از: مولانا فضل الرحمن اصلاحی قاسمی
شمائلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر گفتگو سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی دو جہتیں ہیں، جو ہمیں دعوت وفکر ونظر فراہم کرتی ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بنیادی امتیازات کیا ہیں؟ اوران میں کتنی وسعت وہمہ گیری ہے، دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ظاہری وباطنی خط وخال کیاتھے؟ اور ان میں اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات میں کتنی ہم آہنگی اور توازن تھا؟ ان میں سے پہلی چیز کو تعلیماتِ نبوی سے موسوم کیا جاتا ہے اور دوسری کو سیرت نبوی اور شمائل نبوی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
شمائل کی لغوی واصطلاحی تعریف:
شمائل جمع ہے ”الشِّمال“ کی جیساکہ ”لسان العرب“ میں مذکور ہے، الشمال: الخُلُق، والجمع ”الشمائل“۔
شمائل جمع ”الشمال“ معنی: طبیعت، عادت، سیرت، جیساکہ بولتے ہیں ”لیس مِنْ شِمالی أنْ أعْمَلَ بِشِمَالي“ (المنجد اردو مکتبہ مصطفائیہ، دیوبند)
جمع الوسائل موٴلفہ ”ملا علی قاری“ میں شمائل کی وضاحت ان الفاظ میں مذکور ہے:
سُمِّيَ الکتابُ بِالشَمائِل بالیاء جمع شِمالٍ بالکسر بمعنی الطبیعةِ، لا جمعُ شمأل․
اصطلاح میں ”شمائل“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق واحوال اور عادات کو کہتے ہیں اور بالفاظ دیگر ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم“ کے اخلاق وعادات، فضائل وشیم اور شب وروز کے معمولات کی تفصیلات کا نام ہے۔(۱)
مطالعہٴ سیرت —- مقصد واہمیت:
تاریخ شاہد ہے کہ ہرزمانے میں مسلمانوں نے اپنے ہادیٴ اعظم اوراپنے پیغمبرِ خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے سلسلے میں جو اعتناء کیا ہے، اس کی نظیر نہیں مل سکتی اور یقینا یہ سعادت اورامتیاز صرف اس امت کو حاصل ہے اور بقول علامہ شبلی نعمانی:
”مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہوسکتا کہ انھوں نے اپنے پیغمبر کے حالات اور واقعات کا ایک ایک حرف اس استقصا کے ساتھ محفوظ رکھا کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلم بند نہیں ہوسکے اور نہ آئندہ توقع کی جاسکتی ہے۔“(۲)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نگاری کا مقصد یہ نہیں ہے کہ محض تاریخی حیثیت سے لوگ اسے پڑھیں اور جانیں؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داستانِ حیات ”رستم وسہراب“ کا قصہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی خیالی کردار ہے اور اسی طرح اس کا مقام یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم اسے علم وادب کی تفریحی چوپال کا موضوع بنائیں؛ بلکہ اس کا عظیم مقصد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن اور اوصافِ حمیدہ واخلاقِ فاصلہ کا مطالعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ورضا حاصل کرنے کے لیے کیاجائے، جیساکہ قرآن کا واضح پیغام ہے: ”انْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ“ ۔ (آل عمران:۳۱)
اسی کے پیش نظر آپ کی حیاتِ مبارکہ پر ان گنت کتابیں لکھی گئیں اور لکھی جاتی رہیں گی؛ تاکہ دنیا کے سامنے فضائلِ اخلاق کا ایک آئیڈیل رہے، جیساکہ علامہ شبلی رقم طراز ہیں:
”سب سے زیادہ صحیح، سب سے زیادہ کامل، سب سے زیادہ علمی طریقہ یہ ہے کہ نہ زبان سے کچھ کہا جائے، نہ تحریری نقوش پیش کیے جائیں، نہ جبر وزور سے کام کیا جائے؛ بلکہ فضائلِ اخلاق کا ایک پیکرِ مجسم سامنے آجائے جو خود ہمہ تن آئینہٴ عمل ہو، جس کی ہر جنبشِ لب ہزاروں تصنیفات کا کام دے اور جس کا ایک ایک اشارہ اوامر سلطانی بن جائے، دنیا میں آج اخلاق کا جو سرمایہ ہے سب ان ہی نفوسِ قدسیہ کا پرتو ہے، دیگر اور اسباب صرف ایوانِ تمدن کے نقش ونگار ہیں۔“(۳)
