از: حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت بركاتہم
مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ
۲۱؍ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ مطابق ۱۵؍مارچ ۲۰۱۲ء بہ روز جمعرات ’’جامع رشید‘‘ دارالعلوم دیوبند میں مجلس عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ كا كل ہند اجلاس منعقد ہوا، اجلاس كی نشست اوّل صبح ساڑھے آٹھ بجے تا ساڑھے بارہ بجے دوپہر اور نِشَسْتِ دوم بعد نماز مغرب تا ۱۱؍بجے شب جاری رہی، دونوں نشستوں كی صدارت گرامی قدر محترم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت بركاتہم مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر رابطۂ مدارس اسلامیہ نے فرمائی اور وقیع خطبۂ صدارت پیش فرمایا، جو ذیل كے صفحات میں شائع كیاجارہا ہے۔ اجلاس كی مفصل رپورٹ انشاء اللہ آئندہ شمارہ میں پیش كی جائے گی۔
(شوكت علی قاسمی بستوی، خادم تدریس دارالعلوم دیوبند وناظم عمومی رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدُللہ رب العالمین، والصلوۃُ والسلامُ علی سیِّدِ الأنبیاءِ والمرسَلین، سیِّدنا ومولانا محمدٍ وَّ علی آلہ وأصحابِہٖ أجمعین، أما بعد.
سب سے پہلے بندہ اپنے پروردگار، رب العزۃ والجلال کی بار گاہِ قدس میں سجدہٴ شکر بجالاتا ہے، کہ اس نے ہم سب کو اپنے سچے دین کا تابع بنایا، حضرت خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل فرماکر اپنی نعمت کی تکمیل فرمادی اور ہمیں ان علمائے حق کی جماعت سے انتساب عطا فرمایا، جوکمالِ ایمان، زہدو ورع، خشیتِ الٰہی، تقوی وطہارت، اتباعِ سنت اور دینی غیرت وحمیت کا پیکرِ جمیل تھے، پھر مزید کرم یہ فرمایا کہ ہمیں مدارسِ اسلامیہ کی خدمت سے وابستہ فرماکر ملتِ اسلامیہ کی دینی پاسبانی کے اعزازسے سرفراز فرمایا اور رشدو ہدایت کے مراکز اور علم وعرفان کے ان روشن میناروں یعنی مدارس اسلامیہ کے مسائل پر اجتماعی غور وخوض کی توفیق ارزانی بھی فرمائی۔
میں اس مبارک موقع پر اپنی اور تمام خدامِ دارالعلوم کی جانب سے آپ تمام حضرات کی خدمت میں ہدیۂ تشکر پیش کرنا اپنا خوش گوار فریضہ سمجھتا ہوں، کہ آپ نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود ہماری درخواست کو قبول فرمایا، مدارس اسلامیہ کے مسائل کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوے زحمتِ سفر برادشت کی اور مجلس عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے اس اہم اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔
حضراتِ گرامی قدر ! اس سے قبل رابطۂ مدارس اسلامیہ کے اجلاسِ عمومی کے موقع پر، ہم اپنے گرامی قدر سرپرست، فدائے ملت، امیر الہند حضرت مولانا سیداسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے صدمۂ جدائی سے نڈھال تھے اور آج ہماری نگاہیں اِس کاروانِ علم وہدیٰ کے قافلہ سالار، آزمودہ کار بزرگ، امیر الہند حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو تلاش کررہی ہیں، جنہوں نے بڑے نازک دور میں مسندِ اہتمام کو زینت بخشی اور اپنے تیس سالہ طویل دورِ اہتمام میں مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کو ہمہ جہت ترقیات سے ہم کنار کیا اور زندگی کے آخری سانس تک اس عظیم خدمت سے وابستہ رہے۔ اس درمیانی عرصے میں ہمارے دوبزرگ حضرت مولانا غلام رسول صاحب خاموش سابق کار گذار مہتمم دارالعلوم اور حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب سابق صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند بھی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ رَحِمَھُمُ اللہُ رَحْمَۃً وَاسِعَۃً۔ اب اس عظیم امانت کی حفاظت اور سرمایۂ ملت کے نگہبان، اس الہامی ادارہ کی خدمت کا بار اس عاجز کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیا گیا ہے، اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اس امانت کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
