امام حرمِ مکی، فضیلةُ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشُّرَیم حَفِظَہٗ اللہ ُکی دارالعلوم دیوبند میں تشریف آوری

۱۰/ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ مطابق ۴/مارچ ۲۰۱۲ء بہ روز یک شنبہ

ترجمانی: مولوی محمد مستقیم مظفرنگری‏، متعلّم تخصص فی الادب العربی، دارالعلوم دیوبند

                موٴرخہ ۱۰/ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ مطابق ۴/مارچ ۲۰۱۲ء بروز اتوار امام وخطیب مسجدِ حرام فضیلة الشیح سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ نے اپنے رفقاء: شیخ عبدالرحمن بن ابراہیم الشریم، شیخ عبدالکریم بن محمدآل عبدالکریم، شیخ احمد بن علی رومی مشیر سفارت خانہ سعودی عرب برائے ہند وغیرہ کی معیت میں دارالعلوم دیوبند کا تاریخی دورہ کیا۔ حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی زیدمجدہ استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند کی پرخلوص دعوت پر امام کعبہ کی تشریف آوری دارالعلوم اور دیوبند سب کے لیے فرحت وشادمانی کا باعث تھی، فرزندانِ اسلام کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ واضح ہو کہ اس سے قبل مسجد حرام کے ائمہٴ کرام: شیخ محمد بن عبداللہ السبیل – رحمہ اللہ – شیخ عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس – حفظہ اللہ – بھی دارالعلوم دیوبند تشریف لاچکے ہیں۔

امامِ محترم کا سوانحی خاکہ

                آپ کا اسم گرامی سعود بن ابراہیم الشریم ہے، آپ حرمِ مکی کے امام وخطیب، مسجدِ حرام کے مدرس، جامعہ ام القریٰ میں کلیة الشریعة کے پرنسپل، مکة المکرمہ کی اعلیٰ عدالتِ شرعیہ کے سابق قاضی اور قرآنِ کریم کے شاندار اور بہترین قاری ہیں، آپ کا شُہرہ سارے جہاں میں ہے اور آپ کی پرلطف، شیریں اور مسحور کن آواز میں تلاوت کی کیسٹیں مشرق ومغرب میں سنی جاتی ہیں۔

                آپ کی زندگی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہے، آپ کا احساس لطیف، ذوق سلیم اور فکر مستقیم ہے اور زبان وبیان کی حلاوت وچاشنی مسحور کن ہے۔ آپ کی ذاتِ گرامی حسنِ معاملہ، خیر کے لیے سعی، رضائے الٰہی کے کاموں میں سبقت اور دیگر اوصاف کمال سے متصف ہے۔ آپ ایک پختہ کار اعلیٰ تعلیم یافتہ عالم دین ہیں، اپنے علم وفن سے افادہ اور دوسروں کے علوم ومعارف سے استفادہ آپ کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ نسبتاً آپ مسجد حرام کے کم عمر امام ہیں؛ تاہم آپ امتیازی شان اور عظیم شخصیت کے حامل ہیں۔

                آپ کی پیدائش ۱۳۸۶ھ کو ریاض میں ہوئی، پرائمری تعلیم وہیں مدرستہ العرین میں، مڈل نموذَجیہ میں اور سیکنڈری تعلیم مدرسہ ثانویہ یرموک میں پائی، جب کہ اعلی تعلیم جامعةُ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے کلیة أصول الدین میں حاصل کی، یہیں سے ۱۴۰۹ھ میں فارغ ہوئے، اس کے بعد اعلی تعلیم ”المعہد العالی للقضاء“ میں حاصل کی اور ۱۴۱۳ھ میں وہاں سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

                بالمشافہ متعدد علماء ومشائخ سے اکتسابِ فیض کیا، مندرجہ ذیل حضرات خصوصیت سے قابل ذکر ہیں: شیخ عبدالعزیز بن باز، شیخ عبداللہ الجبرین، شیخ عبداللہ بن عقیل، شیخ عبد الرحمن البراک، شیخ عبدالعزیز الراجحی، شیخ فہد الحمین، شیخ عبداللہ الغدیان اور شیخ صالح الفوزان۔