اب مطالعہٴ سیرت کے جو اہم اور خاص مقاصد ہیں، انھیں نکات کی صورت میں پیش کیاجاتا ہے؛ تاکہ اس کی افادیت پوری طرح عیاں ہوجائے۔
۱- انَّ الدَّارِسَ لِسِیْرَةِ الرَّسولِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقِفُ عَلی التَّطْبِیْقِ العَلَمِيِّ لِلرَّسولِ صلی اللہ علیہ وسلم وَأصْحَابِہ لأحکامِ الاسْلاَمِ التي تَضَمَّنَتْھا الآیاتُ القرآنیةُ والأحادیثُ النبویةُ الشریفةُ في مَجالاتِ الحیاةِ المُخْتَلِفَةِ․
۲- انَّ الاقتداءَ بِرَسُوْلِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقْتَضِيْ مَعْرِفَةَ شَمَائِلہ وَأجْوَالہ وَدَلاَئِلِ نُبوتہ وخَصَائِصِہ صلی اللہ علیہ وسلم في المَجالاتِ المُختَلِفةِ، مَنْ عَرَفَ شَمَائِلَہ وأحوالَہ المذکورةَ وَأحَبَّہ واقْتَدیٰ بہ․․․․
۳- انَّ الاقْتِدَاءَ بِرَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَأتباعِہ دَلِیْلٌ عَلٰی مَحَبَّةِ الْعَبْدِ ربَّہ، وَسَیَنَالُ الْعَبْدُ مَحَبَّةَ اللہِ لَہ․․․
۴- أنَّ خَصَائِصَ النَّبِي صلی اللہ علیہ وسلم لاَ تَعْرَفُ الاَّ فِي ضَوْءِ مَعْرِفَةِ سِیْرَتہ․
۵- یَجِدُ الْمَرْءُ فِيْ سِیْرَةِ الرَّسُولِ مَا یُعِیْنُہ عَلٰی فَھْمِ کتابِ اللہِ تعالٰی وسُنَّةِ رَسُوْلِہ صلی اللہ علیہ وسلم․(۴)
مندرجہ بالا اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ مطالعہٴ سیرت کا مقصد یہ ہے کہ آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ کی عملی صورت ہمارے سامنے آسکے؛کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا و اتباع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال وحالات کی معرفت کی غماز ہوتی ہے اور سب سے بڑا فائدہ اس کا یہ ہے کہ قرآن وسنت کا اصلی فہم نصیب ہوتا ہے۔
امتِ مسلمہ کا یہ وصفِ ممتاز ہے کہ اس نے اپنے قائدِ اعظم اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ لگاؤ وانسیت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کے حالات محفوظ کرلی ہے۔ مثلاً ہر موقع کے افعال واقوال، رفتار و گفتار، عادات واطوار، معاملات ومجاہدات اور ملبوسات وغیرہ۔
اسی اسوہٴ حسنہ کی آئینہ دار شمائلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے شمائل کی دو حیثیتیں ہیں، ایک خَلقی اور دوسرے خُلقی۔
خلقی سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر کے اندر کون کون سے اوصافِ جمیلہ ودیعت کیے گئے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کی بناوٹ اور ساخت کس انداز کی تھی؟ اور خُلقی سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟ گھر کے لوگوں کے ساتھ ”خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلہ وَأنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِيْ“ کی عملی صورت کیا تھی اورنیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے شبانہ روز کے معمولات کیا تھے؟(۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہرپہلو اورہر گوشے کو محفوظ کرنے کی کیا حکمت کار فرما تھی؟ اسے مندرجہ ذیل اقتباس سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال، وضع وقطع، شکل وشباہت، رفتار وگفتار، مذاقِ طبیعت، اندازِ گفتگو، طرزِزندگی، طریقِ معاشرت، اکل وشرب، نشست وبرخاست اور سونے جاگنے کی ایک ایک ادا محفوظ کرلی گئی، اور اس سے قدرتی طور پر یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ دیگر مذاہب کے اصول وتعلیمات وقتی تھے۔ ابدی نہ تھے۔“(۶) قرآن کریم نے اس ابدیت اور حکمت کویوں اعلان کیا : ”وَمَا أرْسَلْنَاکَ الاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِیْن“ (الانبیاء:۱۰۷)