مہمانانِ عالی وقار !! مجلس عمومی رابطۂ مدارس اسلامیہ کے اجلاس کا جو دعوت نامہ آپ حضرات کی خدمت میں ارسال کیا گیا ہے اس میں اجلاس کے متعلقہ موضوعات کی بھی صراحت کردی گئی ہے۔ جن پر آپ حضرات پوری بصیرت کے ساتھ غور وفکر فرمائیں گے۔ بندہ بھی انہی امور سے متعلق اپنی چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے نہج پر قائم مدارس اسلامیہ کا نظامِ تعلیم، خالص دینی بنیادوں پر استوار رکھا گیا ہے؛ چوں کہ دینی مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد علوم کتاب وسنت کی تعلیم واشاعت، اسلام اور شعائراسلام کا تَحفّظ، اسلامی اقدار کی پاسبانی، ملّت اسلامیہ کی دینی، ملی اور دعوتی ضروریات کی تکمیل، اور ایسے علماء ورجال کار کی تیاری ہے، جو ایک طرف اسلامی علوم کے ماہر، دینی کردار کے حامل، فکری اعتبار سے صراطِ مستقیم پر گام زن ہوں اوردوسری طرف مسلمانوں کی دینی وملی قیادت کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہوں؛ اس لیے حضرات اکابر رحمہم اللہ نے مقاصدِ تاسیس سے ہم آہنگ نصاب متعین فرمایا اور ایسا جامع اور مفید نظامِ تعلیم وتربیت نافذ فرمایا جو مذکورہ بالا اغراض ومقاصد کی تکمیل میں بے حد مفید اور کامیاب ثابت ہوا۔
ہمارے اکابر واسلاف رحمہم اللہ کا طُرۂ امتیاز تھاکہ وہ طلبہ کی علمی استعداد ولیاقت بڑھانے پر جس قدر توجہ دیتے تھے، اس سے کہیں زیادہ ان کی عملی تربیت اور کردار سازی کا اہتمام فرماتے تھے، وہ طلبہ کے دلوں میں خشیتِ الہی کی آب یاری فرماتے، ان میں عبادت کا ذوق پروان چڑھاتے، ان کے اعمال واخلاق اور معاشرت وآداب کو سنت کے مطابق ڈھالنے کی تربیت فرماتے؛ چناں چہ مرد م گری اور افراد سازی کے ان اداروں اور کارخانوں سے ایسے باکمال افراد اور رجالِ کار تیار ہوے، جو رشدو ہدایت کے مینار، علم وفضل کے آفتاب وماہتاب، سلوک وطریقت کے بادہ خوار، ملک وملت کے معماراور در کفے جامِ شریعت درکفے سِندانِ عشق کے سچے مصداق تھے۔ ؎
أولٓئکَ آبائی فَجِئْنِی بِمِثْلِھِمْ
إذَا جَمَعَتْنَا یَا جَرِیرُ المجَامِعٗ
الحمد للہ ہمارے مدارس آج بھی حضراتِ اکابر ؒ کے مقرر کردہ نصاب ومنہاج کے مطابق اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، تاہم مرورِ ایام سے ان کی کار کردگی متاثر ضرورہوئی ہے، معیارِ تعلیم وتربیت میں گراوٹ آرہی ہے، مردم گری اور استعداد سازی کی صلاحیت میں نمایاںکمی در آئی ہے؛ اس لیے ہم خدام مدارس، منتظمین واساتذہ کا فریضہ ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں، انحطاط کے اسباب وعوامل کا جائزہ لیںاور اصلاح کی جِدو جُہد تیزتر کردیں ؎
حُدی را تیز ترمی خواں ٭ چوں محمِل را گراں بینی
رابطۂ مدارس کے سابقہ اجلاسوں میں مدارس اسلامیہ کے نظام تعلیم وتربیت کو بہتر بنانے پر متعدد بارغور وخوض کیا گیا اور مفید تجاویز منظور کی گئی ہیں، درج ذیل امورپرخصوصی توجہ مبذول رکھی جائے تو ان شاء اللہ مفید نتائج برآمد ہوں گے۔
(۱) اسلام میں حصول علم کا مقصد رضائے الہی کا حصول ہے، علم دین کو دنیوی مقاصد کے لیے حاصل کر نے پر شدید وعید کاذکر گیا ہے، اس لیے مدارس اسلامیہ میں داخل ہونے والے طلبہ کی ذھن سازی کی ضرورت ہے کہ تعلیم کا مقصد سرکاری ملازمتوں کا حصول نہیں؛ بلکہ دینی تعلیم کا مقصد تفقہ فی الدین اور دعوت الی اللہ ہے، ارشاد ربانی ہے : فَلَوْ لاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِیَتَفَقَّھُوْا فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْآ اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۔ (سورۃ توبہ:۱۲۲)ترجمہ:ایسا كیوںنہ كیاجاوے كہ ان كی ہر بڑی جماعت میں سے ایك چھوٹی جماعت جایا كرے؛ تاكہ باقی ماندہ لوگ دین كی سمجھ بوجھ حاصل كرتے رہیں اور تاكہ قوم كو جب كہ وہ ان كے پاس آویں ڈرادیں، تاكہ وہ احتیاط ركھیں۔
(۲) مدرسین حضرات کے انتخاب میں علمی استعداد کی پختگی کے ساتھ صلاح وتقوی، سلامتی طبع، بلند اخلاقی معیار اور طلبہ کی تربیت سے خصوصی دل چسپی کو ملحوظ رکھا جائے کہ ؎
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں ٭ آدمی، آدمی بناتے ہیں
(۳) ہم خدام مدارس کے ذہن میں یہ بات مستحضر رہنی چاہیے کہ طلبہ ہمارے پاس قوم کی امانت ہیں، ہمیں ان کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، کہ ان میں سے ہر طالب علم ایسا ہے کہ اگر اس پر محنت صرف کرکے اُسے علمِ دین کا صحیح حامل بنا دیا جائے تو اس ایک فرد کی اصلاح، سیكڑوں اور ہزاروں افراد کی اصلاح کے قائم مقام ہوسکتی ہے؛ اس لیے اساتذئہ کرام کا فرضِ منصبی صرف طلبہ کو درس گاہ میں پڑھادینے سے ادا نہیں ہوتا؛ بلکہ یہ بھی ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ طلبہ کی استعداد کی نگرانی کریں اور ان کے اعمال واخلاق کی اصلاح وتربیت کی بھی فکر فرمائیں۔
(۴) اسباق کی پابندی کا اہتمام کیا جائے، اختصار کے ساتھ حلِ کتاب کی کوشش کی جائے، نصاب کی تکمیل کرائی جائے، پورے سال تدریس میں یکسانیت رکھی جائے، امتحانات پوری احتیاط کے ساتھ لیے جائیں، ابتدائی عربی درجات میں عربی تمرین وانشاء پر خاص زور دیا جائے، دارالاقامہ کے نظام کو چست رکھا جائے، نمازوں کے اہتمام اور طلبہ کی وضع قطع پر خاص نظر رکھی جائے، ان میں اتباعِ سنت کا جذبہ بیدار رکھا جائے، مطالعہ اور مذاکرہ کا طلبہ کو عادی بنایا جائے، نظافت اور صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دی جائے۔
