از: مفتی تنظیم عالم قاسمی
استاذ حدیث دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد
انسان کا مقصد حیات آخرت کی کامیابی ہے ، اسی کے لیے محنت اور جد و جہد کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ، جو شخص ایمان اور عمل صالح کے ساتھ دینا سے رخصت ہوا وہ کامیاب ہے ؛ اس لیے کہ اسے جنت کی نعمتیں حاصل ہوںگی اور ہمیشہ ہمیش رہنے والی راحتیں میسر ہوںگی ، جن سے بڑھ کر راحت اور سعادت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ آخرت کی طرف ہمیشہ متوجہ رہے اور اس کی ساری سرگرمیاں عذاب قبر سے نجات اور رضائے الٰہی کے لیے ہوں ، جو لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے ، قیامت کی ہولناکیوں اور جہنم کے خوفناک عذاب پر یقین رکھتے ہیں ، ان کے لیے ہر گز یہ مناسب نہیں ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں الجھ کر رہ جائیں اور دنیوی عیش و عشرت میں ڈوب کر آخرت فراموش کردی جائے ، جو بھی ایساکرتا ہے یقینا وہ خسارے میں ہے ، دنیا پر اعتماد اور للچائی ہوئی نظر رکھنے والوں کو خدانے خبر دار کیا ہے :
{یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْر} (فاطر: ۵)
ترجمہ:’’ لوگو ! اللہ کا وعدہ یقینا برحق ہے ؛ لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے ‘‘
مرنے کے بعد خدا کے سامنے پیشی اور جواب دہی کا ہمیشہ استحضار رہنا چاہیے ، اس سے دنیا کی محبت کم ہوگی اور شیاطین کی گرفت سے محفوظ رہنا آسان ہوگا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی آسائشوں اور یہاں کے وسائل کو اپنی حیات کا مقصد اور ساری سرگرمیوں کا مرکز بنالیا جائے ، جب کوئی انسان دنیوی عہدوں اور دنیوی مال و دولت کو اپنی توجہ و دلچسپی کا مرکز بنالیتا ہے اوراسے ایک مشن کے طور پر حاصل کرنا شروع کرتا ہے تو خدا اور اس کے رسول ﷺ سے خود بخود اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے اور شریعت کی گرفت ڈھیلی پڑجاتی ہے ، پھر وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ؛ اس لیے کہ اس کی رگوں میں دنیا کی لذت بیٹھنے کی وجہ سے خدا کا خوف ختم ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب کسی کو خدا کا خوف اور کسی گرفت کا احساس نہ ہو تو اسے گناہوں اور بے حیائیوں سے کوئی طاقت نہیں بچاسکتی ، آج جتنے جرائم اور بدکاریاں ہورہی ہیں ، تمام کے پیجھے یہی دنیا کی محبت کار فرما نظر آئے گی ، قتل و قتال ، لڑائی جھگڑے ، گالی گلوج ، چوری اور ڈاکہ زنی ، قطع رحمی ، عداوت اور دشمنی وغیرہ کی بنیاد کو کریداجائے اور ان کی تہوں کا جائزہ لیا جائے تو ان سب کی اساس دنیا کی محبت ہی نظر آئے گی ، اسی وجہ سے رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’ حُبُّ الدنیا رأسُ کلِّ خطیئۃٍ ‘‘ (کنز العمال ، حدیث نمبر : ۶۱۱۴)
’’ دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے ‘‘
بہر حال قرآن کی مختلف آیات اور متعدد ارشادات رسول ﷺ میں دنیا کی مذمت اور اس کے طلب گار کی قباحت بیان کی گئی ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے دنیوی اسباب اور مال و دولت کے بغیر گذارہ بھی نہیں ہوسکتا ، ہر انسان کے ساتھ کھانے پینے ، رہنے سہنے ، پہننے اوڑھنے اور دیگر ضرویات زندگی لگی ہوی ہیں ، پھر ان کی تکمیل کس طرح ہوگی ؟ کس معاش اور دنیوی محنت و جدو جہد کے بغیر انسانی حاجتوـں کو پورا نہیں کیا جاسکتا؛ اس لیے کہ شریعت اسلامی نے دوسروں کے سہارے زندگی گذارنے اور دوسروں پر بوجھ بننے سے منع کیا ہے ، مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ اپنے گذر بسر کے لیے خود اپنے ہاتھ سے کمائیں اور محنت کریں ، کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کریں ؛ چنانچہ حدیث میں ہے کہ :