عصرِ حاضر میں اسوہٴ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت ومعنویت:
عصرِ حاضر میں اس کی اہمیت ومعنویت دو چندہوگئی ہے۔ جہاں پر اسلام دشمن طاقتیں اسلام کو مٹانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر خر دہ گیری کررہی ہیں، غرض یہ کہ شرارِ بولہبی چراغِ مصطفوی کو خاکستر کردینا چاہتی ہے؛ لیکن اس شرارے میں انشاء اللہ وہ خود بھسم ہوجائے گی ع
خاک ہوجاتے ہیں سورج کو بجھانے والے
ایسے پرفتن حالات میں دنیا کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو جدید اسلوب میں اعلیٰ ماخذکی روشنی میں شائع کرنا وقت کی اہم ضرورت اور آواز ہے اور ایسا کرنا عصرِ حاضر میں ناگزیر بھی ہے؛ تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہوسکے کہ نبیِ برحق اور اخلاق کے پیکر کا اصلی چہرہ یہ ہے،نہ کہ جو اسلام دشمن مصنّفین اور میڈیا دنیا کے سامنے پیش کررہا ہے، اس کی تازہ مثال ۱۱/۹ کی برسی پر ۹/ستمبر ۱۰ء کو ”پیری جونس“ کی شرارت کے جواب میں بعض اسلامی تنظیم کی جانب سے وہاں پر ایک پروگرام منعقد ہوا، جس میں اعلیٰ پیمانے پر قرآن تقسیم کیاگیا اور دو ہفتے کے مختصر وقفے میں ۱۵۰ سے زائد لوگ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ اور یہ ”وَعَسیٰ أنْ تَکْرَھُو شَیْئاً وَھُوَ خَیْرٌ لَکُمْ وَعسیٰ أنْ تُحِبُّوا شَیْئاً وَھُو شَرٌ لَکُمْ“۔ (البقرہ:۲۱۶) کی بہترین مثال ہے یعنی ہر شر میں خیر کا پہلو یہ سنتِ الٰہی ہے، ذرا سا صبر اور ہوش مندی سے کام لینے پر اس کے خوش گوار اور دور رس نتائج سامنے آتے ہیں۔ کسی کے حاشیہٴ خیال میں نہیں تھا کہ اس موقع پر ”جونس“ کی بیٹی کا یہ ریمارک سامنے آئے گا۔ ”میرا باپ پاگل ہوگیا ہے“ (راشٹریہ سہارا اردو ۱۷/ستمبر۱۰ء) اس موقع پر مشہور سیرت نگار مولانا نعیم صدیقی کا یہ اقتباس لائق تحسین ہے:
”حق یہ ہے کہ اصل مجرم ہم خود ہیں اورہم ہی محسنِ انسانیت کی شخصیت، پیغام اور کارنامے کو دنیا سے بھی اوجھل رکھنے والے ہیں اور اپنی نگاہوں سے بھی چھپانے والے ہیں۔ آج محسنِ انسانیت کی ہستی کا ازسر نو تعارف کرانے کی ضرورت ہے اوریہ خدمت شاید جوہری توانائی کے انکشاف سے بڑی خدمت ہوگی۔“(۷)
قرآن کریم نے آفتاب کو سراج سے تعبیر کیا ہے، اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کو سراج کہا ہے جس کی ہدایت ورحمت کی روشنی سے تمام کرہٴ ارض کی ظلمتیں کافور ہوگئیں؛ کیونکہ یہ سند رب العالمین کی بارگاہ سے آپ کو ملی ہے۔
انَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاھِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیْرًا․ وَدَاعِیاً الی اللہِ بِاذْنِہ وَسِرَاجاً مُنِیْرًا․ (الاحزاب:۴۵-۴۶)
اے پیغمبراسلام ہم نے تم کو دنیاکے آگے حق کی گواہی دینے والا، سعادتِ انسانیت کی خوش خبری پھلانے والا، اللہ کی طرف اس کے حکم سے اس کے بندوں کو بلانے والا اور دنیا کی تاریکیوں کے لیے ایک چراغِ نورانی بناکر بھیجا ہے۔(۸)
دنیا میں جس قدر بادشاہ ہوئے ہیں، اگر ان کے کارناموں کا جائزہ لیاجائے تو اس کا ماحصل یہی ہوگا کہ جو جس قدر بڑا بادشاہ تھا اتنا ہی زیادہ انسانوں کو غلام بنانے والا تھا اور اتنا ہی وہ انسانوں کی بربادی ونحوست کا باعث بنا۔ مثلاً سکندر دنیائے قدیم کا سب سے بڑا فاتح (Victor) تھا اور اس کے خمیر میں یہ شامل تھا کہ وہ تمام دنیا سے اپنے تخت کی پوجا کرائے گا اور اگر آج دنیا اسے یاد کرے تویہ یاد کن واقعات کی یاد تازہ کریں گے۔ بقول مولانا ابوالکلام آزاد ”یہ دنیا کی ویرانیوں، ہلاکتوں اور غلامیوں کی لعنتوں کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہوگا۔ جو اسے ہاتھ آئے گا“ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کی حیاتِ مقدس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مصر کی ایک جابروظالم گورنمنٹ کے پنجہٴ استبداد سے بنی اسرائیل کو نجات دلائی․․․․ حضرت مسیح نے کہا کہ میں صرف تورات کو قائم کرنے آیا ہوں، خود کوئی نئی دعوت نہیں لایا ہوں․․․ اور گوتم بدھ کی تمام تعالیم ووصایا کا ماحصل یہ بتلایا جاتا ہے کہ ”نجات دنیا کے ساتھ رہ کر حاصل نہیں ہوسکتی۔“(۹)
اسی طرح سے قرآن کریم نے اگر کسی نبی یا رسول کے اسوہ کو کامل اسوہ قرار دیا ہے تو وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے۔ ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ“ (الاحزاب:۲۱)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے نمونہ ہے اورتمام شعبہٴ زندگی میں آپ کا نمونہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جیساکہ آپ کی کاملیت کی تصویر کشی علامہ سیدسلیمان ندوی نے اس طرح کی ہے:
”کوئی زندگی خواہ کسی قدر تاریخی ہو، جب تک وہ کامل نہ ہو ہمارے لیے نمونہ نہیں بن سکتی، کسی زندگی کا کامل اور ہر نقص سے بَری ہونا اس وقت تک ثابت نہیں ہوسکتا جب تک اس کی زندگی کے تمام اجزاء ہمارے سامنے نہ ہوں۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہرلمحہ پیدائش سے لے کر وفات تک ان کے زمانے کے لوگوں کے سامنے اور ان کی وفات کے بعد تاریخ عالم کے سامنے ہے، ان کی زندگی کا کوئی مختصر سے مختصر زمانہ بھی ایسا نہیں گزرا جب وہ اپنے اہلِ وطن کی آنکھوں سے اوجھل ہوکر آئندہ کی تیاری میں مصروف ہوں۔“(۱۰)
تنگ آجائے گی خود اپنی چلن سے دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ ترے انداز کبھی
(کیفی مرحوم)
شمائل ترمذی کا ایک طالب علمانہ جائزہ:
اہل علم کے نزدیک گوترمذی کا درجہ صحیحین کے بعد ہے؛ لیکن اس کی بعض خصوصیات کی بنا پر اس کا افادہ صحاح کی تمام کتابوں سے بڑھ کر ہے، چنانچہ شیخ الاسلام اسماعیل ہروی رقم طراز ہیں کہ:
”ترمذی“، بخاری اور مسلم سے زیادہ فائدہ بخش ہے، ان دونوں کتابوں سے صرف صاحب کمال اور صاحب نظر فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور ترمذی میں احادیث کی ضروری شرح بھی کردی ہے۔ اس لیے محدثین اور فقہاء وغیرہ ہر طبقہ کے لوگ مستفید ہوسکتے ہیں۔(۱۱)
امام ترمذی نے شمائل ترمذی کے لیے وہی اعتنا کیاہے جو انھوں نے سنن ترمذی کے لیے کیاہے، ہمارے پیشِ نظر اس کا ایک علمی جائزہ مقصود ہے؛ اس لیے قدرے تفصیل سے بات آگے بڑھے گی؛ تاکہ پوری بحث کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
یہ کتاب مختصر ضرور ہے؛ لیکن اپنی جامعیت کے اعتبار سے بے نظیرہے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا پورا مرقع، سامنے آگیا ہے؛ چنانچہ صاحب ”مواہب لدنیہ“ جو شمائل ترمذی کے محشی ہیں لکھتے ہیں کہ امام ترمذی کی ”جامع“ تمام حدیثی اور فقہی فوائد اور سلف وخلف کے مذاہب کی جامع ہے، مجتہد کے لیے کافی ہے اور مقلد کو دوسری کتابوں سے بے نیاز کرنے والی ہے اورجس گھر میں یہ جامع ہوتو گویا اس گھر میں نبی بات کررہا ہے ، ”قَالَ المصنِّفُ مَنْ کانَ فِي بَیتہ ھَذا الکتابُ یَعنِي جامِعَہ فَکأَنَّما فِي بیتہ نبیٌ یَتَکَلُّمُ“(۱۲)
شمائل ترمذی کے بعداس موضوع پر اور بھی کتابیں لکھی گئی ہیں؛ لیکن ان میں اولیت کا سہرا امام ترمذی کے سر جاتا ہے، کہ انھوں نے سب سے پہلے اس موضوع پر کتاب لکھی، کشف الظنون میں شمائل ترمذی کے علاوہ دو اور ”کتابوں کا نام ملتا ہے، ایک ابوالعباس جعفر بن محمد المستغفری المتوفی ۴۳۲ھ کی ”شمائل النبی“ ہے اور دوسری ابوالحسن علی بن محمد بن ابراہیم فزاری المعروف بہ ابن المقری غرناطی المتوفی ۵۵۲ہجری کی ”شمائل بالنور الساطع الکامل“ ہے۔(۱۳)
