از: حبیب الرحمن اعظمی
کتاب وسنت یعنی قرآن وحدیث ہمارے دین ومذہب کی اولین اساس وبنیاد ہیں، پھر ان میں کتاب الٰہی اصل اصول ہے اور احادیث رسول اس کی تبیان و تفسیر ہیں۔ خدائے علیم وخبیر کا ارشاد ہے ”وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیّن لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ“ (الآیة) اور ہم نے اتارا آپ کی طرف قرآن؛ تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اسے خوب واضح کردیں۔
فرمان الٰہی سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا مقصد عظیم قرآن محکم کے معانی و مراد کا بیان اور وضاحت ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے اس فرض کو اپنے قول و فعل وغیرہ سے کس طور پر پورا فرمایا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اسے ایک مختصر مگر انتہائی بلیغ جملہ میں یوں بیان کیا ہے ”کان خلقہ القرآن“ یعنی آپ کی برگزیدہ ہستی مجسم قرآن تھی، لہٰذا اگر قرآن حجت ہے (اور بلا ریب وشک حجت ہے) تو پھر اس میں بھی کوئی تردد و شبہ نہیں ہے کہ اس کا بیان بھی حجت ہوگا، آپ نے جو بھی کہا ہے،جو بھی کیا ہے، وہ حق ہے، دین ہے، ہدایت ہے،اور نیکی ہی نیکی ہے، اس لئے آپ کی زندگی جو مکمل تفسیر کلام ربانی ہے آنکھ بند کرکے قابل اتباع ہے ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَةٌ“ خدا کا رسول تمہارے لئے بہترین نمونہٴ عمل ہے، علاوہ ازیں آپ صلى الله عليه وسلم کو خداے علی وعزیز کی بارگاہ بے نہایت سے رفعت وبلندی کا وہ مقام بلند نصیب ہے کہ ساری رفعتیں اس کے آگے سرنگوں ہیں حتی کہ آپ کے چشم وابرو کے اشارے پر بغیر کسی تردد وتوقف کے اپنی مرضی سے دستبردار ہوجانا معیار ایمان و اسلام ٹھہرایا گیا ہے۔ وَمَا کَان لموٴمِنٍ وَلاَ مُومِنَةٍ اِذا قَضی اللّٰہُ ورَسُولُہ اَمْرًا ان یکون لہم الخِیَرَة من امرہم کسی مومن مرد وعورت کو گنجائش نہیں ہے جب اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم دے تو پھر ان کے لئے اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے۔ ربّ علیم وعزیز کی ان واضح ہدایات کے بعد بھی کیا کسی کو یہ حق پہنچ سکتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اقوال و افعال میں اپنی جانب سے تقسیم و تفریق کرے کہ یہ ہمارے لئے حجت ہے، اور یہ حجت نہیں ہے۔
نیز رسولِ خدا علیہ الصلوٰة والسلام کا ارشاد ہے:
الا انی اُوتیت الکتاب ومثلہ معہ الا یوشِکُ رجلٌ شَبعَانُ علی اریکتہ یقول: علیکم بہذا القرآن، فما وجدتم فیہ من حلال فاحلّوہ، وما وجدتم فیہ من حرام فحرّموہ، الا لا یحلّ لکم الحمار الاہلی، ولا ذی ناب من السبع، ولا کل ذی مِخلب من الطیر“ الحدیث (رواہ ابوداوٴد في السنن في کتاب السنة والاطعمة)[i]
بغور سنو! مجھے اللہ تعالیٰ کی جانب سے قرآن دیاگیا ہے، اور قرآن کے ساتھ قرآن ہی جیسی (یعنی حدیث وسنت بھی) دی گئی ہے، خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آسودہ حال شخص اپنی آراستہ سیج پر بیٹھا کہے گا، اسی قرآن کو لازم پکڑو پس جو چیز اس میں از قبیل حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور جو اس میں از قبیل حرام پاؤ اسے حرام جانو، خبردار تمہارے لئے گھریلو گدھا حلال نہیں ہے اور نہ ہی شکاری درندہ اور نہ ہی شکاری پرندہ حلال ہے (حالانکہ صراحت سے ان جانوروں کے حرام ہونے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے)
اس حدیث سے درج ذیل امور معلوم ہوئے:
(الف) قرآن ہی کی طرح احادیث بھی منجانب اللہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام کو دی گئی ہیں، (ب) قرآن کی طرح احادیث بھی احکام میں حجت ہیں، (ج) اور قرآن ہی کی طرح ان کی اتباع اور ان پر عمل لازم ہے۔
قرآن و حدیث کی ان تصریحات کے مطابق حضرات صحابہ، تابعین، محدثین، فقہائے مجتہدین اور تمام علماء اہل سنت والجماعت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حجیت اور اس کی تشریعی حیثیت پر بصیرت کے ساتھ یقین رکھتے ہیں، اہل اسلام کے کسی گروہ، یا فرد نے جب کبھی بھی حدیث پاک کی اس شرعی حیثیت پر ردوقدح کی ہے تو اسے یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔
غرضیکہ علماء حق کا یہی جادئہ متوارثہ ہے۔ اپنے تمام اساتذہ کو بھی اسی موقف پر پایا، اور اب تک اس موضوع پر جن کتابوں کے مطالعہ کی توفیق ملی وہ تقریبا ایک درجن سے زائد ہیں ان میں صرف فرقہ قرآنیہ کے بعض مصنّفین کی دو ایک کتابوں کے علاوہ سب میں قابل قبول قوی دلائل کے ساتھ حجیت حدیث کے مذہب منصور کا اثبات اور تائید و توثیق کی گئی ہے۔ بایں ہمہ ایک ہم عصر مشہور فاضل نے جو اپنی وسیع علمی خدمات کی بناء پر اوساط علمیہ میں اعتبار واستحسان کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اپنی ایک تحریر میں اس بارے میں میرے علم کے مطابق سب سے الگ ایک جدید نقطئہ نظر پیش کیا ہے جو انھیں کے الفاظ میں یہ ہے کہ ”حدیث اور سنت میں فرق (ہے) اور حجت سنت ہے حدیث نہیں“ زیر نظر تحریر میں اسی نقطئہ نظر کا اپنے علم و فہم کے مطابق جائزہ لیاگیا ہے۔ واللّٰہ ہو الملہم الصواب والسداد، وعلیہ التکلان والاعتماد.
