کیا کبھی سیاست اور تعلیم میں بھی “عام آدمی” کی “جے” ہوگی؟

از: ڈاکٹرایم اجمل فاروقی ، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

ہندوستان نے ماہ مئی جون ۲۰۰۹/ میں دو طرح کے نتائج سلسلہ وار دیکھے۔ ہندوستانی پارلیمنٹ کے انتخابات کے نتائج اور مختلف درجات اور پیشہ وارانہ کورسیز I.A.S.، I.F.S. ، I.P.S. کے علاوہ دسویں اور بارہویں کے مختلف مرکزی بورڈوں، IIT اور انجینئرنگ کے مقابلہ جاتی امتحانات کے نتائج، نیز میڈیکل کے نتائج آرہے ہیں۔ سیاسی میدان اور تعلیمی میدان دونوں کے نتائج پر غور کریں تو نہایت تشویشناک صورت حال نظر آتی ہے۔ دونوں نتائج پر تھوڑی سی گہری نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ہی میدانوں میں سماج کے اعلیٰ ذات اور سرمایہ دار طبقہ نے ہی ہاتھ مارا ہے۔ الیکشن میں ۴۰-۳۵ ارب روپیہ امیدواروں اور سرکار کے ذریعہ خرچ کرنے کی بات سامنے آرہی ہے۔ جیت کر آنے والوں میں ہر تیسرا MP کروڑ پتی ہے اور ارب پتیوں کی تعداد بھی ہے۔ اُدھر تعلیمی میدان کا رخ کریں تو نتائج کے آتے ہی ملک کے تمام بڑے چھوٹے اخباروں میں اگلے دن سے ہی مکمل صفحات کے اشتہارات بڑی بڑی کوچنگ کلاسیز کے معہ منتخب امیدواروں کے آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آج انجینئرنگ اور  IITکے مقابلہ کے نتائج سب سے زیادہ فیشن اورمارکیٹ میں ہیں۔ اخبارات میں ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ نے بتایا کہ IIT کے امتحان میں اس کے یہاں سے لگ بھگ ۲۵۰۰ طلباء منتخب ہوئے۔ صرف کوٹہ جوکہ شمال مغربی بھارت میں کوچنگ کا بڑا مرکز ہے وہاں سے مختلف کوچنگ کلاسیز کے ۳۵۰۰ سے زائد طلباء اِن اشتہارات کے مطابق مقابلہ میں کامیاب ہوئے۔ باقی ۷۵۰۰ سیٹوں میں پورا ہندوستان کا حصہ ہوگا۔ کم و بیش یہی صورت حال U.P.S.c. کے امتحانات میں بھی رہی۔ الہ آباد جوکہ کوچنگ کا گڑھ ہے ۷۵۰ میں سے لگ بھگ ۱۵۰ امیدوار وہیں سے منتخب ہوگئے۔ پھر پورا ہندوستان باقی ماندہ کے لیے لڑے گا۔ ہمارا پریس منظم طریقہ سے ایک دو بہت غریب منتخب طلباء کا فوٹو چھاپ کر تاثر دینا چاہتا ہے کہ سب کچھ بہت شفاف اور صاف ہے نیز صرف قابلیت کی بنیاد پر ہی امیدوار منتخب ہورہے ہیں۔ جبکہ پردہ کے پیچھے کی کہانی بالکل مختلف ہے۔ دراصل چاہے وہ سیاسی مقابلہ (انتخابات) ہوں یا تعلیمی مقابلہ سب میں قابلیت کے ساتھ سہولت (جووسائل سے حاصل کی جاتی ہے) کا رول فیصلہ کن ہوتا جارہا ہے۔ جن لوگوں کے پاس سرمایہ ہے وہ اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں داخل کراتے ہیں شروع سے ہی ٹیوشن و کوچنگ کا اہتمام کراتے ہیں یہ سہولت ملک کی بڑی اکثریت کے طلباء کو حاصل نہیں ہوتی ہیں۔ وہ کتنی بھی محنت کرلیں مگر حساب، فزکس، کیمسٹری، بایولوجی، انٹرویو وغیرہ میں خصوصی تربیت نہ ہونے سے کبھی بھی I.Q کے لحاظ سے اپنے سے برابر یہاں تک کہ کمتربچوں کے مقابلہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ اگر دونوں طرح کے طلباء ٪۸۰ نمبر کی سطح تک صرف اپنی محنت سے نمبر لاسکتے ہیں مگر فیصلہ کن مرحلہ تو ٪۹۰ Super کے لیے ہوتا ہے وہاں وہ کامیاب ہوتے ہیں جو صرف مضامین ہی تیار نہیں کرتے بلکہ ان کو کوچنگ کلاسیز میں وہ خاص گُربتائے جاتے ہیں جن کی بدولت وہ پرچہ بہتر طور پر حل کرپاتے ہیں جوکہ بغیر کوچنگ والا بچہ کسی صورت میں نہیں کرسکتا۔

