حرفِ آغاز
مولانا محمد سلمان بجنوری
موجودہ وقت میں مسلمانوں کے لیے جس قدر سنگین یہ مسئلہ ہے کہ وہ ہر سطح پر اور ہر علاقہ میں مشکلات کا شکار ہیں اسی قدر؛ بلکہ اس سے بڑھ کر خطرناک، وہ صورتِ حال ہے جو مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی مذموم مساعی کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے؛ بلکہ درحقیقت پہلا مسئلہ بڑی حد تک اسی صورتِ حال کا نتیجہ اور اس کا شاخسانہ ہے۔ یہ واضح کرنے کے لیے کسی دلیل وحجت کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ صورتِ حال کن طاقتوں کی پیدا کردہ ہے۔
حالات پر سرسری نظر رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ تازہ صورتِ حال، جن واقعات وحادثات کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، ان کا واضح طور پر آغاز، اکیسویں صدی عیسوی کے پہلے سال ۲۰۰۱/ میں پیش آنے والے نائن الیون کے حادثہ سے ہوا ہے، جس سے بڑھ کر مسلمانوں کے لیے مضرثابت ہونے والا کوئی دوسرا واقعہ گذشتہ چوتھائی صدی میں پیش نہیں آیا۔ اس سے قطع نظرکہ اس واقعہ اصلی ذمہ دار کون ہے اور اس کے پس پشت کن لوگوں کا کردار ہے، اس سے زیادہ مسلمانوں کے لیے نقصان دہ اور امریکہ ومغربی طاقتوں اور صہیونیت کے لیے فائدہ مند کوئی دوسرا واقعہ ملنامشکل ہے۔ اس واقعہ کے بعد ہی اسلام دشمن طاقتیں اپنی اس خواہش کو پورا کرنے میں کامیاب ہوسکیں کہ مسلمانوں کو برملا دہشت گرد کہیں، اسلام کو دہشت گردی کامنبع قرار دیں اور ہربرائی کا انتساب مسلمانوں کی جانب کردیا کریں۔
اور اس کے بعد تو پھر بہت کچھ ہوا، کتنے ہی اسلامی ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، کتنی قانونی حکومتوں کا تختہ الٹاگیا، کتنی سازشیں بروئے کارلاکر مسلمانوں اور ان کے ممالک کو طرح طرح کے معاہدوں کا پابند کیاگیا اور اس طرح ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے اور کس کس طریقہ سے عالم اسلام کو میدان جنگ بناکر اپنے اسلحہ کی کھپت کا انتظام کیاگیا۔ مسلم ممالک کے حصے بخرے کیے گئے یا اس کی کوشش کی گئی اس احتیاط کے ساتھ کہ اس سے مسلمانوں کے کسی فریق کا کوئی مسئلہ حل نہ ہوجائے۔ مسلمانوں کی دینی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی دینی تعلیم پر قدغن لگانے کے انوکھے طریقے ایجاد کیے گئے اور آزمائے گئے۔
پھر عالم اسلام سے باہر، وطن عزیز جیسے ملکوں کے حالات پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی دہشت گردی کا استعمال دودھاری تلوار کے طور پر کیاگیا،نقصان بھی مسلمانوں کا اور مجرم بھی وہی قرار دیے گئے۔ ان کے لیے مذہبی آزادی کی ضمانت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئیں، تین طلاق کی آڑ میں مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کا کام کیاگیا، لَوْ جہاد کا پروپیگنڈہ کرکے مسلمانوں کو بدنام کیاگیا اور مسلمانوں کو عام برادران وطن کی نظر میں ظالم، وحشی، غیرمتمدن، غیرتعلیم یافتہ، دیانت وامانت سے عاری اور جرائم کا عادی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کا عمل عالمی اور ملکی سطح پر، منصوبہ بند طریقہ سے کیاگیا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمان ہر سطح پر اپنے آپ کو اجنبی اور غیرمحفوظ محسوس کررہے ہیں۔
اس صورت حال میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو بیٹھا نہیں جاسکتا، لازمی طور پر سوچنا ہوگا کہ اس ماحول کو کس طرح بدلاجاسکتا ہے؟ ذیل کی سطور میں اسی سوال کے جواب میں چند باتیں اختصار کے ساتھ عرض کی جارہی ہیں۔
(۱) مسلمانوں کی شبیہ، اقوامِ عالم کی نظر میں بہتر بنانے کا یہ کام خود مسلمانوں ہی کو کرنا ہوگا، کوئی دوسرا یہ کام نہیں کرے گا۔
