از: مولانا عبدالمتین لیاری

            انجینئر محمد علی مرزا صاحب در اصل ایک مکینیکل انجینئر ہیں اور ان کا تعلق ”جہلم“ شہر سے ہے؛لیکن وہ انجینئرنگ سے زیادہ ”علوم اسلامیہ“ میں مصروف ہیں،اسی نسبت سے موصوف جہلم شہر میں ہی ”قرآن و سنت ریسرچ اکیڈمی“ کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں ،ادارہ کی پالیسیوں میں سر فہرست ”امت اسلامیہ کا اتحاد و اتفاق“ ہے اور مرزا صاحب کی ساری کوشش اسی حوالہ سے سامنے لائی جارہی ہیں۔

            لیکن اس ظاہری تعارف کے بر عکس موصوف کا مجموعی کام کسی اور ہی رخ پر نظر آرہا ہے جس سے واقف ہوتے ہی ”اتحاد امت“ کا دھندلا سا عنوان بے معنی نظر آنے لگتا ہے۔

            مرزا صاحب کا مجموعی کام دو حصوں پر مشتمل ہے: (۱) ویڈیو لیکچرز، (۲) ریسرچ پیپرز۔ قرآن و سنت ریسرچ اکیڈمی کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل میں موجود موصوف کے لیکچرز کو سرسری عنوانات سے ہی دیکھ لیا جائے تو دور دور تک ”امت مسلمہ کے اتحاد“کی کوشش نظر نہیں آتی؛بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مباحث جن سے ہم بڑی ہی مشکل کے ساتھ کسی حد تک دامن چھڑا چکے ہیں بعینہ وہ سارے مسائل ایک ایک کر کے ایک نئے انداز میں پیش کیے جارہے ہیں۔ در اصل اتحاد امت ایک آسان نعرہ ہے؛ لیکن اس کا نباہ بہت کٹھن ہے ،حالیہ بہت سے فتنوں کی تاریخ معلوم کی جائے تو ان میں بیشتر اتحاد امت کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں؛ لیکن کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد ان کا اتحاد ایک مستقل فرقے کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کی ایک بہت بڑی مثال پرویزی فکر ہے ، جس کا نعرہ اہل قرآن کے نام سے اٹھا؛ لیکن پردہ سرکتے ہی انکار حدیث کا تحفہ امت کو پیش کیا گیا ۔

            جیسا کہ ہر سلیم الفکر اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ امت مسلمہ کے عروج و ترقی کی ایک اہم صورت اپنے جزوی و فروعی اختلافات کو ایک طرف کر نے کے بعد بنیادی مشترکہ ایشوزپر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے میں ہے؛لیکن مرزا صاحب اس اصول کے بالکل بر عکس اِن تمام مسائل کو فروعی ثابت کرنے اور ان کی حدود متعین کرنے کی بجائے ان کو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا جیسا انتہائی عوامی اور رخیص میدان فراہم کر رہے ہیں، جہاں سننے والوں کی استعداد کاکچھ پتہ ہی نہیں، مرزا صاحب کے متاثرین اگر دین کی ”ا ب ج“ ہی سے واقف نہیں تو وہ کس بنیاد پر ان کا حق پر ہونا جان سکتے ہیں۔ فی الوقت عوام الناس جن جن وجوہات کی بنا پر منبر و محراب سے دور ہوچکے ہیں ٹھیٹھ ویسا ہی رویہ اور مواد میڈیا میں سامنے لایا جارہا ہے جس سے ہر وہ شخص جو علمی ضعف کا شکار ہے یقینا فتنے کی سرحد کو چھولے گا ۔

            انجینئر صاحب کے لیکچرز کو ایک ایک کر کے دیکھنے کے باوجود ان میں کوئی بھی ایسا عنوان نہیں مل پاتا جو کہ امت میں موجود مادیت کے زہر اور روحانیت کے فوائد بتا سکے اور نہ ہی کوئی ایسا جو اصلاح نفس اور تزکیہٴ نفس کی معمولی جھلک بھی پیش کرتا ہو اور نہ ہی کچھ ایسا جو ہمارے اخلاقی انحطاط کی نشاندہی کرتا ہو؛ بلکہ سراسر ایسا مواد جس سے عوام الناس فقط تفریق و انتشار کا شکار ہوتی جارہی ہے۔

            یہی حال موصوف کے ”ریسرچ پیپرز“ کا ہے جن میں سر تا مو کسی سنجیدہ اور متقاضی موضوع پر بحث نہیں کی گئی مثلا الحاد،انکار حدیث،مغربیت، فحاشی، ضروریات دین وغیرہ ۔ موصوف کے چند اہم اور بنیادی ریسرچ پیپرز کے نام ملاحظہ فرمائیں جن سے ان کا علمی ذوق اور فکری وسعت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو کہ ان کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں: اندھا دھند پیروی کا انجام، رافضیت، ناصبیت اور یزیدیت کا تحقیقی جائزہ، واقعہٴ کربلا کا حقیقی پس منظر، جنگ جمل جنگ صفین، قبروں سے فیض سے متعلق عقائد کا تحقیقی جائزہ،جادو ٹونا جنات تعویذات ، ۱۲/ربیع الاول یوم وفات نہیں ہے، نجدی در اصل کون ہیں ؟ ابن تیمیہ کے کچھ غلط عقائد،امام ابوحنیفہ کی اجتہادی غلطیوں سے متعلق ۔

