از: شفیق احمد الاعظمی ، امام و خطیب مسجد وزارت اوقاف، ابوظبی

اسلام ایک آفاقی انقلاب آفریں مذہب بن کر آیااور رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے اسلامی نظام ہائے زندگی کا ایسا جامع مدلل اورکامل دستور پیش کیاجو انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور شعبوں کا احاطہ کرتا ہے، اور اسی کے ذریعہ آپ  صلى الله عليه وسلم نے ہمہ گیر ایمانی، فکری، علمی، تمدنی، سماجی اور سیاسی انقلاب برپا کیا، اسلام نے نہ صرف عربوں کی اصلاح و تربیت کرکے ان کو تحت الثریٰ سے اوج ثریا تک پہنچایا بلکہ عربوں نے حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم کی تحریک اصلاح کو دنیا کے گوشہ گوشہ تک پہنچانے میں سب سے سرگرم کردار ادا کیا، یہاں تک کہ اسلامی تعلیمات جزیرہ نمائے عرب سے نکل کر یورپ و افریقہ اور ایشیاتک پہنچ گئیں، چوں کہ مذہب اسلام آخری اور عالمی دین ہے، لہٰذا اس نے زمان ومکان، رنگ ونسل، قوم وعلاقہ سے بلندہوکر پوری انسانیت پر اپنے اثرات مرتب کیے، اسلامی تہذیب اور قرآنی تعلیم نے بین الاقوامی سطح پر ہر قوم و ملت کو متأثر کیا، علوم وفنون، تہذیب وتمدن اور ایجادات و تحقیقات کے میدان میں ایسے نابغہٴ روزگار، باکمال افراد اتارے جن کے حیرت انگیز کارناموں نے دنیا کو غرق حیرت کردیا، مسلمانوں نے ایک طرف ایمان ویقین کا ایسا مظاہرہ کیا کہ فرشتوں کو بھی رشک آنے لگا تو دوسری جانب ایسے ایسے علوم و فنون ایجاد کیے اور تحقیقات و اکتشافات کے نمونے پیش کیے کہ اقوام عالم ان کی خوشہ چینی پر مجبور ہوگئیں۔

علمی انقلاب کا آغاز

اسلام نے سب سے پہلے تحصیل علم کو بنیاد بناکر اپنے ہمہ گیر انقلاب کا آغاز کیا اس لیے علم میں ہر قسم کی روحانی و مادی ترقیات کا زینہ ہے، جو دل ودماغ کے بند دریچوں کو کھولتا ہے، کیوں کہ علم صفت الٰہی ہے اور اس صفت کے ذریعہ اس نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت عطا فرمائی ہے، اگر انسان کے پاس علم اور عقل کا سرمایہٴ افتخار و امتیاز نہ ہوتا تو پھر انسان سب سے کمتر وارذل حیثیت کا ایک جانور ہوتا، لیکن ان دونوں صفات نے اس کو ممتاز و نمایاں مقام بخشا، اور اسلام نے انہیں دونوں کو اساس بناکر نسل انسانی کو عروج و ارتقاء کی چوٹیوں پر لاکھڑا کیا۔

اسلام نے تحصیل علوم کو ایک تحریک کے طور پر اپنے متبعین پر لازم قرار دیا، یہاں تک کہ سب سے پہلی آیت جو غارِ حراء میں محمد  صلى الله عليه وسلم پر نازل ہوئی اس میں قرأت، علم، قلم کا بطور خاص ذکر فرمایاہے، بلکہ پڑھنے کو امر کے صیغہ ”اقراء“ کے ذریعہ واجب کردیا۔

اقرأ باسم ربک الذی خلق․ خلق الانسان من علق․ اقرأ وربک الاکرم․ الذی علم بالقلم․ علم الانسان مالم یعلم․ (سورئہ علق:۱-۵)

پڑھئیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو خون بستہ سے، پڑھئیے اور آپ کا رب وہ ہے،جس نے سکھلایا قلم سے، سکھلایا انسان کو وہ چیز جس کو اس نے نہیں جانا۔

علم، طلبہ، علماء کے بلند مقام کو قرآنی آیات اور احادیث رسول  صلى الله عليه وسلم کے ذریعہ بیان فرماکر تحصیل علوم کی ترغیب دی ہے،اور علم کو عام رکھا یہی خاص حکمت ہے،اس میں دینی ودنیوی، قرآنی اور عصری تمام علوم وفنون شامل ہیں۔ ”أثر الاسلام علی الثقافة الاسلامیہ“ کے مصنف محمود علی شرقاوی رقم طراز ہیں:

یہاں علم سے مراد صرف حرام وحلال یعنی احکام شرعیہ کا علم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ان تمام چیزوں سے واقفیت ہے جن کے ذریعہ انسان اپنے ان فرائض اور ذمہ داریوں کو کما حقہ پورا کرسکے،جس کے لیے اسے زمین پر خلیفہ بنایاگیا ہے، یعنی زمین کی تعمیر، اس کے خزانوں کی دریافت اوراس میں چھپے ہوئے اسرار و رموز کا انکشاف،اس میں وہ علم بھی شامل ہے، جو نباتات اور پیڑپودوں کی ترقی اور نشوونما میں مددگار ہو اور زمین کی بہتر پیداوار، نیز اس کی زرخیزی میں معاونت کرے، قرآن اس علم کی طرف بھی دعوت دیتا ہے، جس کے ذریعہ حیوانات اور جانوروں کی بہتری ہوسکے، انہیں انسان کی خدمت کے لیے مسخر کیا جاسکے، اس میں اس علم کا حصول بھی ضروری ہے جس کے ذریعہ جائز طریقوں سے کسب معاش اور دولت کا حصول ممکن ہو،اس میں اس علم کی تحصیل بھی شامل ہے جس کے ذریعہ انسان مختلف امراض اور بیماریوں سے نجات پاسکے، الغرض وہ تمام علوم جو انسانیت کے لیے مفید اور نفع بخش ثابت ہوں، قرآن کریم اور سنت نبوی  صلى الله عليه وسلم کی رو سے ہر انسان کو حاصل کرنا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی نظر میں علم کو انسانی زندگی کے تمام عناصر میں اولین عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔

مسلمانوں نے علوم دینیہ پر پہلے توجہ دی، خاص کر عہدِ رسول اور عصر صحابہ میں قرآنی و دینی علوم کی تحصیل و ترویج پرزیادہ زور رہا،اس کے بعد اموی دورمیں دیگر فنون پر توجہ مبذول ہوئی، اور عباسی خلافت اور اندلس میں مسلمانوں کی حکومت سے ہمہ گیر پیمانہ پر علوم وفنون کی تحصیل و ترویج اور تحقیق و تبحیث کا کام شروع ہوا، مسلمانوں نے مکاتب، مدارس، جامعات، تحقیقاتی مراکز، تراجم کے ادارے قائم کیے، اور ان اداروں اور مدارس سے نابغہٴ روزگار علماء، فضلاء، محققین، مصنّفین، موٴرخین اور سائنسداں تیار ہوکر نکلے، اوریہ مدارس و مکاتب برابر تعلیمی و تربیتی کردار ادا کرتے رہے،اورآج بھی ان کا اپنا کام جاری ہے، اسلامی عہد خلافت میں علوم وفنون کی تحصیل و ترویج کاکام جنگی پیمانہ پر ہونے لگا تھا۔

علمی سرگرمیاں اور مساجد ومدارس

پہلے پہلے مساجد میں مدارس کا کام ہوتا تھا، پھر چوتھی صدی ہجری میں سب سے پہلا مدرسہ علیحدہ عمارت میں قائم ہوا،مشہور مفکر عالم ناجی معروف لکھتے ہیں:

سب سے پہلے مدرسہ کا نام ”المدرسة الصادریہ“ تھا جس کی بنیاد شام میں ۳۵۰ھ میں پڑی، پانچویں صدی ہجری میں مدرسہ صادریہ کے نہج پر کئی دوسرے مدارس قائم ہوئے جن میں قابل ذکر ”مدرسہ بیہقیہ“ اور مدرسہ سعدیہ ہیں جن کی بنیاد نیشاپور میں پڑی۔ (بحوالہ نشأة المدارس المستقلة فی الاسلام ص:۴/۵) اس کے بعد اسلامی دنیا کا سب سے معروف و مقبول مدرسہ نظامیہ قائم ہوا،جس کو سلطان ارسلان سلجوقی کے علم دوست وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی نے قائم کیا،اور بغداد میں ساتویں صدی ہجری میں عباسی خلیفہ مستنصر باللہ نے ۶۲۵ھ میں مدرسہ مستنصریہ کے نام سے قائم کیا،اور ۶۵۶ھ تک صرف بغداد میں اس طرح کل ۳۸ مدرسے بن چکے تھے۔ (بحوالہ نشأة المدارس المستقلة ص۵)

