از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی
۱۵/ گاندھی روڈ، دہرہ دون
دہلی پبلک اسکول میں موبائل فون کے کیمرہ سے ایک طالب علم اور طالبہ کے فحش غیر فطری جنسی حرکات کی تصویروں کو تیسرے طالب علم کے ذریعہ کھینچنے اور انہیں ملٹی میڈیا سسٹم کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھیجنے اوراس فلم کو بیچنے کے معاملہ میں گرفتار بازی ڈاٹ کام کے انتظامی افسر اعلیٰ اونیش بجاج کی گرفتاری اور رہائی کے قضیہ میں بہت سے پہلو ہیں جن پر سماج کے ہر شخص کو اس کی بساط کے مطابق انفرادی و اجتماعی طور پر غور کرنا ہے اور ایک لائحہ عمل بناکر عمل کرنا ہے۔ ورنہ یہ وہ ناسور اور کینسر ہے جو اندر ہی اندر پک رہا ہے اور پھیل رہا ہے۔ اس کا ثبوت اس قضیہ کے بعد پے در پے اس طرح کے واقعات کی مسلسل اندور، چنئی اور الہ آباد سے خبریں آنے سے ہوتا ہے۔ اور ہر آدمی جو اس دھندہ سے تھوڑا بہت واقف ہے وہ جانتا ہے کہ یہ چند واقعات اس غلاظت اور سڑاند کے پہاڑ اور سمندر کے قطرہ اور مشت خاک کے برابر نہیں ہے جس پیمانہ پر اور جس تیزی سے یہ گندگی ہمارے سماج میں پھیل رہی ہے۔ بدقسمتی مگر تاریخ کے تسلسل کے طورپر یہ قدر مشترک تمام مثالوں میں ہے کہ اس گندگی میں سماج کا وہی طبقہ پیش پیش ہے جس کے پاس سماج میں پیسہ، عزت اور تعلیم ہے، یہ الگ بات ہے کہ اکثریت کی کمائی غیر قانونی ہے۔ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہر زمانہ میں یہی طبقہ تمام برائیوں میں آگے رہتا ہے جسے وہ طبقہ ”مترفین“ کا نام دیتا ہے۔
ہندی کے مشہور کالم نگار انل چمڑیا نے اس طبقہ کے تعلق سے بجا طور پر لکھا “یہ سماج کا وہ طبقہ ہے جس کا سماجی قدروں، سماجی اداروں کے ذریعہ طے کردہ اصول و ضوابط سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہیں وہ سرے سے گردانتے ہی نہیں یہ دیکھا جانا بھی ضروری ہے کہ یہ طبقہ کن وسائل کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ یہ پیداواری طبقہ نہیں ہے۔ اس کی بنیاد غیر قانونی کمائی ہوتی ہے اس لیے عام آدمی اوراس کی تہذیب سے اس کا دور دور تک کوئی ناطہ نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں یہ جان لینے کی بھی ضرورت ہے کہ ہندوستانی سماج میں جو ناجائز رشتہ یا فحش تہذیب کا چلن دیکھا جاتا ہے اس کے کردار کون ہیں؟ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کے پس منظر میں وہی لوگ ہیں جو ناجائز طریقہ سے لوٹنے والے اور قانون کا مذاق اڑانے والے ہیں۔ جیسے جیسے یہ طبقہ مضبوط ہوا ہے سماج میں بدتہذیبی بڑھی ہے․․․ دراصل یہ طبقہ تکنیکی ترقی کو اپنی چاکری اور عیاشی کیلئے استعمال کرتا ہے اسلئے سوال صرف تکنیک کے غلط استعمال کا نہیں ہے، تکنیک کو اپنے اقتدار اور تہذیب کے تابع کرنے کا ہے۔ اس طرح کے واقعات ایک کے بعد ایک اس لئے سامنے آتے ہیں کیونکہ اس (تکنیک) پر تسلط رکھنے والے طبقہ پر گفتگو کو مرکوز نہیں کیا جاتا ہے۔ (انل چمڑیا، راشٹریہ سہارا، ۲۰۰۴، ۱۲-۱۸)