’’ ایک بار رسول اللہﷺ کی خدمت میں ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے آپ ﷺ سے کچھ سوال کیا ، آپﷺ نے دریافت فرمایا : تمہارے گھر میں کچھ سامان بھی ہے ؟ صحابی نے کہا : یا رسول اللہ ! صرف دو چیزیں ہیں ، ایک ٹاٹ کا بچھونا ہے ، جس کو ہم اوڑھتے بھی ہیں اور بچھاتے بھی ہیں اور ایک پانی کا پیالہ ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ ، وہ انصاری صحابی رضی اللہ عنہ دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوگئے ، آپ ﷺ نے وہ دونوں چیزیں دو درہم میں نیلام کردیا اور دونوں درہم ان کے حوالے کرتے ہوے فرمایا : جاؤ ایک درہم سے تو کچھ کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر والوں کو دے آؤ اور ایک درہم سے ایک کلہاڑی خرید کر لاؤ ، وہ کلہاڑی لے کر آئے تو آپﷺ نے کلہاڑی میں اپنے مبارک ہاتھوں سے دستہ لگایا اور فرمایا : جاؤ ، جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لاؤ اور بازار میں بیچو ، پندرہ دن کے بعد ہمارے پاس آکر روداد سنانا و پندرہ دن کے بعد صحابی رضی اللہ عنہ جب حاضر ہوے تو انہوں نے دس درہم جمع کرلیے تھے ، آپ ﷺ خوش ہوے اور فرمایا یہ محنت کی کمائی تمہارے لیے اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم لوگوں سے مانگتے پھرو اور قیامت کے روز تمہارے چہرے پر بھیک مانگنے کا داغ ہو ‘‘ (صحیح البخاری)
بھیک مانگنا اور دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنا باعث ذلت ہے ، اس سے حد درجہ احتیاط کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، یہاں تک کہ اس صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس ٹاٹ اور ایک پیالہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا ؛ لیکن کمانے کی قوت تھی ؛ اس لیے آپ ﷺ ایسی ترکیب نکالی وہ اپنے ہاتھوں خود اپنی ضروریات کی تکمیل کرلے اور آئندہ اس طرح طاقت رکھنے والے افراد کسی کے سامنے بھیک مانگنے کی جرأت نہ کریں ، خواہ ان کے پاس ظاہری اسباب کچھ بھی نہ ہو ، پھر بھی اپنے ہاتھوں سے کمانے اور محنت کرنے کی عادت ڈالیں اور خود اپنے کسب معاش سے گذر بسر کریں ، اس طرح یہ دنیا میں ذلت و خواری سے محفوظ رہیںگے اور قیامت کے دن بھی رسوائی سے انھیں نجات ملے گی ؛ اس لیے کہ قیامت کے دن بھیک مانگنے والوں کے چہروں پر گوشت نہیں ہوگا ۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے بغیر انسان کا جینا مشکل ہے ؛ بلکہ دنیوی تنگی کے سبب موجودہ دور میں ایمانی تقاضوں کی تکمیل بھی مشکل ہوگئی ہے ، مشہور بزرگ اور معروف محدث حضرت سفیان ثوریؒ نے اپنے تجربات کی روشنی میں بہت ہی معقول اور صحیح بات کہی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ :
’’ اب سے پہلے دور نبوت وخلافت میں مال ایک ناپسندیدہ چیز سمجھا جاتا تھا ؛ لیکن ہمارے اس زمانہ میں مال مؤمن کی ڈھال ہے اور فرمایا کہ اگر ہمارے پاس آج یہ درہم و دینار نہ ہوتے تو بادشاہ وامراء ہم کو اپنا رومال بنالیتے (یعنی باطل اغراض میں استعمال کرتے) آج جس شخص کے پاس یہ درہم و دینار ہوں تو انھیں اچھی حالت میں رکھے ؛ کیوںکہ یہ ایسا زمانہ کہ اگر آدمی محتاج وتنگدست ہوجائے توسب سے پہلے وہ اپنا دین بیچ دے گا ‘‘ (طبرانی)
