بہ قلم: محمد عارف جمیل مبارک پوری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے صادر ہونے والے افعال واقوال مختلف حیثیتوں کے حامل ہواکرتے تھے، کبھی تو بہ حیثیت امام المسلمین کوئی حکم صادر فرماتے، کبھی بہ حیثیت مفتی، اور کبھی دوسری حیثیتوں سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ان تمام حیثیتوں کی جامع تھی۔ ان حیثیتوں اور مقاصدِ شریعت کی واضح تعیین کے موضوع پر جن علمائے امت نے ابتدا میں کام کیا ان میں (بہ قول ابن عاشور) امام قرافی مالکی کا نام سرِفہرست آتا ہے۔ امام قرافی اسی سلسلہ میں رقم طراز ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، امام اعظم، قاضی احکم، مفتی اعلم، امام الائمہ، قاضی قضاة، اور عالم العلما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سبھی دینی مناصب کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات، فی الغالب، تبلیغ کی حیثیت سے تھے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت کی صفت غالب تھی، بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات کچھ توبالاجماع، تبلیغ وفتوے کی حیثیت سے صادر ہوئے، کچھ بالاجماع، قاضی کی حیثیت سے، کچھ بالاجماع امامِ مسلمین ہونے کی حیثیت سے۔ اسی کے ساتھ کچھ تصرفات ایسے تھے جس کے باریمیں قطعی طور پر کچھ کہنا مشکل تھا کہ وہ مذکورة الصدر کس حیثیت کے حامل تھے۔ اس طرح کے تصرفات میں بعض علما نے ایک حیثیت کو راجح قرار دیا تو بعض نے دوسری حیثیت کو“۔
قرافی آگے لکھتے ہیں:
”ان مختلف اوصاف کے حامل تصرفات کے، شریعت میں الگ الگ آثار ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال واقوال جو بہ حیثیت تبلیغ کے صادر ہوئے، وہ تاقیامت، ثقلین کے لیے، ایک عمومی حکم متصور ہوں گے: اگر وہ مامور بہ ہوں گے تو ہر شخص اپنے طور پر، کسی سے اجازت لیے بغیر اس کا اقدام کرے گا، اور یہی حکم مباح کا بھی ہے۔ اوراگر وہ ممنوع ہو تو ہر شخص اپنے طور پر اس سے پرہیز کرے گا۔ لیکن اگر وہ تصرف بہ حیثیت امام کے ہے تو امام کی اجازت کے بغیر اسکا اقدام کرنا کسی کے لیے روا نہ ہوگا۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغ کے بجائے بہ حیثیت امام تصرف کرنے کا یہی تقاضا ہے۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تصرف قاضی کی حیثیت سے ہے، اس کا اقدام کرنے کے لیے، قاضی کا فیصلہ ضروری ہے، اس کے بغیرکوئی اقدام نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ بہ حیثیت قاضی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وجہ سے اس میں تصرف فرمایا ہے، اس کا تقاضا یہی ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال کی یہ تین حیثیتیں،امام قرافی نے بیان فرمائی ہیں، لیکن ان کے علاوہ اور بھی حیثیتیں ہیں، جن کا بیان آگے آئے گا۔ صحابہ کرام، ان حیثیتوں کو بہ خوبی سمجھتے تھے، اور جہاں کہیں اشتباہ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے میں دیر نہ کی۔ اس کی بہت سی مثالیں کتب حدیث میں بہ آسانی مل سکتی ہیں، مثلاً:
۱- حضرت بریرہ، جو ایک باندی تھی، (اور ان کے شوہر مغیث غلام تھے) اپنے مالکوں سے انھوں نے یہ معاملہ کرلیاکہ اتنی رقم دے کر آزاد ہوجائیں گی۔ اس رقم کی ادائیگی میں مدد حاصل کرنے کے لیے وہ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ بخاری میں حضرت عائشہ کا بیان کہ بریرہ میرے پاس آئی کہ میں نے اپنے مالکوں سے، نو اوقیہ چاندی (سالانہ ایک اوقیہ) پر مکاتبت کرلی ہے۔ آپ میری مدد کریں۔
حضرت مغیث کو، بریرہ سے بے حد محبت تھی، لیکن بریرہ کو ان سے اتنی ہی بددلی تھی۔ شرعی طور پر آزادی کے بعد، بریرہ کو یہ حق حاصل تھا کہ اپنے نکاح کو قائم رکھیں یا توڑ دیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے، علاحدگی اختیار کرلی۔ اس واقعہ سے حضرت مغیث کو بے حد صدمہ پہنچا۔ وہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ سے بات کی، تو انھوں نے دریافت کیاکہ اللہ کے رسول! یہ آپ کا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ حکم نہیں؛ بلکہ سفارش ہے“۔ یہ سن کر انھوں نے رجوع کرنے سے انکار کردیا۔ ان کے اس طرزِ عمل پر، رسول اللہ یا صحابہ کرام کسی نے، ان کو برا بھلا نہیں کہا۔(۱)
۲- جنگ بدر کے موقع پر مسلمانوں کے قیام کے لیے جس جگہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتخاب فرمایا، اس طرف کوئی چشمہ یا کنواں نہ تھا، زمین اس قدر ریتیلی تھی کہ اونٹ کے پاؤں زمین میں دھنس دھنس جاتے تھے، حضرت حباب بن منذر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ جو مقام انتخاب کیاگیا ہے، وہ وحی کی رو سے ہے یا فوجی تدبیر؟ ارشاد ہوا کہ وحی نہیں۔ حضرت حباب نے عرض کیا کہ تو بہتر ہوگا کہ آگے بڑھ کر چشمہ پر قبضہ کرلیا جائے۔ اورآس پاس کے کنویں بے کار کردیے جائیں، حضرت حباب کے الفاظ تھے:
منزل انزلکہ اللّٰہ لیس لنا ان نتعداہ، ولا نقصر عنہ، ام ہو الرای، والحرب والمکیدة(۲)
علماء اصولِ فقہ نے ”سنت نبوی“ کی بحث میں یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جن کا تعلق فطرت و جبلت سے ہے، وہ تشریع کے باب میں نہیں آتے اور ظاہر ہے کہ اس فیصلہ میں انھوں نے یہی مدِ نظر رکھا ہے کہ جو افعال، خلقت وجبلت کے اثر کا نتیجہ ہیں، وہ تشریع و ارشاد کے باب میں داخل نہیں۔ ہاں جن افعال میں جبلت اور تشریع دونوں کے پہلو موجود ہوتے ہیں (مثلاً: اونٹ پر حج کرنا) ان کے بارے میں کوئی قطعی فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔
اس دور میں فتویٰ کے باب میں جس تیزی کے ساتھ بے احتیاطی پھیلتی جارہی ہے،اور اس کے نتیجہ میں جس قدر غیرذمہ دارانہ فتوے آئے دن دیکھنے میں آتے ہیں، نص شرعی کے حقیقی مقصد اور اس کے پس منظر کو نظر انداز کرکے آج کچھ لوگ بے خوف و خطر فتوے جاری کرتے، اور علماءِ سلف کو آڑے ہاتھوں لیتے نظر آتے ہیں، اس کے پیچھے مقاصد شریعت اور انہی حیثیتوں سے ناواقفیت، بڑی حد تک کارفرما ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال عالم عرب میں ایک عالم کا یہ فتویٰ کہ عورتوں اور مردوں کا آفسوں اور دوسرے مقامات پر مخلوط شکل میں کام کرنا جائز ہے اور اس جواز کی شکل یہ ہے کہ عورت اپنے ”ساتھی“ کو دودھ پلادے، جس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی،اور وہ دونوں ”اجنبی کے ساتھ خلوت“ کی حرمت کے گناہ سے بچ جائیں گے۔ اورانھوں نے دلیل میں یہ روایت پیش کی ہے کہ سہلہ بنت سہیل خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! سالم جب میرے گھر میں آتا ہے تو میں ابوحذیفہ کے چہرہ میں خفگی پاتی ہوں، سالم ابوحذیفہ کا حلیف ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ارضعیہ“ اسے دودھ پلادو۔ انھوں نے عرض کیا کہ اس کے دودھ کیسے پلاؤں، وہ تو جوان آدمی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: ”قد علمت انہ رجل کبیر“ مجھے معلوم ہے کہ وہ جوان آدمی ہے۔
عمرو کی روایت میں یہ اضافہ ہے:
وہ بدر میں بھی حاضر ہوئے تھے۔ اور ابن ابی عمرو کی روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے(۳)
اس روایت کی صحت میں کوئی کلام نہیں، لیکن کیا یہ تصرف ”تشریع“ کے طور پر تھا؟ جمہور علماء نے اس حدیث کو عام تشریعی حکم نہیں، بلکہ حضرت سہلہ اور سالم کے ساتھ خاص قرار دیا ہے۔ اور رضاعت کے ثبوت کے لیے، دوسری نصوص کی بنیادپر، یہ شرط قرار دیا کہ وہ مدتِ رضاعت کے اندر ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کو ”تشریع“ قرار دیاتھا، لیکن تمام امہات المومنین ان کی اس رائے سے اختلاف کرتی تھیں۔ اور اس واقعہ کو ان کی خصوصیت قرار دیتی تھیں۔ واقعہ کچھ اس طرح تھا کہ ابتداء میں حضرت ابوحذیفہ نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنالیا تھا، جس کی وجہ سے وہ ان کے گھر میں آتے جاتے تھے۔ لیکن جب حجاب کا حکم آگیا،اور ”تبنی“ کا حکم منسوخ ہوگیا تو سہلہ کو اس میں دشواری محسوس ہوئی،جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ خصوصی رعایت اور رخصت عنایت فرمائی تھی۔ اس حدیث کے اور بھی جوابات دیے گئے ہیں۔(۴)
