بہ قلم: مولانا اشتیاق احمد قاسمی
مدرس دارالعلوم دیوبند
استاذ محترم حضرت اقدس مولانا مفتی محمدنظام الدین اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت پر اٹھارہ سال کا عرصہ گزر چکا، اب تک حضرت سے متعلق کچھ نہ لکھا، شروع شروع میں اس کی ایک وجہ تو یہ رہی کہ حضرت کا علمی رُعب میرے اوپر بہت زیادہ تھا، حضرت بڑے بڑے مفتیانِ کرام کی تحریروںپر معرکۃ الآراء سوالات کھڑے کردیتے تھے اور ہر ہر جملہ پررکتے اور سوچتے تھے، میں جب بھی لکھنے کا ارادہ کرتا تو ہمت ہار دیتا اور خیال ہوتا کہ خدایا حضرت سے متعلق کوئی بات لکھوں اور وہ میدانِ محشر میں حضرت کے سامنے ہو اور حضرت اس پر اعتراض کربیٹھیں تو میں کیا جواب دوںگا؟ کون سی بات لکھنی چاہیے؟ اور کون سی نہیں؟ اس کا بھی انتخاب کرنا مشکل تھا۔
چند دنوں سے جناب مولوی عبدالحنان اعظمی فاضلِ دارالعلوم دیوبند اصرار کررہے ہیں کہ حضرت سے متعلق آپ کو جو معلومات ہیں، لکھ کر مجھے دیجیے، حضرت کی سوانح لکھنے کا ارادہ ہے، عزیز کا اصرار اتنا بڑھا کہ مجھے ہمت ہوگئی اور میں نے ارادہ کیا کہ مجھے جو معلومات ہیں، میں انھیں لکھ لوں اور اللہ رب العزت سے غلطی کی معافی مانگ لوں کہ بار الٰہا! اگر اس میں کوئی بات ایسی لکھ گئی ہو جس سے حضرت کو ناراضی ہو تو اسے معاف فرما اور میدانِ محشر میں شرمندہ نہ فرما۔
حضرت مفتی صاحب کی شان ہی نرالی تھی، فقہ وفتاویٰ میں اُن کے علم کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل تھا، زندگی سنت کے مطابق تھی، طبیعت میں سلوک وتصوف کے آثار نمایاں تھے، حقوق کا لحاظ بہت رکھتے تھے، حافظہ قوی تھا، علوم کا ذخیرہ سینے میں محفوظ تھا، رخصت پر عزیمت کو ترجیح دیتے تھے۔ نہایت ہی کمزوری کے باوجود نماز کھڑے ہوکر پڑھتے تھے، مسجدِ قدیم میں جمعہ کے دن اندر اخیر صف میں داہنی طرف نماز پڑھ رہے تھے، میں دیکھ رہا تھا کہ سیدھے کھڑے ہوجارہے تھے پھر بدن ڈھیلا ہوتا چلا جاتا ، پھر اپنے کو سیکھا کرتے ایک منٹ کے بعد ہی جھکنے کے قریب ہوجاتے، میں سوچ رہا تھا کہ یا اللہ! قیام کی فرضیت کے شوق میں حضرت کس طرح بار بار ہمت کرکے بدن کو سیدھا کررہے ہیں فرشتوں کو بھی یہ ادا بڑی پیاری معلوم ہورہی ہوگی۔
بزرگوں سے بڑی مناسبت تھی، ان کے قصے سناتے رہتے تھے، ان کے پاس بیٹھ کر مجھے خوشبو محسوس ہوتی تھی، وہ خوشبو میں نے کسی عطر میں نہیں سونگھی، کسی کسی بات پر یکدم غصہ ہوجاتے پھر تھوڑی دیر بعد مسکرانے لگتے، ضعف ونقاہت تو تھی؛ مگر مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ حضرت کی اتنی جلدی وفات ہوجائے گی، زندگی معمول پر ہی تھی کہ اچانک داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ حضرت کا چھوٹے چھوٹے قدم سے چلنا اور جلدی جلدی بولنا یاد آتا ہے، اپنے گھر ایک ایک اینٹ کی یعنی ڈھائی تین انچ کی سیڑھی بنارکھی تھی، رکشتہ سے اترتے اور دیوار کے سہارے آہستہ آہستہ چڑھتے، نماز عموماً ’’طیب مسجد‘‘ میں آکر ادا کرتے تھے۔ حضرت الاستاذ مولانا قمرالدین صاحب مدظلہ کے ساتھ بیٹھ کر وہاں کچھ باتیں بھی کرتے تھے، طبیعت زاہدانہ تھی، بخل بالکل نہیں تھا، میں گورینی سے پڑھ کر آیا تھا وہاں حضرت شاہ وصی اللہ صاحب کے شاگردان اور خلفاء تھے (حضرت مفتی محمد حنیف صاحب اور حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب رحمہما اللہ تعالیٰ) جب دیوبند آیاتو یہاں حضرت کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ بھی وصی الٰہی رندوں میں سے ہیں، پھر جب ملاقات ہوئی تو اپنے اندر مناسبت دیکھی۔ اسی مناسبت کی وجہ سے میں نے درخواست کی کہ حضرت! میں حضرت اقدس مفتی محمودحسن صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے ’’رسم المفتی‘‘ کے ختم پر ساتھیوں کے ساتھ بیعت ہوا تھا، حضرت کی وفات کے بعد آپ سے مناسبت پاتا ہوں، تو حضرت نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے، اپنے احوال لکھ کر بتایا کرو‘‘؛ مگر چند دنوں بعد ہی حضرت کی رحلت ہوگئی، میں سلوک وتصوف سے متعلق استفادہ نہ کرسکا۔
سوانحی خاکہ
اسم گرامی: حضرت مولانا مفتی محمد نظام الدین اعظمی ابن جناب محمد رفیع الدین صاحبؒ
ولادت: ذی قعدہ ۱۳۲۸ھ مطابق نومبر ۱۹۱۰ء کو آپ کی ولادت اُندرا، سپاہ مدھوبن ، اعظم گڑھ (مئو) میں ہوئی، آپ کا سلسلۂ نسب مشہور فقیہ ومفسر ملا جیون جون پوریؒ تک پہنچتا ہے۔
تعلیم: ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے وطن میں ہی حاصل کی، پرائمری درجہ چار تک پڑھا تھا کہ دینی علوم حاصل کرنے کا ارادہ ہوا، خاندان انگریزی علوم کا دلدادہ تھا، لوگوں نے انگریزی علوم کی طرف راغب کیا؛ مگر دستِ قدرت نے اپنی طرف کھینچ لیا، خواب میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اور خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہما کی زیارت ہونے لگی، اس طرح علوم نبویہ کے حصول کی راہ ہموار ہوئی، پھر حضرت شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردی نصیب ہوئی اور انھیں کی ارادت میں شامل ہوگئے اور اخیرتک انھیں کی رہنمائی میں علوم وفنون کو پڑھا، پڑھایا اور فقہ وفتاویٰ سے مناسبت حاصل کی۔
تدریس: آپ نے فراغت کے بعد جامع العلوم جین پور، اعظم گڑھ میں تدریس وافادہ کا سلسلہ شروع فرمایا، وہاں پندرہ سال رہے، پھر گورکھپور (یوپی) کے مدرسہ جامع العلوم میں تشریف لے گئے وہاں تین سال رہے، پھر دارالعلوم مئو آئے اور وہاں پچیس سال درس و تدریس کے ساتھ فتویٰ نویسی کی خدمات انجام دیں، پھر حضرت حکیم الاسلام کی خواہش کا لحاظ کرتے ہوئے، مادرعلمی دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور پینتیس سال خدمت انجام دے کر راہی ملکِ عدم ہوگئے، آپ کی تدریسی وفتویٰ نویسی کی خدمات اٹھتر(۷۸) سال پر مشتمل ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کی ممبری