                ۱۴۱۲ھ میں خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز کے فرمان کے مطابق آپ مسجد حرام کے امام وخطیب مقرر ہوئے، ۱۴۱۳ھ میں شاہی فرمان کے ذریعہ اعلیٰ شرعی عدالت میں بحیثیت ”قاضی“ آپ کا تقرر عمل میں آ یا، ۱۴۱۴ھ میں مسجدِ حرام میں تدریس کی عظیم ذمہ داری آپ کے سپرد ہوئی، پھر ۱۴۱۸ھ میں درخواست دے کر عہدئہ قضا سے مستعفی ہوگئے اور لیکچرار کی حیثیت سے جامعہ ام القریٰ تشریف لے گئے، اس کے بعد ترقی کرتے ہوئے کلیة الشریعة کے نگراں بنے، پھر ۱۴۲۵ھ میں کلیة الشریعہ میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔

                آپ کی لائبریری میں متعدد کتابیں زیر طبع موجود ہیں، جن میں بعض تصانیف ہیں اور کچھ تحقیقات، ان میں سے چند ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:

                کیفیةُ ثبوتِ النسب، کراماتُ الأولیاء، المَھْدي المنتظرُ عندَ أھلِ السنة والجماعةِ، المنھاجُ لِلْمُعْتَمِرِ والحاجّ، وَمِیْضٌ مِنَ الحَرَمِ، خالص الجمان تھذیبُ مناسکِ الحج من أضْواءِ البیانِ، أصولُ الفقہ: سوالٌ وجوابٌ، التحفةُ المکِّیَّة شرح حائیة ابنِ أبي داوٴدَ العقدیہ اور حاشیہ علی لامیہ ابن أبی القیم․

                مذکورہ بالا اوصاف کے علاوہ آپ شعری ذوق بھی رکھتے ہیں، آپ کے تخلیق کردہ کئی ایک قصیدے ہیں، جو آپ نے خاص طور سے علماء کی وفات پر تعزیتی موقعوں پر پڑھے ہیں۔

                موٴرخہ ۱۰/ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ مطابق ۴/مارچ ۲۰۱۲ء میں حضرت امام حرم کی دارالعلوم میں تشریف آوری طے ہوگئی تھی؛ اس لیے انتظامیہ مستعد اور فعال نظر آئی، انتظامیہ نے سخت انتظامات کیے، ذمہ داران، اساتذہ، ملازمین اور طلبہ کی رضاکار ٹیمیں تشکیل دے کر ذمہ داریاں سپرد کی گئیں، سب کے سب مستعدی کے ساتھ اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر لگ گئے اور متعلقہ ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیا۔

                دارالعلوم کی تاریخی جامع رشید کی اگلی چار صفوں کو لوہے کے پائپوں کے ذریعہ حصار میں لے لیاگیا؛ تاکہ نمازیوں کی بھیڑ آگے نہ بڑھ سکے، اس مرتبہ مسجد رشید کی اوپری منزل پر بھی بیری کیٹنگ لگائی گئی، نیز چار صفوں کے احاطے میں محراب کے سامنے ایک بڑا سا کیبن بنایا گیا جس میں امام محترم اپنے ہم سفر معزز مہمانوں کے ساتھ تشریف فرما ہوئے اور سکون ووقار کے ساتھ حاضرین کے سامنے کرسی پر جلوہ افروز ہوئے، مسجد کے مصلے کے لحاظ سے اطراف میں بھی سفید نشانات بناکر صف بندی کی گئی اور لاوڈاسپیکر کا معقول انتظام کیاگیا، سڑکوں اور راستوں کو صاف ستھرا بنایاگیا، راستوں، دیواروں اور دروازوں پر جگہ جگہ استقبالیہ بینر آویزاں کیے گئے، اس کے علاوہ نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ہیلی پیڈ پر جانے، اسٹیج پر بیٹھنے اور مہمان خانے میں داخلے کے لیے پاس جاری کیے گئے۔