قرافی نے تو صرف تین حالات اورحیثیتوں کی نشاندہی کی ہے؛ لیکن ان کے علاوہ بھی ہیں، جن کی ابن عاشور نے وضاحت کی ہے۔ ذیل میں ان کا ایک جائزہ اور فقہی احکام پر مرتب ہونے والے ان کے اثرات کے تجزیہ کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن اس سے پہلے ان مختلف حیثیتوں کی وضاحت ضروری ہے۔
۱- فتوے کی حیثیت سے آپ کا تصرف
اس میں اللہ تعالیٰ کا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو، ادلہ شرعیہ میں نظر آتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی خبر اور اطلاع دیتے ہیں، جیسا کہ ہم دوسرے مفتیان کے بارے میں یہی کہتے ہیں۔ تبلیغ کی حیثیت سے آپ کا تصرف ہی رسالت کا تقاضا ہے، یعنی اس تبلیغ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام رسالت میں حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے، جو کچھ آپ تک پہنچتا ہے، اس کو مخلوق تک نقل کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام میں، رب العالمین کی طرف سے پہنچانے اور نقل کرنے والے ہیں۔ جیساکہ راویانِ حدیث، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہم تک نقل کرتے ہیں۔ یہ مقام محدثین کو وراثت میں ملا، جیساکہ مفتی کو، فتوے کا مقام وراثت میں ملا۔ راوی اور مفتی کے درمیان یہ فرق معلوم ہونے کے بعد ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبلغ اور مفتی ہونے کی حیثیت میں فرق بھی واضح ہوگیا۔
۲- حکم اور فیصلہ کی حیثیت سے آپ کا تصرف
حکم اور فیصلہ کی حیثیت سے آپکا تصرف، رسالت اور فتوے کی حیثیت سے آپ کے تصرف سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ رسالت میں محض تبلیغ اور خالص اتباع ہوتا ہے۔ اور حکم وفیصلہ: انشاء، الزام سے عبارت ہے۔ جو اسباب اور حاجت کے تقاضے کے موافق ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
انکم تختصمون الی، ولعل بعضکم أن یکون ألحن بحجتہ من بعض، فأقضی لہ علی نحو ما أسمع، فمن قطعت لہ من حق أخیہ شیئا، فلا یأخذہ، انما أقطع لہ بہ قطعة من النار(۵)
”تم لوگ میرے پاس مقدمات لے کر آتے ہو، بعض لوگوں میں قوتِ استدلال زیادہ ہوتی ہے، میں جو سنتا ہوں اسی کے موافق فیصلہ دیتا ہوں، اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا حق دے دوں تو وہ نہ لے، میں اس کو آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“
اس سے معلوم ہوا کہ قضاء و فیصلہ، حاجت وقوتِ استدلال کے تابع ہوتا ہے۔ اور اس صورت میںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت، انشاء حکم کرنے والے کی ہوتی ہے۔ جب کہ فتوے اور رسالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تبلیغ اوراتباع ہے۔
حکم وقضاء میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کے متبع ہوتے ہیں کہ حاجت و اسباب کے موافق، احکام کا انشاء کریں، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اس حکم کو نقل کرنے میں متبع ہیں، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس امرالٰہی کی تفویض ہوچکی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے منقول نہیں ہوگا۔
حکم وفتوے میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ فتوی قابلِ نسخ ہوتا ہے، نہ کہ حکم و فیصلہ کہ اس فیصلہ پر مرتب ہونے والے آثار کے ظہور کے بعد، وہ حکم و فیصلہ قابلِ نسخ نہیں۔ یہ تو عہدِ نبوی کی بات ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، آپ کا فتویٰ بھی ناقابلِ نسخ ہے، کیونکہ شریعت کے احکام مقرر ہوچکے ہیں۔
”رسالت“ ذاتی طور پر ناقابلِ نسخ ہے۔ ”نبوت“ میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کے پاس کسی چیز کے حکم کی وحی بھیجتے ہیں، جو اسی کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ وحی آئی ”اقرأ باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق (اقرا:۱-۲) ”(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) آپ پر (جو قرآن نازل ہوا کرے گا) اپنے رب کا نام لے کر پڑھاکیجئے۔ جس نے (مخلوقات کو) پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔“
یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔ علما کہتے ہیں کہ یہ نبوت ہے، رسالت نہیں۔ اس کے بعد جب یہ آیت نازل ہوئی: ”یا أیہا المدثر قم فانذر“ (المدثر:۱-۲) ”اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھو، اپھرڈراؤ“
تو یہ رسالت ہوئی۔ اس لیے کہ یہ ایسے حکم کا مکلف بنانا ہے، جس کا تعلق صاحبِ وحی کے علاوہ دوسروں سے ہے۔ اس وضاحت سے معلوم ہوگیا کہ ہر رسول نبی ہے، اس کے برعکس نہیں۔
۳- بہ حیثیت امام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات
بہ حیثیت امام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات، نبوت و رسالت، فتوی اور قضاء سے زائد ایک صفت ہے،اس کا مدار، تحقیق مصالح اور دفعِ مفاسد پر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ چیز، ماسبق کے مفہوم میں داخل نہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے، محض کسی چیز کی خبر دے دینے سے، فتوے کی حیثیت پوری ہوجاتی ہے۔ اور نزاعات کے محض تصفیہ اور فیصلہ سے، حکم و قضاء کی حیثیت پوری ہوجاتی ہے۔ اس میں سیاست عامہ کو دخل نہیں۔ خصوصا اگر کم زور قاضی، جو فیصلوں کو نافذ کرنے کی صلاحیت و قدرت نہیں رکھتا، اگر کسی جابر بادشاہ کے خلاف کوئی فیصلہ صادر بھی کردے، تو یہ محض ”انشاءِ الزام“ ہے، اس کے دل میں بھی یہ نہیں گزرتا کہ وہ اس کو نافذ کرنے کی کوشش کرے؛ کیوں کہ وہ ایسا کربھی نہیں سکتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قاضی (بہ حیثیت قاضی) کو صرف ”انشاء“ (فیصلہ صادر کرنے) کا اختیار ہے۔ قوتِ تنفیذیہ، اس کے منصب قضاء سے ایک زائد چیز ہے۔ لہٰذا ”سلطہٴ عامہ“ (اعلیٰ اختیارات) جو امامت کی حقیقت ہے، قضا و فیصلہ سے (بہ حیثیت قضاء) مختلف چیز ہے۔
”رسالت“ میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم رسانی ہے۔ اس میں ”سیاستِ عامہ“ کی تفویض لازم نہیں۔ اس کے بعد یہ عبارت غیر واضح ہے۔
رسالت وامامت کے درمیان فرق واضح ہونے کے بعد، ان دونوں اور نبوت کے درمیان فرق بھی واضح ہوگیا کہ نبوت صاحبِ وحی کے ساتھ خاص ہوتی ہے، دوسرے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔(۶)
ان مختلف حیثیات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات کا، شرعی احکام پر اثر ہوتا ہے۔ جیساکہ ہم لکھ آئے ہیں کہ امام قرافی نے صرف تین حیثیتوں کا ذکر کیا ہے؛ لیکن ابن عاشور نے اور بھی دوسری حیثیتوں کی نشاندہی کی ہے، ذیل میں ہر ایک قدرے تفصیل اور ان کے مختلف اثرات کا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔ جس سے حضرات سلف کے اختلافات کے اسباب کی وضاحت بھی ہوگی اور علمی و فقہی حیثیت سے کم یا بے مایہ حضرات کی فتوے کے باب میں عجلت بازی اورحضرات سلف کے ساتھ بدگمانی کی جولہر چل پڑی ہے، اس پر شاید قدغن لگ سکے۔
(۱) تشریع کی حیثیت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فی الغالب، حیثیت تشریع کی تھی؛ اس لیے کہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی یہی تھا۔ جیساکہ فرمانِ باری : وما محمد الا رسول (سورہ آل عمران/۱۴۴) ”محمد اللہ کے رسول ہی ہیں“
بہ حیثیت تشریع جو افعال و اقوال صادر ہوتے ہیں، ان کے قرائن واضح ہیں، جیساکہ حجة الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو مقرر کردیاتھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات دور بیٹھے لوگوں تک پہنچائیں۔ نیز حجة الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لتاخذوا عنی مناسککم(۷) ”مجھ سے حج کے احکام سیکھ لو“۔
اس کے بعد فرمایا: لیبلغ الشاہد الغائب(۸) ”جو لوگ اس وقت موجود ہیں، وہ ان لوگوں کو سنادیں، جو موجود نہیں“۔
(۲) فتوے کی حیثیت:
اس کی بھی کچھ علامتیں ہیں، جن سے اس کا اندازہ لگ جاتا ہے، مثلاً موطا و صحیحین میں حضرت عمروبن العاص اورابن عباس سے روایت ہے کہ حجة الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منی میں اپنی اونٹنی پر رکے، لوگ آپ سے مسائل دریافت کررہے تھے، ایک شخص نے آکر دریافت کیاکہ میں نے رمی سے پہلے، قربانی کرلی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی کرلو، کوئی حرج نہیں“۔
ایک دوسرے نے دریافت کیا کہ میں نے رمی سے پہلے، طوافِ افاضہ کرلیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی کرلو،کوئی حرج نہیں“۔
