از:مولوی محمد ساجد کھجناوری، دارالعلوم دیوبند
مذہب اسلام جو پوری دنیا کے لئے باعث رحمت و سعادت ہے، جس کے سائبان تلے ہی پوری انسانیت ہر قسم کی تپش سے محفوظ رہ سکتی ہے، یہ اپنے روز اول سے ہی انسانیت دشمن اور باطل پرستوں کی نگاہوں میں کھٹکتا رہا ہے، موجودہ دور میں یہ مذہب اپنی شان اور آن کے باوجود غیروں کے نشترہائے تنقید وتنقیص کا سامنا کررہا ہے، اس امر کی سنگینی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے، جب اپنے ہی کچھ شکست خوردہ اور احساس کمتری کے شکار نادان دوست اسلامی تعلیمات، اس کے نقوش و خطوط پر طنز وتعریض کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور بسا اوقات اس دین مبین کی ایسی تشریح کرتے ہیں جس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، ایسا ممکن ہے کہ ان حضرات میں کچھ مخلص بھی ہوں اور ملت کے لیے درد دل رکھتے ہوں، مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ شعوری اور غیرشعوری طور پر دشمنوں کے آلہٴ کار بن رہے ہیں۔
عالم اسلام پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز علماء اور اسکالرس کی تازہ تحریروں سے یہ نتیجہ اخذ کرلینا مشکل نہیں ہے کہ اس وقت اسلام اور اس کے متبعین کو دو محاذوں پر جانچنے اور ختم کرنے کی گھناؤنی شازشیں ہورہی ہیں، ایک محاذ کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے جسمانی وجود کو نشانہ بنانا جب کہ دوسرے محاذ پر اس کی روحانی قوت اور غذا کو ٹارگیٹ کرنا شامل ہے۔ پہلے محاذ پر لڑی جانے والی جنگ کے خط و خال اس کی شرانگیزی اور تباہی ہر صاحب چشم و گوش کے سامنے ہے، یہ جنگ افغانستان سے ہوتے ہوئے عراق اور دوسرے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تیار ہے، افغان اور عراقی عوام کے ساتھ ان درندہ صفت قوتوں کے مظالم جگ ظاہر ہیں، جب کہ ایران، شام اور دیگر ملکوں کو سبق سکھانے کا عزم بالجزم دوہرایا جارہا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ نشے میں مست یہ ظالم قوتیں بہت جلد اپنی شیطنت کا مظاہرہ کربیٹھیں، دوسرا محاظ جو مسلمانوں کے خلاف تیار کیاگیا ہے، اس کے قیام کا مقصد ملت اسلامیہ کو روحانی اور فکری اعتبار سے مفلوج بنانا ہے، تاکہ اس کی اصل قوت کو جو اس مثالی امت کا سرچشمہ حیات ہے ناپید کردیا جائے۔
راقم السطور کے ناقص خیال میں دوسری قسم کی جنگ بہت شدت و قوت سے لڑی جارہی ہے اور مسلمانوں کو اصل خطرہ اسی جنگ سے ہے اس لیے کہ مسلمان جب تک روحانی طاقت سے لیس رہے گا، تو دنیا کی کوئی طاقت اسے سرنگوں نہیں کرسکتی اور یہی ایمان کا لازمی نتیجہ ہے۔
اس روحانی قوت کو ختم کرنے کے لیے انسانیت کے دشمنوں نے ہر اس چیز کو روا رکھا ہے، جس کی کم از کم مہذب دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال ہے، جو بزعم خویش یہ سمجھتے ہیں کہ وہی مذہب سماج کے تن تنہا ٹھیکیدار ہیں، ان لوگوں نے ”جدت پسندی“ اور ”روشن خیالی“ جیسے پرفریب کھوکھلے نعرے بلند کررکھے ہیں، جن کی آڑ میں وہ اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، چنانچہ اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ ان محبوب اور دل فریب نعروں سے اٹھنے والی آوازیں بعض طبقوں میں تسلیم کرلی گئی ہیں اور اس کے مضر اثرات نے کمزور لوگوں کو بڑی حدتک متاثر بھی کیا ہے، اس کی عمومی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے، ان پر فریب نعروں کے متاثرین اپنے دینی، روحانی اور لطیف جذبات کو نہاں خانہٴ دل کے کسی ویران گوشے میں ڈال کر ہوائے نفس کے گھوڑے پر سوار ہیں، جس کی قیادت یورپ کررہا ہے، یورپ نے انسانی معاشرے کو نفس پرستی اور مادیت کا خوگر بنادیا ہے۔ اسی مادیت کا ایک سیل رواں ہے جو مغربی عشرت گاہوں سے اٹھا ہے اور جس کے مذموم اور مسموم اثرات نے پوری انسانی برادری کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا؛ بلکہ اس کا ایک بیک گراؤنڈ (Beak Ground) اور پس منظر ہے، جس کا لب لباب یہی ہے کہ انسان ایک ایسی راہ پر گامزن ہو جہاں مذہب کا کوئی تصور نہیں نہ وہاں ربوبیت ہے اور نہ عبودیت؛ بلکہ وہاں حضرت انسان ہے اور اس کی خواہشات، ان نام نہاد تہذیب پسندوں نے اپنی تحریک کو پروان چڑھانے کے لیے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو بلیک میل کررکھا ہے، اخبارات ہو یا رسالے یا پھر مختلف نوعیت کے جریدے یہ سب آئے دن اپنی اشاعت میں ایسے مضامین اور آرٹکلس شائع کرتے ہیں جو تعمیر کے بجائے تخریب اور تمدن کے بجائے تعفن کو فروغ دیتے ہوں، الیکٹرونک میڈیا نے یہ کام ان کے لیے اور بھی آسان کردیا ہے، چنانچہ ٹیلی ویژن، وی سی آر، ویڈیو سیڈیز، ڈش کیبل اور انٹرنیٹ جیسے سریع الحرکت آلات استعمال کیے جارہے ہیں، جن پر جنسی بے راہ روی کو بڑھانے والے مضامین اور ہیجان انگیز تصاویر شائع کررہے ہیں؛ کیا یہی مغربی تہذیب کی گل کاریاں ہیں؟ جی ہاں مغربی تہذیب اسی کا نام ہے،جس نے انسانی اقدار کو پامال کرکے رکھ دیا ہے، مگر اسی تہذیب کے فریب میں اسلامی معاشرے کے نوجوان بھی پھنستے جارہے ہیں، خدانخواستہ اگر اسی وقت اس پر قدغن نہ لگایا گیا تو پھر اس انسانیت کا اللہ ہی محافظ اور مددگار ہے، بقول شاعر۔
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید ضمیر پاک وخیال بلند و ذوق لطیف
لہٰذا ہمیں اس پہلو پر غور کرنا ہوگا کہ روحانی قوت کو ہم سے چھیننے کی جو مذموم کوشش جاری ہے اس کا سدباب کیسے کیا جائے، ہمیں احتساب کا چشمہ لگاکر دیکھنا ہوگا، کہ فساد کی کھیتی کو کہاں سے سیراب کیا جارہا ہے، ان انسانیت کے دشمنوں کی تہذیب و تمدن کو دیکھ کر قوم رومانس کی ایسی دنیا میں کھوگئی ہے، کہ وہ اپنی حقیقت ہی بھول گئی ہے، یہ وہ قوم ہے کہ جس کے نوجوان کبھی ذکر اللہ کی مستی، سجدوں کی لذت، اللہ کے خوف، قیام اللیل کے شوق اور علم کے ذوق سے آشنا تھے، ان کے چہرے عبادت کے نور کی چمک اور معرفت کے نور کی دمک سے درخشندہ وتابندہ ہوا کرتے تھے آج اس کے نوجوان گلوکاریوں کی چہک اور رقاصاؤں کی تھرک کے رسیا، پری چہروں کی مٹک اور خوبانوں کی ٹھمک پر فریفتہ ہیں بقول شاعر۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ٹوٹا ہوا تارا
اسکے ساتھ ساتھ ہمیں اس نکتہ پر غور کرنا چاہئے کہ ہم نسل نو کے لیے کیا مواد فراہم کررہے ہیں تربیت کے فقدان کے سبب آج کا نوجوان ایسی راہ پر کھڑا ہے جہاں اسے صحیح راستے کی تلاش ہے، مگر رہبراس کے سامنے سے غائب ہے، کیا رہبری کے لیے کوئی خاص وقت آئیگا؟ نہیں بلکہ اس بیماری اور لاغر معاشرے کو فرنگی تہذیب سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ پوری حمیت دینی کے ساتھ میدان کارزار میں کود جائیں بہتر انجام اللہ کے ہاتھ ہے پھر ہر محاذ پر ان شاء اللہ جیت ہماری ہی ہوگی۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ6، جلد: 90 ،جمادی الاول1427 ہجری مطابق جون2006ء