دارالعلوم دیوبند میں تدریس وافتاء کی خدمات میں جب حضرت کے اٹھارہ سال گزرگئے تو آپ کو ۱۴۰۳ھ میں رابطہ عالم اسلامی کے ’’مجمع فقہی‘‘ کا رکن مراسل بنایا گیا۔ اخیرتک آپ کا یہ رابطہ باقی رہا۔
خلیجی ممالک میں جاکر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ آپ سے ’’توصیہ‘‘ (تصدیق نامہ) لیتے تھے، آپ کی تصدیق کی بڑی اہمیت تھی، حضرت فرماتے تھے کہ طلبہ اگر حرمین شریفین جاتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے کہ روحانی مرکز سے کسبِ فیض کریں گے؛ لیکن جو طلبہ ان کے علاوہ دوسری جگہوں پر جاتے ہیں تو خوشی نہیں ہوتی کہ مقصد زراندوزی ہوتی ہے اور بس۔
تصانیف
حضرت مفتی صاحب کی تصانیف متنوع ہیں، فقہ وفتاویٰ سے متعلق بھی، احادیث وآیات سے متعلق بھی، علوم اٰلیہ میں صرف ونحو سے متعلق بھی اور بزرگوں کی زندگیوں اور اُن کے اخلاق وعادات اور کرامتوں پر بھی، ذیل میں چندتصانیف کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱- انوار السنۃ لِرُوَّادِ الجنہ المعروف بفتح الرحمان لإثبات مذہب النعمان:
یہ کتاب مخطوط تھی حضرت نے اس کو بڑے ہی اہتمام سے لکھوایا اور طبع کرایا، افتاء کے ہمارے ساتھیوں کو حضرت نے تحفے میں دی تھی، حنفی مسلک کے دلائل وشواہد اس میں بہت زیادہ ہیں۔
جو لوگ امام اعظم ابوحنیفہؒ کے مسلک کو آیات واحادیث سے دور سمجھتے ہیں، اُن کے لیے یہ بہت ہی اہم کتاب ہے، غیرمقلدین کے بڑھتے ہوئے فتنے کے دور میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
بازار میں اب یہ کتاب دستیاب نہیں ہے، حضرت کے ورثاء اگر اس کی طباعت واشاعت کی طرف توجہ دیں، یا کسی کو طباعت کے لیے دے دیں تو اس کی افادیت بہت بڑھے گی اور مؤلف کا مقصد پورا ہوگا، یہ کتاب معروف ہندوستانی محدث حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تصنیف ہے۔
۲- اقسام الحدیث
۳- اصول الحدیث
۴- آسان علم الصرف یعنی اردو میزان الصرف
۵- آسان علم النحو یعنی اردو نحومیر
۶- سراج الوارثین شرح سراجی
۷- مزایا امام اعظم
۸- کرامات حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ
اخیر اخیرمیں حضرت نے دو اور بھی چھوٹے چھوٹے کتابچے شائع فرمائے تھے یاد پڑتا ہے کہ ایک میں حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب کی کرامتیں اور اُن کے احوال تھے۔
ان کے علاوہ حضرت کے فتاویٰ میں بعض تفصیلی فتاویٰ رسالے کی شکل اختیار کرجاتے تھے، اگر ان کوالگ کرکے شائع کیا جائے تو بڑا مفید ثابت ہوگا۔
