از: اشتیاق احمد قاسمی، استاذ دارالعلوم حیدرآباد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سارے مسلمانوں کیلئے تونمونہٴ عمل ہے ہی، پر غیروں کیلئے بھی اس میں کچھ کم درس نہیں؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس جس طرح ایثار و قربانی، تحمل وبردباری، تواضع و انکساری میں اپنی مثال آپ ہے،اسی طرح شجاعت وبہادری،استقلال وثبات قدمی اور وقار و تمکنت میں بھی آپ کا کوئی مثیل و نظیر نہیں، آپ نے خوش خلقی، زندہ دلی، شگفتہ مزاجی، صدق وصفا، شرم وحیا، صبروشکر، رحم وکرم اور عفوو درگذر کا جو نمونہ انسانیت کو عنایت فرمایا ہے، وہ عمل کرنے کیلئے ہے، تاریخ کے صفحات کی زینت بنانے کیلئے نہیں، انسان کو انسانیت کی معراج پر پہنچانے کیلئے بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا کافی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنوں سے تو محبت و شفقت کے ساتھ پیش آتے ہی تھے، غیر بھی آپ کے رحم و کرم اور عفوو درگذر سے محروم نہ رہے، احادیث کی کتابوں میں یہ روایت ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کیلئے بیدار ہوتے تو بستر سے آہستہ اٹھتے اور نہایت آہستہ سے دروازہ کھولتے تھے ایسا اس لئے کرتے کہ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نیند میں خلل نہ آئے، (مسلم:۲/۳۱۳) خادم دربارِ نبوی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ گواہی دیتے ہیں کہ میں جب خدمت میں حاضر ہوا تھا اس وقت میری عمر صرف آٹھ برس کی تھی، اس کے بعد دس سال تک ملازمت کا شرف حاصل رہا، لیکن اس پوری مدت میں کسی کام کے خراب ہونے پر آپ نے کبھی اُف بھی نہ کہا،اور نہ یہ کہا کہ: تم نے یہ کام کیوں کیا؟ وہ کام کیوں نہیں کیا؟ (مشکوٰة، ص:۴۴) یہ تو اپنوں کی بات تھی، غیروں بلکہ دشمنوں کے ساتھ بھی آپ نے نہایت ہی رحمدلانہ اور عفو ودرگذر سے بھرپور سلوک کیا ہے، جس کی گواہی غیروں نے بھی دی ہے۔

زخم کھاکے بھی جس نے دعاء دی!

اُحد کا میدان ہے، لات ومنات کے پجاریوں سے جنگ ہورہی ہے، دشمنانِ خدا زمین پر اکڑ رہے ہیں، ”اللہ واحد“ کہنے والوں کا صفایا کرنے کیلئے اکٹھا ہوگئے ہیں، رسول رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ مسعود ان کیلئے سب سے بڑی نفرت کی چیز ہے، ایمان و کفر کی فیصلہ کن جنگ ہورہی ہے، اتنے میں ایک شقی نے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کردیا، چہرئہ انور زخمی ہوگیا، خود کے دو حلقے رخسارِ مبارک میں گھس گئے، اور اتنے اندر اترگئے کہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے بمشکل انھیں دانتوں سے نکالا، اسی میں ان کے دانت بھی کام آگئے، چہرئہ انور سے مسلسل خون جاری تھا، درد و کرب سے بے چین تھے، اسی اثنا میں صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ سے عرض کیا: ”یارسول اللہ! کاش آپ ان بدبختوں کیلئے بددعاء فرمادیتے، تاکہ یہ اپنے کیفرِ کردار تک پہنچ جاتے“ لیکن قربان جائیے اس ذات پر کہ جس نے سب کے جواب میں ارشاد فرمایا: ”میں لعنت و بددعاء کرنے کیلئے نہیں آیاہوں؛ بلکہ راہِ راست پر بلانے کیلئے آیا ہوں اور خدا نے مجھے سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔“ اس کے بعد آپ نے دعاء فرمائی: ”بارِ الٰہا! میری قوم کو بخش دے، اور ان کو راہِ راست کی ہدایت فرما؛ کیونکہ یہ مجھے جانتی نہیں۔“ (شفا،ص:۴۷) بحوالہ نقوش رسول نمبر۴/۱۷۹)

جانی دشمن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک

ہجرت کے چوتھے سال غزوئہ ذات الرقاع پیش آیا، اس موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام سے الگ ہوکر ایک درخت کے سائے تلے آرام فرمارہے تھے، دشمن خدا غورث بن حارث آدھمکا،اور قتل کے ارادے سے تلوار سونت لی، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی،اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گستاخانہ سوال کیا: ”اب بتا، میرے ہاتھ سے تجھے کون بچاسکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت اطمینان سے جواب دیا: ”اللہ“ اب رعب نبوت کہیے، یا قدرتِ خداوندی سمجھئے، واقعہ یہ ہوا کہ تلوار دشمن خدا کے ہاتھ میں تھم نہ سکی، زمین پر گرگئی۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی تلوار اٹھائی اور دریافت کیا: اب تو بتا!تجھ کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ دشمن خدا کو خداکی قدرت پر کہاں یقین تھا؟ اس نے کہا: کوئی نہیں، البتہ آپ عمدہ بدلہ لینے والے اور عفوودرگذر کرنے والے ہیں، آپ نے اس جانی دشمن کو معاف کردیا، آپ کے عفوودرگذر سے بہت متاثر ہوا، بعض روایتوں میں آتا ہے کہ جب وہ اپنی قوم میں گیا تو لوگوں سے کہا کہ: میں روئے زمین پر بسنے والوں میں سب سے بہترین ذاتِ اقدس کے پاس سے آیا ہوں، بالآخر یہی قصہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنا۔

سفر میں بدسلوکی کرنے والے اعرابی کے ساتھ آپ کا سلوک

خادم دربارِ نبوت حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ: میں ایک سفر میں رسول اللہ کے ہم رکاب تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر زیب تن فرمائی تھی، جس کی کورموٹی تھی، ایک اعرابی آدھمکا، اور چادر کا کنارہ پکڑکر اس زور سے جھٹکا دیا کہ چادر کی کور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن اور شانوں پر نشان پڑگئے، آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے تواس نے بدویانہ لہجے میں کہا: ”خدا کا دیا ہوا مال جو تیرے پاس ہے، اس میں سے میرے دونوں اونٹوں پر لاددے، اور یہ بھی سن لے! کہ جو کچھ تومجھے دے گا وہ تیرا یا تیرے باپ کا مال نہیں“ اس بدوی کی تلخ نوائی کو بھی آپ نے دامن عفو میں جگہ دی، اور خاموش رہے، اسے صرف اتنا کہا کہ: بے شک مال تو اللہ کا ہے، اور میں اس کا بندہ ہوں؛ مگر اے اعرابی! تو بتا کیا تیرے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے، جو تونے میرے ساتھ کیا ہے؟ اس نے کہا: ”نہیں“، آپ نے پوچھا: کیوں نہیں؟ اس نے بے باک ہوکر کہا: ”اس لیے کہ تو برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتا“، یہ سنتے ہی رسول اللہ کو ہنسی آگئی، اور آپ نے حکم دیا کہ : اس کے ایک اونٹ پر جو اور ایک پر کھجوریں لاد کر دیدی جائیں۔

ایک بدکلام یہودی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک

زید بن سعنہ یہودی سے کسی موقع سے آپ نے قرض لیا تھا، اور واپسی کی ایک تاریخ متعین تھی، لیکن وہ مقررہ تاریخ سے تین دن پہلے ہی قرض کا تقاضا کرنے آگیا، اور گستاخانہ انداز میں شانہٴ مبارک سے چادر کھینچتے ہوئے بدزبانی شروع کردی، کہنے لگا کہ: ”تم بنی عبدالمطلب بڑے نادہندہ اور وعدہ خلاف ہو“، اس کی بدکلامی پر برابر رسالت مآب مسکرارہے تھے، حضرت عمر وہیں موجود تھے، ان کو برداشت نہ ہوا، انھوں نے جھڑک کر اسے بے ہودہ گوئی سے روکنا چاہا، لیکن رسول اللہ نے روکا اور فرمایا: ”اے عمر! تم نے ہم دونوں سے وہ طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جو ہونا چاہیے تھا، اور جس کی ہم کو ضرورت تھی، یعنی مناسب یہ تھا کہ تم اسے جھڑکنے کے بجائے مجھے ادائے قرض اور وعدہ وفائی کی تلقین کرتے،اور اُسے حسن طلب اور نرمی سے تقاضا کرنے کی ہدایت کرتے، یہ کہہ کر آپ نے حضرت عمر فاروق کو ارشاد فرمایا کہ: اس کا قرض ادا کردیں اوراس کو جھڑکنے کے معاوضہ میں مزید بیس صاع (ساٹھ کلو سے زائد) جَو دے دیں“!