(۵) مدارس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نظم ونسق میں اجتماعیت اور شورائیت پیش نظر رہے، شخصی نظام، مدارس کے لیے سَمِّ قاتل ہے، نیز اساتذہ وملازمین کے مشاہرے کا معیار بہتر بنایا جائے، طلبۂ عزیز کے قیام وطعام کے نظم میں مزید بہتری لائی جائے۔
اربابِ فکر ونظر ! اجلاس کے ایجنڈے کی ایک اہم دفعہ ہے ’’مدارس اسلامیہ کے باہمی ربط واتحاد کے استحکام پر غور ‘‘یہ مو ضوع بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اور رابطۂ مدارس کے بنیادی اغراض ومقاصد میں شامل ہے۔ذمہ داران مدارس میں باہمی ربط واتحاد کا استحکام۔ درپیش مسائل ومشکلات کے حل میں بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ سابقہ اجلاسوں میں بھی یہ موضوع زیر بحث آتا رہا ہے، رابطۂ مدارس کی مجلسِ عاملہ نے باہمی ربط واتحادکو فروغ دینے کے لیے ضابطۂ اخلاق بھی منظور کیا ہے، اس کی چند اہم دفعات درج ذیل ہیں۔ ہم خدام مدارس کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اپنے مدارس میں ان امور کے نفاذ کی سعی کریں، اور ان کے مطابق نظام اُستوار رکھنے کا عزم کریں۔
(۱) مربوط مدارس کے ذمہ دار حضرات باہمی تعاون وتناصر کے جذبے کو فروغ دیں، اتحاد واتفاق کی فضا قائم کی جائے، ہرقسم کی آپسی رسّہ کشی اور مخالفت سے گریز کیا جائے، کہ باہمی منافرت یوں بھی بری چیز ہے، اور موجودہ حالات میں مدارس کے مخالفین کو اس سے مدارس میں مداخلت کا موقع مل سکتا ہے۔
(۲) درپیش مسائل کے حل میں ذمہ دارانِ مدارس آپس میں ایک دوسرے کی مدد کریں، باہمی اختلافات مل جل کرخوش اسلوبی سے حل کریں۔
(۳) ذمہ داران مدارس آپس میں ایک دوسرے کے متعلق منفی اظہارِ خیال سے گریز کریں۔
(۴) اربابِ انتظام میں اتحاد ویگانگت، باہمی رواداری اور اعتماد کی فضا قائم رکھی جائے۔
(۵) طلبہ کے داخلے کے وقت سابقہ مدرسے کا تصدیق نامہ لازم قرار دیا جائے۔ اس معاملہ میں مکمل احتیاط برتی جائے۔
(۶) اساتذہ کے عزل ونصب اور طلبہ کے داخلہ واخراج کے بارے میں مدرسے کے طے شدہ دستور کی پابندی کی جائے۔
رہنمایانِ ملت ! مدارسِ اسلامیہ کو درپیش مسائل ومشکلات کا جائزہ اور حل بھی ہماری گفتگو کا ایک اہم موضوع ہے، مدارس اسلامیہ کو درپیش مسائل دو طرح کے ہیں؛ داخلی اور خارجی۔داخلی مسائل کا تعلق معیارِ تعلیم وتربیت میں انحطاط، ارباب مدارس کے باہمی اختلافات، تعلیمی ترقی سے زیادہ تعمیر پر توجہ، فراہمیٔ سرمایہ کے سلسلے میں ناپسندیدہ طریقۂ کار، ذمہ داران، اساتذہ وکارکنان کی فرض شناسی، احساس ذمہ داری اور عملی جدوجہد اور فکر مندی میں کمی اور گراوٹ سے ہے۔
بندہ کی اب تک کی معروضات کا تعلق ان ہی امور سے ہے، جہاں تک خارجی مسائل ومشکلات کی بات ہے تو ان سے مراد وہ بیرونی حملے ہیں جو فرقہ پرست طاقتوں، ارباب حکومت یا مدارس کے بدخواہ حضرات کی جانب سے، مدارس پر كیے جاتے رہتے ہیں۔ کبھی مدارسِ دینیہ کے نصاب تعلیم کو فرسودہ قرار دیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی اورعصری علوم کی شمولیت پر زور صرف کیا جاتا ہے، تو کبھی ان مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ، بنیاد پرستی کا مرکز، اور ملک دشمن سرگرمیوں کی آماج گاہ تک کہہ دیا جاتا ہے۔ جب تخو یف وترہیب میں کامیابی نہیں ملتی تو ترغیب وتحریص سے کام لے کر مدارس کو سرکاری امداد کی پیش کش کی جاتی ہے اور حکومتی ایڈ کالالچ دیا جاتا ہے۔
۱۴۲۸ھ میں جب مرکزی مدرسہ بورڈ کا مسئلہ زور وشور سے اٹھا اور فروغِ انسانی وسائل کی وزارت نے اس کے قیام کی سفارش کی تو اولاً رابطۂ مدارس اسلامیہ کی مجلس عاملہ نے اس کی شدت سے مخالفت کی، اسے مدارس اسلامیہ کے نصب العین کے منافی قرار دیا، پھر مدارس اسلامیہ کے کل ہند اجتماع منعقدہ ۲۵؍۲۶؍ ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ میں اس موضوع پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا، اور حکومت ہند سے پرزور مطالبہ کیا گیا کہ مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کی تجویز فوراً واپس لی جائے، اس موقع پر صدر رابطۂ مدارس اسلامیہ حضرت مولانا مرغوب الرحمن رحمۃ اللہ علیہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، نے اپنے خطبۂ صدارت میں حکومت کے مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ کے سلسلہ میں بڑی مفصل اور بصیرت مندانہ گفتگو فرمائی تھی، جس میں بورڈ کے مجوزہ خاکہ، بورڈ کے پس پردہ حکومت کے عزائم اور خدانخواستہ بورڈ کے قیام کے بعد، مدارس اسلامیہ کے اس بورڈ سے منسلک ہونے کے خطرناک اثرات ونتائج کا مفصل جائزہ پیش کیاگیا تھا۔