اسی طرح سے اور محدثین اور علمائے عظام کی کتابیں اس موضوع پر ملتی ہے مثلاً :
(۱) دلائل النبوة ومعرفة احوال الشریعہ – ابوبکر البیہقی (المتوفی ۴۵۸ھ)۔
(۲) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ – قاضی عیاض (المتوفی ۵۴۴ھ)، یہ کتاب شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تعلیق کے ساتھ دمشق سے شائع ہوئی ہے اور دوجلدوں پر مشتمل ہے، الانوار فی شمائل النبی المختار – حسین بن مسعود البغوی (المتوفی ۵۱۶ھ)۔
(۳) احوال النبی صلی اللہ علیہ وسلم – د․مہران ماہر عثمان نوری۔
(۵) اخلاق النبی صلی اللہ علیہ وسلم وآدابہ – ابن حبان الاصفہانی (المتوفی ۳۶۹ھ)، یہ کتاب عبداللہ محمد الصدیق العمادی کی تحقیق کے ساتھ ۱۹۵۹ء میں قاہرہ سے شائع ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد کتابیں اس مسئلہ پر لکھی گئی ہیں، ”مشتے نمونہ از خروارے“ کے طور پر ان ہی چند پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
امام ترمذی کی شمائل کو جو قبولیت حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امام ترمذی نے شمائل کے اس مجموعہ میں ان تمام روایتوں کو جانچ پرکھ کر قلم بند کیا ہے اور ساری روایتوں کو معتبر اور صحیح سندوں کے ساتھ جمع کیا ہے اور یہ اپنی گوناگوں افادیت کے پیشِ نظر آج مدارس اسلامیہ کے نصاب میں شامل ہے اور بہت سے علماء و محدثین نے اس کی شرحیں لکھی ہیں، چند مشہور شرحیں یہ ہیں:
۱- اشرف الوسائل فی شرح الشمائل: حافظ ابن حجر مکی (م۹۷۳ھ)
۲- شرح شمائل: مصلح الدین محمد بن صلاح بن جلال اللاری ۹۷۹ھ
۳- زہرالحمائل علی الشمائل: حافظ جلال الدین السیوطی
۴- جمع الوسائل: نورالدین علی بن سلطان محمد القاری المعروف بہ ملا علی قاری (م۱۰۱۶ھ)
۵- شرح شمائل: مولانا عصام الدین اسفرائنی (م۹۴۳ھ)
اس کا قلمی نسخہ مصر اور خدابخش لائبریری پٹنہ میں موجود ہے۔
۶- مختصر الشمائل: الشیخ ناصرالدین البانی۔(۱۴)
اسی طرح اردو میں بھی اس کی کئی مشہور شرحیں متداول ہیں، جیسے(۱) انوارمحمدی ترجمہ شمائل ترمذی مترجمہ مولانا کرامت علی جون پوری، پہلی بار یہ شرح ۱۲۵۲ھ میں بہ زبان ہندی یعنی قدیم اردو جواس زمانے میں رائج تھی محمدی چھاپہ خانہ کلکتہ سے شائع ہوئی تھی۔ اور یہ کتاب ایک طرح سے کمیاب تھی اوراس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانا دقت طلب تھا، اس لیے مولانا مجیب اللہ ندوی نے تصحیح اور نظرثانی کے بعداگست ۱۹۹۶ء ندوة التالیف والترجمہ جامعة الرشاد، اعظم گڈھ سے جدید ایڈیشن شائع کیا۔
(۲) خصائص نبوی ترجمہ شمائل ترمذی شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نے اس کا ترجمہ وتشریح بڑے دل نشیں انداز میں پیش کیا ہے اور ساتھ ہی اکابر کے افادات کو جمع کردیا ہے اور یہ شرح ۱۳۴۴ھ میں شائع ہوئی۔
(۳) شرح شمائل ترمذی یہ مولانا عبدالقیوم حقانی کی سلیس اردو زبان میں ہے اور نیز لغوی اور تحقیقی افادات پر مشتمل جامع شرح ہے، ”القاسم اکیڈمی“ جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ، سرحد پاکستان سے ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی ہے۔
(۴) تلخیص شمائل الترمذی ڈاکٹر ابرار اعظمی نے عام لوگوں کے لیے اسناد کو حذف کردیا ہے اور مولانا کرامت علی کے لفظی ترجمہ کو بنیاد بناکر سلیس اردو زبان میں پیش کیاہے، ”نونہال اکیڈمی“ خالص پور اعظم گڈھ سے ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی ہے۔
