از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی ، دہرہ دون

وزارت برائے سمندرپار شہری معاملات نے دنیا کے ۱۸۳ ممالک کے ۱۸۰ ممالک میں اعداد و شمار اکٹھا کرکے پیش کئے ہیں۔ جن کے مطابق ہندوستانی NRIکی بڑی تعداد دنیا کے پانچ ممالک میں اکٹھا ہے۔ سب سے زیادہ ہندوستانی لگ بھگ ۱۸ لاکھ سعودی عرب میں رہتے ہیں۔ دوسرے نمبر پندرہ لاکھ U.A.E میں، امریکہ میں صرف ۹ لاکھ، برطانیہ میں ۷ لاکھ، کویت میں ۵لاکھ، ۸۰ ہزار اومان میں، ۵ لاکھ ۵۰ ہزار NRIغیرمقیم ہندوستانی رہتے ہیں۔ ہندوستان سے باہر جانے والوں میں سب سے زیادہ اضافہ خلیج کے علاقہ میں ہوا ہے۔ جہاں ۱۹۶۰ء میں شرح 4/6% تھی اور اب 38.6% ہے۔ امریکہ میں 6.7% سے 14.2% اور یوروپ میں 3.5% سے 9.7% ہی ہے۔

مندرجہ بالا اعداد وشمار نے بہت سے غلط توہمات اور مسلم مخالف پروپیگنڈہ کے غبارہ کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان اعداد وشمار کو مسلم تنظیموں کے ذریعہ بڑے پیمانہ پر عام کیا جائے۔ ہمارا مسلم/ عرب مخالف میڈیا، سنگھ پریوار اور سرکاری انتظامیہ کا ایک موٴثر طبقہ دن رات یہ بتاتا رہتا ہے کہ مسلم ممالک میں ہندوؤں سے برا رویہ اپنایا جاتا ہے اس سے تعصب برتا جاتا ہے۔ مسلم ممالک سے دوستی میں صرف مسلم ممالک کو فائدہ ہوتا ہے۔ مگر اعدادوشمار بتارہے ہیں کہ مسلم اور غیرمسلم عام ہنرمند ہندوستانیوں کی بڑی تعداد مسلم خلیجی ممالک میں پیسہ کماکر ہندوستان بھیج رہی ہے جس سے ملک بھی مضبوط ہورہا ہے اور انتہائی غریب لوگ عزت سے پیسہ کماپارہے ہیں۔ ایک اہم بات اس ضمن میں یہ بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ مسلم ممالک کو جانے والے لوگ عموماً کم پڑھے لکھے اور غیرہنرمند یا کم ہنرمند ہوتے ہیں۔ اس طبقہ کو ہندوستان کے نئے چاہنے والوں امریکہ اور یوروپ میں کوئی نہیں پوچھتا ہے۔ وہ تو انہیں پڑھے لکھے پیشہ ور اعلیٰ تعلیم یافتہ کو منھ لگاتے ہیں جن کی تعلیم و تربیت پر ہندوستان کا نظام لاکھوں روپیہ لگاچکا ہوتا ہے اور جب پھل دینے کا وقت ہے تو یہ لالچی خود غرض دیش بھگت خدمت کرنے امریکہ اور یوروپ پہنچ جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ عموماً اپنے خاندانوں کو ساتھ رکھتے ہیں اس لئے اپنی کمائی کا بڑا حصہ وہیں پر رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں بیرونی ممالک سے آنے والی رقوم کا بڑا حصہ خلیج سے ہی آتا ہے۔ جبکہ وہاں پر رہنے والے ہندوستانی غریب بھی ہیں اور لازماً کم تنخواہ والے بھی ہیں۔ انہیں کی رقومات سے ملک کا فارن ریزور کاذخیرہ بڑھتا ہے۔ ملک کی قرض لینے اور سرمایہ کاری کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ ملک کی G.D.P. پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ ملک میں بے روزگاری، غریبی، صحت اور تعلیم کے مسائل دور ہوتے ہیں۔ اس کا واضح اثر ان علاقوں کی طرز زندگی پر دیکھا جاسکتا ہے جہاں بڑے پیمانہ پر آبادی خلیجی ممالک میں برسرِ روزگار ہے۔