(الف) سنت کا لغوی معنی
۱- امام لغت مطرزی متوفی ۶۱۰ھ ”لفظ سنن“ کے تحت لکھتے ہیں:
”السنة“ الطریقہ ومنہا الحدیث في مجوس ہَجَر ”سنّوا بہم سنّة اہل الکتاب“ ای اسلکوا بہم طریقہم یعنی عاملوہم معاملة ہٰوٴلاء في اعطاء الامان باخذ الجزیة منہم. (المُغرِب، ج:۱، ص:۴۱۷)
”سنت“ طریقہ کے معنی میں ہے اسی معنی میں مجوسِ ہجر کے بارے میں حدیث ہے ”سنّوا بہم سنة اہل الکتاب“ ان مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب جیسا طریقہ اختیار کرو یعنی جزیہ لے کر امن دینے کا جو معاملہ اہل کتاب کے ساتھ کرتے ہو یہی معاملہ ان مجوسیوں کے ساتھ کرو۔
۲- امام محی الدین ابوزکریا نووی متوفی ۶۷۶ھ لفظ ”السنة“ کے تحت رقمطراز ہیں:
”سنة النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أصلہا الطریقہ، وتطلق سنتہ صلی اللّٰہ علیہ علی الأحادیث المرویة عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وتطلق السنة علی المندوب، قال جماعة من أصحابنا في أصول الفقہ: السنة، والمندوب، والتطوع، والنفل، والمرغب، والمستحب کلہا بمعنی واحد وہو ما کان فعلہ راجحاً علی ترکہ ولا اثم علی ترکہ“ (تہذیب الاسماء واللغات، ج:۳،ص:۱۵۶)
سنت کا اصل معنی طریقہ ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ اصطلاحاً رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے مروی احادیث پر بولا جاتا ہے نیز سنت کا اطلاق امر مستحب پر بھی ہوتا ہے ہمارے شوافع فقہائے اصول کی ایک جماعت کا قول ہے کہ سنت، مندوب، تطوع، نفل، مرغّب، اور مستحب یہ سب الفاظ ایک معنی میں ہیں یعنی وہ فعل جس کا کرنا نہ کرنے پر راجح ہے اور اسے چھوڑ دینے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
۳- ماہر لغت ابن المنظور متوفی ۷۱۱ھ اپنی گرانقدر تصنیف ”لسان العرب“ میں لکھتے ہیں:
وقد تکرر في الحدیث ذکر السنة وما تصرّف منہا، والأصل فیہ الطریقة، والسیرة، واذا اطلقت في الشرع فانما یراد بہا ما أمر بہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونہی عنہ وندب الیہ قولاً وفعلاً مما لم ینطق بہ الکتاب العزیز ولہذا یقال في أدلة الشرع الکتاب والسنة أي القرآن والحدیث (فصل السین حرف النون، ج:۱۷،ص:۸۹)
سنت اور اس کے مشتقات کا ذکر حدیث میں بار بار آیا ہے، اس کا اصل معنی طریقہ اور چال چلن کے ہے، اور شرع میں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ کام لیا جاتاہے جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، یا جس سے منع کیا، یا جس کی اپنے قول و فعل کے ذریعہ دعوت دی جن کے بارے میں کتاب عزیز نے (صراحت) سے کچھ نہیں کہا ہے، اسی بناء پر دلائل شرعیہ (کے بیان) میں کہا جاتا ہے ”الکتاب والسنة“ یعنی ”قرآن وحدیث“۔
علامہ ابن المنظور کے کلام میں ”ما أمر بہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونہی عنہ“ عام ہے جس میں امر وجوبی، وغیروجوبی اور نہی تحریمی وغیرتحریمی سب داخل ہوں گی۔
۴- المعجم الوسیط مادہ سنن میں ہے:
السَّنَن‘ الطریقة والمثال یقال بنوا بیوتہم علی سنن واحد… والسنة الطریقة والسیرة حمیدة کانت او ذمیمة، وسنة اللّٰہ حکمہ في خلیقتہ، وسنة النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما ینسب الیہ من قول او فعل او تقریر، ”وفي الشرع“ العمل المحمود في الدین مما لیس فرضاً ولا واجباً“ (ص:۴۵۶)
سنن طریقہ اور مثال کے معنی میں ہے اسی معنی میں بولا جاتا ہے ”بنوا بیوتہم علی سنن واحد“ یعنی اپنے گھروں کو ایک طریقہ اور ایک نمونہ پر بنایا… اور سنت بمعنی طریقہ اور طرز زندگی ہے یہ طریقہ خواہ محمود ہو یا مذموم، اور ”سنت اللہ“ کا معنی اللہ کا اپنی مخلوق کے متعلق فیصلہ کے ہیں، اور سنت رسول سے مراد وہ قول وفعل اور تقریر ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہیں، اور فقہ میں یہ لفظ دین میں اس پسندیدہ عمل پر بولا جاتا ہے جو فرض واجب نہیں ہیں۔
(ب) حدیث کا لغوی معنی