دوسرا پہلو اس قضیہ میں بہت اہم یہ ہے کہ شیطان کے موثر تین حربوں میں جنسی بے راہ روی کی تمام شکلیں شامل ہیں۔ ہبوط آدم سے بھی پہلے اس نے آدم و حوا کے سترعریاں کروائے تھے۔ اور تب سے آج تک مختلف شکلوں میں یہ اس کا اور اس کے پیروکاروں کا موثر ترین ہتھیار رہا ہے اور رہے گا۔ قرآنی اصول : اے لوگو شیطان کی پیروی نہ کرو، اگر تم شیطان کی پیروی کروگے تو وہ تمہیں فحش اور منکرات کا حکم دے گا۔ بازی ڈاٹ کام ایک امریکی کمپنی کی شاخ ہے۔ اس کا انتظامی افسر اعلیٰ ہندوستانی امریکی ہے۔ دہلی پولیس کے ذریعہ ہندوستان میں قوانین کے تحت اس کی گرفتاری کی گئی۔ مگر اس وقت دنیامیں شیطانی تہذیب کے سب سے مضبوط مرکز بش انتظامیہ نے ایک معمولی افسر کی رہائی کے لیے اپنی ساری طاقت جھونک دی۔ اس کی ضمانت کی عرضی کی پہلی شنوائی کے روز امریکی سفارت کار کورٹ میں موجود تھا۔ بعد میں وہ مسلسل عدالتی کارروائی کے دوران موجود رہا۔ ٹائمس آف انڈیا ۲۲/دسمبر ۲۰۰۴ کے صفحہٴ اول کی خبر کے مطابق امریکہ کا محکمہ خارجہ، کولن پاویل اور مشیر برائے تحفظ کونڈولیزا رائس سب نے اس افسر کی رہائی کے کیس میں خصوصی دلچسپی دکھائی۔ جس کا اقرار محکمہ خارجہ کے ترجمان رچرڈ باؤچر نے کیا کہ ”میں جانتا ہوں کہ یہ حالات ہمارے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ اعلیٰ ترین حلقوں میں اس پر تشویش ہے، باؤچر نے اس سے منع کیا کہ مجھے پتہ نہیں کہ کونڈولیزا رائس نے بھی اس میں دلچسپی دکھائی یا فون کرکے احوال معلوم کیے۔ ٹائمس آف انڈیا ۲۲/دسمبر ۲۰۰۴/ صفحہ اول پہلی خبر بازی ڈاٹ کام کیونکہ اس شیطانی ایجنڈہ کی تکمیل کررہا تھا، اس لئے اس کے سرپرست اُس کی مدد کو آئے۔ جسے ہم شیطانی تہذیب کا ایجنڈہ کہتے ہیں اسے وہ ”امریکن طریقہٴ زندگی“ کہتے ہیں اور نئے عالمی نظام ”نیوورلڈ آرڈر“ کے ذریعہ اس مکروہ تہذیب کو تمام دنیا بالخصوص اسلامی دنیا میں پھیلانا ان کا سرکاری اور اعلانیہ مقصد ہے۔ جو آزادی ترقی، تعلیم اور تہذیب و تفریح کے خوشنما لبادوں میں چھپایا گیا ہے۔ امریکہ کے زیر اثر تمام ممالک کے سماج پر نظر ڈالیں حقیقت سامنے آجائے گی، خصوصاً افغانستان پر امریکی قبضہ کے بعد کے حالات دیکھیں تو اندازہ ہوگا مقابلہٴ حسن، فلمیں، گانے، بیوٹی پارلر کو ہی فروغ دیا جارہا ہے۔ یہی ترقی کی راہ بتائی جارہی ہے۔
اس وقت پوری انسانی برادری کے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ وہ ایڈس، زنا، عورتوں کے خلاف دست درازی، ہم جنسی وغیرہ کی لعنتوں سے کیسے چھٹکارا پائے؟ اگرانسانیت واقعی ان لعنتوں سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے تواسے ان لعنتوں کی سرپرستی کرنے والی طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ ورنہ خدا جانے یہ شیطان انسانی شرافت کو کن کن پستیوں میں لے جاکر رسوا کریں گے۔ کل پچھتانے سے کچھ نہیں ہوگا۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10-11، جلد: 89 ، رمضان، شوال 1426ہجری مطابق اکتوبر، نومبر 2005ء