مگر غور کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان کی ترقی میں خلیجی ممالک کے ریال کا اتنا بڑا اثر ہونے کے باوجود اِن تمام ممالک خصوصاً سعودی عرب کی منفی تصویر بنائی گئی ہے اس میں ہمارے یہاں کے سیکولر دانش ور، نام نہاد دفاعی ماہرین اور ہندی انگریزی میڈیا و سرکاری اداروں کا رول نہایت شرانگیز اور شرمناک ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ آپ اصول پسندی کی دہائی دیں یا قدیم تہذیبی رشتوں کی دہائی دیں بلکہ اب تو ہر رشتہ اور تعلق کی بنیاد ”مفاد“ پر مبنی ہے۔ خالص مفاد پرستی کے لحاظ سے ہی دیکھیں تو بھی خلیجی مسلم ممالک کا پلڑا ہی بھاری ہے۔ یوروپ اور امریکہ جو سائنس ٹکنالوجی اور سب سے بڑی بات ہتھیار کی سپلائی کرتا ہے وہ دنیا میں ہر ترقی یافتہ ملک میں مہیا ہے۔ مگر جو چیز توانائی، پٹرول اور گیس اور روزگار اور گاہکوں کی منڈی ہمیں مسلم خلیج دیتا ہے اس کا متبادل ہمارے پاس نہیں ہے۔ مغرب کی تاریخ ہمارے ملک میں دیکھیں تو وہ خود انتہائی مکروہ اوراستحصال سے بھرپور ہے۔ ہمارا ایک مخصوص طبقہ آج کل اسرائیل کا بڑا حمایتی ہے اس کی حمایت کرتا ہے اُس کو ماڈل ملک بناکر پیش کرتا ہے۔ ہندوستان کے تحفظ میں اس کا بہت رول دیکھتا ہے۔ مگر اعداد وشمار اورحقائق کی روشنی میں جائزہ لیں تو ”مفاد“ کی کسوٹی پر وہ کہیں بھی خلیج اور مسلم ممالک کے برابر نہیں ٹھہرتا جنہیں ہم خواہ مخواہ اپنا دشمن بتانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسرائیل میں کتنے لاکھ ہندوستانیوں کو روزگار ملا ہوا ہے؟ اسرائیل ہمارے ملک سے کیا کیا خریدتا ہے؟ ہماری کیا مصنوعات یا زرعی پیداوار وہاں سے زرمبادلہ کماتی ہیں یہ تمام معلومات کبھی میڈیا نہیں بتاتا۔ بتاتا صرف یہ ہے کہ ہم وہاں سے اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدرہے ہیں اور اُس کے خزانہ کو بھر رہے ہیں۔ جو ملک اپنی تمام ٹکنالوجی، ملٹری، بے رحمی اورآلات کے بعد امن نہیں حاصل کرسکا ہم اس سے تحفظ کا طریقہ اختیار کرنے کے نام پر اربوں ڈالر اسے سونپ رہے ہیں۔ وہ قوم جس نے ہمیشہ محسنوں سے دغا کیا ہے وہ ہمارے یہاں اندرونی خلفشار بڑھاکر اپنی واحد اسلحہ کی تجارت کو نہیں بڑھائے گی اس کی کیا گارنٹی ہے؟ حال ہی میں اسرائیل سرکار کی اپنے شہریوں کو جاری کی گئی سفری احتیاط میں ہندوستان کے سفر سے متنبہ کیا ہے اور ہندوستان کی حکومت کو دہشت گردحملہ کی خفیہ اطلاع دی ہے اور دودن بعد ہی گوا میں ہندودہشت گردوں نے مندر اور اس کے آس پاس دھماکہ کردئیے۔ یہ خبر بھی بہت اہم ہے کہ اس سناتن دھرم دہشت گرد تنظیم کے آشرم میں غیرملکی آتے رہے ہیں اور دھماکہ والے دن بھی وہاں غیرملکی موجودتھے۔ اب دو دن بعد پورا میڈیا خبر کو دباکر بیٹھ گیا ہے۔ پکڑے گئے لوگوں کی تفصیل ان کی پوچھ تاچھ کے حوالہ سے نہیں آرہی ہے کہ یہ غیرملکی کون تھے؟ اس سے پیشتر 26/11 ممبئی محلوں میں بھی یہودی عبادت گاہ ناریمن ہاؤس کی مشتبہ سرگرمیوں پر ہمارے دیش بھگت سرکاری اور غیرسرکاری حلقہ خاموش ہیں۔ خلیجی ممالک سے آنے والی سرکاری غیرسرکاری مالی امداد پر بڑا شورشرابہ ہوتا ہے مگر خود بھارت سرکار کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ کسی بھی مسلم ادارہ کو دس کروڑ سالانہ سے زیادہ یا اس کے آس پاس مدد نہیں ملتی جبکہ یوروپی، امریکی ممالک سے عیسائی اور ہندو تنظیموں کو اربوں روپیہ کی مالی امداد ملتی ہے۔ اگر ”مفاد“ ہی کسوٹی ہے تو کیا خلیجی ممالک سے ہندوستان کو ہونے والے فوائد اور اسرائیل، امریکہ ،یوروپ سے ہونے والے فوائد برابر ہیں؟ اس مسئلہ پر بحث ہونی ضروری ہے۔

***

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 3 ، جلد: 94 ربيع الاول – ربيع الثانى 1431 هـ مطابق مارچ 2010 ء

Related Posts