مال و دولت ایسی چیز ہے جس کے لالچ میں انسان اپنے ایمان کو بیچ ڈالتا ہے ، اپنے مسلک کو تبدیل کرلیتا ہے ، دلوں میں نفاق اور ذہنوں میں کدورت بیٹھ جاتی ہے ، ایک شخص مالی محتاج ہونے کی وجہ سے ارباب دولت و ثروت کو اسلام کے پیغام حق سے واقف نہیں کراسکتا ، ان کی ناراضگی اور ہدایا و تحائف کے بند کردینے کے اندیشے ہوتے ہیں ، عہدے داروں سے وہ آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرسکتا کہ بہت سے خطرات دل میں پیدا ہوتے ہیں ، ظاہر ہے کہ ایک شخص کے دل میں دوسروں کے مال و دولت کا حرص پیداہو اور دنیوی عہدوں سے مرعوب ہوتاہوتو وہ دعوت و تبلیغ کا کام کیا انجام دے سکتا ہے ؛ بلکہ ایسے افراد کا دین پر قائم رہنا بھی مشکل ہوجاتا ہے ، آج کل قادیانیت و عیسائیت کی تبلیغ دیہات اور دور افتادہ گاؤں میں صرف پیسوں کی بنیاد پر کامیاب ہے ، وہ کمزور اور ضرورت مند مسلمانوں کو مختلف چیزوں کا لالچ دیتے ہیں، بلاسودی قرضے فراہم کرتے ہیں ، راحتوں کے سامان مہیا کیے جاتے ہیں ؛ اس لیے بہت سے کمزور عقائد رکھنے والے مسلمان اپنا ایمان تبدیل کرلیتے ہیں اور وہ ایمان کی دولت عظمی سے محروم ہوکر کفر اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ؛ اس لیے شریعت اسلامی نے اپنے پیروکاروں کو حلال پیسے حاصل کرنے اور اس کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کی نہ صرف اجازت ؛ بلکہ بعض جگہوں میں اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے ، سورہ جمعہ میں ارشاد باری ہے :
{فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانْتَشِرُوْا فِیْ الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن} (الجمعۃ:۱۰)
ترجمہ: ’’ پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو ، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے ‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے :
{وَابْتَغِ فِیْمَا آتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَ الآخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَأَحْسِنْ کَمَا أَحْسَنَ اللّٰہُ إِلَیْْکَ} (القصص: ۷۷)
ترجمہ: ’’ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر ، احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے ‘‘
مذکورہ دونوں آیات میں دنیا کے حصول اور رزق کی تلاش کرنے کی صاف طور پر ہدایت دی گئی ہے ؛ البتہ خدا کے حقوق یاد رکھنے اور اس کے ذکر کی بھی تلقین کی گئی ؛ تاکہ لوگ دنیا کمانے میں کہیں اپنے رب اور حقیقی و ابدی دولت وسعادت سے محروم نہ ہوجائیں ، قرآن نے مسلمانوں کو جو دعائیں سکھائی ہیں ، ان میں ایک مشہور دعاء یہ بھی ہے :
{رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار}(البقرۃ:۲۰۱)
ترجمہ: ’’ اے رب ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا ‘‘