۱- لسان العرب میں ہے:
الحدیث نقیض القدیم … والحدیث کون الشيء لم یکن، … والحدیث الجدید من الاشیاء، والحدیث الخبر یأتي علی القلیل والکثیر والجمع أحادیث (ج:۲،ص:۴۳۶ و ۴۳۸ فصل الحاء حرف الثاء)
حدیث قدیم کا نقیض (یعنی مقابل مخالف) ہے، حدیث شیٴ کا ہوجانا جو پہلے نہیں تھی، بمعنی جدید اور نئی، بمعنی خبر خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر، اور جمع احادیث ہے۔
۲- ابن سیدہ متوفی ۴۵۸ھ المخصص میں لکھتے ہیں:
الحدیث الخبر، وقال سیبویہ: والجمع أحادیث. (ج:۳،ص:۳۲۳)
حدیث کے معنی خبر کے ہیں اور سیبویہ نے کہا ہے کہ اس کی جمع احادیث ہے۔
۳- علامہ قاضی محمد اعلیٰ تھانوی متوفی ۱۱۹۱ھ کشاف اصطلاحات الفنون میں لکھتے ہیں:
الحدیث لغة ضد القدیم ویستعمل في قلیل الکلام وکثیرہ (۲۷۹)
حدیث قدیم کا ضد ہے، اور کلام قلیل وکثیر میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
۴- علامہ راغب اصفہانی متوفی ۵۰۳ھ لکھتے ہیں:
کل کلام یبلغ الانسانَ من جہة السمع او الوحي في یقظتہ أو منامہ یقال لہ حدیث. قال عزّ وجلّ: ”وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِيُّ اِلی بَعْضِ اَزْوَاجِہ حدیثًا (التحریم:۳، مفردات الفاظ القرآن، ص:۱۲۴)
ہر وہ کلام جو انسان تک پہنچتا ہے کان کی جانب سے یا وحی کی جانب سے بیداری یا خواب کی حالت میں اسے حدیث کہا جاتا ہے۔ اللہ عزّ وجلّ کا ارشاد ہے: واذ اَسرّ النبیّ“ الآیة اور جب کہ کہی نبی نے اپنی بعض بیوی سے ایک بات۔
علمائے لغت کی مندرجہ بالا عبارتوں سے معلوم ہوا کہ ”حدیث“ از روئے لغت، جدید، غیرموجود کا وجود میں آجانا، خبر اور کلام یعنی بات کے معنی میں بولا جاتا ہے۔
سنت وحدیث کی اس لغوی معنوی تحقیق کے بعد ان ہر دو کی اصطلاحی تعریف ملاحظہ کیجئے، جس کے تحت علمائے حدیث، علمائے اصول فقہ، اور فقہ حنفی کی الگ الگ تعریفات نقل کی جارہی ہیں؛ تاکہ مسئلہ زیربحث میں ہرجماعت و طبقہ کی اصطلاحات سامنے رہیں اور خلط مبحث سے بچا جاسکے۔ سب سے پہلے حدیث کی تعریف محدثین کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔
حدیث محدثین کی اصطلاح میں
شیخ ابوالفیض محمد بن محمد فارسی حنفی المعروف بہ فصیح ہروی متوفی ۸۳۷ھ اپنی مفید تصنیف جواہر الاصول میں حدیث کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
۱ – ”الحدیث، وہو في اللغة ضد القدیم، ویستعمل في قلیل الکلام وکثیرہ، وفي اصطلاحہم: قول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وحکایة فعلہ وتقریرہ والسنة ترادفہ عندہم“ (ص:۱۰)
لغت میں حدیث قدیم کا ضد ہے، اور تھوڑی وزیادہ بات پر بھی حدیث کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے، اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اور آپ صلى الله عليه وسلم کے فعل وتقریر کی حکایت و بیان حدیث ہے، ان حضرات کے نزدیک سنت، حدیث کے مرادف ہے۔
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ھ صحیح بخاری کے باب الحرص علی الحدیث کے تحت لکھتے ہیں:
۲ – ”المراد بالحدیث في عرف الشرع ما یضاف الی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکأنّہ أرید بہ مقابلة القرآن لأنہ قدیم“ (فتح الباری،ج:۱،ص:۲۵۷)
حدیث سے مراد شرعی ودینی عرف واصطلاح میں وہ امور ہیں، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہیں، ”ما یضاف الی النبی“ میں حافظ عسقلانی رحمة الله عليه نے جس عموم کی جانب اشارہ کیا تھا، ان کے تلمیذ رشید حافظ سخاوی نے اپنی ذکر کردہ تعریف میں اسی کی تشریح و توضیح کی ہے۔ ”واللہ اعلم“
۳- حافظ سخاوی متوفی ۹۰۲ھ ”حدیث“ کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں:
”الحدیث“ لغة ضد القدیم، واصطلاحاً: ما أضیف الی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قولاً لہ أو فعلاً، أو تقریرًا أو صفةً حتی الحرکات والسکنات في الیقظة والمنام، فہو أعمّ من السنة … وکثیراً ما یقع في کلام أہل الحدیث – ومنہم الناظم – ما یدل لترادفہما“ (فتح المغیث،ج:۱،ص:۹)