اس موقع پر آپ سے کسی بھی ایسے امر سے متعلق جس کو بھول کر آدمی آگے یا پیچھے کرلے، دریافت کیاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کرلو، کوئی حرج نہیں۔(۹)
اس کی ایک مثال حضرت ابوسفیان کی بیوی ہند کا واقعہ ہے۔ وہ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل ہیں، مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جومجھ کو اور میرے بچوں کو کافی ہو مگر میں ان کے مال میں سے لے لیتی ہوں، اور ان کو خبر نہیں ہوتی۔ تو کیا مجھ پر اس کا گناہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ دستور کے مطابق جتنا تم کو اور تمہارے بچوں کو کافی ہو ان کے مال میں سے لے سکتی ہو۔(۱۰)
امام شافعی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تصرف کو، فتوے کی حیثیت دی ہے؛ لہٰذا اگر کسی کواپنا حق بجنسہ یا بغیر جنسہ (اگر بجنسہ نہ ملے) دوسرے کے پاس مل جائے، اوراس کو بتاکر لینا ممکن نہ ہو تو بتائے بغیر اپنا حق وصول کرسکتا ہے۔ حنفیہ نے بھی اس کو فتوے کے باب میں شمار کیاہے۔ امام مالک کی رائے اس کے خلاف ہے۔ انھوں نے اس کو قضا اور فیصلہ قرار دیا ہے، لہٰذا قاضی کے فیصلہ کے بغیر اپنا حق وصول نہیں کرسکتا۔ یہی رائے حنابلہ کی ہے، ابن قدامہ نے ”المغنی“ میں قضاء علی الغائب کے جواز پر اسی حدیث سے استدلال کیاہے۔
بعض حضرات نے تواس حدیث کو قضا علی الغائب کے باب میں اصول قرار دیا ہے۔ لیکن سبکی نے اس رائے کو ضعیف قرار دیا ہے اور وجہ یہ بتائی کہ ابوسفیان شہر میں موجود اورحاضر تھے، روپوش نہ تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ پر، دربار میں حاضری سے ان کو گریز بھی نہ تھی۔ اور ایسی صورت میں ”صحیح مذہب شافعی“ میں قضا علی الغائب کی شکل نہیں بنتی۔(۱۱)
(۳) قضاء وفیصلہ کی حیثیت:
فریقین کے درمیان تصفیہ کی حیثیت سے جو افعال صادر ہوئے، وہ اسی قبیل سے ہیں، مثلاً:
(الف) حضرت زبیر کابیان ہے کہ ان میں اور ایک انصاری صحابی (جو بدر کی لڑائی میں شریک بھی ہوئے تھے) مدینہ کی پتھریلی زمین کی نالی کے بارے میں جھگڑاہوا، وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ دونوں حضرات اس نالہ سے اپنا باغ سیراب کیاکرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ زبیر! تم پہلے سیراب کرلو، پھر اپنے پڑوسی کو بھی سیراب کرنے دو، اس پرانصاری کو غصہ آگیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! کیا اس وجہ سے کہ وہ آپ کی پھوپھی کے بیٹے ہیں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے زبیر! تم سیراب کرو اور پانی کو اپنے باغ میں اتنی دیر تک آنے دو کہ دیوار تک چڑھ جائے۔ اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو ان کا پورا حق عطا فرمادیا۔ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسافیصلہ کیا تھا، جس میں حضرت زبیر اورانصاری صحابی؛ دونوں کی رعایت تھی۔ لیکن جب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو قانون کے مطابق پورا حق عطا فرمایا۔(۱۲)
(ب) حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ ایک شخص ”حضرموت“ کا اور ایک شخص کندہ کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرموت والے نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس شخص نے میری زمین دبالی ہے، جو میرے باپ کی تھی۔ کندہ والے نے کہا کہ وہ میری زمین ہے، میں اس میں کھیتی کرتا ہوں،اس کااس میں کچھ حق نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرموت والے سے فرمایا کہ تمہارے پاس گواہ ہیں؟ وہ بولا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”توپھراس سے قسم لے“ اس نے کہا کہ اللہ کے رسول! وہ تو فاجر ہے۔ قسم کھانے میں اس کو باک نہیں۔ وہ کسی بات سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم کے سوا اب تمہارا اس پر کوئی بس نہیں چلتا۔ پھر وہ قسم کھانے جارہا تھا اور اس نے پیٹھ موڑی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو! اگر اس نے دوسرے کا مال اڑانے کے لیے، ناحق خدا کی قسم کھائی تو جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے منھ پھیرلے گا“۔(۱۳)
بہرکیف ان دونوں واقعات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریقین کی موجودگی میں ایک حکم فرمایا؛ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قضا اور فیصلہ کی قبیل سے ہے۔ اوراگر فریقین کی عدم موجودگی میں کوئی ایسا حکم آیا ہوتو وہ قضا وفیصلہ کے باب سے نہیں۔(۱۴)
قضاء کے باب سے ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ایک فریق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرے کہ: اقض بیننا (ہمارے درمیان فیصلہ کردیجیے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں: لاقضین بینکما (میں تمہارے درمیان فیصلہ کروں گا) اس کی مثال خالد بن زید جہنی کی روایت ہے کہ ایک دیہاتی اپنے فریق کے ساتھ آیا اوراس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کردیجئے۔ دوسرے فریق (جو اس سے سمجھ دار تھا)نے کہا اس نے سچ کہا۔ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کردیجیے، اور مجھے بات کہنے کی اجازت دیں۔ (اس کے بعد ان دونوں نے اپنا واقعہ بیان کیا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کردوں گا۔(۱۵)
(۴) امام و امیر ہونے کی حیثیت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام وامیر ہونے کی حیثیت سے جو تصرفات فرمائے ہیں، امام وامیر کی اجازت کے بغیر کوئی مسلمان وہ تصرف نہیں کرسکتا۔ یہ تو ایک طے شدہ امر ہے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض تصرفات کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ تصرف بہ حیثیت امام وامیر کے ہے (کہ اس کے لیے امام وامیر کی اجازت درکار ہے) یا فتوے و تشریع کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصرف فرمایا کہ اس کے لیے امام کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
اس کی مثالیں:
۱- فرمان نبوی ہے: من احیا ارضا میتة فہی لہ (۱۶) ”جس نے کوئی غیرآباد زمین، آباد کی وہ اس کی ہے۔“
امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تصرف بہ حیثیت فتوے کے ہے،اس لیے کوئی بھی امام کی اجازت کے بغیر ”احیاء ارض“ کرسکتا ہے۔ یہی رائے حنابلہ اور حنفیہ میں سے امام ابویوسف اور امام محمد کی بھی ہے،جب کہ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ یہ تصرف بہ حیثیت امام مسلمین کے ہے۔ اس لیے امام کی اجازت کے بغیر کوئی یہ تصرف نہیں کرسکتا۔(۱۷)
۲- فرمانِ نبوی: من قتل قتیلا فلہ سلبہ (۱۸) ’
’جس نے کسی کو قتل کیا اس کا سامان اسی کو ملے گا“۔
امام مالک کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تصرف، امام وامیر ہونے کی حیثیت سے تھا، لہٰذا امام کی اجازت کے بغیر، قاتل کو، مقتول کا ”سامان“ نہیں دیا جائے گا، یہی رائے امام ابوحنیفہ کی بھی ہے۔ جب کہ امام شافعی، ابوثور اور داود کی رائے ہے کہ یہ تصرف ، فتوے اور تبلیغ کی حیثیت سے تھا، لہٰذا یہ قاتل کا حق ہے، امام کی اجازت پر موقوف نہیں۔ یہی رائے حنابلہ کی بھی ہے۔(۱۹)
۳- غزوئہ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری گدھے کے گوشت کھانے سے منع کردیا اور ان دیگچیوں کو انڈیل دینے کا حکم دیا جس میں گوشت پکایا گیا تھا۔ لیکن یہ ممانعت، بہ حیثیت تشریع، و تبلیغ کے تھی کہ آبادی کے گدھے بہ ہر صورت حرام ہوں گے۔ یا ممانعت کی وجہ یہ تھی کہ اس غزوہ میں سواری کے لیے گدھے استعمال کیے گئے تھے، لشکر کی مصلحت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، بہ حیثیت امیر لشکر یہ حکم فرمایاتھا۔ صحابہ کرام میں یہ دونوں رائیں موجود تھیں۔
مسند ابوعوانہ میں، عبداللہ بن ابواوفی کی روایت ہے کہ
اصابتنا مجاعة لیالی خیبر فلما کان یوم خیبر وقعنا فی لحوم الحمر الاہلیة فانتحرناہا فلما غلت بہ القدور نادی منادی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان اکفئوا القدور ولا تاکلوا من لحوم الحمر شیئا․
قال: فقال ناس: انما نہی عنہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لانہا لم تخمس، وقال آخرون: حرمہا البتة․ (۲۰)
