از: مولانا مفتی ابرار متین بیگ قاسمی
یہ بات کسی سے پوشیدہ اور چھپی ہوئی نہیں ہے کہ دنیا کے اندر بہت ساری قوموں نے اپنی اپنی سیاسی اور جنگی طاقت سے بہت سارے ملکوں و خطوں پر حکومت کیں بعض قوموں کی جنگ کا مقصد سامراجیت اور بالادستی تھی تاکہ وہ قوم دوسری کمزور قوموں کو ہلاک و برباد کریں اور وہاں کے ذخائر دفینوں سے خوب سے خوب جبر استیصال کریں جیساکہ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ صلیبی جنگوں میں اکثر ایسا ہوتا رہا کہ صلیبیوں نے جہاں کہیں کسی ملک و قوم پر حکومت کرنا چاہا تو وہاں کے ملک وقوم کا قتل وغارت گری، توڑ پھوڑ، حاکمانہ وظالمانہ رویہ بلکہ ”جلادانہ“ رویہ عیسائیت کی پرچار اور عیسائی مذہب وتہذیب کے لزوم سے نقشہ ہی بدل دیا جیسا کہ تاریخ کے بہت سارے سیاہ ابواب اس سے بھرے پڑے ہیں۔
عیسائی مشنری اسکولس مسلم بچوں کیلئے ایک زہر
”تعلیم گاہ“ جسے ہم اور آپ اپنی اپنی عام بول چال میں اسکولس وغیرہ کہتے ہیں درحقیقت یہ صرف علم حاصل کرنے کی ہی جگہ نہیں بلکہ یہ علم حاصل کرنے کی جگہ کے علاوہ انسانیت، تہذیب واخلاق، روحانی تربیت کی جگہ ہے، جہاں مختلف قسم کے اسکولس میں مختلف قسم کے مینجمنٹس اپنے اپنے انداز میں تعلیم دیتے ہیں اور جو اسٹوڈنٹس (Students)ان کے پاس تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کو اپنے طریقہ کار، اپنے مزاج و مذاق کا خوگر اور متبع بناتے ہیں، خواہ وہاں پڑھنے والے کسی بھی علاقے یا کسی بھی مسلک و مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ جب وہ بچے ان کے خوگر اور ان کے تابع ہوتے ہیں تو یہ بچے خاص مزاج و مذاق میں ڈھل کر ہر جگہ اپنے اپنے خاص قسم کے افکارات وخیالات کا اظہار کرتے ہیں کبھی ان افکارات وخیالات سے آزاد ذہنی ابھرکر عقل پرستی کا شکار ہوتی ہے تو کبھی ملحدانہ مزاج پیدا ہوکر اس طالب علم کو کمیونزم کا قائل و حامل بنادیتی ہے۔ اور کبھی ان افکارات و خیالات سے کسی خاص قسم کے مذہب ومسلک کی بو آنے لگتی ہے جیساکہ ہندوازم، بدھ ازم اور بھی مختلف قسم کے ازمس سے مشرکانہ و کافرانہ بو آنے لگتی ہے جس سے ایک طالب علم صرف طالب علم نہیں رہتا بلکہ مشرکانہ، کافرانہ وملحدانہ مزاج ومذاق کا طالب علم بن جاتا ہے جس سے ایک مسلمان طالب علم خالص مسلمان باقی نہیں رہتا بلکہ مذکورہ بالا صفات کا حامل بن کر ایک ”ماڈرن مسلمان طالب علم“ بن جاتا ہے جب یہ طالب علم ماڈرن خیالات کا حامی ہوجاتا ہے تو زندگی کے ہر شعبہ میں ماڈرنزم یعنی جدیدیت کو پسند کرنے لگتا ہے۔ درحقیقت یہ ”ماڈرنزم“ اور ”جدیدیت“ کوئی انوکھی اور نوپید چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ماڈرنزم اور جدیدیت مغربی تہذیب وثقافت، عیسائی مزاج ومذاق کا ایسا معجون مرکب ہے جس پر ماڈرنزم اور جدیدیت کا لیبل لگادیاگیا ہے اس کے بعد اب ہر پڑھا لکھا اور عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ عیسائی تہذیب و تمدن اور عیسائی مزاج ومذاق نہیں ہے بلکہ یہ نئے زمانے میں نئے لوگوں میں، نئے اسباب معیشت میں جینے کا ایک ناگزیر طریقہ ہے کہ اس کے بغیر زندگی گزارنے کا اور زندگی میں ترقی کے منازل طے کرنے کا کوئی اور طریقہ ہے ہی نہیں۔ گویا اس خاص قسم کے افکار و مزاج کا مطلب ہی یہ ہے کہ زندگی گزارنے کے لئے کسب معاش کے لئے، سیاست مدن کے لئے جوطریقے اسلام نے بتائے ہیں وہ بہت پرانے ہوئے ہیں اور ان طریقوں میں جو جان باقی رہنی چاہئے تھی اب وہ باقی نہیں رہی۔ (نعوذ باللہ من ذلک) یہ سب اثرات عیسائی مشنریز کے مختلف ہتھکنڈوں کا ایک خاص ہتھکنڈہ اور ایک خاص اثر ہے۔ عیسائی مشنری اسکولس ہیں مختلف قسم کے بچوں کو بڑی ہی شان کے ساتھ کڑے قوانین واصول کو سامنے رکھ کر اپنی تہذیب اور اپنے مزاج ومذاق کا ہم مشرب و ہم خیال بنایا جاتا ہے جس سے مختلف قسم کے بچے ماڈرنزم اور جدیدیت کا شکار ہوکر اپنے اپنے مذہب کو عجیب وغریب، خفت انگیز نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ہزاروں قسم کے لادینیت او ر دہریت والے سوال من ہی من میں پیدا کرتے ہیں اور شک وشبہ کے بدترین جال میں گرفتار ہوکر دنیوی زندگی بھی برباد کرتے ہیں اور زندگی کا حقیقی مقصد آخرت بھی برباد کرتے ہیں گویا کہ یہ عیسائی مشنری اسکولس مسلم بچوں کے لئے ایک میٹھا بلکہ سلوپائزن Slow Poison ہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسباب وعلل یہاں ذکر کردئیے جائیں جس کی وجہ سے عیسائی مشنری اسکولس مسلم بچوں کے لئے بلکہ سماج ومعاشرے کیلئے کس طرح سے انسانیت سوز بے حیاء وبے غیرت ماحول کو پیدا کرتے ہیں اور حقیقی سکون و چین کو پارہ پارہ کرتے ہیں۔
شرائط داخلہ کا مکارانہ وظالمانہ طریقہٴ کار
دنیا کے اندر جہاں جہاں عیسائی مشنری اسکولس ہیں وہ دو طرح کے علاقوں میں ہیں ایک وہ علاقہ جہاں لوگ غربت و افلاس کا شکار ہیں اور دوسرا وہ علاقہ ہے جہاں لوگ تعیش وعیش کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ مذکورہ ہر دو جگہ عیسائی مشنری اسکولس قائم ہیں لیکن دونوں میں ایک عظیم فرق ہے۔ متمول علاقوں کے اسکولس ایسے ہیں جہاں مختلف عنوانوں مثلاً داخلہ فیس Admission Fees، ڈونیشن Donation، بلڈنگ فنڈ Building Fund, Infrastructure Development Fund، سالانہ فیس Yearly Fees وغیرہ وغیرہ سے خوب روپیہ لوٹا کھسوٹا جاتا ہے، مشاہدہ کی بات ہے کہ بڑے بڑے شہروں وعلاقوں کے جو عیسائی مشنری اسکولس ہیں صرف نرسری Nurseryاور ایل کے جی L.K.G اور یوکے جی U.K.G کی تعلیم کیلئے لاکھ ڈیڑھ لاکھ اور دو دو لاکھ روپئے تک وصول کرتے ہیں۔ پھر ان جمع کردہ روپیوں کو چیاریٹی Charity کے نام سے غریب علاقوں کے مشنری اسکولس میں لگاکر عیسائیت کے تئیں نرمی پیدا کرتے ہیں اور مفت تعلیم Free Education کے ذریعے عیسائیت کو طوعاً وکرہاً ان کے گلے میں ڈال دیتے ہیں۔