حدیث لغت میں حادث ونوپید کے معنی میں ہے اور اصطلاح محدثین میں حدیث وہ سب چیزیں ہیں جو نبی علیہ الصلوٰة والسلام کی جانب منسوب ہیں (یعنی) آپ صلى الله عليه وسلم کا قول، یا فعل، یا آپ کا کسی امر کو ثابت اور برقرار رکھنا، یا آپ کی صفات؛ حتی کہ بیداری اور نید میں آپ کی حرکت وسکون (یہ سب حدیث ہیں لہٰذا اس تعریف کی رو سے یہ سنت سے عام ہے، (جبکہ) علمائے حدیث (جن میں ناظم یعنی الفیة الحدیث کے مصنف حافظ عراقی متوفی ۸۰۶ھ بھی ہیں) کا کلام کثرت سے یوں واقع ہوا ہے، جو حدیث وسنت کے ترادف اور ایک ہونے کو بتارہا ہے۔
نادرئہ روزگار علامہ عبدالحئی فرنگی محلی رحمة الله عليه متوفی ۱۳۰۴ھ حدیث کی تعریف پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
۴ – واختلف عباراتہم في تفسیر الحدیث، فقال بعضہم: ما أضیف الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قولاً أو فعلاً أو تقریرًا، أو الی الصحابي، أو الی التابعي، وحینئذ فہو مرادف السنة، وکثیرا ما یقع في کلام الحفاظ ما یدل علی الترادف. وزاد بعضہم أو صفة، وقیل رُویاء أیضاً بل الحرکات والسکنات النبویة في المنام والیقظة أیضاً، وعلی ہذا فہو أعم من السنة (ظفرالامانی مع تعلیق علامہ شیخ ابوغدہ،ص:۲۴)
حدیث کی تفسیر و تعریف میں حضرات محدثین کی عبارتیں مختلف ہیں، بعض محدثین یوں تعریف کرتے ہیں وہ قول یا فعل یا تقریر جو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہیں یا صحابی یا تابعی کی طرف ان کی نسبت ہے (وہ حدیث ہے) اس تعریف کی رو سے حدیث، سنت کے مرادف ہوگی اور حفاظ حدیث کے بکثرت کلام و تصرفات دونوں کے مرادف ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
اور بعض محدثین نے حدیث کی تعریف میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی صفات، اور خوابوں کا بھی؛ بلکہ بحالت نوم یا بیداری آپ کے حرکات وسکنات کا اضافہ کیا ہے؛ لہٰذا ان کی تعریف کے لحاظ سے حدیث میں سنت کے اعتبار سے وسعت و عمومیت ہوگی۔
سنت محدثین کی اصطلاح میں
حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ھ فتح الباری میں لکھتے ہیں:
۱ – والمراد ”بالکتاب“ القرآن المتعبد بتلاوتہ، و”بالسنة“ ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم من أقوالہ وأفعالہ وتقریرہ وما ہَمَّ بفعلہ، والسنة في أہل اللغة الطریقة وفي اصطلاح الأصولیین والمحدثین ما تقدم. (کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، ج:۱۳، ص:۳۰۶)
”الکتاب“ سے مراد قرآن ہے جس کی تلاوت کو عبادت گذاری ٹھہرایاگیا ہے، اور ”السنة“ سے مراد نبی علیہ الصلوٰة والسلام کے اقوال، افعال، تقریر اور وہ چیزیں ہیں جن کے کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصد و ارادہ فرمایا، اور سنت اصل لغت میں طریقہ کے معنی میں ہے اور علمائے اصول اور علمائے حدیث کی اصطلاح میں یہی ہے جس کا اوپر بیان ہوا۔
حافظ عسقلانی رحمة الله عليه کی اس تصریح سے معلوم ہوا کہ حضرات محدثین اور اصولیین سنت کے اصطلاحی معنی میں متفق ہیں۔
۲- علامہ بدرالدین عینی متوفی ۸۵۵ھ نے بھی بعینہ انہی الفاظ میں سنت کی تعریف ذکر کی ہے (دیکھئے عمدة القاری،ج:۲۵،ص:۲۳ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة کی ابتدائی سطور)
۳- حافظ السخاوی متوفی ۹۰۲ھ نے اپنی نہایت مفید و محققانہ تصنیف ”فتح المغیث بشرح ألفیة الحدیث للعراقي“ میں سنت کی تعریف یہ کی ہے ”السنن المضافة للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قولاً لہ أو فعلاً أو تقریرًا، وکذا وصفًا وأیامًا“ (ج:۱،ص:۱۳)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب قول، فعل، تقریر، نیز آپ کی صفات وایام سنت ہیں۔ حافظ سخاوی رحمة الله عليه جنھوں نے سنت کی تعریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور آپ سے متعلق تاریخ وواقعات کو بھی شامل کیا ہے، الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ انھوں نے یہی تعریف حدیث کی بھی کی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث وسنت ان کے نزدیک ایک ہی ہیں۔