بڑے شہروں اور قصبوں کو چھوڑ کر تعلیمی حالات سرکاری یا عموماً Aided اسکولوں کی کیا ہیں وہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اساتذہ کی مجرمانہ لاپرواہی، ٹیوشن اور والدین کی غفلت یا مجبوری کا ایک ایسا خطرناک ملغوبہ ہے جو ہندوستان کی عظیم اکثریت کی نئی نسل کو کسی بھی بڑے خواب کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کوٹہ میں اکثر والدین اپنے بچوں کو درجہ th9 سے ہی بھیج دیتے ہیں وہ چار سال وہاں صرف اور صرف انتہائی ماہر اور پیشہ وارانہ دیانت کے حامل اساتذہ سے تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ اس کا مقابلہ سرکاری اسکولوں یا aided اسکولوں کے ہونہار مگر کم مراعات یافتہ طلباء کیسے کرسکتے ہیں؟ کوٹہ میں ایک بچہ پر سالانہ خرچ فیس اور رہائش کے ساتھ لگ بھگ ایک سوالاکھ روپیہ آتا ہے۔ جبکہ ہندوستان کی آبادی کا ۳/۱ حصہ ۴۰ روپیہ روزانہ سے کم پر پورا خاندان چلاتا ہے یعنی تقریباً ۱۵۰۰ روپیہ ماہانہ میں پورا خاندان گذارا کرتا ہے۔ یہ ہے ہمارے سماج کا اصل چہرہ جسے اِکاّ دکاّ غریب آدمی کی کامیابی کی کہانی کو ہائی لائٹ کرکے دیاجاتا ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ غریب آدمی بھی اپنا سب کچھ فروخت کرکے اپنے بیٹے کو کسی کوچنگ کے ہی حوالہ کرتا ہے تب ہی کامیابی اُس کا مقدر بنتی ہے۔ بہار کی رحمانی ۳۰ کے ۳۰ طلباء کی IIT میں کامیابی بھی اس حقیقت کو معتبر بتاتی ہے کہ صلاحیت کے ساتھ خصوصی تربیت اس سخت مقابلہ کے زمانہ میں فیصلہ کن ہوتی جارہی ہے۔ اور یہ بغیر سرمایہ کے ممکن نہیں ہے۔ ہمارے حکمراں کہہ سکتے ہیں کہ وہ طرح طرح کے وظائف ہونہار طلباء کے لیے دے رہے ہیں، مگر یہ تمام کسی کورس میں منتخب ہونے کے بعد ہی کام آتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ منتخب ہونے کے لیے جو خرچ درکار ہے وہ کون دے گا؟ کتنے فی صد ہونہار طلباء کے والدین سالانہ ۶۰-۴۰ ہزار سالانہ کوچنگ کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں؟ نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک جیسی قابلیت کے طلباء صرف دولت کی دستیابی یا عدم دستیابی کی بناء پر الگ الگ انجام سے دوچار ہوں گے۔ کیا یہ ہماری فلاحی ریاست کی مکمل ناکامی کی دلیل نہیں ہے؟