حضرت مفتی صاحب نے حضرت شاہ وصی اللہ صاحب سے فتویٰ نویسی کی تربیت حاصل کی
حضرت مفتی صاحب نے خود بیان فرمایا کہ میں مدرس ہوگیا، فتویٰ نویسی کی ذمہ داری بھی میرے ذمہ آئی تو میں نے حضرت سے کہا کہ میں تو فتویٰ لکھنا سیکھا ہی نہیں، کیسے یہ کام کروں تو حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ آپ ہفتے بھر آئے ہوئے سوالات کے جواب لکھاکریں اور جو مشکل ہو اس کو ہفتہ میں ایک بار لے آیا کریں اور یہاں آکر مشورہ کرلیں، حضرت نے ایسا ہی کرنا شروع کیا، ہفتہ میں ایک بار خدمت میں حاضر ہوتے اور مشکل مسائل حل ہوجاتے۔ حضرت نے مجھ سے بیان فرمایا کہ میں ڈاک لے کر حاضرِ خدمت ہوتا تھا اور حضرت شاہ صاحب کی مجلس میں بیٹھ جاتا تھا، حضرت کا بیان سنتا رہتا،اسی دوران میرے سوال کے جواب کی تقریر حضرت فرمادیتے تھے اور اکثر بلا پوچھے سوالات حل ہوجاتے اور میں واپس چلا آتا تھا۔
نئے مسائل کے حل میں عظیم مہارت
حضرت مفتی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے نئے مسائل کے حل میں بڑا درک عطا فرمایا تھا، کوئی بھی مسئلہ آتا اس کو فوراً حل فرماتے، استدلال میں برجستہ آیت، یا حدیث شریف تلاوت فرماتے اور نہایت ہی لطیف مضمون نکال لیتے تھے، جس سے وہ مسئلہ آسانی سے حل ہوجاتا، یعنی ’’اشارۃ النص‘‘ کی طرف ذہن بہت جلد سبقت کرتا تھا۔
کبھی کوئی قاعدہ برجستہ پڑھتے اس پر وہ جزئیہ متفرع ہوتا ہوا نظر آتا تھا۔ قواعد الفقہ پڑھاتے تھے؛ اس لیے بھی اصول وضوابط نوکِ زبان پر ہوتے تھے۔
دارالافتاء کے مفتیانِ کرام جس مسئلہ کے حل میں درماندہ ہوکر حضرت سے دریافت فرماتے، اس کا حل بڑی آسانی سے حضرت نکال دیتے تھے۔
راقم الحروف نے بار ہا حضرت مفتی کفیل الرحمن صاحب نشاطؔ عثمانیؒ نائب مفتی دارالعلوم دیوبند کو دیکھا کہ وہ تشریف لاتے اور حضرت سے استفتاء کا جواب پوچھتے اور جواب ملنے کے بعد اس کو اپنے قلم سے لکھتے اور حضرت سے فوراً ہی دستخط کروالیتے تھے۔
حضرت الاستاذ مفتی محمد طاہر غازی آبادی مدظلہٗ العالی صدرمفتی مظاہرعلوم سہارن پور جو اس زمانے میں نائب مفتی دارالعلوم دیوبند تھے، وہ بھی حضرت سے پوچھنے آتے تھے، حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی مدظلہٗ بھی آپ سے مشکل مسئلوں میں تبادلۂ خیال کے لیے آتے تھے۔
علم فرائض میں مہارت
حضرت کو ویسے تو کتبِ فقہ کے مسائل ازبر تھے ہی؛ مگر علم فرائض میں غیرمعمولی استحضار تھا، سراجی پڑھانے کا بارہا کا تجربہ تھا، اس کی شرح ’’سراج الوارثین‘‘ کے نام سے تحریر فرمائی تھی۔ جب کوئی مسئلہ فرائض سے متعلق ہوتا تو اس کو اور بھی توجہ سے دیکھتے۔