اس دعاء میں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ آخرت کی اچھائی سے پہلے دنیا کی بھلائی اور اچھائی طلب کرنے کا تذکرہ ہے ، پھر بعد میں جہنم سے نجات کا تذکرہ ؛ اس لیے کہ آخرت سے پہلے دنیوی زندگی ہے ، اگر اس زندگی میں کسب حلال اور جائز محنتوں کے ذریعہ مال و دولت حاصل کی جائے تو ایمان میں استحکام و استقامت نصیب ہوگی اور عبادات میں ذہنی سکون ملے گا ، بندوں کے حقوق اداہوںگے ، صلہ رحمی کا موقع ہاتھ آئے گا اور بہت سے رفاہی ودینی امور اس کے ذریعہ انجام دیے جاسکتے ہیں اور اگر دنیوی حالت ہی اچھی نہیں رہی تو کسبِ معاش میں ہی لوگ پریشان رہیںگے ، اہل خانہ اور ماتحتوں کی ضرورت ہی میں مصروف نظر آئیںگے ، وہ کب اپنی آ خرت کو بہتر بنانے کی فکر کرسکیںگے ، بالخصوص عہد صحابہ کے بعد اس کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے ، قرون اولیٰ میں لوگوں کا ایمان مضبوط و مستحکم تھا ، وہ فاقے میں رہ کر بھی خدا کو یاد رکھتے ، پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی جہاد میں مصروف رہتے اور اپنے مقدر پر انھیں ناز ہواکرتا تھا ؛لیکن بدلتے حالات کے ساتھ اب نظریات اور خیالات بدل گئے ، اب وہ استقامت وایمان کی مضبوطی نہ ہونے کی وجہ سے دنیوی اچھائی کے بغیر ایمانی راہوں سے گذرنا اور ایمانی تقاضوں کی تکمیل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ؛ اس لیے قرآن نے قیامت تک آنے والی انسانیت کے کمزور پہلو پر نظر رکھتے ہوے جائز دائرے میں دنیا کے حصول کی بھی تعلیم دی ہے ۔
تاہم دنیا کے حصول اور اس سے بے نیازی کے درمیان بہت نازک فرق ہے ، جس کی رعایت اہل ایمان کے لیے نہایت ضروری ہے ، دنیا کے بغیر انسان کا گذ۱رہ بھی نہیں ہے اوردنیا سے اجتناب کی بھی تعلیم دی گئی ہے ، دونوں کو جمع کرتے ہوے مولانا رومیؒ نے اچھی مثال دی ہے کہ ’’انسان کی مثال کشتی جیسی ہے اور دنیا کی مثال پانی جیسی ‘‘ جیسے پانی کے بغیر کشتی نہیں چل سکتی ، اسی طرح انسان کے زندہ رہنے کے لیے دنیا اور اس کے اسباب چاہیے ، اس کے بغیر گذر بسر مشکل ہے ؛ لیکن جس طرح پانی کشتی کے لیے اس وقت تک مفید ہے جب تک پانی کشتی کے ارد گرد ہے ، اگر پانی ارد گرد اور نیچے رہنے کے بجائے کشتی کے اندر چلاجائے تو کشتی ڈوب جائے گی ، اسی طرح یہ دنیوی اسباب و وسائل جب تک دل و دماغ سے باہر ہیں اور محض ان کو زندگی گذارنے کے لیے سہارا اور نفع کے درجے میں رکھے جائیں ؛لیکن جب دنیا سے محبت کی جائے اور مال و دولت کو اپنے دل و دماغ میں بسالیا جائے تو یہی دنیا اب نفع کے بجائے نقصان کا باعث بن جائے گی ، اسلام نے مالدار بننے اور زیادہ دولت کماکر پروقار زندگی گذارنے سے منع نہیں کیا ہے ، ہاں اتنا حکم ضرور ہے کہ دنیوی خزانوں میں بیٹھ کر بھی دل میں تواضع رہے ، اللہ کا خوف پایا جائے ، رب اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کیے جائیں ، جب مسجد کے منارے سے اذان کی آواز سنائی دے تو اپنی دکانیں اورکمپنیوں کے دروازے بند کرکے مسجد کی طرف دوڑ پڑیں ، اگر یہ کیفیت دل میں پائی جائے تو دولت اور جائداد تقویٰ کی منافی نہیں ہوگی اور نہ اس سے صالحیت متأثر ہوگی ؛ بلکہ اگر نیک جذبات دولت کے حصول اور کسب معاش میں کار فرماہوں تو یہ عین عبادت اور بڑے اجر وثواب کے مستحق ہوں گے ۔
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ
’’ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی گذرا ، صحابہؓ نے دیکھا کہ وہ رزق کے حصول میں بہت متحرک ہے اور پوری دلچسپی لے رہا ہے ، تو حضورﷺ سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! اگر اس کی یہ دوڑ دھوپ اور دلچسپی اللہ کی راہ میں ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا ، اس پر حضورﷺ نے فرمایا : اگر وہ اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لیے دوڑ دھوپ کررہا ہے تو یہ اللہ کی راہ ہی میں شمار ہوگی اور اگر بوڑھے والدین کی پرورش کے لیے کوشش کررہا ہے تو یہ بھی فی سبیل اللہ شمار ہوگی اور اگر اپنی ذات کے لیے کوشش کررہا ہے اور مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں ہاتھ پھیلانے سے بچارہے تو یہ کوشش بھی فی سبیل اللہ ہی شمار ہوگی ‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی ، حدیث نمبر : ۲۸۲ ،)