ایک دلچسپ تضاد ہمارے سماج کے اعلیٰ ذات اور سرمایہ دار طبقہ کی سوچ کا یہ بھی ہے کہ وہ بیرونی ممالک کی کمپنیوں سے مقابلہ کے لئے ان کے ہندوستان میں داخلہ پر کچھ شرائط لگاکر ”برابر کے مقابلہ کے میدان“”Level playing field” کی بات کرتی ہے مگر اپنے یہاں جب کمزور طبقات اور اقلیتوں کے لیے مختلف امتحانات میں ریزرویشن کی بات آتی ہے تو قابلیت اور صلاحیت Merit کی بات کرتی ہے، مگر اعلیٰ تعلیمی پیشہ وارانہ کالجوں، اداروں میں چندہ Donation کے ذریعہ صلاحیت کو ناکارہ بھی بناتی ہے۔ ابھی چنئی کے ایک مرکزی وزیر کے میڈیکل کالج میں M.B.B.S. کی نشست کے لیے ۴۰-۲۰ لاکھ روپیہ چندہ کا معاملہ چل رہا ہے اور M.D کے لیے رقم کروڑوں میں پہنچ رہی ہے۔ ٪۸۰ والا قابلیت کا طالبعلم ڈاکٹر نہیں بن پائے گا مگر ٪۶۵-۶۰ والا صرف دولت ۴۰-۲۰ لاکھ کے بل بوتے پر ڈاکٹر بن جائے گا۔ ہمارے تعلیمی نظام میں سرکاری سرپرستی میں جاری اس دھاندلی پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ اس وقت ”جوان ہندوستان“ کی اہم ترین ضرورت ہے کہ اس میں صلاحیتوں اور قابلیتوں کو پروان چڑھاکر انسانی وسائل کو بڑھایا جائے جیساکہ پروفیسر امرتیاسین اور جیفری ساکھ کہتے آرہے ہیں۔ اس کے لیے مقامی سطح سے لے کر دہلی کی سطح تک پلاننگ درکار ہے اور یہ بغیر مکمل سماجی انصاف کے حصول کے ممکن نہیں ہے۔ یہ سرمایہ کی بالادستی، بھائی بھتیجہ دادا کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔

محترم سلمان خورشید نے اپنے ایک بیان میں کسی کمیشن برائے یکساں مواقع equal opportunity commission کا ذکر کیا ہے۔ جس کے نام سے تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید مواقع کی اس خطرناک نابرابری کو دور کرنے کے لئے کچھ اقدامات کئے جائیں گے۔ سماج کے کمزور ترین طبقہ تک اگر ترقی کی بوند کے ذرّات Trickle down offect کی، تھیوری پر ہی بھروسہ کرکے بیٹھے رہے اور نریگا کی بھیک کے ذریعہ دیہی اور عام آدمی کی امنگوں کو تھپکی دینے کی کوشش ہوتی رہی تو ”معلومات کے دھماکہ“ (Information explosion) کے اس زمانہ میں نئی نسل اس سے مطمئن نہیں ہوگی اور اس کے بے اطمینانی سماج کے مطمئن طبقہ کو بھی غیرمحفوظ بنادے گی۔ ضرورت ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ غریب ترین ماں باپ بھی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر اپنی نئی نسل کے لئے خواب دیکھ سکیں۔ سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ گاؤں دیہات کے تعلیمی نظام کو جوابدہ بنانا ہوگا وہاں اساتذہ کی حرام خوری پر نکیل کس کر ان کی ترقیات کو ان کی کارکردگی سے جوڑنا ہوگا۔ خاص طور پر حساب کے مضمون پر خصوصی توجہ دینے کی ہرممکن صورت اپنائی جانی چاہئے۔ ”نوادے ودھیالیہ“ کے لئے باصلاحیت طلباء کی سپلائی بڑھانے کے لئے گاؤں میں موجود اسکولوں کو بنیادی ترجیح دینی ہوگی۔ جو طلباء 8th کلاس تک اچھی کارکردگی دکھائیں خصوصاً حساب میں اُن کو خاطر خواہ وظیفہ دیا جائے تو ڈراپ آؤٹ کے مسئلہ سے بڑی حد تک نجات مل سکتی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سماج کے کمزور ترین طبقہ کے پاس اور شہروں میں تو اچھے خاصے خوشحال لوگوں کے پاس یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی مناسب جگہ نہیں ہوتی ہے۔ ایک ایک دو دو کمروں کے مکانوں میں T.V. اور کیسٹ ریکارڈر کے ساتھ کوئی بھی سنجیدہ پڑھائی ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے گاؤں یا محلوں میں موجود سرکاری اسکولوں، پنچایت گھروں کو شام کے وقت ریڈنگ روم (دارالمطالعہ) میں بدل دیا جائے تو پڑھنے کے لئے مناسب ماحول مل سکے گا۔ مشکل مضامین کے لئے اِن مقامات میں خصوصاً انگریزی، حساب اور سائنس یا صرف حساب کے لئے جزوقتی قابل اساتذہ بھرتی کئے جاسکتے ہیں۔ 10th اور 12th کلاس میں ٪۷۰ سے زیادہ نمبر لانے والے دیہی علاقہ کے کمزور طلباء کو معیاری کوچنگ بھیجنے کا انتظام سرکارکو کرنا ہوگا۔ یہ سب سے کمزور کڑی ہے۔ یا اِن علاقوں کے طلباء کو ریزرویشن دیں یا ان کی ایک سال کی کوچنگ اُن کی صلاحیت کی بنیاد پر سرکار خود اپنے خرچہ پر کرائے۔

