از: مولانا ڈاکٹر اکرام اللہ جان قاسمی

اسلام مذہبی رواداری، اعتدال اور عدم تشدد کاحامل دنیاکاپہلا مذہب ہے۔ جس نے ہمیشہ نہ صرف یہود و نصاریٰ کے ساتھ بلکہ مجوس و مشرکین کے ساتھ بھی رواداری کا سلوک برتاہے۔ بدقسمتی سے اہل مغرب نے ہمیشہ اسلام اور ہادیٴ اسلام حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو بے جا الزامات کے ذریعہ بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس بات کا اعتراف خود انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کا مقالہ نگار لفظِ ”محمد“ کے تحت کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

"Few great men have been so maligned as Muhammad. Christian scholars of medieval Europe painted him as an impostor, a lecher, and a man of blood. A corruption of his name, "Mahound” even came to signifythe devil” (۱)

”بہت کم بڑے لوگوں کو اتنا زیادہ بدنام کیاگیا ہے جتنا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو بدنام کیاگیا ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ کے مسیحی علماء نے ان کو فریبی، عیاش اور خونی انسان کے روپ میں پیش کیا۔ حتیٰ کہ آپ کے نام کا ایک بگڑا ہوا تلفظ مہاونڈ (نعوذ باللہ) شیطان کے ہم معنی بنادیاگیا ہے۔“

مسلمانوں کو آج کل ایک طعنہ بنیادپرستی (Fundamentalism) کا دیا جاتاہے۔ حالانکہ بنیادپرستی کی ابتداء آج سے تقریباً ایک صدی پہلے خود عالم عیسائیت نے کی ہے۔ زمانہٴ حال کی مشہور برطانوی مصنفہ کیرن آرمسٹرانگ "The Battle for God” میں رقمطراز ہیں۔

”ولیم بیل ریلے نے ۱۹۱۹/ میں امریکی ریاست فلاڈیفیا میں ایک بہت بڑی کانفرنس منعقد کی جس میں تمام پروٹسٹنٹ فرقوں سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار قدامت پسندوں نے شرکت کی اور ”ورلڈ کرسچین فنڈامنٹلز ایسوسی ایشن“ (WCFA) کو باقاعدہ طورپر قائم کیاگیا۔ اس کے فوری بعد ریلے نے چودہ مقرروں اور انجیل گانے والوں کے ایک طائفے کے ساتھ پورے امریکہ میں اٹھارہ شہروں کا ایک انتہائی منظم دورہ کیا ریلے نے کہا کہ یہ محض کوئی الگ تھلگ جنگ نہیں بلکہ ”یہ تو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہے“ (۲) انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں اس کا اعتراف مندرجہ دیل الفاظ میں کیاگیا ہے۔

"Fundamentalist and Evangelical comprise a mixed group of theologically conservative communions that stress the full, and often verbal, inspiration of the Bible and its complete authority over faith andpractice”(۳)

”بنیاد پرست اور مقدس انجیلی مبلغین ایک ایسے گروہ پر مشتمل ہے جو مذہبی قدامت پرستی کے تانے بانے سے بنا ہے۔ یہ گروہ زیادہ تر کتاب مقدس بائبل (انجیل) کے لفظی معنی اوراس کے ٹھیٹ عمل پر زور دیتا ہے“۔

دوسری بنیاد پرست تنظیم یہودی پارٹی ”ایگودات اسرائیل“ (اسرائیل کا اتحاد Agudat Israil ) کی تھی۔ یہ ۱۹۱۲/ میں مسنیگڈی اور گرکے ہیسیڈم نے قائم کی تھی۔ ۷۰/ سے لے کر اس وقت تک اٹھارہ صدیوں بعد پہلی مرتبہ یہود متحد ہوئے تھے۔ اس تنظیم نے توراة کی اساس پر ایک الٰہی ریاست کی تشکیل کا نظریہ اوراس کے لئے عملی جدوجہد شروع کی تھی۔(۴)

جہاں تک انتہاء پسندی کاتعلق ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ اصل الٰہی تعلیمات کو بگاڑنا اور اپنے پیغمبروں کے مقدس مشن اور راستے سے انحراف ہے۔ اگر یہود و نصاریٰ اپنے اپنے دین میں تحریف نہ کرتے تو آج آسمانی مذاہب والے کم از کم بنیادی آسمانی عقائد پر متفق ہوتے۔ مولانا عبدالکریم پاریکھ اپنی کتاب ”یہودیت – قرآن کی روشنی میں“ میں مذہبی انتہاء پسندی کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہود ونصاریٰ نے اپنی کتابوں میں تحریف کی۔ جس کی وجہ سے اصلی تعلیمات معدوم ہوگئیں اور حق و باطل کی آمیزش ہوگئی۔ اگر یہود ونصاریٰ اس فعل قبیح کا ارتکاب نہ کرتے تو آج آسمانی مذاہب والے بنیادی آسمانی تعلیمات پر متفق ہوتے۔(۵)

مذہبی انتہاء پسندی کی دوسری وجہ ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ پیغمبر آخر  صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کے ہاں حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ سمیت تمام سابقہ انبیاء پر ایمان لانا فرض ہے۔ اگر وہ بھی پیغمبر آخر  صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کرلیتے جیسے کہ ان کی آسمانی کتب میں تصریحات اور پیشینگوئیاں موجود ہیں تو اصلاح کی راہ نکل آتی۔(۶)

یہود و نصاریٰ الٰہی احکام کو پس پشت ڈال کر خود اپنے دین کے ٹھیکیدار بن گئے تھے۔ تحریف و تبدیل کی حد کرنے کے علاوہ انھوں نے اپنے مذہبی پیشروؤں کو بے حد مذہبی اختیارات دئیے تھے یہاں تک کہ عیسائیت میں گناہوں کا بخشنا اور جنت و دوزخ الاٹ کرنا پادریوں کا کام بن گیا تھا۔ چودھری غلام رسول ”مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ“ میں لکھتے ہیں:

”عیسائیوں کا پوپ سے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ وہ خدا کا نائب اور عیسیٰ کا قائم مقام ہے اس کا نہ کوئی فیصلہ غلط ہوسکتا ہے نہ اس کے کسی حکم پر تنقید کی جاسکتی ہے وہ گناہ گاروں کے گناہ معاف کرسکتا ہے۔ اس عقیدے نے آہستہ آہستہ معافی ناموں (Indulgences) کی صورت اختیار کرلی۔ معافی نامے عام بکنے شروع ہوگئے۔ شہر شہر، قریہ قریہ معافی ناموں کی ایجنسیاں قائم کردی گئیں۔ ہر گناہ کے لئے الگ قیمت کا معافی نامہ ہوتا تھا۔ ان معافی ناموں کو خرید کر نہ صرف زندہ لوگ اپنے گناہ معاف کرواتے تھے بلکہ اپنے فوت شدہ والدین کے گناہوں کی بخشش کیلئے بھی خریدے جاتے تھے۔ مغفرت نامے فروخت کرنے والے گلی کوچوں میں آواز لگاکر فروخت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب معافی ناموں کی تجارت عام ہوگئی تو تمام مسیحی یورپ اور کلیساء خاص طور پر گناہوں اور جرائم کی دلدل میں پھنس گیا۔“(۷)

عیسائیت کی یہی وہ انتہاء پسندانہ باتیں تھیں جن کے خلاف مذہب عیسائیت میں مارٹن لوتھر ایک مصلح کی حیثیت سے اٹھ کھڑاہوا۔ جس کاردّ عمل ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ۲۸۶ مذہبی علماء کو زندہ جلادیاگیا تھا اور تقریباً ایک لاکھ افراد کو لقمہٴ اجل بنادیاگیا تھا۔

تاریخ انسانیت میں یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ کوئی مذہب یا نظریہ تلوار کے بغیر نہیں پھیلا۔ گویا تلوار اور جنگ غلبہٴ دین اور افکار و نظریات کی ترویج کے لئے ایک ضروری چیز رہی ہے مگر اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے جنگ کے اصول مقرر کئے۔ ورنہ اسلام سے قبل دیگر مذاہب والے مفتوحہ اقوام پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے تھے اس کی کچھ مثالیں اس سے قبل سطور میں گذر چکی ہیں۔

آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے دورِ جاہلیت کے تمام وحشیانہ جنگی طریقوں کو منسوخ کردیا اور ایسے قوانین نافذ فرمائے جو آج بھی احترام آدمیت کا درس دیتے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق جنگ کے دوران عورتوں بچوں اور بوڑھوں کے قتل، عبادت گاہوں اور فصلوں کی تباہی و بربادی اور دشمنوں کے ہاتھ، ناک کان وغیرہ کاٹنے پر پابندی لگادی گئی۔(۸) رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت ظرفی اور دوسروں کو برداشت کرنے کی اعلیٰ ترین مثال یہود کے مقدس مقام کوہِ سینا (مصر) کے ساتھ عیسائیوں کا کلیساء ”سینٹ کیتھرائن“ کی حفاظت اور عیسائیوں کے حقوق کے بارے میں ایک نامہٴ مبارک تحریر فرمانا ہے۔ حسن اتفاق سے آج تک یہ کلیساء موجود ہے اوراس کے ساتھ ہی تاریخ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہٴ مبارک بھی اصل حالت میں موجود ہے۔

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی اپنی کتاب رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اور رواداری میں رقمطراز ہیں:

”۶۲۷/ میں پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم نے سینٹ کیتھرائن متصل کوہِ سینا کے راہبوں اور تمام عیسائیوں کو پوری آزادی اور وسیع حقوق عطا کئے اور مسلمانوں کو تاکید کی کہ وہ

(۱)     عیسائیوں کے گرجاؤں، راہبوں کے مکانوں اور نیز زیارت گاہوں کو ان کے دشمن سے بچائیں۔

(۲)   تمام مضر اور تکلیف رساں چیزوں سے پوری طور پر ان کی حفاظت کریں۔ (۳) ان پر بے جا ٹیکس نہ لگایا جائے۔

(۴)   کسی کو اپنی حدود سے خارج نہ کیاجائے۔                                         (۵) کوئی عیسائی اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔

(۶)   کسی راہب کو اپنی خانقاہ سے نہ نکالا جائے۔                                      (۷) کسی زائر کو اپنی زیارت سے نہ روکا جائے۔

(۸)   مسلمانوں کے مکان اورمسجد بنانے کی غرض سے عیسائیوں کے گرجے مسمار نہ کئے جائیں“(۹)

اسلام نے تلوار کی زد کو میدانِ جنگ میں محض برسرپیکار افراد تک محدود رکھااور دوسرے لوگوں سے تعرض نہ کرنے کی تاکید کی ہے۔ ڈاکٹر خالد علوی ”انسانِ کامل“ میں لکھتے ہیں:

”محاربین (Belligerents) کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ایک اہل قتال (Combatants) اور دوسرے غیر اہل قتال (Non- Combatants) اہل قتال وہ ہیں جو عملاً جنگ میں حصہ لیتے ہیں یا عقلاً و عرفاً حصہ لینے کی قدرت رکھتے ہیں یعنی جوان مرد۔ اور غیر اہل قتال وہ ہیں جو عقلاً و عرفاً جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے یا عموماً نہیں لیاکرتے مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی، اندھے، مقطوع الاعضاء، مجنون، سیاح، خانقاہ نشین، زاہد، معبدوں اور مندروں کے مجاور اور ایسے ہی دوسرے بے ضرر لوگ۔ اسلام نے (دورانِ جنگ) طبقہٴ اول کے لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور طبقہٴ دوم کے لوگوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔“

وہ مزید لکھتے ہیں:

”خلیفہٴ اول حضرت ابوبکر صدیق نے جب فوجیں شام کی طرف روانہ کیں تو ان کو دس ہدایات دیں۔ وہ ہدایات اسلامی تعلیماتِ جنگ کا ملخص ہیں۔ وہ ہدایات یہ ہیں: (۱) عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل نہ کئے جائیں۔ (۲) مُثلہ (اعضاء کا کاٹنا) نہ کیا جائے (۳) راہبوں اور عابدوں کو نہ ستایا جائے اور نہ ان کی عبادت گاہیں مسمار کی جائیں۔ (۴) کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اورنہ کھیتیاں جلائی جائیں۔ (۵) آبادیاں ویران نہ کی جائیں۔ (۶) جانوروں کو ہلاک نہ کیا جائے۔ (۷) بدعہدی سے ہر حال میں احتراز کیاجائے۔ (۸) جو لوگ اطاعت کریں ان کی جان و مال کا وہی احترام کیا جائے جو مسلمانوں کی جان و مال کاکیا جاتا ہے۔ (۹) اموالِ غنیمت میں خیانت نہ کی جائے۔ (۱۰) جنگ میں پیٹھ نہ پھیری جائے۔(۱۰)

۱۶/ھ = ۶۳۷/ میں جب مسلمانوں نے پہلی مرتبہ بیت المقدس کو فتح کیا تو حضرت عمر نے انتہائی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مندرجہ ذیل امان نامہ لکھ کر دیا تھا۔

”یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیرالمومنین عمر نے ایلیاء کے لوگوں کو دیا۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجے، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام اہل مذاہب کیلئے ہے۔ ان کے گرجوں میں نہ سکونت اختیار کی جائے گی نہ وہ گرائے جائیں گے۔ اور نہ ان کو اور ان کے احاطوں کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔ نہ مذہب کے معاملہ میں ان پر جبر کیا جائے گا۔ نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔“(۱۱)

اسلام میں ہرمذہب کے ماننے والوں کو پرسنل لاء اور کلچر میں آزادی دی گئی ہے۔ امام ابوعبیدہ کتاب الاموال میں تحریر فرماتے ہیں:

ہُمْ اَحْرَارٌ فِیْ شَہَادَٓتِہِمْ وَمُنَاکَحَاتِہمْ وَمَوَارِیْثِہِمْ وَجَمِیْعِ اَحْکَامِہِمْ․

”یعنی یہ لوگ اپنی شہادت کے احکام، نکاح کے معاملات، وراثت کے قوانین اور دوسرے تمام مذہبی احکام میںآ زاد ہوں گے۔“(۱۲)

اسلام میں دوسرے مذاہب، ان کے مذہبی پیشواؤں اور عبادت خانوں کی حفاظت کاحکم دیاگیا ہے۔ امام ابویوسف کتاب الخراج میں فرماتے ہیں:

لاَیُہْدَمُ لَہُمْ بِیْعَةٌ وَلاَ یُمْنَعُوْنَ مِنْ ضَرْبِ النَّواقِیْسِ اِلاَّ فِیْ اَوْقَاتِ الصَّلوٰةِ وَلاَ مِنْ اِخْرَاجِ الصُّلْبَانِ فِیْ یَوْمِ عِیْدِہِمْ․(۱۳)

”یہودیوں اور عیسائیوں کے عبادت خانے نہ گرائے جائیں یہ لوگ ناقوس بجانے سے نہ روکے جائیں البتہ نماز کے اوقات مستثنیٰ رہیں گے۔ اور ان کو ان کی عید کے دن صلیب نکالنے سے نہ روکا جائے۔“

خنزیر اور شراب کے اسلام میں سخت حرمت کے باوجود یہ حکم رکھاگیا کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیرمسلم کے خنزیر یا شراب کو ضائع کرے گا تو وہ اس کا تاوان بھرے گا۔(۱۴) اسلام کے ان احکام اور عادلانہ و فراخدلانہ اقدامات کو دیکھ کر مستشرقین اسلامی رواداری کے اعتراف پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ فرانسیسی مستشرق موسیوسیڈلیٹ (M.Sedillet) ”خلاصہٴ تاریخ عرب“ میں لکھتا ہے:

”جولوگ اسلام کو وحشیانہ مذہب کہتے ہیں ان کے ضمیر کے تاریک ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ وہ ان صریح علامات کو نہیں دیکھتے جن کے اثر سے عربوں کی وہ تمام بری خصلتیں مٹ گئیں جو مدت دراز سے سارے ملک میں رائج تھیں۔ انتقام لینا، خاندانی عداوت کو جاری رکھنا، کینہ پروری اورجوروظلم، دخترکشی وغیرہ جیسی مذموم رسومات کو قرآن نے مٹادیا۔ ان میں سے اکثر چیزیں پہلے بھی یورپ میں تھیں اور اب بھی ہیں۔“(۱۵)

پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ ( T.W.Arnold) اپنی کتاب "The Preaching of Islam” میں اعتراف کرتا ہے۔

