از: میرزاہد مکھیالوی، خادم تعلیمات جامعہ فلاح دارین اسلامیہ، بلاسپور
سیدالانبیاء سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حیاتِ انسانی کے مختلف شعبوں مثلاً اٹھنے، بیٹھنے، سونے جاگنے، کھانے پینے اور دیگر معمولاتِ زندگی کے متعلق آداب واحکام کی تعلیم دی ہے اور اپنے قول وعمل سے امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ کام حلال ہے یہ حرام یہ ناجائز ہے یہ جائز ہے یہ کام اچھا ہے اوریہ برا ہے وغیرہ اسی طرح لباس اور کپڑے کے استعمال کے بارے میں بھی واضح ہدایات دی ہیں ہم یہاں لباس کی ایک خاص نوعیت ”اسبال ازار“ کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ مسلم معاشرہ میں خاص طور پر خواص کے طبقہ میں بھی اس سلسلہ کی کوتاہیاں فروغ پاتی جارہی ہیں اور افسوس مزید اس پر کہ اس کوتاہی پر خیال والتفات تک نہیں، اولاً اس مضمون کی چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
عن ابی ہریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما اسفل من الکعبین من الازار فی النار (بخاری،ص:۸۶۱، ج:۲، مشکوٰة، ص:۳۷۳)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا از قسم ازار یعنی پائجامہ وغیرہ کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ (بخاری) عن ابن عمر انّ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من جرّ ثوبہ خُیَلاء لم ینظر اللّٰہ الیہ یوم القیٰمة۔ (بخاری،ص:۸۶۰، ج:۲، مشکوٰة،ص:۳۷۳)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنا کپڑا استکبار اور فخر کے طور پر زیادہ نیچا کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر بھی نہ اٹھائے گا۔
عن ابی سعیدٍ الخدریّ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ازرة المومن الٰی انصافِ ساقیہ لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین ومَا اسفل من ذلک ففی النار قال ذلک ثلٰث مرّات ولا ینظر اللّٰہ یوم القیامة الٰی من جرّ ازارہ بطرا (ابوداؤد وابن ماجہ، مشکوٰة،ص:۳۷۴)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے کہ مومن بندہ کے لئے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ (یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ نصف ساق تک (یعنی پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں یعنی جائز ہے اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے (یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے) راوی کہتے ہیں کہ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی (اس کے بعد ارشاد فرمایا) اللہ اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھاکے بھی نہ دیکھے گا جو ازراہِ فخر وتکبر اپنی ازار گھسیٹ کر چلے گا۔ ان حدیثوں میں فخر وغرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو سخت وعید سنائی گئی کہ وہ قیامت کے اس دن میں جبکہ ہر بندہ اپنے رب کریم کی نگاہِ رحم وکرم کا سخت محتاج اور آرزومند ہوگا وہ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے۔ اللہ رب العزت اس دن ان کو بالکل ہی نظرانداز کردے گا اور ان کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھے گا۔ کیا ٹھکانہ ہے اس محرومی اور بدبختی کا۔ اللّٰہم احفظنا منہ۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لئے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہبند اور اسی طرح پائجامہ نصف ساق تک ہو اور ٹخنوں کے اوپر تک ہوتو یہ بھی جائز ہے لیکن اس سے نیچے جائز نہیں بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے۔ (معارف الحدیث،ص:۲۹۰،ج:۲)