دارالعلوم دیوبند، مدارس اسلامیہ اور ملی تنظیموں کی زبردست مخالفت کی وجہ سے وقتی طور پر یہ مسئلہ دب گیا تھا، لیکن مخصوص مکتب فکر کے مدارس اور علماء کی تائید اورمطالبہ کی بنا پر ایک بار پھر مدرسہ بورڈ کا جن بوتل سے باہر نکلتا محسوس ہوتا ہے۔
مجلس عمومی رابطۂ مدارس اسلامیہ کے اس اہم اجلاس میں بھی مرکزی مدرسہ بورڈ کے مسئلہ پر پوری فکر مندی ود ل سوزی کے ساتھ غور وفکر کرنا اور اس کے مہلک اثرات ومضمرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
مدارس اسلامیہ کی تاریخ بڑی روشن اور تابناک ہے، یہ مدارس علومِ شریعت کے نقیب اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض نبوت، تلاوت قرآن، تعلیم کتاب اور تفہیم حکمت کے وراث اور پاسبان ہیں، ان اسلامی مدارس نے علومِ کتاب وسنت کی اشاعت وتعلیم، مسلمانوں کے علمی دینی وثقافتی ورثے کے تحفظ، ملک وملت کی تعمیر وترقی اور احیاء اسلام کی جدو جہد کے حوالے سے جو قابلِ ستائش کارنامے انجام دیے ہیں، وہ ہماری علمی، دینی وثقافتی تاریخ کے زریں ابواب ہیں۔ لادینیت کے گھٹاٹوپ اندھیرے اور مذہب بیزاری کے موجودہ پر آشوب ماحول میںجو اسلامی تہذیب ومعاشرت اور دینی عبادات ورسوم اور مذہبی دینی غیرت وحمیت اور اسلامی بیداری پائی جارہی ہے، وہ انہی مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کی مساعی جمیلہ کے مظاہر واثرات ہیں۔
دارالعلوم دیوبند اور مدارس اسلامیہ کا یہی تاریخی کردار اور دینی وملی امتیاز، فرقہ پرست طاقتوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے؛ اس لیے مدارس اسلامیہ کو ان کے متوارث منہاج ونظام سے ہٹانے، ان کی بنیادوں کو متزلزل کرنے، ان کی روح کو ختم کردینے اور ان کی فکری وانتظامی آزادی کو سلب کرنے کے لیے، ، مرکزی مدرسہ بورڈ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے، جو دراصل مغربی استعماری طاقتوں کی وسیع تر پالیسی کا حصہ ہے، اسی منصوبہ بند مہم کے تحت بہت سے عرب ممالک میں دینی نصاب میں تخفیف وترمیم عمل میں لائی گئی ہے اور اب بر صغیر کے مدارس اسلامیہ کے نصاب ونظام میں ترمیم وتنسیخ اور مدارس کو حکومت کے زیرکنڑول لانے کے لیے مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کی جدو جہد جاری ہے؛ تاکہ یہ دینی مدارس برائے نام ہی رہ جائیں، ان کی امتیازی کارکردگی ختم ہوجائے، وہ اپنی معنوی حیثیت کھو بیٹھیں، ان کو سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں تبدیل کردیا جائے، اور ان کامقصد وہی رہ جائے جولا رڈ میکالے کے برپاکردہ نظام تعلیم کا بنیادی مقصد تھا، یعنی سرکاری ملازم اور ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا جو حکمراں طبقے اور عوام میں رابطے کا کام انجام دے سکے، پھر یہ دینی مدارس، مفسر قرآن، محدث، فقیہ، مبلغ وداعی، امام وخطیب اور عوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے افراد پیدا نہیں کریں گے؛ بلکہ سرکاری مولوی، اور عالم اور ایسے افراد پیدا کریں گے جو حکومت کے آلۂ کار اور نمائندہ وترجمان ہوں گے اور یہ مدرسے حکومت کی داد و دہش اور کھانے کمانے کا ایک وسیلہ بن کر رہ جائیں گے؛ چنانچہ جن صوبوں میں سرکای بورڈ قائم ہیں، ان سے الحاق کے بعد، مدارس اپنی اہمیت وافادیت کھوچکے ہیں، نظامِ تعلیم مختل ہوچکا ہے، تربیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے۔
اس موقع پر بانی دارالعلوم دیوبند، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے بنیادی اصول ہشت گانہ کو اپنی اساس قرار دینے والے مدارس اسلامیہ کافرض ہے کہ وہ پوری قوت سے اس قسم کے کسی بھی بورڈ کی بھر پور مخالفت کریں، جن سے قیام مدارس کا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے، مدارس کی روح مجروح ہو اور دین متین کے ان روحانی قلعوں کی بنیادیں کھوکھلی ہوجائیں اور بالفرض اگر بورڈ قائم بھی ہوجائے تو رابطۂ مدارس اسلامیہ سے مربوط اور دارالعلوم دیوبند کو ا پنا فکری مرکز سمجھنے والے مدارس کے ذمہ داران کسی بھی مالی منفعت کے لالچ اور خوش نما مستقبل کے فریب میں مبتلا ہوے بغیر، مکمل عزیمت کے ساتھ بورڈ سے اپنے مدارس کو دور رکھیں۔ صوبائی بورڈوں سے منسلک ہونے والے مدارسِ دینیہ جس بری طرح متاثر ہوے ہیں اور ان کا تعلیمی وتربیتی نظام جس قدر مختل ہوا ہے، وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