اس مفصل گفتگو کے بعداب شمائل میں آنے والی روایات میں سے چند روایتوں کو پیش کیاجاتا ہے اور ان کا مقابلہ صحیحین اور موطا امام مالک کی روایتوں سے کیاجاتا ہے، تاکہ اوپر جو دعویٰ کیا گیا ہے کہ امام ترمذی نے روایتوں کو جانچ پرکھ کر اس مجموعے کو تیار کیاہے، اس کو بدلائل ثابت کیاجائے؛ تاکہ شمائل ترمذی کی اہمیت ومقام کا صحیح اندازہ ہوسکے۔
امام ترمذی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدوخال کے سلسلہ میں ”باب ما جاء فی خُلقِ رسولِ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم“ کے ضمن میں مختلف اکابر صحابہ کی روایات درج کی ہیں، ان روایتوں میں پہلی روایت انس بن مالک سے مروی ہے اور بعینہ اسی روایت کو امام مالک نے اپنی موطا میں درج کیاہے؛ لیکن امام موصوف نے موطا کے ”کتاب الجامع“ میں ایک باب ”ماجاء فی صِفَةِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے تحت اس روایت کو نقل فرمایا ہے، وہ حدیث یہ ہے: ”حَدَّثَنِي عَنْ مالکِ بْنِ عَنْ ربیعةَ بِن أبِي عبدِ الرحمٰنِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أنَّہ سَمِعَہ یَقُوْلُ کَانَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْسَ بِالطَّوِیْلِ البَائِنِ وَلاَ بِالْقَصِیْرِ وَلاَ بِالأبیضِ الأمْھَقِ وَلاَ بِالأدمِ وَلاَ بِالْجعْدِ القَطَطِ وَلاَ بِالسِبْطِ بَعَثَہ اللّٰہُ تعالٰی عَلٰی رأسِ أربعینَ سنةً فَأقَامَ بِمَکةَ عَشَرَ سِنِیْنَ وَبِالمَدِیْنَةِ عَشَرَ سِنِیْنَ فَتَوفَّاہُ اللّٰہُ تعالٰی علی رأسِ سِتّیْنَ سَنَةً وَلَیْسَ فِيْ رَأسِہ وَلِحْیَتِہ عِشْرُوْنَ شَعْرَةً بَیْضَاءَ صلی اللہ علیہ وسلم“ (۱۵)
اسی طرح سے امام ترمذی نے ”باب ما جاءَ فی شَعْرِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم“ کے تحت چند احادیث درج کی ہیں، ان میں سے دو حدیث امام مسلم نے ”باب الفضائل“ کے ضمن میں باب صفة شعر النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان کے تحت جمع کیا ہے، وہ روایات درج ذیل ہیں:
۱- حَدَّثَنَا یَحییٰ وأبو کُریبٍ قَالَا حَدَّثَنا اسْمَاعِیلُ ابنُ علیة عن حُمید عن انسٍ قال کان شَعْرُ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی أنْصَافِ أذُنَیْہِ․(۱۶)
امام ترمذی نے جو روایت درج کی ہے اس کے الفاظ میں معمولی سا فرق ہے، مثلاً اسی روایت کو اس طرح درج کیاہے: ”․․․․ عَنْ أنسٍ أنَّ شَعرَ رَسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان الی أَنصافِ أذُنَیْہ“(۱۷)
۲- حدَّثنا قتادةُ لِأنسِ بْنِ مالکٍ کیفَ کان شَعرُ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال کان شَعراً رجلاً لیس بالجَعْدِ ولا السَبْطِ بَینَ اُذنیہ وعاتِقِہ․(۱۸)
اسی روایت کو امام ترمذی نے تھوڑے سے فرق کے ساتھ جمع کیا ہے مثلاً ”عَنْ قتادةَ قال قلتُ لِأنَسٍ کیفَ کان شَعْرُ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لَمْ یکنْ بِالجَعْدِ ولاَ بِالسبطِ کان یَبْلُغُ شعرُہ شَحمةَ أذنَیْہ․ (۱۹)
امام ترمذی نے ”باب ماجاء فی وفاة رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم“ کے تحت کئی روایتیں حضرت عائشہ ام المومنین کے حوالے سے درج کی ہیں۔ یہاں پر دو روایتیں بخاری شریف سے اس سلسلے میں نقل کی جاتی ہیں جو کہ حضرت عائشہ ہی سے مروی ہیں:
۱- ”حدثنا ابن ھشامِ بنِ عُروةَ عن عُبادةَ بنِ عبدِاللہِ بنِ الزُّبیرِ أنَّ عائشة أخبرَتْہُ اَنَّھا سَمِعَتِ النبيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَصْغَتْ الیہِ قَبْلَ أنْ یَمُوتَ وَھُوَ مُسنَد الی ظھرِہ یقول ”اللّٰھم اغْفِرلِي وَارْحَمْنِي وَاَلْحِقْنِي بالرفیق“۔(۲۰)