مذکورہ بالا طریقہ تو عیسائی مشنری اسکولس کے متمول اور غیر متمول علاقوں کے داخلوں کا تھا علاوہ ازیں شہر کے عیسائی مشنری اسکولس کا جو ٹارگیٹ Target ہوتا ہے وہ تو صرف اور صرف بڑے بڑے مالدارلوگوں کے بچے ہی ہوتے ہیں ورنہ تو یہاں غریب تو غریب ہی ہے، غریب کے علاوہ جو متوسط طبقہ Middle Class ہے وہ بھی یہاں اپنے بچوں کو پڑھانے کیلئے دس مرتبہ صرف سوچ اور خواب ہی دیکھ سکتا ہے ان کی بھی اس جگہ پر تمام تر ہمتیں، طاقتیں ٹوٹ کر رہ جاتی ہیں اس کے علاوہ داخلہ کی شرائط یہ ہوتی ہیں کہ بچے کے والدین اعلیٰ تعلیم یعنی Well Educated ہوں اور ماہانہ آمدنی اتنی زیادہ ہوکہ ہر ماہ روپیہ خوب سے خوب بچ سکے اور Save ہوسکے اور ان کے پاس Two Wheeler یا Four Wheeler گاڑی ہو۔
اس جگہ رک کر کیا اس بات پر غور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک کے یا دنیا کے بڑے بڑے سائنسداں، ریاضی داں، جغرافیہ داں، علم داں، قانون داں اور سیاست داں صرف مالدارہی قسم کے طبقہ سے وابستہ تھے یا اس کے علاوہ غریب لوگ بھی تھے؟ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا کے اور ہمارے ملک کے سائنسداں ہوں یا ریاضی داں یا سیاست داں، اکثر و بیشتر غریب طبقہ سے متعلق تھے اور دیہات اور گاؤں کے رہنے والے تھے جن کے پاس کھانے کے لئے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی اور پڑھنے کے لئے کتابیں اور قلم بھی نصیب نہیں تھا لیکن آج کی مشنری اسکولس کا یہ ایک عجیب و غریب حال ہے کہ شہروں میں عمدہ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم تو صرف مالدار ہی حاصل کرسکتے ہیں، غریبوں کا تو اس میں کوئی حق ہی نہیں۔
مشنری اسکول کا پریئر Prayer
ہر اسکول کی ایک حمد ہوتی ہے ”پریئر“ ہوتا ہے۔ یہ رہا الگ مسئلہ بعض سرکاری وغیرسرکاری اسکولوں میں ”وندے ماترم“ جیسے مشرکانہ عقیدہ والا جو ترانہ ہے وہ تو پڑھنا ناجائز وحرام ہے لیکن خفیہ انداز میں جو پریئر Prayer مشنری اسکولس میں پڑھایا جاتا ہے وہ بھی ”وندے ماترم“ سے کچھ کم نہیں، جیسا کہ پریئر کے وقت بچوں کو صف بندواکران کے ”خیالی“ جیسس یعنی حضرت عیسیٰ کے مجسمہ کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے جیساکہ ہندوؤں کو مندر کے اندر بڑے اور چھوٹوں کو کسی بت کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے اور