ایک بار حضرت اقدس مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مفتاحی مفتی دارالعلوم دیوبند نے ایک استفتاء دیا، اس میں فرائض سے متعلق مسئلہ پوچھا گیا تھا، ’’مناسخہ‘‘ کی تخریج تھی۔ میں نے اُسے لکھا اور حضرت مفتی صاحب کو دکھایا حضرت نے فرمایا: نیچے حضرت مفتی نظام الدین صاحب بیٹھے ہوئے ہیں، اُن سے دستخط کراکے لے آئو، میں پہنچا تو حضرت نے پہلے سوال پڑھوایا، پھر جواب سنا اور تخریج دیکھی اور ہر وارث کے سہام کے بارے میں سوالات شروع کیے، میں نے جواب دیے، تخریج سے متعلق قواعد پوچھے میں نے بتایا، سوال وجواب کا سلسلہ تقریباً آدھ گھنٹہ چلتا رہا، میں بھی ڈٹا رہا کہ چار بار سراجی پڑھ چکا تھا اور تقریباً دس بار طلبہ کو پڑھا چکا تھا، اب اس کی شرح لکھنے کی تیاری چل رہی تھی۔
حضرت بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں، فرمایا کہ میرے پاس سراجی سے متعلق سوالات میں لوگ کہیں نہ کہیںضرور پھنس جاتے ہیں؛ مگر تم کہیں نہیں پھنسے، میں تمہارا امتحان لے رہا تھا، پھر فتویٰ پر دستخط ثبت فرمائے، میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
فتویٰ پر دستخط کرنے میں احتیاط
حضرت کے پاس دارالافتاء سے مفتیان کرام کے لکھے ہوئے لفافے آتے تھے، حضرت ہر ایک لفافہ کے سوال اور جواب دونوں کو بالاستیعاب پڑھتے تھے، اطمینان کرکے دستخط کرتے تھے اور جس جواب میںکمی ہوتی یا شرحِ صدر نہیں ہوتا اس کو اپنے پاس رکھ لیتے اور جس مفتی صاحب کا لکھا ہوتا ان کو بلاتے اور حذف واضافہ کے بعد جاری فرماتے تھے۔
عام طور سے مفتیانِ کرام صرف جواب پڑھتے تھے اور ضرورت محسوس کرنے پر ہی سوال کی طرف نگاہ ڈالتے تھے؛ مگر حضرت مفتی صاحب ایساہرگز نہیںکرتے؛ اس لیے جس فتویٰ پر حضرت کے دستخط ثبت ہوجاتے بڑا اطمینان ہوتا تھا۔
فتویٰ میں انگریزی الفاظ کے استعمال میں احتیاط
حضرت مفتی صاحب فتویٰ نویسی میں انگریزی الفاظ کے استعمال میں حد درجہ احتیاط فرماتے تھے اور طلبہ کو فتویٰ نویسی کی تمرین کراتے ہوئے بھی اس کی نصیحت فرماتے تھے۔ میرے ایک رفیقِ درس کی انگریزی بڑی اچھی تھی، انھوں نے ایک فتویٰ میں انگریزی زبان کالفظ استعمال کیا، حضرت نے ادنیٰ خفگی کا اظہار فرمایا، کہنے لگے ’’بُزِ اخفش، بُزِ اخفش! کھاتا ہے اردو اور ہگتا ہے انگریزی‘‘، اس پر ساتھیوں کو ہنسی آگئی۔
’’بزاخفش‘‘، حضرت مفتی صاحب کا تکیۂ کلام تھا، میرے رفیقِ درس نے دوبارہ اس کو اچھی اردو میں لکھا؛ بلکہ ڈرکے مارے قدرے قدیم ساخت کو اپنایا، پھر سنایا، تو حضرت خوش ہوگئے۔
’’فتاویٰ نظامیہ اُندراویہ‘‘ کی وجہ تسمیہ
حضرت مفتی صاحب حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید تھے اور اُن کے عاشقِ زار بھی، ایک بار کسی نے فتاویٰ کی وجہ تسمیہ پوچھی تو حضرت نے فرمایا کہ حضرت الاستاذ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ مجھ سے محبت فرمایا کرتے تھے اور مجھے میرے گائوں کی طرف نسبت کرکے ’’اوندراوی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، تو میں نے اُن کی یاد میں اپنے فتاویٰ کے مجموعے کا نام یہی رکھا۔