۲- حدَّثَنا عَنْ مُسلم حدَّثنا شعبةُ عن سَعْدٍ عن عُروةَ عن عائشةَ قالت لَمَّا مَرِضَ النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم المرضَ الذي ماتَ فیہ جَعَلَ یقولُ ”فی الرفیق الأعلی“(۲۱)
مندرجہ بالا دونوں روایتیں شمائل ترمذی میں ان الفاظ میں حضرت عائشہ ہی سے بھی مذکور ہیں؛ البتہ پہلی روایت کے الفاظ قدرِ مختلف ہیں، مثلاً ”عن عائشةَ قالت کنتُ مسندةَ النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی صَدْرِي أوْ قَالَتَا الٰی حِجْرِي․․․“(۲۲)
عن القاسم بنِ محمدٍ عَنْ عائشہ أنھا قالت رأیتُ رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو بالموتِ․․․ ثم یقول اللّٰھمَّ أعني عَلیٰ منکرَّاتِ أو قال عَلی سَکَرَاتِ الموتِ․(۲۳)
ولیعلم الطالبُ أن السیر تَجْمَعُ ما صَحّ وما قد اُنْکِرا
(حافظ زین الدین عراقی)
یعنی طالب علم کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ سیرت صحیح اور غیر صحیح روایات کا مجموعہ ہوتی ہے، حافظ عراقی کے اس ریمارک سے صاف واضح ہے کہ مرورِ وقت کے ساتھ علماء میں یہ ایک عام خیال پیدا ہوگیا تھا کہ فضائل ومناقب میں روایتوں کے سلسلے میں تحقیق وتنقید کی چنداں ضرورت نہیں ہے؛ لیکن امام ترمذی نے انتہائی احتیاط وجرح وتعدیل کے بعد ایک ایسا مجموعہ تیار کیا ہے ”جس میں تمام روایتوں کے معتبر اور صحیح ہونے کا خصوصی التزام کیاگیا ہے“(۲۴) البتہ صحاح ستہ میں جن کتابوں میں شمائل سے بحث کی گئی ہے، ان کی مزید روایات کا باہمی موازنہ ومقابلہ کرکے ان کے مجموعہ کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔
امام ترمذی شمائل میں ۹۷ صحابہ اور صحابیات کی روایت نقل کی ہیں، ان روایتوں میں سب سے زیادہ تفصیل حضرت حسن اور حسین کی اس روایت میں، جو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب ہند ابی ہالہ سے کی ہے، اس کے بعدحضرت علی، حضرت انس اور حضرت عائشہ کی روایات مذکور ہیں، امام حسنین جب ہند ابی ہالہ سے روایت نقل کرتے تھے تو ہند بن ابی ہالہ کا تذکرہ ان الفاظ سے کرتے تھے ”کانَ وَصّافاً للنبی صلی اللہ علیہ وسلم“ یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ آپ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ کرنے والے۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ تھے۔(۲۵)
ترتیب ابواب کی معنویت:
شمائل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آب دار موتی اور اسوہٴ کاملہ کے لعل وگہر یوں تواحادیث وسیر کی دوسری کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں؛ لیکن ان بکھرے ہوئے لعل وگہر کو قرینے سے جس طرح امام ابوعیسیٰ ترمذی نے ایک لڑی میں پرویا ہے، یہ ان ہی کا حصہ ہے اور اس سلسلہ میں اولیت ان ہی کو حاصل ہے۔
شمائل ترمذی کے ابواب پر نظرغائرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی نے اس شمائل کے مجموعہ کو حد درجہ مہارت وقابلیت سے جمع کیاہے، ایک ہی نگاہ میں ایک کامل شخصیت کے جو بنیادی خدوخال ہوسکتے ہیں،سامنے آجاتے ہیں؛ چنانچہ پیدائش سے لے کر وفات تک کے احوال کو ایک گلدستہ کی شکل میں جمع کردیا ہے، مثلاً گلدستہ کی ہرکلی اورہر پھول کو وہیں پر رکھا ہے جہاں پر وہ مناسب تھا۔
بالفاظ دیگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے ہر گوشے کی تصویرکشی ایسی دل کش انداز میں کی ہے، جیسے شمائلِ نبوی ایک خوبصورت چمن ہو اور اس چمن میں ہر پھول وہیں پر قرینے سے سجائے گئے ہیں، جہاں پر وہ مناسب تھے۔ اور ایک مثال سے ترتیبِ ابواب کی ہم معنویت کو واضح کرنا چاہتے ہیں، شمائلِ محمدی ایک خوبصورت البم ہے اور اس البم میں مختلف تصویروں کو اس خوش سلیقگی سے اور نفاست سے سنوارا گیا کہ کہیں سے کوئی نقص دکھائی نہیں دیتا؛ بلکہ اس کا ایسا سما جاذبِ نظر ہے کہ کہنا پڑتا ہے ع