اس وقت لباس کے متعلق اسلامی معاشرہ کی صورت حال زبوں تر ہے عوام الناس کے طبقہ میں دنیوی تعلیم وتہذیب سے متاثر طبقہ کا تو حال ہی عجیب وغریب ہوچکا ہے کہ ان کو لباس و پوشاک میں غیروں کے ساتھ ایسی مشابہت اور موانست پختہ ہوچکی ہے کہ مسلمان وغیرمسلمان کے مابین فرق وامتیاز مشکل بلکہ ناممکن معلوم ہوتا ہے اوراس مروجہ لباس شرٹ اور پینٹ کی وضع اورہیئت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس کو پہننے والے کو ٹخنوں کا مستور ہونا ایک لازمی امر ہے، اگرچہ بعض دین سے وابستہ حضرات نماز وغیرہ کے دوران اس میں احتیاط کرتے نظر آتے ہیں لیکن اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں اس طرف توجہ نہیں رہتی بلکہ اس کے گناہ ہونے کا ادراک بھی نہیں ہوتا اور وہ اپنے معمول کے کپڑوں (نصف ہاتھ کہنیوں تک شرٹ اور ٹخنوں پر لٹکی پینٹ) میں نماز پڑھ لیتے ہیں، بہرحال اس مسئلہ سے قطع نظر کہ ان لوگوں کی نماز کا کیا حکم ہے یا ان کا عمل کس درجہ کا ہے؟ ہمیں یہاں ایک دوسرے موضوع پر عرض کرنا ہے۔ وہ یہ کہ مدارس اسلامیہ کے فضلاء اور مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کو بھی عموماً اسبال ازار کے گناہ بے لذت میں دیکھاجاتا ہے، بلکہ بعض مدرسوں کے معلّمین اور اہل انتظام کا بھی اس میں ابتلا نظر آتا ہے کہ وہ نہ خود اس کمزوری اور کوتاہی پر متنبہ ہوتے اورنہ اپنے ماتحتوں اساتذہ اور طلبہ کی وضع قطع اور اصلاح و درستگی کی جانب دھیان دیتے اس طرح یہ سلسلہ متعدی ہوتا جارہا ہے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات وارشادات کسی خاص طبقہ کے لئے نہیں بلکہ ہر صاحب ایمان ان تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا براہِ راست مخاطب ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی معمول کو اپنے عمل میں لانا ہر مسلمان کی دینی محت کا عین تقاضا بھی ہے اور خوش نصیبی کا سامان بھی، اللہ رب العزت ہمیں توفیق عمل سے نوازے اور ہم لوگوں کے مردہ احساس کو بیدار فرمائے، مدارس اسلامیہ کو یقینا دینی مرکزیت اور معتبریت حاصل ہے اور ان کے ارباب حل وعقد اور مدرسین ومتعلّمین کو عام مسلمان بھی ایک نمونہ اور آئیڈیل کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لہٰذا ہم اہل مدارس کو دینی تمام امور میں بہت محتاط اورحساس رہنے کی ضرورت ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ آدمی کے اندر آدمیت، دینی رنگ ومزاج، شرعی اُمور میں پختگی ومضبوطی اور عظمتِ دین کسی صاحب دل بزرگ عالم دین سے وابستگی وتعلق اور ان کی مومنانہ نظر سے ہی پیدا ہوتی ہے۔
جیساکہ کہا گیا ہے۔
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
ابتدائی فارسی کے شعبہ میں راقم الحروف جب حضرت مفتی مہربان علی شاہ بڑوتی قدس سرہ کے مدرسہ ہرسولی میں داخل ہوا تو حضرت رحمة اللہ علیہ کی سب سے اوّل زیارت وملاقات تھی اس وقت سے عمر کے نہائی دور تک انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں حضرت رحمة اللہ علیہ کو پختگی اور تصلب کے ساتھ ہمیشہ متبع سنت پایا۔ وہ اپنے خوردوں اورماتحتوں کی صرف قولی طور پر نہیں بلکہ عملی طریقہ سے بھی اصلاح فرماتے، چنانچہ احقر نے ان کا پائجامہ کبھی اتفاقیہ بھی نصف ساق سے نیچے نہیں دیکھا، ایک دفعہ اصلاحی مجلس میں اسبال ازار کے متعلق گفتگو میں حضرت رحمة اللہ علیہ نے سنایا کہ ایک بار کسی صاحب کی موٹر سائیکل کے ذریعہ ”شاہپور“ سے ”ہرسولی“ کے لئے چلا، راستہ میں ”کاکڑہ“ جو خالصتاً غیرمسلموں کی بستی ہے وہاں ہماری موٹر سائیکل خراب ہوگئی وہ صاحب اس کو دیکھنے لگے میں راستہ کے کنارہ کھڑا ہوگیا ایک غیرمسلم بڑے میاں آہستہ سے میرے قریب آئے اور دبی آواز میں کہنے لگے کہ اجی اگر برا نہ مانو تو ایک بات معلوم کرلوں؟ یہ اپنا پاجامہ آپ نے اتنا اوپر کیوں چڑھایا ہوا ہے کیا بات ہے؟ وہ چونکہ غیرمسلم تھے انہیں کیا خبر شریعت وسنت کی، میں نے ان کی سمجھ کے حساب سے انہیں جواب دیا کہ زیادہ نیچے رکھنے سے کھڑے گندے ہوجاتے ہیں ان کپڑوں میں نماز بھی پڑھنا ہوتا ہے، یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی۔ اپنی یہ آپ بیتی سناکر حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا آدمی میں جب پختگی اور مضبوطی ہوتی ہے تو اس کے لئے کوئی چیز بھی رکاوٹ نہیں بنتی یہ اپنے اندر کا روگ ہوتا ہے کہ آدمی سمجھتا ہے کہ لوگ میرا لباس دیکھ کر کیا کہیں گے؟ کبھی میرا مذاق بنالیں، حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اپنے کسی بھی معاملہ میں سچا اور مخلص ہوتا ہے تو کوئی اسے کچھ نہیں کہتا بلکہ سنجیدہ لوگ اسے قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
حضرت بڑوتی رحمة اللہ علیہ کے ایک مسترشد ومرید کا واقعہ ہے ایک دفعہ وہ اہل بدعت کے ایک خطہ میں پہنچے مسجد کی منتظمہ کمیٹی نے ان کا رمضان میں قرآن کریم سنانا طے کردیا، ان مرید مولانا صاحب کو جب مصلیان مسجد نے دیکھا تو ان کا لباس خاص طور پرپائجامہ دیکھ کر قرآن کریم سنانے سے منع کردیا کہ ان کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوگی ان کے اونچے پائجامہ سے یہ دیوبندی معلوم ہوتے ہیں۔ غرض انھوں نے بریلویت کے ماحول میں اپنے لباس میں نہ کوئی تبدیلی کی نہ مرعوب ہوئے بلکہ اپنی وضع پر برقرار رہے، یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے ان کے وہاں کے قیام کو باعثِ اصلاح بنایا۔
بہرکیف مدارس کے بعض نو فارغ فضلاء میں یہ بھی ایک المیہ ہے کہ وہ درس نظامی سے فراغت کرکے خود کو ہر چیز سے فارغ سمجھ لیتے ہیں اپنے کسی مربی ومصلح سے نہ وابستگی ہوتی نہ اپنی اصلاح و تربیت کا کبھی خیال آتا اور بغیر کسی تدریب وتمرین و تدریسی سلسلہ یا دیگر شغل میں مصروف ہوجاتے ہیں جس کا ایک مضر پہلو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ دینی رنگ چونکہ پختہ نہیں ہوتا لہٰذا وہ ماحول کے مطابق اپنے کو ڈھال لیتے ہیں اور اس میں اس حد تک تجاوز ہوجاتا ہے کہ صرف ظاہری وضع قطع ڈاڑھی اور لباس ہی نہیں بدلتے بلکہ عقائد ونظریات اور سوچ وفکر تک ان فضلاء کی متاثر ومغلوب ہوتے دیکھا گیا ہے کہ جنھوں نے ایک مدت اپنے اساتذہ کی صحبت اور مدرسہ کی چہار دیواری میں گذاری ہے وہ اس فانی دنیا کی خاطر اپنے اکابر کا مسلک ومشرب تبدیل کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے اور بلا جھجک غیروں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کی اصلی وجہ تربیت نہ ہونا ہے۔
الحاصل ہماری ان معروضات کا مقصد یہی ہے کہ طلبہ کی ظاہری وضع قطع کو قطعاً نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ بطور خاص اہل مدارس کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ داخل شدہ طلبہ کی صرف بوقت داخلہ ہی نہیں بلکہ سال کے دوران بھی ماہ بماہ نگرانی کی جائے۔ اللّٰہم وفقنا لما تحب و ترضیٰ۔
٭٭٭
—————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ، جلد: 94 ، محرم الحرام 1432 ہجری مطابق دسمبر 2010ء