اقلیتی معاملات میں یہ مسئلہ اور نازک ہوجاتا ہے۔ بھارت سرکار کے اقلیتی بہبود کے تمام ادارہ خصوصاً جہاں سے طلباء کے لئے اسکالرشپ اور قرض جاری ہوتے ہیں وہ اپنے کام میں ہرطرح کا روڑا اٹکانے کے ماہر ہیں۔ وہ اپنی تمام اسکیموں کو چھپاکر رکھنا ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں اور سرکاری کارروائی کے ہر مرحلہ میں رکاوٹ اور اڑچن کا رویّہ اختیار کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمارے مرکزی وزیر سلمان خورشید صاحب نے سرکاری زبان بولتے ہوئے پھر کہا کہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں مل سکتا اور یہ ان کی ترقی کا ضامن نہیں ہے تو جو وہ اور ان کی سرکار مناسب سمجھتی ہے اس کو ہی عام مستحق عوام تک پہنچانے کا بندوبست فرمادیں۔ اگر ریزرویشن کی بیماری کا علاج نہیں ہے تو خواتین کو ریزرویشن کیوں دیا جارہا ہے؟ سچرکمیٹی کی رپورٹ بتارہی ہے کہ مسلمانوں کی حالت خواتین کی حالت سے بھی خراب ہے۔ خواتین M.P.s کی تعداد اور مسلم M.P.s کی تعداد کا موازنہ کرلیں پتہ لگ جائے گا۔ ۶۰ سالوں سے صرف ہندو دلتوں کو ہی صرف مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کیوں دیا جارہا ہے؟ مرکزی سرکار کی بعد میٹرک اور بعد بارہویں کی اسکالرشپ کی تقسیم میں فارم کی دستیابی سے لے کر اس کو بھرنے اس میں لگنے والے دستاویزات (آمدنی اور مذہب کے) کی حصولیابی پھر اسکول سے تصدیق اور بینک میں اکاؤنٹ کھولنا کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں وہ اونچے ایوانوں میں بھاشن جھاڑنے والوں کو معلوم نہیں ہیں۔ جن سرکاری محکموں کا تعلق اقلیتوں کی فلاح وبہبود سے ہے ان کی بازپرس کا سخت مرکزی نظم ہونا چاہیے۔ ستمبر جون سے وظیفہ ملنے کا عمل شروع ہوکر نومبر دسمبر تک طلباء تک بمشکل پہنچ پاتا ہے۔ آپ سرکاری عملہ کا کچھ نہیں بگاڑسکتے اس خرابی کو ہمارے مرکزی وزیر دور کرواسکیں تو شاید ریزرویشن کی خیرات کی ضرورت نہ پڑے اور اکثریت کی ناراضگی کا ڈر بھی موصوف کو نہ رہے۔