”اگر اسلام جلوہ گر نہ ہوتاتو دنیا شائد زمانہٴ دراز تک انسانیت، تہذیب اور شائستگی سے روشناس نہ ہوتی۔ یہ امر واقع ہے کہ آج دنیا میں مساوات، امدادِ باہمی، علمی جدوجہد اور نوع انسانی کے ساتھ ہمدردی کی جو تحریکیں جاری ہیں وہ سب کی سب اسلام ہی سے مستعار لی گئی ہیں۔ اسلام نے جلوہ گر ہوکر حکومتی نظاموں کا ڈھانچہ بدل دیا۔ دنیا کے اقتصادی نظام میں انقلاب برپا کردیا۔ اسلام نے ایک ایسا مکمل نظامِ حیات پیش کیا جو مسلمانوں ہی کیلئے نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے ایک رحمت ثابت ہوا۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں جن کے سامنے نہ صرف میری بلکہ ہر انصاف پسندانسان کی گردن جھک جانی چاہئے۔“(۱۶)

دشمنانِ اسلام، اسلام کے بارے میں یہ باور کراناچاہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ حالانکہ اسلام بلنداخلاق و کردار اور دل کو موہ لینے والے انسانی اقدار کے ذریعہ پھیلا ہے۔ تاریخ میں کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ اسلام کو کسی پر زبردستی ٹھونسا گیاہو۔ اس کے بالمقابل عیسائیت کے بزورِ بازو پھیلانے کے شواہد موجود ہیں۔ مولانا مودودی نے اپنی کتاب ”نصرانیت – قرآن کی روشنی میں“ میں تفصیل سے لکھاہے کہ عیسائی بادشاہ تھیوڈوسیوس نے غیرمسیحی عبادت کو موجبِ سزائے موت قرار دیاتھا۔ اس نے مندروں کوتوڑنے، ان کی جائداد ضبط کرنے اور عبادت کے سامانوں کو توڑنے کا حکم دیاتھا۔ مصر کے آرچ بشپ تھیوفیلوس نے خاندانِ بطالسہ کا عظیم الشان کتب خانہ نذرِ آتش کردیاتھا۔ اس کے بعد مولانا مودودی لکھتے ہیں:

”ان مظالم کا نتیجہ یہ ہوا کہ بت پرست رعایا نے تلوار کے خوف سے اس مذہب کو قبول کرلیا جس کو وہ دل سے پسند نہیں کرتی تھی۔ بددل اور بے اعتقاد پیروؤں سے مسیحی کلیسا بھرگئے۔ ۳۸ برس کے اندر روم کی عظیم الشان سلطنت سے وثنیت (بت پرستی) کا نام ونشان مٹ گیا اوریورپ،افریقہ اور شرقِ اردن میں تلوار کے زور سے مسیحیت پھیل گئی۔“(۱۷)

اس کے بالمقابل ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے "The Preaching of Islam” میں کھلے دل سے اعتراف کیاہے کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اخلاق وکردار کے زور سے پھیلا ہے۔ نیز مسلمانوں نے غیرمذہب والوں کو ہر جگہ مذہبی آزادی دی ہے۔ انھوں نے تفصیلاً لکھا ہے کہ کس کس جگہ عیسائی اقلیت میں اورمسلمانوں کے زیر دست تھے۔ جنہیں بڑی آسانی سے بزورِ بازو مسلمان بنایاجاسکتاتھا مگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا۔ اگرکسی جگہ بادشاہوں نے اس کا ارادہ بھی کیا تو مسلمان مفتیوں نے ان کو اس ارادے سے باز رکھا۔“(۱۸)

وہ مزید اسی کتاب میں ایک دوسری جگہ اعتراف کرتا ہے:

”کوئی مذہب اسلام کی طرح روادار اور صلح کل نہیں ملے گا جس نے دوسروں کو اس طرح مذہبی آزادی دی ہو — رواداری مسلمانوں کی طبیعت کا ایک محکم خاصہ اورمکمل مذہبی آزادی ان کے مذہب کا دستورالعمل رہا ہے۔“(۱۹)

مذہب و عقیدہ کی آزادی کے تحت ”اسلام اور بین الاقوامی تعلقات“ کے موٴلف عبدالحمید احمد ابوسلیمان رقمطراز ہیں کہ عام نوع انسانی کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اصولی اندازِ فکر کا قرآن و سنت کے اندر محبت، حسن سلوک، حلم و شرافت اور محافظت کے الفاظ میں اظہار کیاگیا ہے۔ خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دوستانہ رویہ رکھنے والے نجران کے عیسائی قبائل کے ساتھ جزیہ کا معاہدہ اورمدینہ کے یہودی قبائل کے ساتھ امن و تعاون کا معاہدہ طے کیا، دوسری طرف آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی یہودیوں کے بعض قبائل کے خلاف جنگ لڑی جو مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے کوشاں تھے۔ یہ معرکے حالات کی مجبوریوں اور تدبیری ضروریات کے تحت ہوئے تھے۔(۲۰)

اسلام کی رواداری کا ایک زندہ ثبوت یہ ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوئے وہ اپنے اسلام پر دل سے قائم ودائم رہے۔ وقار احمد ”غزوات سرورِ عالم  صلی اللہ علیہ وسلم“ میں لکھتے ہیں:

”اسے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کا اعجاز نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ سوائے خیبر(یہود) کے جس شہر اور جس قبیلہ کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کیا وہ دل سے جان نثار اورمعتقد بن گئے۔ یہ یقینا اس لئے تھا کہ اسلام کی جنگیں ان کے قتل و غارت کیلئے نہیں بلکہ ہدایت و فلاح کیلئے ہوتی تھیں۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہر فاتح کی طرح حریف کے درپئے آزار ہونے کے بجائے ان کے ہمدرد ہوتے تھے۔“(۲۱)

عیسائی موٴرخین نے ہمیشہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انتہائی تعصب سے کام لیاہے۔ سرتھامس کارلائل (Sir Thomas Carlyle) وہ پہلا عیسائی محقق ہے جس نے تعصب سے ہٹ کر انصاف کی نظر سے اسلام اور پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کا بغورمطالعہ کیا اوراس نے ۱۸۴۰/ میں مشاہیر عالم پر اپنی مشہورِ زمانہ کتاب "Heros and Hero-worship” لکھی۔ اس میں ایک مقالہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام سے متعلق ہے۔ انھوں نے اسلام کا تلوار کے ذریعہ پھیلنے کو بڑی منطقی انداز سے رد کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں ”اسلام کیلئے تلوار بے شک استعمال ہوئی تھی مگر سوال یہ ہے کہ یہ تلوار آئی کہاں سے تھی؟!“ ان کا مقصد ہے کہ تلوار چلانے والوں کو آخر کس چیز نے مجبور کرکے مسلمان کیا تھا۔ وہ تو کم از کم اپنی رغبت سے مسلمان ہوئے تھے۔ توجومذہب ابتداءً خالص اخلاق و کردار کے زور سے پھیلا اگر بعد میں تلوار استعمال ہوئی بھی ہے تو یہ انقلابات کے داغ بیل ڈالنے کیلئے لازمی امر ہے۔ آگے تحریر کرتے ہیں ”ایک لحاظ سے تو ہمیں اپنے عیسائی مذہب کا دامن بھی خون کے دھبوں سے پاک نظر نہیں آتا۔ جب اس کے ہاتھ میں تلوار آئی تو استعمال بھی ہوئی۔“(۲۲)

پروفیسر آرنلڈ اسلام کی اشاعت کی وجوہ و اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتاہے:

”مسلم مجاہد کی وہ خیالی تصویر بھی حقیقت سے بہت دور ہے جس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن دکھایاگیاہے۔ اسلام کی صحیح روح کامظہر وہ مسلمان مبلغ تاجر ہیں جنھوں نے نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے دین کو روئے زمین کے ہر خطے میں پہنچایا ہے۔“(۲۳)

واضح رہے کہ ”مسلمان مجاہد کی خیالی تصویر جس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن ہے“ سے راقم کے خیال میں پروفیسر آرنلڈ کااس طرف اشارہ ہے کہ امریکی اعلیٰ ترین عدالت ”سپریم کورٹ“ میں جہاں ۱۹۳۳/ میں عام سیشن ہورہے ہیں تاریخ عالم کی عظیم قانون دہندہ ہستیوں کو ایک تصویر میں دکھایا گیاہے۔ اس تصویر میں پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار پکڑے دکھایا گیا ہے۔ مسیحی دنیا کے تعصب بھرے اس نظریے کی حامل یہ تصویر تاحال نصب ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔(۲۴)

عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والوں کے بارے میں پروفیسر آرنلڈ لکھتے ہیں:

”اس عام خیال کو قبول کرنا دشوار ہے کہ ان عیسائیوں میں اسلام بزورِ شمشیر پھیلا ہے اور ہم اس بات پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جبرواکراہ کی بجائے دوسرے اسباب کو تلاش کریں جو ان کے تبدیلیٴ مذہب کا موجب بنے“(۲۵)

مفتوح اور زیرنگین آنے والوں کے ساتھ پیغمبر رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا سلوک رہا ہے؟

فتح مکہ کے دن مسلمانوں پر سابقہ مصائب و آلام کے پہاڑ توڑنے والوں کے بارے میں انسان کے فطری انتقامی جذبہ کے تحت انصار کے علمبردار حضرت سعد بن عبادة کے منھ سے یہ کلمات نکل گئے تھے اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَةِ ․․․ اَلْیَوْمَ تَسْتَحِلُّ الْکَعْبَة ”آج قتل و قتال کا دن ہے اورآج خانہ کعبہ میں بھی خون بہایا جائے گا۔“ اس کے جواب میں پیغمبر رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کَذِبَ سَعْدٌ ․․․ اَلْیَوْمَ یَوْمُ الرَّحْمَةِ سعد نے غلط کہا– آج تو رحم و کرم، عفو ودرگزر اور عام معافی کا دن ہے۔(۲۶)

برطانوی مصنفہ کرن آرمسٹرانگ نے سیرت طیبہ پر ایک قابل قدر کتاب لکھی ہے۔ وہ اپنی کتاب "Muhammad a Western Attempt to Understanding Islam” میں اس تاریخی اور ناقابلِ تردید حقیقت کااعتراف کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

"Muhammad…Founded a Religion and a Tradition that was not based cultural on the sword. despite the western myth. and whose name Islam, signifies peace and reconciliation” (27)

”محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے مذہب اور تہذیب کے بانی تھے جس کی بنیاد تلوار پر نہ تھی۔ مغربی پروپیگنڈے اورافسانہ کے باوجود اسلام کا نام امن اور صلح کامفہوم رکھنے والا ہے۔“

تاریخ عالم پر نگاہ رکھنے والاکوئی بھی انصاف پسند آدمی جب عالمی جنگوں اوراس کے نتیجہ میں واقع ہونے والی ہلاکتوں کامقابلہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کے ساتھ کرتاہے اور واقعہ کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے تو انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ چنانچہ فتنہٴ تاتار میں دس لاکھ افراد بے دردی سے تہہ تیغ کئے گئے۔ روسی انقلاب نے انیس لاکھ افراد کو نگل لیا۔ پہلی جنگ عظیم میں ایک کروڑ کے قریب اور دوسری جنگ عظیم میں پانچ کروڑ کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ جبکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام حیاتِ طیبہ میں ۲۷ غزوات ہوئے یعنی وہ جہاد جن میں آپ بنفس نفیس شریک ہوئے اور ۵۶ سرایا ہوئیں یعنی وہ جہاد جن میں صحابہ کو بھیجا اور خود شریک نہیں ہوئے۔

قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی تحقیق کے مطابق جو انہوں نے اپنی کتاب ”رحمة للعالمین“ میں کی ہے۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تمام غزوات و سرایامیں مسلمان شہداء کی کل تعداد ۲۵۹ ہے، جبکہ کافر مقتولین کی تعداد ۷۵۹ ہے۔ مسلمان اور کافر تمام مقتولین کا مجموعہ ۱۰۱۸ بنتا ہے۔(۲۸)

ان گنے چنے افراد کے کام آنے پر دنیا کاوہ عظیم الشان انقلاب برپا ہوا جس کی کرنیں آج تک چاردانگ عالم میں ضوء فشاں ہیں۔ باقی انقلابات نے کروڑوں افراد کی جانیں لے کر کچھ بھی اثرات مرتب نہیں کئے مگراسلام کے دیرپا اثرات آج بھی پورے آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ چنانچہ مشہور امریکی ماہر فلکیات اور دانشور ڈاکٹر میخائل ایچ ہارٹ (Dr. Michael H. Hart) اور ان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اہلیہ نے دنیا کی مشہور شخصیات کا مطالعہ کیا۔ اس مطالعہ کے حاصل کے طور پر انہوں نے "The 100” (سو عظیم شخصیات) نامی کتاب لکھی جو ۵۷۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں تاریخ انسانی کی سو اعلیٰ ترین شخصیات کے حالات درج ہیں۔ جنھوں نے مصنف کے نزدیک تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ کتاب میں پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام شخصیات کے مقابلہ میں سرفہرست رکھا گیا ہے۔ کیونکہ مصنف کے نزدیک وہ تاریخ کے سب سے گہرے اثرات اور زندہ نقوش چھوڑنے والی شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر میخائل رقمطراز ہیں:

"Muhammad was the only man in history who was supremely successful on both the religious and the secular levels.”(29)

”پوری تاریخ انسانی میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) وہ واحد شخصیت ہیں جو دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے غیرمعمولی طور پر کامیاب و کامران ہوئے ہیں۔“

اعتدال، رواداری اور عدم تشدد – اسوئہ حسنہ سے عملی مثالیں

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات پوری دنیا کیلئے کامل نمونہ ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں اعتدال، رواداری اور عدم تشدد کی اعلیٰ ترین عملی مثالیں قائم کی ہیں۔ اسلام کے آغاز ہی سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پر اہل مکہ نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کئے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں، قتل کے منصوبے بنائے، راستوں میں کانٹے بچھائے، جسم اطہر پر نجاستیں گرائیں، جادوگر، مجنون اور نہ جانے کیا کیا نام دئیے مگر بقول ام المومنین حضرت عائشہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام زندگی اپنی ذات کیلئے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ ہاں اگر کوئی خدائی حرمت کو پامال کرتا تواس صورت میں سختی کے ساتھ مواخذہ فرماتے۔(۳۰)

ذیل میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے اس سلسلے میں چند عملی مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

# نبوت سے قبل جب کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۳۵ سال تھی۔ اہل مکہ نے بیت اللہ شریف کی تعمیر نو کافیصلہ کیا۔ جب حجراسود کی تنصیب کاموقع آیا تو ہر قبیلہ والے اس سعادت کو حاصل کرنے کیلئے میدان میں اتر آئے۔ قریب تھا کہ تلواریں چل پڑتیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پتھر کواٹھاکر ایک چادر میں رکھا اور تمام قبیلوں کے سرداروں سے کہا کہ اس چادر کو مشترکہ طور پر اٹھاکر خانہ کعبہ تک لے چلو۔ جب سب نے پتھر اپنی جگہ تک پہنچادیا توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھاکر اسے اس کی جگہ پر نصب فرمایا اور یوں خون خرابہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔(۳۱)

# جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو کفار نے ہرطرح سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانا شروع کیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوجہل اورابولہب، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن بن گئے۔ ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ کا نکاح ہوا تھا۔ ان دونوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کو طلاق دیدی۔ اس طرح اہل مکہ نے خاندانِ قریش کا معاشرتی مقاطعہ (Social Bycot) کیا۔ یہ حالت سن ۷ نبوت سے ۱۰ نبوت تک جاری رہی۔ بھوک اور پیاس سے بچے بلبلا اٹھتے مگر اہل مکہ کو ان پر رحم نہ آتا۔ ان تمام حالات میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر اختیار کیا۔(۳۲)

#ایک بار رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم حرم شریف میں نماز پڑھ رہے تھے ابوجہل کے اکسانے پر بدبخت عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور گندگی بھری اوجھڑی لاکر سجدے کی حالت میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر رکھ دی۔ کافر اس منظر کو دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔ کم عمر حضرت فاطمة الزہراء دوڑتی ہوئی آئیں اور اس گندگی کوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے ہٹادیا۔(۳۳)