”غزوئہ خیبر کے موقع پرایک رات ہم کو سخت بھوک لگی، جب دن ہوا تو ہم لوگ، شہری گدھوں پرٹوٹ پڑے،اور ان کو ذبح کرنا شروع کردیا اور جب گوشت دیگچی میں ابلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے اعلان کیا کہ دیگچیوں کو الٹ دو اور گوشت ہرگز نہ کھاؤ۔
اب بعض لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے منع فرمایا کہ ان گدھوں میں سے ”پانچواں حصہ“ نہیں نکالاگیا تھا (ان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی) اور بعض لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قطعی طور پر حرام کردیا تھا۔
مسلم کی روایت میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ
لا ادری انما نہی عنہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم من اجل انہ کان حمولة الناس فکرہ ان تہذہب حمولتہم او حرم فی یوم خیبر لحوم الحمر الاہلیة(۲۱)
”مجھے یہ معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے ممنوع قرار دیا کہ وہ باربرداری کے کام آتے تھے اور کھانے کی اجازت سے باربرداری کے جانور ختم ہوجانے کا اندیشہ تھا یا خیبر کی لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”آبادی کے گدھوں“ کو بالکلیہ حرام قرار دیا تھا“۔(۲۲)
(۵) ہدی، وارشاد کی حیثیت:
یہ حیثیت، تشریع کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف کے مقابلہ میں عام ہے۔(۲۳) اس لیے کہ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کاحکم دیتے ہیں یا کسی چیز سے نہی فرماتے ہیں؛ لیکن مقصود ”عزم“ (سختی کے ساتھ حکم یا ممانعت) نہیں ہوتی؛ بلکہ اس سے نیکی و خیر کے راستوں کی رہنمائی مقصود ہوتی ہے۔ چناں چہ ترغیبی نصوص، جنتیوں کی نعمتوں کا بیان، اور اکثر مندوبات ومستحبات، اسی ”ارشاد“ کے باب سے ہیں۔ بہرکیف یہاں ”ہدی، ارشاد“ سے مراد: اعلیٰ اخلاق اور آداب صحبت کی رہنمائی ہے۔ اسی طرح ”صحیح عقیدہ“ کی رہنمائی بھی اسی کے تحت آتی ہے۔(۲۴)
مثالیں: ۱- فرمانِ نبوی: عبیدکم خولکم جعلہم اللّٰہ تحت ایدیکم، فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل، ولیلبسہ مما یلبس، ولا یکلفہ من العمل مالا یطیق، فان کلفہ فلیعنہ․
قال الراوی: فلقیت أبا ذر وغلاما لہ وعلی غلامہ حلة، فقلت لابی ذر: ماہذا فقال: تعال احدث: انی ساببت عبدا لی فعیرتہ بامہ، فشکانی الی رسول اللّٰہ، فقال رسول اللّٰہ: ”أعیرتہ بامہ یا أباذر؟“ قلت: نعم․ قال: ”انک امروٴ فیک جاہلیة، عبیدکم خولکم“(۲۵)
”تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں، اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو،اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے، اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے۔ اوران پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگران کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے تو پھران کی خود مدد کردیا کرے۔“
راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوذر سے میری ملاقات ہوئی، ان کے غلام کے بدن پر ایک جوڑا تھا۔ میں نے ان سے سبب پوچھا۔ تو انھوں نے بتایا کہ ایک دفعہ میری اپنے ایک غلام سے گالی گلوچ ہوگئی، میں نے اس کو اس کی ماں کی طر ف سے عار دلایا۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے انہیں ان کی ماں کی طرف سے عار دلائی ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسے آدمی ہو،جس میں جاہلیت ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔“
امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
”آقا کو یہ حکم جو کھائے وہی غلام کو کھلائے، اورجو پہنے وہی اپنے غلام کو پہنائے؛ یہ حکم وجوب کے لئے نہیں؛ بلکہ استحباب پرمحمول ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ جہاں تک حضرت ابوذر کا عمل ہے تو انھوں نے استحباب پر عمل فرمایا۔ ہاں آقا کا فرض ہے کہ وہ ہر شخص کو اس کے لحاظ سے، اور ہر شہر کے لحاظ سے، قاعدہ کے موافق کھانا اور کپڑا فراہم کرے، خواہ وہ اپنے جیساہو یا اس سے کم تر یا اس سے اعلیٰ۔ حتی کہ اگر آقا اپنے اوپر خلاف عادت تنگی کرے خواہ زہد کے جذبے سے یا بخل کے سبب؛ غلام کو اس پر مجبور نہیں کرسکتا، ہاں اگر غلام اس پر راضی ہوتو اور بات ہے“۔(۲۶)
ابن حجر اس کی شرح میں رقم طراز ہیں:
”غلام کے ساتھ، اس امر میں، ہرلحاظ سے، مساوات اور برابری ضروری نہیں، البتہ مواسات اور ہم دردی ضروری ہے۔ اگر کوئی اعلیٰ درجہ کو اختیار کرے اور برابری کا سلوک کرے (جیساکہ حضرت ابوذر نے کیا) تو یہی افضل ہے․․․ موطا اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: للمملوک طعامہ وکسوتہ بالمعروف، ولایکلف من العمل مالا یطیق․ ”غلام کے لیے، دستور کے موافق کھانا اور کپڑا دیا جائے،اور طاقت سے زیادہ کام کا اس کو مکلف نہ بنایا جائے“۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باب میں، عرف و عادت کو مدنظر رکھا جائے۔ اوراگر کوئی اس سے بڑھ کر کرے تو یہ تطوع اور نفل ہے۔(۲۷)
(۶) مصالحت کی حیثیت:
مصالحت کی حیثیت، عدالتی فیصلہ سے الگ ہوتی ہے۔ اس کی کئی مثالیں کتب حدیث میں ملتی ہیں:
۱- حضرت زبیر کا بیان ہے کہ ان میں اور ایک انصاری صحابی (جو بدر کی لڑائی میں شریک بھی ہوئے تھے) مدینہ کی پتھریلی زمین کی نالی کے بارے میں جھگڑا ہوا، وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ دونوں حضرات اس نالہ سے اپنا باغ سیراب کیاکرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زبیر! تم پہلے سیراب کرلو، پھر اپنے پڑوسی کو بھی سیراب کرنے دو، اس پرانصاری کو غصہ آگیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! کیا اس وجہ سے کہ وہ آپ کی پھوپھی کے بیٹے ہیں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے زبیر! تم سیراب کرو اورپانی کو اپنے باغ میں اتنی دیر تک آنے دو کہ دیوار تک چڑھ جائے۔ اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو ان کا پورا حق عطا فرمادیا۔ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فیصلہ کیاتھا، جس میں حضرت زبیر اورانصاری صحابی؛ دونوں کی رعایت تھی۔ لیکن جب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو قانون کے مطابق پورا حق عطا فرمایا۔ (۲۸)
۲- حضرت عبداللہ بن ابی حدرد پر، کعب بن مالک کا قرض تھا، انھوں نے مسجد میں، اس کا مطالبہ کردیا اور ان دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اورآپ نے ہاتھ کے اشارہ سے فرمایا کہ آدھا کردو۔ حضرت کعب اس پر راضی ہوگئے اورآدھا قرضہ وصول کرلیا۔(۲۹)
(۷) مشورہ کی حیثیت:
بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات، حتمی امر ونہی کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ کسی کو مشورہ کی حیثیت سے ہوا کرتے تھے۔ اس کی بھی کئی مثالیں، احادیث میں ملتی ہیں، مثلاً:
۱- حضرت عمر نے ایک گھوڑا، اللہ کے راستہ میں صدقہ کردیا۔ لیکن جس شخص کو یہ گھوڑا ملا، اس نے اس کی خبر گیری نہ کرکے، اس کو ضائع کردیا۔ اور اس کو فروخت کرنے لگا۔ حضرت عمر نے اس کو خریدنا چاہا۔ اورانھوں نے یہ سمجھا کہ وہ اسے سستے میں فروخت کردے گا۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لاتشترہ وان اعطیتہ بدرہم فان مثل العائد فی صدقتہ کمثل الکلف یعود فی قیئہ․ ”اگر ایک درہم میں بھی ملے تو بھی نہ خریدو، اس لیے کہ اپنے صدقہ کو واپس لینے والے کی مثال ایسی ہے، جیسے کتا قیٴ کرکے دوبارہ اس کو کھاتا ہے۔“(۳۰)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کے طورپر، حضرت عمر سے یہ فرمایا تھا، ورنہ کھلے طورپر اسکی ممانعت نہیں ملتی،اسی وجہ سے جمہور علماء نے اس کو ”نہی تنزیہی“ پر محمول کیاہے۔ تاکہ صدقہ کرنے کے بعد آدمی کا دل اس کی طرف لگا نہ رہے۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی صدقہ کرنے کے بعد اسی چیز کو خریدنا چاہے تو کیا حکم ہے؟ تو فرمایا کہ نہ خریدے تو بہتر ہے۔(۳۱)
لیکن بعض مالکیہ نے اس کو ”نہی تحریمی“ پر محمول کیا ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر بیع ہوگئی تو فسخ کردی جائے گی حالاں کہ اگر یہ ”نہی تحریمی“ ہوتی تو بیع کو فسخ کرنا واجب تھا۔ اس لیے کہ مذہب مالکی کا اصول یہ ہے کہ نہی، فساد کی متقاضی ہے، الا یہ کہ کوئی دلیل اس کے خلاف ہو۔ حنابلہ نے بھی اس کو نہی تحریمی قرار دیا ہے۔(۳۲)