(۲) شبیہ بگاڑنے والی باتوں کا تجزیہ کرنا ہوگا، اس لیے کہ ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈہ کی مہم چلانے والے، چاہے جس قدر عناد پرور اور بدنیت ہوں؛ لیکن بہت سے معاملات میں ان کو یہ موقع خود ہمارا کردار فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ بیشتر اُن کا پروپیگنڈہ اتہامات پر مبنی ہوتا ہے۔
(۳) پروپیگنڈہ اپنا ایک اثر رکھتا ہے، ہم اگر اپنے طور پر یہ سمجھ کر مطمئن بیٹھے رہیں کہ ہم تو اپنی جگہ صحیح ہیں، ہمارے خلاف یہ تمام باتیں سچی نہیں ہیں، لہٰذا یہ چل نہیں پائیں گی اور دنیا ان کا یقین نہیں کرے گی، تو ایسا سمجھنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ خاص طور پر اس لیے کہ دنیا میں آپسی ربط وتعلق اور واقفیت واطلاع کے ذرائع کی کثرت کے باوجود آج بھی مختلف افراد واقوام میں ایک دوسرے سے ناواقفیت بھرپور طریقہ پر پائی جاتی ہے، اس لیے ایسے اذہان پر، اس منفی پروپیگنڈہ کا اثر پڑنا قدرتی اور لازمی ہے۔
(۴) اس صورت حال کے اسباب میں ایک اہم سبب ہمارا اپنے خول میں بند رہنا اور دیگر اقوام سے کنارہ کش رہنا بھی ہے۔ اس پر خاص طور سے توجہ کی ضرورت ہے۔
(۵) ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈہ پوری دنیا میں اس وقت بڑی حد تک ماحول کو خراب کرچکا ہے اور بدگمانیاں، سنگین نوعیت اختیار کرگئی ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس نے دشمن طاقتوں کے کام کو آسان کردیا ہے۔
لہٰذا!ہمیں فوری طور پرکچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔
(۱) سب سے پہلے اپنے کردار پر نظر ڈال کراس کی اصلاح کا کام ہے، ایک مسلمان کاکردار اتنا صاف ستھرا اور شفاف ہونا چاہیے کہ کم از کم اس کو جاننے والا دوسرا آدمی اس کے خلاف کسی پروپیگنڈے کا اثر آسانی سے قبول نہ کرے، ورنہ ہمارے کردار کا جھول، اُس پروپیگنڈے کے لیے راستہ ہموار کرتاہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ جن معاملات میں لوجہاد کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اُن میں جہاد کا لفظ جوڑنا، بھلے ہی مخالفوں کی سازش ہے اور یقینا ہے؛ لیکن دوسرا جزء یعنی ایک غیرمذہب کی لڑکی سے مسلمان کی دوستی تو ایک امر واقعہ ہوتی ہے؛ جب کہ نامحرم سے تعلق اگر وہ مسلمان ہو تب بھی جائز نہیں ہے۔ اب اگر ایسے معاملات میں وہ لڑکی مسلمان بھی ہوجائے تو اس سے اسلام اور مسلمانوں کا کیا فائدہ ہوتا ہے، خصوصاً اس بنیاد پر کہ اس کے اسلام کا محرک تلاش ہدایت نہیں؛ بلکہ ایک نفسانی جذبہ ہے اور اس کے نتیجے میں دشمنوں کو پروپیگنڈہ کا موقع مل جاتا ہے۔
اسی طرح بہت سے دیگر ذاتی معاملات کا حال ہے، جن میں ہم اپنے کردار سے ہٹے ہوئے ہیں اور صداقت، عدالت اور شجاعت کا وہ سبق بھولے ہوئے ہیں جس کی بنیاد پر دنیا کی امامت کاکام لیا جاتا ہے۔
اصلاح کا یہ باب ایسا ہے جس میں عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام علماء وقائدین اور مشائخ ومصلحین کوشدید محنت کی ضرورت ہے۔
(۲) بہت سنجیدگی کے ساتھ اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ اس صورت حال میں بنیادی کردار، آپسی رابطہ کی کمی اور ایک دوسرے سے ناواقفیت کا ہے۔ ہم تویہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اسلام اور مسلمان ساڑھے چودہ سو سال سے موجود ہیں اوراسلام ساری دنیا میں متعارف ہے؛ لہٰذا اس دنیا کا ہر آدمی ہمیں بھی جانتا ہے اور اسلام کی خوبیوں سے بھی واقف ہے؛ جب کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں دیگر مذاہب کے ماننے والے عام آدمی کو اسلام کے بار ے میں بالکل ابتدائی اور بنیادی باتیں بھی معلوم نہیں ہیں۔ ایک بڑی تعداد تواسلام کے نام سے بھی واقف نہیں ہے، چہ جائے کہ محاسنِ اسلام سے واقف ہو۔ ایسے لوگوں کے سامنے اسلام کا تعارف اُسی منفی پروپیگنڈے سے ہوتا ہے جس کا مقصد اسلام کا تعارف نہیں؛ بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنا ہے اور جہاں تک ذاتی طور پر ہماری بات ہے تو واقعہ یہ ہے کہ ہمیں تو آج ہمارا وہ پڑوسی بھی نہیں جانتا جو ہمارا ہم مذہب نہیں ہے اور اس سے ہمارا کوئی کاروباری واسطہ نہیں ہے۔ ہمیں تو ہمارا وہ رفیق سفر بھی نہیں جانتا جس کے ساتھ ٹرین میں بیٹھ کر ہم نے سفر کیاہے۔ ہم پورے طور پر ایک دوسرے سے اجنبی اور نا آشنا رہتے ہیں، ہم یا تو اپنے تئیں احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں یا احساس برتری کا۔ بہرحال یہ واقعہ اسی طرح ہے کہ ہمارے درمیان اجنبیت کی ایک دیوار حائل ہے۔