# اہل مکہ سے ناامید ہوکر آپ نے دعوتِ اسلام کی غرض سے طائف کاسفر اختیار کیا۔ وہاں کے سرداروں نے دعوت قبول کرنے کے بجائے برابھلا کہااور لڑکوں کو پیچھے لگادیا جنھوں نے پتھر مار مار کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو لہولہان کردیا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق اس وقت مختلف فرشتے آئے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اہل طائف کی تباہی کی اجازت چاہی مگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اگر یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے مسلمان پیدا فرمائے گا۔(۳۴)

# ابوسفیان کی بیوی ہندہ اسلام لانے سے قبل سخت ترین دشمن اسلام تھی۔ اس نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے چچا حضرت حمزہ کو شہید کرواکر ناک کان کٹوائے۔ سینہ چاک کرایا اور دل و جگر نکلواکر کچا چبایا۔ فتح مکہ کے دن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق اور بے مثال عفوودرگزر سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئی۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اسلام لانے پر خوشی کااظہار فرمایا۔(۳۵)

# حضرت حمزہ کو شہید کرکے ان کا سینہ چاک کرنے والا وحشی بن حرب تھا۔ جو ہندہ کا غلام تھا۔ (وحشی بن حرب کے لفظی معنی ہیں جنگلی، لڑائی کی پیداوار) فتح مکہ کے بعد یہ طائف بھاگ گیا کیونکہ اہل طائف ابھی اسلام نہیں لائے تھے، مگر جب اہل طائف نے بھی اسلام قبول کرلیا تو وحشی کیلئے جائے پناہ نہیں رہی۔ اورجب مجبوراً دربارِ رسالت میں اسلام لانے کی غرض سے حاضر ہوا تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اسلام قبول فرماکر سب کچھ معاف فرمایا۔(۳۶)

# عکرمہ بن ابی جہل اسلام لانے سے قبل باپ کی طرح سخت ترین دشمن اسلام تھا۔ فتح مکہ کے دن خوف کے مارے یمن بھاگ گیا۔ ان کی بیوی نے جومسلمان ہوچکی تھی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے عکرمہ کیلئے امان طلب کیا اور عکرمہ جب دربارِ نبوت میں پہنچے تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم فرطِ خوشی سے اس کی طرف ایسے دوڑے کہ چادر مبارک جسم اطہر سے کھسک کرنیچے گرپڑی۔(۳۷)

# صفوان بن امیہ قریش کے سرداروں میں سے تھا اور کٹر دشمن اسلام تھا۔ اس نے عمیر بن وہب کو بھاری رقم کی لالچ دے کر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادہ سے مدینہ بھیجا تھا۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ اس کے ارادے کی اطلاع ہوگئی تھی جب وہ خدمت اقدس میں پہنچا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اقدام سے پہلے ہی اس کے ارادے کی اطلاع اسے کردی اور فرمایا کہ تمہارے اور صفوان کے درمیان خانہ کعبہ کے سایہ میں فلاں فلاں بات ہوئی تھی۔ یہ سن کر عمیر فوراً اسلام لے آیا۔ تاہم صفوان فتحہ مکہ کے دن بھاگا اورجدہ پہنچا جہاں سے یمن جانا چاہتا تھا۔ عمیر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور صفوان کیلئے امان کی درخواست کی۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عمامہ مبارک بطورِ امان کی نشانی عطا فرمائی۔ صفوان، عمیر کے ہمراہ دربارِ رسالت میں پہنچا۔ اور چار ماہ کی مہلت طلب کی۔ بعد میں اسلام قبول کیا۔(۳۸)

# مسلمانوں کی خاطر ایک بار آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی زید بن سعنہ سے قرضہ لیا۔ مقررہ وقت ادائیگی سے قبل ہی وہ یہودی آیا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے نامناسب اور گستاخانہ انداز سے پیش آیا۔ حضرت عمر سے برداشت نہ ہوسکا اوراس کی گردن اڑانے کی اجازت چاہی۔ مگرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! تمہیں چاہئے کہ مجھے حسن ادائیگی کی تلقین کرتے اوراسے حسن طلب کی۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس کا قرض واپس کرنے کا حکم فرمایا بلکہ حسن سلوک کے طور پر بیس صاع زیادہ کھجوریں دینے کا حکم فرمایا۔ اس حسن سلوک سے وہ یہودی متأثر ہوکر مسلمان ہوگیا۔ (۳۹)

# عبداللہ بن اُبی بن سلول رئیس المنافقین، دل سے اسلام کا دشمن و بدخواہ تھا۔ غزوئہ احد کے موقع پر بہانہ بناکر اس نے مسلمانوں کی جمعیت جو ایک ہزار پر مشتمل تھی سے تین سو اپنے افراد جداکرکے واپسی اختیار کی یہ مشرکین و یہود کے ساتھ خفیہ ساز باز رکھتا اور مسلمانوں کے راز ان کو منتقل کرتاتھا۔ ایک دفعہ ایک مہاجر اور ایک انصاری کی آپس میں لڑائی ہوگئی دونوں نے اپنی اپنی قوم کوپکارا۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع پر پہنچ کر معاملہ رفع دفع کیا مگر عبداللہ بن اُبی نے کہا کہ مدینہ چل کر ذلیل مسلمانوں یعنی مہاجرین کو نکال دوں گا۔ اور کہا کہ پیغمبر کے ساتھیوں سے ہاتھ اٹھالو تو وہ خود یہاں سے بھاگ کھڑے ہوں گے۔ اس کی تفصیل سورئہ منافقون میںآ ئی ہے۔ واقعہ افک یعنی حضرت عائشہ پر بہتان لگانے میں بھی اس کا بنیادی کردار تھا۔ اس کے باوجود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس سے درگزر کا معاملہ فرمایا اور جب مرا توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی ناپسندیدگی کے باوجود اپنا کرتہ عنایت فرمایا جس میں اسے دفن کیاگیا۔ اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے استغفار کیا۔(۴۰)

# سب سے بڑھ کر طیش اور غضب کا موقع افک کا واقعہ تھا جبکہ منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ پر نعوذ باللہ تہمت لگائی تھی۔ حضرت عائشہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی، اور ابوبکر جیسے یارِ غار اور افضل ترین صحابی کی صاحبزادی تھیں۔ شہر منافقوں سے بھرا پڑا تھا۔ جنھوں نے دم بھر میں اس خبر کو اس طرح پھیلایا کہ سارا مدینہ گونج اٹھا۔ دشمنوں سے شماتت، ناموس کی بدنامی، محبوب کی بے عزتی، یہ باتیں انسان کے صبر و تحمل کے پیمانہ میں نہیں سماسکتیں، تاہم رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام کے ساتھ کیا کیا؟ ․․․․ واقعہ کی تکذیب خود خدانے قرآن پاک میں کردی اوراس سے قبل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی طرح کوئی انتقام نہیں لیا۔(۴۱)

# ہبار بن الاسود وہ شخص تھا جس کے ہاتھ سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کو سخت تکلیف پہنچی تھی۔ حضرت زینب حاملہ تھیں اور مکہ سے مدینہ ہجرت کررہی تھیں۔ کفار نے مزاحمت کی۔ ہبار بن الاسود نے جان بوجھ کر ان کو اونٹ سے گرادیا جس سے ان کو سخت چوٹ آئی اورحمل ساقط ہوگیا۔ فتح مکہ کے بعد مجبوراً آستانہٴ رحمت پر جھک آیا اور اپنی جہالت اور قصور کااعتراف کیا۔ پھر کیا تھا؟ بابِ رحمت سامنے کھلا تھا اور دوست دشمن کی تمیز یکسر مفقود تھی۔(۴۲)

# رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر عمر میں عرب کا ایک ایک قبیلہ اسلام کے پرچم تلے جمع ہونا شروع ہوا۔ اگر کسی قبیلہ نے آخر دم تک سرتابی کی ہے تو وہ بنوحنیفہ کا قبیلہ تھا۔ جس میں مشہور مدعی نبوت مسیلمہ کذاب ہوگذرا ہے۔ ثمامہ اس قبیلے کاایک رئیس تھا اتفاق سے وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا گرفتار ہوکر مدینہ آیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کو مسجد کے ستون سے باندھ دیاجائے۔ اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم مسجد تشریف لے گئے۔اُس سے دریافت کیا کہ کیا کہتے ہو؟ اس نے جواب دیا اے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر مجھے قتل کروگے تو ایک خونی سے انتقام لے لوگے اوراگراحسان وکرم کروگے تو ایک شکرگذار پر احسان کرلوگے۔اوراگر فدیہ کی رقم چاہیے توآپ مانگیں میں دوں گا۔ یہ سن کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ دوسرے دن بھی یہی تقریر ہوئی۔ تیسرے دن بھی جب یہی سوال و جواب ہوا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ ثمامہ کی رسی کھول دو۔ اوراُسے آزاد کردو۔ ثمامہ پراس خلافِ توقع لطف و احسان کا یہ اثر ہوا کہ قریب ایک درخت کی آڑ میں جاکر غسل کیااور مسجد میں واپس آکر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کلمہٴ تشہد بہ آوازِ بلند پڑھا اور کہا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! دنیا میں کوئی شخص مجھے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مبغوض نہیں تھا۔ اب دنیا میں کوئی شخص آپ سے زیادہ محبوب نہیں۔ اس سے قبل کوئی مذہب آپ کے مذہب سے زیادہ میری آنکھوں میں ناپسند نہیں تھا اب یہی مذہب سب سے زیادہ پیارا ہے۔ کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا نہیں تھا اب وہی شہر سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔(۴۳)

# مکہ میں غلہ یمامہ سے آتا تھا۔ یمامہ کا رئیس یہی ثمامہ تھا۔ جب مسلمان ہوکر اپنے علاقے میں پہنچا توحکم دیا کہ اہل مکہ پر غلہ بند کردیا جائے کیونکہ انھوں نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے ساتھیوں کو ستایا ہے۔ اوراب بھی مستقل طور پر ان کے درپئے آزار رہتے ہیں۔اس بندش سے مکہ میں قحط کا سماں بندھ گیا اور اہل مکہ بھوک سے بلبلا اُٹھے۔آخر قریش اورمشرکین مکہ نے مجبور ہوکر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار کا رُخ کیا تاکہ ثمامہ سے سفارش کردیں کہ وہ غلہ کی ترسیل بحال کردے۔ یہ وہی مشرکین مکہ تھے جنھوں نے تیرہ سال مکہ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کواذیتیں دی تھیں۔ تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور کرکے ان کا سوشل بائیکاٹ کرچکے تھے۔ بدر واُحد کی لڑائیاں ان کے ساتھ لڑی گئی تھیں۔ مگر پیغمبر رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم کاآستانہ بھی تو آستانہٴ رحمت تھا۔ بھلا اس سے سائل کہاں محروم جاسکتا تھا۔ چاہے وہ کافر، مشرک اور دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ کوکہلا بھیجا کہ اہل مکہ سے غلہ کی بندش اُٹھالو اورحسب سابق غلہ کی ترسیل جاری رکھو۔ جس پر غلہ کی بندش اُٹھا لی گئی اوراہل مکہ کو پھر سے غلہ ملنے لگا۔(۴۴)

# تاریخ انسانی میں فتح مکہ انسانی رواداری، صبر وتحمل، برداشت اور وسیع القلبی کی وہ لازوال اور عدیم النظیر روشن مثال ہے جس کا عشر عشیر بھی تاریخ عالم کے معلّمین اخلاق کی عملی زندگی میں نظر نہیںآ تا۔ اس دن مکہ کے تمام ظالم و جابر کفار و مشرکین سامنے بے بس اورگردن جھکائے کھڑے تھے۔ وہ سب تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ان کو اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی۔آج ربّ کائنات نے ان تمام کو پیغمبر رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں دے دیا تھا۔ چاہتے تو چشم زدن میں سب کی گردنیں کٹواکر سابقہ ظلموں کابدلہ لے لیتے۔ اس حالت میں پیغمبر رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز اُٹھی ”تمہیں معلوم ہے میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟“ سب نے جواب میں کہا ”آپ کریم بھائی کے کریم بیٹے ہیں اورہم آپ کی طرف سے رحم واحسان کے امیدوار ہیں۔“ پھر کیاتھا؟ دریائے رحمت اُمنڈآیا اور اہل مکہ کی ظلموں بھری تاریخ کو بہاکر لے گیا۔ فرمایا: لاَتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْم ط اِذْہَبُوْا فَاَنْتُمْ الطُّلَقَآءُ․ (۴۵) ”آج تم پر کوئی موٴاخذہ نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔“

یورپ کے ایک بڑے دانشور ارتھرگلیمن (Arthur Gillman) محسن انسانیت، پیغمبر رحمت حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح مکہ کے موقع پر اس مثالی مذہبی رواداری اور عام معافی کے عملی مظاہرہ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔

”فتح مکہ کے موقع پر یہ بات ان کے حق میں کی جائے گی کہ اس وقت جب کہ اہل مکہ کے ماضی کے انتہائی ظالمانہ سلوک پر انہیں جتنا بھی طیش آتا، کم تھا۔ اوران کے انتقام کی آگ بھڑکانے کیلئے کافی تھا۔ مگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر و سپاہ کو ہر قسم کے خون خرابے سے روکا اوراپنے اللہ کے ساتھ بندگی اور اطاعت کا مظاہرہ کیا ․․․․ دوسرے فاتحین کے وحشیانہ طرزِ عمل کے مقابلہ میں اسے انتہاء درجہ کی شرافت و انسانیت سے تعبیر کیا جائے گا۔ مثلاً صلیبیوں کے مظالم ۱۰۹۹/ میں فتح یروشلم کے موقع پر انھوں نے ستر ہزار سے زائد مسلمان عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اُتاردیا تھا۔ یا وہ انگریز فوج جس نے صلیب کے زیر سایہ لڑتے ہوئے ۱۸۷۴/ میں افریقہ کے سنہری ساحل پر ایک شہر کو نذرِ آتش کرڈالا ․․․․ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح درحقیقت دنیا کی فتح تھی۔ سیاست کی فتح تھی۔ انھوں نے ذاتی مفاد کی ہرعلامت کو مٹاڈالا اور ظالمانہ نظامِ سلطنت کو جڑ سے اُکھاڑ دیا۔ اورجب قریش کے مغرور و متکبر سردار عاجزانہ گردنیں جھکائے ہوئے مجرموں کی طرح کھڑے تھے تو محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہیں مجھ سے کیاتوقع ہے؟ ”رحم۔ اے سخی و فیاض بھائی رحم“ وہ بولے․․․ ارشاد ہوا: ”جاؤ تم سب آزاد ہو۔“(۴۶)

# ہجرت سے قبل یثرب (مدینہ) میں اوس و خزرج کے دو دشمن قبیلوں کے علاوہ یہود کے مختلف قبائل اور دیگرمشرکین آباد تھے گویا مدینہ مختلف عقائد، قبائل اور نسلوں کی آماج گاہ تھا۔ ہجرت کے بعدآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اوراس اتحاد واتفاق کو قائم رکھنے کیلئے دنیا کا پہلا تحریری دستور وجود میں آیا۔ جس پر تمام باشندگانِ مدینہ کا اتفاق ہوا اور اس کی رو سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کا سربراہ تسلیم کیاگیا۔ یوں مدینہ میں ایک مختلف الخیال عناصر پر مشتمل ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس میں میثاقِ مدینہ کی وجہ سے یہود، انصار، مہاجرین اور دوسرے قبائل ایک تنظیمی اتحاد میں شامل ہوگئے۔ اور سب ایک دوسرے کے وجود کا اعتراف کرنے لگے۔(۴۷)

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی کتاب ”عہد نبوی میں نظامِ حکمرانی“ کے مطابق میثاق مدینہ دنیا کاسب سے پہلا تحریری دستور ہے۔ یہ تاریخ ساز میثاق دو حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلے حصہ میں ۲۳ اور دوسرے میں ۲۴ دفعات شامل ہیں۔ پہلاحصہ مسلمانوں کے باہمی تعلقات اور حقوق و فرائض کی نشاندہی کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ اہل اسلام اور دیگر اہل مدینہ کے باہمی تعلقات، حقوق و فرائض اور دیگر امور کی وضاحت کرتا ہے۔ ایک دفعہ کے الفاظ یہ ہیں ”مسلمانوں کیلئے مسلمانوں کا دین اور یہودیوں کیلئے یہودیوں کا دین ہے“ یعنی مدینہ میں جتنے بھی لوگ بستے تھے ان کو دینی، عدالتی اور قانونی آزادی کا اختیار دلایاگیا تھا۔ تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرلیجئے۔ اس سے بڑھ کر مفاہمت بین المذاہب کا وسیع عملی مظاہرہ دیکھنا کہاں نصیب ہوگا؟!(۴۸)