اللہ کا بندوں پر خاص کرم ہے کہ اس نے اخلاص کی اساس پر ان کی پوری زندگی کو عبادت قرار دیا ہے ، کھانا پینا ، سونا جاگنا ، چلنا پھرنا اور زندگی کی دوسری سرگرمیاں اگر اس نیت سے کی جائیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے ، اس کی تکمیل کے لیے جد و جہد کرنا ہمارا فریضہ ہے ، اگر چہ اس میں خالص ہمارا نفع ہے ؛ لیکن اسے عین عبادت اور عین ثواب قرار دیا جائے گا ، اس حدیث سے مال و دولت کے بارے میں مؤمنانہ نقطۂ نظر کا بھی علم ہوتا ہے کہ انسان مال و دولت حاصل کرے ؛ لیکن اخلاص اور صدق نیت سے اسے خدا تک پہنچنے کا وسیلہ بنایا جائے اور اس کے ذریعہ اللہ کی رضامندی حاصل کی جائے ، اسے اپنی منزل اور مقصود حیات نہ سمجھے ورنہ یہی دولت وبال جان بن جائے گی ۔
ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوے فرمایا کہ
’’ وہ ایک مرتبہ غسل کررہے تھے ، غسل کے دوران آسمان سے سونے کی تتلیوں کی بارش شروع ہوگئی ، حضرت ایوب علیہ السلام غسل چھوڑ کر ان تتلیوں کو جمع کرنے میں لگ گئے ، اس وقت خدا نے حضرت ایوب علیہ السلام سے پوچھا کہ اے ایوب ! کیا ہم نے تم کو پہلے ہی بے شمار نعمتیں نہیں دے رکھی ہیں ؟ تمہاری ضروریات کا ساری انتظام پہلے سے کررکھا ہے تو یہ حرص کیسا ؟ حضرت ایوب علیہ السلام نے جواب دیا : ’’لا غنی بی عن برکتک‘‘ یعنی یہ درست ہے کہ آپ نے میری کفالت کا مکمل انتظام کیا ہے ؛ لیکن آپ کی برکت سے میں بے نیاز نہیں ہوں ، یہ خلاف ادب ہے کہ آپ سونے چاندی کی تتلیوں کی شکل میں اپنا فضل نازل فرمائیں اور میں ہاتھ پر ہاتھ رہ کر اس سے بے نیازی کا اظہار کروں ‘‘ (صحیح البخاری ، حدیث نمبر : ۲۷۰)
معلوم ہوا کہ دولت کسی حرص کے بغیر حاصل ہو تو اسے لینے اور جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ؛ اس لیے کہ دنیوی ضروریات کی تکمیل اسی سے وابستہ ہے اور آخرت کا دنیا سے گہرا ربط ہے ، ایک کو دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ، ہاں مقصود اور مشن آخرت کو بنانا چاہیے ؛ اس لیے کہ وہی راحت اصل راحت ہے ، دنیا محض ایک واسطہ ہے ، جس کے سہارے جنت کے درجات طے کیے جاسکتے ہیں۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ان سے فرمایا :
’’ میرا ارادہ ہے کہ تم کو ایک لشکر کا امیر بناکر بھیجوں ، پھر تم اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحیح سالم لوٹو اور تم کو مال غنیمت حاصل ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو مال و دولت کا اچھا عطیہ ملے ، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے اسلام مال و دولت کے لیے قبول نہیں کیا ہے ؛ بلکہ میں نے اسلام کی رغبت و محبت کی وجہ سے اس کو قبول کیا ہے اوراس لیے کہ آپ کی رفاقت و معیت نصیب ہو ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’نِعْمَ المالُ الصالحُ للرجلِ الصالح‘‘ اے عمرو ! اللہ کے صالح بندہ کے لیے جائز وپاکیزہ مال و دولت اچھی چیز اور قابل قدر نعمت ہے ‘‘ (مسند احمد ، حدیث نمبر : ۱۷۷۹۸)۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ملک شام کے گورنر تھے ، یہ علاقہ بڑا زر خیز اور خوشحال تھا :