كارواں كے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
دانشورانِ قوم وملت ! ماضی قریب میں تعلیمی نظام سے متعلق ایک نیا قانون ’’رائٹ ٹو ایجوکیشن‘‘ (R.T.E) ’’حق تعلیم ایکٹ ‘‘ کے نام سے سامنے آیا ہے یہ قانون یکم اپریل ۲۰۱۰ء میں نافذ ہوچکا ہے، جس کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ ۶ سے ۱۴ سال (اور اب ۳سے ۱۸ سال)تک کا کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے، اس قانون میں نصاب تعلیم، طریقۂ تعلیم اور تعلیم گاہوں کے سلسلہ میں جو قیدیں لگائی گئی ہیں، ان کی سب سے زیادہ زد، دینی مدارس ومکاتب پر پڑتی ہے، اس قانون کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں۔
٭۶؍تا ۱۴ (جسے اب ۳ تا ۱۸ کر دیا گیا ہے ) سا ل کی عمر کے ہر بچہ کو یہ حق ہوگا کہ وہ پڑوس کے اسکول میں بنیادی تعلیم درجہ ۱ تا ۸ (اور اب۱۲) مفت پائے۔
٭پرائیوٹ اسکول جس میں حکومت سے کوئی امدادنہیں ملتی، ان پر بھی یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ کم از کم ۲۵فی صد محروم اور کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے، پڑوس کے بچوں کو اسکول میں داخلہ دیں۔
٭ اس قانون کے نفاذ کے بعد کوئی بھی اسکول خواہ امدادی ہو یا غیر امدادی، سرکاری اسکولوں کے علاوہ قائم نہیں کیا جا سکے گا جب تک کہ متعلقہ اتھارٹی سے تسلیم نہ کرالیا جائے، اور جو اسکول پہلے سے چل رہے ہیں ان کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو تین سال کے اندر منظور کروالیں، ورنہ ایک لاکھ روپئے تک جرمانہ اور خلاف ورزی کرنے کی صورت میں یومیہ دس ہزار روپے کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ اس سے کوئی بھی اقلیتی پرائیوٹ اسکول مستثنیٰ نہیں۔
٭ سرکاری اسکولوں کے سوا تمام اسکولوں کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اس قانون کے تحت مذکورہ معیار کے مطابق اپنے آپ کو تین سال کے اندر منظور کروالیں ورنہ انہیں بند کردیا جائے گا۔
٭سرکار اور انتظامیہ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ ۳؍ تا ۱۸؍ سال کے بچوں کو باقاعدہ کل وقتی اسکول میں بنیادی تعلیم کے لیے داخل کرائیں اور ان کی حاضری کو یقینی بنائیں۔
٭ کوئی بھی طالب علم بارہویں کلاس سے پہلے کسی امتحان میں فیل نہیں کیا جاسکتا۔
یہ R.T.E’’حق تعلیم ایکٹ‘‘ کے بنیادی نکات ہیں۔ اگر یہ قانون اسی طرح نافذ العمل رہتا ہے تو مدرسے کی تعلیم کی گنجائش کہاں باقی رہ پائے گی، اگر والدین نے کسی بچہ کو مدرسے میں داخل کر بھی دیا اور مدرسہ کے اساتذہ نے دینی تعلیم دی تو وہ مجرم قرار پائیں گے۔ موجود شکل میں یہ قانون آئین ہند کی دفعہ ۲۹اور ۳۰؍ سے متصادم بھی ہے، جن میں اقلیتوں کو اپنی پسند کے ادارے قائم کرنے، چلانے اور مذہبی تعلیم دینے کی آزادی دی گئی ہے، جس کا تعلق بنیادی شہری حقوق سے ہے، اس قانون کی رو سے مدارس ومکاتب میں بھی ۱۸؍ سال کی عمر تک وہی نصاب تعلیم پڑھانا ضروری ہوگا جو حکومت کا منظور شدہ ہوگا، پھر ناظرہ، تحفیظ القرآن، اور دینیات کی تعلیم کیوں کردی جا سکے گی۔
موجودہ شکل میں یہ قانون مدارس مخالف بھی ہے، اقلیت مخالف بھی اور مذہب مخالف بھی۔ لہذا اس قانون سے مکاتب، دینی مدارس اور اسلامی تعلیمی اداروں اور اسکولوں کو مستثنیٰ کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ ملک کی مؤقر ملی تنظیموں، مدارس اسلامیہ اورمسلم قائدین نے اس قانون کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور مرکزی حکومت کی جانب سے متعدد بار اعلان بھی کیا گیا ہے؛ لیکن ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں استثناء کابل منظور کیا جائے، اور اس بات کو یقینی بنایا جا ئے کہ آئندہ اسلامی مدارس ومکاتب کے نصاب ونظام سے کسی طرح کا تعرض نہ کیا جائے گا۔
رابطۂ مدارس اسلامیہ کے اس اجتماع عام میں ہمیں اپنے اس عزم کا بھی اظہار کرنا ہے کہ ہم ایسے کسی قانون کے آگے سرِ تسلیم خم نہیں کریں گے، جس سے ہمارے بنیادی حقوق متأثر و پامال ہوتے ہوں، اور دینی تعلیم کے سلسلہ میں حاصل دستوری آزادی سلب ہوتی ہو۔
گرامىِ مرتبت علمائے کرام! ایسا ہی ایک مسئلہ ’’لازمی ٹیکس کوڈ‘‘ کا ہے، حکومت انکم ٹیکس کے موجودہ قانون کی جگہ نیا قانون لارہی ہے۔ یکم اپریل سے اس کے نفاذ کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے، یہ مسودۂ قانون ’’ڈائریکٹ ٹیکسیز کوڈ‘‘ بھی مذہبی اور رفاہی اداروں کے لیے بے حد تشویش ناک اور ناقابل قبول ہے، اگر یہ موجودہ شکل میں پارلیمنٹ سے منظور ہوگیا تو عبادت گاہیں، مذہبی تعلیمی ادارے اور ہر طرز کے رفاہی ادارے اس کی زد میں آسکتے ہیں، اس مسودۂ قانون میں اگرچہ Non Profit Organization ’’غیر نفع بخش تعلیمی اداروں‘‘ کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے؛ لیکن مسودۂ قانون کی دفعہ (۱۶۹) میںغیر نفع بخش تعلیمی ادارے کی تعریف کی گئی ہے کہ :