فاطمیوں کے دورِ حکومت میں مصر میں بہت سے بڑے بڑے مدارس قائم ہوئے اور صرف قاہرہ میں ۲۰ جامعات قائم ہوچکی تھیں، حاکم بامر اللہ فاطمی فرماں روا نے دارالعلم یا دارالحکمة نامی ایک زبردست درسگاہ تعمیر کروائی تھی، جس میں ایک اعلیٰ درجہ کا عمومی کتب خانہ بھی تھا، جس میں نادر کتابوں کا عظیم الشان ذخیرہ تھا،ایوبی دورِ حکومت میں صلاح الدین ایوبی رحمة الله عليه کے بھائی الملک عادل نے المدرسة العادلة نام سے بنوایا، قاہرہ میں المدرسة الذہبیہ اور فسطاط میں المدرسة الناصریہ قائم کیاگیا، ایوبیوں کے دور حکومت میں مصر کے اندر ۲۵ بڑے مدارس قائم ہوئے، ہزاروں مکاتب بنائے گئے۔

اندلس میں صرف قرطبہ کے اندر الحکم المستنصر الثانی بن عبدالرحمن الناصر کے دورحکومت میں ۳۵۰ھ تا ۳۶۶ھ) میں ۸۰ عظیم الشان درسگاہیں تھیں، غرناطہ میں جامعہ علمیہ کبریٰ کے علاوہ جس کی بنیاد سلطان یوسف ابوالحجاج نے رکھی تھی، کل سترہ بڑے مرکزی ادارے تھے، ان تمام مرکزی ادارے میں بلافیس تعلیم ہوتی تھی،اور طلبہ کو اسکالر شپ دی جاتی تھی۔

کتب خانے اور مراکز تراجم

علمی مراکز اور کتب خانوں کی تعمیر میں بھی مسلمانوں نے حیرت انگیز رول ادا کیا ہے، قاہرہ، بغداد، دمشق، قرطبہ، غرناطہ میں بہت عظیم الشان کتب خانے، لائبریریاں تھیں، جن میں ہزاروں نادر ونایاب کتابیں ہوا کرتی تھیں، علمی مجالس قائم ہوتی تھیں، تحقیق و تصنیف کا کام اعلیٰ پیمانہ پر ہوتا تھا، عام مطالعہ کے لیے بڑے بڑے ہال بنائے گئے تھے، بیت الحکمة اور خزانة الحکمة جیسے علمی مراکز میں ہزاروں علماء تحقیق میں مصروف ہوتے تھے، جن کی سرپرستی خلیفہ کرتے تھے، دوسری زبانوں کے اہم کتابوں کے تراجم ہوتے تھے، مامون رشید نے قصیرروم کے پاس سے منطق، فلسفہ کی اہم کتابوں کو منگواکر ان کا ترجمہ کرایا، اور عربی زبان میں منتقل کرایا۔ (ضحی الاسلام ج:۲، ص:۶۱، مصنف احمد امین مصری)

اندلس کے فرماں روا حکم بن ناصر نے قرطبہ میں اپنے محل کے اندرایک عظیم الشان کتب خانہ بنایا تھا، جس میں ۴ لاکھ کتابیں تھیں، ”اعلام العرب فی الکیمیا“ کے مصنف لکھتے ہیں کہ ”خالد بن ولید بن معاویہ نے سب سے پہلے یونانی علوم کو عربی زبان میں منتقل کرایا، اس سلسلہ میں ان کو اولیت حاصل ہے“(ص:۱۷)