یہاں پر یہ وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ حضرت کے فتاویٰ ایک بار ’’منتخبات نظام الفتاویٰ‘‘ کے نام سے شائع ہوئے، اسی مطبوعہ نسخے کو ’’فقہ اکیڈمی دہلی‘‘ نے دوبارہ تحقیق کے ساتھ شائع کیا، حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ حضرت کے بڑے مداح اور شاگردوں میں تھے، انھوں نے اکیڈمی سے طباعت کی پیش کش فرمائی تو حضرت نے اجازت دے دی، اس سے پہلے وہ لیتھو پر چھپے تھے۔
اس کے بعد ’’فتاویٰ نظامیہ اوندراویہ‘‘ کے نام سے فتاویٰ چھپے، پھر حضرت کے صاحب زادوں نے ’’نظام الفتاویٰ‘‘ کے نام سے کئی جلدیں چھاپیں، اب شاید اس کا سلسلہ موقوف ہوگیا ہے۔
’’قواعد الفقہ‘‘ پڑھنے کا شرف
دارالافتاء میں داخلے کے بعد حضرت مفتی صاحب کے پاس ہم لوگوں کو’’قواعد الفقہ‘‘ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، حضرت کی آواز پست تھی اور نقاہت کی وجہ سے دور بیٹھے طلبہ سن نہیں پاتے تھے، بہت دھیان سے سبق پڑھنا پڑتا تھا، ایک بار ساتھیوں نے حضرت کے پاس سے قواعد الفقہ کے منتقل کرنے کی درخواست دینے کا ارادہ کیا، جب یہ بات میرے پاس آئی تو میں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ دورئہ حدیث سے فارغ ہونے کا مطلب میں نے یہ سنا ہے کہ ساری کتابیں حل کرنے کی استعداد حاصل ہوجاتی ہے، اگر ہم لوگوں کے اندر قواعد الفقہ حل کرنے کی استعداد نہیں ہے تو افسوس ہے اور اگر ایک کتاب تبرک کے طور پر پڑھ لی جائے تو کیا حرج ہے؟ اور میں قریب بیٹھتاہوں مجھے حضرت کی بات سمجھ میں آتی ہے؛ اس لیے میں اس مہم میںآپ لوگوں کا ساتھ نہیں دوںگا، چوںکہ دورئہ حدیث شریف میں میری پوزیشن آئی تھی؛ شاید اسی لیے ساتھیوں نے خاموشی اختیار کرلی کہ اس نے مخالفت کی تو درخواست منظور نہیں ہوگی۔
’’تدریب افتاء‘‘ میں استفادہ
اللہ تعالیٰ نے مزید دوسال کے لیے حضرت سے استفادے کا موقع عنایت فرمایا، اور تدریب فی الافتاء میں داخلہ منظور ہوگیا، اب کیا تھا کہ حضرت کے ساتھ بالکل آزادی کے ساتھ رہتا، اُن سے سوالات کرتا، اُن کے مزاج مذاق اور طرز واسلوب کو بہ غور دیکھتا۔ دارالافتاء میں آئے ہوئے سوالات کے جواب لکھ کر خدمت میں پیش کرتا، حضرت کا رسم الخط ہاتھ میں رعشہ کی وجہ سے صاف نہیں تھا؛ اس لیے اس کے صاف کرنے کا حسین موقع بھی نصیب ہوتا۔
رسم الخط کے صاف نہ ہونے کی وجہ سے دارالعلوم نے آپ کو فتویٰ نویسی سے مستثنیٰ کردیا تھا، آپ صرف لکھے ہوئے فتاویٰ کو بہ غور دیکھتے اور دستخط فرمادیتے تھے۔
رکشہ سے گھر تک پہنچانے کی سعادت