                یاد رہے کہ گذشتہ سال مہمان خانے کے سامنے والے راستوں پر امڈتے ہوئے سیلاب کی شکل میں لوگوں کے جم غفیر کے سبب امام حرم شیخ سُدیس مہمان خانے میں ظہرانہ تناول نہ کرسکے تھے، جس کی بنا پر ذمہ داران کو سخت افسوس ہوا تھا، اس مرتبہ سابقہ تجربے کی روشنی میں حفاظتی نقطئہ نظر سے پولیس انتظامیہ سے بھی خاصی مدد لی گئی، مہمان خانے کی جانب آنے والے سبھی راستوں کو بانس بلیوں کے ذریعہ حصار میں لے لیاگیا اور پولیس اہلکار متعین کردیے گئے؛ تاکہ نظام میں کسی بھی طرح کا خلل واقع نہ ہو، بتایاگیا کہ امام حرم کی حفاظت کے لیے چار سو کے قریب سپاہی اور اسی داروغہ تعینات کیے گئے۔

                دارالعلوم دیوبند میں امام محترم کی آمد کی خبر، اخبارات کے ذریعہ عام ہوچکی تھی؛ اس لیے علاقے کے مسلمانوں میں خوشی کی لہریں دوڑ گئیں اور ملک کے دور دراز علاقوں سے بڑی تعداد میں فرزندان توحید امام حرم کی اقتدا میں نماز پڑھنے، آپ کا وقیع خطاب سننے اور آپ کے پرنور چہرے کی زیارت کے لیے کشاں کشاں چلے آئے۔

                اپنے طے شدہ پروگرام سے تقریباً ایک گھنٹے کی دیری سے امام حرم ہیلی کاپٹر کے ذریعہ جامعہ طبیہ کے سامنے بنے ہیلی پیڈ پر ایک بجے پہنچے، جہاں ان کی سیکورٹی کے لیے اعلیٰ افسران اپنے عملے کے ساتھ پہلے سے موجود تھے، ہیلی پیڈ پر سخت سیکورٹی دستے کی تعیناتی کے باوجود جیسے ہی امام حرم اپنے رفقا کے ساتھ طیارے سے نیچے اترے تو کھیتوں اور گرد ونواح میں کھڑے لوگ ایک جھلک پانے اور مصافحہ ودیدار کے لیے بیتاب نظر آئے جس کے لیے معمولی طور پر پولیس نے ڈنڈے کے اشارے سے انھیں روک دیا۔ امام محترم کے پہنچتے ہی ہیلی پیڈ پر تقریباً ایک گھنٹے سے امام صاحب کے انتظار میں موجود، دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی، نائب مہتمم حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی، اساتذہٴ کرام میں: مولانا شوکت علی صاحب قاسمی بستوی، مولانا مفتی محمد ساجد صاحب قاسمی، مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری، مولانا منیرالدین احمد صاحب، ڈاکٹر اختر سعید اورحاجی انس عثمانی وغیرہ نے معزز مہمان اور ان کے رفقاء کا والہانہ استقبال کیا، پروانہ وار امام محترم کے گرد جمع ہوکر سلام ومصافحہ کرنے لگے، محبت وقدردانی کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے، ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔

                بعد ازاں حسب پروگرام امام حرم کو سخت انتظامات کے تحت بذریعہ کار محراب کی سمت والے دروازے سے مسجد رشید میں لایاگیا، جہاں اسٹیج پر موجود ادارے کے بڑے اساتذہ، طلبہ اور حاضرین مسجد نے مہمان مکرم کا پرتپاک استقبال کیا اور مسجد کی نورانی فضا میں اہلاً وسہلاً مرحباً کی صدائیں گونجنے لگیں۔