۲- حضرت بریرہ کے مالکوں نے ان کو فروخت کرنا چاہا اور حضرت عائشہ نے ان کو خریدنا چاہا۔ لیکن مالکوں کی یہ شرط تھی کہ حق ”ولاء“ ان کو ہی حاصل رہے گا۔ حضرت عائشہ کویہ شرط منظور نہ تھی، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں مشورہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لاعلیک ان تشترطی لہم الولاء․ ”کوئی حرج نہیں کہ تم ان کے لیے ”ولاء“ کی شرط لگالو“
ایک روایت کے الفاظ ہیں: ”خذیہا واشترطی لہم الولاء، فانما الولاء لمن اعتق․ ”اسے لے لو اور ولاء کی شرط انہی کے لیے کردو، کیوں کہ ولاء تواسی کو ملے گا جو آزاد کرے“
حضرت عائشہ نے یہ معاملہ کرلیا۔ اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا اور فرمایا: ما بال اقوام یشترطون شروطا لیست فی کتاب اللّٰہ․ ”کیا بات ہے کہ لوگ وہ شرطیں لگاتے ہیں، جو کتاب اللہ میں نہیں“۔
آخیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” انما الولاء لمن اعتق“ ولاء تو اسی کو ملے گا جو آزاد کرے “(۳۳)
اب اگر حضرت عائشہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو، تشریع یا فتوے کے باب سے مانی جائے، تو یہ شرط پوری ہونی تھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ میں جو یہ فرمایا کہ انما الولاء لمن اعتق کے یہ بالکل برخلاف ہوگی۔ لہٰذا واقعہ یہی ہے کہ حضرت عائشہ کے ساتھ آپ کی گفتگو اس حیثیت سے تھی کہ آپ نے ان کو ایک شرعی حق کامشورہ دیا تاکہ وہ اس کو حاصل کرسکیں اور بریرہ کی خریداری اوراس کی آزادی کی ان کی خواہش بھی پوری ہوجائے۔(۳۴)
۳- بخاری میں زید بن ثابت سے روایت ہے کہ عہد رسالت میں لوگ پھل خریدلیا کرتے تھے،اور جب پھل توڑنے کاوقت آتا اورمالک ان کے پاس (قیمت کا تقاضا کرنے آتے تو خریدار یہ عذر کرتے کہ پہلے ہی اس کا گابھا خراب اور کالا ہوگیا۔ اس کو بیماری لگ گئی، یہ تو ٹھٹھر گیا۔ بہت ہی کم پھل آئے، اسی طرح مختلف آفتوں کو بیان کرکے مالکوں سے جھگڑتے (تاکہ قیمت کم کرالیں) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے مقدمات کثرت سے آنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاما لا تتبایعوا حتی یبدو صلاح الثمر ”جب اس طرح جھگڑے ختم نہیں ہوسکتے تو تم لوگ بھی میوہ کے پکنے سے پہلے ان کو نہ بیچاکرو“
زید بن ثابت نے کہا کہ گویا مقدمات کی کثرت کی وجہ سے آپ نے یہ بطور مشورہ فرمایاتھا۔(۳۵)
اس حدیث کو اگر صلاح و مشورہ کے طورپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تصرف مانا جائے تواس بیع کے جواز میں کوئی حرج نہیں۔ ابن حجراس کی شرح میں لکھتے ہیں۔
”اس میں کئی اقوال ہیں“:
۱- مطلقاً باطل ہے: اس کے قائل: ابن ابولیلیٰ اور ثور ہیں۔ وہم کی وجہ سے کسی نے اس کے بطلان پر اجماع نقل کردیا ہے۔
۲- مطلقاً جائز ہے (گوپھل درخت پر باقی رکھنے کی شرط کے ساتھ ہو) یہ یزید بن حبیب کا قول ہے۔ اس پر بھی وہم کی وجہ سے کسی نے اجماع نقل کردیا ہے۔
۳- اگر کاٹنے کی شرط لگادے تو باطل نہیں ورنہ باطل ہے: یہ قول امام شافعی، احمد اورجمہور کا ہے۔ اورامام مالک سے بھی مروی ہے۔
۴- اگر درخت پر باقی رکھنے کی شرط نہ لگائے تو بیع صحیح ہے۔ اورحدیث میں ممانعت اس صورت کے ساتھ خاص ہے کہ ابھی پھل آیا ہی نہ ہو۔ یہ اکثر حنفیہ کا قول ہے۔
۵- حدیث اپنے ظاہر پر ہے۔ اور ”نہی“ تنزیہی کے لیے ہے۔ (۳۶)
(۸) نصیحت کی حیثیت:
بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی تصرف، نصیحت کے طورپر فرماتے ہیں، مثلا:
۱- نعمان بن بشیر کے والد حضرت بشیر بن سعد نے اپنے لڑکے (نعمان) کو ایک عطیہ دیا، انھوں نے اپنے دوسرے لڑکوں کویہ عطیہ نہیں دیا تھا۔ ان کی اہلیہ: عمرہ بنت رواحہ (نعمان کی ماں) نے ان سے کہا کہ جب تک اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہیں بنالیتے، میں راضی نہیں۔ چناں چہ بشیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور واقعہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”اکل ولدک نحلت مثلہ“؟ ”کیاتم نے اپنی تمام اولاد کواسی طرح عطیہ دیا؟“ انھوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لاتشہدنی علی جور“ ”مجھے نانصافی پر گواہ نہ بناؤ“
ایک روایت کے الفاظ ہیں: أیسرک أن یکونوا فی البر سواء؟ ”کیاتم یہ پسند کرتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک برابر کریں“؟ انھوں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فلا اذا“ تو ایسا نہ کرو۔ (۳۷)
امام ابوحنیفہ، مالک اور شافعی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کے پیش نظر، حضرت بشیر کواس سے منع فرمایا۔ آپ کا مقصد،اس کو حرام قرار دینا اور اس کو باطل کرنا نہ تھا۔ اسی وجہ سے امام مالک کہتے ہیں کہ اگر کسی نے اپنی کسی ایک اولاد کو کوئی عطیہ دیا تو جائز ہے۔ ان حضرات کے پیش نظر یہی ہے کہ چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، شہرت کے ساتھ اس کی ممانعت منقول نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ یہ ممانعت، خاندان کے کمال اصلاح کے لیے، نصیحت کے طور پر تھی۔ اس پر پابندی عائد کرنا مقصد نہیں تھا۔ اس کی تائید بعض روایات کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”أشہد غیری“ (۳۸) ”کسی اور کو گواہ بنالو“۔
طاووس، اسحاق بن راہویہ، احمد بن حنبل، سفیان اور داود کی رائے ہے کہ اس طرح کا عطیہ حرام ہے، ان لوگوں نے ظاہر نص کو اختیار کیا ہے اوراس کے مقصد میں گھسنے کی کوشش نہیں کی۔(۳۹)
۲- فاطمہ بنت قیس خدمتِ نبوی میں حاضرہوئیں اور عرض کیاکہ مجھے، معاویہ بن سفیان اور ابوجہم نے نکاح کا پیغام دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اما ابوجہم فلا یضع عصاہ عن عاتقہ واما معاویہ فصعلوک لامال لہ“(۴۰) ”ابوجہم تو اپنی لاٹھی اپنے کندھے سے نہیں اتارتا اور معاویہ بن ابوسفیان مفلس آدمی ہے، اس کے پاس مال نہیں“۔
ظاہر ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں کہ فقیر سے شادی کرنا جائزنہیں، البتہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایسا مشورہ دیا جس میں ان کے لیے بہتر تھا۔(۴۱)
(۹) نفس کو اکمل درجہ پر لانے کی حیثیت:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے مواقع پر ایسے اوامر و نواہی ارشاد فرمائے جن کا تعلق صحابہ کرام کے نفوس کی تکمیل اور ان کو ان کے دینی مرتبہ کے شایان شان، اعلیٰ معیار پر آمادہ کرنے سے تھا کہ اگر عام امت کو اس پر آمادہ کیاجائے تواس میں ان کے لیے حرج و مشقت ہوگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے لیے، خصوصی طورپر صاحب تشریع تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اعلیٰ معیار اختیار کرنے پر آمادہ کرتے تھے مثلاً: نہایت نمایاں شکل میں اسلامی اخوت کے رشتہ کو مضبوط قائم رکھنا، دنیاوی ٹیپ ٹاپ کی زندگی سے صرفِ نظر کرنا اور دین اور دین کی فہم کی طرف ہمہ تن متوجہ ہونا؛ اس لیے کہ ان کو اسی لیے تیار کیاگیاتھا کہ وہ دین متین کے حامل اوراس کے علم بردار ہوں، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف میں فرمایا: محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم (فتح/۲۹) ”محمد، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں تیز ہیں اور آپس میں مہربان ہیں۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا: لو انفق احدکم مثل احدذہبا مابلغ مداحدہم (۳۷) بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم (۳۶۷۳) ”اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کرڈالے تو ان کے ایک مدغلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر“
فتح مکہ کے موقع پر، مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابووقاص کے مریض ہونے پر فرمایا: ”اللّٰہم امض لاصحابی ہجرتہم ولا تردہم علی اعقابہم، لکن البائس سعد بن خولة، یرثی لہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بمکة“(۴۲) ”اے اللہ میرے صحابہ کی ہجرت پوری کردے اورانہیں الٹے پاؤں واپس نہ کر(کہ وہ ہجرت کو چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس آجائیں) البتہ سعد بن خولہ نقصان میں پڑگئے۔“