حدیث وسنت کو ایک معنی میں استعمال کی چند مثالیں
حافظ سخاوی رحمة الله عليه اور علامہ فرنگی محلی رحمة الله عليه دونوں حضرات نے صراحت کی ہے کہ ائمہ حدیث کے کلام اور تصرفات سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث وسنت ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں، یعنی ان میں باہم نسبت تساوی کی ہے، تباین یا عام، خاص کی نسبت نہیں، ذیل میں اس کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں:
۱- امام ابوداؤد سجستانی متوفی ۲۷۵ھ اہلِ مکہ کے نام اپنے مشہور رسالہ و مکتوب میں اپنی سنن کے بارے میں لکھتے ہیں:
”فان ذُکرلک عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سُنّة لیس مما خرّجتہ فاعلم أنہ حدیث واہٍ“ (رسالة الامام ابوداؤد السجستانی الی اہل مکة فی وصف سننہ مع تعلیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ،ص:۳۴)
”اگر تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کوئی سنت ذکر کی جائے، جس کی تخریج میں نے (اس کتاب میں) نہیں کی ہے تو جان لو کہ یہ حدیث ضعیف ہے“
امام ابوداؤد کی اس عبارت میں سنت وحدیث کا مرادف وہم معنی ہونا بالکل ظاہرہے۔
۲- امام حافظ ابوبکر محمد بن موسیٰ حازمی متوفی ۵۸۴ھ ناسخ ومنسوخ کے موضوع پر اپنی نہایت مفید کتاب ”الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار“ میں کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
فہذا کتاب أذکر فیہا ما انتہیت الی معرفتہ من ناسخ حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومنسوخہ (خطبة الکتاب، ص:۳) اس کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ناسخ ومنسوخ حدیثوں کا ذکر کروں گا، جن کی معرفت تک میں پہنچ سکا ہوں، اسی خطبہٴ کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں:
وانما أوردنا نبذة منہا لیعلم شدة اعتناء الصحابة بمعرفة الناسخ والمنسوخ في کتاب اللّٰہ وسنة نبیہ صلی اللّٰہ علیہ اذ شأنہما واحدة“(ص:۵)
میں نے یہ چند روایتیں پیش کی ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ قرآن وسنت میں ناسخ ومنسوخ کی معرفت کا صحابہٴ کرام کو کس درجہ اہتمام تھا کیونکہ دونوں کی صفت (وجوب عمل میں) ایک ہے۔ پہلی عبارت میں حدیث ناسخ ومنسوخ کا اور دوسری عبارت میں ناسخ ومنسوخ سنت کا لفظ استعمال کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ امام حازمی حدیث وسنت کو ایک معنی میں لیتے ہیں۔
۳- سنت کی لغوی تحقیق میں امام نووی رحمة الله عليه کی یہ عبارت تہذیب الأسماء والصفات کے حوالہ سے اوپر ذکر کی جاچکی ہے۔
وتطلق سنتہ صلى الله عليه وسلم علی الأحادیث المرویة عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.
اور سنت رسول علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کا اطلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث پر ہوتا ہے۔ امام نووی رحمة الله عليه کی اس عبارت سے سنت وحدیث کا ایک ہونا بالکل ظاہر ہے۔
۴- شیخ الاسلام حافظ ابن حجرعسقلانی رحمة الله عليه حدیث وخبر کے درمیان فرق کے قول کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومن ثم قیل لمن یشتغل بالتواریخ وما شاکلہا الأخباري، ولمن یشتغل بالسنة النبویة المحدث، وقیل بینہما عموم وخصوص مطلقاً فکل حدیث خبر من غیر عکس (نزہة النظر مع نورالقمر،ص:۲۷)
اسی فرق کی بناء پر جو شخص تاریخ یا تاریخ جیسے امور میں اشتغال رکھتا ہے اسے اخباری (مورخ) کہا جاتا ہے اور جو سنت نبویہ علی صاحبہا الصلوٰة والسلام میں مشغول رہتا ہے اسے محدث کہا جاتا ہے، اور کہا گیا ہے کہ خبر وحدیث میں عموم و خصوص کی نسبت ہے۔ لہٰذا ہر حدیث خبر ہے اور ہر خبر حدیث نہیں ہے۔ اس عبارت میں ایک جگہ سنت اور دوسری جگہ حدیث کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک دونوں ایک ہیں۔