’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملک شام کے دورے پر ایک مرتبہ تشریف لے گئے ؛ تاکہ وہاں کے مسلمانوں کے دینی وخارجی احوال سے واقف ہوسکیں ، خلیفۃ المسلمین نے حضرت عبید بن جراح رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں آپ کا بھی گھر دیکھوں ، ملک شام کے گورنر مسلمانوں کے خلیفہ کو لے کر چلے ، شہر کے اندر سے گذرکر آباد کے ایک کنارے کھجور کے پتوں سے بناہوا ایک جھونپڑا دکھایا اور فرمایا امیر المؤمنین ! میں اس میں رہتاہوں ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوے تو اندر ایک مصلیٰ کے علاوہ کچھ بھی نہ پایا ، پوچھا کہ ابو عبیدہ ! یہاں تو کوئی ساز و سامان نہیں ہے ، یہاں کیسے رہتے ہو ؟ جواب دیا کہ یہ مصلیٰ ہے ، اس پر نماز پڑھ لیتاہوں اور رات کو اسی پر سوجاتا ہوں اور پھر ایک پیالہ نکالتے ہوئے کہا کہ اس میں میں کھانا کھاتا ہوں ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس میں پانی بھراہوا تھا اور سوکھی روٹی کے ٹکڑے بھیگے ہوے تھے ، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے مزید وضاحت کرتے ہوے کہا : امیر المؤمنین ! میں دن رات تو حکومت کے سرکاری کاموں میں مصروف رہتاہوں ، کھانے وغیرہ کے انتظام کرنے کی فرصت نہیں ہوتی ، ایک خاتون میرے لیے دو تین روٹی ایک وقت پکا دیتی ہے ، میں اس روٹی کو رکھ لیتاہوں اور جب وہ سوکھ جاتی ہے تو میں اس کو پانی میں ڈبودیتا ہوں اور رات کو سوتے وقت کھا لیتاہوں ، یہ روداد سن کر اور تواضع و سادگی دیکھ کر امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا : خدا کی قسم ! تم ویسے ہی ہو جیسے رسول اللہﷺ کے زمانے میں تھے ، اس دنیا نے تم پر کوئی اثر نہیں ڈالا ‘‘ (سیر اعلام النبلاء : ۱؍۷)۔
ملک شام میں دولت کی ریل پیل تھی ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ وہاں کے گورنر تھے ، پورے ملک پر ان کی حکومت تھی ، وہ جب اور جتنا چاہے مال و دولت جمع کرسکتے تھے ؛ لیکن دولت کے ڈھیر میں بھی رہ کر انھوں نے کبھی دنیوی آسائشوں کو ترجیح نہیں دی ، ان کی نظر آخرت کی راحت اور وہاں کی ابدی نعمتوں پر تھی ؛ اسی لیے وہ سادہ زندگی گذارکر دنیا سے رخصت ہوگئے؛ مگر کبھی دنیا نے ان کو آلودہ نہیں کیا ، ان ہی لوگوں کے بارے میں شاعر نے کہا ہے :
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں ٭ بازار سے گذرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
سارے مسلمانوں کو اپنے اندر یہی صفت پیدا کرنی چاہیے کہ دنیا اور مال و دولت اگر حاصل بھی کرے تو اس سے دل نہ لگائے ، اس میں مصروف ہونے کی وجہ سے اقامتِ دین کا فریضہ کوتاہی اور غفلت کا شکار نہ ہوجائے ، دین اور آخرت کی طرف دوڑ لگانے میں کہیں پیچھے نہ رہ جائیں ، بلا شبہ مال و دولت اللہ کی عظیم نعمت ہے؛ مگر اس کو ایک حدمیں رہتے ہوے استعمال کیجیے ، اسراف نہ کیجیے ، عمل کی طرف سبقت کیجیے اور یاد رکھیے کہ دولت جس طرح خدا کو دینا آتا ہے ، اسی طرح وہ چھیننا بھی جانتا ہے ، دولت پر اعتماد کرتے ہوے اگر رب کو فراموش کردیا گیا ، تواضع اور انکساری کے بجائے کبر و نخوت دماغ میں پیدار کرلی گئی تو پھر خدا کی گرفت سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچاسکتی ۔
——————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 2، جلد:103، جمادی الاول – جمادی الثانی 1440 مطابق فروری 2019ء
٭ ٭ ٭