پھر بچوں سے کچھ سادہ جملوں کے ساتھ کفریہ وشرکیہ جملہ ہردن بلوایا جاتا ہے اور کبھی کبھی وقفے وقفے سے مسلمان بچوں کو مختلف چیزوں کی ضرورت کے وقت بچوں کے اصرار کرنے پر یا ان کے رونے پر یا وہ چیزیں ان کے پاس نہ رہنے پر کہا جاتا ہے کہ تم اپنے اللہ سے مانگو اور اسے حاصل کرلو جب یہ بچہ اللہ سے مانگتا ہے تو نہ اسے چاکلیٹ ملتا ہے اور نہ کوئی اسکول سے متعلق ضرورت کی چیز، پنسل، کاپی وغیرہ ملتی ہے پھر بچے سے کہا جاتا ہے کہ اب تم آنکھ بند کرکے ”جیسس“ یعنی حضرت عیسیٰ عليه السلام سے مانگو جب بچہ مانگتا ہے تو وہ چیز اس کی آنکھ بند ہونے کی حالت میں یاتو اس کے ہاتھ میں ڈال دی جاتی ہے یا اس کے پاس ڈال دی جاتی ہے جس سے بچہ قولی وعملی اعتبار سے متاثر ہوکر اس کا ایمان بھی خراب ہوجاتا ہے اور اس کا عقیدہ بھی خراب ہوجاتا ہے۔
مشنری اسکولس کا ڈریس اور وضع قطع
رہی بات ڈریس کی تو یہاں اس سلسلہ میں ان کی گنگا الٹی ہی بہتی ہے، مطلب یہ ہے کہ لڑکا لڑکا ہونے کی وجہ سے اور لڑکی لڑکی ہونے کی وجہ سے فطری وخلقی اعتبار سے دونوں جسموں کی تقسیم، بناوٹ، نشیب وفراز واضح اعتبار سے مختلف ہے تب ہی تو مرد کے مقابلہ میں عورت کو صرف ”صنف عورت“ نہیں کہتے بلکہ ”صنف نازک“ کہتے ہیں یعنی صنف مقابل کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ مرد کی ضد ہے اور صنف نازک کہتے ہیں ایسی چیز کو جس کی فطرت وطبیعت کے اعتبار سے نرمی، نزاکت شرم وحیا مردکے مقابلہ میں بہت زیادہ ہو الغرض عورت ایک عورت اور لڑکی ایک لڑکی ہونے کی وجہ سے ایسے ڈریس اور ایسے جوڑے اختیار کرے کہ جس ڈریس Dressمیں زیادہ شرم وحیا کا لحاظ کیا جاسکے اور مرد کو شرم وحیا کم ہونے کی وجہ سے اپنے مطابق ڈریس اختیار کرے۔ جس ڈریس میں زیادہ بے حیائی ہوتی ہے اور مرد اور لڑکے کے لئے ایسا ڈریس ہوتا ہے جس سے اس کا سارا بدن ڈھک کر دور سے تو عورت ہی معلوم ہوتا ہے الغرض مرد کو عورت بنادیا جاتا ہے اور عورت کو مرد بنادیا جاتا ہے۔ مشنری اسکولس اور کالجس میں لڑکیوں کے لئے اور عورتوں کے لئے ایسا ڈریس لازمی قرار دیا جاتا ہے جس سے بے شرمی و بے حیائی میں اضافہ ہو اور فطرت وطبیعت میں فاسد مادہ اور فاسد خیال کا رجحان بڑھے اور پھر انجام کار وہ بدنظری، بے غیرتی، دوستی کے نام پر ڈیٹنگ Dating اور پکنک Picnic کے نام آزادی، تعیش پرستی اور یہاں تک جنسی اختلاط لازم آتا ہے اور پھر جب پڑھائی ختم ہوجاتی ہے تو لڑکا ایک طرف اور وہ لڑکی ایک دوسری طرف ہوجاتی ہے یعنی حقیقی سکون کو زندگی شروع کرنے سے پہلے ہی یہ لڑکا اور لڑکی اور خاص طو رپر لڑکی کی زندگی اجڑ جاتی ہے اور ان کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے غرضیکہ بچپن ہی سے بے حیائی والے ڈریس کا نتیجہ اتنے اندوہ ناک نتائج تک پہنچاتا ہے کہ کسی کو اس کا اندازہ ہوتا ہی نہیں ”لڑکی چھوٹی ہے، لڑکی کم سن ہے، لڑکی نادان ہے وغیرہ دل کو تسلی دے لیا جاتا ہے۔ ایک ہلکی سی نظر ڈالی جائے تو حقیقت آشکارا ہوجائے۔ دل کو بہلانے والے جملوں سے خود کو بھی تسلی دے لیتے ہیں اور دوسروں کے سوال پر انہیں جملوں کو جواب میں کہہ دیا جاتا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اسکول ڈریس پر ایک ہلکی سی نظر ڈالی جائے تاکہ اس کی حقیقت آشکارہ ہوجائے: (۱) خواہ بچی یا لڑکی LKGکی ہو یا دسویں جماعت Tenth Standard کی سب کو اپنے سر کے تمام بال کھلے رکھ کر آناضرورہے۔ (۲) اسکارف پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ (۳) اسکرٹ پہن کر آنا ضروری ہوگا، چھوٹی بچیوں و لڑکیوں کو اتنا بڑا اسکرٹ Skirt جو گھٹنوں سے اوپر نہ ہو اور بڑوں کو اتنا چھوٹا اسکرٹ کہ جو گھٹنوں سے نیچے نہ ہو یعنی لڑکی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی کم از کم ان کے ران، گھٹنے، پنڈلیاں تو ضرور نظر آئیں تاکہ بے حیا، بے شرم، مزاج ومذاق کے پیدا کرنے میںآ سانی ہوسکے اور یہ ڈریس بھی ایسا ہونا چاہئے کہ بالغ لڑکیوں کے سینہ پیٹ پیٹھ اور کولہے لباس کے چست اور تنگ ہونے کی وجہ سے صاف صاف نظر آئے۔ یہ سرتاپا بے حیائی وبے شرمی کو صرف پیدا کرنے والا ہی ڈریس نہیں بلکہ بے حیائی، بے شرمی اور بے غیرتی کو دعوت دینے والا ڈریس بھی ہے اور یہ بے شرمی و بے حیائی کا معاملہ صرف اسلام ہی کے پاس برا اور قبیح نہیں ہے بلکہ یہ خلاف عقل بھی ہے اور فطرت انسانی کے خلاف بغاوت بھی ہے جس کا سمجھنا صرف مسلمانوں پر ضروری نہیں بلکہ ساری دنیا کے عقلمندوں کو اور فطرت کے جاننے وماننے والوں کو بھی سمجھنا، سمجھانا اور اس پر کچھ عملی اقدام اور ایکشن Actionلینا بھی لازمی ہے۔
مخلوط تعلیم یعنی Co-Education
اہل دانش وبینش کے نزدیک اختلاف کے قابل ہے ہی نہیں کہ مخلوط تعلیم ہونی چاہئے یا نہیں۔ اس لئے کہ مخلوط تعلیم کا اصل مسئلہ تو ہمارے زمانے کے اعتبار سے Tv-Film Dance Programme والے جنریشن Generation کے لئے کس جماعت Classسے قابل تأمل اور قابل اعتراض ہے؟ اس سلسلہ میں تو طے کرنا بہت آسان ہے کہ کس جماعت Class سے مخلوط تعلیم بند کردینا چاہئے اس لئے کہ آج کے زمانے کا سب سے بڑا اسکولی فتنہ مخلوط تعلیم یعنی Co-Education کا ہے یہیں سے تعلیم کے ساتھ ساتھ فتنہ کا دروازہ کھل جاتا ہے جسے نہ تو کوئی گھر والا ٹوک سکتا ہے اور نہ کوئی اسکول والا اسے منع کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ آگ تو خود اسکول مینجمنٹ والوں نے اور خود سرپرستوں نے لگائی ہے مگر اس آگ میں جلنے والے معصوم صاف ذہن مراہق ونوبالغ لڑکے اور لڑکیاں ہوتی ہیں وہ ان کے پرسکون مستقبل کو برباد کردیتے ہیں۔
