از: مولانا محمد اسجد قاسمی ندوی، جامعہ عربیہ امدادیہ مراد آباد
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منصبِ نبوت پر فائز ہونے کے بعد شرک اور ضلالت میں ڈوبے ہوئے سماج میں توحید کی صدا بلند کی، مکة المکرمہ کے شرک زدہ ماحول میں توحید کی یہ صدا بے حد نامانوس تھی، اور اس کی زد براہ راست رؤسائے کفار کے موروثی دین باطل پر پڑ رہی تھی، اس لئے مخالفتوں کا ایک طوفان امڈ آیا، توحید کی صدا پر لبیک کہنے والے گنتی کے چند افراد پر عرصہٴ حیات تنگ کردیا گیا، مگر ان تمام مخالفتوں اور ایذا رسانیوں کے باوجود قافلہ توحید بڑھتا گیا، بالآخر مدینة الرسول میں ایک مثالی آئیڈیل اسلامی معاشرہ تشکیل پایا۔
صحابہٴ کرام کا سماج ایک نمونے کا مسلم سماج تھا،اور اسکی بے شمار امتیازی خصوصیات و کمالات کی خوبیوں نے پورے عالم کو متاثر کیا اور پھر اس کے نتیجے میں مشرق سے تا مغرب تک اسلام پھیلا اور اسلام کا حلقہ اور دائرہ پھیلتا اور بڑھتا گیا، مرورِ ایام سے پھر بعد کی صدیوں میں اُس معاشرہ کی خصوصیات کم ہوناشروع ہوئیں اور پھر اسکی تاثیر اور مقبولیت کاگراف بھی نیچا ہوتا گیا، اور اب موجودہ صورت حال مسلم سماج کی یہ ہے کہ ہرطرف اخلاقی طاعون پھیلا ہوا ہے، اباحیت اور عریانیت، مادّیت اور حیوانیت کے باب میں نمونے کا مقام رکھنے والی یوروپی تہذیب کی دریوزہ گری اور اندھی تقلید نے تمام مذہبی اور اخلاقی اقدار پر تیشے چلا ڈالے ہیں، اور بقول حافظ شیرازی ع
ہمہ آفاق پر از فتنہ و شر می بینم
پوری دنیا فتنہ اور شر کی آماج گاہ بنی ہوئی نظر آتی ہے، اور حدیث نبوی کے بموجب گناہوں کی بہتات اور گندگی نے تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے،مسلم سماج کی یہ بدحالی اور بے راہ روی پورے انسانی سماج کی نگاہ میں اُس کی دناء ت اور رذالت کی منظر کشی کرتی ہے، اور مسلمانوں کی عملی زندگی پر نگاہ رکھنے والا انسان متأثر ہونے کے بجائے مایوس، بددل و بدگمان اور نفور وگریزاں ہوتا ہے۔
ایک اسلامی معاشرہ، انسانی معاشرے کو اُسی وقت متاثر کرسکتا ہے جب وہ قرنِ اول (عہدصحابہ) کے مثالی سماج کی نمایاں خصوصیات اختیار کرلے اور ان سے انحراف کو اپنے لئے تباہی کی علامت اُسی طرح باور کرے جس طرح صحابة الرسول ان خصوصیات سے کسی بھی قیمت پر دست بردار ہونا ہلاکت کے مرادف سمجھاکرتے تھے۔
صحابہٴ کرام کے معاشرے کی تمام خصوصیات کا احاطہ تو دشوار ہے، تاہم ان کے روشن عناوین کچھ یوں ہیں:
(۱) موقفِ حق پر محکم یقین اور استقامت
دل کی گہرائیوں سے حق قبول کرلینے کے بعد صحابہ کو ایسا پختہ یقین اور اپنے موقف پر ایسا ثبات و استقلال حاصل ہوجاتا تھا کہ باد مخالف کے کتنے ہی جھکڑ کیوں نہ چلیں، رکاوٹوں کا طوفان کیوں نہ آجائے اور مصائب و مشکلات کی بھٹیوں میں تپایا کیوں نہ جائے وہ کوئی لچک اور نرمی پیدا کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے، دشمنوں کی ترغیبات و تحریصات کا دام ہو یا تہدیدات و تشدیدات کی کارروائی، ان کے موقف میں سرمو انحراف نہ آتا تھا اور ان کی زبانِ حال یہ پیغام دیتی تھی۔#
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
(۲)جذبہٴ ایثار و قربانی
معاشرتی زندگی کی کامیابی کا راز ایثار و قربانی میں ہے، صحابہ کرام کا سماج ایثار و قربانی کا آئیڈیل سماج تھا، قرآن انصارِ صحابہ کے جذبہٴ ایثار کو ”ویوٴثرون علیٰ أنفسہم ولو کان بہم خصاصة“ (وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود اپنی جگہ محتاج کیوں نہ ہوں) کے الفاظ سے بیان کرتا ہے، سیرت صحابہ میں مالی ایثار کی بے شمار داستانیں ہیں، ہجرت نبوی کے پرخطر سفر کے موقع پر دشمنانِ اسلام کی طرف سے اجتماعی طور پر قتل رسول کی منظم پلاننگ معلوم ہونے کے باوجود حضرت علی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر آرام، اسی طرح سفر ہجرت کی دشوار گذاریوں میں حضرت ابوبکر کی طرف سے والہانہ طلب پر شرکت ورفاقت جانی ایثار کے عدیم النظیر نمونے ہیں، غزوات کا موقعہ ہو، حفاظتِ رسول کا موقعہ ہو، تحفظ دین کا موقعہ ہو،ملت کی خدمت کا موقعہ ہو، ہر موڑپر صحابہ کی قربانیوں اور ایثار کے ریکارڈ موجود ہیں، اور اسلام سے محروم انسانی سماج پر صحابہ کے اس جذبے نے کیا کیا اثرات مرتب کئے اور کس طرح وہ اسلام سے قریب آیا یہ بالکل واضح ہے۔
(۳) نافعیت اور مواسات
سب سے بہتر انسان وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے،مسلمان وہی ہے جس کی زبان درازویوں اور دست درازیوں سے انسان محفوظ رہیں، موٴمن وہی ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور مالوں کے سلسلے میں مامون و بے خوف ہیں، اللہ کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرے، ان بنیادوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرہ قائم فرمایاتھا، صحابہ کے معاشرے کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ انھوں نے ہمیشہ یہی انداز اپنائے رکھا کہ ۔
مری زبان و قلم سے کسی کا دل نہ دکھے
کسی کو شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ سے
حضرت جابر بن عبداللہ کو پہلی ملاقات میں یہ نصیحت کی تھی کہ تم کبھی کسی کو برا بھلا مت کہنا، وہ فرماتے ہیں کہ پھر مرتے دم تک میں نے نہ کسی آزاد کو برا کہا نہ کسی غلام کو، اور انسان تو انسان ہے کسی اونٹ اور بکری کے لئے بھی سخت کلمہ میری زبان سے نہیں نکلا، دوسروں کے درد کو اپنا سمجھنا بلکہ اپنے درد سے زیادہ اس کا احساس اور ہمہ وقت دوسروں کو نفع پہنچانے کی کوشش صحابہ کے معاشرے کا طرئہ امتیاز تھا۔
(۴) عدل و مساوات
قرآن ایسا ایمانی معاشرہ چاہتا ہے جو انصاف کا علم بردار اور مساوات کی روش پر قائم ہو، طبقاتی تفاوت اور اونچ نیچ اسلام کی نگاہ میں جاہلیت کی لعنت اور غلاظت ہے، ظلم اور نا انصافی امن عالم اور بقائے انسانیت کی راہ کا سب سے بڑا روڑا ہے، صحابہ کا معاشرہ عدل و مساوات کی شاہراہ پر گامزن تھا، اس سماج میں ہر فرد عدل کا خوگر تھا، خواہ اس کی زد اس کی اپنی ذات یا اس کے والدین و اقارب پر کیوں نہ آتی ہو، اسی طرح مساوات اور برابری کے لحاظ سے بھی وہ معاشرہ نمونے کا تھا، مشہور غسانی سردار جبلہ بن ایہم جس نے اسلام قبول کرلیاتھا اور طواف کے دوران ایک دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کے تہ بند پر جاپڑا تھا، جس پر اس نے اسے اتنی زور سے مارا کہ ناک کا بانسہ ٹیڑھا ہوگیا اور خون رسنے لگا، حضرت عمر نے فیصلہ سنایا کہ یا تو بدّو کو راضی کرو یا قصاص کے لئے تیار ہوجاؤ، جبلہ نے لاکھ نرمی کا معاملہ کرانا چاہا مگر حضرت عمر نے کہا کہ اسلام شاہ و گدا کا فرق نہیں کرتا، اس کا قانون عام مساوات کا قانون ہے، بالآخر جبلہ نے کچھ مہلت لی، اور راتوں رات بھاگ کر پھر عیسائی ہوگیا، مگر اسلامی قانون عدل و مساوات پر حضرت عمر نے آنچ نہ آنے دی۔
(۵)اجتماعیت و اخوت
صحابہ کا معاشرہ باہمی الفت و محبت میں جسم واحد کی طرح تھا،اور باہمی اتحاد و اجتماعیت میں ان کی کیفیت ”بنیان مرصوص“ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح تھی، اوس و خزرج کی باہمی طویل خانہ جنگی اور سلسلہٴ کشت و خون اسلام کی برکت سے باہمی محبت و الفت میں اس طرح تبدیل ہوئی کہ منافق اور یہود مل کر بھی اس اجتماعیت میں دراڑ پیدا نہ کرسکے، اختلاف کو ہوا دینی والی چیزوں سے، ہر طرح کی بدگمانیوں اور بے جا خدشات سے اور افواہوں پر یقین کرنے سے صحابہ کا سماج پاک تھا،اور اسی لئے اس میں مثالی اتحاد اور اخوت کا جذبہ تھا، جو دوسروں کو حد سے زیادہ متاثر و مرعوب کرتا تھا ۔
(۶)قول وعمل کی یکسانیت
قرآن کی صراحت کے مطابق قول وعمل کا تضاد اللہ کی نگاہ میں بے حد مبغوض عمل اور انسانی سماج کے لئے زہر قاتل ہے، معاشرے کی اصلاح کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہر فرد غازیٴ کردار ہو، حضرت عثمان غنی نے اپنا اول خطبہ خلافت اس حقیقت کے اظہار سے شروع کیا تھا کہ آج مسلمانوں کو غازیٴ کردار رہنماکی ضرورت ہے نہ کی غازیٴ گفتار رہنما کی۔ عہد صحابہ قول وعمل کی یکسانیت میں ممتاز تھا، اور اس معاشرے کاہر فرد جو کہتا تھا سب سے پہلے اس پر عمل کرکے دِکھاتا تھا، چنانچہ اس کی تاثیر یہ سامنے آتی تھی کہ گروہ در گروہ لوگ آکر اسلام کے دامن میں پناہ لیتے تھے۔
(۷) پاکیزگی
اسلام کا مطالبہ انسان سے ہمہ جہتی پاکیزگی کا ہے، صحابہ کا معاشرہ سرسے لے کر پیر تک پاکیزگی کے رنگ میں رنگا ہوا تھا، ان کے دل و دماغ باطل خیالات اور باطنی امراض سے پاک تھے، ان کی نگاہ پاکیزہ تھی، ان کی خوراک و پوشاک پاک تھی، ان کا ماحول ظلم اور عریانیت سے پاک تھا، ان کی انفرادی زندگی کا ہر پہلو اور گوشہ پاکیزہ تھا، ان کی زبان پاک تھی، اور ان کی سیاست بھی مکروفریب سے پاک تھی، شراب کی رسیا عرب قوم کو جب اس کے ناپاک و حرام ہونے کا علم ہوا تو پورا مدینہ شراب کی لعنت سے پاک ہوگیا، تاریخ صحابہ پاکیزگی کے بے شمار ہمہ جہتی نمونوں سے مالامال تاریخ ہے۔
(۸) ادائے حقوق
اسلام نے بندگانِ خدا پر حقوق عائد کئے ہیں، اللہ کے حقوق کی الگ فہرست ہے، اور بندوں کے حقوق کی الگ، بلکہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی نسبتاً زیادہ اہم قرار دی گئی ہے، صحابہ کی زندگی میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا جو اہتمام نظر آتا ہے وہ بے نظیر ہے۔
صحابہٴ کرام کے قرآنی، ربّانی اور ایمانی معاشرے کی بے شمار خصوصیات کے یہ روشن خطوط ہیں، اس لئے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ ان خصوصیات کو اپنائے بغیر اور اسوئہ صحابہ کی پیروی کئے بغیر انسانی معاشرے کو نہ تو متاثر کرسکتا ہے اور نہ اپنی عملی زندگی میں کامیابی اور سعادت سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد: 90 ،جمادی الثانی 1427 ہجری مطابق جولائی2006ء