(۱) جوکسی ایک ذات یا ایک مذہب کے ماننے والوں کے لیے نہ بنایا گیا ۔
(۲) جو کسی خاص ذات یا خاص مذہب کے ماننے والوں کو خصوصی سہولت نہ دے۔
(۳) جسے عام پبلک کے فائدے کے لیے بنایا گیا ہو یا درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، پس ماندہ طبقات، عورتوں اور بچوں کوفائدہ پہنچانے لیے بنایا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس تعریف کی رو سے تمام عربی مدارس، تحفیظ القرآن کے ادارے اور مکاتب دینیہ غیر نفع بخش اداروں کے دائرے سے نکل جائیں گے اور ان کو نفع بخش ادارہ قرار دے کر بھاری بھرکم ٹیکس کی تلوار ان پرلٹکادی جائے گی؛ بلکہ مسجدوں، عیدگاہوں، قبرستانوں وغیرہ پر بھی انکم ٹیکس عائد کرنے کی پوری گنجائش موجود ہے، قانون کی زد میں مندر، چرچ اور گردوارے بھی آئیں گے؛ لیکن ماضی کا تجربہ شاہد ہے کہ:
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
یہ مسودۂ قانون بھی ہمارے بنیادی دستوری حقوق سے متصادم ہے، ہمیں پوری قوت کے ساتھ اس کی مزاحمت کرنی ہے، ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ اس مسودۂ قانون پر نظرِ ثانی کی جائے اور مساجد، مدارس، مکاتب اور مذہبی اداروں کو ماضی کی طرح آئندہ بھی ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا جائے۔
حریمِ ختم نبوت كے پاسبانو! اجلاس کے زیر بحث موضوعات میں چوتھا اہم موضوع ’’تحفظ ِختم نبوت اورتحفظِ سنت میں مدارسِ اسلامیہ کا کردار ‘‘ ہے۔ اس سلسلہ میں بھی ہمیں بڑی دل سوزی کے ساتھ غور وفکر کرنا ہے، اور اجتماعی لائحہ عمل طے کرنا ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت ایمان کا جزؤ، دین کی اساس اور تا قیامت امتِ مسلمہ کی شیرازہ بندی واتحاد کے لیے اصل بنیاد ہے، قادیانیت مذہب اسلام کے متوازی ایک الگ مذہب ا ور دین محمدی کے خلاف کھلی بغاوت ہے، یہ اس صدی کا سب سے عظیم فتنہ ہے۔ اس فتنہ کی زہرناکی کو محسوس کرتے ہوے روزِ اول ہی سے علماء دیوبند اس کی سرکوبی کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے آرہے ہیں، ہمارے اکابرؒ کے دلوں میں اس فتنے کے استیصال کی کتنی تڑپ تھی اس کا کچھ اندازہ امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے اس ارشاد گرامی سے ہو سکتا ہے، فرماتے ہیں:
’’تاریخ اسلام کا جس قدر میں نے مطالعہ کیا ہے، اسلام میں چودہ سوسال کے اندر جس قدر فتنے پیدا ہوے ہیں، قادیانی فتنہ سے بڑا خطرناک اور سنگین فتنہ کوئی پیدا نہیں ہوا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی خوشی اس شخص سے ہوگی، جو اس کے استیصال کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دوسرے اعمال کی نسبت اس عمل سے زیادہ خوش ہوں گے، جو کوئی اس فتنے کی سرکوبی کے لیے اپنے کو لگادے گا، اس کی جنت کا میں ضامن ہوں‘‘ (بحوالہ قادیانیت ہماری نظر میں ص۹۵)
قادیانیوں نے لندن کو اپنا مرکز بناکر ساری دنیا میں ارتدادی سرگرمیاں جاری کر رکھی ہیں، ہندستان ان کا خاص نشانہ ہے، یہاں ان کے سیكڑوں مراکز سرگرمِ عمل ہیں اور ہر سال ہزاروں صحیح العقیدہ مسلمانوں کو اپنے دامِ تز ویر میں پھنساکر گم راہ ومرتد کرنے میں مصروف رہتے ہیں، ملک میں فرقہ پرست واسلام دشمن طاقتوں سے ان کے گہرے مراسم ہیں، ان کے بعض اہم لیڈر قادیان جاکر ان کے اجلاسوں میں شرکت کر چکے ہیں، قادیانی، عیسائی مشنریوں کے انداز پر کام کرتے ہیں اور سادہ لوح، نادار اور ناخواندہ مسلمانوں کو آسانی سے اپنے فریب میں مبتلا کر لیتے ہیں، ہریانہ، پنجاب، دہلی، راجستھان، گجرات، آندھرا پردیش، آسام، مغربی بنگال وغیرہ میں ان کی سرگرمیاں تیزی سے بڑھی ہیں، اسکولوںاور کالجوں کے طلبہ پر ان کی خاص نظر رہتی ہے اور آٹھویں کلاس سے ہی یہ ان پرمحنت شروع کردیتے ہیں اور وظائف وغیرہ کا لالچ دے کر اپنے پھندے میں پھنسا لیتے ہیں۔ الحمد للہ دارالعلوم دیوبند اور ملک کے بعض دیگر مدارس میں بھی ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ اور ’’رد قادیانیت‘‘ کے شعبے قائم ہیں، اور قادیانیت کے تعاقب وبیخ کنی کے سلسلہ میں کام بھی ہو رہا ہے، لیکن ضرورت ہے کہ منصوبہ بند ومنظم طریقہ پر پوری قوت وپامردی کے ساتھ اس فتنے کا تعاقب کیا جائے، قادیانیوں کی ارتدادی سرگرمیوں پر روک لگائی جائے، اور اس سلسلہ میں درج ذیل تدابیر اختیار کی جائیں:
(۱) حضرات اساتذہ، ذمہ داران مدارس اور مبلغین، نظام بناکر اپنے اطراف وجوانب کے قصبات اور مواضعات کی مساجد میں جاکر ختمِ نبوت کے بنیادی عقیدے کی اہمیت سے عام مسلمانوں کو روشناس کرائیں اور واضح طور پر بتائیں کہ ملت کے تمام مکاتب فکر قادیانیوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔
(۲) اربابِ مدارس اپنے کتب خانوں میں رد قادیانیت پر کتابیں مہیا کریں، اور ہر مدرسے میں کم از کم ایک استاذ رد قادیانیت کے لیے باقاعدہ تیاری کریں۔
(۳)عربی مدارس اپنے منتہی طلبہ کو رد قادیانیت کی تربیت دیں اور تقریر وتحریر کے ذریعہ اس کے تعاقب کے لیے انھیں تیار کریں۔
(۴) ائمہ مساجد اپنے خطبات میں عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت بیان کریں اور قادیانیوں کے کفر وارتداد کو واضح کریں۔
(۵) جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت سے واقف کرانے کے لیے خصوصی اجتماعات کا انعقاد کیا جائے۔
(۶) رد قادیانیت پر اساتذہ کرام کو تیار کرنے کے لیے مختلف مقامات پر ’’ختم نبوت ورد قادیانیت تربیتی کیمپ‘‘ لگائے جائیں۔
(۷) قادیانیت سے متاثرہ علاقوں کا جائزہ لیا جائے اور علاقے کو ارتدادی سرگرمیوں سے پاک کرنے کے لیے منظم جد وجہد کی جائے، اور اس سلسلہ میں مرکزی مجلس تحفظِ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند سے بھی رابطہ رکھا جائے۔
(۸) جن دورافتادہ علاقوں میں دینی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے، وہاں مکاتب قائم کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے اور معلّمین کا انتظام کیا جائے۔
حامیانِ سنت! مسلک اہل سنت والجماعت کی پابندی، فکری انحرافات اور عقائد باطلہ سے مسلمانوں کی حفاظت اور گم راہ فرقوں كی بیخ كَنی اور باطل تحریكات كا قلع قمع مدارسِ اسلامیہ کے بنیادی مقاصدمیں شامل ہے۔ ؎
اسی دریا سے اٹھتی ہے، وہ موجِ تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ وبالا
پچھلے چند سالوں سے غیر مقلدین کی طرف سے مسلمانوں کے سواد اعظم پر جارحانہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے، یہ مجتہد فیہ مسائل میں تشدد وجارحیت کا طریقہ اختیار کیے ہوے ہیں، غیرمقلدین کا یہ فرقۂ شاذہ اپنے ماسویٰ سارے مسلمانوں کو مخالفِ سنت وشریعت قرار دیتا ہے، اتباعِ سنت کا جھوٹا دعوی کرتا ہے اور سلف وخلف کے درمیان معمول بہ حدیثوں کو بھی بلاوجہ رد کردیتا ہے، قرآن کریم کی آیات کی من مانی تفسیر کو ترجیح دیتا ہے، یہ فرقہ بس رفع یدین، آمین بالجہر وغیرہ مختلف فیہ حدیثوں پر عمل تک ہی اہل حدیث ہے۔ آداب وسنن اورا خلاق نبویؐ سے متعلق احادیث سے انھیں کوئی سروکار نہیں، یہ لوگ اجماعی مسائل کی بھی پروا نہیں کرتے، آثارِ صحابہؓ ان کے نزدیک قانون کی طاقت سے عاری اور بے نور اقوال ہیں۔ ائمہ مجتہدین اور اولیاء اللہ کی شان میں بے ادبی وگستاخی ان کا پسندیدہ مشغلہ سے، یہ اپنے علاوہ دیگر تمام طبقات کو بدعتی مشرک اور کافر قرار دیتے ہیں۔
یہ فرقہ ڈیڑھ سوسال سے مسلمانوں میں پیدا ہوا ہے، ماضی میں بھی ان حضرات کا طریقہ نا مناسب تھا؛ لیکن چند سال سے یہ لوگ بالکل ’’خوارج‘‘ کاطریقہ اختیار کیے ہوے ہیں، کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زیادہ راہِ عمل کی گنجائش ہے، ان میں صرف ایک رخ متعین کر کے دوسرا رخ اختیار کرنے والوں کے خلاف بدعت، زیغ وضلالت؛ بلکہ کفر وشرک تک کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ مسلکِ دیوبند ان کا خصوصی نشانہ ہے۔ جب کہ امت کے قابل اعتماد علماء وفقہاء نے اختلافی اور مجتہد فیہ مسائل میں اس طرزِ عمل کو غلط اور ضلال قراردیا ہے، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’یہ کسی کے لیے جائز نہ ہوگا کہ وہ بعض علماء کے اقوال کو ایسا شعار بنالے، کہ اسی کے اتباع کو واجب قرار دے اور سنت سے ثابت دوسرے پہلو سے لوگوں کو منع کرے؛ بلکہ وہ تمام صورتیں جو سنت سے ثابت ہیں ان سب کی گنجائش ہے، اور جو شخص ان صورتوں میں سے ایک کو واجب قرار دے اور دوسری صورت کی اجازت نہ دے تو وہ خطاکار اور گمراہ ہے اور جو ان میں سے ایک عمل کرنے والے سے محبت کرے اور دوسرے سے محض اسی بنیاد پر محبت نہ کرے تو وہ خطاکار گمراہ ہے‘‘۔
مزید فرماتے ہیں:
وہ’’ فرقہ بندی اور وہ اختلاف جو مسلمانوں کی اجتماعیت اور باہمی الفت کے برخلاف ہو، یہاں تک کہ اسی بنیاد پر بعض مسلمان، بعض دوسرے مسلمانوں سے بغض وعداوت یا اللہ کی رضا کے خلاف ان سے محبت اور دوستی کرنے لگیں اور معاملہ یہاں تک پہونچ جائے کہ بعض، بعض کو محض اسی بنیاد پر طعن، لعنت اور طنز وغیرہ سے یاد کریں اور معاملہ دست درازی اور باہمی قتال تک پہنچ جائے اور یہاں تک کہ بعض، بعض سے ترکِ تعلق اور بائیکاٹ کی صورت اختیار کر لیں اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا ترک کردیں، تو سب باتیں بڑی بُری باتیں ہیں، جن کو اللہ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے‘‘۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ جلد۲۳ صفحہ ۳۵۷)
علامہ ابن تیمیہؒ کے ان اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ اختلافی اور مجتہد فیہ مسائل میں راہِ اعتدال اختیار کرنا ہی عینِ شریعت ہے، اور ان مسائل میں ایک ہی صورت کو معین کر کے تشدد اور جارحیت اختیار کرنا اور دوسرے فریق کو موردِ الزام قرار دے کر ان پر طعن وتشنیع کرنا ضلال اور حرام ہے۔
اس لیے ہمارا فریضہ ہے کہ خارجیت کے انداز پر کام کرنے والی اس جماعت کی پیداکردہ غلط فہمیوں سے آگاہ رہیں، عام مسلمانوں کو بھی ان سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں اور اس فتنے کی سرکوبی اور تعاقب کے لیے مؤثر تدابیر اور اجتماعی لائحہ عمل طے کریں۔ اس بارے میں درج ذیل امور کا اہتمام کیا جانا چاہیے:
(۱) ہماری موجودہ نسل کو اباحیت پسندی اور خارجیتِ جدیدہ کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا، ان فرقے کے لوگوں سے اختلاط کم سے کم ہو؛ تاکہ عام مسلمان اپنے اکابر واسلاف کے مسلک اور عقیدہ پر سختی کے ساتھ قائم رہیں اورکسی طرح کے تذبذب کا شکار نہ ہوں۔
(۲) اس بات پر خصوصی توجہ دی جائے کہ ہمارے بچے اور بچیاں اس فرقے کے قائم کردہ مدارس اور اسکولوں میں داخل نہ ہوں، جو بچے اور بچیاں غیر مقلدین کے اسکولوں اور مدرسوں میں داخل ہوتے ہیں،غیر مقلدین ان کو صحیح مسلک وعقیدہ اور اسلام کی صحیح تعلیمات سے دور کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔
(۳) مدارس میں اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے کہ طلبۂ عزیز کو فقہی مسائل واحکام سے متعلق منتخب آیات قرآنی اوراحادیث شریفہ، زبانی یاد کرائی جائیں؛ تاکہ کتاب و سنت سے ماخوذ مسلکِ حق کے دلائل طلبہ کو مستحضر رہیں۔
(۴) غیر مقلدین کی جارحانہ روش پر نظر رکھی جائے اور ان کے تعاقب اور تردید کے لیے فضلاء مدارس کو تربیت دی جائے۔ اس کے لیے بڑے مدارس اور تنظیموں کی زیر نگرانی مختلف صوبوں میں فضلاء، ائمۂ مدارس اور مبلغین حضرات کی تربیت وٹریننگ کے کیمپ لگائے جائیں۔
حضرات علمائے اعلامِ! اجلاس کے دعوت نامے میں جن موضوعات کی صراحت ہے، بندہ نے ان کے سلسلہ میں اپنی معروضات پیش کیں، آپ حضرات کو ان امور پر بصیرت حاصل ہے، بندہ آپ سبھی حضرات کا ممنون وشکرگذار ہے کہ آپ نے پوری توجہ اوردل جمعی کے ساتھ یہ گذارشات سماعت فرمائیں۔ آپ حضرات كی خدمت میں مخدوم گرامی حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قدس سرہ سابق مہتمم دارالعلوم وصدر رابطہ مدارس ِاسلامیہ عربیہ كے خطبات ِ صدارت كا وقیع مجموعہ مركزی دفتر رابطہ كی جانب سے پیش كیا گیا ہے، جسے رابطۂ مدارسِ اسلامیہ كے ناظم عمومی جناب مولانا شوكت علی صاحب قاسمی بستوی استاذ دارالعلوم دیوبند نے ترتیب دیا ہے، ان خطبات میں تعلیمی وملی مسائل پر گراں قدر مشورے اور مفید ترین تجاویز پائی جاتی ہیں، وہ ہم تمام خُدّام مدارس كے لیے سرمایۂ بصیرت ہیں۔ ضرورت ہے كہ ہم ان تجاویز اور مشوروں پر اپنی توجہ مركوز ركھیں اور ان كے مطابق مدارسِ اسلامیہ كے نظامِ تعلیم وتربیت كو استوار ركھیں۔
اخیر میں بندہ اجلاس میں تشریف لانے والے مدارسِ اسلامیہ کے ذمہ داران اور مندوبینِ کرام کی خدمت میں ایک بار پھر حذباتِ تشکر پیش کرتا ہے۔ ہمیں اس کا شدت سے احساس ہے کہ ہم آپ کی شایانِ شان استقبال اورضیافت کا فرض بھی ادا نہ کر سکے، اس سلسلہ میں خدام وکارکنان دارالعلوم کی طرف سے جو تقصیرات ہوئی ہوں، بندہ ان کے لیے معذرت خواہ ہے، اور دست بہ دعا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ آپ حضرات کی تشریف آوری کو قبول فرمائے، ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق بخشے، اوررشدو ہدایت کے روشن میناروں، اسلامی تعلیم وتربیت کے مراکز اور احیاء اسلام ودفاعِ حق کی چھاؤنیوں یعنی مدارسِ اسلامیہ کے بقاء وتحفظ اور تعمیر وترقی کے سلسلہ میں جدوجہد جاری ركھنے اور مخلصانہ کردار ادا کرنے کی سعادت سے بہرہ ور فرمائے، آمین یا ربَّ العالمین۔
***
—————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 5 ، جلد: 96 ، جمادی الثانیہ 1433 ہجری مطابق مئی 2012ء