نصاب تعلیم یعنی Syllabus
جب نصاب تعلیم کی بات آتی ہے تو نصاب تعلیم میں دو طرح کے فرق معلوم ہوتے ہیں ایک فرق تو وہ ہے جو Positive مثبت انداز کا ہے۔ دوسرا منفی Negative انداز کا ہے، منفی انداز کا جو نصاب تعلیم ہے وہ تو کسی متعصب مزاج منصف یا متعصب مزاج تعلیم کے ذمہ داروں کا ہے جیساکہ مغلیہ سلطنت کے نیک عادل فرمانروا شہنشاہ اورنگ زیب کی کردار کشی کا ہے جنہیں ایک سنگ دل، متعصب، نافرمان اور ظالم وجابر کے رول میں بتلایاگیا ہے۔ یقینا یہ بھی انتہائی کم بختی اور کم نصیبی ہے کہ جس نے ہندوستان کی سیاسی معاشی ترقی میں اتنا اہم رول ادا کیا کہ شاید کبھی ہندوستان کو ایسے فرمانروا ملے ہوں۔ ایسے شخص ہی کو تاریخ کا خون کرنے والوں نے صرف تاریخ کا ہی نہیں بلکہ ہندوستان اور ہندوستان کے بسنے والے پڑوسی کا تاریخی واخلاقی خون کیا ہے۔
اسی طرح کا بلکہ اس سے بدترین حال عیسائی مشنری اسکولس کا ہے۔ جہاں طلبہ کو ایسے اسباق پڑھائے جاتے ہیں جس میں واضح انداز سے کفر وشرک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مناسب ہے کہ انگریزی درس نصاب کی تیسری جماعت III Classکے ایک سبق کا یہاں ذکر کردیا جائے تاکہ یہ بات دلیل وحجت کے طور پر معلوم ہوجائے۔
تیسری جماعت کی ایک کتاب میں لکڑہارا یعنی لکڑیاں پھوڑنے والے کا ایک واقعہ ہے جس میں اس کی کلہاڑی سمندر یا ندی میں گرجاتی ہے جس سے لکڑہارا پریشان ہوجاتا ہے اور سورج کا خدا جسے ”اپالو“ کہتے ہیں اسے پکارتا ہے اس کے کچھ ہی دیر بعد سورج کا خدا اپالو ظاہر ہوتا ہے اور نہر میں غوطہ لگاکر کلہاڑی لکڑہارے کے حوالہ کرتا ہے، دیکھئے اس سبق میں کھلے عام طلبہ کو شرک کی تعلیم دی جارہی ہے علاوہ ازیں کتنے ہی ایسے مشنری اسکولس ہیں جہاں تقریباً ہر کلاس میں بائبل کو داخل نصاب کیاگیا ہے۔ اگر کوئی طالب علم Student دوسری کتابوں میں کم نمبر لے آئے اور بائبل میں زیادہ نمبر لے آوے تو اسے ترقی دیجاتی ہے مگر اس کے برعکس دوسری کتابوں و سبجکٹس میں زیادہ نمبر لے آوے اور بائبل کے اسباق میں کم نمبر لے آوے تو اسے ترقی سے روک دیا جاتا ہے۔ یہ ایک دو مثالیں تھیں ورنہ تو مختلف عیسائی مشنری اسکولس میں مختلف قسم کے نصاب میں خاص نوعیت سے شرک کی دعوت دی جاتی ہے اور اس کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔
یہ وہ چند قابل ذکر باتیں تھیں جو یہاں ذکر کردی گئی ہیں، علاوہ ازیں بہت سارے ایسے حساس مسائل ہیں جو تفصیل طلب ہیں۔
***
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ ۶ ، جلد: ۹۴ ، جمادی الثانی- رجب ۱۴۳۱ ہجری مطابق جون ۲۰۱۰ ء