ان کی وفات مکہ میں ہوگئی تھی، افسوس کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ ان کو موت و حیات دونوں حالتوں میں درجہ کمال حاصل رہے۔ حالاں کہ اگر مہاجر مکہ میں وفات کرجائے، توبھی اس کی ہجرت ختم نہیں ہوتی۔
۲- حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو سات چیزوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے روکا۔ جن سات چیزوں کا حکم دیا وہ یہ ہیں: مریض کی عیادت کرنا، جنازہ کے پیچھے جانا، چھینکنے والے کے جواب میں ”یرحمک اللہ“ کہنا، قسم پوری کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، سلام کو عام کرنا اور دعوت قبول کرنا۔ اور جن سات چیزوں سے ممانعت فرمائی وہ یہ ہیں: سونے کی انگوٹھی پہننے سے، چاندی کے برتن، سرخ زین پوش (جوریشمی ہو) قسی (ایک قسم کا ریشمی کپڑا) استبرق، دیبا اور ریشم کے استعمال کرنے سے۔(۴۳)
اس حدیث میں مختلف قسم کی ماموربہ اور ممنوعہ چیزوں کا ذکر کیاگیاہے، اس میں بعض (جیسے قدرت ہونے پر مظلوم کی مدد کرنا) کا واجب ہونا، اور بعض (چاندی کے برتن میں پینا) کا حرام ہونا معلوم ہے۔ جب کہ بعض مامورات (چھنکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ، کہنا اور قسم کو پورا کرنا) کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ واجب نہیں۔ اسی طرح زین پوش اور ”قسی“ کے بارے میں معلوم ہے کہ حرام نہیں۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ان سے منع فرمایا تو اس کا مقصد ان کو آشائش، ٹیپ ٹاپ کے مظاہر اور غیرمانوس رنگوں کو زینت کے طور پر استعمال سے دور رکھنا ہے۔(۴۴)
اس کی تائید حضرت علی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ انھوں نے فرمایا: نہی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم عن لبس القسی، عن لبس المعصفر، وعن تختم الذہب، وعن القرائة فی الرکوع، والسجود، ولااقول: نہاکم“(۴۵) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”قسی“ (ایک خاص ریشمی کپڑا) اور گیروے رنگ میں رنگے ہوئے کپڑا، سونے کی انگوٹھی پہننے اور رکوع و سجدہ میں قرآن کی تلاوت سے منع فرمایا، میں یہ نہیں کہتا کہ تم کو منع کیا“۔ یعنی ان امور سے ممانعت، پوری امت کے لیے نہیں؛ بلکہ خاص طورپر حضرت علی کے لیے تھی۔(۴۶)
۳- حضرت ابورافع سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الجار احق بصقبہ(۴۷) ”پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حق دار ہے“۔
مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تصرف کو ”تشریع“ نہیں؛ بلکہ اس حیثیت سے قرار دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے اندر ہم دردی اور بھائی چارہ کا جذبہ پیدا کرنا اوراس پر عمل پیرا دیکھنا چاہتے تھے۔ حنفیہ کی رائے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تصرف بہ حیثیت تشریع کے تھا، چناں چہ ہر پڑوسی کو ”حق شفعہ“ حاصل ہے۔(۴۸)
۴- حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لایمنع احدکم جارہ خشبة یغرزہا فی جدارہ(۲۹) ”کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے“۔
حضرت ابوہریرہ یہ حدیث بیان کرکے کہاکرتے تھے: ”کیا بات ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرنے والا پاتا ہوں، قسم اللہ کی! میں اس حدیث کا تمہارے سامنے برابر اعلان کرتا رہوں گا“۔
حضرت ابوہریرہ اس حدیث کو تشریع پرمحمو ل کرتے تھے، امام شافعی، ابوثور وغیرہ کی رائے ہے کہ یہ واجب ہے، اگر دیوار کے مالک کااس میں کوئی ضرر نہ ہو، امام مالک اس کو مندوب قرار دیتے تھے۔(۵۰)
۵- حضرت رافع بن خدیج اپنے چچا ظہیر بن رافع سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک بات کا حکم دیا تھا، جس میں ہمارا فائدہ تھا۔
رافع کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا، سچ ہے۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھاکہ ”تم اپنے کھیتوں کو کیاکرتے ہو“؟ میں نے عرض کیا کہ ان کو کرایہ پر چلاتے ہیں اور وہ کرایہ یہ ہے کہ جونہر پر پیداوار ہواس کو لیتے ہیں، یا چند وسق کھجور کے یا جو کے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلا تفعلوا، ازرعوہا او أزرعوہا أو أمسکوہا“ ایسا مت کرو، یا تو تم خود ان میں کھیتی کرو، یا دوسروں کو کھیتی کے لیے دو (بلا کرایہ) یا یوں ہی رہنے دو“۔(۵۱)
اکثر علما نے اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم دردی و مواسات کا سلوک کرنے کا حکم دیتے تھے۔ اسی وجہ سے امام بخاری نے اس حدیث پر یہ ترجمة الباب قائم کیا ہے: باب ماکان اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یواسی بعضہم بعضا۔(۵۲)
یہ تو عام علما کی رائے ہے؛ لیکن ربیعہ کی رائے تھی کہ سونے چاندی کے علاوہ کسی چیز کو عوض زمین کرایہ پر نہیں چلائی جاسکتی، ابن حزم کی رائے تھی کہ زمین کو کرایہ پر دینا جائز نہیں۔ ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تصرف کو تشریع پرمحمول کیاہے۔(۵۳)
(۱۰) اعلیٰ حقائق کی تعلیم دینے کی حیثیت:
بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں، خاص طور پر صحابہ کرام کو اعلیٰ حقائق کی تعلیم دینے کے طور پر تصرف فرماتے تھے، مثلاً: ۱- ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر سے فرمایا: یا أباذر! وأتبصر أحدا“؟ ”ابوذر! احد پہاڑ دیکھ رہے ہو؟ ابوذر نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ماأحب ان لی مثل أحد ذہبا أنفقہ کلہ الا ثلاثة دنانیر“ اگرمیرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو بھی مجھے صرف یہی پسند ہے کہ محض تین دینار بچاکر تمام (اللہ کے راستے میں) دے ڈالوں“۔(۵۴)
حضرت ابوذر نے اس تصرف کو عام امت کے لیے ایک عمومی حکم و تشریع قرار دیا اوراسی وجہ سے وہ مال جمع کرنے سے روکتے تھے۔ حضرت عثمان نے ان کے اس نقطئہ نظر پرنکیر کی تھی، جس کی تفصیل آگے آئے گی۔(۵۵)
(۱۱) ادب دینے کی حیثیت:
بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات، ادب سکھانے کی حیثیت سے ہوا کرتے تھے، ان کا ”مقصد تشریع“ نہیں ہوتاتھا۔ لیکن اس طرح کے تصرفات میں بڑے احتیاط کے ساتھ، غور وفکر کے بعد کوئی پہلو معین کرنا چاہیے۔ اس طرح کے تصرفات میں، دھمکی دینے کے مقصد سے، مبالغہ شامل حال ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک فقیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ طے کرنے کی کوشش کرے کہ کس تصرف کے ساتھ تشریع کا مقصد مناسب ہے اور کس تصرف کے ساتھ، بذاتِ خود تو دھمکی اور تہدید کا مقصد مناسب ہے گوکہ اس میں بھی تادیب کے ضمن میں ایک گونہ تشریع کا پہلو ہوتا ہے۔ (۵۱) مقاصد الشریعہ حوالہ بالا۔
اس کی مثالیں: ۱- حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
والذی نفسی بیدہ لقد ہممت ان آمر بحطب فیحطب، ثم آمر بالصلاة فیوٴذن لہا، ثم آمر رجلا فیوٴم الناس، ثم أخالف الی رجال فأحرق علیہم بیوتہم․ والذی نفسی بیدہ لو یعلم احدہم انہ یجد عظما سمینا او مر ماتین حسنتین لشہد العشاء
”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا ہے کہ لکڑیاں جمع کرنے کاحکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں،اس کے لیے اذان ہو، پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ پھر ایسے لوگوں کے پاس جاؤں (جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں سمیت جلادوں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر یہ لوگ جان لیں کہ مسجد میں ایک اچھے قسم کی گوشت والی ہڈی مل جائے گی یا دو عمدہ کھرہی مل جائیں گے تو یہ عشاء کی جماعت کے (مسجد میں) ضرور ضرور حاضر ہوجائیں۔“
ابن عاشور کہتے ہیں: ”بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے گھروں کو اس وجہ سے جلانے والے تھے کہ وہ عشاء کی جماعت میں شریک نہیں ہوتے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ادب سکھانے کے لیے، دھمکی آمیز انداز سے ذکر فرمائی۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا ہو کہ یہ لوگ منافق تھے۔ اور آپ کواجازت دے دی تھی کہ اگر چاہیں تو ان کے گھروں کو جلادیں۔(۵۷)
۲- ابوشریح سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واللّٰہ لایوٴمن، واللّٰہ لایوٴمن“ ”وہ ایمان والا نہیں، وہ ایمان والا نہیں“۔ ہم نے عرض کیا: کون اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”من لا یأمن جارہ بوائقہ“۔(۵۸) ”جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو“۔