عام طور سے چوتھے گھنٹے کے بعد حضرت کے پاس ہی بیٹھا رہتا تھا، کبھی تھوڑی دیر پہلے ہی گھر جانے کا ارادہ فرماتے، میں رکشہ لے کر حاضر ہوجاتا اور رکشہ والے کو حضرت دو روپے عنایت فرماتے تھے جب کہ ’’مسجد قدیم‘‘ سے ’’طیب مسجد‘‘ تک ہی جاتے تھے، اس وقت ریلوے اسٹیشن کا کرایہ دو روپے تھا۔
ہارٹ کی ٹکیہ
ایک بار دیکھا کہ حضرت نے اپنی جیب سے ایک ڈبیہ نکالی، اس میں چھوٹی چھوٹی گولیاں تھیں، حضرت نے ایک گولی زبان کے نیچے دبالی، میں نے کہا: حضرت یہ چھوٹی سی گولی کس مرض کی دوا ہے؟ فرمایا: قلب کی دوا ہے، مجھے دوبار ہارٹ اٹیک ہوچکا ہے، جب کبھی ادنیٰ سی پریشانی محسوس ہوتی ہے، اس میں سے ایک گولی کھالیتا ہوں، میں نے کہا: حضرت اگر کسی کو قلب کی بیماری نہ ہو اور وہ کھالے تو کیا ہوگا؟ حضرت نے ہنس کر فرمایا: پھر بیماری ہوجائے گی۔
خاتمہ بالخیر کی دعا کی درخواست
حضرت کے پاس تین سال رہنے کا اتفاق ہوا، آپ سے جب بھی کوئی ملتا تو رخصت ہوتے وقت اپنے لیے حسنِ خاتمہ کی دعا کی درخواست فرماتے تھے اور یہ درخواست نہایت ہی عاجزی سے کرتے تھے، ایسا لگتا تھا کہ چند دن کے مہمان ہیں، ضعف ونقاہت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔
ایاز مئوی سے معافی کی درخواست
حضرت مفتی صاحب خارج میں بعض طلبہ کو کوئی کتاب پڑھاتے تھے یا فتویٰ نویسی کی تمرین بھی کراتے تھے، انھیں میں بھائی ایاز تھے، یہ مئو کے رہنے والے تھے، ان کو ’’رسم المفتی‘‘ پڑھانے کا حضرت نے وعدہ کرلیا تھا اور دوسری کتابیں پڑھاتے تھے، ایاز بھائی حضرت کی تحریر صاف کرنے کی خدمت بھی انجام دیتے تھے۔
وفات کے بعد ایاز بھائی سے ملاقات ہوئی انھوں نے نہایت غمگین لہجے میں کہا کہ حضرت کی وفات کے وقت میں قریب میںہی تھا، حضرت کھانا کھاتے ہوئے مجھے کہنے لگے: ’’ایاز اگر میری وفات ہوگئی اور میں تم کو ’’رسم المفتی‘‘ نہیں پڑھا سکا تو مجھے معاف کردینا‘‘۔
تھوڑی دیر کے بعد ہی سینے میں درد محسوس ہوا اور قبلہ کی طرف رخ کرانے کو کہا اور یٰسین شریف پڑھنے کو کہا، تھوڑی ہی دیر میں وفات ہوگئی۔
اور مسجد قدیم کے مینارے سے آواز آئی، نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ حضرت اقدس مفتی نظام الدین صاحب اعظمی، مفتی دارالعلوم دیوبند کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس اعلان نے ہر محبت رکھنے والے کو رنج و غم میں ڈبوکر لرزہ براندام کردیا۔
غیرمحرم سے حد درجہ احتیاط
ایک دن ’’طیب مسجد‘‘ کے پاس اپنے مکان کے قریب رکشہ سے اتر رہے تھے، میں حضرت کو سہارا دے رہا تھا کہ ایک نقاب پوش بوڑھی عورت وہاں سے گزری حضرت کو اندیشہ ہوا کہ کہیں جسم چھو نہ جائے؛ حالاںکہ قدرے دور تھے، حضرت مفتی صاحب اس طرح سے ہٹے جیسے دہکتی آگ سے آدمی بچتا ہے اور بہ مشکل تمام گرنے سے بچے، اللہ اکبر! یہ دیکھ کر میں نے سبق لیا کہ ہر مؤمن کو گناہ سے ایساہی بچنا چاہیے جیسے حضرت بچ رہے ہیں؛ حالاںکہ عمر نوے سال سے آگے گزررہی تھی۔ شہوات کا وہاں پر کیا گزر؟ اللہ تعالیٰ ہمیں اُن کی اتباع نصیب فرمائیں۔
