حکومت فرانس کی جانب سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ کارٹون بنانے کی حمایت اور اظہارائے کی آزادی کا دفاع کرنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر جو سنگین صورت حال پیدا ہوگئی ہے وہ یقینا قابل تشویش ہے۔ ایک طرف اظہار خیال کی آزادی کی غلط تعبیر اور اس کے غیر معقول استدلال کا مسئلہ ہے جس پر دنیا میں بحث ہونی چاہئے اور اس سلسلے میں حکومتوں کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے قانون بنانا چاہیے۔ آزادی اظہار رائے کا بے محابا اور غیر محدود استعمال نہ صرف انسانی و اخلاقی اقدار کے خلاف ہے، بلکہ اس سے امن و امان کی صورت حال کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب اور پوری دنیا کا رویہ یکسر منافقانہ اور دوہرے معیار پر مبنی ہے۔ آئے دن میڈیا میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں نفرت انگیز اور قابل اعتراض مواد شائع ہوتے رہتے ہیں اور آزادیٴ اظہار رائے کے پس پردہ ان کی حمایت کی جاتی ہے۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا مسئلہ انتہائی سنگین، نا قابل برداشت اور لائق صد مذمت ہے۔ تمام حکومتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے عناصر کو لگام لگائیں جو تقریباً دو ارب مسلمانوں کے انتہائی مقدس و محترم پیغمبر کو گستاخانہ ، تمسخرانہ اور گمراہ کن انداز میں پیش کرکے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔ یہ امر واقعةً نہایت افسوس ناک ہے کہ حکومت فرانس نے اپنے ملک کے ساٹھ لاکھ (تقریبا ۹ فی صد) باشندوں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو در کنار کرتے ہوئے گستاخی کرنے والے اخبار کی حمایت کی اور سرکاری عمارتوں پر ان گستاخانہ خاکوں کے بڑے بڑے بینر آویزاں کیے۔ اس واقعہ سے مسلمانوں میں غیظ و غضب اور اشتعال کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا، اسی کا نتیجہ تھا کہ پوری دنیا میں حکومت فرانس کے اقدام کے خلاف مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور اس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
لیکن اس سلسلے میں ایک بات تمام مسلمانوں کو یاد رکھنی چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ووفاداری ہمارا ایمان ہے، لیکن اسی کے ساتھ رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی پر امن تعلیمات بھی ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہئیں۔ حکومت فرانس کے خلاف احتجاج کرنا ہمارا دستوری اور مذہبی حق ہے، لیکن اس سلسلے میں کسی تشدد، نقض امن اور حدود سے تجاوز کی شرعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح اس واقعہ کے رد عمل میں فرانس کے اندر بعض افراد کا جو پرتشدد رد عمل سامنے آیا ہے ، وہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔
اس تناظر میں ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت ہند نے اس سلسلے میں فرانس کی تائید و حمایت کرکے ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ حکومت ہند کو سمجھنا چاہئے کہ ہندوستان مختلف مذاہب اور گوناگوں تہذیبوں کا ملک رہا ہے اور مذہبی مقدس شخصیات کا احترام اس ملک کی روایت رہی ہے۔ خدا نخواستہ اگر غیر محدود اور بے لگام آزادیٴ اظہار رائے کی یہ روایت ہندوستان جیسے ملک میں پروان چڑھائی جائے گی تو اس ملک میں امن و سلامتی کا کیا ہوگا؟ حکومت کو چاہیے کہ اس نازک صورت حال کو سمجھے اور اس سلسلے میں ایسا معتدل اور مضبوط موقف اختیار کرے جو اس ملک کے شاندار ماضی سے ہم آہنگ ، ملک کے امن و ترقی کے لیے معاون اور اس سرزمین کے بیس کروڑ باشندوں کے جذبات کا آئینہ دار ہو۔
ابوالقاسم نعمانی
مہتمم دارالعلوم دیوبند