ابتداء میں یونانی، سریانی اور فارسی کتابوں کے عربی تراجم بہت گنجلک ہوا کرتے تھے، خالص لفظی تراجم کا التزام تھا،مگر آٹھویں صدی ہجری میں حنین بن اسحاق نے سلیس رواں اور بامحاورہ عربی میں ترجمہ شروع کیا، انھوں نے عربی زبان میں مہارت خلیل بن احمد فراہیدی کے شاگردوں سے حاصل کی تھی، روم کا سفر کرکے وہاں یونانی زبان پر قدرت حاصل کی، اس کے بعد فصیح و بلیغ رواں اور دل کش تراجم کا رواج عام ہوتا گیا، عباسی خلفاء کے دربار میں حنین بن اسحاق کو عزت ومنزلت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، مامون رشید ان کے تراجم کو عزیز رکھتا تھا، اور سبھی مترجمین کو کتاب کے وزن کے بقدر چاندی سونا دیتا تھا۔ (الاعلام ج:۲، ص:۲۲۷)

فارس کے لوگوں نے جب اسلام قبول کیا اور اپنی صلاحیت ولیاقت سے دربار خلافت میں بلند مرتبہ پایا تو علماء فارس نے ترجمہ کے میدان میں اہم کارنامے انجام دیے، عبداللہ بن المقفع نے کلیلہ دمنہ جیسی اہم ادبی کتاب کو فارسی سے سلیس فصیح رواں عربی میں منتقل کیا، جس پر ترجمہ کا گمان تک نہیں ہوتا،اس کے علاوہ منطق وطب کی بعض اہم کتابوں کا بھی عربی میں ترجمہ کیا ہے، فلسفی ابویوسف یعقوب نے بھی کتابوں کے تراجم میں بہت اعلیٰ پیمانہ پر کام کیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ترجمہ و تالیف کی علمی و فکری تحریک مامون کے زمانہ میں خوب پروان چڑھی، مشہور مستشرق کارل بروکلمان کہتا ہے کہ ابویوسف یعقوب نے ترجمہ کے ذریعہ ارسطو اور افلاطون کے فلسفے سے اپنے ہم وطنوں کو متعارف ہی نہیں کرایا بلکہ اس نے فلسفہ پر کتابیں بھی تالیف کیں۔ (بحوالہ المامون خلیفہ العالم ص:۱۱۶، از محمد مصطفی ہدارہ)

علم فلکیات اورمسلمان

علم فلکیات میں مسلمانوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، اس فن میں انھوں نے کافی ترقی کی تھی، عباسی خلیفہ مامون الرشید نے بغداد میں بیت الحکمة قائم کیا تھا، جس میں ہزاروں نادر ونایاب کتابوں کے علاوہ ایک فلکی درس گاہ بھی بنائی تھی، جس میں ماہرین فلکیات کا ایک گروہ ستاروں کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھتا تھا، اوراس نے ستاروں کی چال معلوم کرنے کے لیے خبر بھی تیار کی تھی، اور زمین کے حجم کو ناپنے کا آلہ بھی تیار کیا تھا، زمینی وفلکی دوریاں ناپنے کے لیے جن مسلم سائنسدانوں نے آلہ تیار کیاتھا، اس میں سرفہرست خالد بن عبدالملک مروزی، سندبن علی اور علی بن عیسیٰ اضطرلابی ہیں، اور بیت الحکمة کا سربراہ و نگراں یحییٰ بن ابی منصور اس ٹیم کا صدر تھا، اور رات دن کی عرق ریزی کے بعد ۲۱۵ھ تا ۲۱۷ھ کے درمیان بغداد کے جبل کاسیہ اور دمشق کے جبل قاسیون پر اضطرلاب (فلکی آلہ) کا کامیاب تجربہ کیاگیا، علم فلکیات کے ماہرین میں موسیٰ بن شاکر، ابومعشر بلخی اور ثابت بن قرہ اور بیرونی دبوز جانی کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی اور ان کی کتابوں کا لاطینی زبانوں میں ترجمہ ہوا جس سے یورپ نے بھرپور استفادہ کیا۔

علوم طب کی اشاعت میں مسلمانوں کا حصہ

اسلام نے علم الطب کو حفظان صحت کے لیے اللہ کا انعام قرار دیا ہے، رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے علاج ومعالجہ کے لیے بہت سے طبی اصول اورنسخے صحابہٴ کرام کو بتائے اور سکھائے، طب نبوی سے متعلق احادیث کا اہم ذخیرہ موجود ہے، خاص کر شہد کے فوائد، کلونجی، مسواک وغیرہ کے طبی فوائد سے متعلق احادیث اہم کتابوں میں مذکور ہیں۔ مسلمانوں نے علم الطب پر زبردست کام کیا ہے، اوراہم ترین حکماء اور اطباء کا ایک سلسلة الذہب ہے، رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم کے زمانہ مبارکہ میں صحابہ کرام علاج تو کرتے ہی تھے، آپ نے غیرمسلموں سے بھی علاج میں مدد لی ہے، حضرت سعد بن معاذ کے علاج کے لیے حارث بن کلدہ سے کہا تھا جو غیرمسلم تھا، عہد وسطیٰ میں اسلامی طب کی کئی شاخیں ہوگئی تھیں جن کے ماہرین اطباء ہوتے تھے۔