                تقریباً سوابجے استقبالیہ جلسے کا آغاز ہوا جس کی نظامت دارالعلوم کے استاذ گرامی مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری نے کی، جلسے کا آغاز قاری آفتاب عالم صاحب امروہوی استاذ تجوید وقراء ت دارالعلوم دیوبند، کی تلاوت سے ہوا پھر جامعہ کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی نے خطبہٴ استقبالیہ پیش کیا، انھوں نے اس موقع پر ادارے کی پوری برادری کی جانب سے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور اس کے ساتھ دارالعلوم کی تاریخ اور اس کی علمی خدمات کا مختصر تعارف بھی کرایا۔ اس کے بعد ناظم جلسہ نے حضرت امام محترم کو دعوت دی کہ وہ حاضرین کو اپنے وقیع خطاب سے مستفیض فرمائیں، امام حرم نے اپنے بصیرت افروز خطاب اور زریں کلمات سے نوازا، جس میں آ پ نے دارالعلوم کے حوالہ سے اپنے خیالات وتأثرات کا اظہار کیا، آپ نے فرمایا:

                ”مجھے یہ جان کر حد درجہ مسرت وشادمانی ہوئی کہ اس دورے کے پروگرام میں ہمارے (دارالعلوم دیوبند) کے احباب سے بھی ملاقات شامل ہے جن کی (دینی وعلمی خدمات) کے بارے میں بہت کچھ سنا کرتے تھے، جب کبھی ہند، مسلمانان ہند اور ہندوستان میں علم دوست احباب کی علمی خدمات کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس عظیم ادارے دارالعلوم دیوبند کا تذکرہ لازماً ہوتا ہے۔

                حقیقت یہ ہے کہ مجھے کوئی ایسا شخص یاد نہیں جس نے ہندوستان اور یہاں کی اسلامی خدمات کا تذکرہ کیا ہو اور اس کی گفتگو میں دارالعلوم کا ذکر نہ آیا ہو۔ اگر ہند اور مسلمانان ہند کے کارناموں کا تذکرہ کسی محفل میں کیا جائے اور اس محفل میں اِس ادارے کی ملک وبیرون ملک کے لیے عظیم خدمات کا تذکرہ نہ ہو تو یہ دارالعلوم کی حق تلفی ہوگی اور اسے نظر انداز کرنے کا یہ رویہ ناقابل قبول ہوگا۔

                یہ ایک معروف ومشہور ادارہ ہے، ہر زمانے میں اس کی خاص شہرت رہی ہے، ہندوستان کے باشندے ہوں یا دیگر ممالک کے رہنے والے سب کے لیے یہ ایک جانا پہچانا ادارہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے اس دینی درس گاہ میں آ پ حضرات سے ملاقات کا موقع فراہم کیا اور اُس کے فضل سے اِس عظیم ادارے کی زیارت کا شرف حاصل ہوا جس کا ذکر خیر بارہا سنا کرتے تھے۔“

                امامِ محترم کے خطاب کے بعد حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی زیدمجدہ نے حاضرین کے سامنے اردو زبان میں اس کا خلاصہ پیش کیا۔

                مہمان مکرم سے درخواست کی گئی کہ قرآن کریم کی چند آیات تلاوت فرماکر سامعین کو محظوظ فرمائیں؛ لیکن صحت کی ناخوش گواری اور طویل سفر کی تھکان کے باعث آپ نے معذرت کردی۔ وقت تنگ تھا، تقریب ختم ہوا چاہتی تھی، پروگرام کو مختصر کرتے ہوئے ناظمِ جلسہ نے امام محترم کی مدح میں قصیدہ خوانی کے لیے محمد اشفاق متعلّم دارالعلوم اور ان کے ساتھیوں کو اسٹیج پر بلایا، جس کو حضرت مولانا مفتی محمد ساجد صاحب قاسمی نے مرتب فرمایا تھا۔ قصیدہ سن کر سامعین خوشی سے جھوم اٹھے، کانوں کو لذت محسوس ہوئی اور امام صاحب نے کھڑے ہوکر تینوں طلبہ سے مصافحہ کرتے ہوئے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ بس اسی پر پروگرام اختتام پذیر ہوا، نماز ظہر کی ادئیگی کے لیے اذان واقامت ہوئی اور حضرت امام صاحب نے مسافر ہونے کی بنا پر دورکعت نماز پڑھائی اور مقیم حضرات نے اپنی بقیہ دورکعت بلاقرأت پوری کرلی۔