بغرض اختصار صرف چار مثالوں پر اکتفاء کیاگیا ورنہ علمائے حدیث کے کلام سے دونوں کے مترادف ہونے کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
عام طور پر متأخرین محدثین حدیث وسنت کی اوپر مذکور یہی تعریف کرتے ہیں، اور اپنے کلام میں عام طور پر دونوں کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں جیساکہ اوپر کی بیان کردہ تفصیلات سے معلوم ہوچکا ہے۔
ایک قدیم اصطلاح: علامہ محمد بن جعفر کتّانی متوفی ۱۳۴۵ھ اپنی مشہور اور نہایت مفید تصنیف ”الرسالة المستطرفة لبیان مشہور کتب السنة المشرفة“ میں کتب سنن کے تعارف میں لکھتے ہیں:
”ومنہا کتب تعرف بالسنن وہی في اصطلاحہم الکتب المرتبة علی الأبواب الفقہیة من الایمان والطہارة والزکاة الی آخرہا ولیس فیہا شیء من الموقوف لأن الموقوف لا یسمّٰی في اصطلاحہم سنة ویسمی حدیثًا“ (ص:۲۹)
اور ان کتب حدیث میں بعض وہ ہیں جو سنن سے معروف ہیں اور سنن ان کی اصطلاح میں ابواب فقہیہ پر مرتب کتابیں ہیں یعنی ایمان، طہارت، صلاة، زکوٰة الی آخرہ یعنی اسی ترتیب پر پوری کتاب مرتب ہوتی ہے۔ اور سنن کی کتابوں میں موقوف روایتیں نہیں ہیں؛ کیونکہ ان کی اصطلاح میں موقوف کو سنت نہیں کہا جاتا ہے، بلکہ حدیث کہا جاتا ہے۔
سید شریف علی بن محمد جرجانی متوفی ۸۱۶ھ نے بھی اس اصطلاح کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
السلف أطلقوا الحدیث علی أقوال الصحابة والتابعین لہم باحسان وآثارہم وفتاواہم (خلاصہ،ص:۳۳ ملا علی کی شرح شرح نخبة الفکر کے صفحہ ۱۵۳ پر ”خبر، حدیث اور اثر“ کے بیان میں کتاب کے محقق نے خلاصہ کی یہ عبارت اپنی تعلیق میں نقل کی ہے)
ائمہ سلف نے ”حدیث“ کا اطلاق صحابہ اور تابعین کے اقوال، آثار اور ان کے فتاویٰ پر کیا ہے۔
غالباً اسی اصطلاح کے مطابق امام عبدالرحمن بن مہدی رحمة الله عليه نے امام سفیان ثوری رحمة الله عليه کی علوم میں جامعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
الناس علی وجوہ، فمنہم من ہو امام في السنة وامام في الحدیث، ومنہم من ہو امام في السنة ولیس بامام في الحدیث، ومنہم من ہو امام في الحدیث لیس بامام في السنة، فأما من ہو امام في السنة وامام في الحدیث فسفیان الثوري (تقدمة الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم، ص:۱۱۸)
علماء متعدد صفات کے حامل ہیں، ان میں بعض وہ ہیں جو سنت میں امام ہیں اور حدیث میں بھی امام ہیں، اور ان میں بعض وہ ہیں جو سنت میں امام ہیں اور حدیث میں امام نہیں ہیں،اور ان میں بعض وہ ہیں جو حدیث میں امام ہیں سنت میں امام نہیں ہیں تو جو سنت اور حدیث دونوں میں امام ہیں وہ سفیان ثوری رحمة الله عليه ہیں۔ یعنی سفیان ثوری رحمة الله عليه احادیث مرفوعہ اور صحابہ و تابعین سے منقول آثار اور فتاویٰ سب میں امام و پیشوا تھے۔
متقدمین ائمہ حدیث کی سنت و حدیث کے بارے میں فرق کی یہ ایک اصطلاح تھی؛ لیکن متأخرین کے یہاں اس اصطلاح کا استعمال نہیں ہے۔ متقدمین ائمہ حدیث اگرچہ سنت وحدیث کے درمیان اصطلاحی طور پر یہ فرق کرتے ہیں؛ لیکن عام طور پر وہ شریعت میں صحابہ کے قول کو بھی حجت مانتے ہیں؛ اس لئے اس اصطلاحی فرق سے ان کی حجیت میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
ایک اور اصطلاح: بہت سے اصولیین اور بعض محدثین بھی سنت وحدیث میں اصطلاحی طو رپر یہ فرق کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل، تقریر اور طریق صحابہ سب پر سنت کا لفظ بولتے ہیں،اور حدیث و خبر کا اطلاق صرف آپ صلى الله عليه وسلم کے فعل پر کرتے ہیں۔ مولانا عبدالحئی فرنگی محلی لکھتے ہیں:
ذکر ابن مَلَک في ”شرح منار الأصول“ اَنّ سنة تطلق علی قول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وفعلہ، وسکوتہ وطریقة الصحابة، والحدیث والخبر مختصان بالأول.