اس حدیث کا مقصد، پڑوسی کے ساتھ بدسلوکی کی نزاکت کو بیان کرنا ہے، حتی کہ اس سے ایمان سلب ہونے کا خدشہ ہے۔ اوراس سے مراد ”ایمان کامل“ کی نفی ہے۔(۵۹)
ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
” اس حدیث میں، اس شخص سے ایمان کی نفی کی گئی ہے، جو اپنے پڑوسی کو اپنے قول یا فعل سے اذیت پہنچاتا ہے۔ امام نووی نے اس طرح کے موقع پر ایمان کی جونفی آئی ہے، اس کے دو جواب لکھے ہیں: (۱) یہ اس شخص کے بارے میں ہے جو پڑوسی کی ایذاء رسانی کو جائز وحلال سمجھتا ہے۔ (۲) مطلب یہ ہے کہ وہ مومن کامل نہیں۔ اور جہاں جنت میں داخلہ کی نفی آئی ہے اس سے مراد: یہ ہے کہ مومنوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا، تو یہ اول وہلہ میں جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اور ہوسکتا ہے کہ یہ زجر و تغلیظ کے طور پر ہو۔(۶۰)
(۱۲) غیر ارشادی حیثیت:
”اس سے مراد وہ امور ہیں جن کا تعلق، تشریع، تدین، تہذیب نفس اور جماعت کے انتظامی امور سے نہیں؛ بلکہ یہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق فطرت وجبلت اور مادی زندگی کے تقاضوں سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھریلو امور اور روز مرہ کی زندگی سے متعلق جوامورانجام دیتے تھے، ان کا مقصود نہ تو تشریع تھا اور نہ دوسروں کو اس پر عمل پیرا کراناتھا۔ اصول فقہ میں یہ بات آچکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جن کا تعلق جبلت و فطرت سے ہے، امت اس پر عمل پیرا ہونے کی پابند نہیں۔ بلکہ ہر شخص اپنے حسب حال اس کو انجام دے۔ جیسے کھانا پینے، لباس، لیٹنے، چلنے اور سواری وغیرہ۔ خواہ یہ شرعی امور سے خارج ہوں جیسے: راستہ چلنا، سفر میں سواری کرنا؛ یا وہ امور شرعیہ میں داخل ہوں جیسے: حج میں اونٹ کی سواری۔
اس کی مثالیں: ۱- حجة الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”محصب“ میں قیام فرمایا، وہاں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز ادا فرمائی، پھر تھوڑی دیر لیٹ گئے، اس کے بعد لوگوں کے ساتھ طوافِ وداع کے لیے مکہ مکرمہ واپس آئے۔
حضرت عبداللہ بن عمر اس کو تشریع کے باب سے مانتے تھے اور وہ پابندی کے ساتھ اس کو بجالاتے ۔ اس کے برعکس حضرت عائشہ اس کو تشریع کے باب سے نہیں مانتی تھیں، چناں چہ وہ کہتی تھیں ”انما کان منزل ینزلہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیکون اسمح لخروجہ“ ”یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس لئے اترے کہ مدینہ نکلنے میںآ سانی ہے۔“
حضرت ابن عباس کی بھی یہی رائے تھی وہ کہتے تھے: لیس التحصب بشیء وانما ہو منزل نزلہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ”محصب“ میں اترنا حج کی کوئی عبادت نہیں، یہ تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کی جگہ تھی۔(۶۱)
۲- حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا سجد احدکم فلا یبرک کما یبرک البعیر ولیضع یدیہ قبل رکبتیہ․(۶۲) ”جب کوئی سجدہ میں جائے تو اونٹ کی طرح نہ جائے، پہلے ہاتھ رکھے پھر اپنے گٹھنے رکھے۔“
امام مالک نے (ایک روایت میں) اس حدیث کو تشریع پر محمول کیاہے، اور ان کے نزدیک سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر رکھے پھر گھٹنے۔ لیکن حنفیہ، شافعیہ اور امام مالک (دوسری روایت میں) کے نزدیک پہلے گھٹنے زمین پر رکھے پھر ہاتھ۔ ان کے نزدیک دوسری احادیث ہیں، اور انھوں نے اس حدیث کے کئی جوابات دیے ہیں، ان میں ایک یہ کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب آپ کاجسم اطہر بھاری ہوگیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہوگئی تھی۔ حنابلہ کے یہاں بھی دونوں روایتیں ملتی ہیں۔(۶۳)
۳- حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم طاف بالبیت وہو علی بعیر(۶۴) ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا“۔
حنفیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تصرف کو ”تشریع“ نہیں قرار دیا، لہٰذا ان کے نزدیک بلاعذر سوارہوکر طواف کرنا جائزنہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار ہوکر طواف کی وجہ یہ تھی کہ آپ مریض تھے جیسا کہ امام بخاری نے اس حدیث پریہی باب قائم کیاہے، یا لوگوں کی تعلیم کے لیے آپ نے ایسا کیا، یا اس وقت کی بات ہے جب آپ کی عمر زیادہ ہوگئی تھی۔ یہ ساری وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔ یہی مالکیہ کی بھی رائے ہے۔ شافعیہ نے اس تصرف کو تشریع پرمحمول کیاہے، لہٰذا ان کے نزدیک بلاعذر سواری کی حالت میں طواف جائزہے۔ حنابلہ کے یہاں دونوں روایتیں ہیں۔(۶۵)
۴- حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب موذن صبح کی پہلی اذان دے کر چپ ہوجاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور صبح روشن ہوجانے کے بعد، فرض سے پہلے دو رکعت ہلکی اداکرتے، پھر داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے۔ یہاں تک موذن تکبیر کی اطلاع دینے کے لیے آپ کے پاس آتا۔(۶۶)
سنتِ صبح کے بعد لیٹنا تشریع کے طور پر تھا۔ یہی رائے ابن حزم کی تھی، ان کے نزدیک نماز فجر سے پہلے لیٹنا شرط ہے۔ امام نووی نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ حضرت عائشہ اس کو ”تشریع“ نہیں قرار دیتی تھیں، ان کا کہنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنت ہونے کی حیثیت سے نہیں لیٹتے تھے؛ بلکہ اس وجہ سے کہ آپ رات میں عبادت کرتے تھے، اس لیے سنت فجر کے بعد آرام کے لیے لیٹ جاتے تھے۔(۶۷)
شوکانی نے سنت فجر کے بعد لیٹنے کے بارے میں چھ اقوال نقل کیے ہیں، وہ رقم طراز ہیں:
(۱) یہ استحباب کے طور پر مشروع ہے، عراقی نے کہا کہ صحابہ کرام میں: ابوموسی اشعری،رافع بن خدیج، انس بن مالک، اور ابوہریرہ کا اس پر عمل یافتویٰ تھا۔ ابن عمر سے روایت میں اختلاف ہے۔ ائمہ میں امام شافعی اس کے استحباب کے قائل تھے۔
(۲) یہ عمل فرض وواجب ہے۔ یہ ابن حزم کا قول ہے۔
(۳) یہ مکروہ اور بدعت ہے۔ اس کے قائل: ابن مسعود ہیں، ایک قول ابن عمر کا بھی یہی ہے۔ ابن مسعود کہتے تھے کہ کیا بات ہے کہ آدمی سنت فجر پڑھنے کے بعد، گدھے کی طرح پڑجاتاہے۔ امام مالک اسی کے قائل تھے۔ قاضی عیاض نے اس کو جمہور کا قول نقل کیاہے۔
(۴) یہ خلافِ اولیٰ ہے۔ یہ حسن کا قول ہے۔
(۵) تہجد گزار کے لیے مستحب ہے، دوسرے کے لیے نہیں۔ اس کے قائل ابن عربی ہیں۔ حضرت عائشہ کے سابقہ قول سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
(۶) لیٹنا مقصود بالذات نہیں، بلکہ سنت اور فرض کی درمیان فصل کرنا مقصود ہے۔(۶۸)
۵- جنگ بدر کے موقع پر مسلمانوں کے قیام کے لیے جس جگہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتخاب فرمایا، اس طرف کوئی چشمہ یاکنواں نہ تھا، زمین اس قدر ریتیلی تھی کہ اونٹ کے پاؤں زمین میں دھنس دھنس جاتے تھے، حضرت حباب بن منذر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ جو مقام انتخاب کیاگیاہے، وہ وحی کی رو سے ہے یا فوجی تدبیر؟ ارشاد ہوا کہ وحی نہیں۔ حضرت حباب نے عرض کیا کہ تو بہتر ہوگاکہ آگے بڑھ کر چشمہ پر قبضہ کرلیاجائے۔ اور آس پاس کے کنویں بیکار کردیے جائیں۔ حضرت حباب کے الفاظ تھے: منزل أنزلکہ اللّٰہ لیس لنا ان نتعداہ، ولا نقصر عنہ، ام ہو الرای، والحرب والمکیدة(۶۹)
۶- حضرت طلحہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ لوگوں پرگزرا، جو کھجور کے درخت پر تھے، آپ نے فرمایا: یہ لوگ کیاکرتے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: پیوند لگاتے ہیں یعنی نرکومادہ میں رکھتے ہیں، وہ گابہہ ہوجاتی ہے۔ آپ نے فرمایا: ما اظن یغنی ذلک شیئا میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ فائدہ نہیں۔
یہ خبر ان لوگوں کو ہوئی تو انھوں نے پیوند کرنا چھوڑ دیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا:
ان کان ینفعہم ذلک فلیصنعوہ فانی انما ظننت ظنا فلا تواخذونی بالظن ولکن اذا حدثتکم عن اللّٰہ فخذوہ فانی لن اکذب علی اللّٰہ عزوجل․
