس حدیث کے متصل حضرت یزیدبن رومانکی تیئس(۲۳) رکعات کی حدیث کوبھی نقل کیاہے۔اورامام مالککا عمل بھی گیارہ (۱۱) رکعات پر نہیں تھا؛اس لیے بعض علماء نے احدی عشرہ کے لفظ کا وہم قرار دیاہے۔اور صحیح احدی عشرین (۲۱)لکھاہے۔علاوہ ازیں اس حدیث کے راوی حضرت محمدبن یوسف ہی سے داؤد بن قیساور عبدالعزیز بن محمددراوردی اکیس(۲۱) رکعات نقل کرتے ہیں،جیساکہ مصنف عبدالرزاق اورشرح زرقانی میں موجودہے۔اوردوسری روایات میں حضرت ابی بن کعب ص کا بیس(۲۰) رکعات پڑھانا ثابت ہے۔لہذا جمہورمحدثین وفقہاء نے ان احادیث کو تراویح پرمحمول نہیں کیاہے۔ اسی وجہ سے صحابہ ،تابعین ، تبع تابعین،ائمہ مجتہدین بیس (۲۰)رکعات تراویح پرعمل کیااورابتداء سے لے کر آج تک حرمین شریفین (مسجدالحرام ومسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم)میں بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھی جاتی ہے۔
***
———————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 96 ، شعبان-رمضان 1433 ہجری مطابق جولائی 2012ء