فقیر کے پاس آنے کے لیے وقت نہیں لیا جاتا
حضرت الاستاذ مولانا اکرام اللہ صاحب فیض آبادی رحمۃ اللہ علیہ استاذ مدرسہ ریاض العلوم گورینی، جون پور (یوپی) ہرسال دیوبند آتے تھے اور صرف حضرت مفتی نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ملنے کے لیے، فرماتے تھے کہ میرے ایک ہی استاذ صاحب باحیات ہیں، میں نے مئو میں حضرت سے پڑھا ہے۔
جب وہ دیوبند آئے تو مجھے بڑے خوشی ہوئی اور حضرت مفتی صاحب سے ملنے کا ارادہ فرمایا تو میں نے مناسب سمجھا کہ پہلے حضرت مفتی صاحب کو اطلاع کردوں تو بہتر رہے گا۔ میں مولانا کو اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ چھوڑ کر جلدی سے حضرت مفتی صاحب کے گھر پہنچا اور بتایا کہ حضرت الاستاذ تشریف لانا چاہ رہے ہیں۔ بس اتنا کہنا تھا کہ حضرت مفتی صاحب ناراض ہوگئے اور مجھ کو ڈانٹا اور فرمایا کہ فقیر کے پاس آنے کے لیے اجازت نہیں لی جاتی ، یہ تو بادشاہوں کا طریقہ ہے، جائو اکرام اللہ سے کہہ دو کہ نہ آئے۔ اب میں بڑا شرمندہ ہوا، میں نے فوراً معذرت کی کہ حضرت میں اپنی مرضی سے آیا ہوں، انھوں نے مجھے وقت لینے کے لیے نہیں بھیجا ہے۔ اتنا سنتے ہی حضرت نرم ہوگئے اور فرمایا: ٹھیک ہے، آنے دو۔ تھوڑی ہی دیر بعد حضرت الاستاذ ملاقات کے لیے پہنچے اور نہایت ہی نیازمندانہ پیش آئے، استاذ کے سامنے شاگرد کی تواضع اور فروتنی دیکھنے کی تھی۔
دفتر تعلیمات سے رقم لانے کا حکم
دارالعلوم دیوبند میں امتحانات کے سوالات تیار کرنے اور کاپیاں جانچنے کا معاوضہ ملتا ہے، سالانہ امتحان کے موقع سے حضرت نے سوالات بنائے تھے اور کاپیاں چیک کی تھیں، مجھ سے فرمایاکہ تعلیمات جاکر میرے پیسے لے آئو، میں منشی سید محمد اسعد ہاشمی صاحب کے پاس گیا، اُن کو زیادہ مصروفیت تھی، پھر دوبارہ گیا تو انھوںنے بتایا کہ ان شاء اللہ ہفتہ کو لے جانا؛ لیکن ابھی ہفتہ آیا نہیں تھا کہ حضرت رحلت فرماگئے، میں منشی جی سے ملا اور پوچھا کہ اب کیاکروں؟ تو انھوں نے کہا کہ آپ مطمئن رہیں، حضرت کا حساب تیار ہوگا تو اس میں یہ شامل ہوکر ان کے ورثاء کو مل جائے گا، تو مجھے اطمینان ہوگیا۔
دارالعلوم دیوبند کا مکان چھوڑنے کی وصیت
حضرت نے ایک بار ارشاد فرمایا: کہ لوگوں نے دارالعلوم دیوبند کے مکان پر قبضہ کررکھا ہے، ملازم کی وفات کے بعد اس کے پس ماندگان مکان خالی نہیں کرتے ہیں، میں نے اپنے بچوں کو وصیت کردی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا مکان میری وفات کے بعد خالی کردیں۔
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 7، جلد:102، شوال- ذیقعدہ ۱۴۳۹ھ مطابق جولائی ۲۰۱۸ء
٭ ٭ ٭