اگر اس میں ان کو فائدہ ہے تو وہ کریں۔ میں نے تو ایک خیال کیا تھا تو مت مواخذہ کرو میرے خیال پر۔ لیکن جب میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم بیان کروں تو اس پر عمل کرو، اس لیے کہ میں اللہ پر جھوٹ بولنے والا نہیں۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں: انما انا بشر اذا امرتکم بشیء من دینکم فخذوہ واذا امرتکم بشیء من رایی فانما انا بشر․ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو آدمی ہوں، جب میں تم کو دین کی کوئی بات بتاؤں، تو اس پر چلو، اور جب کوئی بات میں اپنے رائے سے کہوں تو آخر میں آدمی ہوں۔
حضرت انس کی روایت کے الفاظ ہیں: لولم یفعلو الصلح، فخرج شیصا فمر بہم فقال: ما لنخلکم؟ قالوا: قلت کذا وکذا․ قال: انتم اعلم بامر دنیاکم․ آپ نے فرمایاکہ اگر نہ کرو تو بہتر ہوگا۔ (انھوں نے نہ کیا) آخر کھجور خراب نکلی، آپ ادھر سے گذرے اور لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے درختوں کو کیا ہوا؟ انھوں نے کہا کہ آپ نے ایسافرمایاتھا۔ (کہ گابھا نہ کرو) ہم نے نہیں کیا۔ اس وجہ سے خراب کھجور نکلی۔ آپ نے فرمایاکہ تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے بہتر جانتے ہو۔(۷۰)
ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تصرف ”تشریع“ کے طور پر نہیں۔ اور نہ کسی نے اس کو تشریع کے باب میں داخل کیاہے۔
***
حواشی
(۱) بخاری کتاب الطلاق باب شفاعة النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی زوج بریرہ ۵/۲۰۲۳ (۴۹۷۹)
(۲) اسد الغابة از ابن اثیرجزری محدث ۱/۴۱۳ ط: دارالمعرفہ، ۱۹۹۷۔
(۳) مسلم کتاب الرضاعة باب رضاعة الکبیر ۲/۱۰۷۶ (۱۴۵۳)
(۴) حاشیہ ابن عابدین ۴/۶؛ شرح النووی علی صحیح مسلم ۱۰/۳۱؛ فتح الباری ۹/۱۴۹؛ شرح الزرقانی ۳/۳۱۶؛ المبدع ۸/۱۶۶۔
(۵) صحیح مسلم کتاب الاقضیة باب الحکم بالظاہر واللحن بالحجة ۳/۱۳۳۷ (۱۷۱۳)
(۶) الابہاج از علی بن عبدالکافی سبکی ۳/۹۴۲ ومابعد (وفات ۷۵۶) ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت
(۷) مسلم کتاب الحج باب استحباب رمی جمرة العقبة ․․․ ۲/۹۴۳ (۱۲۹۷)
(۸) مسلم کتاب القسامة والمحاربین باب تغلیظ تحریم الدماء والاعراض والاموال ۳/۱۳۰۵ (۱۶۷۹)
(۹) موطا مالک کتاب الحج باب جامع الحج ۱/۴۲۱ (۹۴۱) ط: داراحیاء التراث العربی، مصر؛ الابہاج ۳/۲۴۹
(۱۰) مسلم کتاب الاقضیہ باب قضیة ہند ۳/۱۳۳۸ (۱۷۱۴)
(۱۱) الابہاج از سبکی ۲/۲۵۱؛ بدائع الصنائع از علاء الدین کاسانی۴/۲۶ ط: دارالکتاب العربی، بیروت؛ المغنی ۱۰/۱۳۸۔
(۱۲) بخاری کتاب الصلح باب اذا اشار الامام بالصلح ۲/۹۶۴ (۲۵۶۱)
(۱۳) مسلم کتاب الایمان باب وعید من اقتطع حق المسلم ․․․․ ۱/۱۲۳ (۱۳۹)
(۱۴) ابن عاشور: مقاصد الشریعہ ۲۱۳۔
(۱۵) موطا مالک کتاب الحدود ۲/۸۲۲ (۱۵۰۲)؛ بخاری کتاب الشروط باب الشروط التی لا تحل فی الحدود ۲/۹۷۱ (۲۵۷۶)؛ مسلم کتاب الحدود باب من اعترف علی نفسہ بالزنا ۳/۱۳۲۵(۱۶۹۷)
(۱۶) سنن ابوداود فی الخراج والامارة والفیٴ باب فی احیاء الموات ۳/۱۷۸ (۳۰۷۳)
(۱۷) شرح معانی الآثار ۳/۲۶۸؛ الکافی فی فقہ ابن حنبل از عبداللّٰہ بن قدامہ ابومحمد المقدسی ۲/۴۳۵ ط: مکتب اسلامی، بیروت؛ موطا مالک ۲/۷۴۴ط: داراحیاء التراث العربی، مصر؛ المدونة الکبری ۱۵/۱۹۵ ط: دارصادر، بیروت؛ الام از امام شافعی ۷/۲۳۰ ط: دارالمعرفة، بیروت۔
(۱۸) بخاری ابواب الخمس باب من لم یخمس الاسلاب ومن قتل قتیلاً ․․․ ۳/۱۱۴۴ (۲۹۷۲)
(۱۹) بدایة المبتدی از علی بن ابوبکر مرغینانی ۱/۱۱۷ط: مطبعة محمد علی صبیح، مصر؛ کفایة الطالب از ابوالحسن مالکی ۲/۱۹؛ الام ۴/۱۴۳؛ المغنی از ابن قدامہ ۹/۱۹۲ ط: دارالفکر، بیروت۔
(۲۰) مسند ابوعوانہ ۵/۳۰۔
(۲۱) مسلم کتاب الصید والذبائح باب تحریم اکل لحم الحمر الاہلیة ۳/۱۵۳۹ (۱۹۳۹)
(۲۲) مقاصد الشریعة الاسلامیة از محمد طاہر بن عاشور ۲۱۵ ط: دارالنفائس،اردن۔
(۲۳) یہاں ”تشریع“ سے مراد: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول یا فعل جس سے بہ ظاہر حرمت یا وجوب سمجھ میںآ رہا ہو؛ لیکن مقصود حرمت یا وجوب نہ ہو۔ ورنہ ”ہدی وارشاد“ سے بھی کسی نہ کسی درجہ میں، مشروعیت سمجھ میں آتی ہے۔
(۲۴) ابن عاشور: مقاصد الشریعة ۲۱۶۔
(۲۵) بخاری کتاب العتق (۲۷۰۸)
(۲۶) شرح نووی علی صحیح مسلم ۱۱/۱۳۳ ط: داراحیاء التراث العربی، بیروت۔
(۲۷) فتح الباری ۵/۱۷۵ ط: دارالمعرفہ، بیروت۔
(۲۸) بخاری کتاب الصلح باب اذا اشار الامام بالصلح ۲/۹۶۴ (۲۵۶۱)
(۲۹) بخاری کتاب الصلح باب الصلح بالدین ۲/۹۶۵ (۲۵۶۳)
(۳۰) موطا مالک ۱/۲۸۲؛ بخاری کتاب الزکاة باب ھل یشتری صدقتہ․․․ ۲/۵۴۲ (۱۴۱۹)؛ مسلم کتاب الہبات باب کراہیة شراء الانسان ما تصدق بہ ممن تصدق علیہ (۱۶۲۰)
(۳۱) موطا مالک ۱/۲۸۲؛ المنہج القویم از ہیثمی شافعی ۱/۵۰۱ ط: بدون۔
(۳۲) منارالسبیل از ابراہیم محمد بن سالم بن ضویان ۱/۱۹۷ ط: مکتبة المعارف، ریاض۔
(۳۳) بخاری کتاب البیوع باب اذا اشترط وطا فی البیع لاتحل ۲/۷۵۹ (۲۰۶۰)
(۳۴) ابن عاشور:مقاصد الشریعة ۲۱۹۔
(۳۵) بخاری کتاب باب بیع الثمار قبل ان یبدو صلاحہ ۲/۷۶۵ (۲۰۸۱)
(۳۶) فتح الباری ۴/۳۹۴؛ تفصیلات کے لیے دیکھئے: ابن عابدین ۴/۵۵۶؛ المغنی ۴/۷۲؛ مواہب الجلیل از محمد بن عبدالرحمن المغربی ۴/۵۰۷ ط: دارالفکر،بیروت۔
(۳۷) موطا کتاب الاقضیة باب مالایجوز من النحل ۲/۷۵۱؛ بخاری کتاب (۳۹) بدائع الصنائع ۶/۱۲۷؛ سرح الزرقانی ۴/۵۴؛ اختلاف الحدیث از امام شافعی ۱/۱۵۹ ط: موسسہ کتب ثقافیہ، بیروت؛ المغنی ۵/۳۸۷؛ مقاصد الشریعہ ۲۲۰ باب الہبة للولد ․․․ ۲/۹۱۳ (۲۴۴۶)؛ مسلم کتاب الہبات باب کراہة تفضیل بعض الاولاد فی الہبة (۱۶۲۳)
(۳۸) مسند ابوعوانہ ۳/۴۵۷ (۵۶۷۹)
(۳۹) بدائع الصنائع ۶/۱۲۷؛ شرح الزرقانی ۴/۵۴؛ اختلاف الحدیث از امام شافعی ۱/۱۵۹ ط: موسسہ کتب ثقافیہ، بیروت؛ المغنی ۵/۳۸۷؛ مقاصد الشریعہ ۲۲۰۔
(۴۰) مسلم کتاب الطلاق باب المطلقة ثلاثا لانفقة لہا ۲/۱۱۱۴ (۱۴۸۰)
(۴۱) ابن عاشور ۲۲۱۔
(۴۲) مسلم کتاب الوصیة باب الوصیة بالثلث ۳/۱۲۵۱ (۱۶۲۸)
(۴۳) بخاری کتاب اللباس باب المثیرة الحمراء (۵۸۴۹) مسلم کتاب اللباس والزینة باب تحریم استعمال اناء الذہب والفضة․․․ ۳/۱۶۳۵ (۲۰۶۶)
(۴۴) مقاصد الشریعہ ۲۲۲۔
(۴۵) سنن ابواود کتاب اللباس (۴۰۴۴-۴۰۴۶)
(۴۶) مقاصد الشریعہ ۲۲۳۔
(۴۷) بخاری کتاب الحیل باب فی الحبة والشفعة ۶/۲۵۵۹ (۶۵۷۶)
(۴۸) احکام القرآن از جصاص ۳/۱۶۲؛ بدایہ المجتہد ۲/۱۹۳؛ الام ۷/۱۱۰؛ کشاف القناع ۴/۱۳۸۔
(۴۹) موطا کتاب الاقضیة باب القضاء فی المرفق ۲/۵۴۷ (۱۴۲۷)؛ بخاری کتاب المظالم باب لایمنع جارہ ان یغرز خشبہ فی جدارہ ۲/۸۶۹ (۳۴۶۳)؛ مسلم کتاب المساقاة باب غرز الخشب فی جدار الجار ۳/۱۲۰۳ (۱۶۰۹)
(۵۰) التاج والاکلیل ۵/۱۷۵؛ مغنی المحتاج ۲/۱۸۷؛ منار السبیل ۱/۳۵۰۔
(۵۱) مسلم کتاب البیوع باب کراء الارض بالذہب والورق ۳/۱۱۸۳ (۱۵۴۸)
(۵۲) بخاری کتاب المزارعہ باب (۱۵) ۲/۸۲۴؛ مقاصد الشریعہ ۲۲۴۔
(۵۳) فتح الباری ۵/۲۵۔
(۵۴) بخاری کتاب الزکاة باب ما ادی زکاتہ فلیس بکنز․․․ ۲/۵۱۰ (۱۳۴۲)؛ مسلم کتاب الزکاة باب فی الکنازین للاموال ․․․ ۲/۶۰۹ (۹۹۲)
(۵۵) مقاصد الشریعہ ۲۲۴۔
(۵۶) موطا کتاب الصلاة باب فضل صلاة الجماعہ؛ بخاری کتاب الجماعة والامامة باب فضل صلاة الجماعة ۱/۲۳۱ (۶۱۹) مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاة باب فضل صلاة الجمعة ․․․ ۱/۴۵۱ (۶۵۱)
(۵۷) مقاصد الشریعہ حوالہ بالا۔
(۵۸) بخاری کتاب الادب باب اثم من لایأمن جارہ بوائقہ (۶۰۱۶) مسلم کتاب الایمان (۴۶)
(۵۹) مقاصد الشریعہ ۲۲۶۔
(۶۰) فتح الباری ۱۰/۴۴۴۔
(۶۱) بخاری کتاب الحج باب الحصب ۲/۶۲۶ (۱۶۷۶-۱۶۷۷)
(۶۲) سنن ابواود کتاب الصلاة باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ ۱/۲۲۲ (۸۴۰)
(۶۳) مقاصد الشریعہ ص ۲۲۶؛ المبسوط ۱/۳۱؛ بدایة المجتہد ۱/۱۰۰؛ المبدع ۴/۱۵۲؛ المہذب ۳/۷۶۔
(۶۴) بخاری کتاب الحج باب المریض یطوف راکبا ۲/۵۸۸ (۱۵۵۱)
(۶۵) بدائع الصنائع ۲/۱۳۰؛ شرح النووی علی مسلم ۹/۱۸؛ المغنی ۳/۲۱۱؛ کفایہ الطالب ۱/۶۶۷۔
(۶۶) بخاری کتاب الاذان باب من انتظر الاقامة ۱/۲۲۵ (۶۶۰)
(۶۷) فتح الباری ۳/۴۳؛ مصنف عبدالرزاق ۳/۴۳ (۴۷۲۲)
(۶۸) نیل الاوطار ۳/۲۷۔
(۶۹) اسدالغابة از ابن اثیرجزری محدث ۱/۴۱۳ ط: دارالمعرفہ ۱۹۹۷۔
(۷۰) مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقالہ شرعا ․․․ ۴/۱۸۳۵ (۲۳۶۱-۲۳۶۳)
———————————
دارالعلوم ، شماره : 8-9، جلد : 92 شعبان – رمضان 1429ھ مطابق اگست -ستمبر ۲۰۰۸ء