                نماز سے فارغ ہوکر مہمان مکرم نے اپنے رفقاء سمیت دعوت ظہرانہ میں شرکت کی، کاروں کے ذریعہ پرسکون اور خوش گوار ماحول میں مہمان خانہ پہنچے، جہاں پہلے سے موجود ادارے کے ذمہ داران اور اساتذہ نے مہمان موصوف کا پرتپاک استقبال کیا ، پھر دسترخوان پر حاضر ہوکر لطف لیتے ہوئے ظہرانہ تناول فرمایا، بعد ازیں رجسٹر معاینہ میں دارالعلوم سے متعلق اپنے مندرجہ ذیل تأثرات ثبت کیے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                الحمد للہ والصلاة والسلام علی رسول اللہ وبعد۔

                موٴرخہ ۱۰/ربیع الثانی ۱۴۳۳ھ بہ روز اتوار کو حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کی دعوت پر داارلعلوم/ دیوبند میں حاضری کا موقع ملا، ہمارے استقبال کے لیے دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا (مفتی) ابوالقاسم صاحب نعمانی موجود تھے، اچھی مہمان نوازی اور اعزاز او اکرام کو دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی، نیز اس ادارے کی تاریخ اورہندو بیرون ہند اس کے ذریعہ انجام دی جانے والی خدمات وکارناموں کو سن کر مستفید ہونے کا موقع ملا۔ بس اللہ ان حضرات کو ان کی محنت وکوشش کا بہتربدل عطا کرے اور ان کے ذریعہ ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمانوں کو نفع پہنچائے۔ خداوند کریم سے دعا ہے کہ وہ سب کو خیر کی توفیق بخشے، بیشک وہی دعا کو سننے اور قبول کرنے والا ہے۔

کتبہ:

أ․ د سعود بن ابراہیم الشریم

امام وخطیب مسجد حرام

۱۰/۴/۱۴۳۳ھ، مطابق ۴/۳/۲۰۱۲/

                تین بج کر ۲۰ منٹ پر آپ مہمان خانے سے روانہ ہوئے ادارے کے ذمہ داران اور بڑے اساتذہ نے جذباتِ غم کے ساتھ آپ کو رخصت کیا۔ حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی صاحب کے علاوہ دیگر حضرات ہیلی پیڈ تک ساتھ گئے؛ جب کہ حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی صاحب آپ کے ہمراہ دہلی تک گئے۔ شام پونے چار بجے ہیلی کاپٹر آپ کو لے کر پرواز کرگیا۔ حضرت امام حرم کا یہ تاریخی دورہ کامیاب تھا، ملک کے طول وعرض سے لاکھوں کی تعداد میں فرزندان اسلام آئے اور امام حرم کی اقتدا میں نماز ظہر ادا کرنے کے بعد خوشی خوشی واپس ہوئے، اس مرتبہ یوم جمعہ نہ ہونے کی بنا پر یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ شاید بھیڑ کچھ کم ہو؛ لیکن مجمع انداز سے کہیں زیادہ تھا۔

                قابل ذکر ہے کہ اہل دیوبند نے بھی دور دراز سے آنے والے مہمانانِ کرام کی خدمت گزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، محلہ بڑضیاء الحق میں واقع عالیشان مسجد، قاضی مسجد اور دیگر متعدد مقامات پر مہمانوں کی ضیافت کے لیے باضابطہ کھانے پینے کا مفت نظم کیا گیا۔ پورے نظام میں کسی طرح کی کمی نہ آنے اور سبھی لوگوں کا بھرپور تعاون ملنے کی وجہ سے دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی زیدمجدہ نے سب کا شکریہ ادا کیا۔

***

—————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3-4 ‏، جلد: 96 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ‏، اپریل 2012ء

Related Posts