ہمیں اس دیوار کو توڑنا ہوگا اور اپنے مکمل دین کی حفاظت کرتے ہوئے دینی تقاضے ہی کے تحت دیگر اقوام سے رابطہ اور تبادلہٴ خیال کا دروازہ کھولنا ہوگا۔ ہر سطح پر اسلام کا تعارف پیش کرنا ہوگا اور ذاتی کردار کو اس بلندی پر لے جانا ہوگا کہ ہمیں برتنے والا دوسرا آدمی ہمارے کردار کا گرویدہ ہوجائے؛ جیساکہ صحابہٴ کرام کے ساتھ ہر جگہ اور ہر علاقہ میں ہوا اور اُن کے نقش قدم پر چلنے والوں کے ساتھ ہردور میں ہوا یہاں تک کہ چودھویں صدی کے دورزوال میں بھی اس کی مثالیں سامنے آتی رہیں کہ ایک شخصیت (شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہ) کے ساتھ چنددن جیل کی ایک بیرک میں رہ کر دوسری بیرک میں منتقل ہونے والا غیرمسلم شخص اپنے منتقل ہونے کی وجہ یہ بیان کرے کہ مولانا! آپ کا اخلاق وکردار اتنا بلند ہے کہ اگر میں چند دن مزید آپ کے ساتھ رہ گیا تو مجھے مسلمان ہونا پڑے گا۔
(۳) کچھ معاملات وہ ہیں جن میں صورتِ حال کی خرابی، یک طرفہ طور پر، مخالفین کے پروپیگنڈے ہی کا نتیجہ ہے، مثلاً دہشت گردی کا مسئلہ جس کی سنگینی آج بھی کم نہیں ہوئی ہے، گو ہمارے ملک میں انفرادی طور پر بہت سے مسلمان، عدالتوں کی نظر میں بے قصور قرار پائے ہیں اور اس کی وجہ سے بعض لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اب اس مسئلہ کی سنگینی باقی نہیں رہی یا یہ الزام دم توڑچکا ہے؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ صورت حال کا صحیح تجزیہ نہیں ہے۔ درحقیقت دہشت گردی کے لفظ کو مسلمانوں کے ساتھ اس طرح چسپاں کردیاگیاہے کہ وہ کسی طرح چھوٹنے کا نام نہیں لیتا؛ بلکہ اب تو مسلم ممالک کی حکومتوں کو دہشت گردی کی سرپرستی کا مجرم قرار دیا جارہا ہے اور اس سے طرح طرح کے فائدے حاصل کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرنا، یا اسلام کی فطری تعلیمات کو موجودہ دور کے خدابیزار انسان کی خواہشات کے معارض ہونے کی وجہ سے بدنام کرنا، یہ سارے سلسلے جاری ہیں۔ اس لیے اس حوالہ سے مطمئن ہوکر نہیں بیٹھا جاسکتا؛ بلکہ اس سلسلے میں پیہم کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہر سطح پر مذاکرات اور گفتگو اور سب سے بڑھ کر تحریری کام پر توجہ دی جائے اور اسلام کی شفاف تعلیمات کی حقانیت اور فطرت کی موافقت کو واضح کیا جائے۔
(۴)ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ یہ کام کسی خوف یا لالچ کی نفسیات کے تحت نہیں؛ بلکہ دعوت کے بلند جذبے کے ساتھ کرنا ہوگا کہ اسی طرح یہ مفید ہوسکتا ہے ورنہ اپنی ذات کا دفاع، قوموں کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ہمیں یہ کام اس جذبہ کے ساتھ کرنا ہوگا کہ انسانیت کی سب سے بڑی امانت ہمارے پاس ہے جسے اس کے مستحقین تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔
یہ سطور اس موضوع کا احاطہ تو نہیں کرتیں؛ لیکن اس سلسلے کے چندبنیادی نکات کی طرف اشارہ ضرور کرتی ہیں۔ اس لیے کام کرنے والے تمام طبقات کو ان پر توجہ فرمانی چاہیے۔ ورنہ ہماری غفلت حالات کو مزید سنگین بنادے گی۔
کہیں اڑکر نہ دامانِ حرم کو بھی یہ چھو آئے
غبارِ کفر کی یہ بے محابا شوخیاں کب تک
* * *
————————————————-
ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ: 11، جلد:101، صفر -ربیع الاول 1439ہجری مطابق نومبر 2017ء