مسلمانوں نے علوم طب پر اہم ترین تصنیفات سے دنیا کو مالامال کیا ہے، ابن سینا نے فن طب میں ”القانون“ جیسا انسائیکلوپیڈیا تیار کردیا،اس میں عرب، یونان اور سریان واقباط کے طبی اصولوں اور علوم کو جمع کیاہے، پھر اس نے اپنے تجربات بھی تحریر کیے ہیں، ۷۶۰ دواؤں کی تشخیص کی ہے، القانون کو گیرارڈ کریمونا (Gerard Cremona) نے لاطینی زبان میں منتقل کیا، علی ابن عباس ”وفات ۹۹۴/“ کی مشہور کتاب الملکی فی الطب یورپ میں چھ صدی تک متداول رہی۔ (بحوالہ تاریخ العرب العام ج:۲، ص:۷۷)

اسی طرح خلف بن قاسم زہراوی (وفات ۱۰۱۳/) کی کتاب ”التصریف لمن عجز عن التالیف“ یورپ میں بہت مقبول رہی، اس میں زہراوی نے سرجری و آپریشن کی تشریح کی ہے، مثانہ کی اندرونی پتھری کو توڑنے کا طریقہ بتایا ہے،اور شریانوں کے جوڑنے کے طریقے بھی بتائے ہیں، یورپ میں یہ کتاب ایک مرجع و مآخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ حنین ابن اسحاق نے آنکھوں کے امراض سے متعلق ”العشر المقالات فی العین“ تحریر کی، آنکھوں کے علاج میں یہ سب سے پہلی کتاب ہے، اسلامی عورتوں نے بھی طبی خدمات میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں، عہد رسول میں حضرت رفیدہ الانصافیہ کاجنگی زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے کیمپ لگتا تھا، ام عطیہ الانصاریہ اور نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہن نے غزوئہ احد کے زخمیوں کا علاج خیموں میں کرتی تھیں۔

مغربی محققین کا ماننا ہے کہ عربوں نے ہی سب سے پہلے علم ادویہ ایجادکیاہے، بعد میں اس فن کو یورپ نے اختیار کیا، انہیں اصولوں پر جدید میڈیکل سائنس کی بنیاد پڑی، آج بھی بہت سی دواؤں کے نام عربی ہی میں یورپ کی طبی ڈکشنریوں میں ملتے ہیں، عربوں نے ہی دواخانہ کو ترقی دے کر بامِ عروج تک پہنچایا، دواخانہ کے کالج کی بنیاد رکھی، ڈسپنسری کے کالج قائم کیے، سب سے پہلے ”سابوربن سہل“ نے دواسازی کی کتاب لکھی اور دواؤں کے ناموں کا رجسٹر تیار کیا، عرب مسلمانوں کی تحریر کردہ چند انتہائی مشہور کتابوں میں سے رازی کی کتاب ”حاوی“ انطاء کی کتاب ”تذکرہ دواء“ اور ابن بیطار کی کتاب ”الجامع المفردات الادویہ والاغذیہ“ بیرونی کتاب ”کتاب صیدلہ،کتاب العقاقیر“