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
عام مسلمانوں پر شمائل کے اثرات وفوائد
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل ایک انسان ہی کی نہیں؛ بلکہ ایک انسان ساز کی داستان ہے، غارِ حراء سے لے کر غارِثور تک، حرمِ کعبہ سے لے کر طائف کے بازار تک، ازواجِ مطہرات کے حجروں سے لے کر میدانِ جنگ تک وسیع وعریض ہے اور بقول نعیم صدیقی ”اس کے نقوش بے شمار افراد کی کتابِ حیات کے اوراق کی زینت ہیں، ابوبکر وعمر، عثمان وعلی، عمار ویاسر، خالد وخویلد اور بلال وصہیب رضوان اللہ علیہم اجمعین، سب کے سب ایک ہی کتابِ سیرت کے اوراق ہیں۔(۲۶)
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ سے صحابہٴ کرام اور اولیائے عظام کے علاوہ عام لوگ بھی قیامت تک استفادہ کرتے رہیں گے اور پوری انسانیت نورِ محمدی سے فیض یاب ہوتی رہے گی اور اس سچائی کا اعتراف تاریخ ان لفظوں میں کرتی رہے گی اور بقول سیدسلیمان ”غرض دنیا کے اسٹیج پر ہزاروں قسم کی زندگیوں کے نمونے ہیں، جو بنی آدم کی عملی زندگی کے لیے سامنے ہیں؛ لیکن بتاؤ کہ ان مختلف اصنافِ انسانی میں سے کسی کی زندگی نوع ِانسانی کی سعادت، فلاح اور ہدایت کی ضامن اور کفیل اور اس کے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہیں؟۔(۲۷)
***
مراجع
(۱) سیرت نبوی کے قدیم واولین مآخذ اوران کا تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر تقی الدین ندوی، معارف دارالمصنّفین، ص۴۴، جون۸۱ء۔
(۲) علامہ شبلی نعمانی، سیرة النبی، ج۱،ص۲۴، مکتبہ مدنیہ لاہور ۱۴۰۸ھ۔
(۳) علامہ شبلی نعمانی، سیرة النبی، ج۱،ص۱۸، مکتبہ مدنیہ لاہور۱۴۰۸ھ۔
(۴) الدکتور مہدی رزقہ اللہ احمد ”السیرة النبویہ فی ضوء المصادر الأصلیہ، دارامام الدعوہ للنشر والتوزیع، الریاض ۱۴۲۴ھ۔
(۵) مولانا کرامت علی جون پوری،انوارمحمدی ترجمہ شمائل ترمذی، ص۹، ندوة التالیف والترجمہ، جامعة الرشاد اعظم گڈھ، جدید ایڈیشن، اگست ۱۹۹۶ء۔
(۶) معارف، ص۴۳، جون۸۱۔
(۷) محسنِ انسانیت، نعیم صدیقی، ص۷۱-۷۲، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، مارچ ۱۹۹۵ء۔
(۸) مقالاتِ ابوالکلام آزاد، ص۴۳، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی۔
(۹) ایضاً، خلاصہ ۳۴-۴۲۔
(۱۰) خطباتِ مدارس، ص۷، سید سلیمان ندوی، دارالمصنّفین اعظم گڈھ۔
(۱۱) مولانا ضیاء الدین اصلاحی، تذکرة المحدثین، ج۱،ص۳۲۶، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ۔
(۱۲) مواہب لدنیہ، ص۷، شیخ ابراہیم البیجوپوری، طبع ندارد۔
(۱۳) حاجی خلیفہ کشف الظنون، طبع ندارد، ج۲، ص۶۷۔
(۱۴) تذکرة المحدثین، ج۱،ص۳۴۱ و ۳۴۲۔
(۱۵) موطا امام مالک، کتاب الجامع باب ما جاء فی صفة النبی، حدیث نمبر ۳۴۰۳۔
(۱۶) الصحیح لمسلم کتاب الفضائل باب صفة شعر النبی، ص۶۲۱۵، المکتبہ الشاملہ، سعودی عربیہ۔
(۱۷) شمائل للترمذی، ص۴، باب ما جاء فی شعر رسول اللہ۔
(۱۸) الصحیح لمسلم، کتاب الفضائل باب صفة شعر النبی، حدیث نمبر ۶۲۱۳۔
(۱۹) شمائل للترمذی، ص۴، باب ما جاء فی شعر رسول اللہ۔
(۲۰) الصحیح للبخاری، حدیث ۴۴۴۰، الجزء السادس باب مرض النبی، المکتبة الشاملہ، سعودی عربیہ۔
(۲۱) ایضاً، حدیث ۴۴۳۶۔
(۲۲) شمائل للترمذی باب ما جاء فی وفات رسول اللہ، ص۲۸۔
(۲۳) ایضاً۔
(۲۴) معارف جون ۸۱ء، ص۴۴۲۔
(۲۵) شمائل للترمذی ، ص۲، باب ما جاء فی خلق رسول اللہ۔
(۲۶) نعیم صدیقی، محسنِ انسانیت، مرکزی مکتبہ اسلامی ۱۹۹۵ء۔
(۲۷) خطباتِ مدراس، ص۱۶، سید سلیمان ندوی، زکریا بک ڈپودیوبند ۱۹۹۶ء۔
***
—————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ، جلد: 95 ، محرم الحرام 1433 ہجری مطابق دسمبر 2011ء