سنت کا اطلاق رسول خدا صلى الله عليه وسلم کے قول، فعل، سکوت، اور طریقہٴ صحابہ پر کیاجاتا ہے اور حدیث وخبر پہلے (یعنی قول رسول اللہ صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ خاص ہیں۔ (ظفر الامانی،ص:۲۴-۲۵)
محقق علاء الدین عبدالعزیز بخاری متوفی ۷۳۰ھ اصول بزدوی کی عبارت ”تمسکاً بالسنة والحدیث“ کے تحت لکھتے ہیں:
السنة أعم من الحدیث لانہا تتناول الفعل والقول، والحدیث مختص بالقول“ الخ (کشف الاسرار،ج:۱،ص:۵۹)
”سنت“، ”حدیث“ سے عام ہے کیونکہ سنت فعل وقول (سب کو) شامل ہے اور حدیث قول کے ساتھ خاص ہے۔ یہی تفصیل تلویح اور عضدی میں بھی ہے۔
لفظ سنت وحدیث کے درمیان استعمال کا یہ فرق بھی بس اصطلاح ہی کی حد تک ہے، جس سے ان کی حجیت قطعاً متاثر نہیں ہوگی؛ کیونکہ جو حضرات سنت کو عام معنی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کے معنی میں لیتے ہیں وہ تو اسے حجت مانتے ہی ہیں اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو حدیث سے تعبیر کرتے ہیں اور سنت کا اطلاق اس پر نہیں کرتے ہیں وہ بھی اس حدیث قولی کو حجت قرار دیتے ہیں۔
سنت علمائے اصول کی اصطلاح میں
علمائے اصول جن کا موضوع احکام شرعی کے اصول ومآخذ کا بیان، اور کتاب وسنت کے نصوص سے اخذ معانی وغیرہ کے قواعد وضوابط کی تنقیح و تدوین ہے، جب وہ اپنے موضوع کے مطابق فقہی احکام کے دوسرے مصدر و مآخذ کی حیثیت سے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں تو اپنے فن کے تحت سنت کی تعریف بھی بیان کرتے ہیں بطور نمونہ اصول فقہ کی مستند و معروف چند کتابوں سے یہ تعریف نقل کی جارہی ہے۔
۱- قاضی بیضاوی متوفی ۶۸۵ھ ”منہاج الوصول الی علم الأصول“ میں لکھتے ہیں:
الکتاب الثانی في السنة: وہو قول الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم او فعلہ الخ.
کتاب ثانی سنت کے بیان میں اور سنت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا قول یا فعل ہے۔
شیخ جمال الدین اسنوی متوفی ۷۷۲ھ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
أقول: السنة لغة ہي العادة والطریقة قال اللّٰہ تعالٰی: ”قد خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا في الاَرضِ“ ای طرق، وفي الاصطلاح تطلق علی ما یقابل الفرض من العبادات، وعلی ما صدر من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الأفعال أو الأقوال لیست للاعجاز وہذا ہو المراد ہہنا، ولما کان التقریر عبارة من الکف عن الانکار والکف فعل کما تقدم استغنی المصنف عنہ بہ أی عن التقریر بالفعل“ (نہایة السول في شرح منہاج الوصول الی علم الأصول علی الہامش التقریر والحبیر، ج:۲، ص:۵۲)
میں کہتا ہوں کہ سنت لغت میں عادت اور طریقہ کے معنی میں ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے قد خلت الخ یعنی تحقیق کہ تم سے پہلے طریقے گذرچکے ہیں، لہٰذا زمین میں گھوم پھر (کر انہیں دیکھ لو) (آیت میں مذکور لفظ سُنَن بمعنی) طریقے ہے، اور اصطلاح میں (۱) ان عبادتوں پر سنت کا اطلاق ہوتا ہے جو فرض کے مقابل ہیں، (۲) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ان افعال واقوال پر ہوتا ہے جو (صراحتاً) قرآن میں نہیں ہیں، اور اس جگہ یہی دوسرا اصطلاحی معنی مراد ہے، اور جب انکار سے رکنے کو تقریر سے تعبیرکیا جاتا ہے تو ”کف“ یعنی رکنا (ایک) فعل ہے اس لئے قول کے ساتھ فعل کے ذکر کے بعد تقریر کے ذکر کی مصنف نے ضرورت نہیں سمجھی۔
۲- امام ابواسحاق الشاطبی متوفی ۷۹۰ھ لکھتے ہیں:
ویطلق لفظ السنة علی ما جاء منقولا عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی الخصوص بما لم ینص علیہ في الکتاب العزیز بل انما نص علیہ من جہتہ علیہ الصلوٰة والسلام کان بیاناً لما في الکتاب؛ أولاً، ویطلق أیضاً في مقابلة البدعة، فیقال: ”فلان علی سنة اذا عمل علی وفق ما عمل علیہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، کان ذلک مما نص علیہ في الکتاب أولاً، ویقال: فلان علی بدعة ”اذا عمل علی خلاف ذلک، وکأن ہذا الاطلاق انما اعتبر فیہ عمل صاحب الشریعة فأطلق علیہ لفظ السنة من تلک الجہة، وان کان العمل بمقتضی الکتاب.