وقف بورڈ مسلمانوں کی مدد کا اچھا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے، مگر وہ بھی سرکاری حلوائی کی دوکان پردادا کا فاتحہ کی روش کی وجہ سے کرپشن اور لوٹ مار کا اڈہ بناہوا ہے۔ تمام صوبائی سرکاروں اور مرکزی سرکاروں نے مسلمانوں کی اپنی املاک پر اپنی پارٹیوں کے کارکنوں اور لیڈروں کو مسلّط کردیا ہے کہ تم مزاروں، قبرستانوں، مسجدوں، درگاہوں کا مال لوٹو اور ہماری پارٹی کے ہاتھ مضبوط کرو۔ پارٹیاں انہیں ان کی وفاداریوں کے عوض سرکاری محکمہ میں عہدہ دینے کے بجائے مُردوں کی ہڈیوں سے خون نچوڑنے کے لئے چھوڑ دیتی ہیں اور وقف کرنے والے مرحومین کی مرضی کے برعکس سرکاری اہلکار اور پارٹیوں کے مسٹنڈے گل چھرہ اڑا رہے ہیں۔ جبکہ یہ جائیدادیں اگر ایمانداری کے ساتھ اہل افراد کے حوالہ کی جائیں تو یقینا مستحق، نادار طلباء کو کسی مدد کی ضرورت نہ پڑے۔ سرکار کو سخت قانون بناکر اور اس کی باز پرس کرکے ہر سطح کے وقف پر یہ لازم کرنا چاہئے کہ اپنی آمدنی کا کم سے کم ۳/۱ حصہ نادار مستحق طلباء کو دیں گے۔ خصوصاً آٹھویں کلاس میں اچھے نمبر سے پاس ہونے والوں، ۱۰ ویں کلاس میں اور ۱۲ ویں کلاس میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے والوں کو صرف مارک شیٹ کی بنیاد پر صرف طالب علم کو ادائیگی کرائی جائے تو غریب ماں باپ بھی حوصلہ کریں گے کہ اپنے بچوں کو دہاڑی مزدوری پر لگانے کے بجائے اسکول کالج جانے دیں۔ جس طرح یوپی میں ہر بیک ورڈ طالبہ کو اسکالر شپ دی گئی اسی طرح ہر مسلم طالب علم کو اگر وظیفہ ملے تو کیوں نہیں وہ بھی پڑھائی کے ذریعہ اپنا کیرئیر بنائیں گے؟ سرکاری اداروں سے قرض حاصل کرنا کتنا دشوار ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ ایک عام دیہاتی غریب طالب علم کس طرح تعلیمی قرض حاصل کرسکتا ہے؟ پھر یہ تعلیمی قرض بھی ساڑھے دس فیصد شرح سود پر دیا جارہا ہے۔ اگر ۶-۵ لاکھ روپیہ ادھار لیا تو ساڑھے دس فیصد کے حساب سے ہر سال کتنا سود ادا کرناہوگا؟

کامیابی کی اکاّ دکاّ مثالوں کے غبار میں آپ ناکامی، حسرت اور مایوسی کی لاکھوں سسکیوں کو چھاکر عام آدمی کی دعائیں اور ووٹ دونوں نہیں حاصل کرسکتے۔ اگر حکمراں طبقہ سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ سب کو ساتھ لے کر ترقی کی بات کررہاہے تو اسے اپنی بجٹ کی ترجیحات پر بھی غور کرنا ہوگا۔ اسے دیکھنا ہوگا کہ جتنی چھوٹ وہ کارپوریٹ سیکٹر کو 278644 کروڑ روپیہ دیتی ہے اُس کے مقابلہ کل تعلیمی بجٹ صرف 33000 ہزار کروڑ کا ہے۔ کیا اس سے حکمرانوں کی نیت کا اندازہ نہیں ہوتا؟

آخر میں مسلمانوں کے مڈل کلاس تعلیم یافتہ طبقہ سے عرض کرنا ہے کہ جب وہ خوشحالی کے جزیرہ میں پہنچ گئے ہیں تو اپنی اجتماعی ذمہ داری ادا کرکے محروموں کو بھی اوپر لانے کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیں۔

***

—————————-

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 07 ، جلد: 93 رجب 1430 ھ مطابق جولائى  2009ء

Related Posts