اس طرزِ عمل، خوش خلقی، اور حسن ادا سے یہودی بہت متاثر ہوا، بالآخر وہ مسلمان ہوگیا، روایتوں میں آتا ہے کہ: وہ کہا کرتا تھا کہ نبی آخر الزماں میں مجھے ساری نشانیاں معلوم تھیں، البتہ دوباتوں کو میں نے آزمایا نہیں تھا: ایک یہ کہ آپ کاحلم آپ کے غصہ سے زیادہ ہے، دوسرے یہ کہ: ان پر جتنی سختی کی جائے اتنی ہی نرمی و مہربانی بڑھتی چلی جاتی ہے، ان دو علامتوں کو بھی میں نے بڑی وضاحت سے دیکھ لیا، اب آپ کی رسالت پر مجھے کوئی شبہ نہیں۔

زہر دینے والی عورت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک

زینب بنت حارث نامی خیبر کی ایک خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھنی ہوئی بکری پیش کی، جس میں اس نے زہر ملادیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام کھانے لگے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو ہاتھ روکنے کے لیے ارشاد فرمایا اور کہا کہ: گوشت میں زہر ملا ہوا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت حارث کو بلاکر پوچھا تو اس نے یہ عذر پیش کیا کہ میں نے آپ کے دعویٴ نبوت کی تصدیق کے لیے ایسا کیا ہے، اس کا غلط خیال تھا کہ پیغمبر کو زہر اثر نہیں کرتا۔

قربان جائیے آپ کی ذات والا صفات پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جان لیوا تدبیر کرنے والی عورت کو بھی معاف کردیا، حالانکہ اسی زہر کی وجہ سے بعض صحابہ کرام وفات پاگئے، اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی زہرکا اثر ہوگیاتھا،اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے کوئی باز پرس نہ کی۔ (بخاری شریف:۱/۴۴۹)

فتح مکہ کے موقع پر دشمنوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں آنکھیں کھولیں، ابتدائے نبوت سے ہی اہل مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانا، تکلیف دیناشروع کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو اتنا ستایا کہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، حاصل یہ کہ قریش مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن تھے؛ اس لیے فتح مکہ کے وقت سب کو یقین تھا کہ ان کی ایک ایک ناشائستہ حرکتوں کا بدلہ لیا جائیگا، ان کی سابقہ جفائیں تباہی و بربادی کا سبب بن جائیں گی، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ داخل ہوئے تو کسی کو کچھ نہیں کہا، سب کو معاف کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے قاتل کو بھی معاف کردیا، اور ہندہ کو بھی معاف کیا جس نے آپ کے محترم چچا کے ناک، کان کاٹ کر چبایا تھا، اور ان کی لاش کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں، آپ نے اس عمیر بن وہب کو بھی معاف کردیا جس نے اپنی تلوار زہر میں بجھاکر آپ کو قتل کرنے کا ناپاک ارادہ کیا تھا، آپ نے اہل مکہ سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ تم لوگ کیا کہتے تھے کہ میں تم سے کیا برتاؤ کروں گا؟ انھوں نے کہا: اچھا؛ کیوں کہ آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں۔

آپ نے فرمایاکہ: آج میں بھی تم سے وہی کہتا ہوں، جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، ”لاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن“ آج تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور بے شک وہ تمام رحم کرنے والوں میں سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (نقوش رسول نمبر: ۴/۲۳۴،۱۸۲)

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد: 90 ‏،ربیع الاول1427 ہجری مطابق اپریل2006ء

Related Posts