ویطلق أیضا لفظ السنة علی ما عمل علیہ الصحابة وجد ذلک في الکتاب أو السنة أو لم یوجد لکونہ اتباعاً لسنة ثبتت عندہم لم تنقل الینا، أو اجتہادًا مجتمعاً علیہ منہم أو من خلفائہم … واذا جمع ما تقدم تحصل منہ في الاطلاق أربعة أوجہ، قولہ علیہ الصلاة والسلام، وفعلہ، واقرارہ- وکل ذلک اما متلقی بالوحی أو بالاجتہاد، وہذہ ثلاثة، والرابع ما جاء عن الصحابة أوالخلفاء. (الموافقات،ج:۴، ص:۳ تا ۶)
اور لفظ سنت ان امور پر بولا جاتا ہے جو نبی صلى الله عليه وسلم سے منقول ہوکر آئے ہیں بالخصوص وہ امور جو قرآن مجید میں منصوص نہیں ہیں؛ بلکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی جانب سے مذکور ہیں، پھر وہ امور قرآن کی مراد کا بیان و تفسیر ہوں، یا ایسے نہ ہوں۔
اور سنت کا لفظ بدعت کے مقابلہ میں بھی بولا جاتا ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے فلاں سنت پر ہے؛ جبکہ اس کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے موافق ہو، خواہ یہ عمل ان اعمال میں سے ہو جن کی قرآن میں صراحت کی گئی ہے، یا ایسا نہ ہو،اور کہا جاتا ہے فلاں بدعت پرہے؛ جبکہ اس کا وہ عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے موافق نہ ہو، گویا اس اطلاق میں صاحب شریعت (صلى الله عليه وسلم) کے عمل کا اعتبار کیاگیا ہے، اور اسی لحاظ سے اس پر سنت کا لفظ استعمال کیاگیاہے۔ اگرچہ وہ عمل بتقاضائے کتاب الٰہی ہو۔
نیز لفظ سنت کا اطلاق صحابہ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کے عمل پر بھی ہوتا ہے قرآن وحدیث میں اس کے وجود سے ہم واقف ہوں یا نہ ہوں؛ کیونکہ صحابہ كرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کا یہ عمل یاتو سنت کی اتباع میں ہوگا جو ان کے نزدیک ثابت تھی اور ہم تک نہیں پہنچی یا ان کے اجماعی اجتہاد یا خلفاء کے اجتہاد کی بناء پر ہوگا … ان مذکورہ صورتوں کو جمع کیا جائے تو سنت کے اطلاق کی چار صورتیں نکلیں گی: (۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، (۲) آپ کا فعل، (۳) آپ کا اقرار واثبات اور یہ سب یا تو وحی سے حاصل شدہ ہوں گی یا اجتہاد سے یہ تین قسمیں ہوئیں، (۴) اور چوتھی قسم صحابہ رضوان الله تعالى عليهم اجمعين یا خلفاء رضوان الله تعالى عليهم اجمعين سے ثابت شدہ امور ہیں۔
محقق ابن ہمام متوفی ۸۶۱ھ نے اصول فقہ میں اپنی مشہور وکثیر الفائدہ تصنیف ”التحریر“ میں سنت کی تعریف یہ کی ہے: ”وفي الاصول قولہ علیہ السلام وفعلہ و تقریرہ وفي فقہ الحنفیة: ما واظب علی فعلہ مع ترک بلا عذر لیلزم کونہ بلا وجوب، وما لم یواظبہ مندوب ومستحب“ (التقریر والتحبیر شرح التحریر، ج:۲، ص:۲۲۳)
سنت اصول فقہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں،اور فقہ حنفی میں جس فعل پر آپ نے مواظبت فرمائی ہے بغیر عذر کے کبھی کبھار ترک کے ساتھ (ترک بلا عذر کی قید اس لئے ہے) تاکہ لازم ہوجائے کہ اس فعل پر ہمیشگی بطور وجوب کے نہیں تھی (کیونکہ بلا عذر ترکِ فعل کی واجب میں رخصت واجازت نہیں)
اس تعریف کا صاف مطلب یہ ہے کہ فقہائے اصول جب فقہ کے ادلہٴ اربعہ کے ضمن میں سنت کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی تعریف آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے قول و فعل سے کرتے ہیں تو یہی سنت ان کے نزدیک مسائل کے لئے دلیل وحجت ہوتی ہے اور عبادات کے مراتب کی تعیین کے وقت بالخصوص فقہائے احناف فرض و واجب کے بعد اور نفل سے پہلے جب لفظ سنت کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی تعریف ما واظب علی فعلہ الخ یا الطریقة المسلوکہ في الدین سے کرتے ہیں تو اس سنت کا ان کے نزدیک احکام شرعی کی حجت و دلیل ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ بلکہ یہ تو اس حکم شرعی کا عرفی نام ہے جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے عمل مع المواظبة بترک ما سے ثابت ہوا ہے۔
سنت کی اصولی و فقہی یہی تعریفیں قدیم وجدید سب مصنّفین اپنی اصول فقہ کی کتابوں میں بیان کرتے ہیں، ان سب کے ذکر میں تکرار محض اور طوالت ہے؛ اس لئے بطور نمونہ تین ماہر فن علماء کی تحریروں پر اکتفا کیا جارہا ہے، جن میں پہلے شافعی دوسرے مالکی اور تیسرے حنفی ہیں۔
***
([i]) یہ حدیث بہت سی کتب حدیث میں بایں الفاظ مروی ہے:
عن المقدام بن معدی کرب الکندی، اَنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حرّم اشیاء یوم خیبر: الحمارَ وغیرہ ثم قال: یوشک الرجل متکئاً علی اریکتہ یُحدَّث بحدیثی فیقول بیننا ویبنکم کتاب اللّٰہ ما وجدنا فیہ من حلال استحللناہ وما وجدنا فیہ من حرام حرمناہ، الا وان ما حرّم رسول اللّٰہ فہو مثل ما حرّم اللّٰہ (سنن الدارمی باب السنة قاضیة علی کتاب اللّٰہ ج:۱، ص:۱۵۲)
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 8 ، جلد: 94 شعبان – رمضان 1431 ھ مطابق اگست 2010 ء