عرب محقق اور سیرت نگار محمد حسین ہیکل ”حیاتِ محمد“ میں میثاقِ مدینہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ تحریری معاہدہ ہے جس کی بدولت حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا ضابطہ، انسانی معاشرہ میں قائم کیا جس سے شرکاء معاہدہ میں ہرگروہ اور ہرفرد کو اپنے اپنے عقیدہ و مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہوا، انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی،اموال کو تحفظ ملا اور شہر امن کا گہوارہ بنا۔(۴۹)

# رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم غیرمسلموں کو مسجد میں ٹھہراتے۔ ان کو ان کے طریقہ پر مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دیتے۔ ایک مرتبہ نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد میں حاضر ہوا۔ اس وقت ان کی نماز کاوقت آگیا تھا۔ اس لئے انھوں نے مسجد ہی میں نماز شروع کردی۔ بعض مسلمانوں نے روکنا چاہا مگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع کردیا اور فرمایا نماز پڑھ لینے دو۔ چنانچہ عیسائیوں نے مسجد نبوی کے اندر اپنے طرز پر نماز پڑھی۔ (۵۰)

# ایک بار ایک یہودی کاجنازہ گذر رہا تھا۔ جنازہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم احترام آدمیت کی خاطر کھڑے ہوگئے۔(۵۱)

# اعتدال اور درمیانہ روی کے حوالہ سے اسلام کو دیگر مذاہب میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف دنیاوی امور میں بلکہ دینی امور میں بھی اعتدال اپنانے کا حکم فرمایا ہے۔

ایک بار تین صحابہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ عبادت کے بارے میں جاننا چاہتے تھے کہ کس قدر عبادت کریں۔ ایک نے کہامیں ساری رات عبادت کروں گا اور آرام نہیں کروں گا۔ دوسرے نے کہا میں روزانہ روزہ رکھوں گااور کبھی ناغہ نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں ساری عمر نکاح نہیں کروں گا اور شہوت پوری کرنے سے دور رہوں گا۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور زیادہ پرہیزگار ہوں۔ اس کے باوجود میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور بغیر روزہ کے بھی رہتا ہوں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اورمیں نے نکاح بھی کئے ہیں۔ پس جومیرے طریقہ کے خلاف کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔(۵۲)

ایک بار رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک رسی دوستونوں کے درمیان باندھی ہوئی ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ رسی کس لئے ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ام المومنین حضرت زینب نے لٹکائی ہے۔ جب وہ عبادت کرتے کرتے تھک جاتی ہے تواس سے لٹک کر تھکاوٹ اتارتی ہے۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رسی کھول دو۔ جب تک تم میں سے کوئی تازہ دم رہے تو نماز پڑھے اور جب تھک جائے تو آرام کرلیا کرے۔(۵۳)

# حضرت معاذ بڑے صحابی ہیں۔ ایک محلہ میں امامت کرتے تھے۔ صبح کی نماز میں لمبی سورتیں پڑھتے تھے۔ کسی نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کردی۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اس قدر غضب ناک نہیں دیکھاتھا جس قدر اس موقعے پر دیکھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو لوگوں کو دین سے متنفر کرتے ہیں۔ جو شخص تم میں سے نماز پڑھائے تو مختصر پڑھائے کیونکہ نماز میں بوڑھے، کمزور اور کام والے سبھی ہوتے ہیں۔(۵۴)

# ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں پیشاب کیلئے بیٹھ گیا۔ صحابہ اس کو مارنے کیلئے کھڑے ہوگئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا جب دیہاتی فارغ ہوا توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا کہ یہ مسجدیں بول وبراز کیلئے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز اور قرآن کی تلاوت کیلئے ہیں۔ پھر ایک شخص کو حکم دیا وہ ایک ڈول پانی لایا اور اس پیشاب پر بہادیا۔(۵۵)

پس چہ باید کرد؟!

گذشتہ سطور سے یہ بات بہ وضاحت عیاں ہوگئی کہ دین اسلام امن و سلامتی، عدل و انصاف،اعتدال و درمیانہ روی، عفو و درگزر اور رواداری و عدم تشدد کا دین ہے۔ اس کو انتہاء پسندی یا دہشت گردی کی طرف منسوب کرنا اغیار اور اسلام دشمنوں کے تعصب پر مبنی کارستانی ہے۔ بدقسمتی سے آج کل پوری دنیا کی میڈیا بھی یہودی و نصرانی لابی کے ہاتھوں میں ہے۔ اور وہ دین اسلام کو اس کی اصل تعلیمات کے برعکس پیش کررہی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی وقت تھا جب کہ اسلام اورمسلمان دونوں کاایک ہی مفہوم لیا جاتا تھا۔یعنی جو کچھ اسلام تھا وہی مسلمان کا عمل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام کا چرچا تھا۔ اس کی ترقی ہورہی تھی۔ لوگ اسلام اورمسلمانوں کواچھا دین اوراچھے پیروکار سمجھتے تھے۔اب اسلام اورمسلمان دونوں کا مفہوم الگ الگ ہوگیا ہے۔ یعنی اسلام کی تعلیمات اور مسلمان کے عمل و کردار میں ایک واضح فرق بلکہ تضاد سامنے آیا ہے۔ مسلمان مسلمان کے گریبان میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہے۔ دنیائے کفر متحد ہے اور عالم اسلام افتراق و انتشار کا شکار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسوئہ حسنہ کو عام کیا جائے اوراس کو بار بار پڑھا اور سوچا جائے۔ اورپھراس کو عمل میں لایا جائے۔

مگر معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اب ساری دنیا ایک عالمی گاؤں (Global Village) کاروپ اختیار کرچکی ہے۔ مختلف مذاہب، اقوام اور ممالک والے ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ عالمی برادری کو بھی اپنی سوچ وفکر اور عمل و کردار پر نظر دوڑانی پڑے گی۔ یورپ اور امریکہ کے دانشوروں اور اربابِ اختیار کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر اسلام کی حقیقی تعلیمات کو صحیح طورپر سمجھنے کا حوصلہ و برداشت پیدا کریں۔ وہ تعصب کا چشمہ اتار کر ہادیٴ اعظم، رحمة للعالمین، حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کا منصفانہ مطالعہ کریں۔ اورپھر تاریخ انسانیت کے تمام مصلحین سے اسلامی حقیقی زندگی کا تقابل کرکے اس کی آفاقی، ہمہ گیر اور عدیم النظیر حیثیت کو تسلیم کرلیں۔ وہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرلیں کہ اسلام اور مسلمان روئے زمین کی ایک عظیم قوت ہیں۔ ان کو صفحہٴ ہستی سے نہیں مٹایاجاسکتا۔ ان کے ساتھ ٹکرلینے کی بجائے وہ اصولِ ”پُرامن بقاءِ باہمی“ (Peaceful Mutual Co-existance) کے راستے اور ذرائع تلاش کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے دنیا میں امن قائم ہوگا اور سلامتی و خوشحالی آئے گی۔ لیکن اگر وہ سیاسی، مذہبی،معاشی اورمعاشرتی لحاظ سے مسلم امہ کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور ان کو دنیا سے نیست و نابود کرنے کے تانے بانے پروئیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہوگی۔ اس طرح کرنے سے دنیا کا امن بھی تباہ ہوگا اور خود ان کو بھی زندگی بھر چین و امن کا سانس لینا نصیب نہ ہوگا۔

یورپ و امریکہ نے مادی ترقی تو بہت کرلی ہے لیکن خود اعلیٰ انسانی صفات و کردار اور بلند روحانی اقدار سے یکسر خالی اور تہی دست ہے۔ ان کے ہاں کتوں اور جانوروں کی حیثیت تو ہے لیکن انسانی زندگی اور اس کا احترام معدوم ہے۔ ان کو سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے عمل و کردار کی اصلاح اور تاریخ ساز اسلامی روایات کے سرچشمہ سے مستفید ہونے کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ علامہ اقبال نے انہی کے بارے میں فرمایا تھا۔

دھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا                    اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا                         آج تک فیصلہٴ نفع و ضرر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا                   زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا(۵۶)

 مآخذ و مراجع

(۱)         Encyclopeadia Britanica, 1984, "Muhammad” Vol 12 p 609

(۲)        کیرن آرمسٹرانگ: خدا کیلئے جنگ، ص:۲۵۱۔

(۳)        Encyclopeadia Britanica, "Fundamentalist” Vol 7 p 777.

(۴)        کیرن آرمسٹرانگ: خدا کیلئے جنگ، ص: ۲۷۱ تا ۲۷۳۔

(۵)        مولانا عبدالکریم پاریکھ: ”یہودیت ․․․․ قرآن کی روشنی میں“ اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ لاہور، طبع دوم مارچ ۲۰۰۱، ص:۹۸ (۶)       ایضاً، ص: ۱۹۹۔

(۷)        چودھری غلام رسول: مذاہب عالم کاتقابلی مطالعہ، علمی کتب خانہ اردو بازار لاہور، ص: ۵۲۲، ۵۲۳۔

(۸)        اسد سلیم شیخ : رسول اللہ کی خارجہ پالیسی، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ۱۹۹۲/، ص: ۱۷۱۔

(۹)         ڈاکٹر حافظ محمد ثانی: رسول اکرم اور رواداری، فضلی سنز لمیٹڈ کراچی، اشاعت مارچ ۱۹۹۸/ ، ص : ۱۹۲، ۱۹۳۔

(۱۰)       ڈاکٹر خالد علوی: انسانِ کامل،الفیصل ناشرانِ کتب لاہور، طبع چہارم ۲۰۰۲/، ص: ۳۰۰ و ۳۱۰۔

(۱۱)        ابن جریر طبری: تاریخ الامم والملوک، المعارف بیروت، ج۵، ص: ۲۴۰۵۔

(۱۲)       ابوعبیدہ، کتاب الاموال، ص: ۱۴۰۔ (۱۳)         امام ابویوسف: کتاب الخراج، ص: ۱۴۳۔

(۱۴)      رد المحتار، ج:۳، ص: ۲۷۳ بحوالہ اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق،از مولانا مودودی، ص: ۱۶۔

(۱۵)      ایم سیڈلیٹ: خلاصہٴ تاریخ عرب، اردو ترجمہ عبدالغفار، نفیس اکیڈمی کراچی، طبع ۱۹۸۶/، ص: ۳۴

(۱۶)       Arnold, Sir Thomas: The Preaching of Islam, London 1961, p 277

(۱۷)      سید ابوالاعلیٰ مودودی: نصرانیت․․․ قرآن کی روشنی میں، ادارئہ ترجمان القرآن لاہور، طبع چہارم ۲۰۰۰/، ص:۷۶۔

(۱۸)      ٹی ڈبلیو آرنلڈ: دعوتِ اسلام، مفید عام پریس آگرہ، طبع ۱۸۹۸/، ص: ۴۴۸، ۴۴۹۔

(۱۹)       ایضاً طبع کردہ محکمہ اوقاف پنجاب لاہور طبع ۱۹۷۲/، ص: ۳۹۸۔

(۲۰)      عبدالحمید احمد ابوسلیمان: اسلام اور بین الاقوامی تعلقات، منظر اور پس منظر، فیمس بکس لاہور، باراوّل ۱۹۹۱/، ص:۲۰۵

(۲۱)       وقار احمد: غزواتِ سرور عالم، تاج کتب خانہ قصہ خوانی پشاور، دسمبر ۱۹۹۶/، ص: ۲۸۷۔

(۲۲)      محمد یحییٰ خان: پیغمبر اسلام غیرمسلموں کی نظر میں، پیام پبلشرز، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور، طبع ۱۹۹۹/، ص: ۵۲

(۲۳)     آرنلڈ: اشاعتِ اسلام، ص: ۸۔ (۲۴)                روزنامہ ڈان کراچی، ۳/مارچ ۱۹۹۷/۔

(۲۵)     آرنلڈ: اشاعت اسلام، ص: ۷۳۔ (۲۶)             بخاری، طبع نور محمد کراچی کتاب المغازی، ج:۲، ص: ۶۱۳/ ابن قیم الجوزیہ: زاد المعاد، ۱/۴۲۳۔

(۲۷)     Karren Armstrong: Muhammad a Western Attempt to Understanding Islam.

                London 1992. P 266

(۲۸)     قاضی محمد سلیمان منصور پوری: رحمة للعالمین، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ۱۹۷۳/، ج:۲، ص: ۲۱۳۔

(۲۹)      Michael, H. Hart: "The 100” New York 1978 p 10

(۳۰)     بخاری: الجامع الصحیح، طبع القاہرہ ۱۳۴۵ھ، ج:۳، ص: ۳۹۵۔

(۳۱)      ابن کثیر: السیرة النبویہ، طبع بیروت، ج:۱، ص: ۲۷۰-۲۷۸۔

(۳۲)     ابن حزم: جوامع السیرة، ص: ۶۴۔                     

(۳۳)     ابن حجر: فتح الباری، ج:۱، ص: ۳۰۲۔

(۳۴)     بخاری: الجامع الصحیح طبع کراچی، ج:۱، ص: ۴۵۸۔

(۳۵)     صفی الرحمن مبارک پوری: الرحیق المختوم، طبع لاہور، ص: ۵۵۶۔

(۳۶)     ابن کثیر: البدایہ والنہایہ، طبع بیروت، ج:۴، ص: ۱۸۔

(۳۷)     محمد یوسف الکاندھلوی: حیاة الصحابہ، طبع دہلی، ج:۱، ص: ۱۵۶۔

(۳۸)     شبلی نعمانی: سیرت النبی، ج:۲، ص: ۲۲۳، ۲۱۵۔

(۳۹)      الصالحی،محمدیوسف: سبل الہدیٰ والرشاد، طبع قاہرہ ۱۹۷۲/، ج:۷، ص: ۳۲۔

(۴۰)     البخاری کتاب الجنائز ۱/۱۶۹، ۱۸۰، ۱۸۲ طبع کراچی۔

(۴۱)      شبلی نعمانی: سیرت النبی،ج:۲، ص: ۲۱۱۔ (۴۲) ایضاً ،ج:۲، ص: ۲۱۵، ۲۱۶۔

(۴۳)     صحیح البخاری،ج:۲، ص: ۶۲۷۔                          (۴۴)              ایضاً۔

(۴۵)     قاضی محمد سلیمان منصور پوری: رحمة للعالمین، طبع کراچی،ج:۱، ص: ۱۲۹

(۴۶)     Arthur Gillman : The Saracens, London, p 184, 185

(۴۷)     ڈاکٹر محمد حمید اللہ: عہد نبوی میں نظام حکمرانی،اردو اکیڈمی کراچی ۱۹۷۸/، ص: ۷۵۔

               عون الشریف قاسم: نشأة الدولة الاسلامیہ فی عہد الرسول، القاہرہ ۱۹۸۱/، ص: ۴۱۔

(۴۸)     ڈاکٹر محمد حمید اللہ: عہد نبوی میں نظام حکمرانی، ص: ۷۶۔

(۴۹)      محمد حسین ہیکل: حیات محمد،مطبعہ النہضہ المصریہ ۱۹۴۷/، ص: ۲۲۷۔

(۵۰)     ابن قیم الجوزی: زاد المعاد،ج:۱، ص: ۱۵۔          

(۵۱)      بخاری: الجامع الصحیح،ج:۱، ص: ۱۷۵۔

(۵۲)     مسلم: الجامع الصحیح رقم الحدیث ۱۴۰۱۔

(۵۳)     بخاری: ج:۱، ص: ۱۵۴۔

(۵۴)     بخاری: کتاب الصلوٰة، ج:۱، ص: ۹۷۔

(۵۵)     جمع الفوائد، ج:۱، ص: ۶۳۔

(۵۶)     محمداقبال، علامہ: کلیات اقبال (ضربِ کلیم) الفیصل ناشرانِ کتب لاہور ۱۹۹۵/، ص: ۴۴۱۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1، جلد: 90 ‏،ذی الحجہ1426 ہجری مطابق جنوری2006ء

Related Posts