            مذکورہ ساری صورتحال در اصل اختلاف کے پس منظر،پیش منظر اور اس کے اطلاق و غیر اطلاق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رحمت دو عالم … اختلاف کو رحمت قرار دے رہے اور ہم زحمت،سو ایسی صورت میں اختلاف کو نظر انداز کرلینا اور اسے کالمعدوم جاننا ایک نئے فرقے کی بنیاد بن سکتا ہے۔

            اختلاف کو سمجھنا اور اس کو سمیٹنا یا موقع محل کی حد تک زیر بحث لانا تو معقول بات ہے؛ لیکن جڑ سے ختم کرنا نہیں ؛کیونکہ یہ اختلاف فقہائے امت کی فقہی بصیرت اور لاجواب فقہی خدمات پر مشتمل ورثہ ہے ،جس سے انکار اپنی تراث کا انکار کرنے کے مترادف ہے؛ بلکہ یہ امت مسلمہ کا خزانہ ہے جس سے وقتا فوقتا مفید از مفید نتائج سامنے لائے جاسکتے ہیں اور لائے جاچکے ہیں؛ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ایسی ٹھیٹھ علمی ابحاث کو سوشل میڈیا اور خاص کر یوٹیوب کی زینت نہ بنائیں؛ بلکہ اس کے لیے درس و تدریس ،درس گاہ اور تصنیف و تالیف اور شعبہ تحقیق پر زور دیں، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ایک عام شخص کامیڈی دیکھنے کی نیت سے یوٹیوب چلائے گا اور اپنے ناقص فہم کے تحت روز روز نئے نئے افکار کا منظر پیش کرے گا جس کے پیچھے ایک نہ ختم ہونے والا انتشار ہوگا جو ہمیں تقسیم در تقسیم کرتا جائے گا ۔

            محمد علی مرزا صاحب بھی اختلاف کوختم تو نہیں کر رہے؛ لیکن اسے اپنی جانب سے ایک الگ رنگ دینا چاہ رہے ہیں، جس کے نتیجے ایک عام شخص بے ساختہ علماء کی مخالفت پر اتر آتا ہے کہ یہ ہمیں کچھ سکھاتے نہیں ،غلط باتیں بتاتے ہیں، حقائق سے دور رکھتے ہیں وغیرہ ۔پھر علماء میں موجود ان تمام خرابیوں کا تصور ذہن میں لاکر جب وہ ایک مسیحا کا سوچتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں فوری طور پر انجینئر مرزا صاحب چھا جاتے ہیں۔ اپنی بات کو ثابت کرنا بہت اچھی بات ہے؛ لیکن امت کے محسنین کو ڈراؤنا بنا کر پیش کرنا بالکل بھی مناسب بات نہیں جو کہ اس وقت انجینئر صاحب سے متاثر ہر دوسرے شخص کا خاصہ ہے ۔

            نیز اس سے اتحاد امت کا دعویٰ کمزور پڑتا جارہا ہے جس کی بنیادی وجہ اختلافی مسائل کی حقیقت کو نہ سمجھنا ہے؛کیونکہ ان اختلافی مسائل کا پس منظر جاننے والا شخص کبھی بھی ایک منفرد تشخص یا نظریات کا قائل نہیں ہوسکتا؛ بلکہ وہ ہر بات کو اکابر علماء کے طریق سے لینے کو پسند کرتا ہے اور اجماعی موقف اپنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ عجیب حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں مطالعے اور تحقیق کا ماحول نہ ہونے کے برابر ہے؛ لیکن جوں ہی کوئی مطالعہ شروع کرتا ہے تو رہنمائی نہ ہونے کے سبب جلد اجتہاد کے دروازے کی کنڈی کھولنے لگ جاتا ہے یعنی ہم نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ یا تو کبھی نہیں پڑھیں یا تو صرف اجتہاد کے لیے پڑھیں گے۔ درخواست ہے کہ پہلے اپنے فہم دین کے حصول پر بھرپور محنت کی جائے ،کتابوں کے ترجمے پڑھ کر گزارا نہ کیا جائے اور جہاں جہاں اشکالات ہوں انھیں مختلف علمائے امت کی خدمت میں پیش کریں، اس کے بعدبات کرنا آسان رہے گا۔ ورنہ میں مطالعہ کرتا جاؤں اور کچی پکی جیسی تیسی اینٹ استعمال کرکے اپنے دین کا تصور تعمیر کرنے میں مصروف ہوجاؤں تو میری عمارت کچھ ہی وقت میں ڈھیر ہوجائے گی۔

            ساتھ ساتھ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ علمائے امت کا خوب ادب و احترام کیا جائے، ان کی بات اور ان کی رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اگر استعداد ہو توکرنا بھی چاہیے؛ لیکن ان کے مقام، ان کی محنت اور دین کے لیے ان کی طویل خدمات کو مدنظر رکھ کر۔ یہ ناانصافی کی بات ہوگی کہ ہم علوم حدیث میں نیم صدی سے زائد مصروف کسی عالم کے بارے میں یکلخت جیسی تیسی زبان استعمال کریں ۔

            آخر میں یہ کہہ کر ان سطور کا اختتام کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ امت کو اہل سنت والجماعت کے متفقہ عقیدے سے جوڑنے کی کوشش کی جائے اور امت کا اپنی تاریخ کے ساتھ رشتہ مضبوط کیا جائے ۔ اگر ہم اپنی تاریخ اور سنیت کے عقیدے پر جم نہ سکے تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں کرسکتی ۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :12،    جلد:105‏،  ربیع الثانی – جمادِی الاول 1443ھ مطابق   دسمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts