حرفِ آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
قرآن حکیم خیر کا سرچشمہ ہے۔ جتنی اور جیسی خیرتم اس سے مانگوگے یہ تمہیں دیگا تم اس سے محض جن بھوت بھگانا اور کھانسی بخار کا علاج اور مقدمہ کی کامیابی اور نوکری کا حصول اور ایسی ہی چھوٹی چھوٹی ذلیل بے حقیقت چیزیں مانگتے ہوتو یہی تمہیں ملیں گی اگر دنیا کی بادشاہی اور روئے زمین کی حکومت مانگوگے تو وہ بھی ملے گی اور اگر عرش الٰہی کے قریب پہنچناچاہوگے تو یہ تمہیں وہاں بھی پہنچائے گا یہ تمہارے اپنے ظرف کی بات ہے کہ سمندر سے پانی کی دو بوندیں مانگتے ہو ورنہ سمندر تو دریا بخشنے کے لیے بھی تیار ہے اجتماعی ترقی کے علاوہ قرآن نے ذاتی اور انفرادی سربلندی بھی بخشی ہے عامر بن واثلہ ابی الطفیل سے روایت ہے کہ نافع بن عبدالحارث عمر بن الخطاب سے عسفان کے مقام پر ملے۔ حضرت عمر نے ان کو مکہ کا امیر مقرر کیا تھا۔ پوچھا کہ اہل مکہ پر اپنی جگہ امارت پر کس کو چھوڑ کر آئے ہو نافع نے جواب دیا کہ ابن ابزی کو۔ خلیفہ دوم نے فرمایا کہ یہ ابن ابزی کون ہیں؟ نافع نے جواب دیا کہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا کیا تم اہل مکہ پر غلاموں کو امیروحاکم کرآئے ہو؟ نافع نے جواب دیا کہ ہاں اس لیے کہ وہ کتاب اللہ کا قاری اور فرائض وعلوم قرآنی کا عالم ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا ٹھیک ہے آنحضرت ٍصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”ان اللہ یرفع بہذا الکتاب اقواما ویضع بہ آخرین“
چنانچہ استیعاب میں علامہ ابن عبدالبر کو عبدالرحمن بن ابزی کے بارے میں یہ فقرہ لکھنا پڑا ”وقال فیہ عمر بن الخطاب عبدالرحمٰن بن ابزی ممن رفعہ اللہ بالقرآن“ حضرت عمر کا ارشاد ہے کہ عبدالرحمن بن ابزی ان لوگوں میں ہیں جن کو قرآن نے بلند مرتبہ پر پہنچایا۔ خوب سمجھ لیجئے کہ اللہ کا کلام انسان کے پاس اس لیے نہیں آتا کہ وہ بدبختی نکبت اور مصیبت میں مبتلا ہو۔ طٰہٰ o مَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ القُرْآنَ لِتَشْقٰی۔ ترجمہ یہ ہے کہ اس واسطے نہیں اتارا ہم نے تجھ پر قرآن کریم تو محنت میں پڑے۔ فی الحقیقت قرآن محنت اور شقاء نہیں ہے رحمت اور نور ہے۔ سعادت اور نیک بختی کا سرچشمہ ہے، شقاوت اور بدبختی کا ذریعہ نہیں ہے پس جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو اور پھر بھی ذلیل وخوار ہو، محکوم ومغلوب ہو تو سمجھ لیجئے کہ وہ ضرور کتاب الٰہی پر ظلم کررہی ہے نجات کی صورت صرف یہ ہے کہ اس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے اور اس کاحق ادا کرنے کی کوشش کی جائے، مگر ہوکیا رہا ہے؟ ہو یہ رہا ہے کہ آج ہر جماعت انبیاء کے راستہ کو چھوڑ کر گمراہ قوموں کی راہوں کو اختیار کرچکی ہے۔ وضع وقطع، تراش وخراش، صورت و سیرت، تعلیم وتربیت، تہذیب وتمدن اخلاق وعادات رفتار وگفتار، تجارت واقتصادی معاملات اور حکومت وسلطنت غرض زندگی کے ہر شعبہ میں اس کا رخ قرآن اور صاحب قرآن سے بالکل ہٹا ہوا ہے یہ زبان سے تو کہتے ہیں کہ منھ میرا کعبہ شریف کی طرف لیکن رفتار کی سمت لندن، پیرس، ماسکو، برلن اور نیویارک ہے۔ قاعدہ ہے جب کسی قوم کو اپنے نظام زندگی سے بے خبری اور علم سے بے بہرگی ہوجاتی ہے اور اپنے یقینیات و ایمانیات مشکوک ہوجاتے ہیں اور دوسری قوم کے رسم و رواج اور ظنیات دل میں گھر جاتے ہیں تو اس قوم کاہیولیٰ تبدیل ہوکر اوپر سے بظاہر وہی قوم معلوم ہوتی ہے لیکن اندر سے وہ دوسری قوم بن جاتی ہے۔ بعینہ یہی حال مسلمانوں کا ہے آج گمراہ قوموں اور فرقوں کی ایجاد واختراع، دولت وطاقت حکومت وسلطنت کی ظاہری چمک دمک نے ہماری آنکھوں کو خیرہ کردیا ہے۔ ان کی عریانی و بے پردگی، ان کی نفس پرستی وہوس ناکی خودپسندی ان کے تکبر واستکبار، ان کے کفر وعصیان کی ہر تصویر ہمارے دل کو پسند، ہمارے بچے جوان بوڑھے عورت اور مرد ہر ایک اسی کوشش میں ہے کہ ان گمراہ قوموں کے اس مشترک پیدا کردہ تہذیب وتمدن، طوروطریق، شکل ولباس، تعلیم و تربیت کی راہوں کی اقتدا کی تیز سے تیز دوڑ میں دوسروں سے آگے بڑھ جائے۔ انا للہ الخ۔
قرآن حکیم اتباع شریعت پر زور دیتا اور اتباع خواہشات و بدعات کی مذمت کرتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کا مخالف قرار دیتا ہے، راہِ ہدایت پکارتی ہے کہ اس راہ پر چلوراستہ یہ ہے کہ محدثات و بدعات اور خواہشات مچلنے لگتی ہیں اور طرح طرح کی رکاوٹیں سامنے لے آتی ہیں ”ھدی“ ایک آسمانی آئین ہے اس کے اتباع اور پیروی کرنے اور مان لینے میں محکومیت کا داغ لگتا ہے اور ”ھوی“ اپنے ہی نفس کے جذبات ہیں اس کے مان لینے میں حاکمیت کا مزہ آتا ہے۔ خواہشات اور اَہویٰ کا محرک چونکہ خود نفس انسانی ہے اس لیے وہ جسم انسانی میں جان کی طرح سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے اس لیے ان کا خلاف اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا کہ جسم کو جان کا۔ اور جب کبھی ان پر قرآن وحدیث کا ملمع چڑھ جاتا ہے تو اب وہ ”ہوی“ یعنی بدعات و خواہشات ٹھیک ”ہدی“ یعنی شریعت کی صورت نظر آنے لگتی ہے اور اس حد پر پہنچ کر انسان اپنے اندر اتنا سکون محسوس کرتا ہے کہ حق کی تلاش کا لفظ بھی سننا گوارہ نہیں کرتا اس لیے یہاں اب توبہ کی بھی امید نہیں رہتی۔ توبہ کی توفیق اس وقت ہوسکتی ہے جب کہ قلب کا گوشہ ”ہوی“ یعنی بدعات و خواہشات مذمومہ سے خالی ہو۔ آیت ذیل میں اس کی جانب اشارہ ہے۔
اَفَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ ہَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمْعِہ وَقَلْبِہ وَجَعَلَ عَلٰی بَصرِہ غِشَاوَة فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ (جاثیہ)
بھلا تونے اس کو دیکھا جس نے اپنا معبود بنالیا اپنی خواہش کو اور اس کو گمراہ کردیا اللہ نے علم ہوتے ہوئے اور مہر لگادی اس کے کان اور دل پر اور پیدا کردیا اس کی آنکھ پر پردہ تو اس کو کون راہ پر لائے اللہ کے سوا سو کیا تم سوچتے نہیں۔
سورہ جاثیہ کی اس آیت کو اوپر سے پڑھیے تو بات صاف ہوجاتی ہے کہ اختلافات اور فرقہ وارانہ کشمکش کی موجودگی میں امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰة والتحیہ کو بھی چاہیے کہ شریعت کے راستہ پر برابر مستقیم رہے کبھی بھول کر بھی جاہلوں اور نادانوں کی خواہشات پر نہ چلے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ ایسے لوگوں کی استعداد خراب ہے اور وہ اس قابل ہیں کہ سیدھی راہ سے بھٹکتے پھریں۔ اللہ بھی اس کو اس کی اختیار کردہ گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے۔ پھر نہ کان نصیحت سنتے ہیں نہ دل سچی بات کو سمجھتا ہے نہ آنکھ سے بصیرت کی روشنی نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ جس کو اس کی کرتوت کی بدولت ایسی حالت پر پہنچادے کون سی طاقت ہے جواس کے بعد اسے راہ پر لے آئے۔
***
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 5 ، جلد: 94 ، جمادی الاول – جمادی الثانی 1431ہجری مطابق مئی 2010 ء