علم کیمیا اور مسلم سائنسداں

علم کیمیا میں بھی مسلم سائنسدانوں کا نام سرفہرست آتا ہے، جابر بن حبان کو علم کیمیا کا باوا آدم کہا جاتا ہے، ابن خلدون علم کیمیا کو جابر بن حبان کی طرف منسوب کرتے تھے۔ (مقدمہ ابن خلدون:۴) ابن حبان نے علمی تجربہ اور ملاحظات کی بنیادپر اپنی کیمیائی تحقیق کا آغاز کیا، اس نے سب سے پہلے سارے کیمیائی تجربات جیسے تبخیر، تقطیر، کشید، تکلیس، (Caleinateon) اور اذالہ (پگھلانے) کا ذکر کیا ہے، اور اطباء میں سب سے بڑا کیمیا دان ابوبکر رازی (وفات ۹۹۴/) کو مانا جاتا ہے، ان کی کتاب سرالاسرار کا ترجمہ ”جے روسکا“ نے کیا ہے،اور اس کی شرح بھی لکھی ہے، دوسرے مشہور کیمیا دان ”علی جَلدَکی“ (وفات ۱۳۶۲/) کا نام آتا ہے، جنھوں نے جوہر کا انکشاف کیا ہے، اور معدنیات وکیمیائی عناصر میں جوہر کے راز کو بتایا۔

علم الطبیعہ

علم الطبیعات پر قدیم دور کے مسلم علماء کے تجربات بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، مشہور ماہرین میں حسن ابن ہشیم (وفات ۱۰۲۹/) اور ابوریحان البیرونی (وفات ۱۰۴۸/) میں ابن الہشیم علم الریاض کا بھی ماہر مسلم سائنسدان تھا، اس میں اس کی شہرت زیادہ ہے،اس نے روشنی کے انعکاس کو واضح کیا، اور سائنٹفک طریقہ پر روشنی کے عکس کا مطالعہ کیا،اس کا کہنا تھا کہ روشنی مرئیات سے پھوٹتی ہے،اور یہ ایک انقلابی تحقیق تھی، اس کی شہرئہ آفاق کتاب ”المناظر“ ہے جس کا ترجمہ انگریزی میں ”فریڈریک ریزنر“ نے کیا ہے اور کنزالبصریات کے نام سے سوئزرلینڈ سے شائع ہوئی ہے، یورپ کے مشہور سائنسدانوں جیسے وائی ٹلو، روجر بیکن، اور لیونارڈ ومینسی، کلیر وغیرہ اس کتاب سے بے انتہا متأثر تھے، اوراس کو معلومات کا خزانہ کہتے تھے، ابوریحان البیرونی کا علم الطبیعات وعلم الریاضیات کے مشہورمسلم سائنسدانوں میں شمار ہوتا ہے۔ مستشرق ایڈورڈ سخاؤ کہتا ہے کہ تاریخ عالم کا سب سے زیادہ عقل مند شخص بیرونی ہے،اور زمین کی کشش کے سلسلے میں نیوٹن نے بیرونی اور ابن سینا کے افکار ونظریات کی مدد سے ضابطہٴ کشش کی راہ ہموار کی۔ (بحوالہ اثرالعرب فی الحضارة العربیة ص:۱۴۰)

لیکن جب مسلمانوں میں علمی وفکری زوال آیا تو یہ تمام علمی سرمایہ یا تو یورپ منتقل ہوگیا جس پر یورپ نے اپنے علم وفن کی بنیاد رکھی اور بے مثال ترقی کی،یا پھر اس کا اکثر حصہ ضائع اور برباد ہوگیا، کچھ تو تاتاریوں کی یورش سے اورکچھ دوسرے اسباب وعوامل سے اور مسلمان طاؤس ورباب میں مشغول ہوکر انحطاط وزوال کے راستے پر چل پڑے جس کا نتیجہ آج مسلمانوں کی محکومیت ومظلومیت کی شکل میں ہم دیکھ رہے ہیں، علامہ اقبال نے اسی کو اپنے درد بھرے انداز میں فرمایا:

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

***

مآخذ ومصادر:

(۱)           ضحی الاسلام:                                                از دکتور احمد امین مصری

(۲)           نشأة المدارس المستقلة فی الاسلام:                          از ناجی معروف

(۳)          فضل العرب علی الحضارة العالمیة:                           از احمد فواد لاہوانی

(۴)          حضارة العرب:                                               از کستاڈلیبون

(۵)          اعلام العرب فی الکیمیا:

(۶)           المامون الخلیفہ العام:                                         ازمحمدمصطفی ہدارہ

(۷)          مقدمہ ابن خلدون:                                         از الموٴرخ ابن خلدون

(۸)          اثرالعرب فی الحضارة العربیة:                              از عباس محمود عقاد

(۹)           اثرالاسلام علی الحضارة العالمیة:                             از محمود علی شرقاوی

_________________________________

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 93 ذیقعدہ 1430 ھ مطابق نومبر 2009ء

Related Posts